الاثنين، 27 مايو 2013

اذان ایک پیغام ، ایک دعوت


الأذان رسالة ودعوة

اذان
ایک پیغام ، ایک دعوت


اعداد:
عبدالہادی عبدالخالق مدنی
داعية المكتب التعاوني للدعوة والإرشاد  وتوعية الجاليات بالأحساء








مقدمہ
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله , أما بعد:
اذان سے متعلق علامہ اقبال رحمہ اللہ نے کیا خوب فرمایا ہے:
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستان وجود
ہوتی ہے بندۀ مومن کی اذاں سے پیدا
ہم میں سے کون شخص ہے جس نے آج تک اذان کی صدائے دلنواز نہ  سنی ہو؟ بلامبالغہ، بلا خوف تردید اور بلا اندیشۂ انکار  یہ بات ببانگ دہل کہی جاسکتی ہے کہ ایک مسلمان نے اپنی زندگی میں جو آواز بار بار بتکرار سب سے زیادہ سنی ہے وہ اذان کی آواز ہے۔ ایسا کیوں نہ ہو، ہرمسلمان بستی میں خواہ وہ شہر ہو یا دیہات، عرب ہو یا عجم، روئے زمین کی کسی سمت میں واقع ہو، ہردن یہ صدا پانچ بار ضرور بلند ہوتی ہے۔  جہاں بھی مسلمان بستے ہیں وہاں صلاۃ پنجوقتہ اور اس کی طرف بلانے کے لئے اذان پنجوقتہ کا قطعی اہتمام کرتے ہیں۔ مسلمان ہونے کی یہی تو نشانی ہے ۔ جہاں اذان وصلاۃ نہیں وہاں اسلام بھی نہیں۔ لیکن بڑے دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ وہ اذان جسے ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیں، جس کے الفاظ ہمیں خوب اچھی طرح یاد ہیں، جس کا ایک ایک حرف ہمارے نہاں خانۂ دل میں اپنی پرعظمت نشست رکھتا ہے، جو دین کی ایک معروف شناخت اور اس کا ایک اہم شعار ہے، ہم اس اذان کے پیغام سے کماحقہ واقف نہیں ہیں، اس کے معانی ومفاہیم اور حقائق ومعارف سے دور ہیں۔جس قدر ہم اذان کے الفاظ وحروف سے آشنا ہیں اسی قدر اس کے پیغام سے ناآشنا اور اس کے مضامین سے نابلد وبیگانہ، ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ اذان صلاۃ پنجوقتہ کی باجماعت ادائیگی کے لئے مسلمانوں کو مسجد میں جمع کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ ہم میں سے چند لوگ ممکن ہے کہ ان الفاظ کا ترجمہ بھی جانتے ہوں۔ لیکن اذان کے یہ چند الفاظ اپنے اندر کتنی معنویت اور کتنی گہرائی وگیرائی رکھتے ہیں، شاذ ونادر ہم میں سے کوئی ہوگا جسے اس جانب غور وفکر کرنے کا موقع ملا ہو۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اذان جن حقائق کی طرف اشارہ کرتا ہے اگر وہ ہمارے دلوں میں پیوست ہوجائیں تو ہماری زندگیوں میں ایک عظیم انقلاب آجائے۔ وہ حقائق ہمارے دل ودماغ سے بار بار اوجھل ہوتے رہتے ہیں۔ ان پر وقت اور حالات کی گرد پڑجاتی ہے۔ اسی لئے انھیں بار بار تازہ کرنے اور یاد دلانے کا اللہ تعالی نے بذریعہ اذان انتظام فرمادیا ہے۔
اذان کی معنویت کو اجاگر کرنے کے لئے یہ تحریر لکھی گئی ہے۔ یہ اس سمت میں ایک ادنی کوشش ہے۔ شاید اس مضمون کے مطالعہ سے کسی کے ذہن ودل کی دنیا میں کوئی مفید ہلچل پیدا ہو اور آخرت کی نجات اور اللہ سے قربت کا ذریعہ بن جائے۔
یہ مضمون ایک مقدمہ اور چھ فصلوں پر مشتمل ہے۔ پہلی فصل اذان اسلام کا امتیازی شعار کے موضوع پر ہے۔ دوسری فصل تکبیر، تیسری فصل شہادتین، چوتھی فصل الحیعلہ، پانچویں فصل تکبیر وتہلیل اور چھٹی فصل اذان کے موثر عالمگیر دعوت ہونے سے متعلق ہے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہماری اس حقیر کوشش کو  دنیا وآخرت میں نافع وکارآمد بنائے۔ اس کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں اذان کی معنویت کا حقیقی فہم عطا فرمائے۔ آمین۔
دعاگو
عبد الہادی عبد الخالق مدنی
کاشانۂ خلیق۔ اٹوا بازار۔سدھارتھ نگر۔یوپی
داعی احساء اسلامک سینٹر ہفوف ، سعودی عرب
1434 ھ/ 2013 ء




فصل اول:
اذان اسلام کا امتیازی شعار
اذان عربی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی "اعلان" ہے۔ اسلامی شریعت کی اصطلاح میں مخصوص کلمات کے ذریعہ اوقات صلاۃ کے اعلان کا نام اذان ہے۔
جب مسلمان اور خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچے۔ اس وقت صلاۃ کی خاطر اکٹھا ہونے کے لئے مسلمانوں کا طریقۂ کار یہ تھا کہ صلاۃ کے اوقات کا اندازہ کیا کرتے تھے اور کسی اعلان کے بغیر ازخود جمع ہوجایا کرتے تھے۔ لیکن جب لوگوں کی تعداد زیادہ ہوگئی تو ایک مشکل یہ پیش آئی کہ بعض لوگوں کو تاخیر ہوجاتی اور بعض پہلے پہنچ جایا کرتے ، چونکہ وقت کا اندازہ کرنے کی صلاحیت ہرکسی میں یکساں نہیں ہوتی اس لئے ایسا ہونا یقینی تھا۔ نیز تجارت وکاروباراور دیگر مصروفیات میں مشغول ہوجانے کی وجہ سے لوگ اسے بھول بھی جایا کرتے تھے۔ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام کو جمع فرمایا اور مشورہ کیا کہ اوقات صلاۃ کے اعلان کے لئے کون سا طریقہ اپنایا جائے کسی نے مشورہ دیا کہ بگل بجایا جائے اور کسی نے کہا کہ آگ جلائی جائے اور کسی نے کہا کہ ناقوس (گھڑیال) بجایا جائے لیکن یہ تمام رائیں یہ کہہ کر رد کردی گئیں کہ یہ دوسری قوموں کے طریقے ہیں۔ بگل بجانا یہودیوں کا طرز ہے، آگ جلانا مجوسیوں کا شعار ہے، اور ناقوس بجانا نصرانیوں کی روش ہے لہذا ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ ایک شخص کو اوقات صلاۃ کا اعلان کرنے کے لئے متعین کردیا جائے اور وہ گھوم پھر کر لوگوں میں "الصلاۃ جامعۃ" پکار کر اعلان کردیا کرے۔ چنانچہ اس بات پر میٹنگ برخاست ہوگئی([1]) ۔ ایک صحابی جن کا نام عبداللہ بن زید بن عبدربہ تھا انھوں نے اسی رات ایک خواب دیکھا کہ ایک سبزپوش آدمی ہاتھوں میں ناقوس لئے جارہا ہے ، آپ نے اس سے دریافت کیا: کیا تم یہ ناقوس فروخت کروگے؟ اس نے پوچھا : تم اسے لے کر کیا کروگے؟ انھوں نے جواب دیا کہ ہم اس سے لوگوں کو صلاۃ کے لئے بلایا کریں گے۔ اس شخص نے کہا: کیا میں تمھیں اس سے بہتر بات نہ بتاؤں ، چنانچہ اس نے اذان واقامت کے کلمات سکھلائے۔ جب صبح ہوئی تو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے اپنا خواب بیان کیا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ سچا خواب ہے ان شاء اللہ ، بلال کو یہ کلمات بتاتے جاؤ ، وہ اس کے ذریعہ اذان دیں کیونکہ ان کی آواز تم سے بلند اور شیریں ہے۔ چنانچہ عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ بلال رضی اللہ عنہ کے ساتھ کھڑے ہوگئے ، آپ انھیں یہ کلمات بتاتے جاتے تھے اور بلال رضی اللہ عنہ اذان پکارتے جاتے تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ جو اس وقت اپنے گھر میں تھے ، یہ آواز سن کر چادر گھسیٹتے ہوئے تیزی سے نکلے اور آکر عرض کیا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر مبعوث فرمایا ہے، میں نے بھی اس طرح کا خواب دیکھا ہے۔ اس تائید پر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا شکر ادا کیا اور اس کی حمد بیان فرمائی([2]
جب ہم اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب کا مطالعہ کرتے ہیں اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے یہاں اپنی عبادات یا دیگر دینی رسومات کی ادائیگی کے لئے جمع کرنے کا کیا طریقۂ کار ہے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہودی سینگ یا بگل بجایا کرتے ہیں ۔ نصرانی گھنٹی بجاتے ہیں ۔ مجوسی آگ روشن کرتے ہیں۔ اللہ تعالی نے دین اسلام اور شریعت محمدیہ علی صاحبہا الصلاۃ والسلام کو ان سب کے بدلے اذان کے کلمات عطا فرمائے جن کی حکمتوں پر غور کیا جائے تو بہت عظیم حکمتیں سامنے آتی ہیں۔
پہلی حکمت: اسلام اور مسلمانوں کا دوسرے مذاہب وادیان اور اس کے پیروکاروں سے امتیاز۔  ظاہر ہے کہ مشرکین اور اہل کتاب کی مخالفت ہمارے دین کا بہت اہم حصہ ہے ۔ مسلمانوں کا اپنا امتیاز اور تشخص  دین کے جملہ امور میں بہت ہی نمایاں ، واضح اور عیاں ہے([3]
دوسری حکمت: انسانی آواز کو بقیہ مادی وسائل پر اولیت وترجیح۔ «گھونگھوں، دھاتوں اور آگ وغیرہ کو ہٹاکر انسانی آواز کو ترجیح دی گئی، یہ بھی ایک طریق بت پرستی کے انسداد اور توحید کی تائید کا ہے([4]۔
تیسری اور سب سے عظیم الشان حکمت: اصول اسلام کی اشاعت اور اعلان۔
قاضی محمد سلیمان منصور پوری رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: «اذان اطلاع دہی کا وہ سادہ اور آسان طریق ہے کہ عالمگیر مذہب کے لئے ایسا ہی ہونا ضروری تھا۔ اذان درحقیقت اصول اسلام کی اشاعت اور اعلان ہے۔ مسلمان اسی کے ذریعے سے ہرآبادی کے قریب جملہ باشندوں کے کانوں تک اپنے اصول پہنچادیتے اور راہ نجات سے آگاہ کردیتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے رسالوں (ٹریکٹوں) کی تقسیم اور نگر کیرتن کے شبد بھی اس خوبی کو نہیں پاسکتے([5])»۔
اذان کے اندر یہ حکمت ہونے کی تائید مندرجہ ذیل امور سے ہوتی ہے۔
1-   اذان کے کلمات کی ترتیب اور ان کا انتخاب انسانی عقل کے بجائے ربانی وحی کے ذریعہ بواسطۂ منامات صحابہ ہوا ہے۔ اس کے اندر صرف وقت صلاۃ کے آغاز کا اعلان ہی نہیں بلکہ اس سے آگے بڑھ کر دین کی اساسیات اور اس کے عظیم حقائق کا اعلان بھی شامل ہے۔
2-    بہ آواز بلند اذان دینا سنت ہے تاکہ ایک لمبی مسافت اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد تک یہ پیغام اور دعوت پہنچ جائے۔
3-    اذان ایک دن میں پانچ بار پکاری جاتی ہے تاکہ یہ مضامین نہ صرف ذہن نشین ہوجائیں، دلوں میں خوب اچھی طرح اترجائیں بلکہ ہرغفلت کو ختم کرنے کا ذریعہ بنیں۔
4-    اذان میں کسی کلمہ کا اضافہ نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی کسی کلمہ کو حذف کیا جاسکتا ہے۔ یہ اللہ اکبر سے شروع ہوکر لا الہ الا اللہ پر ختم ہوتا ہے۔ صدیاں گذرجانے کے باوجود کبھی کسی ترمیم واصلاح یا حذف واضافہ کی ضرورت محسوس کی گئی اور نہ ہی اسے قبول کیا جاسکتا ہے۔ اللہ نے اسے پوری طرح محفوظ رکھا ہے اور اللہ کے حکم سے مسلمان بھی اس کی حفاظت میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے۔
5-    ضروری نہیں کہ ہر اذان سننے والا مسجد پہنچے جیسے بچے ، عورتیں اور بیمار وغیرہ بلکہ یہ بھی ضروری نہیں کہ ہرسننے والا مسلمان بھی ہو ۔ کتنے غیرمسلموں کے کان میں اذان کی یہ آواز پہنچتی ہے۔ یہ ان کے لئے ایک پیغام اور دعوت فکر ہے۔
6-    اذان کے لئے ایسے شخص کو منتخب کئے جانے کا حکم ہے جس کی آواز واضح ، صاف، خوبصورت اور بلند ہو تاکہ سننے والے موذن کی بات کو اچھی طرح سمجھ سکیں([6]
7-    ایسے شخص کو موذن بنانے کا حکم ہے جو اذان پر اجرت نہ لیتا ہو([7]) تاکہ ان کلمات کے ساتھ اس کے دل کا اخلاص بھی شامل ہوجائے اور ایک مخلص موذن کے دل سے نکلی ہوئی آواز لوگوں کے دلوں میں اترجائے۔ ظاہر ہے کہ بات جو دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔ شاید اسی اخلاص کو فکراقبال نے "روح بلالی"  کا نام دیا ہے۔  فرماتے ہیں: ((رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی))۔
8-    اذان کا جواب دینا مستحب ہے([8]) ۔ اس طرح کلمات اذان پر غور کرنے کے دو مواقع حاصل ہوتے ہیں: ایک سنتے ہوئے دوسرے دہراتے ہوئے۔ یہ بات یاد رہے کہ صرف کانوں سے سننا مطلوب ومقصود نہیں بلکہ دل سے سننا کارآمد وسودمند ہے۔
9-    اذان کا جواب دینا مستحب ہونے سے ایک اور اہم اشارہ ملتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ اذان کا جواب دینے کی خاطر ہمیں ہر وہ گفتگو یا مشغولیت ترک کرنی ہوگی جو اذان سننے یا اس کا جواب دینے میں مانع ہو ۔ کسی اور آواز کے بجائے صرف موذن کی آواز پر کان لگانا ہوگا۔ پہلے اس کے کلمات سنیں گے، پھر انھیں دہرائیں گے۔ نہ تقدیم کرسکتے ہیں اور نہ تاخیر بلکہ سنتے جائیں اور جواب دیتے جائیں۔
10-     اذان کے بعد کی دعا([9]) بھی قابل غور ہے جس میں اذان کو دعوت تامہ(یعنی ایک کامل ومکمل دعوت) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اذان میں حق کی مکمل دعوت موجود ہے، اذان پورے اسلام کا خلاصہ، عطر  اور نچوڑ ہے۔




فصل ثانی:
تکبیر
اذان کی ابتدا تکبیر سے ہوتی ہے اور اختتام تہلیل پر، لیکن تہلیل سے پہلے ایک بار پھر تکبیر  پکاری جاتی ہے۔ اس طرح ایک اذان کے اندر کل چھ  تکبیریں پکاری جاتی ہیں۔
اللہ تبارک وتعالی کو تکبیر کا یہ کلمہ اس قدر محبوب ہے کہ عبادت کے مختلف مواقع پر اسے مشروع قراردیا ہے۔ صلاۃ کی مختلف ہیئات میں اٹھتے اور جھکتے ہوئے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف منتقل ہوتے ہوئے یہ کلمہ پکارا جاتا ہے۔ حج وعمرہ کے لئے احرام باندھنے کے وقت، عرفہ اور مزدلفہ کے درمیان، منی اور عرفہ کے مابین، قربانی کے جانور ذبح کرتے ہوئے، صلاتوں کے بعد، صفا اور مروہ کی پہاڑیوں پر، صلاۃ جنازہ میں ، تعجب کے وقت، حجر اسود کو بوسہ دیتے ہوئے، کعبہ کے اندر داخل ہونے پر، کعبہ کو دیکھ کر، خوشی کے وقت، غزوہ سے لوٹتے ہوئے، حالت سفر میں، سفر سے واپسی میں، چاند دیکھ کر، حالت جنگ میں، سورج وچاند گرہن کے وقت، کنکریاں مارتے ہوئے، بلندی پر چڑھتے ہوئے، ایام عیدین میں، ایام منی میں، ایام تشریق میں ، نیند سے پہلے وغیرہ([10]
قرآن مجید کی وہ آیات جن کے ذریعہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول بنایا گیا ان کے اندر  تکبیر کا حکم دیا گیا۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: {وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ} [المدثر: 3] عربی میں یہ بات کہنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ (كبر ربك) کہا جائے، یہی اصل ہے  لیکن اختصاص اور حصر پیدا کرنے کے لئے مفعول کو مقدم کردیا گیا جس سے معنی یہ ہوگیا کہ صرف اپنے رب کی تکبیر پکارو،  تکبیر کو اسی کے لئے خاص رکھو۔
اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ
(اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے)
اللہ تعالی اپنی ربوبیت میں سب سے بڑا ہے۔ ہر وہ چیز جو ہمیں نظر آتی ہے، یا جس کا ہم تصور کرسکتے ہیں، یا جوکچھ ہمارے وہم وگمان میں آسکتا ہے، یا جس کا وجود ہمارے خواب وخیال میں گزرسکتا ہے،اللہ تعالی ان تمام چیزوں سے بڑا ہے۔ وہ اپنی سلطنت اور بادشاہت میں، اپنے تصرفات میں، اپنی تخلیق میں، اپنی رزاقیت میں، موت وحیات کا مالک ہونے میں بلکہ اپنے تمام کاموں میں سب سے بڑا ہے۔ وہ اپنے فضل وکرم، اپنے انعام واکرام اور اپنی نوازش وعطا میں سب سے بڑا ہے۔ وہ اپنی  سزادہی اور عقوبت میں بھی سب سے بڑا ہے۔ اس کی طاقت وقوت اور اختیار وقدرت سب سے بڑی ہے لہذا جو شخص  اس کے یہاں پناہ لے لے وہ سب سے زیادہ مامون ومحفوظ ہے۔ وہ نفع ونقصان پہنچانے کے معاملہ میں سب سے بڑا ہے۔  اگر اللہ کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو کوئی اس نقصان کو ہٹا نہیں سکتا خواہ وہ انسان ہوں یا جن ، زندہ ہوں یا مردہ، انبیاء ہوں یا ملائکہ، اولیاء ہوں یا سادات، کاہن وعراف ہوں یا بزرگ وپارسا، شجر وحجر ہوں، نباتات وجمادات ہوں یا حیوانات یا دیگر مخلوقات، اللہ اگر بیمار کرنا چاہے، کسی حادثہ کا شکار کرنا چاہے، کسی مصیبت سے دوچار کرنا چاہے، فقیر ومحتاج بنانا چاہے، موت دینا چاہے تو اللہ کے سوا کوئی ایسی ہستی نہیں جو اس کو ٹال سکے۔ کوئی تعویذ، کوئی دھاگا، کوئی کڑا، کوئی چھلہ،  غیراللہ کے لئے کوئی منت، کوئی چڑھاوا، کوئی ذبیحہ ، کوئی تیرتھ ، کوئی زیارت کام آنے والی نہیں ہے۔  اور اگر اللہ اپنی رحمتیں عطا فرمانا چاہے تو اسے بھی کوئی روک نہیں سکتا۔
اللہ تعالی اپنے مستحق عبادت ہونے میں سب سے بڑا ہے۔  اللہ کے سوا جن کی بھی عبادت کی جاتی ہے اللہ ان سب سے بلند، سب سے عظیم، سب سے زیادہ بے نیاز ، سب سے اونچا اور سب سے بڑا ہے۔ عبادت کا کوئی ذرہ اگر غیراللہ کی طرف بھیج دیا گیا یا غیراللہ کو اس میں شریک کرلیا گیا تو اللہ اسے پوری طرح چھوڑدیتا ہے۔  حدیث قدسی ہے: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قَالَ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: أَنَا أَغْنَى الشُّرَكَاءِ عَنِ الشِّرْكِ، مَنْ عَمِلَ عَمَلًا أَشْرَكَ فِيهِ مَعِي غَيْرِي، تَرَكْتُهُ وَشِرْكَهُ([11])». (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ «اللہ تعالی کا فرمان ہے:  میں شرک کے بارے میں تمام شریکوں سے زیادہ بے نیاز ہوں، جو شخص کوئی ایسا عمل کرے گا جس میں میرے ساتھ میرے سوا کو میرا شریک کرے گا ، میں اسے اور اس کے شرک دونوں کو چھوڑدوں گا»)۔
اللہ تعالی اپنے اسماء وصفات میں سب سے بڑا ہے۔ اللہ کے نام اور اوصاف اپنے حسن وجمال میں، عظمت وجلال میں، رونق وکمال میں سب سے بڑھ کر ہیں۔ اس کے برابر کوئی نہیں، اس کا ہمسر کوئی نہیں، اس کی نظیر اور  مثال کوئی نہیں۔ وہ یکتا ویگانہ ، تنہا اور منفرد ہے۔
اللہ تعالی اپنی تقدیر اور اپنے فیصلوں میں سب سے بڑا ہے۔ کوئی فیصلہ حکمت سے خالی نہیں۔ کوئی فیصلہ نافذ ہونے سے رہ نہیں سکتا۔ کسی فیصلہ پر کسی جانب سے ترمیم یا تنسیخ کی آواز نہیں اٹھ سکتی۔
اللہ تعالی اپنے امر ونہی میں سب سے بڑا ہے۔ اپنے قانون اور اپنی شریعت میں سب سے بڑا ہے۔ اس کا قانون اپنی جگہ اٹل ہے۔ اس کی شریعت بندوں کی مصلحتوں سے بھرپور ہے۔
اللہ تعالی اپنی رحمت کے معاملہ میں بھی سب سے بڑا ہے۔ وہ ہرگناہ کو توبہ کے بعد معاف فرمادیتا ہے حتی کہ شرک جیسے عظیم ترین گناہ کو بھی۔




فصل ثالث:
شہادتین
اذان میں تکبیر کے بعد شہادتین ہے: أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ (میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی برحق معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں)۔
            ’’میں شہادت اور گواہی دیتا ہوں‘‘ ظاہر ہے کہ شہادت اور گواہی اسی بات کی دی جاسکتی ہے جس کا علم ہو، جس پر یقین ہو، جسے ایک شخص دوسروں کے سامنے علی الاعلان کہنے کے لئے تیار ہو۔
شہادتین کے ذریعہ مؤذن اپنی طرف سے بلکہ پوری امت کی طرف سے جو اس شہادتین کی نہ صرف قائل بلکہ داعی ہے اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ ہم جو کہہ رہے ہیں  ہمیں اس کی صداقت کا پوری طرح علم ہے، اس پر پختہ یقین ہے، ہم اس کا ہروقت وہرمقام پر برملا اعلان کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ شہادتین وہ کلمہ ہے جس کے انکار یا اقرار پر کسی شخص کے کفر یا اسلام کا دارومدار ہے ۔  یہ اسلام کی پہلی بنیاد ہے([12])۔ جس نے شہادتین کا اقرار کرلیا مسلمان ہوگیا ، انکار کردیا کافر ہوگیا۔ شہادتین کو اس معاملہ میں فیصلہ کن حیثیت حاصل ہے۔  حقیقت یہ ہے کہ پورا اسلام شہادتین کے اجمال کی تفصیل ہے۔
شہادتین ہی وہ کلمہ ہے جس سے کسی فرد کے اسلام کا آغاز ہوتا ہے۔ اور یہی وہ کلمہ ہے جو صلاۃ کے اختتام پر اس کی آخری نشست میں پڑھا جاتا ہے۔ یہ کلمہ خطبۂ جمعہ وعیدین ، خطبۂ کسوف واستسقاء، خطبۂ نکاح بلکہ تمام خطبوں کا  ایک اہم جزو ہے۔
شہادتین میں اسلام کی دو عظیم بنیادوں کا تذکرہ ہے۔ پہلی بنیاد یہ ہے کہ صرف ایک اللہ کی عبادت ہو اور دوسری بنیاد یہ ہے کہ اللہ کی عبادت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے مطابق ہو۔ نہ غیراللہ کی عبادت قابل قبول اور نہ غیررسول کی شریعت قابل قبول۔ اسی کو دوسرے لفظوں میں یوں بھی تعبیر کیا جاسکتا ہےکہ یہ کلمہ توحید کے اقراراور شرک کی نفی نیز اتباع سنت کے اقرار اور تمام بدعات کی تردید پر مشتمل ہے۔
صلاۃ اپنی ابتدا سے انتہا تک شہادتین کی عملی تطبیق ہے۔ ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کلمۂ شہادت کے پہلے حصہ کی ترجمانی کرتا ہے اور (اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ) کلمہ کے دوسرے حصہ کا ترجمان ہے۔ہماری عبادت واستعانت صرف اللہ کے لئے ہے اور ہم صراط مستقیم کے سوا دیگر منحرف راستوں سے بیزار ہیں۔
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عربوں کے سامنے اپنی دعوت پیش کی تو چونکہ وہ شہادتین کا مفہوم خوب اچھی طرح  سمجھتے تھے، اس لئے فوراً سمجھ گئے کہ اس کلمہ کے اقرار کا مطلب صرف زبان سے چند کلمات کی ادائیگی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ بہت ساری علمی اور عملی پابندیاں ہم پر لازم ہوجاتی ہیں۔ اس کلمہ کے اقرار کی بنا پر ہمیں کفر وشرک اور جاہلیت کی دنیا کو چھوڑ کر ایمان وتوحید کی ایک نئی دنیا میں قدم رکھنا ہوگا۔ یہ ہماری زندگی میں ایک انقلاب ہوگا۔ ہمیں اپنے عقیدہ وعمل کو اسی بنیاد پر استوار کرنا ہوگا۔
آج اسی بات کا تو افسوس ہے کہ مسلمان شہادتین کے حقیقی مفہوم سے ناآشنا اور بیگانہ ہوگئے۔ موجودہ زمانہ کے بہت سے کلمہ گو اس بات کو نہیں سمجھتے ، وہ لاالہ الا اللہ بھی پڑھتے ہیں اور ساتھ ہی غیر اللہ کو بھی پکارتے ہیں۔ یا علی مدد، یا حسین مدد، یا غوث مدد کے بھی نعرے لگاتے ہیں۔ اپنی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لئے غیراللہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ مُردوں کے لئے جانور قربان کرتے ہیں۔ مُردوں سے دعا اور فریاد کرتے ہیں۔ قبروں کا طواف بھی کرتے ہیں۔ غیراللہ کی قسمیں بھی کھاتے ہیں۔ تعویذ اور گنڈے پہنتے ہیں۔
آج شرک کا فتنہ بہت بری طرح عالم اسلام میں اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہے۔  قبے اور مزارات، درگاہوں پر عرس اور میلے، مشرکانہ مراسم، نذرانے اور چڑھاوے، تعویذ اور گنڈے، غیراللہ کے لئے ذبح وقربانی ، غیراللہ سے شفاطلبی، حاجت روائی ومشکل کشائی، فریادرسی ودعاطلبی، الغرض شرک کی وہ کوئی صورت باقی نہیں جو بت پرست اپنے بتوں کے ساتھ یا صلیب پرست اپنے صلیب یا عیسی یا مریم علیہم السلام کے ساتھ کرتے ہیں مگر مسلمانوں نے اسے اپنے مدفون بزرگوں کے لئے اختیار کرلیا ہے۔ آج مزارات پر وہی کچھ ہوتا ہے جو غیر مسلموں کے گرجاگھروں، مندروں اور تیرتھ استھانوں میں ہوتا ہے۔آج مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد  توحید سے بہت دور جاچکی ہے ۔ ضرورت ہے کہ سارے مسلمان دوبارہ اللہ کی نازل کردہ آخری کتاب قرآن مجید اور سنت صحیحہ کی تعلیمات کے مطابق توحید کو اپنائیں  اور جس طرح سلف صالحین اور صحابہ وتابعین نے توحید کو مضبوطی سے تھاما  اور اس پر عمل پیرا رہے اسی طرح تمام مسلمان بھی اسے اپنی زندگیوں میں برتیں۔
جس طرح کلمۂ شہادت کے پہلے حصہ سے بہت سارے کلمہ گو منحرف ہوچکے ہیں ، اسی طرح کلمہ کے دوسرے حصہ سے بھی بہت سارے کلمہ گو  انحراف کی روش اختیار کئے ہوئے ہیں۔ کچھ لوگوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام سنتوں سے انکار ہے، وہ صرف قرآن مجید کے کافی ہونے کا نعرہ لگاتے ہیں۔ کچھ لوگ سنت سے ہٹ کر دین میں من مانی طور پر بدعات ایجاد کرتے اور ان پر چلنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ کچھ لوگ تقلید کے نام پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں اوروں کو نبی کا مقام دئیے ہوئے ہیں اور ان کی تحلیل وتحریم کو بلادلیل تسلیم کرتے ہیں۔
اللہ تعالی ہمیں شہادتین کے حقوق کی ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے اور اس سے دور کرنے والی تمام ضلالتوں اور گمراہیوں سے محفوظ رکھے۔
اذان اور رفعت ذکر:
اذان (وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ) کی عملی تفسیر ہے۔ قاضی سلیمان سلمان منصور پوری رحمہ اللہ نے کیا خوب لکھا ہے:
«بحر الکاہل کے مغربی کنارہ سے لے کر  دریائے ہوانگ ہو کے مشرقی کنارہ تک کے رہنے والوں میں سے کون ہے جس نے صبح کے روح افزا جھونکوں کے ساتھ اذان کی آواز نہ سنی ہو، جس نے رات کی خموشی میں أشهد أن محمداً رسول الله  کی سریلی آواز کو جاں بخش نہ پایا ہو۔ یہی وہ الفاظ ہیں جو جاگنے والوں اور سونے والوں کو ان کی ہستی کے بہترین آغاز وانجام کے اعلام سے سامعہ نواز ہیں۔ کیا رفعت ذکر کی کوئی مثال اس سے بالاتر پائی جاتی ہے۔ آج کسی بادشاہ کو اپنی مملکت میں، کسی ہادی کو اپنے حلقۂ اثر میں یہ بات کیوں حاصل نہیں کہ اس کے مبارک نام کا اعلان ہرروزوشب اس طرح پر کیا جاتا ہو کہ خواہ کوئی سننا پسند کرے یا نہ کرے لیکن وہ اعلان ہے کہ پردہائے گوش کو چیرتا ہوا قعر قلب تک ضرور پہنچ جاتا ہے۔ ہاں وہ اعلان صرف اس کے نام ہی کا اعلان نہیں بلکہ اس کے کام کا بھی اور صرف کام ہی کا نہیں بلکہ اس کے پیغام کا بھی اعلان ہے۔ بے شک یہ اعلی خصوصیت صرف اسی برگزیدۂ انام کے نام نامی کو حاصل ہے جس کی رفعت ذکر کا ذمہ دار خود رب العالمین بنا ہے اور جس کی بابت یسیعیاہ نبی کی کتاب میں پیش گوئی فرمائی گئی تھی کہ اس کے نام کو برکت دی جائے گی([13])»۔



فصل رابع:
الحیعلہ
حَيَّ عَلَى الصَّلاَةِ حَيَّ عَلَى الفَلاَحِ کو عربی میں مختصر طور پر حیعلہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اذان کے اندر یہ دونوں جملے شہادتین کے بعد ہیں۔ ارکان اسلام میں بھی یہی ترتیب ہے کہ صلاۃ کی ادائیگی کا ذکر شہادتین کے اقرار کے بعد ہے۔
انسان کی طبیعت ہے کہ وہ ہمیشہ سامنے کی چیز کو مستقبل پر مقدم رکھتا ہے۔ نقد کو ادھار پر ترجیح دیتا ہے۔ اس کے نزدیک جلد ملنے والی چیز کو تاخیر سے ملنے والی چیز پر اولیت  وفوقیت حاصل ہوتی ہے۔ چونکہ دنیا سامنے نظر آنے والی نقد چیز ہے اور دنیا کو انسان اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے لہذا وہ اس میں مشغول ہوجاتا ہے۔ آخرت اگرچہ بے شک سچا وعدہ ہے لیکن انسان اس کے بارے میں صرف سنتا ہے لہذا پیش نظر دنیا میں مشغول ہوکر آخرت سے غافل اور آخرت فراموشی کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس غفلت سے پردہ ہٹانے کے لئے حَيَّ عَلَى الصَّلاَةِ اور حَيَّ عَلَى الفَلاَحِ  کی بار بار ندا دی جاتی ہے۔ کوئی بازار میں خرید وفروخت میں مشغول ہے، کوئی ورکشاپ میں صنعت وکاریگری میں لگا ہوا ہے، کوئی اور کسی کام میں مصروف ہے، کوئی اپنے گھر یا ہوٹل یا کہیں اور چائے نوشی یا کھانے پینے کے شغل سے لطف اندوز ہورہا ہےکہ اسی دوران اذان کی آواز آتی ہے، حَيَّ عَلَى الصَّلاَةِ حَيَّ عَلَى الفَلاَحِ پکارا جاتا ہے کہ اے دنیا میں مشغول لوگو! آخرت کا سامان کرو۔ آؤ صلاۃ کی طرف ، آؤ کامیابی کی طرف ۔ ہاں اس آواز کی طرف دوڑ پڑو کہ یہی حقیقی فلاح وکامرانی ہے کیونکہ ایمان کے بغیر کہیں فلاح نہیں جو کچھ ہے خسارہ ہی خسارہ ہے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ} [الجمعة: 9] (اے وه لوگو جو ایمان لائے ہو! جمعہ کے دن صلاۃ کی اذان دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف دوڑ پڑو اور خرید وفروخت چھوڑ دو۔ یہ تمہارے حق میں بہت ہی بہتر ہے اگر تم جانتے ہو)۔
یہاں یہ وضاحت کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ "دوڑ پڑو" سے مراد پورا اہتمام، تیزی اور فوری تعمیل ہے  نہ کہ دوڑتے ہوئے آنا کیونکہ حدیث میں دوڑ کر مسجد آنے سے منع کیا گیا ہے اور پورے سکون ووقار کے ساتھ مسجد آنے کی تاکید کی گئی ہے([14]
نیز ارشاد ہے: { يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ } [المنافقون: 9] اے مسلمانو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کر دیں۔ اور جو ایسا کریں وه بڑے ہی زیاں کار لوگ ہیں)۔
نیز ارشاد ہے: {فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ رِجَالٌ لَا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ} [النور: 36-37] (ان گھروں میں جن کے بلند کرنے، اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے وہاں صبح وشام اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرتے ہیں  ایسے لوگ جنہیں تجارت اور خرید وفروخت اللہ کے ذکر سے اور صلاۃ کے قائم کرنے اور زکوٰة ادا کرنے سے غافل نہیں کرتی)۔
اللہ نے اپنے ان بندوں کی تعریف فرمائی ہے جن کی مشغولیات انھیں اللہ کے ذکر سے غافل نہیں کرتیں۔ یہ حقیقت یاد رہے کہ یہاں اس بات پر تعریف نہیں کی جارہی ہے کہ وہ ہرکام چھوڑ کر مسجد کو اپنا اڈہ بنالیتے ہیں ، مسجد سے باہر ہی نہیں نکلتے، بلکہ تعریف اس بات پر ہے کہ وہ تجارت والے ہیں، بہت سارے کام کرتے ہیں، لیکن اپنے ان سارے دنیاوی کاموں کے باوجود اللہ کے ذکر سے ، صلاۃ قائم کرنے اور زکاۃ دینے سے غافل نہیں ہوتے۔ ایک مسلمان مسجد میں داخل ہونے سے پہلے بھی عبادت میں ہوتا ہے اور اذان سن کر مسجد میں داخل ہوکر بھی عبادت میں ہوتا ہے۔ مسجد سے باہر نکل کر رزق حلال کمانے میں لگا ہوتا ہے تب بھی عبادت میں ہوتا ہے۔ یہاں اسلام کی ایک عظیم خوبی نکھر کر ہمارے سامنے آتی ہے کہ اسلام دنیا سے کنارہ کشی کا نام نہیں بلکہ اپنے اپنے وقت پر حکم الٰہی کے مطابق ہرعمل انجام دینے کا نام اسلام ہے۔ زندگی ترجیحات کا مجموعہ ہے، ہروقت ایک بندہ امتحان کی حالت میں ہے کہ دو یا دوسے زیادہ امور میں سے کس امر کو اہمیت اور ترجیح دیتا ہے۔اگر ایک بندہ اللہ کے حکم اور اس کی رضا کو ترجیح دیتا ہے تو کامیاب وکامران ہے اور اگر اس کے برخلاف اپنی خواہش اور شیطان کی پیروی کو ترجیح دیتا ہے تو ناکام ونامراد ہے۔
حَيَّ عَلَى الصَّلاَةِ سن کر بندہ شیطان کے ساتھ جنگ کے ایک نئے دور میں داخل ہوجاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ شیطان ہمارا دشمن اللہ کے ذکر اور صلاۃ سے روکنے کے لئے اپنا پورا زور اور اپنی مکمل طاقت صرف کردیتا ہے ۔ اگر ہم نے اذان کا جواب دیا ، مسجد پہنچے اور صلاۃ ادا کی تو شیطان کو شکست فاش سے دوچار کردیا اور غالب وفتحیاب ہوگئے لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو ہم شیطان سے شکست کھاگئے اور ہمارا ازلی دشمن فتحیاب ہوگیا۔
حَيَّ عَلَى الصَّلاَةِ کا کون کس طرح جواب دیتا ہے ، اسی پر اسلام وایمان اور کفر ونفاق کے فیصلہ کا انحصار اور دار ومدار ہے۔ آپ کے ایمان کا درجہ کیا ہے ؟ اذان کے بعد اسے آپ خود ناپ سکتے ہیں۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: « إِنَّ بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ الشِّرْكِ وَالْكُفْرِ تَرْكَ الصَّلَاةِ ([15])»(آدمی اور کفر وشرک کے درمیان ترک صلاۃ (ہی حدفاصل) ہے۔)
نیز اللہ تعالی نے فرمایا: {قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ} [المؤمنون: 1- 2] (یقیناً ایمان والوں نے فلاح حاصل کرلی جو اپنی صلاۃ  میں خشوع کرتے ہیں)۔
آگے فرمایا: {وَالَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ} [المؤمنون: 9] (جو اپنی صلاتوں کی نگہبانی کرتے ہیں)۔
نیز ارشاد ہے:  {إِنَّ الْمُنَافِقِينَ يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ قَامُوا كُسَالَى يُرَاءُونَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُونَ اللَّهَ إِلَّا قَلِيلًا} [النساء: 142] (بے شک منافق اللہ سے چالبازیاں کر رہے ہیں اور وه انہیں اس چالبازی کا بدلہ دینے والا ہے اور جب صلاة كو کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی کاہلی کی حالت میں کھڑے ہوتے ہیں صرف لوگوں کو دکھاتے ہیں، اور یاد الٰہی تو یوں ہی سی برائے نام کرتے ہیں)۔ 
نیز ارشاد ہے: {وَمَا مَنَعَهُمْ أَنْ تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقَاتُهُمْ إِلَّا أَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَبِرَسُولِهِ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى وَلَا يُنْفِقُونَ إِلَّا وَهُمْ كَارِهُونَ } [التوبة: 54] (کوئی چیز ان کے خرچ کی قبولیت سے مانع نہ ہوئی اس کے سوا کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے منکر ہیں اور بڑی کاہلی سے ہی صلاۃ کو آتے ہیں اور ناگواری سے  ہی خرچ کرتے ہیں)۔
حی علی الصلاۃ اور حی علی الفلاح کے جواب میں ہمیں کہنا ہے: لاحول ولا قوۃ الا باللہ  (اللہ کی مدد کے بغیر ہمارے اندر کوئی حرکت اور طاقت نہیں)([16] اللہ کی مدد ونصرت کے بغیر نہ گناہوں سے بچنے کی طاقت ہے اور نہ ہی نیکیاں کرنے کی قوت ہے۔
اس جواب میں دو قلبی عبادات ہیں، ایک توکل واعتماد اور دوسرے استعانت ومددطلبی۔ یعنی ہمارا بھروسہ اللہ پر ہے اور ہم اسی سے مدد چاہتے ہیں۔
صحیح حدیث میں ہے کہ ’’لا حول ولا قوۃ الا باللہ‘‘ جنت کا ایک خزانہ ہے([17]
خزانہ اس مال کو کہتے ہیں جو اکٹھا مل جائے، جسے جمع کرنے کی ضرورت نہ ہو بلکہ پہلے ہی سے جمع ہو۔ چونکہ اس کلمہ میں اللہ پر توکل اور اس کے سامنے ہماری فقر ومحتاجی کا اعلان ہے اس لئے اس کی اتنی بڑی فضیلت ہے۔



فصل خامس:
تکبیروتہلیل
اذان کی ابتدا تکبیر سے ہوتی ہے اور اختتام تہلیل پر ہوتا ہے اور اس تہلیل سے قبل بھی تکبیر ہوتی ہے۔
تکبیر کی عظمت واہمیت ، معنویت اور گیرائی وگہرائی پر ابتدا میں گفتگو ہوچکی ہے البتہ تہلیل (لا الہ الا اللہ) کی اہمیت وعظمت کا بیان باقی ہے۔ یہ وہ کلمہ ہے جس کا نام کلمۂ توحید، کلمۂ اخلاص، کلمۂ تقوی، عروۂ وثقی اور کلمۂ حق وغیرہ ہے۔ اس کے ناموں اور القاب کی کثرت سے اس کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
یہی وہ کلمہ ہے جو سارے انبیاء ورسل کی دعوت کا خلاصہ اور عطر ہے۔ اسی کلمہ کی دعوت کی خاطر آسمانی کتابوں کا نزول ہوا۔ اسی کلمہ کے ردوقبول کی بنا پر انسانیت دوحصوں میں تقسیم ہوجاتی ہے، ایک طرف اہل ایمان وتوحید کی جماعت ہوتی ہے اور دوسری طرف اہل کفروشرک کا گروہ۔ اس کلمہ کے ماننے والے پابند شریعت ہوتے ہیں اور اس کلمہ کا انکار کرنے والے اصحاب جاہلیت۔ یہ وہ کلمہ ہے جس میں سارا دین شامل ہے، دین کا کوئی حصہ اس کلمہ سے خارج نہیں۔ آئیے اس سلسلہ میں امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ  کی وضاحت پر ایک نظر ڈال لی جائے۔ آپ فرماتے ہیں: "اللہ تعالی نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام انسانیت کی طرف مبعوث فرمایا تاکہ وہ ’’لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘  کا اقرار کریں، جنھوں نے اس کا اقرار کرلیا اسلام کے حق کے سوا اپنے جان ومال کی حفاظت کرلی اور ان کا حساب اللہ تعالی کے ذمہ ہوگا۔ جب اللہ تعالی کو یہ بات معلوم ہوگئی کہ وہ اس کلمہ کا سچے دل سے اقرار کرتے ہیں تو اللہ نے حکم دیا کہ آپ ان کو صلاۃ کا حکم دیں، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو صلاۃ کا حکم دیا اور انھوں نے اس حکم کو مانا، اللہ کی قسم اگر وہ اس حکم کو نہ مانتے اور صلاۃ ادا نہ کرتے تو کلمہ کے اقرار سے ان کو کوئی فائدہ نہ ہوتا۔ پھر جب اللہ تعالی کو ان کے دلوں کی صداقت کا علم ہوگیا تو اللہ نے اپنے نبی کو حکم فرمایا کہ آپ انھیں ہجرت مدینہ کا حکم دیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا انھوں نے سرتسلیم خم کردیا، اللہ کی قسم اگر انھوں نے ایسا نہ کیا ہوتا تو ان کا کلمہ کا اقرار اور ان کا صلاۃ ادا کرنا ان کے کچھ کام نہ آتا۔ پھر جب اللہ کو معلوم ہوگیا کہ وہ سچے دل سے اس پر بھی عمل پیرا ہیں تو انھیں حکم دیا کہ دوبارہ مکہ واپس جائیں اور اپنے آباؤاجداد نیز اولاد واحفاد سے جنگ کریں تاکہ وہ بھی لاالہ الا اللہ کا اقرار کریں، انھیں کی طرح صلاۃ ادا کریں اور ہجرت کریں، چنانچہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کو اس بات کا حکم دیا انھوں نے فوراً تسلیم کیا یہاں تک کہ ان میں سے بعض اپنے باپ کا سر لے آئے اور اسے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ کہتے ہوئے  پیش کردیاکہ یہ لیجئے کافروں کے سردار کا سر۔ اللہ کی قسم اگر انھوں نے ایسا نہ کیا ہوتا تو ان کا کلمہ پڑھنا، صلاۃ ادا کرنا، ہجرت کرنا اور قتال کرنا ان کے کچھ کام نہ آتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے بعد امام ابن عیینہ نے اور بھی شریعت کے متعدد امورگنوائے پھر فرمایا۔ ۔ ۔ ۔ جو ایمان کی کسی ایک خصلت کا منکر ہوگا وہ ہمارے نزدیک کافر قرار پائے گااور جو سستی اور کاہلی کی بنا پر چھوڑے گا اسے ہم باادب بنائیں گے اور وہ ناقص الایمان قرار پائے گا([18])"۔
لا الہ الا اللہ کا معنی ومفہوم درست طور پر کوئی شخص اس وقت تک سمجھ نہیں سکتا جب تک کہ وہ اس کے دونوں ارکان نفی واثبات کو اچھی طرح نہ سمجھ لے۔ لاالہ (نہیں کوئی لائق عبادت) شرک کی نفی ہے اور الااللہ (سوائے اللہ کے) توحید کا اقرار ہے۔ جب کوئی بندہ اس کلمہ کا اقرار کرتا ہے تو وہ گویا اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ میں کسی کی عبادت نہیں کروں گا البتہ صرف ایک اللہ کی عبادت کروں گا۔ میں کسی سے نہیں ڈروں گا البتہ ایک اللہ سے ڈروں گا۔ میں کسی سے امید نہیں لگاؤں گا البتہ ایک اللہ سے امید رکھوں گا۔ میں کسی کو رکوع اور سجدہ نہیں کروں گا البتہ ایک اللہ کے لئے رکوع اور سجدہ کروں گا۔ الغرض میں کوئی عبادت دعا وفریاد، نذر ونیاز، ذبح وقربانی وغیرہ کسی کے لئے نہیں کروں گا البتہ صرف ایک اللہ کے لئے ضرور کروں گا۔
اذان کے اندر ایک بار مؤذن اس کلمہ کی اپنی شہادت کا اعلان کرتا ہے اور دوسری بار شہادت کے بغیر اعلان عام کرتا ہے کہ اے دنیا کے انسانو بلکہ اس آواز کو سننے والی تمام مخلوقات، اس بات کو یاد رکھو کہ اللہ کے سوا کوئی برحق اور سچا معبود نہیں، کوئی اس لائق نہیں جس کی عبادت کی جائے۔کوئی ایسا نہیں جو کسی قسم کی ظاہری وجسمانی  یا باطنی وقلبی عبادتوں کا حقدار ہو،  صرف ایک اللہ ہی ہرطرح کی عبادت کا حقدار ہے۔



فصل سادس:
اذان ایک پراثرعالمگیر دعوت
اذان ایک پکار ہے۔ اذان ایک دعوت ہے۔ ایک پیغام اور اعلان ہے۔ اس میں کسی پر جبر واکراہ نہیں۔ یہ اسلام کی عالمگیر دعوت کی طرح ایک عالمگیر پکار ہے۔ کتنے ہی غیر مسلم سیاح جب مسلمان ملکوں میں پہنچے اور اذان سنی تو اس کا معنی ومفہوم جاننے کی کوشش کی اور اس طرح ان تک اسلام کی دعوت پہنچ گئی اور جن کے لئے اللہ تعالی نے خیر مقدر فرمایا تھا وہ حلقہ بگوش اسلام ہوگئے۔
مشہور مصری ادیب عباس محمود العقاد نے اپنی کتاب "بلال ابن رباح آسمانی منادی اور موذن رسول صلی اللہ علیہ وسلم " میں بڑے عمدہ پیرائے میں اذان بلالی کا تذکرہ کیا ہے۔ ان سے استفادہ کرتے ہوئے ہم ان کی تحریر کی یہاں آزاد ترجمانی کررہے ہیں اور حسب موقعہ معمولی تصرف سے بھی کام لیا ہے۔ والله الموفق.
یاد رہے کہ بلال رضی اللہ عنہ وہ پہلے مسلمان ہیں جنھوں نے منارہ پر چڑھ کر کلمات اذان کو بلند کیا ہے۔ مکہ کی وہ سرزمین جس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کرنے پر مجبور کردیا تھا جب آپ وہاں سنہ 8 ہجری میں فاتحانہ شان سے داخل ہوئے تو یہی بلال رضی اللہ عنہ تھے جنھوں نے کعبہ کی چھت پر کھڑے ہوکر اذان دی ۔ اذان کے کلمات وہ پاکیزہ کلمات تھے جنھوں نے قریش اور کفار مکہ کو یقین دلادیا کہ اسلام کی دعوت کو اللہ کی تائید حاصل ہے اور اسے غالب ہونا ہے۔ دین قریش جو کفر وشرک کا منادی ہے اسے مٹنا اور ختم ہونا ہے۔ اذان کے کلمات اس قدر پرہیبت اور پررعب تھے کہ سرداران قریش کے دلوں میں دہشت قائم ہوگئی اور بالآخر انھوں نے بت پرستی سے تائب ہوکر اسلام کی حلقہ بگوشی اختیار کرلی۔
اذان ہاتف غیبی اور پراسرار آواز ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ایسی زندہ پکار ہے جس کے لئے پوری کائنات گوش برآواز ہوتی ہے۔ اذان کی صدا پر کان لگاتے ہی عالم غیب سے انسان کا رابطہ قائم ہوجاتا ہے۔ یہ وہ پکار ہے جس سے آسمان وزمین باہم مل جاتے ہیں۔ زمین پر بسنے والا کمزور اور عاجز انسان الٰہی عظمت اور ربانی کبریائی کے گن گاتا ہے۔ جب جب کسی صلاۃ کا وقت شروع ہوتا ہے تب تب ان ابدی حقیقتوں کا اعلان دہرایا جاتا ہے، اس کے باوجود ہربار یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کوئی نئی خبر یا نیا پیغام ہے۔
اذان کی یہ زندہ پکار ایک دائمی حقیقت کا کھلا اعلان ہے ۔ نہایت سادہ بھی ہے اور نہایت عجیب بھی ۔ یہ ایک ایسی واضح حقیقت ہے کہ بار بار کی تکرار سے بے نیاز ہے لیکن ساتھ ہی دنیاوی مشاغل کی وجہ سے اس کے بار بار تکرار کی ضرورت بھی ہے۔ مسلمان اذان سنتے ہی گویا صلاۃ میں داخل ہوجاتا ہے کیونکہ اذان اسے اللہ کی عظمت کی یاد دلاتی ہے جو پورے صلاۃ کا لب لباب ہے۔
فجر کی اذان سکون شب کو چیرتے ہوئے کان کی راہ سے دل میں اترجاتی ہے۔ شجر وحجر، پانی اور ہوا، حیوانات اور پرندے سب گوش بر آواز ہوتے ہیں۔ پوری دنیا اس آواز پر ایسے کان لگائے ہوتی ہے جیسے کوئی کسی کی دعا پر آمین کہنے کے لئے تیار ہو۔
مغرب کی اذان دیتے ہوئے منادی دن کے اجالے کو الوداع کہتا ہے اور آمد شب پر اس کا استقبال  کرتا ہے۔ اس الوداعی ترانے کی گونج اپنی بازگشت کے ساتھ اطراف عالم میں پھیل جاتی ہے۔ یہ شیریں صدا شام کے ملگجے میں کسی میٹھی اور لذیذ سرگوشی کی طرح تمام زندوں کے کان میں رس گھولتی ہے۔ یہ صدا آفاق واکناف عالم میں اللہ کی عظمت وکبریائی کے نغمے نشر کرتی ہے۔ یہ صدا دن میں بھی سنائی دیتی ہے اور رات میں بھی۔ اس وقت بھی سنائی دیتی ہے جب لوگ پرسکون ہوتے ہیں اور اس وقت بھی سنائی دیتی ہے جب حرکت وعمل اور اضطراب میں ہوتے ہیں۔ یہ صدا سکون کو ہنگامہ خیز بناتی ہے اور مشغولیات کے ہنگاموں سے نکال کر سکون عطا کرتی ہے۔
اذان کی تاثیر کا کیا کہنا، وہ ہرایک کے لئے پراثر ہے۔ ایک بچہ جو اس کے معنی ومفہوم سے نا آشنا ہے وہ بھی اس سے متاثر ہوتا ہے ۔ ایک غیرعربی جو کلمات اذان کے معانی ومطالب سے نابلد ہوتا ہے وہ بھی اس کی اثرپذیری سے محروم نہیں رہتا۔ مومن اور مسلمان تو ان کلمات سے مسحور ہوتے ہی ہیں ، کافر ومشرک بھی ان کلمات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔
مصری ادیب عقاد لکھتے ہیں: "بچپن میں ہم کچھ سمجھے بغیر اذان سنا کرتے تھے لیکن اذان اور دوسری پکاروں میں واضح فرق موجود تھا۔ کھیل کود کے ہنگامے اور خرید وفروخت کے شور شرابے اس سے قطعا مختلف تھے۔ ہمارے دلوں میں یہ آواز سن کر اس تک پہنچنے اور اسی جیسے کلمات پکارنے کی خواہشیں انگڑائیاں لیا کرتی تھیں۔ لوگ ہمیں بتاتے تھے کہ یہ اللہ کا حکم ہے ، کچھ کچھ تو سمجھ میں آتا تھا لیکن تفصیلات کو ہم مستقبل کے حوالہ کردیا کرتے تھے۔ وقت گذرتا رہا حیرت بدلتی رہی۔ بچپن کی حیرتوں کو جوانی کی حیرتوں سے تسلی ہوجاتی ہے۔ حیرت اب بھی باقی ہے اگرچہ اس کا عنوان بدل چکا ہے"۔
اونچے اونچے میناروں سے بلند ہوتی ہوئی اذان کی ندا کسی اجنبی کو جس قدر متوجہ کرتی ہے اس قدر اسلام کے شعائر وعبادات میں سے کوئی اور چیز متوجہ نہیں کرتی۔ نغمے، ترتیل، مخارج حروف کے تمام اختلافات کے باوجود یہ آواز اپنا اثر ڈالتی ہے۔
اڈورڈ ولیم لکھتا ہے: "یقیناً اذان کی آواز نہایت دلکش ہے خصوصاً سکون شب میں"۔
جیراردی نرفال اپنی کتاب سفر مشرق میں لکھتا ہے: "جب میں نے پہلی بار موذن کی شیریں اور شفاف آواز سنی تو مجھ پر ایک ناقابل بیان احساس چھاگیا، میں نے ترجمان سے پوچھا کہ یہ پکارنے والا کیا کہتا ہے؟ اس نے مجھے بتایا کہ وہ لا الہ الا اللہ کہتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ میں نے دریافت کیا کہ اور کیا کہتا ہے تو اس نے بتایا کہ وہ سوتوں کو جگاتے ہوئے کہتا ہے : سونے والو! ہمیشہ زندہ اور کبھی نہ سونے والے پر توکل کرو"۔
لاف کاڈیو ہیرن لکھتا ہے: "وہ سیاح جسے کسی مشرقی ملک کے درودیوار کی زیارت کا پہلی بار موقع ملا ہو ، خصوصاً کسی بلند منارے کے قریب رہائش کی فرصت نصیب ہوئی ہو ، اس نے دل کی دھڑکنوں کو متاثر کرنے والی وہ باوقار اور حسین آواز ضرور سنی ہوگی جس کے ذریعہ مسلمان اپنی صلاۃ کے لئے بلاتے ہیں - - - - اگر سیاح نے کثرت مطالعہ کے ذریعہ ان اسفار کی مکمل تیاری کی ہے تو اس مقدس پکار کا ایک ایک کلمہ اس کے دل کی گہرائیوں میں اتر جاتا ہے ۔ اس کا ایک ایک ٹکڑا اور ایک ایک حصہ موذن کے شیریں اور نغمگیں آواز میں ظاہر ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ اس وقت جب طلوع فجر اپنی گلابی روشنی مصر وشام کی فضاؤں میں بکھیردیتا ہے اور ستارے رخصت ہوا چاہتے ہیں۔ دوبارہ مشرق کی جانب سے طلوع خورشید تک یہ ندا مزید چاربار سنائی دیتی ہے۔ آفتاب نصف النہار کی چمکتی روشنی اور گرمی میں یہ آواز آتی ہے۔ پھر غروب آفتاب سے قبل جب کہ مغرب کی سمت روشنی اور چمک واضح ہو، اور پھر غروب شمس کے بعد جب کہ آسمان پر نارنگی اور زمردی رنگوں سے ملے جلے رنگ چھاجاتے ہیں۔ آخری بار اس وقت اذان کی آواز سنائی دیتی ہے جب بنفسجی خیمۂ فلک کی بلندیوں پر لاکھوں چراغ بشکل انجم جل اٹھتے ہیں"۔
اس طرح کے بے شمار تاثرات نقل کئے جاسکتے ہیں لیکن فی الحال اختصار کے مدنظر انھیں چند پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
هذا والله أعلم وصلى الله على نبينا وسلم
­­­­­




مراجع ومصادر
1-        القرآن الكريم وترجمة معانيه باللغة الأردية.
2-        الجامع الصحيح للإمام البخاري
3-        الجامع الصحيح للإمام مسلم
4-        جامع الإمام الترمذي مع تخريج الشيخ الألباني
5-        سنن أبي داود مع تخريج الشيخ الألباني
6-        سنن النسائي مع تخريج الشيخ الألباني
7-        سنن ابن ماجة مع تخريج الشيخ الألباني
8-        صحيح الجامع الصغير للشيخ الألباني
9-        سلسلة الأحاديث الصحيحة والضعيفة للشيخ الألباني
10-    تأملات في معاني كلمات الأذان للدكتور محمد عزالدين توفيق (مجلة البيان عدد95 , رجب 1416هـ 1995م)
11-    رحمة للعالمين للقاضي محمد سليمان سلمان منصور فوري
12-    داعي السماء بلال بن رباح مؤذن الرسول صلى الله عليه وسلم للأديب عباس محمود العقاد
13-    الأذن والإقامة – المفهوم والفضائل والآداب والشروط في ضوء الكتاب والسنة للدكتور سعيد بن علي بن وهف القحطاني



فہرست مضامین
المحتويات
صفحہ
موضوعات
مقدمة
3
مقدمہ
الفصل الأول:
الأذان شعيرة الإسلام المتميزة
7
فصل اول:
اذان اسلام کا امتیازی شعار
الفصل الثاني:
التكبير
18
فصل ثانی:
تکبیر
الفصل الثالث:
الشهادتان
24
فصل ثالث:
شہادتین
الفصل الرابع:
الحيعلة
32
فصل رابع:
الحیعلہ
الفصل الخامس:
التكبير والتهليل
41
فصل خامس:
تکبیر وتہلیل
الفصل السادس:
الأذان دعوة عالمية مؤثرة
46
فصل سادس:
اذان ایک پراثرعالمگیر دعوت
المراجع والمصادر
54
مراجع ومصادر




([1]) دیکھئے : صحیح بخاری كتاب الأذان، باب بدء الأذان، (کتاب:10 باب :1 حدیث:603-604)۔ صحیح مسلم  كتاب الصلاة، باب بدء الأذان، (کتاب :4 باب :1 حدیث : 1(377)۔
([2]) دیکھئے: سنن ابوداود كتاب الصلاة، باب كيف الأذان، (کتاب : 2 حدیث :499), سنن ابن ماجہ كتاب الأذان، باب بدء الأذان، (کتاب : 3 باب :1 حدیث : 698), علامہ البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔ (إرواء الغليل، 1/ 265.)
([3]) اس موضوع کو سمجھنے کے لئے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب "اقتضاء الصراط المستقیم مخالفۃ اصحاب الجحیم" کا مطالعہ مفید ہوگا۔
([4]) رحمۃ للعالمين 1/198
([5]) رحمۃ للعالمين 1/198 .
([6]) اس کے لئے اذان کی مشروعیت سے متعلق عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کی  روایت کے یہ الفاظ دلیل ہیں:  ((فقمْ مع بلالٍ فألقِ عليه ما رأيتَ فليؤذِّن به فإنه أندى صوتًا منك)) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ بلال رضی اللہ عنہ کے ساتھ کھڑے ہوکر خواب میں دیکھے ہوئے کلمات انھیں بتلاتے جائیں تاکہ وہ بآواز بلند ان کلمات کو دہراتے جائیں کیونکہ بلال رضی اللہ عنہ کی آواز زیادہ اونچی ہے۔ اس  روایت کے لئے دیکھئے: سنن ابوداود كتاب الصلاة، باب كيف الأذان، (کتاب : 2 حدیث :499), سنن ابن ماجہ كتاب الأذان، باب بدء الأذان، (کتاب : 3 باب :1 حدیث : 698), علامہ البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔ (إرواء الغليل، 1/ 265.)
اس موضوع پر ابو محذورہ رضی اللہ عنہ کی روایت بھی دلیل بن سکتی ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اذان پسند آنے کی بنا پر انھیں موذن متعین فرمایا تھا۔  دیکھئے : صحيح ابن خزيمة، 1/195، حدیث : 377.
([7]) اس سلسلہ میں عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث دلیل ہے جس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ان کی قوم کا امام متعین کرنے کے بعد فرمایا: ((واتَّخِذ مؤذنًا لا يأخذ على أذانه أجرًا)) (ایسے شخص کو موذن بنانا جو اپنی اذان پر اجرت نہ لیتا ہو) دیکھئے: أبوداود، كتاب الصلاة، باب أخذ الأجر على التأذين، حدیث :531، والترمذي، كتاب الصلاة، باب ما جاء في كراهية أن يأخذ المؤذن على الأذان أجرًا، حدیث:209، والنسائي، كتاب الأذان، باب اتخاذ المؤذن الذي لا يأخذ على أذانه أجرًا، حدیث :672، وابن ماجه، كتاب الأذان، باب السنة في الأذان، حدیث:714، وأحمد، 4/ 21، 217، علامہ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ (إرواء الغليل، 5/ 315، حدیث: 1492.)
([8]) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: «جب موذن کو اذان دیتے ہوئے سنو تو تم بھی اسی کے مثل کہتے جاؤ»۔متفق علیہ: صحیح بخاری كتاب الأذان، باب ما يقول إذا سمع المؤذن، (کتاب:10 باب :7 حدیث:611)۔ صحیح مسلم  كتاب الصلاة، باب استحباب القول مثل قول المؤذن لمن سمعه، ثم يصلي على النبي - صلى الله عليه وسلم -، ثم يسأل الله له الوسيلة، (کتاب :4 باب : 7 حدیث : 10 (383)۔
([9]) اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بروز قیامت اس شخص کو میری شفاعت حاصل ہوگی جو اذان سن کر یہ دعا پڑھے: «اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ، وَالصَّلاَةِ القَائِمَةِ آتِ مُحَمَّدًا الوَسِيلَةَ وَالفَضِيلَةَ، وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَهُ». (اے اللہ ، اس کامل دعوت اور قائم ہونے والی صلاۃ کے رب،  محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو وسیلہ (جنت کا ایک مخصوص درجہ) اور فضیلت عطا فرما، اور آپ کو اس قابل تعریف مقام پر کھڑا کر جس کا تونے ان سے وعدہ کیا ہے)۔ صحیح بخاری كتاب الأذان، باب الدعاء عند النداء، (کتاب:10 باب :8 حدیث:614)۔
([10]) کتب حدیث  بلکہ صرف صحیح بخاری کے فہرست ابواب پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے یہ چیزیں آپ کو مل جائیں گی۔
([11])صحیح مسلم کتاب الزهد والرقائق باب من أشرك في عمله غير الله (کتاب:53  باب:5 حدیث:46 (2985)۔
([12])عبد اللہ بن عمر w سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ  e کو فرماتے ہوئے سنا: «بُنِيَ الإِسْلامُ عَلَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ الله وَأَنَّ مُحَمَّدَاً رَسُوْلُ اللهِ، وَإِقَامِ الصَّلاةِ، وَإِيْتَاءِ الزَّكَاةِ، وَحَجِّ البِيْتِ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ». «اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: Œ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں, اور محمد (e) اللہ کے رسول ہیں۔  صلاة قائم کرنا Žزکاة ادا کرنا  کعبہ کا حج کرنا  رمضان کا صوم رکھنا»۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: صحیح بخاری كتاب الإيمان، باب قول النبي صلى الله عليه وسلم: بني الإسلام على خمس، (کتاب:2 باب :1 حدیث:8)۔ صحیح مسلم  كتاب الإيمان، باب قول النبي صلى الله عليه وسلم: بني الإسلام على خمس، (کتاب :1 باب : 5 حدیث : 21 (16)۔
([13]) رحمۃ للعالمین 3/25۔
([14]) دیکھئے متفق علیہ حدیث: صحیح بخاری كتاب الجمعة، باب المشي إلى الجمعة، (کتاب:11 حدیث:908)۔ صحیح مسلم  كتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب استحباب إتيان الصلاة بوقار وسكينة، والنهي عن إتيانها سعياً (کتاب :5 باب : 28 حدیث : 151 (602)۔
([15])صحیح مسلم  كتاب الإيمان، باب بيان إطلاق اسم الكفر على من ترك الصلاة. (کتاب :1 باب : 35حدیث : 134 (82)۔
([16]) اذان کے جواب سے متعلق صحیح مسلم کی حدیث کا حوالہ گذرچکا ہے۔
([17])متفق علیہ: صحیح بخاری میں یہ حدیث کئی مقامات پر ہے، كتاب المغازي، باب غزوة خيبر، (کتاب:64 حدیث:4205)۔ كتاب الدعوات، باب الدعاء إذا علا عقبة، (کتاب:80 حدیث:6384)۔ كتاب التوحيد، باب قول الله تعالى: {وكان الله سميعا بصيرا}، (کتاب:97 حدیث:7386)۔صحیح مسلم  كتاب الذكر والدعاء والتوبة والاستغفار، باب استحباب خفض الصوت بالذكر (کتاب :48 باب : 13 حدیث : 44 (2704)۔
([18]) کتاب الشریعۃ للآجری صفحہ: 104