الاثنين، 14 يوليو 2014

گیارہ اہم باتیں


  أحد عشر مشهدا فيما يصيب العبد من أذى الخلق
  (من كتاب مدارج السالكين لابن القيم رحمه الله)


کسی کی اذیت رسانی کے باوجود اعلی اخلاق پر قائم رہنے کے لئے

گیارہ اہم باتیں
مع دو اہم ضمیمے

تألیف
امام ابن القیم رحمہ اللہ

ترجمانى وتقدیم وتعلیق
عبد الہادی عبد الخالق مدنی
داعیہ احساء اسلامک سینٹر ہفوف سعودی عرب
کمپیوٹر کتابت: محمد ابراہیم زین الدین مقدّم

 



بسم اللہ الرحمن الرحیم
مقدمہ
      دین اسلام کے اندر اعلی اور بلند اخلاق کی بہت اہمیت ہے۔ کتاب وسنت میں اس کی جابجا تاکید ہے۔ اخلاق حسنہ قرآن کریم کی تعلیم ہے ۔  اسی کو اپنا کر نبی  پاک  صلی اللہ علیہ وسلم  اخلاق عالیہ کے بلند مقام پر  فائز تھے ۔  آپ کو اﷲ تعالیٰ نے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث فرمایا تھا۔ حسن اخلاق تمام نیکیوں کی جامع ہے ۔  سب سے کا مل  ایمان اس شخص کاہے جس کے اخلاق سب سے بہتر ہوں اور ایسے شخص کے لئے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے بلند جنتوں میں ایک گھر کی ضمانت دی ہے۔  اپنے حسن اخلاق اور تقوی کی بدولت ہی اکثر لوگ جنت میں جائیں گے۔  قیامت کے دن حسن اخلاق والے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے سب سے زیادہ محبوب اور آپ کے قریب ہی نشست پانے والے ہوں گے ۔  حسن اخلاق میزان عمل کی سب سے وزنی چیز ہوگی۔  آدمی اپنے اخلاق سے روزہ دار اور تہجد گذار کا درجہ پا لیتا ہے ۔  حسن اخلاق سے  بستیاں آباد ہوتی ہیں اور عمروں میں اضافہ ہوتا ہے ۔ حسن اخلاق ا ﷲ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے ۔  
بلند اخلاقی کے مذکورہ اور دیگر بے شمار فضائل کے باوجود اس وقت اعلی اخلاق پر قائم رہنا نہایت دشوار ہوتا ہے جب کسی کی طرف سے ہمیں تکلیف اور اذیت پہنچتی ہے۔ اس نازک موڑ پر بھی اعلی اخلاق کا دامن ہمارے ہاتھوں سے نہ چھوٹنے پائے  اس کے لئے امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی ممتاز ومنفرد تصنیف مدارج السالکین کے اندر گیارہ اہم نسخے تجویز فرمائے ہیں۔ اردوداں طبقہ کے استفادے کے لئے اسے معمولی تصرف اور اختصار کے ساتھ اردو کے قالب میں منتقل کیا گیا ہے نیز موضوع کی تفہیم وتسہیل کی خاطر ذيلى عناوین اور حسب ضرورت تعلیقات وحواشی کا اضافہ کردیا گیا ہے۔
اس موضوع کے اختتام پر دو نہایت اہم اور مفید ضمیمے شامل کئے گئے ہیں۔ ایک ”اخلاق میں تبدیلی ممکن یا ناممکن؟“ کے عنوان سے ہے اور دوسرا  ”حسن اخلاق سے آراستہ ہونے کے وسائل“  کے عنوان سے۔
            اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مولائے کریم زیر نظر رسالہ کے مؤلف، مترجم اور اس کی نشرواشاعت میں معاون تمام افراد کو جزائے خیر سے نوازے۔آمین
دعاگو
عبد الہادی عبد الخالق مدنی
کاشانۂ خلیق۔اٹوابازار۔ سدھارتھ نگر۔ یوپی۔ انڈیا
داعی احساء اسلامک سینٹر۔ سعودی عرب



کسی کی اذیت رسانی کے باوجود اعلی اخلاق پر قائم رہنے کے لئے



گیارہ اہم باتیں

کسی مخلوق  کی جانب سے کوئی تکلیف اور اذیت پہنچنے پر اعلیٰ اخلاق پر قائم رہنے کے لئے  گیارہ  باتیں  سوچنے کی ہیں۔
1- جو کچھ ہوا اسے ہونا ہی تھا
اس کائنات میں جو کچھ ہوتا ہے اللہ کی لکھی ہوئی تقدیر کے مطابق ہی ہوتا ہے لہذا ہمارے ساتھ بھی جو کچھ ہوا ا ﷲ کی تقدیر کی بناپر ہوا  جیسے گرمی یا سردی یا بیماری سے انسان کو کوئی تکلیف پہنچ جاتی ہے۔  جب آدمی ایسا سوچتا ہے تو اسے راحت مل جاتی ہے کہ جو کچھ ہوا بالآخر اسے ہونا ہی تھا ۔
2- صبر کافائدہ اور انتقام کا نقصان
 جب انسان صبر کا ثواب اور اس کا نیک انجام سوچتا ہے تو صبر اس کے لئے آسان ہو جاتا ہے، نيز انتقام کے بعد جو ندامت اور پچھتاوا ہو تا ہے اس سے بچ جاتا ہے ۔ کیونکہ اپنی ذات کے لئے انتقام لینے والے کو ضرور ندامت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اگر آج اس نے پہلی اذیت پر صبر نہیں کیا اور انتقام لے لیا تو انتقام کے بعد آنے والی بڑی مصیبت پر مجبوراً صبر کرنا ہوگا۔
3- عفو ودرگزر کی فضیلت
جب ایک آدمی عفو و درگذر کی فضیلت اور اس کی مٹھاس کو سوچتا ہے تو سوائے کسی بے بصیرت شخص کے اور کوئی معاف کرنے سے منہ نہیں موڑسکتا ، ارشاد نبوی ہے: «وَمَا زَادَ اللهُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا» ([1])  اﷲ تعالیٰ معاف کر دینے کے بعد عزت و شرف اور قوت و غلبہ میں اضافہ ہی فرماتا ہے۔
معاف کردینے میں جو مٹھاس، اطمینان وسکون، عزت نفس اور رفعت شان ہے،  انتقام لینے میں ایسی کوئی چیز بھی نہیں, صرف نفس کے غصے کی آگ بجھ جاتی ہے اور وہ بھی پوری طرح سرد نہیں ہوتی۔ راکھ میں بہت سی چنگاریاں دل جلاتی رہتی ہیں۔ 
4- رضائے الٰہی
اگر کسی کو ا ﷲ سے محبت ہے تو اسے ا ﷲ کی راہ میں آنے والی ہرتکلیف پر راضی رہنا چاہئے۔
5- احسان
احسان یہ ہے کہ برائی کابدلہ بھلائی سے دے ۔ کیونکہ جو آپ کو تکلیف دے رہا ہے وہ اپنی نیکیاں آپ کے حوالے کر رہا ہے ۔ آپ کو مفلس والی حدیث یاد ہونی چاہئے([2])۔ پھر جب وہ شخص آپ کو اپنی نیکیاں دے رہا ہے تو اگر آپ سخی اور فیاض ہیں تو اسے اس کا بدلہ دیجئے ۔
      آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ عمل کے مطابق ہی آخرت میں جزاء ملے گی، جو بندوں پر رحم کرتا  ہے  ا ﷲ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے گا، جو کسی کی عیب پوشی کرتا ہے ا ﷲ تعالیٰ اس کی بھی عیب پوشی کرے گا([3])۔ چنانچہ جب آپ برائی کا بدلہ بھلائی سے دیں گے تو آخرت میں بھی اﷲ تعالیٰ آپ کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرے گا  اور آپ کے گناہ بخش کر آپ کے درجات بلند فرمائے گا۔
6- سکون قلب 
آدمی اذیت اٹھانے اور انتقام لینے کی فکر میں اپنے دل کو مشغول نہ کرے بلکہ اپنے دل کو خالی رکھ کر اپنی دوسری مصلحتوں پر غور کرنے میں اسے لگائے جو اس سے زیادہ مفید اور نفع بخش ہیں ۔ کیونکہ ایک غیر اہم ضرررساں معاملہ میں دل کی مشغولیت سے خسارہ کے سوا کچھ حاصل نہیں اور ایسا صرف کوئی احمق ہی کر سکتا ہے ۔
7- امن وامان 
اگر آدمی اذیت پر صبر کر لے اور انتقام نہ لے تو مستقبل کے لئے مامون و محفوظ ہو جائے گا لیکن اگر انتقام لیتا ہے تو اس سے دشمنی بڑھے گی اور مستقبل میں ہر وقت کسی خطرہ کا اندیشہ رہے گا۔ عقلمند آدمی اپنے کسی دشمن کو حقیر نہیں سمجھتا اس لئے اسے معاف کر کے اس کی دشمنی بڑھانے کے بجائے ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
8- جہاد
آدمی اگر ا ﷲ کی راہ میں تکلیف اٹھاتا ہے تو یہ جہاد کا ایک حصہ ہے ۔ کیونکہ بھلائی کا حکم دینے، برائی سے روکنے اور اﷲ کا دین اور اس کی توحید کی نشر واشاعت  میں اگر کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ا ﷲ تعالیٰ نے جنت کے بدلے ہمارے جان و مال کو خرید لیا ہے۔
     جو شخص ا ﷲ کی طرف دعوت دینے  کی راہ میں ستایا جائے اس پر صبر کرنا ضروری اور انتقام لینا حرام ہے ۔ قرآن مجید میں ہے :  {وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَاصْبِرْ عَلَى مَا أَصَابَكَ إِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ} [لقمان: 17] اچھے کاموں کی نصیحت کرتے رہنا، برے کاموں سے منع کیا کرنا اور جو مصیبت تم پر آجائے صبر کرنا (یقین مانو) کہ یہ بڑے تاکیدی کاموں میں سے ہے۔
9- مظلومیت ایک نعمت ہے
یاد رکھیں کہ مظلومیت ایک نعمت ہے کیونکہ ہر مظلوم کو مدد اور غلبہ کا انتظار ہوتا ہے جبکہ ہر ظالم کو سزا کا انتظار ہوتا ہے ۔ روشن مستقبل مظلوم کا ہے اور ہرعقلمند روشن مستقبل ڈھونڈتا ہے ۔
      یہ بھی یاد رہے کہ رنج وغم اور اذیتیں کفارہ ہیں، گناہوں کی بیماری کا علاج ہیں([4]
      یہ بھی یاد رہے کہ جن تکلیفوں کا سامنا کر رہا ہے دنیا میں اس سے بھی بڑی بڑی تکلیفیں ہیں جن سے وہ محفوظ ہے ۔ اگر جان و مال میں جس مصیبت کا شکار ہے اس سے بڑی کوئی مصیبت نہیں تو یاد رکھے کہ اس کا دین وایمان اور اس کی توحید تو محفوظ ہے ۔ اور نعمت ایمان کے مقابلہ میں ہرمصیبت ہیچ ہے۔
      جب قیامت کا دن ہوگا اور ایک مومن کو جان و مال اور عزت وآبرو میں تکلیف پہنچانے والے اپنی نیکیاں اسے دینے پر یا اس کے گناہ اپنے سر اٹھانے پر مجبور ہوں گے تو مومن کو کتنی خوشی ہو گی۔ لہذا مومن اپنی تکلیفوں اور لوگوں کی اذیت رسانیوں کو اپنے لئے نعمت اور ذخیرہ ٔ آخرت سمجھے ۔
10-       انعام یافتہ بندوں کی راہ
لوگوں کی طرف سے آنے والی تکلیفیں برداشت کرنے والا یاد رکھے کہ وہ اﷲ کے انعام یافتہ بندوں، نبیوں اور رسولوں نيز   اولیاء و صالحین کی روش اپنا رہا ہے, ان کی راہ پر چل رہا ہے  اور وہ ہمارے لئے بہترین اسوہ اور نمونہ ہیں ۔ جس کا ایمان جتنا زیادہ ہوتا ہے اس پر آزمائشیں بھی اتنی ہی زیادہ پڑتی ہیں ۔
11-      توحید
جب بندہ کا دل ا ﷲ کی محبت سے معمور ہو گا تو اس میں اس بات کے لئے جگہ ہی نہ ہوگی کہ مخلوق کی اذیت رسانیوں اور انتقام کے بارے میں سوچے ۔ اور اگر وہ ایساسوچتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی وہ اﷲ کی محبت سے آسودہ نہیں ہوا, ابھی اس کی بھوک باقی ہے ۔ محبت الٰہی کی شریف غذا کے سوا بھی اسے کوئی دوسری غذا چاہئے۔
      مذکورہ گیارہ باتیں جبھی انجام پا سکتی ہیں جب آپ ا ﷲ تعالیٰ کے ساتھ با ادب ہوں اور اپنے اخلاق کو اس کے ساتھ  بہتر بنائیں ۔ اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ کو اس بات کا علم ہو کہ آپ کا ہر عمل لائق عذر ہے اور اﷲ کی ہر نعمت باعث شکر ہے ۔      کیونکہ آپ ناقص ہیں اور ناقص کا ہرعمل ناقص ہوتا ہے اور ہرناقص عمل لائق عذرہوتا ہے ۔
اﷲ تعالیٰ نے اپنے اولیاء اور نیک بندوں کی تعریف میں ارشاد فرمایا  :  {وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ} [المؤمنون: 60] کہ وہ عمل کرنے کے باوجود دل میں ڈرے رہتے ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس کی تفسیر میں ارشاد فرمایا کہ اس آیت سے وہ آدمی مراد ہے جو صوم اور صدقہ کرتا ہے اور قبول نہ ہونے سے ڈرتا رہتا ہے ([5]
      شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ ا ﷲ نے کیا خوب  فرمایا ہے  :
  ”ا ﷲ کے ساتھ رہو تو مخلوق کے بغیر رہو اور مخلوق کے ساتھ رہو تو اپنی ذات اور نفس کے بغیر رہو“۔
      حقیقت یہ ہے کہ خالق و مخلوق کے ساتھ حسن اخلاق کا دارومدار انھیں دو باتوں پر ہے ۔ خالق کے ساتھ رہتے ہوئے درمیان میں مخلوق آجائے تو اخلاق بگڑ جاتا ہے توحید میں شرک کی آمیزش ہو جاتی ہے اور اگر مخلوق کے ساتھ رہتے ہوئے درمیان میں اپنا نفس اور نفسانیت آ جائے تو سارے اخلاق بداخلاقی سے بدل جاتے ہیں ۔
      ا ﷲ تعالیٰ ہمیں خالق و مخلوق دونوں کے ساتھ با اخلاق بنائے ۔ آمین۔


ضمیمہ(1)
اخلاق میں تبدیلی
ممکن یا ناممکن؟
بعض اہل دانش، مفکرین اور اصحاب فلسفہ کی رائے یہ ہے کہ انسان جن اخلاق پر پیدا ہوا ہے اس میں تبدیلی نا ممکن ہے ۔ اس غلط سوچ کی بنا پر بہت سے لوگ اپنے اخلاق میں تبدیلی کو محال اور ناممکن سمجھ کر اصلاح کی جانب کسی قسم کی  محنت و کوشش اور جہد وکاوش نہیں کرتے ۔ اگر وہ غصہ ور یا بدمزاج وغیرہ ہوتے ہیں تو کہتے ہیں  کہ یہ میرا پیدائشی اخلاق ہے اس میں تبدیلی نا ممکن ہے۔ حالانکہ دلائل کی روشنی میں غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ رائے سرے سے غلط ہے۔
اس کے غلط ہونے کی پہلی دلیل یہ ہے کہ ہم آئے دن اس بات کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں کہ کتنے ڈرپوک ، محنت و کوشش اور تعلیم و تربیت کے ذریعہ جری اور بہادر ہو گئے۔ کتنے جھوٹے، و عظ و نصیحت کا اثر قبول کرکے سچے انسان بن گئے ۔ کتنے بد اخلاق بری صحبتوں کو چھوڑ کر شریف لوگوں کا ساتھ کر کے صاحب اخلاق بن گئے۔
دوسری دلیل یہ ہے کہ انسانی مشاہدہ اس بات پر گواہ ہے کہ اگر حیوانات کی تربیت کی جائے تو وہ بھی اپنی طبیعت بدل لیتے ہیں چنانچہ بلیوں کو ٹریننگ دی گئی تو وہ چوہوں کے ساتھ رہنے لگ گئیں ۔ کتے ٹریننگ کے بعد بلیوں کے ساتھ رہنے لگے۔  بندروں سے ٹریننگ کے ذریعے عجیب وغریب کام لئے گئے ۔  تو جب حیوانات اپنے مزاج و اخلاق میں تبدیلی لا سکتے ہیں تو انسان بدرجۂ اولیٰ لا سکتا ہے ۔
تیسری دلیل یہ ہے کہ تمام ادیان و مذاہب نے مکارم اخلاق کی دعوت دی ہے، بد اخلاقی کی مذمت کر کے اس سے روکا ہے، اگر یہ کوئی ناممکن اور ناقابل عمل چیز ہوتی تو اس کا حکم ہرگز نہ دیا جاتا، کیونکہ آسمانی شریعتیں رب حکیم کی طرف سے نازل شدہ ہیں، اس میں کوئی حکم عبث اور بیکار یا انسانی طاقت و استطاعت سے باہر نہیں ہے ۔
      چوتھی دلیل یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا ہے  : «إنما العلم بالتعلم و الحلم بالتحلم و من يتحر الخير يعطه و من يتوق الشر يوقه».([6]) «علم سیکھنے سے حاصل ہوتا ہے، نفس کو صبر پر آمادہ کرنے سے صبر و تحمل ہوتا ہے ۔ جو خیر وبھلائی کی تلاش میں رہے گا اسے خیر عطا کردیا جائے گا اور جو برائی سے بچنے کا عزم رکھے گا اس كو برائی سے محفوظ رکھا جائے گا»۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے یہ دعا بھی مروی ہے :  وَاهْدِنِي لِأَحْسَنِ الْأَخْلَاقِ, لَا يَهْدِي لِأَحْسَنِهَا إِلَّا أَنْتَ, وَاصْرِفْ عَنِّي سَيِّئَهَا, لَا يَصْرِفُ عَنِّي سَيِّئَهَا إِلَّا أَنْتَ.([7]) «اے ا ﷲ مجھے حسن اخلاق کی ہدایت کر کہ تو ہی اس کی ہدایت کرسکتا ہے اور مجھ سے بد اخلاقی کو پھیر دے کیونکہ تو ہی اسے پھیرسکتا ہے»۔     


ضمیمہ(2)
حسن اخلاق سے
آراستہ ہونے کے وسائل
حسن اخلاق کی اہمیت وفضیلت سے واقف ہرشخص یقیناً اسے اپنانا چاہے گا اور اس قیمتی جوہر سے مزین وآراستہ ہونے کا خواہشمند ہوگا۔ ذیل میں ہم  چند ایسے وسائل ذکر کرہے ہیں جنھیں اپنانے سے ان شاء اللہ تعالی یہ کام آسان ہوجائے گا۔
١  ۔  ایمان و  عقیدہ کی اصلاح  : 
      اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان کے ظاہری اعمال اس کے اندرونی ایمان و عقیدہ کا نتیجہ ہوتے ہیں، اگر ایمان درست ہوگا تو اعمال بھی درست ہوں گے،  اور ظاہرہے کہ اچھے اخلاق اعمال ہی کا ایک حصہ ہیں  اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے  : «أَكْمَلُ الْمُؤْمِنِينَ إِيمَانًا أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا» ([8]) [اہل ایمان میں سب سے کامل ایمان والا وہ شخص ہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں]۔
٢  ۔  رب کریم سے دعا و التجا
دعا سے بہت کچھ حاصل ہوتا ہے ۔ ا ﷲ تعالى  سے حسن اخلاق کا طلبگار ہونا نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا اسوہ  ہے،  چنانچہ صحیح مسلم میں یہ دعا  مروی ہے  : «وَاهْدِنِي لِأَحْسَنِ الْأَخْلَاقِ لَا يَهْدِي لِأَحْسَنِهَا إِلَّا أَنْتَ، وَاصْرِفْ عَنِّي سَيِّئَهَا لَا يَصْرِفُ عَنِّي سَيِّئَهَا إِلَّا أَنْتَ»([9]).
«اے ا ﷲ مجھے حسن اخلاق کی ہدایت کر کہ تو ہی اس کی ہدایت کرسکتا ہے اور مجھ سے بد اخلاقی کو پھیر دے کیونکہ تو ہی اسے پھیرسکتا ہے»۔     
٣  ۔  کوشش و کاوش 
       بعض اخلاق فطری طور پر انسان کے اندر ودیعت ہوتے ہیں، اور بعض اخلاق وہ ہوتے ہیں جنھیں انسان اپنی محنت و کوشش سے حاصل کرتا ہے ۔ یہ ایک یقینی شرعی اصول ہے کہ اللہ تعالی کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا لہٰذا جو اپنے اندر اعلی اخلاق پیدا کرنے کی کوشش کرے گا اللہ تعالی اسے کبھی نامراد نہیں فرمائے گا۔
۴۔  حسن اخلاق کے فضائل پر غور و فکر
      انسان جب کسی چیز کے فضائل و فوائد پر نظر رکھتا ہے تو اسے اپنا نا اس کے لئے بے حد آسان ہوتا ہے، اس کے بر خلاف جو شخص ان فوائد وثمرات سے بے خبر یا غافل ہوتا ہے وہ یقینی طور پر اسے حاصل کرنے کی صحیح کوشش نہیں کرتا ۔
۵۔  بد اخلاقی کے انجام پر غور و فکر
جس طرح حسن اخلاق اچھے انجام کی طرف لے جاتا ہے اسی طرح بداخلاقی انسان کو برے انجام کی طرف لے جاتی ہے،  حسن اخلاق سے لوگوں کے دلوں میں محبت پیدا ہوتی ہے اور بداخلاقی سے محبت نفرت میں تبدیل ہوجاتی ہے ،  اگر انسان ان سب باتوں پر غور و فکر کرتا ہے تو وہ بداخلاقی ترک کرکے حسن اخلاق کو اپنا شعار بنا لیتا ہے ۔
۶۔  اپنی اصلاح سے مایوس نہ ہونا
      بعض لوگ جب بداخلاقی میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو وہ اپنی اصلاح سے مایوس اور نا امید ہو جاتے ہیں ،  حا لانکہ یہ قطعی طور پر غلط ہے ۔  اگر تاریخ بلکہ حال ہی پر نظر کی جائے تو معلوم ہو گا کہ کتنے لو گوں کی زندگیوں میں انقلاب آیا ہے۔  کتنے چور اور ڈاکوؤں نے توبہ کر کے بہتر زندگی گذاری ہے۔  پختہ عزم اور مضبوط ارادے کے ذریعہ اپنی زندگی میں بہتر تبدیلی یقینی طور پر لا ئی جاسکتی ہے ۔
۷۔  بلند ہمتی 
      جو لوگ بلند ہمت ہوتے ہیں وہ ہمیشہ بلندیوں کی تلاش میں ہوتے ہیں  اور کم ہمت لوگ پستی پر راضی رہتے ہیں ۔ آدمی اپنی بلند ہمت کے ذریعے اخلاق کی اعلیٰ چو ٹیوں پر خود کو پہنچانے کی کوشش کرتا ہے تا کہ اسے دنیا میں باعزت زندگی نصیب ہو اور موت کے بعد ذکر جمیل اور خوشنما یادیں قائم رہیں  اور آخرت میں جنت کی نعمتیں اور رب کریم کی رضا اس کا مقصد بنے ۔
۸ ۔  ا ﷲ سے اجر و ثواب کی امید
      جس شخص کو اپنے عمدہ اخلاق پر ا ﷲ سے اجر و ثواب کی امید اور بہترین بدلہ کا یقین ہو گا وہ لازمی طور پر اچھے اخلاق کو اپنائے گا،  اس پر قائم رہے گا اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت دے گا ۔
      حسن اخلاق سے متعلق آیات و احادیث بار بار پڑھنے اور دل میں بٹھانے سے یہ کیفیت ان شاء ا ﷲ حاصل ہو گی ۔ 



([1])اس حدیث کو امام مسلم نے  كتاب البر والصلة والآداب باب استحباب العفو والتواضع  میں روایت کیا ہے۔ (کتاب : 45  باب :19 حديث:69-( 2588)۔
([2]) مفلس والی حدیث اس طرح ہے: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَتَدْرُونَ مَا الْمُفْلِسُ؟» قَالُوا: الْمُفْلِسُ فِينَا مَنْ لَا دِرْهَمَ لَهُ وَلَا مَتَاعَ، فَقَالَ: «إِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ أُمَّتِي يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِصَلَاةٍ، وَصِيَامٍ، وَزَكَاةٍ، وَيَأْتِي قَدْ شَتَمَ هَذَا، وَقَذَفَ هَذَا، وَأَكَلَ مَالَ هَذَا، وَسَفَكَ دَمَ هَذَا، وَضَرَبَ هَذَا، فَيُعْطَى هَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ، وَهَذَا مِنْ حَسَنَاتِهِ، فَإِنْ فَنِيَتْ حَسَنَاتُهُ قَبْلَ أَنْ يُقْضَى مَا عَلَيْهِ أُخِذَ مِنْ خَطَايَاهُمْ فَطُرِحَتْ عَلَيْهِ، ثُمَّ طُرِحَ فِي النَّارِ». اس حدیث کو امام مسلم نے  كتاب البر والصلة والآداب باب تحريم الظلم میں روایت کیا ہے۔ (کتاب : 45  باب :15 حديث:59-(2581)۔
 ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کہ ہم میں مفلس وہ ہے جس کے پاس روپیہ اور اسباب نہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مفلس میری امت میں قیامت کے دن وہ ہو گا، جو صوم وصلاۃ اور زکوٰۃ کے ساتھ آئے گا۔ لیکن اس نے دنیا میں ایک کو گالی دی ہو گی، دوسرے کو بدکاری کی تہمت لگائی ہو گی، تیسرے کا مال کھا لیا ہو گا، چوتھے کا خون کیا ہو گا اور پانچویں کو مارا ہو گا۔ پھر ان لوگوں کو (یعنی جن کو اس نے دنیا میں ستایا) اس کی نیکیاں مل جائیں گی اور جو اس کی نیکیاں اس کے گناہ ادا ہونے سے پہلے ختم ہو جائیں گی تو ان لوگوں کی برائیاں اس پر ڈال دی جائیں گی، آخر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا»۔
([3]) یہاں امام ابن قیم رحمہ اللہ اس حدیث کی طرف اشارہ کررہے ہیں: عَنْ أَبِي هُرَيْرَة -رضي الله عنه- عَنِ النَّبِيِّ - صلى الله عليه وسلم - قَالَ: «مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُؤْمِنٍ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ الدُّنْيَا نَفَّسَ اللّٰهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ, وَمَنْ يَسَّرَ عَلَى مُعْسِرٍ يَسَّرَ اللّٰهُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ, وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اللّٰهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ, وَاللّٰهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ, وَمَنْ سَلَكَ طَرِيْقًا يَلْتَمِسُ فِيْهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللّٰهُ لَهُ بِهِ طَرِيْقًا إِلَى الْجَنَّةِ, وَمَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِي بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِ اللّٰهِ يَتْلُونَ كِتَابَ اللّٰهِ وَيَتَدَارَسُونَهُ بَيْنَهُمْ إِلَّا نَزَلَتْ عَلَيْهِمْ السَّكِيْنَةُ, وَغَشِيَتْهُمْ الرَّحْمَةُ, وَحَفَّتْهُمْ الْمَلَائِكَةُ, وَذَكَرَهُمْ اللّٰهُ فِيمَنْ عِنْدَهُ, وَمَنْ بَطَّأَ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ». اس حدیث کو امام مسلم نے  كتاب الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ بَابُ فَضْلِ الِاجْتِمَاعِ عَلَى تِلَاوَةِ الْقُرْآنِ وَعَلَى الذِّكْرِمیں روایت کیا ہے۔ (کتاب : 48  باب :11 حديث:38-(2699)۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: «جس نے کسی مومن کی دنیا کی پریشانیوں میں سے کوئی پریشانی دور کردی اللہ تعالی بروز قیامت اس کی پریشانیوں میں سے ایک پریشانی دور کردے گا۔اور جس نے کسی تنگ دست پر آسانی کی اللہ اس پر دنیا وآخرت میں آسانی کرے گا۔ اور جس نے کسی مسلمان کی عیب پوشی کی اللہ تعالی دنیا وآخرت میں اس کی عیب پوشی فرمائے گا۔ اللہ تعالی بندے کی مدد میں ہوتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں ہوتا ہے۔  اور جو علم کی تلاش میں کسی راستے پر چلا اللہ تعالی اس کے لئے جنت کی راہ آسان کردیتا ہے۔ اور جب کوئی قوم اللہ کے کسی ایک گھر میں اکٹھا ہوتی ہے, اللہ کی کتاب کی تلاوت کرتی ہے, اور اسے آپس میں پڑھتی پڑھاتی ہے, تو ان پر سکینت کا نزول ہوتا ہے, ان کو رحمت ڈھانپ لیتی ہے, اور فرشتے انھیں گھیر لیتے ہیں, اور اللہ اپنے پاس موجود فرشتوں میں ان کا ذکرکرتا ہے۔ جس کا عمل اسے پیچھے کردے اس کا نسب اسے آگے نہیں لے جاسکتا»۔
([4])یہاں امام ابن قیم رحمہ اللہ اس حدیث کی طرف اشارہ کررہے ہیں: عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ، وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنهما عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَا يُصِيبُ المُسْلِمَ، مِنْ نَصَبٍ وَلاَ وَصَبٍ، وَلاَ هَمٍّ وَلاَ حُزْنٍ وَلاَ أَذًى وَلاَ غَمٍّ، حَتَّى الشَّوْكَةِ يُشَاكُهَا، إِلَّا كَفَّرَ اللَّهُ بِهَا مِنْ خَطَايَاهُ» یہ حدیث متفق علیہ ہے، اسے امام بخاری نے كتاب المرضى باب ما جاء في كفارة المرض (کتاب :75 باب :1 حديث:5641) اور امام مسلم نے  كتاب البر والصلة والآداب بَابُ ثَوَابِ الْمُؤْمِنِ فِيمَا يُصِيبُهُ مِنْ مَرَضٍ، أَوْ حُزْنٍ، أَوْ نَحْوِ ذَلِكَ حَتَّى الشَّوْكَةِ يُشَاكُهَا میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :45 باب : 14 حديث: 52-(2573))۔
ابو سعید خدری اور  ابوہریرہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «مسلمان جب بھی کسی پریشانی، بیماری، رنج وملال، تکلیف اور غم میں مبتلا ہو جاتا ہے یہاں تک کہ اگر اسے کوئی کانٹا بھی چبھ جائے تو اللہ تعالیٰ اسے اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے»۔

([5]) سنن ترمذی ابواب تفسیر القرآن میں (کتاب :44 حديث:3175) یہ تفسیر اس طرح مروی ہے: عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ وَهْبٍ الهَمْدَانِيِّ، أَنَّ عَائِشَةَ رضي الله عنها زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ هَذِهِ الآيَةِ: {وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ} [المؤمنون: 60] قَالَتْ عَائِشَةُ: أَهُمُ الَّذِينَ يَشْرَبُونَ الخَمْرَ وَيَسْرِقُونَ؟ قَالَ: " لَا يَا بِنْتَ الصِّدِّيقِ، وَلَكِنَّهُمُ الَّذِينَ يَصُومُونَ وَيُصَلُّونَ وَيَتَصَدَّقُونَ، وَهُمْ يَخَافُونَ أَنْ لَا تُقْبَلَ مِنْهُمْ {أُولَئِكَ يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَهُمْ لَهَا سَابِقُونَ} [المؤمنون: 61] ". نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجۂ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت (ترجمہ: وہ عمل کرنے کے باوجود دل میں ڈرے رہتے ہیں  ) کے بارے میں پوچھا : کیا یہ وہ لوگ ہیں جو شراب پیتے اور چوری کرتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا: نہیں، اے صدیق کی بیٹی! یہ وہ لوگ ہیں جو صوم وصلاۃ کرتے ہیں، صدقہ وخیرات کرتے ہیں اور عدم قبولیت سے ڈرتے رہتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جو نیک کاموں میں تیزی اور سبقت کرنے والے ہیں»۔
([6]) اسے خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ  ( 9 / 127 ) میں روایت کیا ہے اور علامہ البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔ "السلسلة الصحيحة" (1/605)
([7])اس حدیث کو امام مسلم نے كتاب صلاة المسافرين وقصرها باب الدعاء في صلاة الليل وقيامه  میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :6 باب :26حديث: 201 - (771) ۔
([8])اس حدیث کو امام أبوداود نے  كتاب السنة, باب الدليل على زيادة الإيمان ونقصانه  (کتاب:39 باب:16 حديث:4682) میں روایت کیا ہے اور علامہ البانی نے صحیح قرار دیا ہے۔ (صحیح  الجا مع  الصغیر/1230).
([9])اس حدیث کو امام مسلم نے كتاب صلاة المسافرين وقصرها باب الدعاء في صلاة الليل وقيامه  میں روایت کیا ہے۔ (کتاب :6 باب :26حديث: 201 - (771) ۔