الاثنين، 4 نوفمبر 2013

ماہ محرم اور صوم عاشوراء کی فضیلت


ماہ محرم اور صوم عاشوراء کی فضیلت



الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله, أما بعد:
ماہ محرم ایک عظیم اور بابرکت مہینہ ہے، یہ ہجری سال کا پہلا مہینہ ہے، یہ ان  چار حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جن کا قرآن مجید میں ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: ﴿إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللّٰهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ فَلَا تَظْلِمُواْ فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ توبہ/٣٦۔ (اللہ کے نزدیک مہینوں کی گنتی کتاب اللہ میں بارہ کی ہے، اسی روز سے جب سے اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ، ان میں سے چار مہینے حرمت وادب کے ہیں، یہی درست دین ہے، ان مہینوں میں اپنے آپ پر ظلم نہ کرو)۔
حرمت والے چار مہینے حدیث کے مطابق ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب ہیں۔ یعنی حج کا مہینہ اور اس سے پہلے اور بعد کا ایک ایک مہینہ اور رجب۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «السَّنَةُ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ثَلَاثٌ مُتَوَالِيَاتٌ ذُو الْقَعْدَةِ وَذُو الْحَجَّةِ وَالْمُحَرَّمُ وَرَجَبُ مُضَرَ الَّذِي بَيْنَ جُمَادَى وَشَعْبَانَ» (رواه البخاري عن أبي بكرة رضي الله عنه/2958)
ماہ محرم کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ نہ صرف حرمت والا مہینہ ہے بلکہ اس کی حرمت کی تاکید ہے۔ ﴿فَلَا تَظْلِمُواْ فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ کا مفہوم یہ ہے کہ ان حرمت والے مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو کیونکہ دوسرے مہینوں کی بہ نسبت ان میں زیادہ گناہ ہوگا۔عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے اس کی تفسیر کچھ اس طرح مروی ہے کہ ان تمام بارہ مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو، پھر اللہ تعالی نے ان میں سے چار مہینوں کو خصوصیت عطا فرمائی، انھیں نہ صرف حرام قرار دیا بلکہ ان کو شدید حرمت والا بنایا، ان میں گناہوں کا ارتکاب کرنا سنگین قرار دیا  اور نیک عمل انجام دینے کا اجر وثواب زیادہ رکھا۔ امام  قتادہ سے اس آیت کی تفسیر میں یہ مروی ہے کہ ان حرمت والے مہینوں میں دوسرے مہینوں کی بہ نسبت ظلم زیادہ شدید اور باعث گناہ ہوگا۔ ظلم کا معاملہ بہرحال  شدید ہے لیکن اللہ تعالی جہاں چاہتا ہے  اس کی شدت میں مزید اضافہ فرمادیتا ہے۔
ماہ محرم میں بکثرت نفلی صوم رکھنے کی فضیلت
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا  ارشاد ہے: «أَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَهْرُ اللّٰهِ الْمُحَرَّمُ وَأَفْضَلُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْفَرِيضَةِ صَلَاةُ اللَّيْلِ» (رواه مسلم عن أبي هريرة رضي الله عنه/1982) (رمضان کے بعد سب سے افضل صوم اﷲ کے مہینہ محرم کا صوم ہے اور فرائض کے بعد سب سے افضل صلاة رات کی صلاة (تہجد) ہے)۔
ماہ محرم کو اللہ کا مہینہ کہا گیا،  یہ نسبت برائے تعظیم ہے۔ ملا علی قاری فرماتے ہیں: ظاہر حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پورے ماہ محرم میں صوم رکھنا مراد ہے، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ نے رمضان کے علاوہ کسی اور مہینہ میں پورے مہینہ  کا صوم نہیں رکھالہذا اس حدیث کو ماہ محرم کے پورے مہینے صوم رکھنے کے بجائے  اس ماہ میں بکثرت صوم رکھنے کی ترغیب وتشویق پر محمول کیا جائے گا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ماہ شعبان میں بکثرت صوم رکھنا ثابت ہے، ممکن ہے کہ ماہ محرم کے صوم کی فضیلت سے متعلق وحی آپ کی حیات مبارکہ کے آخری ایام میں آئی ہو جس کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس ماہ مبارک میں صوم کا موقعہ نہ مل سکا ہو۔ (ملاحظہ ہو شرح نووی علی صحیح مسلم)
عاشوراء
عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ نے یہودیوں کو عاشوراء کا صوم رکھتے ہوئے پایا،  آپ نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ یہودیوں نے بتایا کہ یہ ایک نیک دن ہے ، اسی دن اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات عطا فرمائی تھی، لہذا موسی علیہ السلام نے صوم رکھا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم تمھاری بہ نسبت موسی علیہ السلام (کا ساتھ دینے) کے زیادہ حقدار ہیں، چنانچہ آپ نے خود بھی صوم رکھا اور اس دن صوم رکھنے کا حکم فرمایا۔ (صحیح بخاری/1865)
بعثت نبوی سے پہلے زمانہ جاہلیت میں بھی صوم عاشوراء معروف تھا، عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: زمانہ جاہلیت میں قریش کے لوگ صوم عاشوراء رکھا کرتے تھے۔ (صحیح بخاری/1893) امام قرطبی فرماتے ہیں: شاید قریش کے لوگ گذشتہ کسی نبی مثلا ابراہیم علیہ السلام کی شریعت کی پیروی میں ایسا کرتے رہے ہوں گے۔ یہ بات بھی ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت مدینہ سے قبل مکہ میں صوم عاشوراء رکھا کرتے تھے۔  (صحیح بخاری/2002)
صوم عاشوراء کی فضیلت
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں   کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عاشوراء کے دن  اور رمضان کے مہینے کے علاوہ اور کسی دن کو دوسرے دنوں سے افضل جان کر خاص طور سے قصد کر کے روزہ رکھتے نہیں دیکھا۔ (صحیح بخاری/1867)
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: «وَصِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ أَحْتَسِبُ عَلَى اللّٰهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ».(صحیح مسلم/1976) "صوم عاشوراء سے متعلق مجھے اﷲ تعالی سے امید ہے کہ وہ پچھلے ایک سال کا کفارہ ہے"۔
یہ اللہ کا فضل وکرم ہے کہ اس نے ایک دن صوم کے بدلے پورے ایک سال کے گناہوں کی معافی عطا فرمائی۔ واللہ ذوالفضل العظیم۔
عاشوراء کے ساتھ صوم تاسوعاء کا استحباب
عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: «حِينَ صَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ يَوْمٌ تُعَظِّمُهُ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِذَا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ صُمْنَا الْيَوْمَ التَّاسِعَ قَالَ فَلَمْ يَأْتِ الْعَامُ الْمُقْبِلُ حَتَّى تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ».(صحیح مسلم/1916) "جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کا خود صوم رکھا اور لوگوں کو اس کا حکم فرمایا تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اے اﷲ کے رسول! یہود ونصاریٰ اس دن کی تعظیم کرتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب آئندہ سال ہوگا ان شاء اﷲ ہم نویں تاریخ کا (بھی) صوم رکھیں گے۔ عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آئندہ سال آنے سے پہلے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی"۔
امام شافعی، امام احمد، امام اسحاق اور دیگر بہت سے ائمہ کرام نے ماہ محرم کی نویں اور دسویں دونوں تاریخوں کا صوم مستحب قرار دیا ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء (دسویں) کا صوم رکھا اور تاسوعاء (نویں)  کا صوم رکھنے کی نیت فرمائی۔
بہرحال ماہ محرم میں جس قدر زیادہ صوم رکھا جائے مستحب ہے جیسا کہ حدیث گذرچکی ہے۔