الاثنين، 23 ديسمبر 2013

تربیت اولاد سے متعلق کچھ باتیں


بسم اللہ الرحمن الرحیم
تربیت اولاد سے متعلق کچھ باتیں
از: عبدالہادی عبدالخالق مدنی ، داعی احساء اسلامک سینٹر ہفوف، مملکت سعودی عرب
            اللہ تعالی کی بے شمار نعمتوں، نوازشوں اور احسانات میں سے ایک عظیم نعمت اولاد اور بچے ہیں ۔اس نعمت کی قدر ذرا ان لوگوں سے پوچھ کر دیکھئے جو اس سے محروم ہیں۔ وہ اسے حاصل کرنے کے لئے اپنا کتنا قیمتی وقت اور کتنی دولت ومحنت صرف کرچکے ہیں اور ابھی مزید خرچ کرنے کے لئے تیار ہیں ۔
            اولاد اللہ تعالی کی امانت ہیں ۔ قیامت کے دن والدین سے ان کے بارے میں باز پرس ہوگی ۔آیا انھوں نے اس ذمہ داری کو محسوس کرکے اس امانت کی حفاظت کی تھی یا اسے برباد کردیا تھا ۔
            یہی اولاد جو ہمارے لئے زینت ہیں اگر دین اسلام پر ان کی تعلیم و تربیت نہ کی جائے اور انھیں اچھے اخلاق نہ سکھائے جائیں تو یہ رونق وجمال بننے کے بجائے دنیا وآخرت میں وبال بن جاتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :  «كُلُّكُمْ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، فَالإِمَامُ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالرَّجُلُ فِي أَهْلِهِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ». ''تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں بازپرس ہوگی ۔ حاکم ذمہ دار ہے اوراپنی رعایا کے بارے میں اس سے پوچھا جائے گا۔ مرد اپنے گھر کا ذمہ دار ہے ، اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا''([1]
            یہ امانت ایک عظیم ذمہ داری ہے جس میں کوتاہی کرنے یا ضائع کرنے سے اللہ تعالی نے خبردار فرمایا ہے ۔ارشاد باری ہے : {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ} [التحريم: 6] ( اے ایمان والو ! اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں )۔
             اپنے بچوں کی مفید دینی تعلیم وتربیت کے بارے میں غفلت ولاپرواہی برتنے والے اور انھیں بے مقصد چھوڑ دینے والے والدین انتہائی برے انجام سے دوچار ہوتے ہیں۔کیونکہ اکثر اولاد اسی طرح خراب ہوتی اور بگڑتی ہے ۔ لوگ انھیں بچپن میں دین کے فرائض واحکام اور سنن وواجبات نہیں سکھاتے چنانچہ وہ بڑے ہوکر خود بھی کسی لائق نہیں رہتے اور اپنے والدین کو بھی کسی طرح کا فائدہ نہیں پہنچاسکتے بلکہ ان کے لئے الٹا دردِ سر بن جاتے ہیں ۔
            قابل مبارکباد اور لائق ستائش ہیں وہ والدین جو اپنے قیمتی اوقات میں سے کچھ وقت اپنے بچوں کی اصلاح وتربیت پر صرف کرتے ہیں۔ اپنے بچوں کی اسلام سے بھرپور وابستگی کی خاطر اپنے گھروں میں قرآن و حدیث اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑھنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ ان کے درمیان حفظ قرآن کے مقابلے نیز دیگر اسلامی ، ثقافتی اور تعلىمی مقابلے رکھتے اور عمدہ کارکردگی کی صورت میں ان کی حوصلہ افزائی کرتے اور انھیں قیمتی انعامات سے نوازتے ہیں ۔
            جو بدنصیب والدین اپنے بچوں کی تربیت میں کوتاہی کررہے ہیں بعد میں انھیں اپنی اس سنگین غلطی کا احساس ہوگا لیکن اس وقت ندامت اور پچھتاوے کا کوئی حاصل نہ ہوگالہٰذا ابھی سے انھیں ہوش کے ناخن لینا چاہئے اور اپنے بچوں کے روشن اور تابناک مستقبل کے لئے ہمہ تن لگ جانا چاہئے ۔اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو صالح اولاد عطا فرمائے اور انھیں اپنے والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے۔آمین
            آئندہ سطروں میں تربیت اولاد سے متعلق کچھ باتیں ذکر کی جارہی ہیں  تاکہ اس ضمن میں ان سے فائدہ اٹھایاجاسکے۔
            1۔ اولاد کی تربیت میں سب سے اہم اور قابل لحاظ نکتہ یہ ہے کہ ان کے دلوں میں اللہ کی توحید اور فقط اسی کی عبادت و بندگی کا شعور پیدا کرنا چاہئے جو انسانی زندگی کا اصل مقصد ہے ۔ یوں تو ہربچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس فطرت کو انحراف اور ضلالت سے بچانے پر توجہ دینے اور اس کی مستقل نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے ۔
            2۔ اللہ کی تعظیم، اس کی محبت اور اس کے احسانات کے تئیں شکر کے جذبات، نیز اس کا خوف  اور اس سے امیدیں  اپنے بچوں کے دلوں میں موجزن کرنا چاہئے۔ انھیں صحیح عقیدہ کی تعلیم دینا چاہئے نیز عقیدہ کی غلطیوں پر ٹوک کر ان کی اصلاح کرنی  چاہئے، شرک وکفر اور بدعات ومعصیت سے ان کے دلوں میں نفرت وکراہت پیدا کرنی چاہئے نیز امربالمعروف اور نہی عن المنکرکی ترغیب دیتے ہوئے اس کی عادت ڈالنی چاہئے ۔ اس طرح انھیں دین پر استقامت نصیب ہوگی۔ اس سلسلہ میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث ہمارے لئے مشعل راہ ہے جس میں آپ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھے کہ آپ نے ان سے مخاطب ہوکے فرمایا: «اے بچے! میں تجھے چند کلمات کی تعلیم دیتا ہوں: اللہ کی حفاظت کر اللہ تیری حفاظت کرے گا، اللہ کی حفاظت کر اس کو اپنے سامنے پائے گا۔ جب تو مانگ تو اللہ سے مانگ, اور جب تو مدد طلب کر تو اللہ سے ہی مدد طلب کر۔ یقین جان لے کہ اگر ساری امت اکٹھا ہوجائے کہ تجھے کچھ نفع پہنچادے تو نفع نہیں پہنچاسکتی مگر صرف اتنا ہی جتنا اللہ نے تیرے لئے لکھ دیا ہے, اور اگر ساری امت اکٹھا ہوجائے کہ تجھے کچھ ضرر پہنچادے تو ضرر نہیں پہنچاسکتی مگر صرف اتنا ہی جتنا اللہ نے تیرے خلاف لکھ دیا ہے۔ قلم اٹھالئے گئے ہیں اور صحیفے خشک ہوچکے ہیں»([2]
            3۔کلمۂ شہادت کے بعد سب سے اہم فریضہ پنجوقتہ صلاة ہے۔ بچہ کے دل میں اس کی اہمیت اور عظیم قدر ومنزلت کا شعور واحساس بٹھانا چاہئے ۔ سات سال کا ہوتے ہی اسے صلاة کا حکم دینا چاہئے اور دس سال کا ہوجانے کے بعد کوتاہی کرنے پر سزا دینی چاہئے جیسا کہ حدیث میں موجود ہے([3])۔ اس عمر میں بچہ باپ کے ساتھ مسجد جاتے ہوئے بہت خوش ہوتا ہے ۔ جو بچہ اس عمر میں صلاة کا پابند ہوجائے گا وہ بعد میں ان شاء الله کبھی صلاة نہیں چھوڑسکتا ہے۔
             سات سال سے دس سال کی عمر یعنی تین سال کی مدت میں تقریباً پانچ ہزار سے زیادہ صلاة کا وقت آتا ہے ۔ بھلا وہ بچہ جو پانچ ہزار صلاة پابندی سے پڑھ چکا ہو بعد میں اسے کیسے چھوڑسکتا ہے !!
            4۔ بچہ کی تعلیم وتربیت ، اس کی خاطر شب بیداری ، نگرانی وتوجہ ، اس کے اخراجات ، اس کو خوش رکھنا اور اس سے دل لگی کی باتیں کرنا سب عبادت میں داخل ہیں بشرطیکہ آدمی ان سب پر اللہ سے اجر وثواب کی نیت اور امید رکھے۔ اولاد پر خرچ کرنا تو نہایت ہی باعث اجر ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : «إِذَا أَنْفَقَ الرَّجُلُ عَلَى أَهْلِهِ يَحْتَسِبُهَا فَهُوَ لَهُ صَدَقَةٌ»([4]) ''آدمی اپنے اہل وعیال پر اجر وثواب کی نیت سے جو کچھ خرچ کرتا ہے وہ اس کے لئے صدقہ ہے''۔ یعنی اس میں صدقہ کا ثواب ہے ۔
            نیز ارشاد ہے :  «دِينَارٌ أَنْفَقْتَهُ فِي سَبِيلِ اللهِ وَدِينَارٌ أَنْفَقْتَهُ فِي رَقَبَةٍ، وَدِينَارٌ تَصَدَّقْتَ بِهِ عَلَى مِسْكِينٍ، وَدِينَارٌ أَنْفَقْتَهُ عَلَى أَهْلِكَ، أَعْظَمُهَا أَجْرًا الَّذِي أَنْفَقْتَهُ عَلَى أَهْلِكَ»([5]) ''ایک دینار تم نے اللہ کی راہ میں خرچ کیا، ایک دینار تم نے غلام آزاد کرنے میں خرچ کیا، ایک دینار تم نے مسکین پر صدقہ کیا، ایک دینار تم نے اپنے بیوی بچے پر خرچ کیا، اس میں سب سے زیادہ ثواب اس دینار کا ہے جو تم نے اپنے بیوی بچوں پر خرچ کیا''۔
            5۔تربیت کے معاملے میں اخلاص انتہائی ضروری ہے ۔ بچوں کی تربیت سے ہمارا مقصود ومطلوب اللہ کی رضا اور خوشنودی ہونا چاہئے، اگر تربیت سے دنیا مقصود ہے تو پھر ساری محنت وتوجہ ثواب سے خالی ہونے کی وجہ سے اکارت اور رائیگاں ہوجاتی ہے ۔ یہ سچ ہے کہ کچھ لوگ اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت پر بھرپور توجہ دیتے ہیں لیکن ان کا مقصد نیک نامی، مدح وثنا یا پھر ڈگریوں اور عہدوں کا حصول ہوتا ہے ۔ بے شک اچھی تعلیم سے ان کو یہ چیزیں حاصل ہوجاتی ہیں لیکن یہ ثانوی چیزیں ہیں، اصل چیز تو اللہ کی رضا اور اس کی خوشنودی ہے۔
            بعض دین فراموش دنیا دار لوگ خالص دنیوی تعلیم پر اپنی توجہ مرکوز رکھتے ہیں نیز اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کی نیت ان کے دل میں کبھی نہیں ہوتی۔ اس کے برخلاف ایک دیندار انسان ڈاکٹری کی ڈگری بھی حاصل کرنے کی اگر کوشش کرتا ہے تو اس کی نیت یہ ہوتی ہے کہ وہ مسلمانوں کا علاج کرے گا جس سے ان کو کافر ڈاکٹروں کے پاس جانے کی ضرورت نہیں رہ جائے گی ۔ظاہر ہے کہ ان دونوں کی نیتوں کے فرق کے اعتبار سے دونوں کے ثواب میں بھی فرق ہوگا۔
             اسی طرح بعض والدین اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک صرف اس نیت سے کرتے ہیں کہ ان کے چھوٹے بچے ان کو دیکھیں پھر ان کے بڑھاپے میں اسی طرح ان کے کام آئیں اور ان کی خدمت کریں۔ اس سے دنیا کی محبت ظاہر ہوتی ہے اور ایسی فکر اخلاص کے منافی ہے۔
            درحقیقت ایک صاحبِ ایمان اپنے والدین کے ساتھ نہایت اخلاص کے ساتھ اللہ کے حکم کی اطاعت سمجھ کر اور ثواب کی لالچ میں حسن سلوک کرتا ہے ۔ دنیاوی اور نفسانی اغراض ومقاصد اس کے پیشِ نظر نہیں ہوتے ۔
            تعلیم وتربیت، نان ونفقہ، ہنسانا کھلانا اور بچوں کو خوش رکھنا ہرایک معاملہ اگر اخلاص کے ساتھ ہے تو ان شاء اﷲ اجر وثواب کا باعث ہے لیکن اخلاص کے بغیر کسی قسم کے اجر کی توقع رکھنا فضول ہے۔
            6۔ اپنی محنت وکاوش اور عملی جد وجہد کے ساتھ ساتھ رب کریم سے دعائیں بھی کرنا چاہئے جیسا کہ انبیا ء کی سنت رہی ہے ۔ چنانچہ قرآن مجید میں ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا مذکور ہے کہ انھوں نے اپنی اولاد کے لئے شرک سے حفاظت کی دعا فرمائی ۔ ارشاد ہے : {وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنَامَ}  [إبراهيم: 35] ( اور  [یاد کرو] جب ابراہیم نے دعا کی تھی : اے میرے رب اس شہر [مکہ] کو پرامن بنادے اور مجھے اور میری اولادکو بھی [اس بات سے]  بچائے رکھنا کہ ہم بتوں کی عبادت کریں ۔)
            اسی طرح سورہ فرقان میں رحمان کے حقیقی بندوں کی جو صفات بیان کی گئی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے : {وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا } [الفرقان: 74] (اور جو دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اپنی بیویوں اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں متقین کا امام بنا۔)
            دعائیں وہ قیمتی ہتھیار ہیں جس سے گمراہ ہدایت یاب ہوتے اور بگڑے ہوئے سدھر جاتے ہیں۔ آدمی کی محنت اور لگن کے ساتھ جب اللہ کی توفیق و نصرت شامل حال ہوجائے تو منزل بہت قریب ہوجاتی ہے۔
            7۔ اپنی اولاد کے لئے رزق حلال کا اہتمام کرنا چاہئے, شبہات اور حرام سے بچنا چاہئے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "كل جسد نبت من سحت فالنار أولى به"([6]).  ''ہروہ جسم جس کی پرورش حرام سے ہوئی اس کا زیادہ حقدار جہنم ہے''۔
            والدین کو اس غلط فہمی میں نہیں مبتلا رہنا چاہئے کہ صرف سود ورشوت اور چوری وڈکیتی ہی سے آیا ہوا مال حرام ہوتا ہے بلکہ لوگوں کے مال ناحق کھانا اور ان کے حقوق ہڑپ کرجانا بھی حرام ہے ۔ جوا اور لاٹری سے آیا ہوا مال بھی حرام ہے ۔ لہذا ہر مسلمان کو اس بات سے سختی سے بچنا چاہئے اور اکل حلال کی کوشش میں رہنا چاہئے ۔ حلال تھوڑا ہونے کے باوجود بڑا بابرکت ہوتا ہے ۔
            8۔ خود عملی نمونہ پیش کرنا تربیت کے لوازم میں سے ہے۔ اگر بچہ اپنے باپ کو  تارک صلاۃ (بے نمازی)  دیکھے گا تو وہ خود صلاة کی پابندی کیونکر کرے گا؟ اگر بچی اپنی ماں کو فلمی گانے سنتے ہوئے پائے گی تو وہ خود اس سے کیونکر بچے گی ؟
            اگر ماں باپ نیک اور صالح ہوتے ہیں تو اللہ تعالی ان کی زندگی میں بھی اور ان کی وفات کے بعد بھی ان کی اولاد کی حفاظت فرماتا ہے ۔ چنانچہ سورہ کہف میں اللہ تعالی نے موسیٰ اور خضر علیہ السلام کے قصہ میں بیان فرمایا ہے کہ خضر علیہ السلام نے ایک گرتی ہوئی دیوار کو اجرت کے بغیر ٹھیک کردی ، وجہ یہ تھی کہ وہ دیوار دو یتیم لڑکوں کی تھی ، اس دیوار کے نیچے ان کے لئے خزانہ مدفون تھا اور ان کا باپ ایک صالح آدمی تھا لہذا اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے چاہا کہ یہ دونوں یتیم اپنی جوانی کو پہنچ کر اپنا خزانہ نکال لیں ([7]
            یہاں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ باپ ایک صالح انسان تھا جس کی نیکی کا فائدہ اس کی وفات کے بعد اس کے بچوں کو حاصل ہوا ۔
            9۔جس طرح ایک آدمی اپنے دنیاوی معاملات کی باریکیوں کے جاننے کا نہ صرف حریص ہوتا ہے بلکہ اس کے لئے بھر پور کوششیں کرتا ہے اسی طرح والدین کو  تربیت کے عمدہ اصولوں اور طریقوں کی معرفت کے لئے بھی محنت کرنی چاہئے ۔ باصلاحیت افراد سے مشورہ لینا چاہئے ۔ تربیت سے متعلق کتابوں اور کیسٹوں کی تلاش کرکے ان سے استفادہ کرنا چاہئے ۔
            10۔ تربیت کی کامیابی کا ایک اہم عامل صبر ہے ۔ بچہ کی رہنمائی پر صبر ،اس کے سوالات اور چیخ وپکار پر صبر ،اس کی بیماری پر صبر،اسے کامیاب مدرسہ تک پہنچانے میں صبرجہاں قابل اور باصلاحیت اساتذہ پائے جاتے ہوں بھلے ہی گھر سے کتنا دور ہو، مسجد تک صلاة کے لئے لے جانے پر صبر،بچہ کو ازخود تعلیم وتربیت دینے کے لئے کچھ وقت نکالنے پر صبر۔ واضح رہے کہ صبر اور کلیجہ پر پتھر باندھے بغیر کوئی قیمتی اور اہم چیز  حاصل نہیں ہوسکتی۔
            11۔ بچوں کی خصوصی صلاحیتوں اور انفرادی امتیازات کی رعایت ضروری ہے ۔ کچھ والدین بچوں کی ذہنی  صلاحیت، دلچسپی  اور مہارت کا نہ ہی اندازہ لگاتے ہیں اور نہ ہی انھیں مفید جگہ استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ انھیں بیکار ضائع ہونے دیتے ہیں جبکہ بعض بچے بڑے ذہین اور قوی حافظہ کے مالک ہوتے ہیں ،دیکھتے ہی دیکھتے مختلف نظمیں اور اشعار بلکہ اشتہارات کے نعرے وغیرہ جیسی لغو اور فضول چیزیں تک یاد کرلیتے ہیں اگر ان کی اسی صلاحیت کو کسی کارآمد چیز مثلا حفظ قرآن وحفظ حدیث وغیرہ میں استعمال کیا جائے تو یہ عمل دنیا وآخرت دونوں جگہ سودمند ، کارآمد اور نفع بخش ہوگا۔
            12 ۔ بچہ کی تربیت کرنے والے پر لازم ہے کہ غصہ پر قابو رکھے ۔ بچہ کو باادب بنانا ضروری ہے لیکن اس کے لئے شرعی اور طبعی اصولوں کی رعایت بھی ضروری ہے۔ جب تک بچہ دس سال کا نہ ہوجائے تب تک اسے کوئی سخت سزا نہیں دینی چاہئے ۔اگر کبھی مارنے کی ضرورت پڑے تو مسواک یا چھوٹی چھڑی کا استعمال کیا جائے۔ دس چھڑی سے زیادہ نہ مارا جائے۔ چہرہ یا شرمگاہ پر نہ مارا جائے ۔ مارتے ہوئے کسی قسم کا نام نکالنے یا کوئی برا کلمہ مثلا کتا یا گدھا وغیرہ کہنے سے قطعی پرہیز کیا جائے ۔
            تربیت کا بہتر انداز یہ ہے کہ آدمی انعامات کا طریقہ اپنائے۔ بچہ کے کردار کے مطابق اسے یا تو انعام سے نوازے یا انعام سے محروم کردے ۔ بچہ کے اچھے عمل پر مناسب انداز میں اس کی تعریف ہونی چاہئے،  نیکی پر قائم رہنے بلکہ آگے بڑھنے کے لئے عمدہ  طریقہ پر حوصلہ افزائی  کا بڑا اہم کردار ہے۔
            13۔ اپنے بچوں کو اچھے دوستوں کی رہنمائی کرنی چاہئے اور برے دوستوں سے بچانا چاہئے ۔ان کو وقت برباد کرنے والی جگہوں اور بری تفریح گاہوں میں نہیں لے جانا چاہئے۔ بچوں کے دلوں میں شجاعت و بہادری جیسے مردانہ اوصاف اور بچیوں کے دلوں میں عفت وحیاجیسی زنانہ خوبیوں  کا شعور پیدا کرنا چاہئے۔ اس حماقت میں مبتلا ہونے سے بچنا چاہئے کہ اسلامی تعلیمات سے دوری اور کنارہ کشی ہی تہذیب و تمدن ہے ۔ ہمیشہ اس بات کا خیال رہے کہ آدمی کی پشت سے پیدا ہونے والی اولاداور اس کی پیٹھ سے جنم لینے والا کوئی بچہ اپنے قول وکردار کے ذریعہ اللہ اور اس کے دین سے جنگ کرنے والاہرگز نہ ہونے پائے ۔
            14۔اولاد کی تربیت کے لئے والدین کو مل کر ایک متفقہ منصوبہ اور متحدہ لائحہ عمل طے کرنا چاہئے۔ ان میں سے کسی ایک کو بچوں کے سامنے کوئی ایسی حرکت نہیں کرنی چاہئے جس سے بچہ کو یہ احساس ہو کہ ماں باپ میں باہم اختلاف ہے۔ مثلاًجس وقت باپ بچوں کو سزا دے رہا ہو یا ان کی تنبیہ کررہا ہو اس وقت ماں بچوں کے سامنے اس پر اعتراض نہ کرے ۔ اگر باپ کی تنبیہ نامناسب ہو تو بچوں کی غیرموجودگی میں اس سے بات کرے ۔        
وبالله التوفيق والحمد لله رب العالمين وصلى الله على نبينا وسلم



([1]) یہ حدیث متفق علیہ ہے، اسے امام بخاری اپنی جامع صحیح میں متعدد مقامات پر لائے ہیں،  كتاب الجمعة باب الجمعة في القرى والمدن (کتاب :11 حديث:893) كتاب في الاستقراض وأداء الديون والحجر والتفليس باب: العبد راع في مال سيده، ولا يعمل إلا بإذنه (کتاب :43 حديث:2409)  كتاب العتق باب كراهية التطاول على الرقيق، وقوله: عبدي أو أمتي (کتاب :49 حديث:2554) كتاب النكاح باب {قوا أنفسكم وأهليكم نارا} (کتاب :67 حديث:5188) وغیرہ اور امام مسلم نے اسے  كتاب الإمارة باب فضيلة الإمام العادل، وعقوبة الجائر، والحث على الرفق بالرعية، والنهي عن إدخال المشقة عليهم میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :33باب :5 حديث: 20 - (1829))۔
([2])اس حدیث کو امام ترمذی نے أبواب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم میں روایت کیا ہے اور فرمایا ہے : هذا حديث حسن صحيح.۔ (کتاب :35باب :59 حديث:2516)۔ اور علامہ البانی نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔
([3])اس حدیث کو امام ابوداود نے  كتاب الصلاة باب متى يؤمر الغلام بالصلاة میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :2 حديث:495)۔ اور علامہ البانی نے بھی اسے حسن  صحیح قرار دیا ہے۔
([4]) یہ حدیث متفق علیہ ہے، اسے امام بخاری  نے اپنی جامع صحیح میں  كتاب الإيمان باب: ما جاء إن الأعمال بالنية والحسبة، ولكل امرئ ما نوى (کتاب :2 حديث:55) كتاب النفقات باب فضل النفقة على الأهل (کتاب :69 حديث:5351)  میں اور امام مسلم نے اسے  كتاب الزكاة باب فضل النفقة والصدقة على الأقربين والزوج والأولاد، والوالدين ولو كانوا مشركين میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :12باب :14حديث: 48 - (1002))۔
([5])امام مسلم نے اسے  كتاب الزكاة باب فضل النفقة على العيال والمملوك، وإثم من ضيعهم أو حبس نفقتهم عنهم میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :12 باب:12حديث: 39 - (995))۔
([6]) حدیث صحیح ہے، دیکھئے:  ۔( صحیح الجامع للالبانی/ 4519)
([7] ) دیکھئے سورہ کہف کی آیت نمبر 82۔ 

الاثنين، 4 نوفمبر 2013

ماہ محرم اور صوم عاشوراء کی فضیلت


ماہ محرم اور صوم عاشوراء کی فضیلت



الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله, أما بعد:
ماہ محرم ایک عظیم اور بابرکت مہینہ ہے، یہ ہجری سال کا پہلا مہینہ ہے، یہ ان  چار حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جن کا قرآن مجید میں ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: ﴿إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللّٰهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ فَلَا تَظْلِمُواْ فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ توبہ/٣٦۔ (اللہ کے نزدیک مہینوں کی گنتی کتاب اللہ میں بارہ کی ہے، اسی روز سے جب سے اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ، ان میں سے چار مہینے حرمت وادب کے ہیں، یہی درست دین ہے، ان مہینوں میں اپنے آپ پر ظلم نہ کرو)۔
حرمت والے چار مہینے حدیث کے مطابق ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب ہیں۔ یعنی حج کا مہینہ اور اس سے پہلے اور بعد کا ایک ایک مہینہ اور رجب۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «السَّنَةُ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ثَلَاثٌ مُتَوَالِيَاتٌ ذُو الْقَعْدَةِ وَذُو الْحَجَّةِ وَالْمُحَرَّمُ وَرَجَبُ مُضَرَ الَّذِي بَيْنَ جُمَادَى وَشَعْبَانَ» (رواه البخاري عن أبي بكرة رضي الله عنه/2958)
ماہ محرم کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ نہ صرف حرمت والا مہینہ ہے بلکہ اس کی حرمت کی تاکید ہے۔ ﴿فَلَا تَظْلِمُواْ فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ کا مفہوم یہ ہے کہ ان حرمت والے مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو کیونکہ دوسرے مہینوں کی بہ نسبت ان میں زیادہ گناہ ہوگا۔عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے اس کی تفسیر کچھ اس طرح مروی ہے کہ ان تمام بارہ مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو، پھر اللہ تعالی نے ان میں سے چار مہینوں کو خصوصیت عطا فرمائی، انھیں نہ صرف حرام قرار دیا بلکہ ان کو شدید حرمت والا بنایا، ان میں گناہوں کا ارتکاب کرنا سنگین قرار دیا  اور نیک عمل انجام دینے کا اجر وثواب زیادہ رکھا۔ امام  قتادہ سے اس آیت کی تفسیر میں یہ مروی ہے کہ ان حرمت والے مہینوں میں دوسرے مہینوں کی بہ نسبت ظلم زیادہ شدید اور باعث گناہ ہوگا۔ ظلم کا معاملہ بہرحال  شدید ہے لیکن اللہ تعالی جہاں چاہتا ہے  اس کی شدت میں مزید اضافہ فرمادیتا ہے۔
ماہ محرم میں بکثرت نفلی صوم رکھنے کی فضیلت
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا  ارشاد ہے: «أَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَهْرُ اللّٰهِ الْمُحَرَّمُ وَأَفْضَلُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْفَرِيضَةِ صَلَاةُ اللَّيْلِ» (رواه مسلم عن أبي هريرة رضي الله عنه/1982) (رمضان کے بعد سب سے افضل صوم اﷲ کے مہینہ محرم کا صوم ہے اور فرائض کے بعد سب سے افضل صلاة رات کی صلاة (تہجد) ہے)۔
ماہ محرم کو اللہ کا مہینہ کہا گیا،  یہ نسبت برائے تعظیم ہے۔ ملا علی قاری فرماتے ہیں: ظاہر حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پورے ماہ محرم میں صوم رکھنا مراد ہے، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ نے رمضان کے علاوہ کسی اور مہینہ میں پورے مہینہ  کا صوم نہیں رکھالہذا اس حدیث کو ماہ محرم کے پورے مہینے صوم رکھنے کے بجائے  اس ماہ میں بکثرت صوم رکھنے کی ترغیب وتشویق پر محمول کیا جائے گا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ماہ شعبان میں بکثرت صوم رکھنا ثابت ہے، ممکن ہے کہ ماہ محرم کے صوم کی فضیلت سے متعلق وحی آپ کی حیات مبارکہ کے آخری ایام میں آئی ہو جس کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس ماہ مبارک میں صوم کا موقعہ نہ مل سکا ہو۔ (ملاحظہ ہو شرح نووی علی صحیح مسلم)
عاشوراء
عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ نے یہودیوں کو عاشوراء کا صوم رکھتے ہوئے پایا،  آپ نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ یہودیوں نے بتایا کہ یہ ایک نیک دن ہے ، اسی دن اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات عطا فرمائی تھی، لہذا موسی علیہ السلام نے صوم رکھا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم تمھاری بہ نسبت موسی علیہ السلام (کا ساتھ دینے) کے زیادہ حقدار ہیں، چنانچہ آپ نے خود بھی صوم رکھا اور اس دن صوم رکھنے کا حکم فرمایا۔ (صحیح بخاری/1865)
بعثت نبوی سے پہلے زمانہ جاہلیت میں بھی صوم عاشوراء معروف تھا، عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: زمانہ جاہلیت میں قریش کے لوگ صوم عاشوراء رکھا کرتے تھے۔ (صحیح بخاری/1893) امام قرطبی فرماتے ہیں: شاید قریش کے لوگ گذشتہ کسی نبی مثلا ابراہیم علیہ السلام کی شریعت کی پیروی میں ایسا کرتے رہے ہوں گے۔ یہ بات بھی ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت مدینہ سے قبل مکہ میں صوم عاشوراء رکھا کرتے تھے۔  (صحیح بخاری/2002)
صوم عاشوراء کی فضیلت
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں   کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عاشوراء کے دن  اور رمضان کے مہینے کے علاوہ اور کسی دن کو دوسرے دنوں سے افضل جان کر خاص طور سے قصد کر کے روزہ رکھتے نہیں دیکھا۔ (صحیح بخاری/1867)
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: «وَصِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ أَحْتَسِبُ عَلَى اللّٰهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ».(صحیح مسلم/1976) "صوم عاشوراء سے متعلق مجھے اﷲ تعالی سے امید ہے کہ وہ پچھلے ایک سال کا کفارہ ہے"۔
یہ اللہ کا فضل وکرم ہے کہ اس نے ایک دن صوم کے بدلے پورے ایک سال کے گناہوں کی معافی عطا فرمائی۔ واللہ ذوالفضل العظیم۔
عاشوراء کے ساتھ صوم تاسوعاء کا استحباب
عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: «حِينَ صَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ يَوْمٌ تُعَظِّمُهُ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ صُمْنَا الْيَوْمَ التَّاسِعَ قَالَ فَلَمْ يَأْتِ الْعَامُ الْمُقْبِلُ حَتَّى تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ».(صحیح مسلم/1916) "جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کا خود صوم رکھا اور لوگوں کو اس کا حکم فرمایا تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اے اﷲ کے رسول! یہود ونصاریٰ اس دن کی تعظیم کرتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب آئندہ سال ہوگا ان شاء اﷲ ہم نویں تاریخ کا (بھی) صوم رکھیں گے۔ عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آئندہ سال آنے سے پہلے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی"۔
امام شافعی، امام احمد، امام اسحاق اور دیگر بہت سے ائمہ کرام نے ماہ محرم کی نویں اور دسویں دونوں تاریخوں کا صوم مستحب قرار دیا ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء (دسویں) کا صوم رکھا اور تاسوعاء (نویں)  کا صوم رکھنے کی نیت فرمائی۔
بہرحال ماہ محرم میں جس قدر زیادہ صوم رکھا جائے مستحب ہے جیسا کہ حدیث گذرچکی ہے۔


الثلاثاء، 24 سبتمبر 2013

بے مثال فضیلت والے 10 دن (عشرۂ ذوالحجہ کے فضائل واحکام)

کائنات میں درجہ بندی کا نظام
پوری کائنات اللہ کی مخلوق ہے، اللہ تعالی نے تمام مخلوق کو ایک درجہ میں نہیں رکھا بلکہ ان میں درجہ بندی کی ہے، کسی کو کسی پر فضیلت عطا کی ہے، کسی کو بلند اور کسی کو پست رکھا ہے، کسی کو اعلی درجہ دیا ہے اور کسی کو ادنی درجہ دیا ہے،کسی کو عام بنایا اور کسی کو خاص، کسی کو اپنا منتخب بنایااور دوسروں پر واضح فضیلت عطا فرمائی، ارشاد باری ہے: وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ القصص: ٦٨ (اور آپ کا رب جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے چن لیتا ہے۔)
اللہ تعالی  نے اوقات ومقامات بلکہ افراد انسانی میں بھی یہ درجہ بندی قائم کی ہے ، اللہ تعالی نے انسانوں میں اپنے نبیوں اور رسولوں کو اپنا منتخب بندہ بنایا  اور پھر ان میں بھی ایک کو دوسرے پر فضیلت دی، ارشاد ہے: تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ مِنْهُمْ مَنْ كَلَّمَ اللَّهُ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍالبقرة: ٢٥٣ (یہ رسول ہیں جن میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، ان میں سے بعض وہ ہیں جن سے اللہ تعالی نے بات چیت کی ہے اور بعض کے درجے بلند کئے ہیں۔)
اولوالعزم رسولوں کو بقیہ رسولوں پر فضیلت ہے ، اللہ کے دونوں خلیلوں کو اولوالعزم رسولوں کے اندر فوقیت حاصل ہے، اور خاتم الانبیاء  تو تمام بنی آدم کے سردار ہیں جن میں انبیاء ورسل بھی آتے ہیں۔
اللہ تعالی نے مہینوں میں ماہ رمضان کو فضیلت دی، سال کے دنوں میں عرفہ کے دن کو اور ہفتہ کے دنوں میں جمعہ کے دن کو فضیلت عطا کی، راتوں میں شب قدر کو فضیلت سے نوازا، عشروں میں ذوالحجہ کا پہلا عشرہ  اور رمضان کا آخری عشرہ فضیلت والا بنایا اور دونوں میں فرق یہ رکھا کہ ذوالحجہ کے پہلے عشرہ کے دنوں کا جواب نہیں اور رمضان کے آخری عشرہ کی راتوں کی کوئی مثال نہیں۔
سال کے تین عشرے:
سال میں تین عشرے بہت معروف ہیں، ذوالحجہ کا ابتدائی عشرہ، رمضان کا  آخری عشرہ اور محرم کا پہلا عشرہ ، آیئے دیکھتے ہیں کہ ان تینوں عشروں میں کیا فرق ہے؟
ذوالحجہ کے ابتدائی عشرہ کے فضائل کی تفصیل آگے آرہی ہے، رمضان کا آخری عشرہ بھی کافی اہمیت وفضیلت کا حامل ہے، چنانچہ رمضان کے آخری عشرہ کے تعلق سے بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں۔
رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں شب قدر کا تلاش کرنا مستحب ہے۔ نبی e اس کی تلاش میں محنت کیا کرتے تھے۔ جب آخری عشرہ آتا تو راتوں کو بیدار رہتے ، اپنے اہل وعیال کو جگاتے اور کمر کس لیتے۔
رسول اﷲ e شب قدر کی تلاش میں رمضان کے آخری دس دنوں میں اعتکاف بھی فرمایا کرتے تھے ۔ آپ کی ازواج مطہرات نے بھی آپ کی زندگی میں آپ کے ساتھ اور آپ کی وفات کے بعد مسجد میں اعتکاف کیا ہے۔
جہاں تک محرم کے پہلے عشرہ کی بات ہے تو عوامی شہرت کی حد تک یہ پہلے نمبر پر ہے لیکن افسوس اور دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمارے اردو اور ہندی بولنے والے بھائیوں کے درمیان کھوٹے سکے ہی زیادہ رائج ہیں، محرم کے پہلے عشرہ میں جو کچھ ہنگامہ آرائی ہوتی ہے سراسر بے بنیاد ہے، عشرۂ محرم کی کوئی حقیقت نہیں صرف عاشورۂ محرم کی حقیقت ہے، عاشوراء اور عشرہ میں وہی فرق ہے جو اردو زبان میں دس اور دسواں میں فرق ہے، عاشوراء صرف دسویں تاریخ کا نام ہے جبکہ عشرہ پورے دس دنوں کو شامل ہے۔
جہاں تک صوم عاشوراء کی بات ہے تو یہ مستحب ہے۔ اس دن نبی e اور آپ کے صحابہ ] نے صوم رکھا، اس سے قبل اسی دن موسی u نے اﷲ کے شکریہ میں صوم رکھا تھا، کیونکہ اس دن اﷲ تعالی نے موسی u اور ان کی قوم کو نجات عطا فرمائی تھی اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کردیا تھا، چنانچہ موسی علیہ السلام اور بنو اسرائیل نے اﷲ کے شکریہ کے طور پر اس دن صوم رکھا اور محمد e نے اﷲ کے نبی موسی u کی اقتدا کرتے ہوئے اس دن صوم رکھا۔ اہل جاہلیت بھی اس دن صوم رکھا کرتے تھے۔ نبی e نے امت پر اس دن کے صوم کی تاکید فرمائی لیکن جب رمضان فرض ہوگیا تو آپ e کا ارشاد ہوا: «جو چاہے عاشوراء کا صوم رکھے اور جو چاہے افطار کرے»([1]
عبد اﷲ بن عباس t فرماتے ہیں: «جب رسول اﷲ e نے عاشوراء کا خود صوم رکھا اور لوگوں کو اس کا حکم فرمایا تو صحابہ y نے عرض کیا: اے اﷲ کے رسول ! یہود ونصاریٰ اس دن کی تعظیم کرتے ہیں تو آپ e نے فرمایا: جب آئندہ سال ہوگا ان شاء اﷲ ہم نویں تاریخ کا (بھی) صوم رکھیں گے۔ عبد اﷲ بن عباس t  فرماتے ہیں کہ آئندہ سال آنے سے پہلے رسول اﷲ e کی وفات ہوگئی»([2]
ابوقتادہ t کی حدیث ہے کہ رسول اﷲ e کا ارشاد ہے: «صوم عاشوراء سے متعلق مجھے اﷲ تعالی سے امید ہے کہ وہ پچھلے ایک سال کا کفارہ ہے»([3]
یوم عاشوراء کا مہینہ ماہ محرم حرمت وا لے چار مہینوں میں سے ایک ہے۔ اس ماہ میں بھی نفلی صوم رکھنے کی فضیلت حدیث میں آئی ہے۔ ابوہریرہt سے روایت ہے کہ اﷲ کے رسول e نے ارشاد فرمایا: «رمضان کے بعد سب سے افضل صوم اﷲ کے مہینہ محرم کا صوم ہے اور فرائض کے بعد سب سے افضل صلاة رات کی صلاة (تہجد) ہے»([4]
مسلمان برکتوں کے درمیان
ایک مسلمان ہمیشہ برکتوں کے درمیان ہوتا ہے، اس کا قول بھی مبارک، اس کا عمل بھی مبارک اور اس کا وقت بھی مبارک ہے۔
قول کی برکت یہ ہے کہ قرآن پاک کی آیت کا ایک حرف اپنی زبان سے ادا کرتا ہے اور دس نیکیوں کا مستحق ہوجاتا ہے، اللہ کی رضا کا کوئی کلمہ بولتا ہے اور جنت میں اس کے درجات بلند ہوجاتے ہیں۔
عمل کی برکت یہ ہے کہ پانچ صلاتیں پڑھتا ہے پچاس صلاتوں کا ثواب حاصل کرتا ہے، رمضان کے ایک ماہ کا صوم رکھتا ہے دس مہینے کے صوم کا ثواب پاتا ہے اور شوال کے چھ دن اور صوم رکھ لے تو پورے سال حالت صوم میں رہنے کے اجروثواب سے سرفراز ہوتا ہے۔ ایک دانہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے، اللہ تعالی اس کے عوض ستر دانے بلکہ سات سو دانے بلکہ اللہ تعالی جسے چاہے اس سے بھی زیادہ عطا کرتا ہے۔
واضح رہے کہ اوقات کے سلسلہ میں جو بعض لوگوں نے مبارک ومنحوس (یا سعد ونحس) کی تقسیم کی ہے وہ سراسر غلط اور بے بنیاد ہے۔ مسلمان کا دن اور مہینہ اس کے اپنے عمل اور کردار کی بنیاد پر مبارک یا نامبارک ہے ورنہ اللہ کی شریعت کے مطابق کوئی دن یا مہینہ منحوس نہیں۔
سب سے زیادہ بابرکت ایام
ذوالحجہ کا پہلا عشرہ یعنی اس کے ابتدائی دس دن سال کے سارے دنوں میں سب سے زیادہ برکت والے دن ہیں، ان کا مقام ومرتبہ بہت بلند ہے، ان میں نیکیاں کمانے کے متعدد مواقع ہیں، ان کی فضیلت کے بہت سے دلائل ہیں۔
Π ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں کی پہلی فضیلت  یہ ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ان دنوں کی قسم کھائی ہے۔ ارشاد ہے: وَالْفَجْرِ (1) وَلَيَالٍ عَشْرٍ (2) وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ (3) وَاللَّيْلِ إِذَا يَسْرِ (4) هَلْ فِي ذَلِكَ قَسَمٌ لِذِي حِجْرٍ الفجر: ١ - ٥ (قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی اور جفت اور طاق کی اور رات کی جب وہ چلنے لگے، کیا ان میں عقلمند کے واسطے کافی قسم ہے؟۔)
دس راتوں سے اکثر مفسرین کے نزدیک ذوالحجہ کی ابتدائی دس راتیں مراد ہیں([5]
Ï  ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں کی دوسری فضیلت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ان کی قسم کھاتے ہوئے ان کے ساتھ ساتھ کئی دیگر اہم چیزوں کی بھی قسم کھائی ہے۔ ان اہم چیزوں  کی عظیم الشان اہمیت کو دیکھتے ہوئے ان کے ساتھی عشرہ کی بھی اہمیت وعظمت واضح ہوتی ہے۔
اس کے ساتھ فجر کی قسم کھائی گئی جو ایسا قیمتی وقت ہے جس وقت اندھیرے کے بعد اجالا بکھرتا ہے، سکون کے بعد حرکت واپس آتی ہے، نیند جو چھوٹی موت ہے ختم ہوکر بیداری اور زندگی شروع ہوتی ہے، اس وقت دن اور رات کے فرشتے اکٹھا ہوتے ہیں، یہ رات کی آخری تہائی سے بہت قریبی وقت ہے جب کہ رب ذوالجلال آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور فجر کے وقت کی صلاۃ ہی وہ صلاۃ ہے جس سے مومن ومنافق کی پہچان ہوتی ہے۔
اس کے ساتھ جفت اور طاق کی قسم کھائی، جفت اور طاق میں ساری مخلوق آجاتی ہے، مخلوق یا تو جفت ہے یا طاق، اس سے ہٹ کر نہیں، ذوالحجہ کے دس دنوں میں بھی ایک اہم طاق موجود ہے جو عرفہ کادن ہے، نو تاریخ کو ہے ، اور ایک اہم جفت موجود ہے، اور وہ قربانی کا دن ہے، جو دس تاریخ کو ہے۔
اس کے ساتھ میں رات کی قسم کھائی گئی جو دن سے زیادہ فضیلت رکھتی ہے، قرآن پاک میں رات کا ذکر دن سے زیادہ ہے، رات ہی نفلی صلاۃ اور تہجد کا وقت ہے، رات ہی رب کے ساتھ تنہائی کا وقت ہے جس میں اخلاص کی اور ریاء ونمودسے سلامتی کی زیادہ امید ہے، رات ہی کی ایک گھڑی میں وہ مبارک لمحہ بھی آتا ہے جب رب کریم اپنے بندوں سے قریب ہوکر دنیا کے آسمان پر اتر کر ان کو مخاطب کرتا ہے اور کہتا ہے : کیا ہے کوئی مانگنے والا جسے میں عطا کروں ؟ کیا ہے کوئی سوال کرنے والا جسے میں دوں؟ کیا ہے کوئی مغفرت کا طلبگارجس کو مغفرت عطا کروں؟؟  ۔رات کو بستروں سے پہلو الگ رکھنا، شب بیداری کرنا اہل جنت کا امتیاز ہے، ارشاد ہے: تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ (السجدة: ١٦ (نیز ارشاد ہے: كَانُوا قَلِيلًا مِنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ (الذاريات: ١٧ ( قرآن مجید میں ایک اور مقام پر رات کو سجود وقیام میں گذارنے کو رحمٰن کے حقیقی بندوں کی علامت بتائی گئی ہے، ارشاد ہے: وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا (63) وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا (الفرقان:٦٣-٦٤ ) (رحمٰن کے سچے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب بے علم لوگ ان سے باتیں کرنے لگتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ سلام ہے۔ اور جو اپنے رب کے سامنے سجدے اور قیام کرتے ہوئے راتیں گذار دیتے ہیں۔)
یاد رہے کہ پوری صلاۃ کے اندر قیام اور سجدے کی  دو حالت ایسی ہے جو اللہ تعالی کو سب سے زیادہ پسند ہے اسی لئے نبی کریم e نے ارشاد فرمایا:  «أَفْضَلُ الصَّلَاةِ طُولُ الْقُنُوتِ»([6]) «سب سے افضل صلاۃ وہ ہے جس میں لمبا قیام کیا جائے»۔
  امام نووی رحمہ اللہ نے شرح مسلم میں لکھا ہے کہ" اس حدیث میں قنوت سے بہ اتفاق اہل علم قیام مراد ہے"([7])۔ قیام ہی وہ حالت ہے جس میں اللہ کے مبارک کلام کی تلاوت کی جاتی ہے۔
 سجدے کی حالت کا پسندیدہ ہونا کئی احادیث  سے ظاہر ہوتا ہےجس میں سے ایک حدیث وہ ہے جس کے اندر رسول e نے فرمایا  ہے: «أَقْرَبُ مَا يَكُونُ الْعَبْدُ مِنْ رَبِّهِ وَهُوَ سَاجِدٌ فَأَكْثِرُوا الدُّعَاءَ»([8]) «سب سے زیادہ اپنے رب سے قریب بندہ سجدے کی حالت میں ہوتا ہےلہٰذا (اس حالت میں) زیادہ سے زیادہ دعائیں کرو»۔
قرآن پاک میں اللہ تعالی نے فرمایا: وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ العلق:١٩ (سجدہ کر اور قریب ہوجا)۔ نیز وہ حدیث بھی سجدہ کے محبوب ہونے کی دلیل ہے جس میں ایک صحابی نے نبی e سے جنت کے اندر رفاقت طلب کی تو آپ e نے فرمایا: «فَأَعِنِّي عَلَى نَفْسِكَ بِكَثْرَةِ السُّجُودِ»([9]) «زیادہ  سے زیادہ سجدے کرکے اپنے آپ پر میری مدد کرو»۔
اس تعلق سے اور بھی کئی احادیث ہیں۔
 ß  ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں کی تیسری فضیلت یہ ہے کہ یہی وہ ایام ہیں جن میں اللہ تعالی نے اپنے دین کی تکمیل کی ہے یعنی ان دنوں میں ہر نوع کی عبادت کو اکٹھا کردیا ہے، تکمیل دین وہ گراں قدر عطیہ ہے جس سے اہل دین کی تکمیل ہوتی ہے، ان کے اعمال وکردار اور اجروثواب کی تکمیل ہوتی ہے، حیات کاملہ نصیب ہوتی ہے، اطاعت وفرماں برداری میں لذت ملتی ہے، گناہوں سے حفاظت ہوتی ہے، مخلوقات کی محبت ملتی ہے، سنتوں کو فتح سے ہمکنار اور بدعتوں کو شکست سے دوچار ہونا ہوتا ہے، ایمان اور اہل ایمان کو طاقت وقوت ملتی ہے ، نفاق اور اہل نفاق  ذلت وپستی میں گرجاتے ہیں، تکمیل دین سے نفس امارہ پر ، شیطان لعین پر اور ناروا  خواہشات پر غلبہ نصیب ہوتا ہے، اللہ کی عبادت میں نفس پُرسکون ہوتا ہے، قرآن مجید کے اندر تکمیل دین کا اعلان بھی اسی عشرہ میں ہوا ہے، جس کی بنا پر یہودی ہم سے حسد کا شکار ہوگئے، ایک بار ایک یہودی عالم نے عمرفاروق t سے کہا: آپ کی کتاب قرآن مجید میں ایک ایسی آیت ہے کہ اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوئی ہوتی تو ہم یوم نزول کو عید بنالیتے، وہ آیت ہے: الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا المائدة: ٣  [آج میں نے تمھارے لئے تمھارے دین کو کامل کردیا، اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا،اور تمھارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا] عمرt نے فرمایا: مجھے معلوم ہے کہ یہ آیت کب اور کہاں نازل ہوئی ہے؟ جمعہ کے دن میدان عرفات میں نازل ہوئی ہے([10]
یہاں قابل غور یہ ہے کہ دین کامل میں اضافہ کی گنجائش نہیں ، وہ خود فطری تقاضوں کے مطابق ہوتا ہے، اس واقعہ میں بھی اس آیت کا نزول جس اعتبار سے ہوا ہے وہ خود یوم عید بھی ہے اور مقام عید بھی، جمعہ کے دن ہفتہ کی عید ہے اور میدان عرفات کا اجتماع عظیم الشان سالانہ عید ہے۔
Ñ   ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں کی چوتھی فضیلت یہ ہے کہ یہی وہ ایام ہیں جن میں اللہ تعالی نے اپنی نعمتوں کا اتمام کیا ہے یعنی ان دنوں میں ہر قسم کی عبادت کو جمع کرکے روح کی غذا اور اس کی لذت کا سامان کردیا ہے، اتمام نعمت کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ اللہ نے اسلام کے لئے اپنے بندوں کے سینے کھول دیئے، وہی سرزمین عرب جہاں یہودیت ونصرانیت اور مجوسیت ووثنیت کا غلغلہ تھا اسلام کا پرچم سربلند ہوا،ارشاد ہے: هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا (الفتح: ٢٨) (وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے ہردین پر غالب کردے اور اللہ تعالی کافی ہے گواہی دینے والا)۔
اسی اتمام نعمت کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ حرم کا داخلہ مسلمانوں کے لئے مخصوص کردیا گیااور کفار ومشرکین کو حرم میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔
Ò  ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں کی پانچویں  فضیلت یہ ہے کہ یہی وہ ایام ہیں جن میں ہر قسم کی عبادات  جمع ہیں، ان دنوں میں کلمۂ شہادت کے اقرار، تجدید ایمان اور کلمہ کے تقاضوں کی تکمیل کا بھرپور موقع ہے، ان دنوں میں صلاۃ پنجگانہ اور دیگر نفلی صلوات بھی ہیں، ان دنوں میں صدقہ وزکاۃ کی ادائیگی کا موقع بھی ہے، ان دنوں میں صوم کی عبادت بھی ادا کی جاسکتی ہے، یہ دن حج وقربانی کے دن تو ہیں ہی، البتہ حج وقربانی  کا معاملہ یہ ہے کہ وہ صرف انھیں دنوں میں ادا کئے جاسکتے ہیں دیگر ایام میں نہیں، ذکرودعا اور تلبیہ پکارنے کے بھی یہ ایام ہیں۔
ہرقسم کی عبادت کا ان دنوں میں اکٹھا ہوجانا یہ وہ شرف واعزاز ہے جو ان دس دنوں کے ساتھ مخصوص ہے، اس اعزاز میں اس کا کوئی اور شریک نہیں۔
Ó  ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں کی چھٹی  فضیلت یہ ہے کہ یہ وہ ایام ہیں جن کا ایک ایک لمحہ ، ایک ایک منٹ اور سکنڈ انتہائی قیمتی ہے، ان دنوں میں اللہ رب العزت کی طرف سے اعمال  صالحہ کی شدید محبوبیت کا اعلان عام ہے، یہ وہ خصوصی پیشکش (اسپیشل آفر) ہے جو سال کے بقیہ دنوں میں حاصل نہیں ہے، یہ نفع کمالینے کا موسم ہے، یہ نیکیوں میں مقابلہ کرنے کا وسیع میدان اور سنہرا وقت ہے،  حدیث میں ہے: عَن ابْنِ عَبَّاسٍ t قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : «مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهِنَّ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ الْعَشْرِ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذَلِكَ بِشَيْءٍ»([11]). عبداللہ بن عباس t کی روایت ہے کہ اللہ کے رسولeنے فرمایا: «عشرۂ ذوالحجہ میں کئے گئے عمل صالح اﷲ کو جس قدر زیادہ محبوب ہیں اتنا کسی اور دن میں نہیں، صحابہ ] نے دریافت کیا: حتی کہ جہاد فی سبیل اﷲ بھی اتنا پسندیدہ نہیں، آپeنے فرمایا: جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں سوائے اس شخص کے جو اپنا جان ومال لے کر نکلا لیکن کچھ بھی لے کر واپس نہیں ہوا»۔ 
حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان دنوں کے نیک اعمال سے بقیہ دنوں کے کسی عمل کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا حتی کہ جہاد سے بھی نہیں جس کے فضائل معروف ومشہور ہیں، نہ جانی جہاد سے مقابلہ کیا جاسکتا ہے اور نہ مالی جہاد سے، اور نہ بیک وقت دونوں جہاد سے اگر آدمی کی جان یا مال  کچھ بھی سلامت رہ گئے، البتہ جو شخص جان ومال دونوں لے کر اللہ کی راہ میں نکلےاور پھر کچھ بھی لے کر واپس نہ ہو ، سارا مال اللہ کی راہ میں خرچ کردے اور اپنی قیمتی جان اللہ کی راہ میں قربان کرکے شہید ہوجائے۔ یہی تنہا وہ شخص ہے جو ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں نیک اعمال سے اپنا خزانہ معمور کرنے والے کا مقابلہ کرسکتا ہے،
ذرا غور کریں کہ ایسی ہمت اور ایسا موقع کس میں ہےکہ سارا جان ومال اللہ کی راہ میں قربان کردے؟؟ اس کے مقابلہ میں یہ کس قدر آسان ہے کہ اللہ کی طرف سے دیئے گئے اس خصوصی پیشکش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عشرۂ ذوالحجہ میں اعمال صالحہ کے ذریعہ اپنا دامن مراد بھرلیا جائے۔!!
نیز حدیث میں ہے: عَنْ جابر t قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : «أفضل أيام الدنيا أيام العشر»([12]). جابرt کی روایت ہے کہ اللہ کے رسولeنے فرمایا: «دنیا کے ایام میں افضل ترین ایام ذوالحجہ کے ابتدائی دس دن ہیں»۔ 
Ô  ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں کی ساتویں   فضیلت یہ ہے کہ انھیں میں سے ایک دن عرفہ کا بھی دن ہے جس کے بارے میں اللہ کے رسول e کا ارشاد ہے: «مَا مِنْ يَوْمٍ أَكْثَرَ مِنْ أَنْ يُعْتِقَ اللَّهُ فِيهِ عَبْدًا مِنْ النَّارِ مِنْ يَوْمِ عَرَفَةَ, وَإِنَّهُ لَيَدْنُو ثُمَّ يُبَاهِي بِهِم الْمَلَائِكَةَ فَيَقُولُ مَا أَرَادَ هَؤُلَاءِ؟»([13]). «عرفہ کے دن سے زیادہ اﷲ تعالیٰ کسی اور دن جہنم سے آزادی نہیں عطا فرماتا، اﷲ تعالیٰ قریب ہوتا ہے پھر ان(عرفہ میں ٹھہرے ہوئے لوگوں) کے ذریعہ اپنے فرشتوں سے فخر کرتا ہے اور کہتا ہے: یہ لوگ کیا چاہتے ہیں؟»۔
نیز ارشاد ہے : «صَوْمُ يَوْمِ عَرَفَةَ أَحْتَسِبُ عَلَی اﷲِ أَن يُّکَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَہُ»([14])۔ «صوم عرفہ سے متعلق مجھے اﷲ تعالی سے امید ہے کہ سال گذشتہ اور آئندہ کا کفارہ ہوجائے گا»۔
                واضح رہے کہ حدیث میں مذکور فضیلت حاجیوں کے علاوہ دیگر لوگوں کے لئے ہے۔ جو حاجی میدان عرفات میں موجود ہوں انھیں افطار سے (یعنی بلا صوم) رہنا چاہئے جیسا کہ نبی e کی سنت ہے (متفق علیہ) تاکہ ان میں ذکر و دعا کے لئے قوت رہے۔
حاجیوں کے لئے عرفہ میں ٹھہرنا ہی حج کا رکن اعظم ہے کیونکہ نبیe کا ارشاد ہے: «الْحَجُّ عَرَفَةُ »([15]). «حج عرفہ ہی ہے»۔
نیز نبیe کا ارشاد ہے: «خَيْرُ الدُّعَاءِ دُعَاءُ يَوْمِ عَرَفَةَ وَخَيْرُ مَا قُلْتُ أَنَا وَالنَّبِيُّونَ مِنْ قَبْلِي: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ, وَهُوَ عَلىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ»([16]).  «عرفہ کے دن کی دعا تمام دعاؤں سے بہتر ہے، اور سب سے افضل کلمہ جو میں نے اور مجھ سے پہلے تمام انبیاء نے کہا ہے وہ یہ ہے: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ, وَهُوَ عَلىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ. (اﷲ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں ، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، ملک اسی کا ہے، تعریفیں اسی کے لئے ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے)» ۔
Õ  ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں کی آٹھویں   فضیلت یہ ہے کہ ان کا دسواں اور آخری دن یوم النحر    ہے جس کے بارے میں اللہ کے رسول e کا ارشاد ہے:  «إِنَّ أَعْظَمَ الْأَيَّامِ عِنْدَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَوْمُ النَّحْرِ ثُمَّ يَوْمُ الْقَرِّ»([17]). «بے شک اللہ تعالی کے یہاں تمام دنوں سے عظیم ترین دن یوم النحر (قربانی کادن) ہے، پھر اس کے بعد والادن»۔
یوم النحر وہ دن ہے جس میں حج کے بیشتر اعمال انجام دیئے جاتے ہیں، اس دن جمرۂ عقبہ کو کنکریاں مارنا ہے، قربانی کرناہے، سرکے بال کٹوانا یا منڈاناہے، طواف زیارت اور سعی کرنی ہے، ایسے ہی اس دن سارے مسلمان بقرعید مناتے ہیں، عید کی دورکعتیں پڑھتے، قربانی کرتے اور ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں۔
بہرکیف عشرۂ ذوالحجہ کے فضائل بہت ہیں ، ایک مسلمان کو چاہئے کہ ان مبارک دنوں کو غنیمت سمجھے، انھیں یوں ہی ضائع ہونے سے بچائے، ان میں ہر نیکی میں سبقت لے جانے کی تگ ودو کرے۔
ذوالحجہ سے متعلق ضعیف احادیث:
واضح رہے کہ ذوالحجہ سے متعلق بعض ضعیف وموضوع احادیث بھی بیان کی جاتی ہیں جن کا علم رکھنا مناسب ہے تاکہ ہم نادانی میں غیرمستند وغیرمعتبر باتوں میں نہ پھنس جائیں۔
پہلی حدیث: 
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَن النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا مِنْ أَيَّامٍ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ أَنْ يُتَعَبَّدَ لَهُ فِيهَا مِنْ عَشْرِ ذِي الْحِجَّةِ, يَعْدِلُ صِيَامُ كُلِّ يَوْمٍ مِنْهَا بِصِيَامِ سَنَةٍ, وَقِيَامُ كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْهَا بِقِيَامِ لَيْلَةِ الْقَدْرِ».
ترجمہ:
ابوہریرہ t کے حوالہ سے مرفوعاً یہ روایت بیان کی جاتی ہے  کہ «عشرۂ ذوالحجہ میں اللہ تعالی کو اپنی عبادت کیا جانا بہت پسند ہے، ان دنوں کا ہرصوم ایک سال کے صوم کے برابر ہے، اور ان دنوں میں ہر رات کی شب بیداری شب قدر میں قیام کے برابر ہے»۔
تخریج:
اسے امام ترمذی نے[كتاب الصوم، باب ما جاء في العمل في أيام العشر, کتاب:6، باب:52، حدیث:758] روایت کیا ہے اور اسے ضعیف قرار دیا ہے، ابن ماجہ نے بھی اسے [كتاب الصيام، باب صيام العشر, کتاب:7، باب:39، حدیث:1728] روایت کیا ہے، علامہ البانی نے بھی اس روایت کو [سلسلہ ضعیفہ، حدیث:5142] ضعیف قرار دیا ہے۔
دوسری حدیث:   
«من صام آخر يوم من ذي الحجة وأول يوم من المحرم فقد ختم السنة الماضية وافتتح السنة المستقبلة بصوم جعل الله له كفارة خمسين سنة». 
ترجمہ:
«جو شخص ذوالحجہ کے آخری دن اور محرم کے پہلے دن صوم رکھے  اس نے گذشتہ سال کا اختتام اور آئندہ سال کا افتتاح صوم سے کیا، ایسے شخص کے لئے اللہ تعالی پچاس سالوں کے گناہوں کو مٹادیتا ہے»۔
تخریج:
یہ حدیث ضعیف نہیں بلکہ موضوع ومن گھڑت ہے۔ ملاحظہ ہو الموضوعات لابن الجوزی2/199، تنزیہ الشریعہ 1/176، اللآلی المصنوعہ 1/146، تذکرۃ الموضوعات 1/118۔
تیسری حدیث:    
«من أَحْيَا ليلة الفطر وليلة الأضحى لم يمت قلبه يَوْم تَمُوت الْقُلُوب».
ترجمہ:
«جو شخص عید الفطر اور عید الاضحی کی رات جاگ کر گذارے اس کا دل اس دن موت سے محفوظ رہے گا جب سارے دل موت کا شکار ہوجائیں گے»۔
تخریج:
یہ حدیث بھی ضعیف نہیں بلکہ موضوع ومن گھڑت ہے۔ ملاحظہ ہو سلسلہ ضعیفہ، حدیث:520۔
عشرۂ ذوالحجہ کے اعمال صالحہ:
                عشرۂ ذوالحجہ میں اعمال صالحہ کی محبوبیت وفضیلت کا ادراک ہم کرچکے، اب آیئے دیکھا جائے کہ وہ کون سے اعمال ہیں جنھیں ہم ان دنوں میں انجام دے سکتے ہیں:-
Π  تجدید ایمان :
ایمان دنیا کی سب سے بڑی نیکی ہے اور فتنوں کے اس دور میں ہمیں تجدید ایمان کی بار بار ضرورت ہے۔  عَنِ أَبيْ عَمْرٍو، سُفْيَانَ بنِ عَبْدِ اللهِ -رضي الله عنه - قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ! قُلْ لِيْ فِي الإِسْلامِ قَوْلاً لاَ أَسْأَلُ عَنْهُ أَحَدَاً غَيْرَكَ؟ قَالَ: «قُلْ آمَنْتُ باللهِ ثُمَّ استَقِمْ»([18]).
                ابوعمرو سفیان بن عبد اللہ t  کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول e سے کہا: اسلام کے بارے میں مجھے کوئی ایسی بات بتادیجئے جس کے بارے میں آپ کے سوا کسی اورسے نہ پوچھوں, آپ e نے ارشاد فرمایا: «کہو میں اللہ پر ایمان لایا پھر اس پر ٹھیک ٹھیک قائم رہو»۔
نبی کریم e کو جامع کلمات سے نوازا گیا تھا، آپ e نے ان دوکلمات میں ایمان واسلام کے تمام معانی ومفاہیم کو سمیٹ دیا ہے، آپe نے صحابی کو حکم دیا کہ اپنی زبان ودل  سے اپنے ایمان کی تجدید کریں، اور اطاعت وفرماں برداری کے کاموں پر ڈٹ جائیں اور اللہ ورسول کی نافرمانی اور خلاف ورزی سے دور رہیں۔
تجدید ایمان کا ایک اہم حصہ شرک سے توبہ ہے۔ آیئے مختصر طور پر یہ جائزہ لیتے چلیں کہ ہمارے معاشرے میں کون سے شرکیہ اعمال پائے جاتے ہیں جن سے توبہ کرنا ضروری ہے۔
غیر اﷲسے دعا کرنا، ان سے مدد مانگنا، ان سے فریاد کرنا، ان کی پناہ ڈھونڈنا، ان کے لئے قیام،رکوع اور سجدہ کرنا، ان کے لئے نذر ونیاز دینا یا جانور ذبح کرنا،کعبہ کے سوا کسی اور جگہ کا طواف اور حج کرنا وغیرہ، یارسول اﷲمدد، یاعلی مدد، یا غوث مددپکارنا، تعویذ گنڈا پہننا، کڑا چھلہ دھاگا پہننا، ماں باپ یا بیٹے یا کسی غیراللہ کی قسم کھانا، میاں بیوی کے درمیان محبت یا نفرت پیدا کرنے والی عملیات کرنا یا کروانا، کسی قبر یا درخت یا پتھر سے تبرک لینا، کسی کی ذات یا جاہ ومرتبہ کا وسیلہ لینا، وغیرہ وغیرہ اعمال سے توبہ کرنا سخت ضروری ہے۔
اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو شرک اور شرک تک پہنچانے والے تمام اعمال سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
Ï  صلاۃ :
ایمان کے بعد سب سے بڑی نیکی صلاۃ ہے، لہذا عمل صالح کی محبوبیت کے ان دنوں میں فرائض وواجبات وسنن ونوافل کا خاص اہتمام کریں، سنن مؤکدہ وغیرمؤکدہ، تہجد اور دیگر نفلی صلاتوں کی حسب استطاعت ادائیگی کریں۔
ابوہریرہ t سے روایت ہے کہ رسول e نے فرمایا: «فرض کے بعد سب سے افضل صلاة رات کی صلاة [تہجد]ہے»([19]
ß  زکاۃ وصدقات:
زکاۃ وصدقات کی اہمیت کسی ذی شعور مسلمان سے مخفی نہیں،  قرآن پاک میں جگہ جگہ صلاۃ کی ادائیگی کے حکم کے ساتھ زکاۃ دینے کا بھی حکم دیا گیا ہے، ظاہر ہے کہ صلاۃ خالص اللہ کا حق ہے، اور زکاۃ کا فائدہ اللہ کے بندوں کو پہنچتا ہے۔ اور اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے حقوق کو اپنے دین میں بڑی اہمیت دی ہے۔ صدقہ وخیرات کی فضیلت میں بہ کثرت احادیث آئی ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ «جس دن بھی بندے صبح کرتے ہیں دو فرشتے نازل ہوتے ہیں، ایک کہتا ہے: اے اﷲ! خرچ کرنے والے کو اس کا بدل عطا فرما، دوسرا کہتا ہے: اے اﷲ! سمیٹ کر رکھنے والے کو بربادی عطا فرما»([20])۔ نیز نبی e کا ارشاد ہے: «ہرآدمی (بروز قیامت) اپنے صدقہ کے سایہ میں ہوگا یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ ہوجائے»([21]
Ñ   صوم:
اللہ کے نبی e نے ان دس دنوں میں ہر نیکی کی ترغیب دی ہے، ظاہر ہے کہ صوم نیکیوں میں سے ایک عظیم نیکی ہے، یہ وہ نیکی ہے جس کا اجر وثواب اللہ نے بے شمار رکھا ہے اور ازخود اس کا اجر دینے کا وعدہ کیا ہے، حدیث قدسی ہے: «قال الله تعالى: كل عمل ابن آدم له إلا الصيام فإنه لي وأنا أجزي به»([22]). «اللہ تعالی نے فرمایا کہ آدم کے بیٹے کا ہرعمل اس کے لئے ہے سوائے صوم کے، وہ بے شک میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا»۔ نبی e نے ان دنوں میں صوم رکھا ہے۔ عن هنيدة بن خالد عن امرأته عن بعض أزواج النبي صلى الله عليه وسلم قالت : «كان النبي صلى الله عليه وسلم يصوم تسع ذي الحجة ويوم عاشوراء وثلاثة أيام من كل شهر. أول اثنين من الشهر وخميسين»([23]).
«ہنیدہ بن خالد اپنی بیوی سے روایت کرتے ہیں کہ نبی e کی ایک زوجۂ مطہرہ نے بیان کیا کہ آپ e ذوالحجہ کے نو دن، محرم کی دسویں تاریخ اور ہر مہینہ میں تین دن --- مہینہ کا پہلا دوشنبہ اور دو جمعرات ----صوم رکھا کرتے تھے»۔
Ò  حج وعمرہ:
حج  ان دنوں کی خاص نیکی ہے جسے سال کے بقیہ دنوں میں نہیں کیا جاسکتا، حج کے فضائل معروف ومشہور ہیں، پھر بھی ہم چند باتیں ذکر کرتے ہیں:
                ١۔ ابوہریرہ t  سے مروی ہے : «سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الْأَعْمَالِ أَفْضَلُ؟ قَالَ إِيمَانٌ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ, قِيلَ ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ جِهَادٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ, قِيلَ ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ حَجٌّ مَبْرُورٌ»)[24](. «رسول eسے پوچھا گیا : کون سا عمل سب سے زیادہ افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان)[25](، پوچھا گیا: پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: اﷲ کی راہ میں جہاد، پوچھا گیا: پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: حج مقبول»۔
حج مقبول وہ حج ہے جس میں کسی گناہ کا ارتکاب نہ کیا گیا ہو۔
                ٢۔ ابو ہریرہ t سے ہی دوسری روایت ہے  کہ انھوں  نے اﷲ کے رسول eکو ارشاد فرماتے سنا : «مَنْ حَجَّ هَذَا الْبَيْتَ فَلَمْ يَرْفُثْ وَلَمْ يَفْسُقْ رَجَعَ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ»)[26](. «جس نے اس گھر کا حج کیا ،نہ کوئی بیہودہ گوئی کی اور نہ کوئی فسق کا کام کیا تو وہ اپنے گناہوں سے اس دن کی طرح پاک ہوکر لوٹے گا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا ہے»۔
                ٣۔ ابو ہریرہ t ہی سے مروی ہے کہ رسول اﷲeنے ارشاد فرمایا: «الْعُمْرَةُ إِلَى الْعُمْرَةِ كَفَّارَةٌ لِمَا بَيْنَهُمَا وَالْحَجُّ الْمَبْرُورُ لَيْسَ لَهُ جَزَاءٌ إِلَّا الْجَنَّةُ»)[27](. «ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک کے درمیانی گناہوں کا کفارہ ہے اور حج مقبول کا بدلہ جنت ہی ہے»۔
                ٤۔عبد اﷲ بن مسعود t سے مروی ہے : رسول اﷲeنے فرمایا: «تَابِعُوا بَيْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ فَإِنَّهُمَا يَنْفِيَانِ الْفَقْرَ وَالذُّنُوبَ كَمَا يَنْفِي الْكِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ وَالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَلَيْسَ لِلْحَجَّةِ الْمَبْرُورَةِ ثَوَابٌ إِلَّا الْجَنَّةُ»)[28](. « حج وعمرہ پے در پے کیا کروکیونکہ یہ دونوں فقر ومحتاجی اور گناہوں کو اس طرح دور کرتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے،سونے اور چاندی کی گندگی کو دور کرتا ہے اور حج مقبول کا ثواب جنت ہی ہے»۔
Ó   صلاۃ عید اور قربانی:
صلاۃ عید اسلام کا ایک ظاہری شعار ہے، صلاۃ عید کی ادائیگی کے لئے خود بھی جانا چاہئے اور اپنے بال بچوں اور گھر کی عورتوں کو بھی لے جانا چاہئے۔
عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ رضي الله عنها قَالَتْ: «أُمِرْنَا أَنْ نُخْرِجَ الْحُيَّضَ يَوْمَ الْعِيدَيْنِ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ, فَيَشْهَدْنَ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَدَعْوَتَهُمْ, وَيَعْتَزِلُ الْحُيَّضُ عَنْ مُصَلَّاهُنَّ, قَالَتْ امْرَأَةٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ, إِحْدَانَا لَيْسَ لَهَا جِلْبَابٌ؟ قَالَ: لِتُلْبِسْهَا صَاحِبَتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا»)[29](.
 «ام عطیہ r فرماتی ہیں کہ نبی e نے ہم کو حکم دیا کہ ہم عید الفطر اور عیدالاضحی میں شادی شدہ ، حیض والیوں اور غیرشادی شدہ پردہ دارخواتین کو لے کر نکلیں۔ حیض والیاں عیدگاہ سے الگ رہیں گی البتہ خیر اور مسلمانوں کی دعا میں حاضر ہوں گی۔میں نے پوچھا: اے اﷲ کے رسول! ہم میں سے کسی کے پاس چادر نہ ہو تو؟آپ نے فرمایا: اس کی )کوئی مسلمان( بہن اسے اپنی چادر اڑھالے»۔
قربانی سے متعلق ارشاد باری ہے:  فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ ﮊ  الكوثر: ٢ (اپنے رب کے لئے صلاۃ پڑھئے اور قربانی کیجئے)۔  نیز نبی کریم e دس سال مدینہ رہے اور ہر سال قربانی کرتے رہے۔  آپ e نے قربانی کی تاکید بھی ہے آپ e کا فرمان ہے: «مَنْ كَانَ لَهُ سَعَةٌ وَلَمْ يُضَحِّ فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا»)[30](. «جس شخص کے پاس وسعت ہو اس کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے»۔
Ô  قربانی کرنے والا اپنے ناخن اور بال نہ کاٹے:
حدیث میں ہے: عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا رَأَيْتُمْ هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ فَلْيُمْسِكْ عَنْ شَعْرِهِ وَأَظْفَارِهِ»)[31](.  «ام سلمہ r سے روایت ہے کہ نبی e نے فرمایا کہ جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھو اور تم میں سے کوئی قربانی کرنا چاہتا ہے تو اپنے ناخن اور بال کاٹنے سے رک جائے»۔
سنن ابن ماجہ کی صحیح روایت میں اس قدر مزید اضافہ ہےکہ اپنے چمڑے کاٹنے سے بھی باز رہے۔   روایت کے الفاظ اس طرح ہیں: عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ فَلَا يَمَسَّ مِنْ شَعَرِهِ وَلَا بَشَرِهِ شَيْئًا»)[32](. «ام سلمہ r سے روایت ہے کہ نبی e نے فرمایا کہ جب  ذوالحجہ کا پہلا عشرہ آجائے اور تم میں سے کوئی قربانی کرنا چاہتا ہے تو اپنے بال اور چمڑے میں کچھ بھی نہ کاٹے»۔
چمڑے کاٹنے کی تشریح یہ ہے کہ ہونٹ کے چمڑے یا ناخن کے آس پاس کے چمڑے یا پاؤں کی ایڑیوں کے چمڑے وغیرہ نہ ہی نوچے جائیں اور نہ ہی کاٹے جائیں۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اگر کسی شخص کے پاس قربانی کی طاقت نہیں تو وہ قربانی والے دن اپنے ناخن اور بال وغیرہ کاٹ لے تو اسے قربانی کا ثواب مل جائے گاتو یہ بات درست نہیں کیونکہ اس کی دلیل سنن ابی داود کی ایک ضعیف روایت ہے جسے ہم آگے ذکر کررہے ہیں، اس لئے قابل حجت نہیں ہے۔ لہذا ناخن اور بال وغیرہ کے نہ کاٹنے کا حکم صرف اس شخص کے لئے ہے جو قربانی کرنا چاہتا ہے۔ اہل علم نے لکھا ہے کہ یہ دراصل اس وجہ سے ہے کیونکہ قربانی والا چونکہ حاجی کے بعض اعمال میں شریک ہے اس لئے اسے احرام کے بعض ممنوعات میں بھی شریک کردیا گیا۔  واللہ اعلم۔
ابوداود کی وہ روایت جس کی طرف پیچھے اشارہ کیا گیا تھا مندرجہ ذیل ہے: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أُمِرْتُ بِيَوْمِ الْأَضْحَى عِيدًا جَعَلَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ, قَالَ الرَّجُلُ: أَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ أَجِدْ إِلَّا مَنِيحَةً أُنْثَى أَفَأُضَحِّي بِهَا؟ قَالَ: لَا وَلَكِنْ تَأْخُذُ مِنْ شَعْرِكَ وَأَظْفَارِكَ, وَتَقُصُّ شَارِبَكَ وَتَحْلِقُ عَانَتَكَ, فَتِلْكَ تَمَامُ أُضْحِيَّتِكَ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ»)[33](.  
عبداللہ بن عمرو بن عاص tسے مروی ہے کہ نبی e نے فرمایا: «مجھے اضحی کے دن [ذوالحجہ کی دسویں تاریخ] کو عید منانے کا حکم دیا گیا ہے، اللہ تعالی نے یہ دن اس امت کے لئے بنایا ہے، ایک آدمی نے پوچھا کہ آپ مجھے بتایئے کہ اگر میرے پاس عطیہ یا عاریت میں دی ہوئی بکری یا اونٹنی ہو تو بھی کیا میں اس کی قربانی کروں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، بلکہ تم اپنے بال اور ناخن کاٹ لو، اپنی مونچھیں کترلو، اپنے ناف کے نیچے کے بال مونڈلو، یہ اللہ کے نزدیک تمھاری مکمل قربانی ہوجائے گی»۔
 Õ  ذکر الٰہی:
اللہ تعالی کا ارشاد ہے: لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ الحج: ٢٧ – ٢٨ (اپنے فائدے حاصل کرنے کو آجائیں، اور ان مقررہ دنوں میں اللہ کا نام یاد کریں ان چوپایوں پر جو پالتو ہیں، پس تم آپ بھی کھاؤ اور بھوکے فقیروں کو بھی کھلاؤ۔)
عَن ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا مِنْ أَيَّامٍ أَعْظَمُ عِنْدَ اللهِ وَلَا أَحَبُّ إِلَيْهِ الْعَمَلُ فِيهِنَّ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ الْعَشْرِ، فَأَكْثِرُوا فِيهِنَّ مِنَ التَّهْلِيلِ وَالتَّكْبِيرِ وَالتَّحْمِيدِ»([34](.  
عبد اللہ بن عمر t سے روایت ہے کہ نبی e نے فرمایا: «عشرۂ ذوالحجہ اللہ کے یہاں جتنا عظیم ہے اور اس میں کئے گئے عمل صالح اﷲ کو جس قدر زیادہ محبوب ہیں اتنا کسی اور دن میں نہیں، لہذا ان دنوں میں تہلیل وتکبیر اور تحمید زیادہ سے زیادہ کیا کرو»۔
تہلیل کا معنی ہے  لا الہ الا اللہ کہنا، تکبیر کا معنی ہے اللہ اکبر کہنا اور تحمید کا معنی ہے الحمدللہ کہنا۔
عید الاضحی میں چاند دیکھنے یا اس کی اطلاع پانے سے لے کر تیرہ ذوالحجہ کی شام تک کثرت سے بہ آواز بلند تکبیر پکارتے رہنا سنت ہے البتہ عورتوں کو آہستہ اور پست آواز میں تکبیر کہنی چاہئے۔ تکبیر کا صیغہ یہ ہے : اللّٰهُ أَكْبَرُ اللّٰهُ أَكْبَرُ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ ، وَاللّٰهُ أَكْبَرُ اللّٰهُ أَكْبَرُ ، وَلِلّٰهِ الْحَمْدُ
                نافع کی روایت ہے کہ عبد اللہ بن عمرt عید الفطر اور عیدالاضحی کے دن عید گاہ پہنچنے تک تکبیر پکارا کرتے تھے۔عید گاہ پہنچ کر امام کے آنے تک تکبیر کہا کرتے تھے ۔ پھر جب امام آجاتاتو اس کی تکبیر کے ساتھ تکبیر کہتے)[35](۔
                نوٹ: بیک آواز اجتماعی تکبیر بدعت ہے ۔نبیeاور آپ کے صحابہ سے ثابت نہیں۔ درست بات یہ ہے کہ ہرشخص تنہا تنہا الگ آواز میں تکبیر کہے ۔
Ö    تمام اعمال صالحہ:
ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں ہرعمل صالح اللہ کو بہت محبوب ہے جیسا کہ حدیث گذرچکی ہے، چنانچہ سابقہ تمام اعمال کے علاوہ ہروہ عمل جو باعث اجر وثواب ہے ان دنوں میں اس کا اہتمام کرنا چاہئے۔ دعا، توبہ واستغفار، تلاوت قرآن، نبی کریم e پر صلاۃ وسلام، تحصیل علم، دعوت الی اللہ، امر بالمعروف ونہی عن المنکر، انفاق فی سبیل اللہ، صدقہ وخیرات، والدین کے ساتھ حسن سلوک، صلہ رحمی  وغیرہ وغیرہ ۔
×    برائیوں سے دوری:
ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں جس طرح ہرنیکی کا ثواب بڑھ جاتا ہے ایسے ہی گناہوں کا ارتکاب بھی سنگین اور شدید رخ اختیار کرلیتا ہے۔ اس لئے کہ یہ شریعت کا ایک عام قاعدہ ہے کہ فضیلت والے اوقات یا مقامات میں جس طرح نیکیوں کو عظمت حاصل ہوجاتی ہے ایسے ہی گناہوں کا ارتکاب خطرناک ہوجاتا ہے۔
لہذا ایک مسلمان کو ایسے تمام گناہوں اور نافرمانیوں سے بچنا چاہئے جو اﷲ تعالی کے غضب یا لعنت کا باعث ہوں، مثلاً سودخوری، رشوت خوری، زناکاری، چوری، ناحق کسی کا قتل ، یتیموں کا مال کھانا، کسی کی جان اور مال یا عزت وآبرو پر کسی قسم کا ظلم کرنا، معاملات میں فریب اور دھوکادہی کا ارتکاب ، امانتوں میں خیانت، والدین کی نافرمانی ، رشتے توڑنا، بغض وکینہ رکھنا، اﷲ کے حق کے بغیر تعلقات توڑنا اور بات چیت بند رکھنا، سگریٹ نوشی یا تمباکو نوشی ، شراب پینا یا کسی اور نشہ آور چیز کا استعمال کرنا، غیبت و چغلی، جھوٹ بولنااور جھوٹی گواہی دینا، ناحق دعوے کرنا اور جھوٹی قسمیں کھانا، داڑھی مونڈانا یا کتروانا، مونچھوں کو پست کے بجائے لمبی رکھنا، کبروغرور میں مبتلا ہونا، کپڑوں کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانا، گانے سننا اور آلات موسیقی اپنے پاس رکھنا، گندی اور عریاں فلمیں اور مجرمانہ سیریل دیکھنا، تاش اور پتے کھیلنا، عورتوں کا بے پردگی اور کافر عورتوں سے مشابہت اختیار کرنا۔ اور ان کے علاوہ وہ تمام کام جن سے اﷲ اور اس کے رسول نے منع فرمایا ہے۔



مراجع ومصادر
1-       قرآن کریم مع اردو ترجمہ وتفسیر  مطبوعہ شاہ فہد قرآن کریم  پرنٹنگ کمپلیکس، مدینہ منورہ، سعودی عرب۔
2-       الجامع الصحيح للإمام البخاري
3-       الجامع الصحيح للإمام مسلم
4-       السنن الأربعة (الترمذي وأبوداود والنسائي وابن ماجة) مع تخريج الشيخ الألباني
5-       صحيح الجامع الصغير للشيخ الألباني
6-       سلسلة الأحاديث الصحيحة والضعيفة للشيخ الألباني
7-       مسند الإمام أحمد بتحقيق الأرنؤوط
8-       موطأ الإمام مالك
9-       سنن الدارقطني بتحقيق الأرنؤوط
10-  صحيح ابن حبان
11-  المكتبة الشاملة الالكترونية الإصدار 3.47




([1]) یہ حدیث متفق علیہ ہے، اسے امام بخاری اپنی جامع صحیح میں متعدد مقامات پر لائے ہیں،  كتاب الصوم باب صيام يوم عاشوراء (کتاب :36 باب :68 حديث:1897) كتاب التفسير باب سورة البقرة (کتاب :68 باب:2 حديث:4232)  اور امام مسلم نے اسے  كتاب الصيام باب صوم يوم عاشوراء میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :13باب :19 حديث:115-(1125))۔
([2]) یہ حدیث صحیح مسلم میں كتاب الصيام باب أي يوم يصام في عاشوراء (کتاب :13 باب:۲0 حدیث :۱3۳ (۱134)) میں مروی ہے۔
([3])یہ حدیث صحیح مسلم میں كتاب الصيام باب استحباب ثلاثة أيام من كل شهر وصوم يوم عرفة وعاشوراء والاثنين والخميس (کتاب :13 باب :36 حدیث :196 (۱162)) میں مروی ہے۔
([4])یہ حدیث صحیح مسلم میں كتاب الصيام باب فضل صوم المحرم (کتاب :13 باب :38 حدیث:202 (۱163)) میں مروی ہے۔
([5]) ملاحظہ کیجئے تفسیر طبری وابن کثیر وآلوسی وغیرہ۔
([6])یہ حدیث صحیح مسلم میں كتاب صلاة المسافرين وقصرها باب أفضل الصلاة طول القنوت (کتاب :6 باب :22 حدیث :164 (756)) میں مروی ہے۔
([7]) دیکھئے صحیح مسلم معہ شرح نووی ۳/۹۴/1257۔
([8])یہ حدیث صحیح مسلم میں كتاب الصلاة باب ما يقال في الركوع والسجود (کتاب :4 باب :42 حدیث :215 (482)) میں مروی ہے۔
([9])یہ حدیث صحیح مسلم میں كتاب الصلاة باب فضل السجود والحث عليه (کتاب :4 باب:43  حدیث :226 (489)) میں مروی ہے۔
([10])یہ حدیث متفق علیہ ہے، اسے امام بخاری اپنی جامع صحیح میں كتاب التفسير باب سورة المائدة (کتاب:68 باب :5 حديث:4330) میں لائے ہیں، اور امام مسلم نے اسے  كتاب التفسير میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :54 حديث:3-(3017)۔
([11])یہ حدیث صحیح بخاری میں كتاب العيدين باب فضل العمل في أيام التشريق (کتاب :19 باب :11 حدیث :926) میں نیز مسند احمد میں (حدیث : 1968) بہ سند صحیح مروی ہے، واضح رہے کہ مذکورہ الفاظ مسند احمد کے ہیں۔
([12])یہ حدیث مذکورہ الفاظ کے ساتھ مسند بزار (كشف الاستار 2/28، حدیث: 1128) میں ہے اور اسے علامہ البانی سے صحیح قرار دیا ہے۔ [صحیح الجامع الصغیر/حدیث: ۱۱۳۳]
([13])یہ حدیث صحیح مسلم میں كتاب الحج باب في فضل الحج والعمرة ويوم عرفة (کتاب:15 باب:79 حدیث :436 (1348)) میں مروی ہے۔
([14])یہ حدیث صحیح مسلم میں كتاب الصيام باب استحباب ثلاثة أيام من كل شهر وصوم يوم عرفة وعاشوراء والاثنين والخميس (کتاب :13 باب :۳۶ حدیث :۱۹۶ (1162)) میں مروی ہے۔
([15])اس حدیث کو ابوداود(كتاب المناسك, باب من لم يدرك عرفة, کتاب:۵، باب:۶۹، حدیث:۱۹۴۹) ترمذی (كتاب الحج, باب ما جاء فيمن أدرك الإمام بجمع فقد أدرك الحج, کتاب:۶، باب:57، حدیث:814)، نسائی (كتاب مناسك الحج, باب فرض الوقوف بعرفة, کتاب:24، باب:203، حدیث:3016) اور ابن ماجہ (كتاب المناسك, باب من أتى عرفة قبل الفجر, کتاب:25، باب:۵۷، حدیث:3015) نے روایت کیا ہے اور علامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔
([16]) اس حدیث کو امام مالک [موطا، حدیث:500] اور امام ترمذی [کتاب الدعوات، باب فی دعاء یوم عرفہ، حدیث:3509] وغیرہ نے روایت کیا ہے، اور علامہ البانی نے سلسلہ صحیحہ [حدیث:1503] میں اسے ثابت اور صحیح وضعیف ترمذی [حدیث:3585] میں حسن قرار دیا ہے۔
([17])اس حدیث کو امام ابوداود [كتاب المناسك, باب في الهدي إذا عطب قبل أن يبلغ، کتاب:5، باب:19، حدیث:1765] اور امام احمد[حدیث:19098] نے روایت کیا ہے اور اسے امام ابن حبان[صحیح ابن حبان بترتیب ابن بلبان، حدیث:2811] اور علامہ البانی نے [الارواء، حدیث:1958، صحیح الجامع:1944، صحیح ابوداود، حدیث:1549] صحیح قرار دیا ہے۔
([18])یہ حدیث صحیح مسلم میں كتاب الإيمان باب جامع أوصاف الإسلام (کتاب :1 باب:13 حدیث:62 (38)) میں مروی ہے۔
([19])یہ حدیث صحیح مسلم میں كتاب الصيام باب فضل صوم المحرم (کتاب :13 باب:38 حدیث:202 (1163)) میں مروی ہے۔
([20])یہ حدیث متفق علیہ ہے، اسے امام بخاری اپنی جامع صحیح میں كتاب الزكاة باب قول الله تعالى {فأما من أعطى واتقى}. (کتاب:30 باب :26 حديث:1374) میں لائے ہیں، اور امام مسلم نے اسے  كتاب الزكاة باب في المنفق والممسك میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :12 باب:17 حديث:57-(1010)۔
([21]) اس حدیث کو طبرانی نے روایت کیا ہے اور علامہ البانی نے حسن قرار دیا ہے۔ دیکھئے سلسلہ صحیحہ، حدیث:3484۔
([22])یہ حدیث متفق علیہ ہے، اسے امام بخاری اپنی جامع صحیح میں كتاب الصوم باب هل يقول إني صائم إذا شتم (کتاب:36 باب :9 حديث:1805) میں لائے ہیں، اور امام مسلم نے اسے  كتاب الصيام باب فضل الصيام میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :13 باب:30 حديث:161-(1151)۔
([23])اس حدیث کو امام ابوداود [كتاب الصوم, باب في صوم العشر، کتاب:14، باب:62، حدیث:2439] اور امام نسائی [كتاب الصيام, باب صوم النبي صلى الله عليه وسلم، کتاب:22، باب:70، حدیث:2372] اور امام احمد[حدیث:22388] نے روایت کیا ہے اور علامہ البانی نے [ صحیح ابوداود، حدیث:2437، صحیح نسائی، حدیث:2372] صحیح قرار دیا ہے۔
([24])یہ حدیث متفق علیہ ہے، اسے امام بخاری اپنی جامع صحیح میں كتاب الإيمان باب من قال إن الإيمان هو العمل (کتاب:2 باب :16 حديث:26) میں لائے ہیں، اور امام مسلم نے اسے  كتاب الإيمان باب بيان كون الإيمان بالله تعالى أفضل الأعمال میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :1 باب:36 حديث:135-(83)۔
([25]) آج یہ بات جاننے والے کتنے لوگ ہیں کہ ایمان سب سے افضل عمل ہے، یہ سوال [سب سے افضل عمل کونسا ہے؟] میں نے اپنے کئی دروس میں پوچھا ، جواب دینے والوں نے کبھی صلاۃ )نماز( کا نام لیا ، کبھی غریبوں اور مسکینوں پر صدقہ وخیرات کا نام لیا، کبھی کوئی اور جواب دیا، شاید ہی کسی درس میں کوئی خوش نصیب ایسا کھڑا ہوا جو یہ کہے کہ ایمان سب سے افضل عمل ہے۔ اور یہ بات یاد رہے کہ ایمان توحید کے بغیر ناقابل قبول ہے۔ ارشاد باری ہے: ﴿وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف: 106] )ان میں سے اکثر لوگ باوجود اللہ پر ایمان رکھنے کے بھی مشرک ہی ہیں(۔ اور یہ بھی ذہن نشین رہے کہ شرک ہرعمل کو برباد کردیتا ہے حتی کہ ایمان جیسے قیمتی اور افضل عمل کو بھی۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ الزمر: ٦٥ (اور (اے محمدe!) آپ کی  طرف اور ان (پیغمبروں) کی طرف جو آپ سے پہلے ہو چکے ہیں یہی وحی بھیجی گئی ہے کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمہارے عمل برباد ہوجائیں گے اور تم خسارہ اٹھانے والوں میں سے  ہو جاؤ گے)۔
([26])یہ حدیث متفق علیہ ہے، اسے امام بخاری اپنی جامع صحیح میں كتاب الحج باب فضل الحج المبرور (کتاب:32 باب :4 حديث:1449) میں لائے ہیں، اور امام مسلم نے اسے  كتاب الحج باب فضل الحج والعمرة ويوم عرفة میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :15 باب:79 حديث:438-(1350)۔
([27])یہ حدیث متفق علیہ ہے، اسے امام بخاری اپنی جامع صحیح میں أبواب العمرة باب وجوب العمرة وفضلها (کتاب:33 باب :1 حديث:1683) میں لائے ہیں، اور امام مسلم نے اسے  كتاب الحج باب فضل الحج والعمرة ويوم عرفة میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :15 باب:79 حديث:437-(1349)۔
([28])اس حدیث کو امام ترمذی [كتاب الحج, باب ما جاء في ثواب الحج والعمرة، کتاب:7، باب:2، حدیث:738] اور امام نسائی [كتاب مناسك الحج, باب فضل المتابعة بين الحج والعمرة، کتاب:24، باب:6، حدیث:263۱] اور امام احمد[حدیث:3669] نے روایت کیا ہے اور علامہ البانی نے [ صحیح ترمذی، حدیث:810، صحیح نسائی، حدیث:2631] صحیح قرار دیا ہے۔
([29])یہ حدیث متفق علیہ ہے، اسے امام بخاری اپنی جامع صحیح میں أبواب الصلاة في الثياب باب وجوب الصلاة في الثياب (کتاب:9 باب :1 حديث:344) میں لائے ہیں، اور امام مسلم نے اسے  كتاب صلاة العيدين باب ذكر إباحة خروج النساء في العيدين إلى المصلىمیں روایت کیا ہے۔ (کتاب :8 باب:1 حديث:12-(890)۔
([30])اس حدیث کو ابن ماجہ نے  كتاب الأضاحي باب الأضاحي واجبة هي أم لا؟ میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :26 باب:2 حديث:3123(۔ اور علامہ البانی نے حسن قرار دیا ہے۔)صحیح ابن ماجہ، حدیث:3123(
([31])یہ حدیث صحیح مسلم میں كتاب الأضاحي باب نهي من دخل عليه عشر ذي الحجة وهو مريد التضحية أن يأخذ من شعره أو أظفاره شيئا (کتاب :35 باب:7 حدیث:41 (1977)) میں مروی ہے۔
([32])اس حدیث کو ابن ماجہ نے  كتاب الأضاحي باب من أراد أن يضحي فلا يأخذ في العشر من شعره وأظفاره میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :26 باب:11 حديث:3149(۔ اور علامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔)صحیح ابن ماجہ، حدیث:3149(
([33])اس حدیث کو ابوداود نے  كتاب الضحايا باب ما جاء في إيجاب الأضاحي(کتاب :10 باب:1 حديث:2789( اور نسائی نے  كتاب الضحايا باب من لم يجد الأضحية (کتاب:43 باب:2 حديث:4365( میں روایت کیا ہے۔  اور علامہ البانی نے ضعیف قرار دیا ہے۔)ضعیف ابی داود، حدیث:482 (
([34])اس حدیث کو امام احمد نے   روایت کیا ہے۔ (مسند احمد، حديث:6154(۔ اور محقق کتاب شعیب ارناؤط نے صحیح قرار دیا ہے۔
([35])اس حدیث کو امام دارقطنی نے صحیح سند سے روایت کیا ہے۔ (سنن دارقطنی، کتاب العیدین، حديث:4(۔