الاثنين، 23 ديسمبر 2013

تربیت اولاد سے متعلق کچھ باتیں


بسم اللہ الرحمن الرحیم
تربیت اولاد سے متعلق کچھ باتیں
از: عبدالہادی عبدالخالق مدنی ، داعی احساء اسلامک سینٹر ہفوف، مملکت سعودی عرب
            اللہ تعالی کی بے شمار نعمتوں، نوازشوں اور احسانات میں سے ایک عظیم نعمت اولاد اور بچے ہیں ۔اس نعمت کی قدر ذرا ان لوگوں سے پوچھ کر دیکھئے جو اس سے محروم ہیں۔ وہ اسے حاصل کرنے کے لئے اپنا کتنا قیمتی وقت اور کتنی دولت ومحنت صرف کرچکے ہیں اور ابھی مزید خرچ کرنے کے لئے تیار ہیں ۔
            اولاد اللہ تعالی کی امانت ہیں ۔ قیامت کے دن والدین سے ان کے بارے میں باز پرس ہوگی ۔آیا انھوں نے اس ذمہ داری کو محسوس کرکے اس امانت کی حفاظت کی تھی یا اسے برباد کردیا تھا ۔
            یہی اولاد جو ہمارے لئے زینت ہیں اگر دین اسلام پر ان کی تعلیم و تربیت نہ کی جائے اور انھیں اچھے اخلاق نہ سکھائے جائیں تو یہ رونق وجمال بننے کے بجائے دنیا وآخرت میں وبال بن جاتے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :  «كُلُّكُمْ رَاعٍ وَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، فَالإِمَامُ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالرَّجُلُ فِي أَهْلِهِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ». ''تم میں سے ہر شخص ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں بازپرس ہوگی ۔ حاکم ذمہ دار ہے اوراپنی رعایا کے بارے میں اس سے پوچھا جائے گا۔ مرد اپنے گھر کا ذمہ دار ہے ، اس سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہو گا''([1]
            یہ امانت ایک عظیم ذمہ داری ہے جس میں کوتاہی کرنے یا ضائع کرنے سے اللہ تعالی نے خبردار فرمایا ہے ۔ارشاد باری ہے : {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ} [التحريم: 6] ( اے ایمان والو ! اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں )۔
             اپنے بچوں کی مفید دینی تعلیم وتربیت کے بارے میں غفلت ولاپرواہی برتنے والے اور انھیں بے مقصد چھوڑ دینے والے والدین انتہائی برے انجام سے دوچار ہوتے ہیں۔کیونکہ اکثر اولاد اسی طرح خراب ہوتی اور بگڑتی ہے ۔ لوگ انھیں بچپن میں دین کے فرائض واحکام اور سنن وواجبات نہیں سکھاتے چنانچہ وہ بڑے ہوکر خود بھی کسی لائق نہیں رہتے اور اپنے والدین کو بھی کسی طرح کا فائدہ نہیں پہنچاسکتے بلکہ ان کے لئے الٹا دردِ سر بن جاتے ہیں ۔
            قابل مبارکباد اور لائق ستائش ہیں وہ والدین جو اپنے قیمتی اوقات میں سے کچھ وقت اپنے بچوں کی اصلاح وتربیت پر صرف کرتے ہیں۔ اپنے بچوں کی اسلام سے بھرپور وابستگی کی خاطر اپنے گھروں میں قرآن و حدیث اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑھنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ ان کے درمیان حفظ قرآن کے مقابلے نیز دیگر اسلامی ، ثقافتی اور تعلىمی مقابلے رکھتے اور عمدہ کارکردگی کی صورت میں ان کی حوصلہ افزائی کرتے اور انھیں قیمتی انعامات سے نوازتے ہیں ۔
            جو بدنصیب والدین اپنے بچوں کی تربیت میں کوتاہی کررہے ہیں بعد میں انھیں اپنی اس سنگین غلطی کا احساس ہوگا لیکن اس وقت ندامت اور پچھتاوے کا کوئی حاصل نہ ہوگالہٰذا ابھی سے انھیں ہوش کے ناخن لینا چاہئے اور اپنے بچوں کے روشن اور تابناک مستقبل کے لئے ہمہ تن لگ جانا چاہئے ۔اللہ تعالی تمام مسلمانوں کو صالح اولاد عطا فرمائے اور انھیں اپنے والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے۔آمین
            آئندہ سطروں میں تربیت اولاد سے متعلق کچھ باتیں ذکر کی جارہی ہیں  تاکہ اس ضمن میں ان سے فائدہ اٹھایاجاسکے۔
            1۔ اولاد کی تربیت میں سب سے اہم اور قابل لحاظ نکتہ یہ ہے کہ ان کے دلوں میں اللہ کی توحید اور فقط اسی کی عبادت و بندگی کا شعور پیدا کرنا چاہئے جو انسانی زندگی کا اصل مقصد ہے ۔ یوں تو ہربچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس فطرت کو انحراف اور ضلالت سے بچانے پر توجہ دینے اور اس کی مستقل نگرانی کی ضرورت ہوتی ہے ۔
            2۔ اللہ کی تعظیم، اس کی محبت اور اس کے احسانات کے تئیں شکر کے جذبات، نیز اس کا خوف  اور اس سے امیدیں  اپنے بچوں کے دلوں میں موجزن کرنا چاہئے۔ انھیں صحیح عقیدہ کی تعلیم دینا چاہئے نیز عقیدہ کی غلطیوں پر ٹوک کر ان کی اصلاح کرنی  چاہئے، شرک وکفر اور بدعات ومعصیت سے ان کے دلوں میں نفرت وکراہت پیدا کرنی چاہئے نیز امربالمعروف اور نہی عن المنکرکی ترغیب دیتے ہوئے اس کی عادت ڈالنی چاہئے ۔ اس طرح انھیں دین پر استقامت نصیب ہوگی۔ اس سلسلہ میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث ہمارے لئے مشعل راہ ہے جس میں آپ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھے کہ آپ نے ان سے مخاطب ہوکے فرمایا: «اے بچے! میں تجھے چند کلمات کی تعلیم دیتا ہوں: اللہ کی حفاظت کر اللہ تیری حفاظت کرے گا، اللہ کی حفاظت کر اس کو اپنے سامنے پائے گا۔ جب تو مانگ تو اللہ سے مانگ, اور جب تو مدد طلب کر تو اللہ سے ہی مدد طلب کر۔ یقین جان لے کہ اگر ساری امت اکٹھا ہوجائے کہ تجھے کچھ نفع پہنچادے تو نفع نہیں پہنچاسکتی مگر صرف اتنا ہی جتنا اللہ نے تیرے لئے لکھ دیا ہے, اور اگر ساری امت اکٹھا ہوجائے کہ تجھے کچھ ضرر پہنچادے تو ضرر نہیں پہنچاسکتی مگر صرف اتنا ہی جتنا اللہ نے تیرے خلاف لکھ دیا ہے۔ قلم اٹھالئے گئے ہیں اور صحیفے خشک ہوچکے ہیں»([2]
            3۔کلمۂ شہادت کے بعد سب سے اہم فریضہ پنجوقتہ صلاة ہے۔ بچہ کے دل میں اس کی اہمیت اور عظیم قدر ومنزلت کا شعور واحساس بٹھانا چاہئے ۔ سات سال کا ہوتے ہی اسے صلاة کا حکم دینا چاہئے اور دس سال کا ہوجانے کے بعد کوتاہی کرنے پر سزا دینی چاہئے جیسا کہ حدیث میں موجود ہے([3])۔ اس عمر میں بچہ باپ کے ساتھ مسجد جاتے ہوئے بہت خوش ہوتا ہے ۔ جو بچہ اس عمر میں صلاة کا پابند ہوجائے گا وہ بعد میں ان شاء الله کبھی صلاة نہیں چھوڑسکتا ہے۔
             سات سال سے دس سال کی عمر یعنی تین سال کی مدت میں تقریباً پانچ ہزار سے زیادہ صلاة کا وقت آتا ہے ۔ بھلا وہ بچہ جو پانچ ہزار صلاة پابندی سے پڑھ چکا ہو بعد میں اسے کیسے چھوڑسکتا ہے !!
            4۔ بچہ کی تعلیم وتربیت ، اس کی خاطر شب بیداری ، نگرانی وتوجہ ، اس کے اخراجات ، اس کو خوش رکھنا اور اس سے دل لگی کی باتیں کرنا سب عبادت میں داخل ہیں بشرطیکہ آدمی ان سب پر اللہ سے اجر وثواب کی نیت اور امید رکھے۔ اولاد پر خرچ کرنا تو نہایت ہی باعث اجر ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : «إِذَا أَنْفَقَ الرَّجُلُ عَلَى أَهْلِهِ يَحْتَسِبُهَا فَهُوَ لَهُ صَدَقَةٌ»([4]) ''آدمی اپنے اہل وعیال پر اجر وثواب کی نیت سے جو کچھ خرچ کرتا ہے وہ اس کے لئے صدقہ ہے''۔ یعنی اس میں صدقہ کا ثواب ہے ۔
            نیز ارشاد ہے :  «دِينَارٌ أَنْفَقْتَهُ فِي سَبِيلِ اللهِ وَدِينَارٌ أَنْفَقْتَهُ فِي رَقَبَةٍ، وَدِينَارٌ تَصَدَّقْتَ بِهِ عَلَى مِسْكِينٍ، وَدِينَارٌ أَنْفَقْتَهُ عَلَى أَهْلِكَ، أَعْظَمُهَا أَجْرًا الَّذِي أَنْفَقْتَهُ عَلَى أَهْلِكَ»([5]) ''ایک دینار تم نے اللہ کی راہ میں خرچ کیا، ایک دینار تم نے غلام آزاد کرنے میں خرچ کیا، ایک دینار تم نے مسکین پر صدقہ کیا، ایک دینار تم نے اپنے بیوی بچے پر خرچ کیا، اس میں سب سے زیادہ ثواب اس دینار کا ہے جو تم نے اپنے بیوی بچوں پر خرچ کیا''۔
            5۔تربیت کے معاملے میں اخلاص انتہائی ضروری ہے ۔ بچوں کی تربیت سے ہمارا مقصود ومطلوب اللہ کی رضا اور خوشنودی ہونا چاہئے، اگر تربیت سے دنیا مقصود ہے تو پھر ساری محنت وتوجہ ثواب سے خالی ہونے کی وجہ سے اکارت اور رائیگاں ہوجاتی ہے ۔ یہ سچ ہے کہ کچھ لوگ اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت پر بھرپور توجہ دیتے ہیں لیکن ان کا مقصد نیک نامی، مدح وثنا یا پھر ڈگریوں اور عہدوں کا حصول ہوتا ہے ۔ بے شک اچھی تعلیم سے ان کو یہ چیزیں حاصل ہوجاتی ہیں لیکن یہ ثانوی چیزیں ہیں، اصل چیز تو اللہ کی رضا اور اس کی خوشنودی ہے۔
            بعض دین فراموش دنیا دار لوگ خالص دنیوی تعلیم پر اپنی توجہ مرکوز رکھتے ہیں نیز اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کی نیت ان کے دل میں کبھی نہیں ہوتی۔ اس کے برخلاف ایک دیندار انسان ڈاکٹری کی ڈگری بھی حاصل کرنے کی اگر کوشش کرتا ہے تو اس کی نیت یہ ہوتی ہے کہ وہ مسلمانوں کا علاج کرے گا جس سے ان کو کافر ڈاکٹروں کے پاس جانے کی ضرورت نہیں رہ جائے گی ۔ظاہر ہے کہ ان دونوں کی نیتوں کے فرق کے اعتبار سے دونوں کے ثواب میں بھی فرق ہوگا۔
             اسی طرح بعض والدین اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک صرف اس نیت سے کرتے ہیں کہ ان کے چھوٹے بچے ان کو دیکھیں پھر ان کے بڑھاپے میں اسی طرح ان کے کام آئیں اور ان کی خدمت کریں۔ اس سے دنیا کی محبت ظاہر ہوتی ہے اور ایسی فکر اخلاص کے منافی ہے۔
            درحقیقت ایک صاحبِ ایمان اپنے والدین کے ساتھ نہایت اخلاص کے ساتھ اللہ کے حکم کی اطاعت سمجھ کر اور ثواب کی لالچ میں حسن سلوک کرتا ہے ۔ دنیاوی اور نفسانی اغراض ومقاصد اس کے پیشِ نظر نہیں ہوتے ۔
            تعلیم وتربیت، نان ونفقہ، ہنسانا کھلانا اور بچوں کو خوش رکھنا ہرایک معاملہ اگر اخلاص کے ساتھ ہے تو ان شاء اﷲ اجر وثواب کا باعث ہے لیکن اخلاص کے بغیر کسی قسم کے اجر کی توقع رکھنا فضول ہے۔
            6۔ اپنی محنت وکاوش اور عملی جد وجہد کے ساتھ ساتھ رب کریم سے دعائیں بھی کرنا چاہئے جیسا کہ انبیا ء کی سنت رہی ہے ۔ چنانچہ قرآن مجید میں ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا مذکور ہے کہ انھوں نے اپنی اولاد کے لئے شرک سے حفاظت کی دعا فرمائی ۔ ارشاد ہے : {وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنَامَ}  [إبراهيم: 35] ( اور  [یاد کرو] جب ابراہیم نے دعا کی تھی : اے میرے رب اس شہر [مکہ] کو پرامن بنادے اور مجھے اور میری اولادکو بھی [اس بات سے]  بچائے رکھنا کہ ہم بتوں کی عبادت کریں ۔)
            اسی طرح سورہ فرقان میں رحمان کے حقیقی بندوں کی جو صفات بیان کی گئی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے : {وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا } [الفرقان: 74] (اور جو دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اپنی بیویوں اور اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں متقین کا امام بنا۔)
            دعائیں وہ قیمتی ہتھیار ہیں جس سے گمراہ ہدایت یاب ہوتے اور بگڑے ہوئے سدھر جاتے ہیں۔ آدمی کی محنت اور لگن کے ساتھ جب اللہ کی توفیق و نصرت شامل حال ہوجائے تو منزل بہت قریب ہوجاتی ہے۔
            7۔ اپنی اولاد کے لئے رزق حلال کا اہتمام کرنا چاہئے, شبہات اور حرام سے بچنا چاہئے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "كل جسد نبت من سحت فالنار أولى به"([6]).  ''ہروہ جسم جس کی پرورش حرام سے ہوئی اس کا زیادہ حقدار جہنم ہے''۔
            والدین کو اس غلط فہمی میں نہیں مبتلا رہنا چاہئے کہ صرف سود ورشوت اور چوری وڈکیتی ہی سے آیا ہوا مال حرام ہوتا ہے بلکہ لوگوں کے مال ناحق کھانا اور ان کے حقوق ہڑپ کرجانا بھی حرام ہے ۔ جوا اور لاٹری سے آیا ہوا مال بھی حرام ہے ۔ لہذا ہر مسلمان کو اس بات سے سختی سے بچنا چاہئے اور اکل حلال کی کوشش میں رہنا چاہئے ۔ حلال تھوڑا ہونے کے باوجود بڑا بابرکت ہوتا ہے ۔
            8۔ خود عملی نمونہ پیش کرنا تربیت کے لوازم میں سے ہے۔ اگر بچہ اپنے باپ کو  تارک صلاۃ (بے نمازی)  دیکھے گا تو وہ خود صلاة کی پابندی کیونکر کرے گا؟ اگر بچی اپنی ماں کو فلمی گانے سنتے ہوئے پائے گی تو وہ خود اس سے کیونکر بچے گی ؟
            اگر ماں باپ نیک اور صالح ہوتے ہیں تو اللہ تعالی ان کی زندگی میں بھی اور ان کی وفات کے بعد بھی ان کی اولاد کی حفاظت فرماتا ہے ۔ چنانچہ سورہ کہف میں اللہ تعالی نے موسیٰ اور خضر علیہ السلام کے قصہ میں بیان فرمایا ہے کہ خضر علیہ السلام نے ایک گرتی ہوئی دیوار کو اجرت کے بغیر ٹھیک کردی ، وجہ یہ تھی کہ وہ دیوار دو یتیم لڑکوں کی تھی ، اس دیوار کے نیچے ان کے لئے خزانہ مدفون تھا اور ان کا باپ ایک صالح آدمی تھا لہذا اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے چاہا کہ یہ دونوں یتیم اپنی جوانی کو پہنچ کر اپنا خزانہ نکال لیں ([7]
            یہاں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ باپ ایک صالح انسان تھا جس کی نیکی کا فائدہ اس کی وفات کے بعد اس کے بچوں کو حاصل ہوا ۔
            9۔جس طرح ایک آدمی اپنے دنیاوی معاملات کی باریکیوں کے جاننے کا نہ صرف حریص ہوتا ہے بلکہ اس کے لئے بھر پور کوششیں کرتا ہے اسی طرح والدین کو  تربیت کے عمدہ اصولوں اور طریقوں کی معرفت کے لئے بھی محنت کرنی چاہئے ۔ باصلاحیت افراد سے مشورہ لینا چاہئے ۔ تربیت سے متعلق کتابوں اور کیسٹوں کی تلاش کرکے ان سے استفادہ کرنا چاہئے ۔
            10۔ تربیت کی کامیابی کا ایک اہم عامل صبر ہے ۔ بچہ کی رہنمائی پر صبر ،اس کے سوالات اور چیخ وپکار پر صبر ،اس کی بیماری پر صبر،اسے کامیاب مدرسہ تک پہنچانے میں صبرجہاں قابل اور باصلاحیت اساتذہ پائے جاتے ہوں بھلے ہی گھر سے کتنا دور ہو، مسجد تک صلاة کے لئے لے جانے پر صبر،بچہ کو ازخود تعلیم وتربیت دینے کے لئے کچھ وقت نکالنے پر صبر۔ واضح رہے کہ صبر اور کلیجہ پر پتھر باندھے بغیر کوئی قیمتی اور اہم چیز  حاصل نہیں ہوسکتی۔
            11۔ بچوں کی خصوصی صلاحیتوں اور انفرادی امتیازات کی رعایت ضروری ہے ۔ کچھ والدین بچوں کی ذہنی  صلاحیت، دلچسپی  اور مہارت کا نہ ہی اندازہ لگاتے ہیں اور نہ ہی انھیں مفید جگہ استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ انھیں بیکار ضائع ہونے دیتے ہیں جبکہ بعض بچے بڑے ذہین اور قوی حافظہ کے مالک ہوتے ہیں ،دیکھتے ہی دیکھتے مختلف نظمیں اور اشعار بلکہ اشتہارات کے نعرے وغیرہ جیسی لغو اور فضول چیزیں تک یاد کرلیتے ہیں اگر ان کی اسی صلاحیت کو کسی کارآمد چیز مثلا حفظ قرآن وحفظ حدیث وغیرہ میں استعمال کیا جائے تو یہ عمل دنیا وآخرت دونوں جگہ سودمند ، کارآمد اور نفع بخش ہوگا۔
            12 ۔ بچہ کی تربیت کرنے والے پر لازم ہے کہ غصہ پر قابو رکھے ۔ بچہ کو باادب بنانا ضروری ہے لیکن اس کے لئے شرعی اور طبعی اصولوں کی رعایت بھی ضروری ہے۔ جب تک بچہ دس سال کا نہ ہوجائے تب تک اسے کوئی سخت سزا نہیں دینی چاہئے ۔اگر کبھی مارنے کی ضرورت پڑے تو مسواک یا چھوٹی چھڑی کا استعمال کیا جائے۔ دس چھڑی سے زیادہ نہ مارا جائے۔ چہرہ یا شرمگاہ پر نہ مارا جائے ۔ مارتے ہوئے کسی قسم کا نام نکالنے یا کوئی برا کلمہ مثلا کتا یا گدھا وغیرہ کہنے سے قطعی پرہیز کیا جائے ۔
            تربیت کا بہتر انداز یہ ہے کہ آدمی انعامات کا طریقہ اپنائے۔ بچہ کے کردار کے مطابق اسے یا تو انعام سے نوازے یا انعام سے محروم کردے ۔ بچہ کے اچھے عمل پر مناسب انداز میں اس کی تعریف ہونی چاہئے،  نیکی پر قائم رہنے بلکہ آگے بڑھنے کے لئے عمدہ  طریقہ پر حوصلہ افزائی  کا بڑا اہم کردار ہے۔
            13۔ اپنے بچوں کو اچھے دوستوں کی رہنمائی کرنی چاہئے اور برے دوستوں سے بچانا چاہئے ۔ان کو وقت برباد کرنے والی جگہوں اور بری تفریح گاہوں میں نہیں لے جانا چاہئے۔ بچوں کے دلوں میں شجاعت و بہادری جیسے مردانہ اوصاف اور بچیوں کے دلوں میں عفت وحیاجیسی زنانہ خوبیوں  کا شعور پیدا کرنا چاہئے۔ اس حماقت میں مبتلا ہونے سے بچنا چاہئے کہ اسلامی تعلیمات سے دوری اور کنارہ کشی ہی تہذیب و تمدن ہے ۔ ہمیشہ اس بات کا خیال رہے کہ آدمی کی پشت سے پیدا ہونے والی اولاداور اس کی پیٹھ سے جنم لینے والا کوئی بچہ اپنے قول وکردار کے ذریعہ اللہ اور اس کے دین سے جنگ کرنے والاہرگز نہ ہونے پائے ۔
            14۔اولاد کی تربیت کے لئے والدین کو مل کر ایک متفقہ منصوبہ اور متحدہ لائحہ عمل طے کرنا چاہئے۔ ان میں سے کسی ایک کو بچوں کے سامنے کوئی ایسی حرکت نہیں کرنی چاہئے جس سے بچہ کو یہ احساس ہو کہ ماں باپ میں باہم اختلاف ہے۔ مثلاًجس وقت باپ بچوں کو سزا دے رہا ہو یا ان کی تنبیہ کررہا ہو اس وقت ماں بچوں کے سامنے اس پر اعتراض نہ کرے ۔ اگر باپ کی تنبیہ نامناسب ہو تو بچوں کی غیرموجودگی میں اس سے بات کرے ۔        
وبالله التوفيق والحمد لله رب العالمين وصلى الله على نبينا وسلم



([1]) یہ حدیث متفق علیہ ہے، اسے امام بخاری اپنی جامع صحیح میں متعدد مقامات پر لائے ہیں،  كتاب الجمعة باب الجمعة في القرى والمدن (کتاب :11 حديث:893) كتاب في الاستقراض وأداء الديون والحجر والتفليس باب: العبد راع في مال سيده، ولا يعمل إلا بإذنه (کتاب :43 حديث:2409)  كتاب العتق باب كراهية التطاول على الرقيق، وقوله: عبدي أو أمتي (کتاب :49 حديث:2554) كتاب النكاح باب {قوا أنفسكم وأهليكم نارا} (کتاب :67 حديث:5188) وغیرہ اور امام مسلم نے اسے  كتاب الإمارة باب فضيلة الإمام العادل، وعقوبة الجائر، والحث على الرفق بالرعية، والنهي عن إدخال المشقة عليهم میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :33باب :5 حديث: 20 - (1829))۔
([2])اس حدیث کو امام ترمذی نے أبواب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله صلى الله عليه وسلم میں روایت کیا ہے اور فرمایا ہے : هذا حديث حسن صحيح.۔ (کتاب :35باب :59 حديث:2516)۔ اور علامہ البانی نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔
([3])اس حدیث کو امام ابوداود نے  كتاب الصلاة باب متى يؤمر الغلام بالصلاة میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :2 حديث:495)۔ اور علامہ البانی نے بھی اسے حسن  صحیح قرار دیا ہے۔
([4]) یہ حدیث متفق علیہ ہے، اسے امام بخاری  نے اپنی جامع صحیح میں  كتاب الإيمان باب: ما جاء إن الأعمال بالنية والحسبة، ولكل امرئ ما نوى (کتاب :2 حديث:55) كتاب النفقات باب فضل النفقة على الأهل (کتاب :69 حديث:5351)  میں اور امام مسلم نے اسے  كتاب الزكاة باب فضل النفقة والصدقة على الأقربين والزوج والأولاد، والوالدين ولو كانوا مشركين میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :12باب :14حديث: 48 - (1002))۔
([5])امام مسلم نے اسے  كتاب الزكاة باب فضل النفقة على العيال والمملوك، وإثم من ضيعهم أو حبس نفقتهم عنهم میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :12 باب:12حديث: 39 - (995))۔
([6]) حدیث صحیح ہے، دیکھئے:  ۔( صحیح الجامع للالبانی/ 4519)
([7] ) دیکھئے سورہ کہف کی آیت نمبر 82۔