الاثنين، 22 أبريل 2013

اسلامی حقوق وآداب



آداب إسلامية


اسلامی حقوق وآداب

اعداد:
عبد الہادی عبد الخالق مدنی




قسم البحوث والترجمة - مکتب توعية الجاليات بالاحساء
ص ب ٢٠٢٢ ۔  ہفوف۔  الاحساء ۔  مملکت سعودی عرب





فہرست مضامین

المحتويات
صفحہ
موضوعات
مقدمة
6
پیش لفظ
الأدب مع اﷲعزوجل
8
اﷲتعالیٰ کے حقوق
الأدب مع الرسول r
11
رسول اﷲeکے حقوق
الأدب مع الصحابة y
13
صحابۂکرامyکے حقوق
الأدب مع القرآن
14
قرآن کے حقوق
الأدب مع الوالدين
15
والدین کے حقوق
الأدب مع الأولاد
17
اولاد کے حقوق
الأدب مع النفس
20
نفس کے حقوق
آداب الزوجين
22
میاں بیوی کے حقوق
الأدب مع المسلمين
25
مسلمانوں کے حقوق
الأدب مع الجيران
28
پڑوسی کے حقوق
الأدب مع الأساتذة
30
استاذ کے حقوق
حقوق غير المسلمين
31
غیر مسلموں کے حقوق
الأدب مع الحيوانات
33
حیوانات کے حقوق
آداب طالب العلم
35
آداب طالب علم
آداب المعلم
37
آداب معلم
آداب الغسل
39
آداب غسل
آداب الوضوء والتيمم
41
آداب وضو وتیمم
آداب الصلاة
44
آداب صلاة
آداب المسجد
47
آداب مسجد
آداب الجمعة
49
آداب جمعہ
آداب العيدين
51
آداب عیدین
آداب الدعاء
54
آداب دعا
آداب تلاوة القرآن
57
آداب تلاوت قرآن
آداب الصدقة
60
آداب صدقہ
آداب الأضحية والعقيقة
62
آداب قربانی وعقیقہ
آداب الزيارة
64
آداب زیارت وملاقات
آداب الضيافة
66
آداب ضیافت ودعوت
آداب السلام
68
آداب سلام
آداب دخول المنزل
70
گھر میں داخلہ کے آداب
آداب المجلس
72
آداب مجلس
آداب الحديث
75
آداب گفتگو
آداب اللباس
77
آداب لباس
آداب الأکل والشرب
79
کھانے پینے کے آداب
آداب النوم
82
سونے کے آداب
آداب قضاء الحاجة
85
قضاء حاجت کے آداب
آداب السفر
87
آداب سفر
آداب التجارة
92
آداب تجارت
آداب القرض
94
آداب قرض
آداب المصيبة
96
آداب مصیبت وغم
آداب عيادة المريض
97
آداب عیادت
آداب الجنازة
100
آداب جنازہ
آداب المقبرة
103
آداب قبرستان


بسم اﷲالرحمن الرحیم

پیش لفظ

                قابل ستائش اقوال وافعال اور اعمال وکردار اختیار کرنے کا نام ادب ہے، گویا وہ حسن اخلاق کا ایک ثمرہ ہے۔ درحقیقت ادب ہی وہ قیمتی جوہر اور گراں مایہ گوہر ہے جو انسان کو اخلاق حمیدہ کے اپنانے اور اعمال قبیحہ کے ترک کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ ادب ہی وہ ظاہری دلیل ہے جس کے ذریعہ انسان کی عقلمندی وہوشیاری کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ادب آدمی کو معنوی حسن وجمال عطا کرتا اور اخلاقی زیب وزینت سے مزین کرتا ہے۔ باادب ہر کسی کے نزدیک محبوب ہوتا ہے اور اس کی ہرکوئی ثنا خوانی کرتا ہے اس کے برخلاف بے ادب سے ہرکسی کو صرف گلہ اور شکوہ ہی نہیں بلکہ نفرت وکراہت بھی ہوتی ہے۔
                 دیگر علوم کی بہ نسبت حقوق وآداب کے علم کی اہمیت وضرورت بہت زیادہ ہے؛ کیونکہ اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ بندہ اپنے رب کے ساتھ کیسا معاملہ کرے اور اپنے والدین کے ساتھ کیا طرز عمل اختیار کرے, نیز دیگر صغیر وکبیر کے ساتھ کیا رویہ اپنائے؟ تمام آداب سب کے حقوق جان کر ہی انجام دیئے جاسکتے ہیں۔ اسلام کی شمولیت اس بات کی متقاضی ہے کہ ایسا اہم علمی باب بیان سے تشنہ نہ رہے, چنانچہ کتاب وسنت میں حقوق وآداب کی بڑی تفصیل آئی ہے, اور علمائے کرام نے اس موضوع پر مستقل تصنیفات کی ہیں۔ ہم نے بھی علماء کے اس مبارک کارواں کی ہمرکابی کو اپنے لئے باعث شرف وسعادت سمجھتے ہوئے اس موضوع پر قلم اٹھایا اور الحمد ﷲبتوفیق الٰہی ایک نئے اسلوب اور نئے طرز وانداز سے حقوق وآداب کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ابتدا میں غالباً موضوع سے متعلق چند تمہیدی کلمات لکھے گئے ہیں, پھر واجبات ومستحبات کو اختیار کرنے اور اس کے بعد مکروہات ومحرمات کو چھوڑدینے کی دعوت دی گئی ہے۔ اختصار کی خاطر دلائل ذکر کئے بغیر صرف مسائل کو نقاط کی صورت میں پیش کرنے پر اکتفا کیا گیا ہے۔
                 رب العالمین سے دعا ہے کہ یہ کتاب امت اسلامیہ کی اصلاح کا ذریعہ اور ہمارے لئے ذخیرۂ آخرت اور دارین میں کارآمد بنے۔ آمین
                                                                دعاگو
                                                عبدالہادی عبد الخالق مدنی
                                                    داعی احساء اسلامک سینٹر,ہفوف،
     مملکت سعودی عرب


اللہ تعالیٰ کے حقوق

                اﷲہی ساری کائنات کا خالق، آسمان وزمین کا بنانے والا،ہر چیز کا رب اور مالک ہے۔ وہ تمام قسم کی عظمت وجلال اور کبریائی وکمال سے متصف اور ہر عیب ونقص سے پاک اور مبرا ہے۔وہ بے مثل وبے نظیر،یکتا اور وحدہ لاشریک ہے۔ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ نہ اسے موت آنی ہے اور نہ ہی نیند آتی ہے۔ وہی اول ہے اس سے پہلے کوئی چیز نہ تھی, وہی آخر ہے اس کے بعد کو ئی چیز نہ ہوگی۔اس کی ذات کو فنا نہیں۔ اس کی سلطنت کو انتہا نہیں۔ وہ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے، اس کے چاہے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا,  اس کے فیصلوں کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ کسی کا علم وفہم اور عقل وخرد اس کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ وہی سچا معبود اور بندوں کی ہر عبادت کا تنہا مستحق ہے۔اس کے خزانوں میں خرچ کرنے سے کوئی کمی نہیں ہوتی۔وہ کسی کا محتاج نہیں,  سب اس کے محتاج ہیں۔ کوئی چیز اس سے اوجھل اور مخفی نہیں۔
لہٰذا مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیں :
١۔ اﷲکی عظمت وکبریائی کو اپنے دل میں بٹھائیں اور اس کی کامل توحید کو اپنائیں۔
٢۔اﷲتعالی کے اسماء و صفات اور کمالات کو اس کے شایان شان ثابت کریں اور اس میں کسی قسم کی تاویل وتمثیل اور تحریف وتعطیل نہ کریں۔
٣۔اﷲتعالی کو ہر طرح کی عبادت کا تنہا مستحق جانیں؛ دعا وفریاد، رکوع وسجدہ، ذبح وقربانی، نذر ونیاز صرف اسی کے لئے کریں۔
٤۔ یہ عقیدہ رکھیں کہ اﷲکی ذات ساتوں آسمان کے اوپر اپنے عرش پر مستوی ہے اور اپنی مخلوقات سے الگ اور جدا ہے۔
٥۔ اس کی تقدیر اور اس کے فیصلے پر راضی ہو ں۔ نعمتوں پر شکر اور مصیبتوں میں صبر کریں۔
٦۔ اﷲپر توکل کریں اور اس کے حکم کے مطابق اسباب وذرائع کو استعمال کریں۔
٧۔ اﷲکی واجب کردہ عبادات کو بجالائیں اور اس کے حکموں کی تعمیل کریں۔
٨۔ اﷲکی حلال کردہ چیزوں کو حلال اور حرام کردہ چیزوں کو حرام جانیں۔
٩۔ اﷲکا ذکر کثرت سے کریں اورکھلے چھپے ہر حال میں اس کی نگرانی کا احساس رکھیں۔
١٠۔ اﷲکا تقوی اختیار کریں، اس کے عذاب سے ڈریں اور اس کی جنت کا حرص کریں۔
اورمندرجہ ذیل چیزوں سے پرہیز کریں:
١۔ اﷲکے ہمسر وبرابر کسی اور کو ماننے سے اور اس کی عبادت میں کسی کو کچھ بھی شریک کرنے سے۔
۲۔اللہ کے سوا کسی کو پکارنے یا کسی سے فریاد کرنے یا مدد چاہنے سے؛ یارسول مدد، یا علی مدد، یا غوث مدد کہنے سے، اللہ کے سوا کسی اور کے لئے نذر ونیاز دینے یا ذبح وقربانی کرنے سے۔
٢۔ اﷲکو ہر جگہ موجود اور حاضر رہنے کا عقیدہ رکھنے سے۔
٣۔اﷲکو کسی شکل میں انسانوں کے سامنے ظاہر ہونے کا عقیدہ رکھنے سے۔
٤۔ کسی کو اﷲکا بیٹا یا اﷲکی نسل اور خاندان کا ماننے سے۔
٥۔ اس کے ذکر میں غفلت اور اس کی معصیت اورنافرمانی سے۔
٦۔ اس کی رحمت سے مایوس ہونے سے۔
٧۔ کسی نعمت کے ملنے یا مصیبت کے ٹلنے کو اس کے سوا کسی اور کی جانب منسوب کرنے سے۔
٨۔ غیر اﷲکی قسم کھانے سے۔
٩۔ غیر اﷲکو ملک الملوک یا شہنشاہ کہنے سے۔
١٠۔ زمانہ کو گالی دینے سے کیونکہ گردش زمانہ اﷲکے حکم سے ہے۔



رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق

                محمدe اﷲکے منتخب بندے، آخری رسول، تمام انس وجن کے لئے اﷲکے پیغمبر، متقیوں کے پیشوا، انبیاء اور رسولوں کے سردار،اﷲکے محبوب اور خلیل اور سارے عالم کے لئے رحمت ہیں۔آپ کو اﷲتعالی نے ساری انسانیت کے لئے بشیر ونذیر بنا کر مبعوث فرمایا۔
لہٰذا مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیں :
١۔ آپe سے ایسی محبت کریں جو اپنے جان ومال، اہل وعیال بلکہ دنیا کے تمام لوگوں سے زیادہ ہو۔
٢۔ جب بھی آپ کا نام آئے آپ پر صلاة وسلام پڑھیں یعنی e کہیں۔
٣۔ آپ eکی ذات بابرکات  اور آپe کی احادیث اور سنتوں کی دل سے تعظیم کریں۔
٤۔ جو آپ eسے دوستی رکھے ہم بھی اس سے دوستی رکھیں اور جو آپ سے دشمنی رکھے ہم بھی اس سے دشمنی رکھیں۔
٥۔آپ eکے لائے ہوئے دین وشریعت کو دنیا کے ہر فرد تک پہنچائیں اور آپ کے دین کا کلمہ سربلندکریں۔
٦۔ آپe کے ہر حکم کی اطاعت کریں اور ہر روکی ہوئی چیز سے رک جائیں۔
٧۔ آپe کی تمام خبروں کی تصدیق کریں خواہ ہماری کوتاہ عقل میں سمائے یا نہ سمائے۔
٨۔ آپe کی شریعت کے مطابق ہی اﷲکی عبادت کریں۔
اورمندرجہ ذیل چیزوں سے پرہیز کریں:
١۔آپe کی نافرمانی اور مخالفت سے۔
٢۔ آپ eسے آگے بڑھنے اور آپ کی آواز پر اپنی آواز بلند کرنے سے۔
٣۔ آپe کی ذات میں غلو کرنے اور آپ کی مدح میں مبالغہ کرنے سے۔
٤۔ آپ eکو اﷲکی صفات سے متصف کرنے سے مثلا ً عالم الغیب یا مختارِکل ماننے سے۔
٥۔ آپe کو سید البشر ماننے کے بجائے نوری مخلوق ماننے سے۔
٦۔ آپe کی شریعت میں بدعتیں ایجاد کرنے یا ایجاد شدہ و خود ساختہ بدعتوں پر عمل کرنے سے۔
٧۔ آپe کے قول وفعل وتقریر اور دین وشریعت کے مقابلہ میں کسی اور کا قول وفعل پیش کرنے سے۔

صحابۂکرام رضی اللہ عنہم  کے حقوق

                صحابۂکرام y نبی eکی صحبت کے لئے اﷲکی جانب سے منتخب کئے گئے تھے۔ اﷲتعالی نے قرآن مجید میں ان کی مدح وثنا فرمائی ہے۔ ان کی محبت دین وایمان اور ان سے بغض کفر ونفاق ہے۔
لہٰذا مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیں :
١۔ صحابۂکرام y  سے محبت کریں اور ان کا نام آنے پر رضی اﷲعنہ کہیں۔
٢۔ یہ عقیدہ رکھیں کہ صحابہ جملہ اہل ایمان واسلام سے  افضل ہیں۔ یاد رکھیں کہ ایک ادنی صحابی بعد میں آنے والے ہر بڑے سے بڑے امام اور ولی اور نیک وصالح بندے سے افضل ہے۔
٣۔ان میں سے ہر ایک کے ثابت فضائل ومناقب کا اقرار واعتراف کریں۔ذہن نشین رہے کہ ان میں سب سے افضل ابوبکر t  ہیں, پھر عمر t , پھر عثمان t , پھر علیt , پھر بقیہ عشرۂ مبشرہ y , پھر اصحاب بدر y , پھر اہل بیعت رضوان y ,  پھر بقیہ صحابہ y  ہیں۔
٤۔ ان کے بارے میں یہ حسن ظن رکھیں کہ اﷲ تعالی انھیں ضرور جنت میں داخل کرے گا۔
٥۔ ان کے بارے میں یہ عقیدہ رکھیں کہ دین کی تبلیغ میں انھوں نے کوئی کوتاہی نہیں کی۔
٦۔ ان کے لئے دعائے مغفرت کریں۔
اورمندرجہ ذیل چیزوں سے پرہیز کریں:
١۔ صحابہy  کے آپسی اختلافات اور باہمی نزاعات کے تذکرہ سے۔
٢۔ انھیں برا بھلاکہنے اور عیب گیری کے ساتھ نشانہ بنانے اور ان پر تہمتیں لگانے سے۔
٣۔ ان کے بارے میں کوئی ایسی بات کہنے سے جس سے ان کی توہین یا تنقیص ہوتی ہو۔
٤۔ بعض صحابۂ کرام y کو غیر فقیہ کہنے سے۔
٥۔ نعوذ باﷲصحابہ پر ارتداد کا الزام لگانے سے۔



قرآن کے حقوق (آداب تلاوت صفحہ57  دیکھئے)


والدین کے حقوق

                والدین انسان کے وجود کا ذریعہ ہیں، بچپن میں انھوں نے ہی اس کی دیکھ بھال اور پرورش کی ہے۔ اﷲتعالیٰ نے اپنی توحید کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔ والدین میں ماں کا درجہ باپ پر مقدم ہے؛ کیونکہ پیدائش میں ماں نے زیادہ تکلیفیں برداشت کی ہیں۔ ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے۔
لہٰذا مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیں :
١۔والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں۔
٢۔ اپنی طاقت بھر ان کے ساتھ ہر نیکی اوربھلائی کریں۔
٣۔ ان کے ساتھ ہمیشہ نرمی کا برتاؤ کریں، ان کے سامنے نیچا بن کر رہیں اور ان کی آواز سے اپنی آواز پست رکھیں۔
٤۔ان کی عزت وتوقیر ملحوظ رکھیں اور ان کی رضا اور خوشی کی تلاش میں رہا کریں اور ان کی ہرجائز بات میں فرماں برداری کریں۔
٥۔ ان کے لئے ہمیشہ غائبانہ طور پر دعا کرتے رہیں۔  «رَبِّ ارْحَمْهُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْراً » ان کے لئے بہترین دعا ہے۔
٦۔ دل وزبان سے ان کے حقوق کا اعتراف کریں۔
٧۔ ان سے دعائیں لیا کریں۔
٨۔ ان کے دوستوں کی عزت کریں۔
٩۔ ان کی وجہ سے قائم رشتوں کو جوڑیں اور صلہ رحمی کریں۔
١٠۔ لوگوں سے ان کے کئے ہوئے وعدے ان کی وفات کے بعد بھی پورے کریں۔
اورمندرجہ ذیل چیزوں سے پرہیز کریں:
١۔ والدین کی نافرمانی اور ان کی ایذا رسانی سے۔
٢۔ ان کی ناراضگی اور ناخوشی سے۔
٣۔ اپنی بیوی اور اولاد کو ان پر فوقیت دینے سے۔
٤۔ ان کی بددعا سے۔
٥۔ ان کو گالی دینے، برا بھلا کہنے، ڈانٹنے ڈپٹنے اور جھڑکنے سے۔
٦۔ ان کو گالی دلانے کا سبب بننے سے، بایں طور کہ آپ کسی کے ماں باپ کو گالی دیں تو وہ پلٹ کر آپ کے ماں باپ کو گالی دے۔
٧۔ ان کی کسی بات پر ''اُف'' یا ''ہشت'' یا ''ہونہہ'' کہنے سے۔


اولاد کے حقوق

                اولاد اﷲکی عظیم نعمت ہیں۔وہ اپنے والدین کا وارث، ان کی آرزوؤں، تمناؤں اور منصوبوں کی تکمیل کا ذریعہ اور بڑھاپے کا سہارا ہیں۔ ان کی بہتر تعلیم وتربیت ایک کامیاب معاشرے کی تشکیل کے لئے ازحد ضروری ہے۔ انسان اپنی موت کے بعدبھی  ان کی دعاؤں سے مستفید ہوتا ہے۔
لہٰذا مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیں :
1۔ان کے بہتر نام رکھیں اور پیدائش کے ساتویں دن ان کا عقیقہ کریں۔
2۔ ان کے نیک اور صالح ہونے کی دعا کریں۔
3۔ دستور کے مطابق ان کا خرچ ادا کریں۔
4۔ ان کی حفاظت کریں، ان پر توجہ دیں، ان کی نگرانی رکھیں اور وہ جس مقصد کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اس کے لئے انھیں تیار کریں۔
5۔ ان کے ساتھ عدل وانصاف کا معاملہ کریں۔
6۔ ان کے ساتھ شفقت ونرمی کا برتاؤ کریں اور مفید چیزوں کی طرف ان کی رہنمائی کریں۔
7۔ ان کی عمدہ تعلیم وتربیت کا انتظام کریں اور ان کی جسمانی اور روحانی صحت وتندرستی کا خیال رکھیں۔
8۔ بیمار ہونے پر ان کا علاج کرائیں۔
9۔ ان کے لئے اچھی صحبت اور اچھا ماحول مہیا کریں۔
10۔ بری صحبت سے ان کی حفاظت کریں۔
١1۔ ان کے لئے اچھا اسوہ اور نمونہ پیش کریں۔
١2۔ سات سال کے ہوجائیں تو ان کو صلاة کا حکم دیں اور دس سال کے ہوجائیں تو اس پر سزادیں۔
١3۔ دس برس کی عمر ہوجانے کے بعد ہر ایک کے لئے الگ الگ مستقل بستر کا انتظام کریں۔
١4۔ بالغ اور جوان ہونے کے بعد ان کا نکاح کردیں۔
اورمندرجہ ذیل چیزوں سے پرہیز کریں:
١۔ ان کی تعلیم وتربیت میں غفلت وکوتاہی سے۔
٢۔ان کو بے جا سزا دینے سے۔
٣۔ کسی ایک کو یا سب کو وراثت سے محروم کرنے سے۔
٤۔ ان کے درمیان عدل وانصاف نہ اپنانے سے۔
٥۔ بالغ ہونے کے بعد ذاتی اغراض ومصالح کی بنیاد پر شادی نہ کرانے سے۔

نفس کے حقوق

اپنے نفس کے تعلق سے مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیں:
١۔ اپنے آپ کو ایسے اخلاق وآداب کا پابند بنائیں جس سے اﷲاور اس کے بندوں کے یہاں عزت کے مستحق ہوں۔
٢۔ نیک کاموں کا عادی بنیں اور کثرت سے توبہ واستغفار کریں۔
٣۔ ہمیشہ اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہیں کہ وہ احکام الٰہی کا کس قدر پابند ہے اور اس سے کتنی کوتاہی ہورہی ہے۔
٤۔ ہمت وحوصلہ ہمیشہ بلند رکھیں۔بلندیوں اور اعلی کارناموں پر اپنی نگاہ رکھیں۔ اﷲسے مدد طلب کرکے ہر مفید کام کا بیڑا اٹھائیں اور عاجز وکاہل نہ بنیں۔
٥۔ اپنے نفس کے تزکیہ واصلاح اور اس کی صفائی وستھرائی کا خیال رکھیں۔
٦۔ اپنے کپڑے صاف ستھرے رکھیں۔
٧۔اپنی مونچھیں کتروائیں اور داڑھی بڑھائیں۔
٨۔ بالغ ہونے پر شادی کریں۔
٩۔ اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت کرکے انھیں اپنے لئے صدقۂ جاریہ بنائیں۔
اور مندرجہ ذیل چیزوں سے پرہیز کریں:
١۔ ایسے اخلاق وکردار سے جو نفرت وحقارت کا سبب ہیں۔
٢۔ گندے اور فاسد عقائد نیز ناجائز اقوال وافعال سے۔
٣۔ چالیس دنوں سے زیادہ بغل کے بال، موئے زیر ناف اور ناخن کو  چھوڑدینے سے۔
٤۔ داڑھی اور سر کے سفید بال اکھاڑنے سے۔
٥۔ صرف ایک پیر میں جوتا یا موزا پہن کر چلنے سے۔
٦۔ اپنے منہ سے خود بخود اپنی تعریف کرنے سے۔
٧۔ اپنے نفس کو خبیث اور برا بھلا کہنے سے۔
٨۔ پست وحقیر اور معمولی چیزوں پر قناعت کرنے سے۔
٩۔ کسی مخلوق کے سامنے بلاوجہ دست سوال دراز کرکے اپنے نفس کو ذلیل کرنے سے۔


میاں بیوی کے حقوق

                شوہر بیوی انسانی سماج کی بنیادی اینٹ ہیں، ان کی اصلاح سنہرے مستقبل کی ضمانت ہے۔
لہذا مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیں:
١۔میاں بیوی دونوں ایک دوسرے کی غلطیوں اور لغزشوں پر چشم پوشی کریں۔
٢۔ دکھ سکھ میں ایک دوسرے کے شریک رہیں۔
٣۔ اﷲکی اطاعت کے لئے باہمی نصیحت اور تاکیدکریں۔
٤۔رازوں کی حفاظت کریں۔
٥۔جنسی حقوق کی ادائیگی کریں۔
٦۔ ایک دوسرے کے لئے بناؤ سنگار کریں۔
٧۔ شوہربیوی کا مہر ادا کرے۔
٨۔بیوی کا نان ونفقہ ادا کرے۔
٩۔بیوی کو رہائش مہیا کرے۔
١٠۔بیوی کی تعلیم وتربیت کا انتظام کرے۔
١١۔بیوی کی عزت وناموس کی حفاظت کرے۔
١٢۔ بیوی کے ساتھ بھلے انداز میں زندگی بسر کرے۔
١٣۔بیوی کو اپنے ساتھ رکھے۔
١٤۔ بیوی کی نافرمانی پر اس کی تنبیہ کرے۔
١٥۔بیوی شوہر کی فرماں برداری کرے۔
١٦۔ شوہر کے مال کی حفاظت کرے۔
١٧۔شوہر کی شکر گذار رہے۔
١٨۔ شوہر کی خدمت کرے۔
١٩۔ شوہر کے والدین اور بہنوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے۔
٢٠۔اولاد کی رضاعت اور پرورش کرے۔
٢١۔صبر وشفقت کے ساتھ ان کی تربیت کرے۔
٢٢۔ دین وآبرو کی حفاظت کرے۔
٢٣۔شوہر کے احساس وشعور کی رعایت کرے، اس کی مرضی کے کام کرے اور اس کے ناپسندیدہ کاموں سے دور رہے۔
اورمندرجہ ذیل چیزوں سے پرہیز کریں:
١۔مذموم غیرت سے۔
٢۔ عورت کی غلطیوں کی تلاش میں رہنے سے۔
٣۔ حیض یا نفاس کی حالت میں ہمبستری کرنے سے۔
٤۔ پاخانہ کے راستے ہمبستری کرنے سے۔
٣۔ شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نکلنے سے۔
٤۔شوہر کی اجازت کے بغیر نفلی صوم رکھنے سے۔
٥۔ شوہر کی اجازت کے بغیر کسی غیر محرم سے بات کرنے سے یاکسی کو گھر میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے۔
٦۔ شوہر کی طاقت اور اپنی ضرورت سے زیادہ کا مطالبہ کرنے سے بلکہ قناعت پسند اور کفایت شعار ہونا چاہئے۔
[اس موضوع کی تفصیلات جاننے کے لئے ہماری کتاب(میاں بیوی کے حقوق ) کا مطالعہ کریں]


مسلمانوں کے حقوق

                تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی اور ایک جسم کی مانند ہیں کہ اگر ایک عضو کو تکلیف پہنچ جائے تو پورا بدن درد وبخار سے تڑپ جاتا ہے۔ اسلامی اخوت کا رشتہ نسبی اخوت سے زیادہ قوی اور مستحکم ہوتا ہے۔
لہٰذا مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیں :
١۔ ملاقات کے وقت آگے بڑھ کر سلام کریں اور سلام کا جواب دیں۔
٢۔ خندہ پیشانی سے ملیں اور اچھے اخلاق کا مظاہرہ کریں۔
٣۔دعوت قبول کریں۔
٤۔ ہر مسلمان کی ہمدردی وغمخواری اور خیرخواہی کریں۔
٥۔ اگر ایک مسلمان بھائی کسی معاملہ میں قسم کھالے تو اس کی قسم پوری کریں بشرطیکہ اس میں کوئی ناجائز بات نہ ہو۔
٦۔اس کو اپنے ہاتھ اور اپنی زبان سے محفوظ رکھیں۔
٧۔ اس کا تذکرہ ہمیشہ اچھائی کے ساتھ کریں۔
٨۔ اگر بڑا ہے تو عزت وتوقیر کریں اور اگر چھوٹا ہے تو رحم وشفقت کریں۔
٩۔چھینکے اور اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ کہے تو جواب میں یَرْحَمُكَ اللّٰهُ کہیں۔
١٠۔بیمار ہونے پر عیادت کریں اور شفا کی دعا کریں۔
١١۔ وفات ہونے پر جنازہ میں شرکت کریں۔
١٢۔ اس سے اﷲکے لئے محبت کریں۔
١٣۔ اس کی غلطی معاف کریں، اس کے عیوب کی پردہ پوشی کریں اور کوئی ایسی بات سننے کی کوشش نہ کریں جس کو وہ چھپارہا ہو۔
١٤۔ اس کے لئے بھی وہی پسند کریں جو خود اپنے لئے پسند کرتے ہیں۔
١٥۔ اس کے لئے اور اس کی اولاد کے لئے دعائے خیر کریں۔
١٦۔ اس کے حالات دریافت کرتے رہیں اور ضرورت پر تعاون اور مددکریں۔
١٧۔ اسے نیکیوں کا حکم دیں اور برائیوں سے روکیں۔
اورمندرجہ ذیل چیزوں سے پرہیز کریں:
١۔اس کے سودا پر سودا کرنے اور اس کے پیغام نکاح پر پیغام دینے سے۔
٢۔ اسے تکلیف اور ضرر پہنچانے سے۔
٣۔اس پر ظلم کرنے، اسے حقیر سمجھنے اور اسے بے سہارا چھوڑنے سے۔
٤۔ اس کی طرف کسی ہتھیار (تلوار،تیر، بندوق، خنجر وغیرہ) سے اشارہ کرنے سے چاہے قصداً ہو یا مذاق کے طور پر۔ ایسا کرنا حرام ہے۔
٥۔ اس کے ساتھ تین دن سے زیادہ بات چیت بند کرنے سے۔
٦۔ اس کی غیبت وچغلی کرنے، اس کا مذاق اڑانے اور برے القاب دے کر پکارنے سے۔
٧۔ کسی مسلمان کو اے کافر، اے یہودی، اے نصرانی وغیرہ کہہ کر پکارنے سے۔
٨۔ اسے گالی دینے اورناحق برا بھلا کہنے سے چاہے زندہ ہو یا مردہ۔
٩۔اس سے حسد کرنے، بدگمانی کرنے، بغض ونفرت رکھنے اور اس کی جاسوسی کرنے سے۔
١٠۔ اس کے ساتھ دھوکا اور خیانت کرنے سے۔
١١۔ وعدہ خلافی اور قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول سے۔
١٢۔ لوگوں کے سامنے نصیحت کرکے شرمندہ کرنے سے۔
١٣۔ اس کی غیر موجودگی میں اس کے گھر جانے سے۔
١٤۔ اس کی وفات کے بعد اسے گالی دینے اور برا بھلا کہنے سے اگر چہ وہ اپنی زندگی میں برا رہا ہو۔


پڑوسی کے حقوق

                اچھا پڑوسی گھر کی زینت ہے, اور برا پڑوسی دن کا چین اور راتوں کا سکون غارت کردیتا ہے, اسی لئے انسان کو گھر سے پہلے پڑوس دیکھنا چاہئے۔
لہٰذا مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیں :
١۔پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں۔
٢۔ اس کے ساتھ نرمی اور خوش اخلاقی کا رویہ اپنائیں۔
٣۔ اس کو تحفہ تحائف دیں۔
٤۔ اس کی ضرورت میں اس کے کام آئیں۔
٥۔ اس کی دعوت قبول کریں۔
٦۔ خوشی کا موقع آئے تو مبارکباد دیں اور مصیبت زدہ ہوجائے تو تسلی دیں۔
٧۔ مریض ہونے پر اس کی عیادت کریں اور وفات ہونے پر جنازہ میں شریک ہوں۔
٨۔ اگر اس کے گھر میت ہوجائے تو کھانا بھیجیں۔
٩۔ اگر کوئی مشورہ چاہے تو خیرخواہانہ مشورہ دیں۔
١٠۔ اس کی غیر حاضری میں اس کی عزت وآبرو کی حفاظت کریں اور اس کا دفاع کریں۔
١١۔ اس کے عیوب اور شرم والی چیزوں سے چشم پوشی کریں۔
١٢۔ پڑوسی کے قریب والی جگہ کو فروخت کرنے یا کرایہ پر دینے سے پہلے اسے بتائیں اور اس سے مشورہ لیں۔
١٣۔ اگر برے پڑوسی سے پالا پڑجائے تو اس کی اذیتوں پر صبر کریں۔
اورمندرجہ ذیل چیزوں سے پرہیز کریں:
١۔اس کواپنے ہاتھ یا زبان سے تکلیف اور اذیت پہنچانے سے۔
٢۔ اس کے اہل وعیال کے ساتھ خیانت سے۔
٣۔ اس کے عیوب کی تلاش میں رہنے سے۔
٤۔ اس کی برائیوں کو ادھر ادھر بیان کرنے سے۔
(پڑوسی کے حقوق سے متعلق مزید تفصیل کے لئے ہماری کتاب "شرح اربعین نووی" میں حدیث نمبر ۱۵ کی شرح ملاحظہ کریں)


استاذ کے حقوق

                 تعلیم وتزکیہ کار انبیاء ہے اور استاذ انسان کے مستقبل کا معمار ہے۔ کوئی احسان شناس طالب علم استاذ کے حقوق کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔
لہٰذا مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیں :
١۔استاذ کی عزت اور اس کا احترام کریں۔
٢۔غائبانہ طور پر اس کے لئے دعائیں کریں۔
٣۔اس کے علم سے استفادہ اور اس کی تربیت کے مطابق عمل کے حریص رہیں۔
٤۔ استاد کی سخت گیری اور بداخلاقی پر صبر کریں۔
٥۔ استاذ کا ذکر خیر کرتے رہیں اور جب اس سے سیکھے ہوئے کسی مسئلہ کا ذکرکریں تو اس کو اسی کی طرف منسوب کریں۔
٦۔ استاذ کے خلاف اگر کوئی بدگوئی کرے تو اس کا دفاع کریں۔
اورمندرجہ ذیل چیزوں سے پرہیز کریں:
١۔ استاذ کی خامیوں اور غلطیوں کی تلاش میں رہنے سے۔
٢ اس کا راز فاش کرنے اور اس کی غیبت یا چغلی کرنے سے۔
٣۔ اسے کسی قسم کی تکلیف پہنچانے سے۔
٤۔ اس سے لغو قسم کے سوالات کرنے سے۔
٥۔ اس سے بطور امتحان کوئی سوال پوچھنے سے۔
غیر مسلموں کے حقوق
                 اہل اسلام کا عقیدہ ہے کہ اسلام کے سوا تمام ادیان ومذاہب باطل ہیں اور صرف اسلام ہی دین برحق ہے۔ اسلام کے ماننے والے مسلمان اور نہ ماننے والے کافر یا غیر مسلم کہلاتے ہیں۔
لہذا مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیں:
١۔ کافر کا کفر پر باقی رہنا پسند نہ کریں کیونکہ کفر کو پسند کرنا بھی کفر ہے۔
٢۔ کافر کو دین حق سمجھائیں اور اسے سچائی کی دعوت دیں۔
٣۔ کافر سے بغض رکھیں کیونکہ وہ اﷲکے یہاں مبغوض ہے اور ایک مسلمان کی محبت اور بغض اﷲکے لئے اور اﷲکے حکم کے مطابق ہوتی ہے۔
٤۔ کافر سے جگری دوستی اور دلی محبت نہ رکھیں۔
٥۔ اگر کافر مسلمانوں کے ساتھ حالت جنگ میں نہ ہو تو اس کے ساتھ عدل وانصاف اور نیکی کا برتاؤ کریں۔
٦۔ انسانی معاملات میں کافروں کے ساتھ بھی مہربانی کا برتاؤ کریں۔ بھوکے کو کھانا کھلائیں، پیاسے کو پانی پلائیں، بیمار کا علاج کرائیں اور اسے تکلیف پہنچانے سے پرہیز کریں۔
٧۔ کافروں کو تحفے تحائف دینے اور ان کے تحفے قبول کرنے دونوں جائز ہیں۔
٨۔ کافر چھینک مارے اور «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ» کہے تو مسلمان جواب میں کہے: «یَهْدِیْکُمُ اللّٰہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ» (اﷲتمھیں ہدایت دے اور تمھارے حال کو درست کرے)
٩۔ اگرکوئی کافر سلام کرے تو جواب میں  وَعَلَیْکُم کہیں۔
اور مندرجہ ذیل چیزوں سے پرہیز کریں:
١۔ کسی کافرکی جان ومال اور اس کی عزت وآبرو پر حملہ کرنے سے اگر وہ مسلمانوں کے ساتھ حالت جنگ میں نہ ہو۔
٢۔ کافروں کا ذبیحہ کھانے سے البتہ یہودی اور نصرانی کافر کا ذبیحہ کھانا جائز ہے۔
٣۔ کسی کافر لڑکی کے ساتھ نکاح کرنے سے البتہ یہودی اور نصرانی (عیسائی) لڑکی سے نکاح کرنا جائز ہے۔
٤۔ کسی مسلمان عورت کو کسی بھی کافر مرد سے نکاح کرنے سے کیونکہ ایسا کرنا حرام ہے۔
٥۔ کسی کافر کو سلام میں پہل کرنے سے۔
٦۔ کافروں کی مشابہت اختیار کرنے سے مثلاً داڑھی منڈانے اور مونچھیں بڑھانے سے کیونکہ ایسا کرنا کافروں کا شیوہ ہے۔

حیوانات کے حقوق

                حیوانات انسانوں کے لئے اﷲکی جانب سے مسخر اور تابع ہیں۔ ان کے ذریعہ زندگی کے بہت سے کام انجام پاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ زینت کا کام دیتے ہیں، کچھ سواری کا اور کچھ ہماری خوراک بنتے ہیں۔
لہٰذا مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیں :
١۔ ان کے ساتھ رحم وشفقت کا برتاؤ کریں۔
٢۔ان کی خوراک اور پانی کا وافر انتظام کریں۔
٣۔ اگر موذی جانور ہے تو اسے قتل کریں جیسے کتا، بھیڑیا، سانپ، بچھو،چوہا، چیل اور کوا وغیرہ۔
٤۔ جانوروں کو قتل یا ذبح کرتے ہوئے ان کو راحت وآرام پہنچائیں، چھری خوب تیز رکھیں اور ذبح کے آداب کا پورا خیال رکھیں۔
٥۔ جب جانوروں کی تعداد نصاب زکاة کو پہنچ جائے تو ان کی زکاة ادا کریں۔
اورمندرجہ ذیل چیزوں سے پرہیز کریں:
١۔ ان کو بلاوجہ مارنے، بھوکا پیاسارکھنے اور ان پر طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالنے سے۔
٢۔ ان کو ذبح کرنے کے لئے ان کے سامنے چھری تیز کرنے اور ایک  کے سامنے دوسرے کو ذبح کرنے سے۔
٣۔ مریض جانور کو ذبح کرکے اس کا گوشت کھانے سے۔
٤۔ چیونٹی اور دیگر کیڑوں مکوڑوں اور جانوروں کو آگ میں جلانے سے۔
٥۔ انھیں بلا ضرورت آگ سے داغنے اور ان کی شکل بگاڑنے سے۔
٦۔ ان کے معاملات میں اس قدر مشغول ہونے سے کہ اﷲکی اطاعت اور اس کے ذکر سے غافل ہوجائیں۔


آداب طالب علم

                علم کا طلب کرنا ہر مسلمان مرد وعورت پر فرض ہے۔ اہل علم اور بے علم دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔ علم اور ایمان کی بدولت اﷲتعالی درجے بلند فرماتا ہے۔ علم وحکمت ایک قابل رشک چیز ہے۔ علم کی تلاش میں نکلنے سے جنت کی راہ آسان ہوجاتی ہے اور علم کا فائدہ مرنے کے بعد بھی باقی رہتا ہے۔
لہٰذا مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیں :
١۔ اخلاص کے ساتھ علم طلب کریں اور اپنے قول و عمل اور طلب علم کے ذریعہ اﷲکی رضا مقصود رکھیں۔
٢۔ عمدہ اخلاق و آداب سے آراستہ وپیراستہ ہوں۔
٣۔ علم حاصل کرنے کے حریص رہیں اور اپنے سے بڑے اور چھوٹے سب سے علم حاصل کریں۔
٤۔ دھیرے دھیرے تھوڑا تھوڑا علم سیکھیں تاکہ ثابت اورمستحکم ہوتا جائے۔
٥۔ علم توحید جو سب سے زیادہ ضروری اور سب سے زیادہ نفع بخش ہے اسے سب سے پہلے حاصل کریں۔
٦۔ اپنی ہمت بلند رکھیں اور چند مسائل کی تحصیل پر قناعت نہ کریں۔
٧۔ اپنے علم پر عمل کریں ورنہ علم ساتھ چھوڑ کر رخصت ہوجائے گا۔
٨۔ تعلیم حاصل کرنے کے لئے اچھے، باصلاحیت اور دیندار اساتذہ کا انتخاب کریں۔
٩۔ اساتذہ کے حقوق  (دیکھئے صفحہ 30)  کا خیال رکھیں۔ ان کا احترام کریں، ان کی خدمت کریں اور ان کے احسان مند رہیں۔
١٠۔ درسگاہ میں بیٹھتے ہوئے آداب مجلس (دیکھئے صفحہ72) کا خیال رکھیں۔
١١۔ علمی کتابیں خرید کر اپنے پاس رکھیں۔
١٢۔ اگر کسی سے عاریت پر کتاب لیں تو جلد از جلد واپس کردیں اور عاریت دینے والے کا شکریہ ادا کریں نیز اسے دعا دیں۔
اورمندرجہ ذیل چیزوں سے پرہیز کریں:
١۔ ضرر رساں علوم مثلاً سحر، علم نجوم اور دست شناسی وغیرہ سیکھنے سے کیونکہ یہ علوم انسان کو کفر تک پہنچادیتے ہیں۔
٢۔ علم سیکھنے میں حیا یا تکبر کرنے سے۔
٣۔ حسد، خود پسندی اور تکبر وغرور سے۔
٤۔ شرک وبدعت پر مشتمل کتابیں پڑھنے سے۔
٥۔ حیاسوز، عریاں، فحش اور بیہودہ ناولیں اور میگزینیں پڑھنے سے۔
٦۔ کتاب وسنت کا علم حاصل کرنے میں کوتاہی وسستی سے۔
٧۔ علم حاصل کرنے میں محنت کرنا کل پر ٹالنے سے۔
٨۔ معمولی بیماری کی بنا پر سبق سے غائب ہونے سے۔

آداب معلم

                امت مسلمہ کو تعلیم وتربیت دینا فرض کفایہ ہے۔ اﷲکے جو بندے یہ کام انجام دے رہے ہیں وہ بقیہ امت کو گنہگار ہونے سے بچار ہے ہیں نیز امت کو اس کی ذمہ داریوں سے سبکدوش کررہے ہیں۔
لہٰذا مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیں :
١۔ امت کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کا پورا احساس رکھیں۔
٢۔ اخلاص کے ساتھ اپنا عمل انجام دیں۔
٣۔ خوش اخلاقی کو اپنا شعار بنائیں۔جود وکرم، چہرے پر شگفتگی، صبر وتحمل، تقویٰ وطہارت، سکون ووقار اور تواضع وغیرہ کو اپنائیں۔
٤۔ ہمیشہ پڑھنے پڑھانے، مطالعہ وتحقیق اور تصنیف وتالیف میں مشغول رہیں۔
٥۔ اپنے طلبہ کو علم اور علماء کے فضائل ذکر کرکے علم حاصل کرنے کی ترغیب دیتے رہیں نیز انھیں آداب طالب علم اختیار کرنے کی نصیحت کرتے رہیں۔
٦۔ طلبہ کے ساتھ لطف ونرمی اور شفقت وکرم کا رویہ اپنائیں۔
٧۔ طلبہ کی استطاعت وصلاحیت کے لحاظ سے ان پر مشقت ڈالے بغیر انھیں فائدہ پہنچائیں۔
٨۔ کوئی مسئلہ معلوم نہ ہونے کی صورت میں واضح طور پر کہہ دیں کہ میں نہیں جانتا۔
٩۔ طلبہ کا امتحان لیا کریں اور جو اچھے طلبہ ہوں ان کی تعریف کیا کریں اور ان کے حوصلے بڑھایا کریں۔
اور مندرجہ ذیل چیزوں سے پرہیز کریں:
١۔ تعلیم دینے کا مقصد دنیوی مال ومتاع، قدر ومنزلت، نام ونمود اور شہرت وغیرہ رکھنے سے۔
٢۔ کسی کے ہدیہ وتحفہ اور نرمی وخدمت وگذاری کی لالچ رکھنے سے۔
٣۔ حسد،خود پسندی، کبروغرور اور دوسروں کی تحقیر سے۔
٤۔ صلاحیت کے بغیر تعلیم وتدریس اور ترجمہ وتصنیف سے۔
٥۔ تعلیم کے دوران اپنی آواز بہت بلند یا بہت پست رکھنے سے۔
٦۔ طلبہ کو برے نام یا القاب دینے سے۔


آداب غسل

                حدث اکبر سے طہارت کے لئے غسل ضروری ہے۔ غسل کے بغیر تلاوت قرآن، مس مصحف، مسجد میں داخلہ اور صلاة کی ادائیگی ممنوع ہے۔ پانچ اوقات میں غسل واجب ہے:
                j  جماع کے بعد خواہ منی کا انزال ہو یا نہ ہو۔
                k  نیند کی حالت میں منی نکل جانے سے۔
                l  حیض(ماہواری) اور نفاس کا خون بند ہوجانے کے بعد۔
                m  اسلام قبول کرنے کے بعد۔
                n  موت ہوجانے کے بعد۔
غسل کرتے ہوئے مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیں:
١۔ غسل سے پہلے دل میں طہارت کی نیت کریں۔
٢۔ بسم اﷲپڑھ کر غسل شروع کریں۔
٣۔ پہلے بدن پر لگی ہوئی گندگی صاف کریں۔
٤۔ پھر برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے دونوں ہتھیلیوں کو صاف دھولیں۔
٥۔ پھر وضو کریں۔
٦۔ پھر جسم کے تمام حصوں تک پانی پہنچائیں۔
٧۔ وضو کے ساتھ ہی پیر دھوئیں یا غسل مکمل کرنے تک انھیں موخر کردیں، دونوں جائز ہیں۔
اور مندرجہ ذیل باتوں سے پرہیز کریں:
١۔ پانی بے جا ضائع کرنے سے۔
٢۔ پردہ کے بغیر کھلی جگہ میں نہانے سے۔
٣۔ ٹھہرے ہوئے پانی میں نہانے سے۔


آداب وضو وتیمم

                طہارت نصف ایمان ہے، طہارت کے بغیر کوئی صلاة اﷲکے یہاں مقبول نہیں، حدث ہوجانے پر وضو یا تیمم کرنا ضروری ہے۔
لہٰذا مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیں:
١۔وضو سے پہلے دل میں نیت کریں۔
٢۔ بسم اﷲکہہ کر وضو شروع کریں۔
٣۔ اپنی دونوں ہتھیلیوں کو تین بار دھوئیں۔
٤۔ پھر کلی کریں اور ناک میں پانی ڈال کر اسے صاف کریں۔
٥۔ پھر چہرہ دھوئیں (چہرہ کے حدود لمبائی میں سرکے بالوں سے ٹھوڑی کے اختتام تک اور چوڑائی میں ایک کان کی جڑ سے دوسرے کان کی جڑ تک ہیں)۔
٦۔ داڑھی کا خلال کریں یعنی گھنی ہو تو انگلیاں ڈال کر اندر تک پانی پہنچائیں۔
٧۔ پھر پہلے دائیں پھر بائیں ہاتھ کو کہنیوں سمیت دھوئیں۔
٨۔ پھر پیشانی کے بالوں سے گدی تک سر کا ایک بار مسح کریں اور دونوں کانوں کے اندر اور باہر کا بھی مسح کریں۔
٩۔ پھر پہلے دائیں پھر بائیں پیر کو ٹخنوں سمیت دھوئیں۔
١٠۔ ہاتھ اور پیر کی انگلیوں کا خلال کریں۔
١١۔ اگر موزے پہنے ہیں تو مقیم ہونے کی صورت میں ایک دن اور ایک رات اور مسافر ہونے کی صورت میں تین دن اور تین راتیں ان پر مسح کرسکتے ہیں بشرطیکہ انھیں باوضو ہوکر پہنا ہے۔
١٢۔ ہر عضو کو کم ازکم ایک بار اور زیادہ سے زیادہ تین بار دھوئیں۔
١٣۔ وضو مکمل کر کے یہ دعا پڑھیں: « أَشْهَدُ أَن لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰہُ, وَحْدَہُ لاَ شَرِیْكَ لَهُ, وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہُ وَرَسُولُهُ, اَللّٰهُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ التَّوَّابِیْنَ, وَاجْعَلْنِیْ مِنَ الْمُتَطَهِّرِیْنَ ».
 ( میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد e اس کے بندے اور رسول ہیں۔ اے اللہ مجھے توبہ کرنے والوں میں سے بنادے اور مجھے پاک رہنے والوں میں سے بنادے)
١٤۔ پانی نہ ملنے یا پانی کا استعمال مضر ہونے کی صورت میں تیمم کرلیں جس کا طریقہ یہ ہے کہ ایک بار اپنے دونوں ہاتھوں کو پاک مٹی پر ماریں پھر اس سے اپنے چہرے اور دونوں ہتھیلیوں پر مسح کریں۔
١٥۔ وضو ٹوٹ جائے تو دوبارہ وضو کریں۔ یاد رہے کہ پانچ چیزوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے:
¬ اگلی یا پچھلی شرمگاہ سے کوئی چیز نکل جانے سے یعنی ہوا، پیشاب، پاخانہ، منی، مذی وغیرہ۔
لیٹ کر گہری نیند سوجانے سے۔
® بے ہوشی یا نشہ یا جنون کی وجہ سے عقل زائل ہوجانے سے۔
¯ کسی آڑ کے بغیر شرمگاہ کو ہاتھ لگانے سے۔
 ° اونٹ کا گوشت کھالینے سے۔
١٦۔ وضو توڑنے والی چیزوں سے تیمم بھی ٹوٹ جائے گا نیز پانی مل جانے یا اس کے استعمال پر قدرت ہوجانے سے بھی تیمم ٹوٹ جائے گا۔
اور مندرجہ ذیل چیزوں سے پرہیز کریں:
١۔ وضو کرتے ہوئے کسی عضو کو تین مرتبہ سے زیادہ دھونے سے۔
٢۔ پانی ضائع کرنے سے۔
٣۔ گردن کا مسح کرنے سے۔
٤۔ ہر ہر عضو دھوتے ہوئے خودساختہ دعائیں پڑھنے سے۔
٥۔ تیمم میں دوبار مٹی پر ہاتھ مارنے سے۔
٦۔ تیمم میں کہنیوں تک مسح کرنے سے۔

آداب صلاة

                اسلام میں صلاة کو جو مقام حاصل ہے وہ کسی دیگر عبادت کو حاصل نہیں ہے۔ یہ دین کا ستون ہے۔ اس کی فرضیت شب معراج کو آسمانوں میں ہوئی۔ نبی e نے دنیا چھوڑتے ہوئے اپنی عمر کے اختتام پر صلاة ہی کی وصیت فرمائی۔ سفر وحضر اور امن وخوف ہرحالت میں صلاة کی پابندی کا حکم دیا گیا ہے۔ صلاة میں کوتاہی برتنے والے پر سخت وعید آئی ہے بلکہ تارک صلاة کو کافر تک قرار دیا گیا ہے۔
لہٰذا مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیں :
١۔صلاة کے لئے آتے ہوئے سکون اور وقار کے ساتھ آئیں۔
٢۔ صلاة پنجوقتہ پابندی کے ساتھ ان کے اوقات میں مسجد جاکر باجماعت ادا کریں۔
٣۔ اگر کوئی صلاة بھول جائیں یا اس کے وقت میں سوجائیں تو یاد آنے پر اور بیدار ہونے پر اسے ادا کرلیں۔
٤۔ پانچ اوقات میں کوئی صلاة نہ پڑھیں۔
  سورج کے عین نکلنے کے وقت یہاں تک کہ بلندی پر آجائے۔
·  جب سورج ٹھیک بیچ آسمان میں ہو۔
¸  سورج کے عین غروب ہونے کے وقت یہاں تک ڈوب جائے۔
¹  صلاة فجر کے بعد سے سورج طلوع ہوجانے تک
º  صلاة عصر کے بعد سے سورج غروب ہوجانے تک
٥۔ فرض صلاتوں کے لئے اذان اور اقامت کہیں۔
٦۔ صلاة کا وقت شروع ہوجانے کا یقین کرلینے کے بعد ہی کوئی صلاة پڑھیں کیونکہ قبل از وقت پڑھنے سے صلاة نہیں ہوگی۔
٧۔ صلاة کے لئے طہارت حاصل کریں۔(دیکھئے آداب غسل صفحہ39) اور (دیکھئے آداب وضو وتیمم صفحہ 41)
٨۔ اپنے جسم، لباس اور جگہ کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھیں۔
٩۔ صلاة کے لئے اپنی ستر پوشی کا انتظام کریں۔
١٠۔ قبلہ رخ ہوکر اپنی صلاة ادا کریں۔
١١۔ صلاة کو خشوع وخضوع، اطمینان واعتدال اور حسن وخوبی کے ساتھ ادا کریں۔
١٢۔ صلاة کو نبی e کی سنت کے مطابق ادا کریں۔
١٣۔ فرض صلاتوں سے پہلے اور بعد کی مؤکدہ سنتوں کا اہتمام کریں۔
١٤۔ صلاة پڑھتے ہوئے اپنے آگے سترہ رکھیں۔
١٥۔ موذی جانور مثلا ً سانپ بچھو وغیرہ کو صلاة کے دوران ہی مار دیں اس سے صلاة متاثر نہ ہوگی۔
اورمندرجہ ذیل چیزوں سے پرہیز کریں:
١۔صلاة کے اندر امام سے پہلے رکوع اور سجدہ میں سر اٹھانے سے۔
٢۔ صلاة کے اندر پہلو (کمر) پر ہاتھ رکھنے سے۔
٣۔ کھانے کی موجودگی میں جبکہ طبیعت کھانے کی طرف راغب ہو صلاة پڑھنے سے۔
٤۔ پیشاب پاخانہ کی سخت حاجت کے وقت صلاة پڑھنے سے۔
٥۔ نیند کے غلبہ کی حالت میں صلاة پڑھنے سے۔
٦۔ صلاة کے اندر آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھنے سے۔
٧۔ صلاة میں بلا عذر ادھر ادھر دیکھنے سے۔
٨۔ صلاة کے دوران اپنے جسم، داڑھی یا کپڑوں کے ساتھ کھیلنے سے۔
٩۔ قبروں کی طرف منہ کرکے صلاة پڑھنے سے۔
١٠۔ صلاة پڑھنے والے کے آگے سے گذرنے سے۔
١١۔ صلاة کی جماعت کھڑی ہوجانے کے بعد الگ سے کوئی سنت یا نفل پڑھنے سے۔
١٢۔ اذان کے بعد بلاعذر فرض پڑھے بغیر مسجد سے نکلنے سے۔


آداب مسجد

مسجدیں اﷲکاگھر ہیں اور ان کی تعظیم اﷲکے شعائر کی تعظیم ہے۔
لہٰذا مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیں :
١۔ مسجد میں داخل ہوتے وقت پہلے داہنا پیر داخل کریں اور نکلتے وقت بایاں پیر پہلے نکالیں۔
٢۔ مسجد میں داخل ہونے اور مسجد سے نکلنے اور فرض صلاة کے بعد کی دعائیں قطعاً نہ بھولیں۔
٣۔مسجد میں داخل ہونے سے پہلے ہی  موبائیل بند کردیں۔
٤۔ صلاة کے لئے سکون واطمینان اور وقار کے ساتھ جلدی تشریف لائیں۔
٥۔ہمیشہ اپنے کپڑے،منہ اور جسم کی صفائی وستھرائی کا مکمل خیال رکھیں اور خوشبو لگا کر آئیں۔
٦۔ بیٹھنے سے قبل تحیۃ المسجد ادا کریں۔
٧۔ صفوں کو مکمل کریں اور آپس میں خوب مل کر(ٹخنہ سے ٹخنہ اور کندھے سے کندھا ملاکر) کھڑے ہوں۔
٨۔ صف میں کہیں جگہ خالی ہونے پر اسے پوری کریں۔
٨۔ مسجد اور اس کے ملحقات مثلاً وضو خانہ اور صحن وغیرہ کی صفائی کا پورا خیال رکھیں۔
اورمندرجہ ذیل چیزوں سے پرہیز کریں:
١۔ کچا لہسن اور پیاز کھاکر یا بیڑی اور سگریٹ پی کرمسجد میں آنے سے۔
٢۔وضو وغیرہ کے وقت پانی میں فضول خرچی سے۔
٣۔مصلیوں (نمازیوں) کے آگے سے گذرنے اور گردن پھلانگنے سے۔
٤۔دوسروں کی صلاة میں خلل ڈالنے سے چاہے قرآن کی تلاوت سے ہی کیوں نہ ہو۔
٥۔ تھوکنے اور اونچی آواز سے ڈکار لینے سے۔
٦۔ مسجد کے لئے وقف شدہ مصحف (قرآن کا نسخہ) مسجد کے باہر لے جانے سے۔
٧۔ مسجد میں خرید وفروخت اور گم شدہ چیز کا اعلان کرنے سے۔
٨۔ امام کے خطبہ دیتے وقت بات چیت اور کھلواڑ کرنے سے۔
٩۔ جماعت کے دوران سنت یا نفلی نماز پڑھنے سے۔
اورآخر میں یاد رکھیں:
٭بھلائی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے میں آپ کی مسجد میں آپ کا ایک نمایاں کردار ہو۔
٭ اپنے پڑوسیوں سے محبت کریں اور اگر اپنے کسی پڑوسی کو مسجد میں نہ پائیں تو اس کے بارے میں دریافت کریں، ہوسکتا ہے بیمارہو یاحاجت مند ہو۔

آداب جمعہ

                جمعہ دنوں کا سردار، ہفتہ کی عید اور مسلمانوں کے اجتماع کا دن ہے۔ یہ اہل اسلام کے لئے اﷲکی جانب سے مخصوص عطیہ ہے, یہود ونصاری اس اہم دن سے بھٹک گئے۔یہ گناہوں کی معافی اور خطاؤں کی بخشش کا دن ہے۔
لہٰذا مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیں :
١۔جمعہ کے دن غسل کریں، خوشبو لگائیں اور اچھے کپڑے پہنیں۔
٢۔ جلد سے جلد مسجد پہنچیں۔
٣۔ سورہ کہف کی تلاوت کریں۔
٤۔زیادہ سے زیادہ اﷲسے دعا مانگیں کیونکہ جمعہ کے دن ایک گھڑی ایسی ہوتی ہے جس میں دعا رد نہیں کی جاتی۔
٥۔ زیادہ سے زیادہ نبی e پر صلاة (درود) بھیجیں۔
٦۔ مسجد پیدل چل کے جائیں۔
٧۔ خطبہ کو خوب غور سے سنیں اگر خطبہ کے دوران اونگھ آئے تو اپنی نشست سے اٹھ کر جگہ تبدیل کرلیں۔
٨۔ جمعہ سے پہلے تحیۃ المسجد اور بعد میں چار رکعتیں سنت پڑھیں۔
اورمندرجہ ذیل چیزوں سے پرہیز کریں:
١۔ لوگوں کی گردنیں پھلانگنے سے۔
٢۔ خطبہ کے دوران بات چیت اور کسی چیز کے ساتھ کھیل کرنے سے۔
٣۔ خطبہ کے دوران مسجد میں پہنچنے پر تحیۃ المسجد ادا کئے بغیر بیٹھ جانے سے۔
٤۔ خطبہ کے دوران تحیۃ المسجد کے علاوہ دیگر صلاتیں پڑھنے سے۔
٥۔ خطبہ کے دوران سونے سے۔
٦۔ خطبہ کی اذان کے بعد خرید وفروخت سے۔
٧۔ خصوصی طور پر جمعہ کے دن صوم رکھنے اور جمعہ کی رات قیام اللیل کرنے سے۔
٨۔ جمعہ کے دن قبرستان کی زیارت کے اہتمام سے۔
اور آخر میں یاد رکھیں:
٭ صلاة جمعہ پانے کے لئے کم از کم ایک رکعت امام کے ساتھ ملنا ضروری ہے ورنہ صلاة ظہر چار رکعتیں پڑھنا ہوگا۔


آداب عیدین

                صلاة عیدین سنت مؤکدہ ہے، نبی e نے اس پر مواظبت ومداومت فرمائی ہے۔ اہل وعیال سمیت عیدگاہ نکل کر صلاة عید کی ادائیگی مسلمانوں کا ایک عظیم شعار ہے۔
لہٰذا مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیں :
١۔ عیدالفطر کا چاند دیکھنے یا اطلاع پانے سے لے کر صلاة عید پڑھ لینے تک کثرت سے تکبیر پکارتے رہیں۔  تکبیر کا صیغہ یہ ہے : «الله أکبر, اللہ أکبر, لا إله إلا اللہ, واللہ أکبر, اللہ أکبر, وللہ الحمد».
٢۔ عید الاضحی میں چاند دیکھنے یا اس کی اطلاع پانے سے لے کر تیرہ ذوالحجہ کی شام تک تکبیر پکارتے رہیں۔
٣۔ مرد مسجدوں، بازاروں اور گھروں میں بہ آواز بلند تکبیر پکاریں اور عورتیں پست آواز میں کیونکہ انھیں تمام معاملات میں پردہ برتنے کا حکم دیا گیا ہے۔
٤۔عیدین کے لئے غسل کریں، خوشبو لگائیں، نئے یا صاف کپڑے پہنیں۔
٥۔ صلاة عید کی ادائیگی کے لئے اپنی عورتوں اور بچوں بچیوں کو بھی عیدگاہ لے جائیں۔
٦۔ عید الفطر کے لئے عید گاہ جانے سے پہلے گھر کے ہر ہر فرد کی طرف سے ڈھائی ڈھائی کیلو غلہ بطور صدقۂفطر ادا کردیں۔
٧۔ عیدالفطر کے لئے طاق عدد کھجوریں کھاکر نکلیں اور عیدالاضحی کے لئے کچھ کھائے بغیر نکلیں، عیدگاہ سے واپس ہوکر پھر کچھ کھائیں۔
٨۔ ایک راستے سے جائیں اور دوسرے راستے سے واپس لوٹیں۔
٩۔ صلاة عید کا وقت تین میٹر کے مقدار سورج بلند ہونے سے لے کر زوال تک ہے۔
١٠۔ صلاة عید کی دو رکعتیں ہیں, پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ کے بعد سات تکبیریں کہیں گے, اور دوسری رکعت میں قراء ت سے پہلے پانچ تکبیریں کہیں گے۔ ہر تکبیر کے ساتھ رفع یدین کریں گے۔
١١۔ عیدین کی پہلی رکعت میں سورہ اعلی اور دوسری میں سورہ غاشیہ پڑھنا مسنون ہے۔
١٢۔ عید کی دو رکعتیں پڑھ لینے کے بعد امام کا خطبہ سنیں۔
١٣۔ عید کے بعدآپس میں ایک دوسرے کو مبارکباد دیں۔ صحابۂکرام y آپس میں ایک دوسرے کو   «تَقَبَّلَ اللّٰہُ مِنَّا وَمِنْكَ»  [اﷲتعالیٰ ہم سے اور آپ سے یہ عبادت قبول فرمائے] کہا کرتے تھے۔
١٤۔ جائز کھیل کود اور مباح خوشیاں منائیں، اچھے گیت اور عمدہ اشعار سے لطف اندوز ہوں۔
اورمندرجہ ذیل چیزوں سے پرہیز کریں:
١۔صلاة عید سے پہلے یا بعد میں کوئی سنت پڑھنے سے۔
٢۔ عید کے بعد گلے ملنے اور معانقہ کرنے سے۔
٣۔ صلاة عید کے لئے اذان اور اقامت کہنے سے۔
٤۔ صدقۂ فطر میں غلہ کے بجائے روپیہ پیسہ نکالنے سے۔


آداب دعا

                دعا عبادت ہے اور اﷲکی ربوبیت وقدرت کاملہ کا اعتراف نیز اپنی بندگی، عاجزی وبیچارگی کا اظہار ہے۔ مشکلات اور پریشانیوں میں یہ مومن کا ہتھیار ہے اور اس کی تاثیر مسلم ہے۔ اﷲنے دعا کرنے کا حکم دیا ہے اور قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔
لہٰذا مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیں :
١۔ قبلہ رخ ہوکر اور اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھا کر دعا کریں۔
٢۔ دعا سے پہلے اﷲکی حمد وثنا کریں پھر نبی e پر صلاة (درود) پڑھیں۔
٣۔ دعا کرتے ہوئے خشوع وخضوع اور گریہ وزاری اختیار کریں۔
٤۔ ایک دعا تین بار دہرائیں۔
٥۔ قبولیت کی پوری امید رکھیں۔
٦۔ آواز نہ زیادہ بلند اور نہ زیادہ پست ہو بلکہ بلند وپست کے درمیان ہو۔
٧۔قرآن وسنت کی جامع دعائیں منتخب کرکے ان کے ذریعہ دعا کریں۔
٨۔دعا میں وہی چیزیں طلب کریں جو اسلامی تعلیمات کے مطابق ہوں۔ گناہ، برائی اور رشتے توڑنے کی دعا نہ کریں۔
٩۔ دعا جب بھی مانگیں صرف اﷲسے مانگیں۔
١١۔ خوشحالی میں زیادہ دعائیں کریں تاکہ بدحالی میں دعائیں قبول ہوں۔
١٢۔ مندرجہ ذیل فضیلت والے اوقات اور حالات میں دعا کرنا نہ بھولیں :
¡  شب قدر                                 ¢   رات کے سہ پہر 
£  اذان اور اقامت کے درمیان  ¤   جمعہ کے دن       
¥  زمزم پیتے وقت                      ¦  سجدہ کی حالت میں 
§  بارش ہوتے وقت                     ¨   صوم کی حالت میں 
©  سفر کی حالت میں                        ª  عرفہ کے دن
١٣۔ جائز وسیلوں سے دعا کریں جوصرف تین ہیں :
                                (١)  اﷲکے ناموں اور صفات کا وسیلہ
                                (٢)  اپنے ایمان وعمل صالح کا وسیلہ
                                (٣) کسی زندہ حاضر مسلمان کی دعا کا وسیلہ
١٤۔ دعا کرتے ہوئے اﷲکی نعمتوں اور اپنے گناہوں کا اقرار واعتراف کریں۔
١٥۔ دعا کے بعد آمین کہیں۔
١٦۔ غائبانہ طور پر اپنے مسلمان بھائی کے لئے بکثرت دعا کریں۔
١٧۔ مظلوم کی مدد کرکے اس سے دعا لیں اور کسی پر ظلم نہ کریں تاکہ مظلوم کی بددعا سے محفوظ رہیں۔
اورمندرجہ ذیل چیزوں سے پرہیز کریں:
١۔غیر اﷲسے دعا کرنے سے کہ یہ شرک ہے۔
٢۔دعا کی قبولیت میں رکاوٹ بننے والی چیزوں سے یعنی حرام کھانے، دعا میں تجاوز کرنے، مایوس ہونے اور جلد بازی کرنے سے یعنی یہ کہنے سے کہ میں نے دعا کی اور قبول نہ ہوئی۔
٣۔ دعا میں پر تکلف عبارات اور جملوں سے۔
٤۔ مسنون دعاؤں کے بجائے خود ساختہ دعاؤں سے۔
٥۔ بہ یک آواز اجتماعی دعا کرنے سے۔
٦۔ دعا کے بعد ہاتھوں کو چہرے پر پھیرنے سے۔


آداب تلاوت قرآن
                قرآن مجید اﷲکی کتاب اور اس کا کلام ہے، علم وحکمت والے رب کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ محمد e کے لئے تاقیامت باقی رہنے والا زندہ معجزہ ہے۔ اﷲنے خود اس کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے, چنانچہ آج تک اس میں کسی قسم کی تحریف وتبدیلی نہ ہوسکی۔ حفاظ کے سینوں میں، قراء کی زبانوں پر اور مصحف کے اوراق میں وہ پوری طرح محفوظ نیز تواتر کے ساتھ ثابت ہے۔اس کی تلاوت اﷲکی ایک پسندیدہ عبادت ہے, چنانچہ اس کے ہرہرحرف کی تلاوت پر دس دس نیکیاں ملتی ہیں۔
لہٰذا مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیں :
١۔ باوضو ہوکراس کی تلاوت کریں۔
٢۔ تلاوت سے پہلے مسواک کرکے منہ خوب صاف کرلیں۔
٣۔ تلاوت کے لئے صاف اور پاکیزہ جگہ کا انتخاب کریں۔
٤۔ خشوع وخضوع اور سکون ووقار کے ساتھ تلاوت کریں۔
٥۔ تلاوت سے پہلے  أَعُوْذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ  پڑھیں۔
٦۔ سورہ توبہ کے سوا  ہر سورت کی ابتدا میں  بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ   پڑھیں۔
٧۔ ترتیل کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کے اور بہتر سے بہتر آواز میں تلاوت کریں۔
٨۔ جو پڑھ رہے ہیں اس پر غور وفکر کریں۔
٩۔ قرآن کی آیات سے اثر قبول کریں، جنت کا ذکر آئے تو اﷲسے جنت مانگیں اور جہنم کا ذکر آئے تو اس سے اﷲکی پناہ چاہیں۔
١٠۔بہ آواز بلند تلاوت کریں سوائے اس صورت کے کہ ریاکاری یا دوسروں کی تلاوت یا صلاة یا کسی اور عبادت میں خلل کا اندیشہ ہو۔
١١۔ سجدہ کی آیات سے گذریں تو سجدہ کریں۔
١٢۔ صلاتوں کے اندر تلاوت کے لئے کچھ سورتیں زبانی یاد رکھیں۔
اورمندرجہ ذیل چیزوں سے پرہیز کریں:
١۔ قرآن کی تلاوت، اس کا حفظ، اس پر غور وفکر اور اس کے احکام پر عمل چھوڑ دینے سے۔
٢۔ قرآن کی تلاوت میں جلد بازی کرنے اور تین راتوں سے کم کے اندر پورا قرآن پڑھ کر ختم کردینے سے۔
٣۔ خطبۂ جمعہ سنتے ہوئے یارکوع، سجدہ اور تشہد کی حالت میں قرآن پڑھنے سے۔
٤۔ قضاء حاجت کرتے ہوئے یا اونگھتے ہوئے پڑھنے سے۔
۵۔ مردوں پر قرآن پڑھنے سے (قرآن خوانی سے)۔
۶۔ آیات قرآنی کی تعویذ بنانے اور پہننے سے۔
۷۔ لوح قرآنی یا آیات قرآنی کو دیواروں پر بطور زینت لٹکانے سے۔
اور آخر میں یاد رکھیں:
١۔ تلاوت کی حالت میں کوئی سلام کرے تو اس کا جواب دیں۔
 ٢۔ اگر اذان ہونے لگے تو تلاوت بند کرکے اذان کا جواب دیں۔
٣۔ اگر چلتے ہوئے تلاوت کررہے تھے اور کسی کے پاس سے گذرہوا تو تلاوت بند کرکے اس سے سلام کریں۔
٤۔ قرآن کے معانی سمجھنے کے لئے معتمد تفسیروں مثلاً تفسیر ابن کثیر وغیرہ کا مطالعہ کریں۔


آداب صدقہ
                صدقہ گناہوں کو ایسے ہی مٹاتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھاتا ہے۔ یہ جودوسخا کا ایک مظہر ہے۔اس سے فقراء ومساکین کی دلداری ہوتی ہے۔ یہ محشر کی دھوپ میں سایہ کا کام دے گا اور عذاب جہنم سے بچائے گا۔
لہٰذا مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیں :
١۔ زیادہ سے زیادہ صدقہ وخیرات کریں۔
٢۔ صدقہ دینے سے اﷲکی رضا مقصود ہو۔
٣۔ صدقہ میں پسندیدہ اور حلال وپاکیزہ مال خرچ کریں۔
٤۔ چھپا کر صدقہ دینا علانیہ دینے سے بہتر ہے۔
٥۔ قرابت داروں اور حاجت مندوں کو صدقہ دیں۔
٦۔ ان اوقات میں صدقہ کا زیادہ اہتمام کریں جب ثواب زیادہ ہوتا ہے مثلاً ماہ رمضان وغیرہ
اورمندرجہ ذیل چیزوں سے پرہیز کریں:
١۔فرض صدقہ (یعنی زکاة) کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے سے۔
٢۔ صدقہ دے کر احسان جتلانے اور تکلیف پہنچانے سے۔
٣۔صدقہ میں ردی اور خراب مال نکالنے سے۔
اور آخر میں یاد رکھیں:
٭  صدقہ صرف مال خرچ کرنے کا نام نہیں بلکہ دو آدمیوں کے درمیان عدل کرنا بھی صدقہ ہے، کسی کو اپنی سواری پر بٹھالینا یا اس کا سامان لاد لینا بھی صدقہ ہے، پاکیزہ بات بولنا صدقہ ہے، صلاة کے لئے اٹھنے وا لا ہر قدم صدقہ ہے، راستہ سے تکلیف دہ چیزوں کا ہٹا دینا صدقہ ہے۔بھلائیوں کا حکم دینا اور برائیوں سے روکنا صدقہ ہے۔


آداب قربانی وعقیقہ
                ذبح وقربانی ایک عظیم عبادت ہے جو سنت خلیل کا احیاء، تسخیر حیوانات کا شکریہ اور اﷲکے تقرب کا ذریعہ ہے۔ اور عقیقہ اولاد کی نعمت حاصل ہونے کے شکریہ میں کیا جاتا ہے۔
لہٰذا مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیں :
١۔ صرف اﷲکے واسطے ذبح کریں۔
٢۔ قربانی کے لئے موٹا، فربہ، تندرست، خوبصورت اور دانتا جانور منتخب کریں۔
٣۔ صلاة عید الاضحی پڑھ لینے کے بعد ہی قربانی کا جانور ذبح کریں۔
٤۔ قربانی کا وقت دس ذی الحجہ سے لے کر تیرہ ذی الحجہ کی شام تک ہے۔
٥۔ قربانی کا جانور اپنے ہاتھ سے ذبح کریں۔ یہی افضل ہے البتہ دوسرے سے ذبح کروانا جائز ہے۔
٦۔ قربانی کا گوشت خود کھائیں، دوست واحباب کو کھلائیں، غریبوں اور محتاجوں پر صدقہ وخیرات کریں اور ذخیرہ کرکے رکھیں۔
٧۔ جب بھی ذبح کریں   بِسْمِ اﷲِ اَللّٰهُ أَکْبَر کہہ کر ذبح کریں۔
٨۔ جانور کو قبلہ رخ کرکے تیز دھار دار آلہ سے ذبح کریں۔
٩۔ پیدائش کے ساتویں دن بچے کا عقیقہ کریں, اگر لڑکا ہے تو دو جانور اور لڑکی ہے تو ایک جانور۔
اورمندرجہ ذیل چیزوں سے پرہیز کریں:
١۔کسی قبر کے پاس ذبح کرنے سے۔
٢۔ کسی ولی یا پیر فقیر کے لئے ذبح کرنے سے کہ یہ شرک ہے۔
٣۔ نئے مکان کو آفات سے محفوظ رکھنے کے لئے ذبح کرنے سے۔
٤۔ استطاعت ہونے کے باوجود قربانی نہ کرنے سے۔
٥۔ عیب دار جانور کی قربانی کرنے سے جیسے لنگڑا، کانا، اندھا، کان کٹا، سینگ ٹوٹا، بیمار اور بہت دبلا جس کی ہڈی میں گودا نہ ہو۔یاد رہے کہ خصی ہونا کوئی عیب نہیں ہے، خصی کئے گئے جانور کی قربانی درست ہے۔
٦۔ قربانی کے گوشت یا کھال کو قصاب کو مزدوری میں دینے سے۔
٧۔ قربانی کا پختہ ارادہ ہونے پر ذوالحجہ کا چاند دیکھنے سے لے کر قربانی کا جانور ذبح کرلینے تک بال اور ناخن کاٹنے سے۔
٨۔ عقیقہ میں بڑے جانور کو ذبح کرنے سے۔
٩۔ عقیقہ کو بلاوجہ پیدائش کے ساتویں دن سے موخر کرنے سے۔


آداب زیارت وملاقات
                ایک دوسرے کی زیارت اور ملاقات آپسی الفت ومحبت کی تقویت کا باعث ہے۔ کسی دینی بھائی کی بے لوث زیارت پر آسمان سے ان قدموں کی پاکیزگی کا اعلان ہوتا ہے اور زائر کو فرشتے دعا دیتے اور خوشخبری سناتے ہیں۔
لہٰذا مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیں :
١۔ نیک نیتی کے ساتھ زیارت کریں۔
٢۔ مناسب وقت کا خیال کریں اور کسی پر مشقت نہ ڈالیں۔
٣۔ گھر میں داخل ہونے کے آداب (صفحہ 70 دیکھئے) کا خیال رکھیں۔
٤۔ ملاقات پر سلام کریں اور ایک ہاتھ سے مصافحہ کریں۔
٥۔ سلام کے آداب (صفحہ 68 دیکھئے) کا لحاظ رکھیں۔
٦۔ وقت زیارت کو مفید باتوں میں استعمال کریں۔
٧۔ زیارت کرنے والے کا خندہ پیشانی کے ساتھ استقبال کریں۔
٨۔ اس کی عزت وخاطر اور ضیافت کریں۔
٩۔ اجازت لے کر واپس ہوں۔
١٠۔ سفر سے واپسی پر سلام کے بعد معانقہ کریں۔
اورمندرجہ ذیل چیزوں سے پرہیز کریں:
١۔ بوقت ملاقات غیر موجود شخص کی غیبت وچغلخوری سے۔
٢۔ زیارت کا وقت لغو اور فضول باتوں میں ضائع کرنے سے۔
٣۔ روز روز زیارت کرکے اکتادینے سے۔


آداب ضیافت ودعوت 
                مہمان کی خاطرداری اور عزت وتکریم ایمان کا ایک تقاضا اور ہرمسلمان کا شیوہ ہے, نیز دعوت قبول کرنا ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق ہے۔
لہذا مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیں:
١۔ ضیافت کے لئے فاسقوں اور مجرموں کے بجائے متقیوں اور پرہیزگاروں کو دعوت دیں۔
٢۔ ضیافت ومہمانی کے لئے خصوصی طور پر امیروں کو نہ بلائیں بلکہ فقیروں اور غریبوں کو بھی بلائیں۔
٣۔ دعوت قبول کریں اور بلا معقول عذر کے پیچھے نہ ہٹیں۔
٤۔ امیر ہو یا فقیر، قریبی ہو یا دور,  ہر کسی کی دعوت قبول کریں۔
٥۔ ایک سے زیادہ دعوتیں آجانے کی صورت میں پہلے کی دعوت پہلے قبول کریں اور بعد والے سے معذرت کرلیں سوائے اس صورت کے کہ پہلا شخص اجازت دے دے۔
٦۔ صائم (روزہ دار) ہوں تب بھی دعوت قبول کریں۔ نفلی صوم ہو تو صوم توڑدیں قضا نہیں کرنا ہوگا اور اگر صوم نہیں توڑنا چاہتے تو دعوت میں حاضر ہوں اور داعی کو دعا دیں۔
٧۔ کھانے کے آداب (صفحہ79  دیکھئے) کا لحاظ کریں۔
٨۔ اپنے میز بان کے لئے یہ دعا کریں: «اَللّٰهُمَّ أَطْعِمْ مَنْ أَطْعَمَنِيْ وَاسْقِ مَنْ سَقَانِيْ»  [اے اﷲجس نے مجھے کھلایا تو اسے کھلا اور جس  نے مجھے پلایا تو اسے پلا]
یا یہ دعا کریں : «أَفْطَرَ عِنْدَکُمُ الصَّائِمُوْنَ وَأَکَلَ طَعَامَکُمُ الْأَبْرَارُ وَصَلَّتْ عَلَیْکُمُ الْمَلاَئِکَةُ»   [آپ کے پاس روزہ دار افطار کریں، نیک لوگ آپ کا کھانا کھائیں اور فرشتے آپ پر رحمت کی دعا کریں]
اور مندرجہ ذیل چیزوں سے پرہیز کریں۔
٭میزبان ہونے کی صورت میں:
١۔ فخر ومباہات اور ایک دوسرے سے آگے بڑھ جانے کے مقصد سے دعوتیں کرنے سے۔
٢۔ سب مہمانوں کے فارغ ہونے سے پہلے ہی کھانا اٹھانے سے۔
٣۔ بے جا تکلف کرنے سے۔
٭ مہمان ہونے کی صورت میں :
١۔ دعوتوں میں بہت جلدی یا بہت تاخیر کے ساتھ پہنچنے سے۔
٢۔ بے جا فرمائشوں سے۔
٣۔ اپنے ساتھ طفیلی لانے سے یا خود اس قدر قیام کرنے سے کہ کسی پر بوجھ بن کر اسے گنہگار کردیں۔
٤۔ میزبان کی مخصوص نشست پر بیٹھنے سے اِلاّ یہ کہ وہ اجازت دیدے۔


آداب سلام
                سلام ایک اہم اسلامی شعار، اہل جنت کا تحیہ، ایمان کی علامت اور باہم محبت کا ذریعہ ہے۔ پہچانے، انجانے سب کو سلام کرنے کا حکم ہے۔
لہٰذا مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیں :
١۔ سلام کو زیادہ سے زیادہ عام کریں۔
٢۔ پہچانے اور انجانے، بچے اور بڑے سب سے سلام کریں۔
٣۔ اپنے گھر میں داخل ہوں تو بھی سلام کریں۔
٤۔ کسی ایسی مجلس میں جائیں جہاں مسلم اور کافر دونوں ہوں تو بھی سلام کریں۔
٥۔ چلنے والا بیٹھے ہوئے سے سلام کرے۔
٦۔ داخل ہونے والا گھر میں موجود لوگوں سے سلام کرے۔
٧۔ سوار پیدل کو، چھوٹا بڑے کو اور چھوٹی جماعت بڑی جماعت کو سلام کرے۔
٨۔ سلام کے لئے شرعی الفاظ استعمال کریں۔سلام کرنے والا (اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ)کہے یا  (وَرَحْمَةُ اﷲِ) ۔یا۔ (وَرَحْمَةُ اﷲِ وَبَرَکَاتُهُ) کا اضافہ کرے۔ اور جواب دینے والا (وَعَلَیْکُمُ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اﷲِ وَبَرَکَاتُهُ) کہے۔
٩۔ مرد مردوں سے اور عورت عورتوں سے سلام کرے۔
١٠۔ اگر فتنے کا اندیشہ نہ ہو تو مرد عورتوں سے اور عورتیں مردوں سے سلام کرسکتی ہیں۔
١١۔ بڑی جماعت ہو تو کئی کئی بار سلام کریں تاکہ سب سن لیں۔
١٢۔ سلام کرنے کے بعد مصافحہ کریں۔
١٣۔ مجلس سے اٹھ کر جانے لگیں تب بھی سلام کریں۔
١٤۔ اگر غیر مسلم سلام کرے تو جواب میں  وَعَلَیْکُمْ  کہیں۔
اورمندرجہ ذیل چیزوں سے پرہیز کریں:
١۔ غیر مسلموں سے سلام میں پہل کرنے سے۔
٢۔فاسقوں سے سلام کرنے سے سوائے اس صورت کے کہ ان کی ہدایت اور گناہ چھوڑنے کی امید ہو۔
٣۔ پیشاب کرنے کی حالت میں یا بیت الخلاء میں سلام کرنے اور سلام کا جواب دینے سے۔
٤۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہنے کے بجائے صبح بخیر، آداب عرض، گڈمارننگ یا دیگر کلمات کہنے سے۔
٥۔ کسی کے احترام میں کھڑے ہونے سے۔

گھر میں داخلہ کے آداب
گھر میں داخل ہوتے ہوئے مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیں :
١۔ داخل ہونے کے لئے اجازت طلب کریں۔کہیں: السلام علیکم، کیا میں اندر آسکتا ہوں؟
٢۔دروازہ صرف اتنے زور سے کھٹکھٹائیں کہ معلوم ہوجائے کہ کوئی دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے۔
٣۔ تین بار درمیان میں فاصلہ دے کر دروازہ کھٹکھٹائیں، اس کے باوجود جواب نہ ملے تو واپس ہوجائیں۔
٤۔دروازہ کے ٹھیک سامنے کھڑے ہونے کے بجائے دائیں یا بائیں کھڑے ہوں۔
٥۔ جب گھر کے اندر سے پوچھا جائے کہ آپ کون ہیں تو ''میں ہوں'' کہنے کے بجائے اپنا پورا نام بتائیں۔
٦۔جب گھر میں داخل ہوں یا گھر سے نکلیں تو دروازہ نرمی کے ساتھ بند کریں، سختی سے نہ بند کریں۔
٧۔ گھر میں داخل ہوتے ہوئے اور گھر سے نکلتے ہوئے سلام کریں۔
٨۔اگر کسی کے یہاں اچانک پہنچ جائیں اور وہ اپنے گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہ دے تو اس کو معذور سمجھیں۔
٩۔ کسی کی زیارت کرتے وقت اس کے گھر میں داخل ہوتے ہوئے اور گھر سے نکلتے ہوئے نرمی اپنائیں، نگاہیں پست رکھیں، آواز اونچی نہ کریں، جوتے اپنی جگہ پر نکال کر قاعدے سے رکھیں، جوتا داہنے پیر میں پہلے پہنیں اور بائیں پیر سے پہلے نکالیں۔اگر جوتے میں کچھ لگا ہو تو زمین پر رگڑ کر اسے صاف کرلیں۔
١٠۔جہاں آپ کو بیٹھنے کے لئے کہا جائے وہیں بیٹھیں۔ میزبان کی مخصوص نشست پر نہ بیٹھیں۔
١١۔ داخل ہونے اور نکلنے میں، چلنے میں اور ملاقات میں، بولنے اور مخاطب کرنے میں، بحث اورگفتگو میں ہر جگہ اپنے سے بڑے کی قدر کریں اور اسے آگے بڑھائیں۔
١٢۔ اگر ایسی جگہ داخل ہورہے ہیں جہاں کچھ لوگ سورہے ہیں تو اپنی آواز اور ہر حرکت میں ان کا خیال رکھیں تاکہ ان کی نیند میں خلل نہ ہو۔


آداب مجلس
                مجلسیں تعلیم وتربیت کا ذریعہ بھی ہیں اور تفریح ودلچسپی کا سامان بھی، مجلسیں خصوصی بھی ہوتی ہیں اور عمومی بھی، ان میں مہذب وتعلیم یافتہ افراد بھی ہوتے ہیں اور دیگر بھی۔
لہٰذا مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیں :
١۔ مجلس میں داخل ہونے کے لئے اجازت طلب کریں اور سلام کریں۔
٢۔ داخل ہونے والے کے لئے جگہ بنائیں اور کشادگی کریں۔
٣۔ کسی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود وہاں نہ بیٹھیں۔
٤۔ کوئی شخص مجلس سے اٹھ کر گیا پھر واپس آیا تو وہ اپنی پرانی جگہ کا زیادہ حقدار ہے۔
٥۔ داخل ہوکر وہاں بیٹھیں جہاں مجلس ختم ہورہی ہو۔
٦۔ دو آدمیوں کو الگ کرکے ان کے بیچ خود نہ گھسیں۔ ہاں! اگر درمیان میں جگہ ہے تو وہاں بیٹھنے میں حرج نہیں۔
٧۔ دوآدمی تیسرے کو چھوڑ کر آپس میں سرگوشی نہ کریں کیونکہ اس سے تیسرے کو غم ہوگااور وہ شکو ک وشبہات میں پڑجائے گا۔
٨۔ اﷲکا ذکر کئے بغیر مجلس سے نہ اٹھیں۔
٩۔ مجلس میں بات چیت کے دوران آداب گفتگو (صفحہ 75 دیکھئے) کا لحاظ رکھیں۔
١٠۔ اگر مجلس میں اﷲکی نافرمانی کی جارہی ہے تو اپنی طاقت کے مطابق اسے ہاتھ یا زبان یا دل سے منع کریں۔ اگر کسی پر ظلم ہورہا ہے تو مظلوم کی مدد کریں اوراگر کسی کی غیبت ہورہی ہے تو اس کا دفاع کریں۔
١١۔ مجلس کے خاتمہ پر کفارۂ مجلس کی دعا پڑھیں جو یہ ہے : «سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ وَبِحَمْدِكَ, أَشْهَدُ أَن لَّا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ, أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَیْكَ».
(اے اللہ میں تیری حمد کے ساتھ تیری پاکی بیان کرتا ہوں اور گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ تجھ سے بخشش مانگتا ہوں اور تجھ سے توبہ کرتا ہوں)۔
١٢۔ نیک لوگوں کی صحبت میں بیٹھنے کا اہتمام کریں۔
١٣۔ صفائی ستھرائی کا خیال رکھیں، میسر ہو تو خوشبو کا استعمال کریں۔
١٤۔ بہتر انداز میں ساتھ رہیں اور نرم خوئی وخوش خلقی کو اپنی عادت بنائیں۔
١٥۔ مجلس سے اٹھ کر جانے لگیں تو سلام کرکے واپس جائیں۔
اورمندرجہ ذیل چیزوں سے پرہیز کریں:
١۔ لوگوں کے راز ٹٹولنے سے۔
٢۔ جو اپنی بات سنانا نہ چاہتا ہو اسے کان لگا کر سننے سے۔
٣۔ ایسی مجلسوں میں جانے سے جہاں اﷲکی معصیت کی جارہی ہو۔
٤۔ حلقۂ مجلس کے درمیان بیٹھنے سے کہ ایسے شخص پر لعنت آئی ہے۔
٥۔ راستوں میں مجلس جمانے سے البتہ اگر کبھی اس کی ضرورت پڑجائے تو اس کے آداب کا خیال رکھیں جو مندرجہ ذیل ہیں:
١۔ نگاہ نیچی رکھیں اور نظر بازی سے پرہیز کریں۔
٢۔ گذرنے والوں کو تکلیف نہ دیں۔
٣۔ گذرنے والوں کے سلام کا جواب دیں۔
٤۔ بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں۔
٥۔ راستہ بھٹکے ہوئے لوگوں کو راستہ بتائیں۔


آداب گفتگو
                دل اور زبان انسانی جسم کے سب سے اہم دو حصے ہیں، زبان دل کا ترجمان ہے اس لئے اس کی اہمیت اور بھی زیادہ ہے۔ آدمی کی گفتگو ہی اس کا عیب وہنر ظاہر کرتی ہے۔
لہٰذا مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیں :
١۔ زبان سے وہی گفتگو کریں جس کا مقصد خیر ہو۔
٢۔کسی غلطی کی اصلاح کرتے وقت حکمت کو مدنظر رکھیں۔
٣۔ اگر مخاطب کو کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو ضرورت کے تحت دہرائیں۔
٤۔ حق وصداقت اور سچائی کو اپنا شعار بنائیں۔
اورمندرجہ ذیل چیزوں سے پرہیز کریں:
١۔ ناحق اوربے جا بحث وحجت کرنے سے۔
٣۔ حق پر ہونے کے باوجود جھگڑے لڑائی سے۔
٤۔ تکلف اور تصنع سے، باچھیں کھول کر اور منہ بھر کر کلام کرنے سے۔
٥۔ درمیان میں بات کاٹنے سے۔
٦۔ غیبت وچغلخوری اور لگائی بجھائی سے۔
٧۔ کسی خبر کو یقین کے ساتھ معلوم ہوئے بغیر عام کرنے سے۔
٨۔ جھوٹ اور خلاف حقیقت کوئی بات کہنے سے۔
٩۔ کسی مرد کے سامنے کسی عورت کے محاسن بیان کرنے سے الا یہ کہ کسی شرعی مقصد جیسے نکاح وغیرہ کے لئے اس کی ضرورت ہو۔
١٠۔ برا کام کرنے کے بعد اسے محفل میں بیان کرنے سے کہ یہ دہرا جرم ہے۔
١١۔ کسی کا راز فاش کرنے سے سوائے اس صورت کے کہ صاحب راز نے اجازت دے دی ہو یا خود فاش کردیا ہو۔
١٢۔ مجلس کی رعایت کئے بغیر بولنے سے، خوشی کے مواقع پر غمی کی باتیں اور غمی کے مواقع پر ہنسنے کی باتیں کرنے سے، سنجیدہ مواقع پر مذاق کی باتیں زیبا نہیں۔
اور آخر میں یاد رکھیں:
٭ آداب گفتگو میں سے یہ بھی ہے کہ سامنے والے کی بات غور سے سنیں، اسے بولنے کا موقعہ دیں، درمیان میں اس کی بات نہ کاٹیں اور  ادھر ادھر توجہ کرنے کے بجائے اسی کی طرف پوری توجہ رکھیں۔


آداب لباس
                بندوں کی ستر پوشی، زیب وزینت اور سردی وگرمی سے حفاظت کے لئے اﷲتعالی نے لباس نازل فرمایا ہے، لباس اﷲکا عظیم عطیہ اور احسان ہے۔
لہٰذا مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیں :
١۔ صاف ستھرا اور ڈھیلا ڈھالا لباس پہنیں تاکہ جسم کے نشیب وفراز ظاہر نہ ہوں۔
٢۔ کپڑا ایسا ہو جس سے آدمی کی ستر چھپی رہے اور جوتا بھی اچھا ہو۔
٣۔ تکلف اور اسراف سے بچ کر میانہ روی اختیار کرتے ہوئے خوبصورت لباس استعمال کریں۔
٤۔ سفید کپڑے پہنیں کہ نبی e نے اسے سب سے پسندیدہ لباس قرار دیا ہے۔واضح رہے کہ دوسرے رنگ کے کپڑے پہننا منع نہیں ہے۔
٥۔ چاندی کی انگوٹھی پہننے میں حرج نہیں، اس میں اپنا نام بھی کندہ کیا جاسکتا ہے۔
٦۔ مسلمان عورت اتنا لمبا لباس استعمال کرے جو قدموں کو ڈھانپ لے اور اوڑھنی ایسی ہو جس سے سر، گردن اور سینہ چھپ جائے۔
٧۔ نیا لباس پہنتے ہوئے دعا پڑھیں: «اَللّٰهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ, أَنْتَ کَسَوْتَنِیْهِ, أَسْأَلُكَ خَیْرَہُ وَخَیْرَ مَا صُنِعَ لَهُ, وَأَعُوْذُبِكَ مِنْ شَرِّہِ وَشَرِّ مَا صُنِعَ لَهُ».
[اے اﷲتیرے لئے تعریفیں ہیں تو نے مجھے یہ کپڑا پہنایا ہے، میں اس کی بھلائی کا اور جس غرض کے لئے یہ بنایا گیا ہے اس کی بھلائی کا تجھ سے سوال کرتا ہوں, اور اس کے شر سے اور جس غرض کے لئے یہ بنایا گیا ہے اس کے شر سے تیری پناہ طلب کرتا ہوں]۔
اورمندرجہ ذیل چیزوں سے پرہیز کریں:
١۔ وسعت کے باوجودپھٹے پرانے اور پیوند لگے کپڑے پہننے سے۔
٢۔ ریشمی لباس اور سونے کی انگوٹھی پہننے سے جو مردوں پر حرام ہیں۔
٣۔ درندوں کی کھال پہننے یا اس پر بیٹھنے سے۔
٤۔مرد کو عورتوں کا لباس اور عورت کو مردوں کا لباس پہننے سے۔
٥۔ شہرت اور تکبر والا لباس پہننے سے۔
٦۔ غیر مسلموں کا مذہبی لباس پہننے سے۔
٧۔ اپنے کپڑوں کو ٹخنوں کے نیچے لٹکانے سے۔(مردوں کے لئے)
٨۔ خالص سرخ یا باریک اور چست لباس سے۔
١٠۔ حجاب استعمال نہ کرنے سے۔ (عورت کے لئے)
١١۔ ایسی چیزیں پہننے سے جو غیر مسلوں کا شعار اور ان کی پہچان ہیں جیسے بندیا، سیندور اور منگل سوتر وغیرہ۔

کھانے پینے کے آداب
                کھاناپینا اﷲکی ایک نعمت اور بدن کی صحت وقوت کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ کھانا پینا خود کوئی مقصد نہیں بلکہ ایک مسلمان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ کھاپی کراپنے آپ کو زندہ اور صحت مند رکھ سکے تاکہ اﷲکی عبادت اس کے حکم کے مطابق انجام دے سکے اور آخرت کی عزت وسعادت حاصل کرسکے۔
لہٰذا مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیں :
١۔کھانے کے لئے حلال اور پاک چیزیں اختیار کریں۔
٢۔اﷲکی اطاعت کے لئے طاقت حاصل کرنے کی نیت سے کھانا کھائیں۔
٣۔ کھانا کھانے سے پہلے ضرورت ہو تواپنے دونوں ہاتھ دھوئیں۔
٤۔ کھانے سے پہلے «بِسْمِ اللَّهِ» پڑھیں, اور اگر بھول جائیں تو یاد آنے پر  «بِسْمِ اللَّهِ أَوَّلَهُ وَآخِرَهُ»  پڑھیں۔
٥۔ داہنے ہاتھ سے اور اپنے سامنے سے کھانا کھائیں۔
٦۔ بیٹھ کر کھانا کھائیں اور بیٹھ کر پانی پئیں۔
٧۔ پانی تین سانس میں پئیں اور برتن سے منہ ہٹا کر سانس لیں۔
٨۔ کھانے کے لئے بیٹھنے میں تواضع کا طریقہ اختیار کریں۔
٩۔ کھانے میں شریک ساتھیوں کا لحاظ کریں بالخصوص جب کھانا تھوڑا ہو۔
١٠۔ کھانے کے درمیان جائز باتیں کریں، سلام کا جواب دیں بلکہ دسترخوان کو تعلیم ودعوت کے لئے استعمال کریں۔
١١۔ تین انگلیوں سے کھانا کھائیں اور آخر میں انھیں خود چاٹ کر صاف کریں یا کسی سے چٹوالیں۔
١٢۔ اگر خوراک میں سے کچھ نیچے گرجائے تو اسے صاف کرکے کھالیں اور اسے شیطان کے لئے نہ چھوڑیں۔
١٣۔ کھانے کے بعد ہاتھ دھوئیں۔
١٤۔ کھانے کے بعد اﷲکا شکر ادا کریں اور یہ دعا پڑھیں: «اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِيْ أَطْعَمَنِيْ هٰذَا وَرَزَقَنِيْهِ مِنْ غَيْرِ حَوْلٍ مِّنِّيْ وَلَا قُوَّةٍ».
[تمام تعریف اﷲکے لئے ہے جس نے مجھے یہ کھانا کھلایااور میری کسی بھی کوشش اور طاقت کے بغیر مجھے یہ رزق عطا کیا]۔
١٥۔ کھانے کی دعا پڑھیں : «اَللّٰهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِیْهِ وَأَطْعِمْنَا خَیْراً مِنْهُ»
[اے اﷲ! اس میں ہمارے لئے برکت دے اور ہم کو اس سے اچھا کھانا کھلا]
١٦۔ اگر دودھ پئیں تو یہ دعا کریں: «اَللّٰهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِیْهِ وَزِدْنَا مِنْهُ»
[اے اﷲ! اس میں ہمارے لئے برکت دے اور اس میں سے مزید عطا فرما]
١٧۔ اپنے میز بان کے لئے دعا کریں۔  (دیکھئے آداب ضیافت صفحہ66 )
اورمندرجہ ذیل چیزوں سے پرہیز کریں:
١۔ بائیں ہاتھ سے کھانا کھانے سے۔
٢۔ ٹیک لگا کر کھانے سے۔
٣۔پیٹ کو خوب بھرلینے سے۔
٤۔ کھانے میں عیب نکالنے سے۔
٥۔ سونے اور چاندی کے برتنوں میں کھانے پینے سے۔
٦۔پینے والی چیزوں میں پھونک مارنے سے۔


سونے کے آداب
                دن کے حرکت وعمل اور محنت ومشقت کے بعد تھکاوٹ ہوجاتی ہے۔ تکان کے بعدرات میں نیند لینے سے آرام وراحت مل جاتی، جسم کے اندر قوت ونشاط دوبارہ لوٹ آتی اور چین وسکون مل جاتا ہے۔نیند انسان کی زندگی اور تندرستی کے لئے بے حد ضروری ہے۔قرآن پاک میں اﷲتعالی نے نیند کو باعث آرام قرار دیا ہے اور اسے اپنی ایک رحمت شمار کرایا ہے۔
لہٰذا مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیں :
١۔ صلاة عشاء کے بعد جلد سوجائیں۔
٢۔ وضو کرکے دائیں کروٹ کے بل سوئیں۔
٣۔ سونے سے پہلے اپنا دایاں ہاتھ رخسار کے نیچے رکھ کر یہ دعا پڑھیں:
«اَللّٰهُمَّ  بِاسْمِكَ أَمُوْتُ وَأَحْیَا»
[اے اﷲتیرے نام کے ساتھ ہی میں مرتا اور زندہ ہوتا ہوں]۔
٤۔ سونے سے پہلے سورہ ﮋ ﭑ  ﭒ  ﭓ  ﭔ، سورہ  ﮋ ﭤ  ﭥ  ﭦ  ﭧ اور سورہ  ﮋ ﮀ  ﮁ   ﮂ  ﮃ   پڑھ کر اپنی ہتھیلیوں پر پھونک لیں اور اپنے سارے بدن پر پھیر لیں اور ایسا تین بار کریں۔
٥۔ سونے سے پہلے کے اذکاراور دعائیں پڑھ کر سوئیں۔
٦۔ ایک ٹانگ پر دوسری ٹانگ رکھ کر چت لیٹ سکتے ہیں بشرطیکہ ستر کھلنے کا اندیشہ نہ ہو۔
٧۔ سونے سے پہلے دن بھر کا جائزہ لیں کہ کیا کھویا اور کیا پایا ہے۔
٨۔ سونے سے پہلے وتر پڑھ لیا کریں۔
٩۔ اگر نیند کی حالت میں کوئی پسندیدہ خواب دیکھیں تو اس کا ذکر اپنے کسی محبوب اور پسندیدہ شخص ہی سے کریں۔
١٠۔ اگر کوئی برا یا ناپسندیدہ خواب دیکھیں تو:
١)۔ اس خواب اور شیطان کے شر سے اﷲکی پناہ مانگیں۔
٢)۔جس کروٹ لیٹے تھے اسے بدل کر دوسری کروٹ ہوجائیں۔
٣)۔ بائیں جانب تین بار تھوک دیں۔
٤)۔ کسی سے یہ خواب بیان نہ کریں۔
                یاد رکھیں کہ اگر آپ نے ان باتوں پر عمل کیا تو آپ کو اس برے خواب کا کوئی ضرر نہ ہوگا۔
١١۔ بیدار ہوکر یہ دعا پڑھیں:
«اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِي أَحْيَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَإِلَيْهِ النُّشُورُ»
 [تمام تعریفیں اس اﷲکے لئے ہیں جس نے ہمیں مارنے کے بعد زندگی عطا کی اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے]۔
اور مندرجہ ذیل چیزوں سے پرہیز کریں:
١۔ پیٹ کے بل سونے سے خواہ دن ہو یا رات۔
٢۔صلاة عشاء کے بعد بلا وجہ باتیں کرنے سے۔
٣۔ اپنی طرف سے کوئی جھوٹا خواب گھڑ کر بیان کرنے سے۔


قضاء حاجت کے آداب
                قضاء حاجت ہر انسان کی لازمی ضرورت ہے جس سے کسی کو مفر نہیں۔ دین اسلام کے محاسن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے زندگی کے ہرچھوٹے بڑے معاملہ سے متعلق ہدایات سے نوازا ہے۔ پیشاب وپاخانہ کا سہولت سے نکلنا اور اس پر انسان کا قابو ہونایہ سب اﷲکی نعمتیں ہیں۔ غور کیجئے کہ اگر یہ رک جائے یا آپ کا اس پر کنٹرول ختم ہوجائے تو کیا ہوگا؟
لہٰذا مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیں :
١۔قضاء حاجت کے لئے کھلے میدان میں جانا ہو تو دور چلے جائیں یہاں تک کہ لوگوں کی نظروں سے چھپ جائیں۔
٢۔ بیت الخلاء میں داخل ہوتے ہوئے پہلے بایاں پیر داخل کریں اور نکلتے ہوئے داہنا پیر پہلے نکالیں۔
٣۔کھلے میدان میں کپڑا سمیٹنے سے پہلے اورمکان میں بیت الخلاء میں داخل ہونے سے پہلے دعا پڑھ لیں: «بِسْمِ اﷲِ اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ»
[اﷲکے نام کے ساتھ۔ اے اﷲمیں مذکر ومونث جن وشیاطین سے تیری پناہ چاہتا ہوں]
٤۔ پیشاب کے لئے نرم جگہ تلاش کریں تاکہ چھینٹے نہ پڑیں۔
٥۔ قضاء حاجت سے فارغ ہونے کے بعد پانی سے طہارت لے لیں، میسر نہ ہونے کی صورت میں مٹی، پتھریا کاغذی رومال وغیرہ سے صفائی کرلیں۔
٦۔ قضاء حاجت سے فراغت کے بعد مٹی یا صابون وغیرہ سے ہاتھ دھولیں۔
٧۔ قضاء حاجت سے فراغت کے بعد  «غُفْرَانَكَ»  پڑھیں۔
اورمندرجہ ذیل چیزوں سے پرہیز کریں:
١۔قضاء حاجت کے لئے جاتے ہوئے اپنے پاس کوئی ایسی چیز رکھنے سے جس میں اﷲکا نام ہو البتہ اگر اس کے گم ہونے یا ضائع ہونے کا خطرہ ہو تو دوسری بات ہے۔
٢۔ قضاء حاجت کی حالت میں مطلقاً بات چیت کرنے سے۔ نہ سلام کا جواب دیں اور نہ ہی اذان کا۔
٣۔ قبلہ کی جانب منہ یا پیٹھ کرنے سے۔
٤۔سایہ دار درختوں کے نیچے، لوگوں کے راستوں اور ان کے بیٹھنے کی جگہوں میں، ایسے ہی جانوروں کے بلوں اور سوراخوں وغیرہ میں پیشاب کرنے سے۔
٥۔ غسل خانے میں اور بہتے یا ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے سے۔
٦۔بلا ضرورت کھڑے ہوکر پیشاب کرنے سے۔
٧۔ داہنے ہاتھ سے استنجا کرنے اور شرمگاہ پکڑنے سے۔
٨۔استنجاء میں تین پتھروں سے کم استعمال کرنے سے۔
٩۔ ہڈی یا گوبر سے استنجا کرنے سے۔
آداب سفر
                سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے مگر وہ ایک انسانی ضرورت ہے۔ طلب علم، تجارت، اعزہ واقارب اور احباب ومتعلقین کی زیارت نیز حج وعمرہ وغیرہ کے لئے سفر کی ضرورت ہوتی ہے۔
لہٰذا مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیں :
١۔ سفر سے پہلے قرض ادا کردیں، لوگوں سے غلطیاں معاف کروالیں، امانتیں واپس کردیں اور جن کا خرچ اپنے ذمہ ہے ان کا انتظام کردیں۔
٢۔ نیک اور صالح رفقاء کو اختیار کریں اور سفر خرچ کا انتظام کرلیں۔
٣۔ اگر ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو کسی ایک کو سفر کی رفاقت کے  لئے قرعہ اندازی کرکے منتخب کرلیں۔
٤۔ جمعرات کے دن صبح سویرے سفر شروع کرنا مستحب ہے۔
٥۔ اہل وعیال اور دوستوں کو رخصت کریں اور ان سے وصیت اور نصیحت کی درخواست کریں۔
٦۔مسافر لوگوں کو الوداع کہتے ہوئے یہ دعا پڑھے: «أَسْتَوْدِعُكُمُ اللّٰهَ الَّذِي لَا تَضِيْعُ وَدَائِعُهُ» [میں تمھیں اﷲکے حوالے کرتا ہوں جس کے پاس رکھی ہوئی امانتیں ضائع نہیں ہوتیں]
٧۔مقیم لوگ سفر کرنے والے کو یہ دعا دیں: «أَسْتَوْدِعُ اللّٰہَ دِیْنَكَ وَأَمَانَتَكَ وَخَوَاتِیْمَ عَمَلِكَ»  [میں تمھارے دین، تمھاری امانت اور تمھارے اعمال کے انجام کو اﷲکے سپرد کرتا ہوں]
٨۔تنہا سفر کرنے کے بجائے ساتھی تلاش کریں اور اگر تین یا اس سے زیادہ ہوجائیں تو اپنے میں سے ایک کو امیر بنالیں۔
٩۔ سفر میں ایک دوسرے کی مدد کریں،کمزورکو سہارادیں اور بھوکے کو کھانا کھلائیں۔
١٠۔ سفر شروع کرنے سے پہلے استخارہ کرلیں۔
١١۔ سواری پر سوار ہوجانے کے بعد تین بار اﷲاکبر کہیں پھر یہ دعا پڑھیں: ﭶ   ﭷ  ﭸ   ﭹ  ﭺ  ﭻ  ﭼ  ﭽ    ﭾ  ,  ﮀ  ﮁ       ﮂ   ﮃ [پاک ہے وہ ذات جس نے اس سواری کو ہمارے لئے نرم اور تابع کردیا، ہم اس کو قابو میں کرنے والے نہیں تھے اور بے شک ہم اپنے رب کی طرف واپس لوٹنے والے ہیں]۔
١٢۔ پھر سفر کی دعا پڑھیں: «اَللّٰهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ فِي سَفَرِنَا هٰذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوَىٰ, وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضَىٰ, اَللّٰهُمَّ هَوِّنْ عَلَيْنَا سَفَرَنَا هٰذَا, وَاطْوِ عَنَّا بُعْدَهُ, اَللّٰهُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ وَالْخَلِيفَةُ فِي الْأَهْلِ, اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ, وَكَآبَةِ الْمَنْظَرِ, وَسُوءِ الْمُنْقَلَبِ فِي الْمَالِ وَالْأَهْلِ. » [اے اﷲہم تجھ سے اپنے اس سفر میں نیکی اور تقوی کا اور ایسے عمل کا جسے تو پسند کرتا ہے سوال کرتے ہیں۔ اے اﷲتو ہمارے اس سفر کو ہم پر آسان کردے، اس کی دوری کو لپیٹ دے، اور اے اﷲتو ہی سفر میں ہمارا ساتھی اور گھر والوں کا نگراں (خلیفہ) ہے۔ اے اﷲمیں سفر کی سختی سے، دلدوز منظر سے، اور واپسی پر مال و اولاد میں بری تبدیلی سے تیری پناہ مانگتا ہوں ]۔
١٣۔ سفر میں زیادہ سے زیادہ دعائیں کریں کیونکہ مسافر کی دعا قبول ہوتی ہے۔
١٤۔ جب کسی چڑھائی پر چڑھیں تو   اﷲاکبر  پکاریں اور جب نشیب میں اتریں تو  سبحان اﷲ پکاریں۔
١٥۔ اگر سفر میں کسی دشمن سے خطرہ ہو تو یہ دعا پڑھیں: «اَللّٰهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُورِهِمْ وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ.» [اے اﷲہم تجھ کو ان کے سامنے کرتے ہیں اور ان کی شرارتوں سے تیری پناہ مانگتے ہیں]۔
١٦۔ رات کے وقت سفر کریں کیونکہ رات میں زمین لپیٹ دی جاتی ہے۔
١٧۔ کسی منزل پر اتریں تو ہر آفت سے بچاؤ کے لئے یہ دعا پڑھیں: «أَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ»  [میں اﷲکے کامل کلمات کے ذریعے مخلوق کے شر سے پناہ مانگتا ہوں]۔
١٨۔ سفر سے متعلق فقہی احکام سیکھ لیں جیسے صلاة میں قصر اور جمع،تیمم اور موزوں پر مسح وغیرہ۔
١٩۔ جس خاص مقصد کے لئے سفر ہو اس کے بھی احکام ومسائل سیکھ لیں جیسے حج وعمرہ یا تجارت وغیرہ۔
٢٠۔ سفرمیں چلنے، سستانے، رات گذارنے اور سونے کے آداب سیکھ لیں۔
٢١۔ سواری کی خوراک اور اس کی صحت وتندرستی کا خیال رکھیں۔ اور گاڑی کے ایندھن اور اس کی مشینوں کی صلاحیت چیک کرلیں۔
٢٢۔ دوران سفر واجبات وفرائض کی ادائیگی کا خیال رکھیں اور اﷲکی نافرمانی سے اجتناب کریں۔
٢٣۔ سفر میں اچھے اخلاق کا مظاہرہ کریں۔
٢٤۔ جب کسی جگہ پڑاؤ ڈالیں تو ایک ساتھ رہیں۔
٢٥۔ مقصد سفر پورا ہوتے ہی فوراً  گھر پہنچنے میں جلدی کریں۔
٢٦۔ آنے سے پہلے اہل وعیال کو اطلاع دے دیں، اچانک نہ پہنچیں۔
 ٢٧۔ واپس ہونے پر جب اپنا شہر یا اپنی بستی نظر آنے لگے تو وہاں پہنچ جانے تک یہ دعا پڑھتے رہیں: «آیِبُوْنَ تَائِبُوْنَ عَابِدُوْنَ لِرَبِّنَا حَامِدُوْنَ»  [واپس پلٹنے والے، توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے اور اپنے رب کی حمد کرنے والے ہیں]
٢٨۔سفر سے واپس پہنچ کر پہلے اپنی قریبی مسجد میں جائیں اور اس میں دو رکعتیں پڑھیں۔
٢٩۔ سفر سے واپسی پر معانقہ کریں۔
٣٠۔ سفر سے واپسی پر ہدیہ لے کر آنا مستحب ہے۔
٣١۔ سفر سے واپسی پر لوگوں کو کھانا کھلانا مسنون ہے۔
اورمندرجہ ذیل چیزوں سے پرہیز کریں:
١۔ سفر سے واپس ہوکر رات میں اپنے اہل وعیال کے پاس پہنچنے سے بلکہ صبح یا شام کے وقت پہنچیں۔
٢۔ تنہا سفر کرنے سے، اگر عورت ہے تو محرم کے بغیر تنہا سفر کرنا اس کے لئے حرام ہے۔
٣۔ سفر سے لوٹتے ہوئے سواری کی دعا اور سفر کی دعا بھول جانے سے۔
٤۔ سفر میں کتا اور گھنٹی وغیرہ ساتھ لے جانے سے کیونکہ ایسے لوگوں کے ساتھ فرشتے نہیں رہتے۔
آداب تجارت
                تجارت حلال کمائی کا بہترین ذریعہ ہے۔ یہ بائع اور خریدار کے درمیان باہمی رضامندی سے انجام پاتا ہے۔
لہٰذا مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیں :
١۔ تجارت میں حلال وحرام معاملات کا علم حاصل کریں۔
٢۔ نفع اور سود کا فرق ضرور جان لیں۔
٣۔ شبہات والی چیزوں سے دور رہیں ورنہ زبان خلق سے آپ کا دین اور عزت وآبرو دونوں محفوظ نہیں رہے گا۔
٤۔اپنے تجارتی معاملات لکھ لیا کریں اور اس پر گواہ بنالیا کریں۔
٥۔ خرید وفروخت میں نرم پہلو اپنائیں۔
٦۔ دیتے ہوئے ترازو کا کانٹا تھوڑا سا جھکا کردیں۔
٧۔ اگر سامان میں کوئی عیب ہو تو خریدار کو بتادیا کریں۔
اورمندرجہ ذیل چیزوں سے پرہیز کریں:
١۔حرام اور ناپاک چیزوں مثلاً شراب، مردار، سور، بتوں اور مجسموں کی تجارت سے۔
٢۔ کتوں کے بیچنے سے الا یہ کہ شکاری کتے ہوں۔
٣۔ اپنے بھائی کے بیع پر بیع یعنی سودے پر سودا کرنے سے۔
٤۔ ناپ اور تول میں کمی کرنے سے، لیتے ہوئے بھر پور لینے اور دیتے ہوئے گھاٹا کرکے دینے سے۔
٥۔فریب اور دھوکے والے معاملات سے۔
٦۔ کسی چیز کو قبضہ میں لانے سے پہلے ہی بیچنے سے۔
٧۔ کسی غیر موجود چیز کو بیچنے سے۔
٨۔ کئی دن تک تھن میں دودھ روک کر جانور کو بیچنے سے۔
٩۔ چوری کئے گئے یا ظالمانہ طور پر چھینے گئے مال کو خریدنے سے کہ اس میں گناہ کے کام میں تعاون ہے۔
١٠۔ شراب بنانے کے لئے انگور بیچنے سے اور ڈکیتی یا مسلمان کے قتل کے لئے ہتھیار بیچنے سے۔
١١۔ سامان بیچنے کے لئے زیادہ قسمیں کھانے سے کیونکہ اس کے ذریعہ اگرچہ مال بک جاتا ہے لیکن برکت اٹھ جاتی ہے۔
١٢۔ مسجد کے اندر خرید وفروخت کرنے سے۔
١٣۔ نمازوں کے اوقات میں اورجمعہ کی اذان ہوجانے کے بعد خرید وفروخت کرنے سے۔
١٤۔قیمت بڑھانے کی خاطر ذخیرہ اندوزی کرنے سے۔
١٥۔ سامان کا عیب چھپانے سے۔
١٦۔ خریدنے کی نیت کے بغیر دام بڑھانے یا اس کام کے لئے دلال رکھنے سے۔
١٧۔ بینکوں میں فکس ڈپوزٹ اور سودی کاروبار سے۔


آداب قرض
                قرض تنگدست کے لئے ایک نعمت اور دینے والے کے لئے باعث اجرہے۔
لہٰذا مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیں :
١۔ اگر کسی ضرورت پر قرض لینا پڑے توادائیگی کی پختہ نیت رکھیں۔
٢۔ ضرورت مند کو قرض دیا کریں اور اس سے مطالبہ میں نرمی سے کام لیں۔
٣۔قرض لیتے اور دیتے ہوئے اسے لکھ لیا کریں اور اس پر گواہ بنالیا کریں۔
٤۔ موت آنے سے پہلے جلد از جلد قرض ادا کریں۔
٥۔ قرض کی ادائیگی اچھے اور بہتر طور پر کریں۔
٦۔ قرض کی ادائیگی آسان ہونے کے لئے یہ دعا پڑھیں: «اَللّٰهُمَّ اكْفِنِيْ بِحَلَالِكَ عَنْ حَرَامِكَ, وَأَغْنِنِيْ بِفَضْلِكَ  عَمَّنْ سِوَاكَ».  (اے اﷲاپنے حلال کے ذریعہ اپنے حرام سے مجھے کفایت عطافرمااور اپنے فضل کے ذریعہ اپنے علاوہ سے غنی وبے نیاز کردے)۔
٧۔ قرض ادا کرتے ہوئے قرض دینے والے کو یہ دعا دے۔ «بَارَكَ اللّٰهُ لَكَ فِي أَهْلِكَ وَمَالِكَ, إِنَّمَا جَزَاءُ السَّلَفِ الْوَفَاءُ وَالْحَمْدُ.» (اﷲتعالی تیرے لئے تیرے اہل اور مال میں برکت عطا فرمائے، قرض کا بدلہ تو صرف تعریف اور ادائیگی ہے)۔
اورمندرجہ ذیل چیزوں سے پرہیز کریں:
١۔بلا ضرورت قرض لینے سے۔
٢۔قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنے سے۔
٣۔بلا لکھے اور بلا گواہ بنائے قرض لینے اور دینے سے۔
٤۔ قرض دے کر نفع حاصل کرنے سے کیونکہ ایسا نفع سود ہے۔


آداب مصیبت وغم
                تکلیف ومصیبت اﷲکی جانب سے آزمائش اور گناہوں کے لئے کفارہ ہیں۔
لہٰذا مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیں :
١۔ مصیبت کے وقت پہلی فرصت میں صبر کریں۔
٢۔ مصیبت پڑنے پر ﮋ ﭳ     ﭴ  ﭵ    ﭶ       ﭷ  پڑھیں۔
٣۔ ہر مصیبت پر صبر کریں اور اﷲسے اجر وثواب کی امید رکھیں۔
٤۔ مصیبت کو گناہوں کا کفارہ اور درجات کی بلندی کا ذریعہ سمجھیں۔
اورمندرجہ ذیل چیزوں سے پرہیز کریں:
١۔مصیبت میں جزع فزع اور واویلا مچانے سے۔
٢۔نوحہ خوانی، چیخ وپکار، گالوں پر طمانچہ مارنے اور گریبان چاک کرنے سے۔
٣۔ اﷲتعالی پر اعتراض کرنے سے اور اس کے فیصلے پر ناراضگی سے۔
٤۔ خود کشی کرنے یا موت کی تمنا کرنے سے۔
٥۔ سیاہ لباس پہننے سے یا کالی پٹی باندھنے سے۔
٦۔ زمانہ کو گالی دینے سے۔
آداب عیادت
                عیادت وبیمار پرسی ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان بھائی کا حق ہے۔اس کا اجر وثواب اس قدر زیادہ ہے کہ حدیث کے الفاظ میں عیادت کرنے والا عیادت سے واپسی تک جنت کے باغوں کے پھل اور میوے چنتا رہتا ہے۔
لہٰذا مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیں :
١۔ مریض کی عیادت بار بار کریں بشرطیکہ مریض کو اس سے راحت ملتی ہو کیونکہ یہی عیادت کا مقصد ہے۔
٢۔ عیادت کرتے ہوئے مریض کے سرہانے بیٹھنا مسنون ہے۔
٣۔ مریض کے گھر والوں سے مریض کی خیر وعافیت دریافت کریں۔
٤۔ مریض کے بدن پر ہاتھ رکھ کر یہ دعا پڑھیں: «اَللّٰهُمَّ رَبَّ النَّاسِ! أَذْهِبِ الْبَاسَ, اِشْفِهِ وَأَنْتَ الشَّافِي, لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ, شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا». [اے اﷲ! لوگوں کے رب، تکلیف کو دور فرمادے، تو اسے شفا عطا فرما، تو ہی شفادینے والا ہے، تیری ہی شفاء شفاء ہے، تو ایسی شفادے دے جو بیماری کو نہ چھوڑے]
٥۔ خود مریض درد کی جگہ پر ہاتھ رکھ کر تین بار بسم اﷲپڑھے اور سات بار یہ دعا پڑھے:  «أَعُوْذُ بِعِزَّةِ اللّٰہِ وَقُدْرَتِهِ مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ وَأُحَاذِرُ ». [میں اﷲکی پناہ اور اس کی قدرت میں آتا ہوں اس برائی سے جو میں پاتا اور جس سے ڈرتا ہوں]۔
٦۔ بیماری کی حکمت بتاکر مریض کو تسلی دیں اور کہیں:
«لَا بَأْسَ طَهُورٌ إِنْ شَاءَ اللّٰهُ ».
[کوئی فکر کی بات نہیں اﷲنے چاہا تو یہ بیماری گناہوں سے پاک کرنے والی ہے]۔
٧۔ مریض کو صبر اور اﷲکی تقدیر پر راضی ہونے کی نصیحت کریں اور اسے سمجھائیں کہ بیماری کتنی ہی سخت ہو موت کی تمنا نہیں کرنی چاہئے اور اگر تمنا کرنا ہی ہے تو ان الفاظ کے ساتھ تمنا کرے: اے اﷲ! جب تک زندگی میرے لئے بہتر ہے مجھے زندہ رکھ اور جب وفات میرے لئے بہتر ہو تو مجھے وفات دے۔
٨۔ اگر مرض الموت ہے تو مریض کو اس کی نیکیاں یاد دلائیں تاکہ اسے اﷲسے خوش گمانی ہو اور اسے لاالہ الا اﷲکی تلقین کریں۔
٩۔ ایسے غیر مسلم مریضوں کی بھی زیارت کریں جن کے اسلام کی امید ہو۔
١٠۔ مریض پر معوذات، سورت الفاتحہ اور دیگر مسنون وثابت شدہ دعاؤں سے دم کریں۔
١١۔ مریض کو توحید کا درس دیں کہ شفا دینے والا صرف اﷲہے، غیراﷲسے شفا طلب کرنا شرک اکبر ہے۔
١٢۔ مریض کو بتائیں کہ تعویذ وگنڈہ، منکا وسیپی، کڑا وچھلا اور گھونگا وغیرہ پہننا حرام ہے بلکہ اگر مریض ان چیزوں کو پہنے ہوئے ہے اور آپ اسے نکلوا کر پھینک دینے کی طاقت رکھتے ہیں تو ضرور ایسا کریں۔
اورمندرجہ ذیل چیزوں سے پرہیز کریں:
١۔ مریض کے پاس دیر تک بیٹھنے سے تاکہ وہ خود یا اس کے اہل وعیال مشقت اور اکتاہٹ میں نہ پڑجائیں۔
٢۔ نکلنے اور داخل ہونے میں مریض کو تکلیف دینے سے۔
٣۔ مریض کے پاس بیٹھ کر سورہ یاسین کی تلاوت سے۔
٤۔ عیادت میں مریض کو پھول پیش کرنے سے کیونکہ اس میں کفار کی مشابہت ہے۔


آداب جنازہ
                موت ایک یقینی اور برحق چیز ہے نیز ایک مسلمان کا احترام مرنے کے بعد بھی باقی رہتا ہے۔
لہٰذا مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیں :
١۔وفات کے بعد میت کی دونوں آنکھیں بند کردیں۔
٢۔ میت کے لئے دعا کریں۔
٣۔ میت کے رشتہ داروں، دوستوں اور متعلقین کو اس کے موت کی اطلاع دیں تاکہ وہ جنازہ میں شریک ہوسکیں۔
٤۔ میت کے قرضے ادا کردیں اور اگر اس نے کوئی وصیت کی ہو تو اسے بھی نافذ اور جاری کریں۔
٥۔ میت کو غسل دیں۔ واضح رہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کو غسل دے سکتے ہیں۔
٦۔ میت کو تین سفید چادروں کا کفن پہنائیں۔
٧۔ جنازہ کے ساتھ خاموشی سے چلیں اور موت اور دنیا سے جدائی کے بارے میں غور وفکرکریں۔
٨۔ تعزیت کے لئے یہ الفاظ کہیں: «إِنَّ لِلّٰهِ مَا أَخَذَ, وَلَهُ مَا أَعْطَىٰ, وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهُ بِأَجَلٍ مُسَمًّى». [اﷲہی کا ہے جو اس نے لیا اور اسی کا ہے جو اس نے دیا اور اس کے پاس ہر چیز مقرر وقت کے ساتھ ہے]
٩۔ صلاة جنازہ پڑھیں جس کی کیفیت مختصراً اس طرح ہے کہ قبلہ رخ کھڑے ہوکر پہلی تکبیر کہیں،ر فع یدین کریں پھر سورہ فاتحہ کی قراء ت کریں پھر دوسری تکبیر کہہ کر نبی e پر صلاة (درود)بھیجیں پھر تیسری تکبیر کہہ کر میت کے لئے اخلاص کے ساتھ رحمت و مغفرت کی دعا کریں۔
١٠۔جنازہ میں نبی e سے ماثور دعائیں پڑھنا افضل ہے۔ آپ eسے ثابت ایک دعا یہ ہے: «اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا وَمَيِّتِنَا ، وَصَغِيْرِنَا وَكَبِيْرِنَا ، وَذَكَرِنَا وَأُنْثَانَا، وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا، اَللّٰهُمَّ مَنْ أَحْيَيْتَهُ مِنَّا فَأَحْيِهِ عَلَى الْإِسْلَامِ، وَمَنْ تَوَفَّيْتَهُ مِنَّا فَتَوفَّهُ عَلَى الْإِيْمَانِ، اَللّٰهُمَّ لَا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُ ، وَلَا تُضِلَّنَا بَعْدَهُ». (الٰہی! ہمارے زندہ ومردہ، موجود وغائب، ہمارے چھوٹے وبڑے، ہمارے مرد وعورت کو بخشش عطا فرما، اے میرے مولی ! ہم میں جس کو زندہ رکھ اس کو اسلام پر زندہ رکھ, اور ہم میں جس کووفات دے اس کو ایمان پر وفات دے، اے الٰہی ! اس کے اجر سے ہمیں محروم نہ کر اور نہ ہی اس کے بعد ہمیں گمراہ کر۔)
١١۔ جنازہ کے ساتھ چل کر قبرستان تک جائیں اور تدفین میں شریک رہیں۔
١٢۔ممکن ہو توجنازہ کے لئے کم سے کم تین صفیں بنائیں۔
١٣۔ میت کی تدفین کے بعد اس کی مغفرت اور ثبات قدمی کی دعا کریں۔
١٤۔ قبر صندوق جیسی یا لحد (بغلی) بنائیں مگر یاد رہے کہ لحد افضل ہے۔
١٥۔ قبر کو زمین کے برابر بنائیں یا کوہان نما بلند کردیں۔
اورمندرجہ ذیل چیزوں سے پرہیز کریں:
١۔ اونچی آواز میں رونے دھونے، چیخنے چلانے اور نوحہ کرنے سے۔
٢۔ میت پر مرثیہ خوانی اور قرآن خوانی سے۔
٣۔ یہ عقیدہ رکھنے سے کہ موت سے طلاق پڑجاتی ہے اس لئے میاں بیوی ایک دوسرے کو غسل نہیں دے سکتے۔
٤۔جنازہ ایسی چادر سے ڈھکنے سے جس میں کلمۂ طیبہ یا قرآنی آیات لکھی ہوئی ہوں۔
٥۔ جنازہ زمین پر رکھنے سے پہلے بیٹھنے سے۔
٦۔ ممنوعہ اوقات میں جنازہ پڑھنے اور دفن کرنے سے۔
٧۔ جنازہ لے جاتے وقت بآواز بلند کلمہ طیبہ پڑھنے سے۔
٨۔ میت کا تین دن سے زیادہ سوگ وغم منانے سے۔البتہ بیوی اپنے شوہر پر چار مہینے دس دن تک سوگ منائے گی۔
٩۔ میت کی وفات کے بعد آنے والی پہلی عید کو غم کے طور پر پرانے کپڑے پہننے سے۔
١٠۔ شوہر کی وفات پر بیوی کو چوڑیاں توڑنے سے۔
آداب قبرستان
                قبر آخرت کی پہلی منزل اور قبرستان ایک عبرت گاہ ہے نیز ایک مسلمان کا احترام موت کے بعد بھی قائم رہتا ہے۔
لہٰذا مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھیں :
١۔ موت اور آخرت کی یاد نیز میت کو دعا دینے کے لئے قبرستان کی زیارت کریں۔
٢۔ قبرستان کی زیارت کو جائیں تو یہ دعا پڑھیں: «اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُسْلِمِيْنَ, وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللّٰهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ, نَسْأَلُ اللّٰهَ لَنَا وَلَكُمُ الْعَافِيَةَ»[اے مومنو اور مسلمانوں کی بستی والو!  تم پر اﷲکی سلامتی ہو، یقینا ً ہم بھی اِن شاء اﷲتم سے ملنے والے ہیں، ہم اپنے لئے اور تمھارے لئے اﷲسے عافیت کی دعا کرتے ہیں]
٣۔کسی کافر کی قبر سے گذریں تو اسے جہنم کی خوشخبری سنائیں۔
اورمندرجہ ذیل چیزوں سے پرہیز کریں:
١۔ قبر پر بیٹھنے اور اس پر چلنے سے۔
٢۔قبرستان میں قضاء حاجت (پیشاب و پاخانہ ) کرنے سے۔
٣۔قبرستان میں گندگی کا ڈھیر ڈالنے سے۔
٤۔قبرستان میں رات گذارنے سے۔
٥۔ قبرستان میں صلاة (نماز)پڑھنے سے۔
٦۔ قبرستان میں صدقہ وزکاة تقسیم کرنے سے۔
٧۔قبرستان میں قرآن یا فاتحہ پڑھنے سے۔
٨۔ قبر پر پھول یا چادر چڑھانے سے۔
٩۔ قبر کو پختہ بنانے اور اس پر چراغاں کرنے سے۔
١٠۔ مسلمانوں کو کافروں کے قبرستان میں اور کافروں کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنے سے۔
١١۔ قبر پر اذان دینے سے۔
١٢۔ قبر ستان میں ہر ایک قبر کی الگ الگ زیارت کرنے سے۔
١٣۔ قبر میں مدفون شخص کا وسیلہ طلب کرنے سے۔
١٤۔ قبر کے پاس خشوع خضوع کی حالت میں سر جھکا کر کھڑا ہونے سے۔
١٥۔ قبرستان کی زیارت کے لئے دن یا مہینہ مخصوص کرنے سے۔

B
مراجع ومصادر
1-       القرآن الكريم
2-       الجامع الصحيح للإمام البخاري
3-       الجامع الصحيح للإمام مسلم
4-       جامع الإمام الترمذي مع تخريج الشيخ الألباني
5-       سنن أبي داود مع تخريج الشيخ الألباني
6-       سنن النسائي مع تخريج الشيخ الألباني
7-       سنن ابن ماجة مع تخريج الشيخ الألباني
8-       صحيح الجامع الصغير للشيخ الألباني
9-       صحيح الأدب المفرد للإمام البخاري تأليف الشيخ الألباني
10-   رياض الصالحين للإمام النووي
11-   منهاج المسلم للشيخ أبي بكر جابر الجزائري
12-   كتاب الآداب للشيخ فؤاد بن عبد العزيز الشلهوب
13-   سلسلة الآداب الإسلامية للشيخ محمد صالح المنجد
14-   بدع وأخطاء ومخالفات شائعة تتعلق بالجنائز والقبور والتعازي للشيخ أحمد بن عبد الله السلمي
15-   آداب الإسلام للشيخ محمد سعيد المبيض