الثلاثاء، 24 سبتمبر 2013

بے مثال فضیلت والے 10 دن (عشرۂ ذوالحجہ کے فضائل واحکام)

کائنات میں درجہ بندی کا نظام
پوری کائنات اللہ کی مخلوق ہے، اللہ تعالی نے تمام مخلوق کو ایک درجہ میں نہیں رکھا بلکہ ان میں درجہ بندی کی ہے، کسی کو کسی پر فضیلت عطا کی ہے، کسی کو بلند اور کسی کو پست رکھا ہے، کسی کو اعلی درجہ دیا ہے اور کسی کو ادنی درجہ دیا ہے،کسی کو عام بنایا اور کسی کو خاص، کسی کو اپنا منتخب بنایااور دوسروں پر واضح فضیلت عطا فرمائی، ارشاد باری ہے: وَرَبُّكَ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ وَيَخْتَارُ القصص: ٦٨ (اور آپ کا رب جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے چن لیتا ہے۔)
اللہ تعالی  نے اوقات ومقامات بلکہ افراد انسانی میں بھی یہ درجہ بندی قائم کی ہے ، اللہ تعالی نے انسانوں میں اپنے نبیوں اور رسولوں کو اپنا منتخب بندہ بنایا  اور پھر ان میں بھی ایک کو دوسرے پر فضیلت دی، ارشاد ہے: تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ مِنْهُمْ مَنْ كَلَّمَ اللَّهُ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍالبقرة: ٢٥٣ (یہ رسول ہیں جن میں سے ہم نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، ان میں سے بعض وہ ہیں جن سے اللہ تعالی نے بات چیت کی ہے اور بعض کے درجے بلند کئے ہیں۔)
اولوالعزم رسولوں کو بقیہ رسولوں پر فضیلت ہے ، اللہ کے دونوں خلیلوں کو اولوالعزم رسولوں کے اندر فوقیت حاصل ہے، اور خاتم الانبیاء  تو تمام بنی آدم کے سردار ہیں جن میں انبیاء ورسل بھی آتے ہیں۔
اللہ تعالی نے مہینوں میں ماہ رمضان کو فضیلت دی، سال کے دنوں میں عرفہ کے دن کو اور ہفتہ کے دنوں میں جمعہ کے دن کو فضیلت عطا کی، راتوں میں شب قدر کو فضیلت سے نوازا، عشروں میں ذوالحجہ کا پہلا عشرہ  اور رمضان کا آخری عشرہ فضیلت والا بنایا اور دونوں میں فرق یہ رکھا کہ ذوالحجہ کے پہلے عشرہ کے دنوں کا جواب نہیں اور رمضان کے آخری عشرہ کی راتوں کی کوئی مثال نہیں۔
سال کے تین عشرے:
سال میں تین عشرے بہت معروف ہیں، ذوالحجہ کا ابتدائی عشرہ، رمضان کا  آخری عشرہ اور محرم کا پہلا عشرہ ، آیئے دیکھتے ہیں کہ ان تینوں عشروں میں کیا فرق ہے؟
ذوالحجہ کے ابتدائی عشرہ کے فضائل کی تفصیل آگے آرہی ہے، رمضان کا آخری عشرہ بھی کافی اہمیت وفضیلت کا حامل ہے، چنانچہ رمضان کے آخری عشرہ کے تعلق سے بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں۔
رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں شب قدر کا تلاش کرنا مستحب ہے۔ نبی e اس کی تلاش میں محنت کیا کرتے تھے۔ جب آخری عشرہ آتا تو راتوں کو بیدار رہتے ، اپنے اہل وعیال کو جگاتے اور کمر کس لیتے۔
رسول اﷲ e شب قدر کی تلاش میں رمضان کے آخری دس دنوں میں اعتکاف بھی فرمایا کرتے تھے ۔ آپ کی ازواج مطہرات نے بھی آپ کی زندگی میں آپ کے ساتھ اور آپ کی وفات کے بعد مسجد میں اعتکاف کیا ہے۔
جہاں تک محرم کے پہلے عشرہ کی بات ہے تو عوامی شہرت کی حد تک یہ پہلے نمبر پر ہے لیکن افسوس اور دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمارے اردو اور ہندی بولنے والے بھائیوں کے درمیان کھوٹے سکے ہی زیادہ رائج ہیں، محرم کے پہلے عشرہ میں جو کچھ ہنگامہ آرائی ہوتی ہے سراسر بے بنیاد ہے، عشرۂ محرم کی کوئی حقیقت نہیں صرف عاشورۂ محرم کی حقیقت ہے، عاشوراء اور عشرہ میں وہی فرق ہے جو اردو زبان میں دس اور دسواں میں فرق ہے، عاشوراء صرف دسویں تاریخ کا نام ہے جبکہ عشرہ پورے دس دنوں کو شامل ہے۔
جہاں تک صوم عاشوراء کی بات ہے تو یہ مستحب ہے۔ اس دن نبی e اور آپ کے صحابہ ] نے صوم رکھا، اس سے قبل اسی دن موسی u نے اﷲ کے شکریہ میں صوم رکھا تھا، کیونکہ اس دن اﷲ تعالی نے موسی u اور ان کی قوم کو نجات عطا فرمائی تھی اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کردیا تھا، چنانچہ موسی علیہ السلام اور بنو اسرائیل نے اﷲ کے شکریہ کے طور پر اس دن صوم رکھا اور محمد e نے اﷲ کے نبی موسی u کی اقتدا کرتے ہوئے اس دن صوم رکھا۔ اہل جاہلیت بھی اس دن صوم رکھا کرتے تھے۔ نبی e نے امت پر اس دن کے صوم کی تاکید فرمائی لیکن جب رمضان فرض ہوگیا تو آپ e کا ارشاد ہوا: «جو چاہے عاشوراء کا صوم رکھے اور جو چاہے افطار کرے»([1]
عبد اﷲ بن عباس t فرماتے ہیں: «جب رسول اﷲ e نے عاشوراء کا خود صوم رکھا اور لوگوں کو اس کا حکم فرمایا تو صحابہ y نے عرض کیا: اے اﷲ کے رسول ! یہود ونصاریٰ اس دن کی تعظیم کرتے ہیں تو آپ e نے فرمایا: جب آئندہ سال ہوگا ان شاء اﷲ ہم نویں تاریخ کا (بھی) صوم رکھیں گے۔ عبد اﷲ بن عباس t  فرماتے ہیں کہ آئندہ سال آنے سے پہلے رسول اﷲ e کی وفات ہوگئی»([2]
ابوقتادہ t کی حدیث ہے کہ رسول اﷲ e کا ارشاد ہے: «صوم عاشوراء سے متعلق مجھے اﷲ تعالی سے امید ہے کہ وہ پچھلے ایک سال کا کفارہ ہے»([3]
یوم عاشوراء کا مہینہ ماہ محرم حرمت وا لے چار مہینوں میں سے ایک ہے۔ اس ماہ میں بھی نفلی صوم رکھنے کی فضیلت حدیث میں آئی ہے۔ ابوہریرہt سے روایت ہے کہ اﷲ کے رسول e نے ارشاد فرمایا: «رمضان کے بعد سب سے افضل صوم اﷲ کے مہینہ محرم کا صوم ہے اور فرائض کے بعد سب سے افضل صلاة رات کی صلاة (تہجد) ہے»([4]
مسلمان برکتوں کے درمیان
ایک مسلمان ہمیشہ برکتوں کے درمیان ہوتا ہے، اس کا قول بھی مبارک، اس کا عمل بھی مبارک اور اس کا وقت بھی مبارک ہے۔
قول کی برکت یہ ہے کہ قرآن پاک کی آیت کا ایک حرف اپنی زبان سے ادا کرتا ہے اور دس نیکیوں کا مستحق ہوجاتا ہے، اللہ کی رضا کا کوئی کلمہ بولتا ہے اور جنت میں اس کے درجات بلند ہوجاتے ہیں۔
عمل کی برکت یہ ہے کہ پانچ صلاتیں پڑھتا ہے پچاس صلاتوں کا ثواب حاصل کرتا ہے، رمضان کے ایک ماہ کا صوم رکھتا ہے دس مہینے کے صوم کا ثواب پاتا ہے اور شوال کے چھ دن اور صوم رکھ لے تو پورے سال حالت صوم میں رہنے کے اجروثواب سے سرفراز ہوتا ہے۔ ایک دانہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے، اللہ تعالی اس کے عوض ستر دانے بلکہ سات سو دانے بلکہ اللہ تعالی جسے چاہے اس سے بھی زیادہ عطا کرتا ہے۔
واضح رہے کہ اوقات کے سلسلہ میں جو بعض لوگوں نے مبارک ومنحوس (یا سعد ونحس) کی تقسیم کی ہے وہ سراسر غلط اور بے بنیاد ہے۔ مسلمان کا دن اور مہینہ اس کے اپنے عمل اور کردار کی بنیاد پر مبارک یا نامبارک ہے ورنہ اللہ کی شریعت کے مطابق کوئی دن یا مہینہ منحوس نہیں۔
سب سے زیادہ بابرکت ایام
ذوالحجہ کا پہلا عشرہ یعنی اس کے ابتدائی دس دن سال کے سارے دنوں میں سب سے زیادہ برکت والے دن ہیں، ان کا مقام ومرتبہ بہت بلند ہے، ان میں نیکیاں کمانے کے متعدد مواقع ہیں، ان کی فضیلت کے بہت سے دلائل ہیں۔
Π ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں کی پہلی فضیلت  یہ ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ان دنوں کی قسم کھائی ہے۔ ارشاد ہے: وَالْفَجْرِ (1) وَلَيَالٍ عَشْرٍ (2) وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ (3) وَاللَّيْلِ إِذَا يَسْرِ (4) هَلْ فِي ذَلِكَ قَسَمٌ لِذِي حِجْرٍ الفجر: ١ - ٥ (قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی اور جفت اور طاق کی اور رات کی جب وہ چلنے لگے، کیا ان میں عقلمند کے واسطے کافی قسم ہے؟۔)
دس راتوں سے اکثر مفسرین کے نزدیک ذوالحجہ کی ابتدائی دس راتیں مراد ہیں([5]
Ï  ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں کی دوسری فضیلت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ان کی قسم کھاتے ہوئے ان کے ساتھ ساتھ کئی دیگر اہم چیزوں کی بھی قسم کھائی ہے۔ ان اہم چیزوں  کی عظیم الشان اہمیت کو دیکھتے ہوئے ان کے ساتھی عشرہ کی بھی اہمیت وعظمت واضح ہوتی ہے۔
اس کے ساتھ فجر کی قسم کھائی گئی جو ایسا قیمتی وقت ہے جس وقت اندھیرے کے بعد اجالا بکھرتا ہے، سکون کے بعد حرکت واپس آتی ہے، نیند جو چھوٹی موت ہے ختم ہوکر بیداری اور زندگی شروع ہوتی ہے، اس وقت دن اور رات کے فرشتے اکٹھا ہوتے ہیں، یہ رات کی آخری تہائی سے بہت قریبی وقت ہے جب کہ رب ذوالجلال آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور فجر کے وقت کی صلاۃ ہی وہ صلاۃ ہے جس سے مومن ومنافق کی پہچان ہوتی ہے۔
اس کے ساتھ جفت اور طاق کی قسم کھائی، جفت اور طاق میں ساری مخلوق آجاتی ہے، مخلوق یا تو جفت ہے یا طاق، اس سے ہٹ کر نہیں، ذوالحجہ کے دس دنوں میں بھی ایک اہم طاق موجود ہے جو عرفہ کادن ہے، نو تاریخ کو ہے ، اور ایک اہم جفت موجود ہے، اور وہ قربانی کا دن ہے، جو دس تاریخ کو ہے۔
اس کے ساتھ میں رات کی قسم کھائی گئی جو دن سے زیادہ فضیلت رکھتی ہے، قرآن پاک میں رات کا ذکر دن سے زیادہ ہے، رات ہی نفلی صلاۃ اور تہجد کا وقت ہے، رات ہی رب کے ساتھ تنہائی کا وقت ہے جس میں اخلاص کی اور ریاء ونمودسے سلامتی کی زیادہ امید ہے، رات ہی کی ایک گھڑی میں وہ مبارک لمحہ بھی آتا ہے جب رب کریم اپنے بندوں سے قریب ہوکر دنیا کے آسمان پر اتر کر ان کو مخاطب کرتا ہے اور کہتا ہے : کیا ہے کوئی مانگنے والا جسے میں عطا کروں ؟ کیا ہے کوئی سوال کرنے والا جسے میں دوں؟ کیا ہے کوئی مغفرت کا طلبگارجس کو مغفرت عطا کروں؟؟  ۔رات کو بستروں سے پہلو الگ رکھنا، شب بیداری کرنا اہل جنت کا امتیاز ہے، ارشاد ہے: تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ (السجدة: ١٦ (نیز ارشاد ہے: كَانُوا قَلِيلًا مِنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ (الذاريات: ١٧ ( قرآن مجید میں ایک اور مقام پر رات کو سجود وقیام میں گذارنے کو رحمٰن کے حقیقی بندوں کی علامت بتائی گئی ہے، ارشاد ہے: وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا (63) وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا (الفرقان:٦٣-٦٤ ) (رحمٰن کے سچے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب بے علم لوگ ان سے باتیں کرنے لگتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ سلام ہے۔ اور جو اپنے رب کے سامنے سجدے اور قیام کرتے ہوئے راتیں گذار دیتے ہیں۔)
یاد رہے کہ پوری صلاۃ کے اندر قیام اور سجدے کی  دو حالت ایسی ہے جو اللہ تعالی کو سب سے زیادہ پسند ہے اسی لئے نبی کریم e نے ارشاد فرمایا:  «أَفْضَلُ الصَّلَاةِ طُولُ الْقُنُوتِ»([6]) «سب سے افضل صلاۃ وہ ہے جس میں لمبا قیام کیا جائے»۔
  امام نووی رحمہ اللہ نے شرح مسلم میں لکھا ہے کہ" اس حدیث میں قنوت سے بہ اتفاق اہل علم قیام مراد ہے"([7])۔ قیام ہی وہ حالت ہے جس میں اللہ کے مبارک کلام کی تلاوت کی جاتی ہے۔
 سجدے کی حالت کا پسندیدہ ہونا کئی احادیث  سے ظاہر ہوتا ہےجس میں سے ایک حدیث وہ ہے جس کے اندر رسول e نے فرمایا  ہے: «أَقْرَبُ مَا يَكُونُ الْعَبْدُ مِنْ رَبِّهِ وَهُوَ سَاجِدٌ فَأَكْثِرُوا الدُّعَاءَ»([8]) «سب سے زیادہ اپنے رب سے قریب بندہ سجدے کی حالت میں ہوتا ہےلہٰذا (اس حالت میں) زیادہ سے زیادہ دعائیں کرو»۔
قرآن پاک میں اللہ تعالی نے فرمایا: وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ العلق:١٩ (سجدہ کر اور قریب ہوجا)۔ نیز وہ حدیث بھی سجدہ کے محبوب ہونے کی دلیل ہے جس میں ایک صحابی نے نبی e سے جنت کے اندر رفاقت طلب کی تو آپ e نے فرمایا: «فَأَعِنِّي عَلَى نَفْسِكَ بِكَثْرَةِ السُّجُودِ»([9]) «زیادہ  سے زیادہ سجدے کرکے اپنے آپ پر میری مدد کرو»۔
اس تعلق سے اور بھی کئی احادیث ہیں۔
 ß  ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں کی تیسری فضیلت یہ ہے کہ یہی وہ ایام ہیں جن میں اللہ تعالی نے اپنے دین کی تکمیل کی ہے یعنی ان دنوں میں ہر نوع کی عبادت کو اکٹھا کردیا ہے، تکمیل دین وہ گراں قدر عطیہ ہے جس سے اہل دین کی تکمیل ہوتی ہے، ان کے اعمال وکردار اور اجروثواب کی تکمیل ہوتی ہے، حیات کاملہ نصیب ہوتی ہے، اطاعت وفرماں برداری میں لذت ملتی ہے، گناہوں سے حفاظت ہوتی ہے، مخلوقات کی محبت ملتی ہے، سنتوں کو فتح سے ہمکنار اور بدعتوں کو شکست سے دوچار ہونا ہوتا ہے، ایمان اور اہل ایمان کو طاقت وقوت ملتی ہے ، نفاق اور اہل نفاق  ذلت وپستی میں گرجاتے ہیں، تکمیل دین سے نفس امارہ پر ، شیطان لعین پر اور ناروا  خواہشات پر غلبہ نصیب ہوتا ہے، اللہ کی عبادت میں نفس پُرسکون ہوتا ہے، قرآن مجید کے اندر تکمیل دین کا اعلان بھی اسی عشرہ میں ہوا ہے، جس کی بنا پر یہودی ہم سے حسد کا شکار ہوگئے، ایک بار ایک یہودی عالم نے عمرفاروق t سے کہا: آپ کی کتاب قرآن مجید میں ایک ایسی آیت ہے کہ اگر وہ ہم یہودیوں پر نازل ہوئی ہوتی تو ہم یوم نزول کو عید بنالیتے، وہ آیت ہے: الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا المائدة: ٣  [آج میں نے تمھارے لئے تمھارے دین کو کامل کردیا، اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا،اور تمھارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا] عمرt نے فرمایا: مجھے معلوم ہے کہ یہ آیت کب اور کہاں نازل ہوئی ہے؟ جمعہ کے دن میدان عرفات میں نازل ہوئی ہے([10]
یہاں قابل غور یہ ہے کہ دین کامل میں اضافہ کی گنجائش نہیں ، وہ خود فطری تقاضوں کے مطابق ہوتا ہے، اس واقعہ میں بھی اس آیت کا نزول جس اعتبار سے ہوا ہے وہ خود یوم عید بھی ہے اور مقام عید بھی، جمعہ کے دن ہفتہ کی عید ہے اور میدان عرفات کا اجتماع عظیم الشان سالانہ عید ہے۔
Ñ   ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں کی چوتھی فضیلت یہ ہے کہ یہی وہ ایام ہیں جن میں اللہ تعالی نے اپنی نعمتوں کا اتمام کیا ہے یعنی ان دنوں میں ہر قسم کی عبادت کو جمع کرکے روح کی غذا اور اس کی لذت کا سامان کردیا ہے، اتمام نعمت کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ اللہ نے اسلام کے لئے اپنے بندوں کے سینے کھول دیئے، وہی سرزمین عرب جہاں یہودیت ونصرانیت اور مجوسیت ووثنیت کا غلغلہ تھا اسلام کا پرچم سربلند ہوا،ارشاد ہے: هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا (الفتح: ٢٨) (وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے ہردین پر غالب کردے اور اللہ تعالی کافی ہے گواہی دینے والا)۔
اسی اتمام نعمت کا ایک مظہر یہ بھی ہے کہ حرم کا داخلہ مسلمانوں کے لئے مخصوص کردیا گیااور کفار ومشرکین کو حرم میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔
Ò  ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں کی پانچویں  فضیلت یہ ہے کہ یہی وہ ایام ہیں جن میں ہر قسم کی عبادات  جمع ہیں، ان دنوں میں کلمۂ شہادت کے اقرار، تجدید ایمان اور کلمہ کے تقاضوں کی تکمیل کا بھرپور موقع ہے، ان دنوں میں صلاۃ پنجگانہ اور دیگر نفلی صلوات بھی ہیں، ان دنوں میں صدقہ وزکاۃ کی ادائیگی کا موقع بھی ہے، ان دنوں میں صوم کی عبادت بھی ادا کی جاسکتی ہے، یہ دن حج وقربانی کے دن تو ہیں ہی، البتہ حج وقربانی  کا معاملہ یہ ہے کہ وہ صرف انھیں دنوں میں ادا کئے جاسکتے ہیں دیگر ایام میں نہیں، ذکرودعا اور تلبیہ پکارنے کے بھی یہ ایام ہیں۔
ہرقسم کی عبادت کا ان دنوں میں اکٹھا ہوجانا یہ وہ شرف واعزاز ہے جو ان دس دنوں کے ساتھ مخصوص ہے، اس اعزاز میں اس کا کوئی اور شریک نہیں۔
Ó  ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں کی چھٹی  فضیلت یہ ہے کہ یہ وہ ایام ہیں جن کا ایک ایک لمحہ ، ایک ایک منٹ اور سکنڈ انتہائی قیمتی ہے، ان دنوں میں اللہ رب العزت کی طرف سے اعمال  صالحہ کی شدید محبوبیت کا اعلان عام ہے، یہ وہ خصوصی پیشکش (اسپیشل آفر) ہے جو سال کے بقیہ دنوں میں حاصل نہیں ہے، یہ نفع کمالینے کا موسم ہے، یہ نیکیوں میں مقابلہ کرنے کا وسیع میدان اور سنہرا وقت ہے،  حدیث میں ہے: عَن ابْنِ عَبَّاسٍ t قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : «مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهِنَّ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ الْعَشْرِ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذَلِكَ بِشَيْءٍ»([11]). عبداللہ بن عباس t کی روایت ہے کہ اللہ کے رسولeنے فرمایا: «عشرۂ ذوالحجہ میں کئے گئے عمل صالح اﷲ کو جس قدر زیادہ محبوب ہیں اتنا کسی اور دن میں نہیں، صحابہ ] نے دریافت کیا: حتی کہ جہاد فی سبیل اﷲ بھی اتنا پسندیدہ نہیں، آپeنے فرمایا: جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں سوائے اس شخص کے جو اپنا جان ومال لے کر نکلا لیکن کچھ بھی لے کر واپس نہیں ہوا»۔ 
حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان دنوں کے نیک اعمال سے بقیہ دنوں کے کسی عمل کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا حتی کہ جہاد سے بھی نہیں جس کے فضائل معروف ومشہور ہیں، نہ جانی جہاد سے مقابلہ کیا جاسکتا ہے اور نہ مالی جہاد سے، اور نہ بیک وقت دونوں جہاد سے اگر آدمی کی جان یا مال  کچھ بھی سلامت رہ گئے، البتہ جو شخص جان ومال دونوں لے کر اللہ کی راہ میں نکلےاور پھر کچھ بھی لے کر واپس نہ ہو ، سارا مال اللہ کی راہ میں خرچ کردے اور اپنی قیمتی جان اللہ کی راہ میں قربان کرکے شہید ہوجائے۔ یہی تنہا وہ شخص ہے جو ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں نیک اعمال سے اپنا خزانہ معمور کرنے والے کا مقابلہ کرسکتا ہے،
ذرا غور کریں کہ ایسی ہمت اور ایسا موقع کس میں ہےکہ سارا جان ومال اللہ کی راہ میں قربان کردے؟؟ اس کے مقابلہ میں یہ کس قدر آسان ہے کہ اللہ کی طرف سے دیئے گئے اس خصوصی پیشکش سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عشرۂ ذوالحجہ میں اعمال صالحہ کے ذریعہ اپنا دامن مراد بھرلیا جائے۔!!
نیز حدیث میں ہے: عَنْ جابر t قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : «أفضل أيام الدنيا أيام العشر»([12]). جابرt کی روایت ہے کہ اللہ کے رسولeنے فرمایا: «دنیا کے ایام میں افضل ترین ایام ذوالحجہ کے ابتدائی دس دن ہیں»۔ 
Ô  ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں کی ساتویں   فضیلت یہ ہے کہ انھیں میں سے ایک دن عرفہ کا بھی دن ہے جس کے بارے میں اللہ کے رسول e کا ارشاد ہے: «مَا مِنْ يَوْمٍ أَكْثَرَ مِنْ أَنْ يُعْتِقَ اللَّهُ فِيهِ عَبْدًا مِنْ النَّارِ مِنْ يَوْمِ عَرَفَةَ, وَإِنَّهُ لَيَدْنُو ثُمَّ يُبَاهِي بِهِم الْمَلَائِكَةَ فَيَقُولُ مَا أَرَادَ هَؤُلَاءِ؟»([13]). «عرفہ کے دن سے زیادہ اﷲ تعالیٰ کسی اور دن جہنم سے آزادی نہیں عطا فرماتا، اﷲ تعالیٰ قریب ہوتا ہے پھر ان(عرفہ میں ٹھہرے ہوئے لوگوں) کے ذریعہ اپنے فرشتوں سے فخر کرتا ہے اور کہتا ہے: یہ لوگ کیا چاہتے ہیں؟»۔
نیز ارشاد ہے : «صَوْمُ يَوْمِ عَرَفَةَ أَحْتَسِبُ عَلَی اﷲِ أَن يُّکَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَہُ»([14])۔ «صوم عرفہ سے متعلق مجھے اﷲ تعالی سے امید ہے کہ سال گذشتہ اور آئندہ کا کفارہ ہوجائے گا»۔
                واضح رہے کہ حدیث میں مذکور فضیلت حاجیوں کے علاوہ دیگر لوگوں کے لئے ہے۔ جو حاجی میدان عرفات میں موجود ہوں انھیں افطار سے (یعنی بلا صوم) رہنا چاہئے جیسا کہ نبی e کی سنت ہے (متفق علیہ) تاکہ ان میں ذکر و دعا کے لئے قوت رہے۔
حاجیوں کے لئے عرفہ میں ٹھہرنا ہی حج کا رکن اعظم ہے کیونکہ نبیe کا ارشاد ہے: «الْحَجُّ عَرَفَةُ »([15]). «حج عرفہ ہی ہے»۔
نیز نبیe کا ارشاد ہے: «خَيْرُ الدُّعَاءِ دُعَاءُ يَوْمِ عَرَفَةَ وَخَيْرُ مَا قُلْتُ أَنَا وَالنَّبِيُّونَ مِنْ قَبْلِي: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ, وَهُوَ عَلىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ»([16]).  «عرفہ کے دن کی دعا تمام دعاؤں سے بہتر ہے، اور سب سے افضل کلمہ جو میں نے اور مجھ سے پہلے تمام انبیاء نے کہا ہے وہ یہ ہے: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ, وَهُوَ عَلىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ. (اﷲ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں ، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، ملک اسی کا ہے، تعریفیں اسی کے لئے ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے)» ۔
Õ  ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں کی آٹھویں   فضیلت یہ ہے کہ ان کا دسواں اور آخری دن یوم النحر    ہے جس کے بارے میں اللہ کے رسول e کا ارشاد ہے:  «إِنَّ أَعْظَمَ الْأَيَّامِ عِنْدَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَوْمُ النَّحْرِ ثُمَّ يَوْمُ الْقَرِّ»([17]). «بے شک اللہ تعالی کے یہاں تمام دنوں سے عظیم ترین دن یوم النحر (قربانی کادن) ہے، پھر اس کے بعد والادن»۔
یوم النحر وہ دن ہے جس میں حج کے بیشتر اعمال انجام دیئے جاتے ہیں، اس دن جمرۂ عقبہ کو کنکریاں مارنا ہے، قربانی کرناہے، سرکے بال کٹوانا یا منڈاناہے، طواف زیارت اور سعی کرنی ہے، ایسے ہی اس دن سارے مسلمان بقرعید مناتے ہیں، عید کی دورکعتیں پڑھتے، قربانی کرتے اور ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں۔
بہرکیف عشرۂ ذوالحجہ کے فضائل بہت ہیں ، ایک مسلمان کو چاہئے کہ ان مبارک دنوں کو غنیمت سمجھے، انھیں یوں ہی ضائع ہونے سے بچائے، ان میں ہر نیکی میں سبقت لے جانے کی تگ ودو کرے۔
ذوالحجہ سے متعلق ضعیف احادیث:
واضح رہے کہ ذوالحجہ سے متعلق بعض ضعیف وموضوع احادیث بھی بیان کی جاتی ہیں جن کا علم رکھنا مناسب ہے تاکہ ہم نادانی میں غیرمستند وغیرمعتبر باتوں میں نہ پھنس جائیں۔
پہلی حدیث: 
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَن النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا مِنْ أَيَّامٍ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ أَنْ يُتَعَبَّدَ لَهُ فِيهَا مِنْ عَشْرِ ذِي الْحِجَّةِ, يَعْدِلُ صِيَامُ كُلِّ يَوْمٍ مِنْهَا بِصِيَامِ سَنَةٍ, وَقِيَامُ كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْهَا بِقِيَامِ لَيْلَةِ الْقَدْرِ».
ترجمہ:
ابوہریرہ t کے حوالہ سے مرفوعاً یہ روایت بیان کی جاتی ہے  کہ «عشرۂ ذوالحجہ میں اللہ تعالی کو اپنی عبادت کیا جانا بہت پسند ہے، ان دنوں کا ہرصوم ایک سال کے صوم کے برابر ہے، اور ان دنوں میں ہر رات کی شب بیداری شب قدر میں قیام کے برابر ہے»۔
تخریج:
اسے امام ترمذی نے[كتاب الصوم، باب ما جاء في العمل في أيام العشر, کتاب:6، باب:52، حدیث:758] روایت کیا ہے اور اسے ضعیف قرار دیا ہے، ابن ماجہ نے بھی اسے [كتاب الصيام، باب صيام العشر, کتاب:7، باب:39، حدیث:1728] روایت کیا ہے، علامہ البانی نے بھی اس روایت کو [سلسلہ ضعیفہ، حدیث:5142] ضعیف قرار دیا ہے۔
دوسری حدیث:   
«من صام آخر يوم من ذي الحجة وأول يوم من المحرم فقد ختم السنة الماضية وافتتح السنة المستقبلة بصوم جعل الله له كفارة خمسين سنة». 
ترجمہ:
«جو شخص ذوالحجہ کے آخری دن اور محرم کے پہلے دن صوم رکھے  اس نے گذشتہ سال کا اختتام اور آئندہ سال کا افتتاح صوم سے کیا، ایسے شخص کے لئے اللہ تعالی پچاس سالوں کے گناہوں کو مٹادیتا ہے»۔
تخریج:
یہ حدیث ضعیف نہیں بلکہ موضوع ومن گھڑت ہے۔ ملاحظہ ہو الموضوعات لابن الجوزی2/199، تنزیہ الشریعہ 1/176، اللآلی المصنوعہ 1/146، تذکرۃ الموضوعات 1/118۔
تیسری حدیث:    
«من أَحْيَا ليلة الفطر وليلة الأضحى لم يمت قلبه يَوْم تَمُوت الْقُلُوب».
ترجمہ:
«جو شخص عید الفطر اور عید الاضحی کی رات جاگ کر گذارے اس کا دل اس دن موت سے محفوظ رہے گا جب سارے دل موت کا شکار ہوجائیں گے»۔
تخریج:
یہ حدیث بھی ضعیف نہیں بلکہ موضوع ومن گھڑت ہے۔ ملاحظہ ہو سلسلہ ضعیفہ، حدیث:520۔
عشرۂ ذوالحجہ کے اعمال صالحہ:
                عشرۂ ذوالحجہ میں اعمال صالحہ کی محبوبیت وفضیلت کا ادراک ہم کرچکے، اب آیئے دیکھا جائے کہ وہ کون سے اعمال ہیں جنھیں ہم ان دنوں میں انجام دے سکتے ہیں:-
Π  تجدید ایمان :
ایمان دنیا کی سب سے بڑی نیکی ہے اور فتنوں کے اس دور میں ہمیں تجدید ایمان کی بار بار ضرورت ہے۔  عَنِ أَبيْ عَمْرٍو، سُفْيَانَ بنِ عَبْدِ اللهِ -رضي الله عنه - قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ! قُلْ لِيْ فِي الإِسْلامِ قَوْلاً لاَ أَسْأَلُ عَنْهُ أَحَدَاً غَيْرَكَ؟ قَالَ: «قُلْ آمَنْتُ باللهِ ثُمَّ استَقِمْ»([18]).
                ابوعمرو سفیان بن عبد اللہ t  کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول e سے کہا: اسلام کے بارے میں مجھے کوئی ایسی بات بتادیجئے جس کے بارے میں آپ کے سوا کسی اورسے نہ پوچھوں, آپ e نے ارشاد فرمایا: «کہو میں اللہ پر ایمان لایا پھر اس پر ٹھیک ٹھیک قائم رہو»۔
نبی کریم e کو جامع کلمات سے نوازا گیا تھا، آپ e نے ان دوکلمات میں ایمان واسلام کے تمام معانی ومفاہیم کو سمیٹ دیا ہے، آپe نے صحابی کو حکم دیا کہ اپنی زبان ودل  سے اپنے ایمان کی تجدید کریں، اور اطاعت وفرماں برداری کے کاموں پر ڈٹ جائیں اور اللہ ورسول کی نافرمانی اور خلاف ورزی سے دور رہیں۔
تجدید ایمان کا ایک اہم حصہ شرک سے توبہ ہے۔ آیئے مختصر طور پر یہ جائزہ لیتے چلیں کہ ہمارے معاشرے میں کون سے شرکیہ اعمال پائے جاتے ہیں جن سے توبہ کرنا ضروری ہے۔
غیر اﷲسے دعا کرنا، ان سے مدد مانگنا، ان سے فریاد کرنا، ان کی پناہ ڈھونڈنا، ان کے لئے قیام،رکوع اور سجدہ کرنا، ان کے لئے نذر ونیاز دینا یا جانور ذبح کرنا،کعبہ کے سوا کسی اور جگہ کا طواف اور حج کرنا وغیرہ، یارسول اﷲمدد، یاعلی مدد، یا غوث مددپکارنا، تعویذ گنڈا پہننا، کڑا چھلہ دھاگا پہننا، ماں باپ یا بیٹے یا کسی غیراللہ کی قسم کھانا، میاں بیوی کے درمیان محبت یا نفرت پیدا کرنے والی عملیات کرنا یا کروانا، کسی قبر یا درخت یا پتھر سے تبرک لینا، کسی کی ذات یا جاہ ومرتبہ کا وسیلہ لینا، وغیرہ وغیرہ اعمال سے توبہ کرنا سخت ضروری ہے۔
اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو شرک اور شرک تک پہنچانے والے تمام اعمال سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
Ï  صلاۃ :
ایمان کے بعد سب سے بڑی نیکی صلاۃ ہے، لہذا عمل صالح کی محبوبیت کے ان دنوں میں فرائض وواجبات وسنن ونوافل کا خاص اہتمام کریں، سنن مؤکدہ وغیرمؤکدہ، تہجد اور دیگر نفلی صلاتوں کی حسب استطاعت ادائیگی کریں۔
ابوہریرہ t سے روایت ہے کہ رسول e نے فرمایا: «فرض کے بعد سب سے افضل صلاة رات کی صلاة [تہجد]ہے»([19]
ß  زکاۃ وصدقات:
زکاۃ وصدقات کی اہمیت کسی ذی شعور مسلمان سے مخفی نہیں،  قرآن پاک میں جگہ جگہ صلاۃ کی ادائیگی کے حکم کے ساتھ زکاۃ دینے کا بھی حکم دیا گیا ہے، ظاہر ہے کہ صلاۃ خالص اللہ کا حق ہے، اور زکاۃ کا فائدہ اللہ کے بندوں کو پہنچتا ہے۔ اور اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے حقوق کو اپنے دین میں بڑی اہمیت دی ہے۔ صدقہ وخیرات کی فضیلت میں بہ کثرت احادیث آئی ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ «جس دن بھی بندے صبح کرتے ہیں دو فرشتے نازل ہوتے ہیں، ایک کہتا ہے: اے اﷲ! خرچ کرنے والے کو اس کا بدل عطا فرما، دوسرا کہتا ہے: اے اﷲ! سمیٹ کر رکھنے والے کو بربادی عطا فرما»([20])۔ نیز نبی e کا ارشاد ہے: «ہرآدمی (بروز قیامت) اپنے صدقہ کے سایہ میں ہوگا یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ ہوجائے»([21]
Ñ   صوم:
اللہ کے نبی e نے ان دس دنوں میں ہر نیکی کی ترغیب دی ہے، ظاہر ہے کہ صوم نیکیوں میں سے ایک عظیم نیکی ہے، یہ وہ نیکی ہے جس کا اجر وثواب اللہ نے بے شمار رکھا ہے اور ازخود اس کا اجر دینے کا وعدہ کیا ہے، حدیث قدسی ہے: «قال الله تعالى: كل عمل ابن آدم له إلا الصيام فإنه لي وأنا أجزي به»([22]). «اللہ تعالی نے فرمایا کہ آدم کے بیٹے کا ہرعمل اس کے لئے ہے سوائے صوم کے، وہ بے شک میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا»۔ نبی e نے ان دنوں میں صوم رکھا ہے۔ عن هنيدة بن خالد عن امرأته عن بعض أزواج النبي صلى الله عليه وسلم قالت : «كان النبي صلى الله عليه وسلم يصوم تسع ذي الحجة ويوم عاشوراء وثلاثة أيام من كل شهر. أول اثنين من الشهر وخميسين»([23]).
«ہنیدہ بن خالد اپنی بیوی سے روایت کرتے ہیں کہ نبی e کی ایک زوجۂ مطہرہ نے بیان کیا کہ آپ e ذوالحجہ کے نو دن، محرم کی دسویں تاریخ اور ہر مہینہ میں تین دن --- مہینہ کا پہلا دوشنبہ اور دو جمعرات ----صوم رکھا کرتے تھے»۔
Ò  حج وعمرہ:
حج  ان دنوں کی خاص نیکی ہے جسے سال کے بقیہ دنوں میں نہیں کیا جاسکتا، حج کے فضائل معروف ومشہور ہیں، پھر بھی ہم چند باتیں ذکر کرتے ہیں:
                ١۔ ابوہریرہ t  سے مروی ہے : «سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الْأَعْمَالِ أَفْضَلُ؟ قَالَ إِيمَانٌ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ, قِيلَ ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ جِهَادٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ, قِيلَ ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ حَجٌّ مَبْرُورٌ»)[24](. «رسول eسے پوچھا گیا : کون سا عمل سب سے زیادہ افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان)[25](، پوچھا گیا: پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: اﷲ کی راہ میں جہاد، پوچھا گیا: پھر کون سا؟ آپ نے فرمایا: حج مقبول»۔
حج مقبول وہ حج ہے جس میں کسی گناہ کا ارتکاب نہ کیا گیا ہو۔
                ٢۔ ابو ہریرہ t سے ہی دوسری روایت ہے  کہ انھوں  نے اﷲ کے رسول eکو ارشاد فرماتے سنا : «مَنْ حَجَّ هَذَا الْبَيْتَ فَلَمْ يَرْفُثْ وَلَمْ يَفْسُقْ رَجَعَ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ»)[26](. «جس نے اس گھر کا حج کیا ،نہ کوئی بیہودہ گوئی کی اور نہ کوئی فسق کا کام کیا تو وہ اپنے گناہوں سے اس دن کی طرح پاک ہوکر لوٹے گا جس دن اس کی ماں نے اسے جنا ہے»۔
                ٣۔ ابو ہریرہ t ہی سے مروی ہے کہ رسول اﷲeنے ارشاد فرمایا: «الْعُمْرَةُ إِلَى الْعُمْرَةِ كَفَّارَةٌ لِمَا بَيْنَهُمَا وَالْحَجُّ الْمَبْرُورُ لَيْسَ لَهُ جَزَاءٌ إِلَّا الْجَنَّةُ»)[27](. «ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک کے درمیانی گناہوں کا کفارہ ہے اور حج مقبول کا بدلہ جنت ہی ہے»۔
                ٤۔عبد اﷲ بن مسعود t سے مروی ہے : رسول اﷲeنے فرمایا: «تَابِعُوا بَيْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ فَإِنَّهُمَا يَنْفِيَانِ الْفَقْرَ وَالذُّنُوبَ كَمَا يَنْفِي الْكِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ وَالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَلَيْسَ لِلْحَجَّةِ الْمَبْرُورَةِ ثَوَابٌ إِلَّا الْجَنَّةُ»)[28](. « حج وعمرہ پے در پے کیا کروکیونکہ یہ دونوں فقر ومحتاجی اور گناہوں کو اس طرح دور کرتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے،سونے اور چاندی کی گندگی کو دور کرتا ہے اور حج مقبول کا ثواب جنت ہی ہے»۔
Ó   صلاۃ عید اور قربانی:
صلاۃ عید اسلام کا ایک ظاہری شعار ہے، صلاۃ عید کی ادائیگی کے لئے خود بھی جانا چاہئے اور اپنے بال بچوں اور گھر کی عورتوں کو بھی لے جانا چاہئے۔
عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ رضي الله عنها قَالَتْ: «أُمِرْنَا أَنْ نُخْرِجَ الْحُيَّضَ يَوْمَ الْعِيدَيْنِ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ, فَيَشْهَدْنَ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَدَعْوَتَهُمْ, وَيَعْتَزِلُ الْحُيَّضُ عَنْ مُصَلَّاهُنَّ, قَالَتْ امْرَأَةٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ, إِحْدَانَا لَيْسَ لَهَا جِلْبَابٌ؟ قَالَ: لِتُلْبِسْهَا صَاحِبَتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا»)[29](.
 «ام عطیہ r فرماتی ہیں کہ نبی e نے ہم کو حکم دیا کہ ہم عید الفطر اور عیدالاضحی میں شادی شدہ ، حیض والیوں اور غیرشادی شدہ پردہ دارخواتین کو لے کر نکلیں۔ حیض والیاں عیدگاہ سے الگ رہیں گی البتہ خیر اور مسلمانوں کی دعا میں حاضر ہوں گی۔میں نے پوچھا: اے اﷲ کے رسول! ہم میں سے کسی کے پاس چادر نہ ہو تو؟آپ نے فرمایا: اس کی )کوئی مسلمان( بہن اسے اپنی چادر اڑھالے»۔
قربانی سے متعلق ارشاد باری ہے:  فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ ﮊ  الكوثر: ٢ (اپنے رب کے لئے صلاۃ پڑھئے اور قربانی کیجئے)۔  نیز نبی کریم e دس سال مدینہ رہے اور ہر سال قربانی کرتے رہے۔  آپ e نے قربانی کی تاکید بھی ہے آپ e کا فرمان ہے: «مَنْ كَانَ لَهُ سَعَةٌ وَلَمْ يُضَحِّ فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا»)[30](. «جس شخص کے پاس وسعت ہو اس کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے»۔
Ô  قربانی کرنے والا اپنے ناخن اور بال نہ کاٹے:
حدیث میں ہے: عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا رَأَيْتُمْ هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ فَلْيُمْسِكْ عَنْ شَعْرِهِ وَأَظْفَارِهِ»)[31](.  «ام سلمہ r سے روایت ہے کہ نبی e نے فرمایا کہ جب تم ذوالحجہ کا چاند دیکھو اور تم میں سے کوئی قربانی کرنا چاہتا ہے تو اپنے ناخن اور بال کاٹنے سے رک جائے»۔
سنن ابن ماجہ کی صحیح روایت میں اس قدر مزید اضافہ ہےکہ اپنے چمڑے کاٹنے سے بھی باز رہے۔   روایت کے الفاظ اس طرح ہیں: عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ فَلَا يَمَسَّ مِنْ شَعَرِهِ وَلَا بَشَرِهِ شَيْئًا»)[32](. «ام سلمہ r سے روایت ہے کہ نبی e نے فرمایا کہ جب  ذوالحجہ کا پہلا عشرہ آجائے اور تم میں سے کوئی قربانی کرنا چاہتا ہے تو اپنے بال اور چمڑے میں کچھ بھی نہ کاٹے»۔
چمڑے کاٹنے کی تشریح یہ ہے کہ ہونٹ کے چمڑے یا ناخن کے آس پاس کے چمڑے یا پاؤں کی ایڑیوں کے چمڑے وغیرہ نہ ہی نوچے جائیں اور نہ ہی کاٹے جائیں۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اگر کسی شخص کے پاس قربانی کی طاقت نہیں تو وہ قربانی والے دن اپنے ناخن اور بال وغیرہ کاٹ لے تو اسے قربانی کا ثواب مل جائے گاتو یہ بات درست نہیں کیونکہ اس کی دلیل سنن ابی داود کی ایک ضعیف روایت ہے جسے ہم آگے ذکر کررہے ہیں، اس لئے قابل حجت نہیں ہے۔ لہذا ناخن اور بال وغیرہ کے نہ کاٹنے کا حکم صرف اس شخص کے لئے ہے جو قربانی کرنا چاہتا ہے۔ اہل علم نے لکھا ہے کہ یہ دراصل اس وجہ سے ہے کیونکہ قربانی والا چونکہ حاجی کے بعض اعمال میں شریک ہے اس لئے اسے احرام کے بعض ممنوعات میں بھی شریک کردیا گیا۔  واللہ اعلم۔
ابوداود کی وہ روایت جس کی طرف پیچھے اشارہ کیا گیا تھا مندرجہ ذیل ہے: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أُمِرْتُ بِيَوْمِ الْأَضْحَى عِيدًا جَعَلَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ, قَالَ الرَّجُلُ: أَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ أَجِدْ إِلَّا مَنِيحَةً أُنْثَى أَفَأُضَحِّي بِهَا؟ قَالَ: لَا وَلَكِنْ تَأْخُذُ مِنْ شَعْرِكَ وَأَظْفَارِكَ, وَتَقُصُّ شَارِبَكَ وَتَحْلِقُ عَانَتَكَ, فَتِلْكَ تَمَامُ أُضْحِيَّتِكَ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ»)[33](.  
عبداللہ بن عمرو بن عاص tسے مروی ہے کہ نبی e نے فرمایا: «مجھے اضحی کے دن [ذوالحجہ کی دسویں تاریخ] کو عید منانے کا حکم دیا گیا ہے، اللہ تعالی نے یہ دن اس امت کے لئے بنایا ہے، ایک آدمی نے پوچھا کہ آپ مجھے بتایئے کہ اگر میرے پاس عطیہ یا عاریت میں دی ہوئی بکری یا اونٹنی ہو تو بھی کیا میں اس کی قربانی کروں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، بلکہ تم اپنے بال اور ناخن کاٹ لو، اپنی مونچھیں کترلو، اپنے ناف کے نیچے کے بال مونڈلو، یہ اللہ کے نزدیک تمھاری مکمل قربانی ہوجائے گی»۔
 Õ  ذکر الٰہی:
اللہ تعالی کا ارشاد ہے: لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ الحج: ٢٧ – ٢٨ (اپنے فائدے حاصل کرنے کو آجائیں، اور ان مقررہ دنوں میں اللہ کا نام یاد کریں ان چوپایوں پر جو پالتو ہیں، پس تم آپ بھی کھاؤ اور بھوکے فقیروں کو بھی کھلاؤ۔)
عَن ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا مِنْ أَيَّامٍ أَعْظَمُ عِنْدَ اللهِ وَلَا أَحَبُّ إِلَيْهِ الْعَمَلُ فِيهِنَّ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ الْعَشْرِ، فَأَكْثِرُوا فِيهِنَّ مِنَ التَّهْلِيلِ وَالتَّكْبِيرِ وَالتَّحْمِيدِ»([34](.  
عبد اللہ بن عمر t سے روایت ہے کہ نبی e نے فرمایا: «عشرۂ ذوالحجہ اللہ کے یہاں جتنا عظیم ہے اور اس میں کئے گئے عمل صالح اﷲ کو جس قدر زیادہ محبوب ہیں اتنا کسی اور دن میں نہیں، لہذا ان دنوں میں تہلیل وتکبیر اور تحمید زیادہ سے زیادہ کیا کرو»۔
تہلیل کا معنی ہے  لا الہ الا اللہ کہنا، تکبیر کا معنی ہے اللہ اکبر کہنا اور تحمید کا معنی ہے الحمدللہ کہنا۔
عید الاضحی میں چاند دیکھنے یا اس کی اطلاع پانے سے لے کر تیرہ ذوالحجہ کی شام تک کثرت سے بہ آواز بلند تکبیر پکارتے رہنا سنت ہے البتہ عورتوں کو آہستہ اور پست آواز میں تکبیر کہنی چاہئے۔ تکبیر کا صیغہ یہ ہے : اللّٰهُ أَكْبَرُ اللّٰهُ أَكْبَرُ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ ، وَاللّٰهُ أَكْبَرُ اللّٰهُ أَكْبَرُ ، وَلِلّٰهِ الْحَمْدُ
                نافع کی روایت ہے کہ عبد اللہ بن عمرt عید الفطر اور عیدالاضحی کے دن عید گاہ پہنچنے تک تکبیر پکارا کرتے تھے۔عید گاہ پہنچ کر امام کے آنے تک تکبیر کہا کرتے تھے ۔ پھر جب امام آجاتاتو اس کی تکبیر کے ساتھ تکبیر کہتے)[35](۔
                نوٹ: بیک آواز اجتماعی تکبیر بدعت ہے ۔نبیeاور آپ کے صحابہ سے ثابت نہیں۔ درست بات یہ ہے کہ ہرشخص تنہا تنہا الگ آواز میں تکبیر کہے ۔
Ö    تمام اعمال صالحہ:
ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں ہرعمل صالح اللہ کو بہت محبوب ہے جیسا کہ حدیث گذرچکی ہے، چنانچہ سابقہ تمام اعمال کے علاوہ ہروہ عمل جو باعث اجر وثواب ہے ان دنوں میں اس کا اہتمام کرنا چاہئے۔ دعا، توبہ واستغفار، تلاوت قرآن، نبی کریم e پر صلاۃ وسلام، تحصیل علم، دعوت الی اللہ، امر بالمعروف ونہی عن المنکر، انفاق فی سبیل اللہ، صدقہ وخیرات، والدین کے ساتھ حسن سلوک، صلہ رحمی  وغیرہ وغیرہ ۔
×    برائیوں سے دوری:
ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں جس طرح ہرنیکی کا ثواب بڑھ جاتا ہے ایسے ہی گناہوں کا ارتکاب بھی سنگین اور شدید رخ اختیار کرلیتا ہے۔ اس لئے کہ یہ شریعت کا ایک عام قاعدہ ہے کہ فضیلت والے اوقات یا مقامات میں جس طرح نیکیوں کو عظمت حاصل ہوجاتی ہے ایسے ہی گناہوں کا ارتکاب خطرناک ہوجاتا ہے۔
لہذا ایک مسلمان کو ایسے تمام گناہوں اور نافرمانیوں سے بچنا چاہئے جو اﷲ تعالی کے غضب یا لعنت کا باعث ہوں، مثلاً سودخوری، رشوت خوری، زناکاری، چوری، ناحق کسی کا قتل ، یتیموں کا مال کھانا، کسی کی جان اور مال یا عزت وآبرو پر کسی قسم کا ظلم کرنا، معاملات میں فریب اور دھوکادہی کا ارتکاب ، امانتوں میں خیانت، والدین کی نافرمانی ، رشتے توڑنا، بغض وکینہ رکھنا، اﷲ کے حق کے بغیر تعلقات توڑنا اور بات چیت بند رکھنا، سگریٹ نوشی یا تمباکو نوشی ، شراب پینا یا کسی اور نشہ آور چیز کا استعمال کرنا، غیبت و چغلی، جھوٹ بولنااور جھوٹی گواہی دینا، ناحق دعوے کرنا اور جھوٹی قسمیں کھانا، داڑھی مونڈانا یا کتروانا، مونچھوں کو پست کے بجائے لمبی رکھنا، کبروغرور میں مبتلا ہونا، کپڑوں کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانا، گانے سننا اور آلات موسیقی اپنے پاس رکھنا، گندی اور عریاں فلمیں اور مجرمانہ سیریل دیکھنا، تاش اور پتے کھیلنا، عورتوں کا بے پردگی اور کافر عورتوں سے مشابہت اختیار کرنا۔ اور ان کے علاوہ وہ تمام کام جن سے اﷲ اور اس کے رسول نے منع فرمایا ہے۔



مراجع ومصادر
1-       قرآن کریم مع اردو ترجمہ وتفسیر  مطبوعہ شاہ فہد قرآن کریم  پرنٹنگ کمپلیکس، مدینہ منورہ، سعودی عرب۔
2-       الجامع الصحيح للإمام البخاري
3-       الجامع الصحيح للإمام مسلم
4-       السنن الأربعة (الترمذي وأبوداود والنسائي وابن ماجة) مع تخريج الشيخ الألباني
5-       صحيح الجامع الصغير للشيخ الألباني
6-       سلسلة الأحاديث الصحيحة والضعيفة للشيخ الألباني
7-       مسند الإمام أحمد بتحقيق الأرنؤوط
8-       موطأ الإمام مالك
9-       سنن الدارقطني بتحقيق الأرنؤوط
10-  صحيح ابن حبان
11-  المكتبة الشاملة الالكترونية الإصدار 3.47




([1]) یہ حدیث متفق علیہ ہے، اسے امام بخاری اپنی جامع صحیح میں متعدد مقامات پر لائے ہیں،  كتاب الصوم باب صيام يوم عاشوراء (کتاب :36 باب :68 حديث:1897) كتاب التفسير باب سورة البقرة (کتاب :68 باب:2 حديث:4232)  اور امام مسلم نے اسے  كتاب الصيام باب صوم يوم عاشوراء میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :13باب :19 حديث:115-(1125))۔
([2]) یہ حدیث صحیح مسلم میں كتاب الصيام باب أي يوم يصام في عاشوراء (کتاب :13 باب:۲0 حدیث :۱3۳ (۱134)) میں مروی ہے۔
([3])یہ حدیث صحیح مسلم میں كتاب الصيام باب استحباب ثلاثة أيام من كل شهر وصوم يوم عرفة وعاشوراء والاثنين والخميس (کتاب :13 باب :36 حدیث :196 (۱162)) میں مروی ہے۔
([4])یہ حدیث صحیح مسلم میں كتاب الصيام باب فضل صوم المحرم (کتاب :13 باب :38 حدیث:202 (۱163)) میں مروی ہے۔
([5]) ملاحظہ کیجئے تفسیر طبری وابن کثیر وآلوسی وغیرہ۔
([6])یہ حدیث صحیح مسلم میں كتاب صلاة المسافرين وقصرها باب أفضل الصلاة طول القنوت (کتاب :6 باب :22 حدیث :164 (756)) میں مروی ہے۔
([7]) دیکھئے صحیح مسلم معہ شرح نووی ۳/۹۴/1257۔
([8])یہ حدیث صحیح مسلم میں كتاب الصلاة باب ما يقال في الركوع والسجود (کتاب :4 باب :42 حدیث :215 (482)) میں مروی ہے۔
([9])یہ حدیث صحیح مسلم میں كتاب الصلاة باب فضل السجود والحث عليه (کتاب :4 باب:43  حدیث :226 (489)) میں مروی ہے۔
([10])یہ حدیث متفق علیہ ہے، اسے امام بخاری اپنی جامع صحیح میں كتاب التفسير باب سورة المائدة (کتاب:68 باب :5 حديث:4330) میں لائے ہیں، اور امام مسلم نے اسے  كتاب التفسير میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :54 حديث:3-(3017)۔
([11])یہ حدیث صحیح بخاری میں كتاب العيدين باب فضل العمل في أيام التشريق (کتاب :19 باب :11 حدیث :926) میں نیز مسند احمد میں (حدیث : 1968) بہ سند صحیح مروی ہے، واضح رہے کہ مذکورہ الفاظ مسند احمد کے ہیں۔
([12])یہ حدیث مذکورہ الفاظ کے ساتھ مسند بزار (كشف الاستار 2/28، حدیث: 1128) میں ہے اور اسے علامہ البانی سے صحیح قرار دیا ہے۔ [صحیح الجامع الصغیر/حدیث: ۱۱۳۳]
([13])یہ حدیث صحیح مسلم میں كتاب الحج باب في فضل الحج والعمرة ويوم عرفة (کتاب:15 باب:79 حدیث :436 (1348)) میں مروی ہے۔
([14])یہ حدیث صحیح مسلم میں كتاب الصيام باب استحباب ثلاثة أيام من كل شهر وصوم يوم عرفة وعاشوراء والاثنين والخميس (کتاب :13 باب :۳۶ حدیث :۱۹۶ (1162)) میں مروی ہے۔
([15])اس حدیث کو ابوداود(كتاب المناسك, باب من لم يدرك عرفة, کتاب:۵، باب:۶۹، حدیث:۱۹۴۹) ترمذی (كتاب الحج, باب ما جاء فيمن أدرك الإمام بجمع فقد أدرك الحج, کتاب:۶، باب:57، حدیث:814)، نسائی (كتاب مناسك الحج, باب فرض الوقوف بعرفة, کتاب:24، باب:203، حدیث:3016) اور ابن ماجہ (كتاب المناسك, باب من أتى عرفة قبل الفجر, کتاب:25، باب:۵۷، حدیث:3015) نے روایت کیا ہے اور علامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔
([16]) اس حدیث کو امام مالک [موطا، حدیث:500] اور امام ترمذی [کتاب الدعوات، باب فی دعاء یوم عرفہ، حدیث:3509] وغیرہ نے روایت کیا ہے، اور علامہ البانی نے سلسلہ صحیحہ [حدیث:1503] میں اسے ثابت اور صحیح وضعیف ترمذی [حدیث:3585] میں حسن قرار دیا ہے۔
([17])اس حدیث کو امام ابوداود [كتاب المناسك, باب في الهدي إذا عطب قبل أن يبلغ، کتاب:5، باب:19، حدیث:1765] اور امام احمد[حدیث:19098] نے روایت کیا ہے اور اسے امام ابن حبان[صحیح ابن حبان بترتیب ابن بلبان، حدیث:2811] اور علامہ البانی نے [الارواء، حدیث:1958، صحیح الجامع:1944، صحیح ابوداود، حدیث:1549] صحیح قرار دیا ہے۔
([18])یہ حدیث صحیح مسلم میں كتاب الإيمان باب جامع أوصاف الإسلام (کتاب :1 باب:13 حدیث:62 (38)) میں مروی ہے۔
([19])یہ حدیث صحیح مسلم میں كتاب الصيام باب فضل صوم المحرم (کتاب :13 باب:38 حدیث:202 (1163)) میں مروی ہے۔
([20])یہ حدیث متفق علیہ ہے، اسے امام بخاری اپنی جامع صحیح میں كتاب الزكاة باب قول الله تعالى {فأما من أعطى واتقى}. (کتاب:30 باب :26 حديث:1374) میں لائے ہیں، اور امام مسلم نے اسے  كتاب الزكاة باب في المنفق والممسك میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :12 باب:17 حديث:57-(1010)۔
([21]) اس حدیث کو طبرانی نے روایت کیا ہے اور علامہ البانی نے حسن قرار دیا ہے۔ دیکھئے سلسلہ صحیحہ، حدیث:3484۔
([22])یہ حدیث متفق علیہ ہے، اسے امام بخاری اپنی جامع صحیح میں كتاب الصوم باب هل يقول إني صائم إذا شتم (کتاب:36 باب :9 حديث:1805) میں لائے ہیں، اور امام مسلم نے اسے  كتاب الصيام باب فضل الصيام میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :13 باب:30 حديث:161-(1151)۔
([23])اس حدیث کو امام ابوداود [كتاب الصوم, باب في صوم العشر، کتاب:14، باب:62، حدیث:2439] اور امام نسائی [كتاب الصيام, باب صوم النبي صلى الله عليه وسلم، کتاب:22، باب:70، حدیث:2372] اور امام احمد[حدیث:22388] نے روایت کیا ہے اور علامہ البانی نے [ صحیح ابوداود، حدیث:2437، صحیح نسائی، حدیث:2372] صحیح قرار دیا ہے۔
([24])یہ حدیث متفق علیہ ہے، اسے امام بخاری اپنی جامع صحیح میں كتاب الإيمان باب من قال إن الإيمان هو العمل (کتاب:2 باب :16 حديث:26) میں لائے ہیں، اور امام مسلم نے اسے  كتاب الإيمان باب بيان كون الإيمان بالله تعالى أفضل الأعمال میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :1 باب:36 حديث:135-(83)۔
([25]) آج یہ بات جاننے والے کتنے لوگ ہیں کہ ایمان سب سے افضل عمل ہے، یہ سوال [سب سے افضل عمل کونسا ہے؟] میں نے اپنے کئی دروس میں پوچھا ، جواب دینے والوں نے کبھی صلاۃ )نماز( کا نام لیا ، کبھی غریبوں اور مسکینوں پر صدقہ وخیرات کا نام لیا، کبھی کوئی اور جواب دیا، شاید ہی کسی درس میں کوئی خوش نصیب ایسا کھڑا ہوا جو یہ کہے کہ ایمان سب سے افضل عمل ہے۔ اور یہ بات یاد رہے کہ ایمان توحید کے بغیر ناقابل قبول ہے۔ ارشاد باری ہے: ﴿وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف: 106] )ان میں سے اکثر لوگ باوجود اللہ پر ایمان رکھنے کے بھی مشرک ہی ہیں(۔ اور یہ بھی ذہن نشین رہے کہ شرک ہرعمل کو برباد کردیتا ہے حتی کہ ایمان جیسے قیمتی اور افضل عمل کو بھی۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ الزمر: ٦٥ (اور (اے محمدe!) آپ کی  طرف اور ان (پیغمبروں) کی طرف جو آپ سے پہلے ہو چکے ہیں یہی وحی بھیجی گئی ہے کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمہارے عمل برباد ہوجائیں گے اور تم خسارہ اٹھانے والوں میں سے  ہو جاؤ گے)۔
([26])یہ حدیث متفق علیہ ہے، اسے امام بخاری اپنی جامع صحیح میں كتاب الحج باب فضل الحج المبرور (کتاب:32 باب :4 حديث:1449) میں لائے ہیں، اور امام مسلم نے اسے  كتاب الحج باب فضل الحج والعمرة ويوم عرفة میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :15 باب:79 حديث:438-(1350)۔
([27])یہ حدیث متفق علیہ ہے، اسے امام بخاری اپنی جامع صحیح میں أبواب العمرة باب وجوب العمرة وفضلها (کتاب:33 باب :1 حديث:1683) میں لائے ہیں، اور امام مسلم نے اسے  كتاب الحج باب فضل الحج والعمرة ويوم عرفة میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :15 باب:79 حديث:437-(1349)۔
([28])اس حدیث کو امام ترمذی [كتاب الحج, باب ما جاء في ثواب الحج والعمرة، کتاب:7، باب:2، حدیث:738] اور امام نسائی [كتاب مناسك الحج, باب فضل المتابعة بين الحج والعمرة، کتاب:24، باب:6، حدیث:263۱] اور امام احمد[حدیث:3669] نے روایت کیا ہے اور علامہ البانی نے [ صحیح ترمذی، حدیث:810، صحیح نسائی، حدیث:2631] صحیح قرار دیا ہے۔
([29])یہ حدیث متفق علیہ ہے، اسے امام بخاری اپنی جامع صحیح میں أبواب الصلاة في الثياب باب وجوب الصلاة في الثياب (کتاب:9 باب :1 حديث:344) میں لائے ہیں، اور امام مسلم نے اسے  كتاب صلاة العيدين باب ذكر إباحة خروج النساء في العيدين إلى المصلىمیں روایت کیا ہے۔ (کتاب :8 باب:1 حديث:12-(890)۔
([30])اس حدیث کو ابن ماجہ نے  كتاب الأضاحي باب الأضاحي واجبة هي أم لا؟ میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :26 باب:2 حديث:3123(۔ اور علامہ البانی نے حسن قرار دیا ہے۔)صحیح ابن ماجہ، حدیث:3123(
([31])یہ حدیث صحیح مسلم میں كتاب الأضاحي باب نهي من دخل عليه عشر ذي الحجة وهو مريد التضحية أن يأخذ من شعره أو أظفاره شيئا (کتاب :35 باب:7 حدیث:41 (1977)) میں مروی ہے۔
([32])اس حدیث کو ابن ماجہ نے  كتاب الأضاحي باب من أراد أن يضحي فلا يأخذ في العشر من شعره وأظفاره میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :26 باب:11 حديث:3149(۔ اور علامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔)صحیح ابن ماجہ، حدیث:3149(
([33])اس حدیث کو ابوداود نے  كتاب الضحايا باب ما جاء في إيجاب الأضاحي(کتاب :10 باب:1 حديث:2789( اور نسائی نے  كتاب الضحايا باب من لم يجد الأضحية (کتاب:43 باب:2 حديث:4365( میں روایت کیا ہے۔  اور علامہ البانی نے ضعیف قرار دیا ہے۔)ضعیف ابی داود، حدیث:482 (
([34])اس حدیث کو امام احمد نے   روایت کیا ہے۔ (مسند احمد، حديث:6154(۔ اور محقق کتاب شعیب ارناؤط نے صحیح قرار دیا ہے۔
([35])اس حدیث کو امام دارقطنی نے صحیح سند سے روایت کیا ہے۔ (سنن دارقطنی، کتاب العیدین، حديث:4(۔