الاثنين، 27 مايو 2013

ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ سے متعلق ایک مشہور واقعہ کی علمی تحقیق

الذب عن الصحابي الجليل وليد بن عقبة رضي الله عنه



ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ
سے متعلق
ایک مشہور واقعہ کی علمی تحقیق


اعداد:
عبدالہادی عبدالخالق مدنی
کاشانۂ خلیق، اٹوا بازار ،سدھارتھ نگر ،یوپی
داعی احساء اسلامک سینٹر ،سعودی عرب



بسم اﷲ الرحمن الرحیم
مقدمہ
            محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ آسمان انسانیت پر طلوع ہونے والے وہ سورج تھے  جس کی مثال دنیا نے صرف ایک بار دیکھی۔ دوبارہ ایسا سورج طلوع ہونے سے دنیا مایوس ہوچکی ہے۔ لیکن تاریخ کا ایک طالب علم یہ دیکھ کر انتہائی حیران ہوتا ہے کہ کس کس طرح تاریخ کی صورت بگاڑی گئی ہے۔ ابو لؤلؤ کے بھائیوں ، عبد اﷲ بن سبا کے شاگردوں اور آتش پرست مجوسیوں نے اسلام کا مقابلہ کھلے میدان میں روبرو اور دو بدو کرنے کی ہمت نہ پاکر اس سے کس طرح زیرزمین جنگ کی ہے۔ اسلام میں وہ کچھ داخل کیا ہے جو اسلام کا حصہ نہ تھا۔ اسلامی رجال کی سیرتوں سے وہ چیزیں چسپاں کردی ہیں جو ان کے اخلاق میں شامل نہ تھے اور اس طرح پورا اسلام اور پوری اسلامی تاریخ بدل کے رکھ دی اور حقیقت کو دنیا کی نگاہوں سے دور باطل کی تاریکیوں میں گم کردیا ہے۔
            لیکن اﷲ کا شکر ہے کہ اس نے دین کی حفاظت کی ذمہ داری خود لے رکھی ہے اس لئے عالم کفر کی تمام سر توڑ کوششوں اور شب وروز کی ساری جدوجہد کے باوجود آج بھی اسلام کا روشن چہرہ کتاب وسنت کے صفحات میں اپنی تابانیاں بکھیرے ہوئے ہے۔ مگر افسوس اس بات پر ہے کہ لوگوں کو اس خالص چشمہ کا پتہ نہیں یا پھر انھیں اس سے گمراہ  کردیا گیا ہے۔ اگر صرف بات ان لوگوں تک محدود ہوتی جن کا دل ودماغ اسلام کی خوبیوں سے بیگانہ ہے اور جن کو اپنے شرکیہ اور کفریہ ماحول کی بنا پر اسلام کی عظمت ورفعت کا شعور وادراک نہیں تو وہ معذور سمجھے جاسکتے ہیں مگر وہ لوگ جو اسلام کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں اس کے باوجود انھیں اپنی تاریخ کا اور صحابہ کی عظمتوں کا علم نہیں وہ کبھی قابل عفو نہیں ہوسکتے۔
            پھر جہاں تک شیعوں اور روافض کی بات ہے تو وہ اپنی صحابہ دشمنی میں معروف ہیں اور اسلام سے ان کا تعلق ہر مسلمان پر عیاں ہے لیکن افسوس تو یہ ہے کہ اہل سنت میں بھی بعض ایسی بے سند روایات جگہ پاگئی ہیں جن میں بعض افراد صحابہ پر کھلا طعن موجود ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ان روایات کی اس قدر شہرت ہے کہ اگر کوئی انکار کرے تو لوگ اس کے انکار پر تعجب کریں گے۔ ایسا معلوم ہوگا جیسے وہ کسی بدیہی حقیقت کا انکار کررہا ہو ۔
            زیر نظر کتابچہ ایسی ہی برخود غلط ایک روایت کی تردید میں مظلوم صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے دفاع کی ایک مخلصانہ کوشش ہے ۔اﷲ تعالیٰ قبول فرمائے۔
            یہ سچ ہے کہ اس مختصر سے رسالہ میں اس موضوع کا حق تو نہیں ادا کیا جاسکتا لیکن ممکن ہے کہ کسی رہ نورد شوق کے لئے یہ روشنی کی کرن ثابت ہو اور اس کی راہ متعین کردے ۔ 
            یہ کتابچہ  ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہے۔ آں صحابی سے متعلق امام ابن العربی رحمہ اﷲ کی مشہور عالم کتاب العواصم من القواصم پر علامہ محب الدین خطیب رحمہ اﷲ کی تعلیقات کا ترجمہ ہے۔ البتہ حسب ضرورت اس میں تصرف سے کام لیا گیا ہے اورحاشیہ میں مفید اضافے کئے گئے ہیں۔
            اس کتاب کا پہلا ایڈیشن  (دومظلوم صحابی) نامی کتاب کے ایک حصہ کے طور پر کتابی شکل میں دار الاستقامہ اٹوابازار، سدھارتھ نگر، یوپی، انڈیاکے زیر نگرانی اور خلیق دار المطالعہ کے زیر اہتمام٢٠٠٤ء میں شائع ہوااور الحمدﷲ اسے کافی پذیرائی اور مقبولیت حاصل ہوئی۔اب دوبارہ اسے مستقل کتابچہ کی صورت میں  مفید ترمیم واضافے کے بعد شائع کیا جارہا ہے۔
            ہم اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے بعد ان تمام بزرگان اور احباب کے شکرگذار ہیں جن کا تعاون کسی بھی شکل میں اس کتاب کے منظر عام تک لانے میں رہا ہے اور دعا گو ہیں کہ یہ رسالہ مسلمانوں کے درمیان پھیلے ہوئے غلط افکار ونظریات اور تصورات وعقائد کی تصحیح میں بھر پور کردار ادا کرے اور اپنے مؤلف، مراجع، قاری اور ناشر ہرایک کے لئے ذخیرۂ آخرت اور میزان عمل کو وزنی کرنے کا وسیلہ بنے اور اﷲ کے نیک بندوں میں فروغ عام اور قبولیت تام حاصل کرکے ان کی اصلاح ومنفعت کا ذریعہ ثابت ہو۔ آمین یا رب العالمین۔
دعاگو
عبد الہادی عبد الخالق مدنی
کاشانۂ خلیق ۔اٹوابازار۔ سدھارتھ نگر۔ یوپی۔ انڈیا
داعی احساء اسلامک سینٹر ۔ سعودی عرب



ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ
            ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کو ان کے عظیم کارناموں کی بنا پر مسلمان فاتحین میں سرفہرست جگہ ملنی چاہئے۔ ورنہ کم از کم ان کے شرف صحبت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملحوظ کرکے ان سے منسوب ایسے واقعات وروایات کی تردید وتغلیط ہونی چاہئے جن سے ان کے دامن کرامت پر حرف آتا ہے۔ مگر عجب ستم ظریفی ہے کہ کتب تاریخ وتفسیر میں  ان کا فاسق ہونا مشہور ہے جیسا کہ آئندہ صفحات میں آئے گا ۔ مولانا مودودی صاحب نے اپنی رسوائے زمانہ کتاب ''خلافت وملوکیت'' میں بھی ان پر زبان طعن دراز کیا ہے۔ اسی وجہ سے حافظ صلاح الدین یوسف صاحب نے اپنی کتاب ''خلافت وملوکیت کی تاریخی وشرعی حیثیت '' میں بڑی خوبی کے ساتھ محققانہ انداز میں اس موضوع کا جائزہ لیا ہے۔
            حالیہ مضمون امام ابن العربی کی کتاب ''العواصم من القواصم'' پر محب الدین الخطیب رحمہ اﷲ کی تعلیقات کا ترجمہ ہے جو انتہائی مفید ، پرمغز، تحقیقی اور مدلل ہیں ۔البتہ ترتیب نئی ہے ،عناوین قائم کردیئے گئے ہیں اور بعض وضاحت طلب امور کا حاشیہ میں اضافہ کردیا گیا ہے ۔
مختصر حالات زندگی ([1]):
            اﷲ تعالیٰ نے جنھیں علم تاریخ کی نعمت سے سرفراز فرمایا ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ  نے اپنی خلافت کے دور میں ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ جیسے پرعزیمت وباہمت ، خوش اخلاق اور صادق الایمان نوجوان کا انتخاب کرکے ان کی صلاحیتوں کو اﷲ کی راہ میں اپنی وفات تک استعمال کیا ۔
            ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں انھوں نے جو سب سے پہلا کارنامہ انجام دیا وہ یہ تھا کہ مجوس کے ساتھ ہونے والے  ١٢ھ کے معرکۂ مذار میں یہ خلیفۃ المسلمین ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سپہ سالار فوج خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے درمیان پیغام رساں کی حیثیت رکھتے تھے اور جنگی خطوط لے جانے والے راز دار سپاہی تھے (طبری٤/٧)اس کے بعدیہ عیاض بن غنم الفہری کی زیر قیادت فوج کی مدد کے لئے تشریف لے گئے (أیضاً٤/٢٢) اور  ١٣ھ میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان کو قبیلۂ قضاعہ کی وصولی ٔ زکاة پر مامور فرمایا۔ پھر جب صدیق رضی اللہ عنہ نے ملک شام کی فتح کا عزم کیا تو اس وقت ان کے نزدیک ولید رضی اللہ عنہ کے احترام واکرام اور اعتماد کا وہی مقام تھا جو عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا تھا یعنی آپ نے ان دونوں کو مجاہدین کے لشکروں کی قیادت عطا فرمائی۔ پھر چشم فلک نے دیکھا کہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ اسلام کا پرچم لے کر فلسطین کی جانب روانہ ہوئے اور ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں دوسرا لشکر شرق اردن کی طرف بڑھا (طبری٤/١٥٥) پھر  ١٥ھ میں دیکھئے تو ولید رضی اللہ عنہ بلاد تغلب اور الجزیرہ ([2]) میں بحیثیت امیر نظر آتے ہیں (أیضا) شام کے شمالی حصہ میں رہ کر مجاہدین کی پشت پناہی کرتے ہیں تاکہ دشمن پیچھے سے حملہ آور نہ ہوسکے۔ چنانچہ ربیعہ وتنوخ کے مسلم وکافر سب ان کے ماتحت تھے۔ اس سمت کی ولایت وقیادت کی فرصت کو غنیمت سمجھ کر ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ نے یہ کیا کہ یہ علاقہ جو ہمیشہ عرب کے عیسائی قبائل سے بھرا رہتا تھا وہاں اپنے جنگ وجہاد اور حکومتی امور کی مشغولیت کے ساتھ ساتھ دعوت الی اﷲ کا کام شروع کیا۔ حکمت وموعظت حسنہ کے سارے اسلوب اختیار کئے تاکہ ایاد وتغلب کے یہ نصرانی بھی بقیہ عرب کی طرح آغوش اسلام میں آجائیں۔ لیکن قبیلۂ ایاد نے بلاد اناضول(موجودہ ترکی) کی طرف راہ فرار اختیار کی جو اس وقت بیزنطینیوں کے زیر حکومت تھا۔ چنانچہ ولید رضی اللہ عنہ نے خلیفۃ المسلمین عمرفاروق رضی اللہ عنہ کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ قیصر قسطنطنیہ سے ایک دھمکی آمیز خط کے ذریعہ ان بھاگے ہوئے نصرانیوں کو اسلامی مملکت کی حدود میں واپس بھیجنے کا مطالبہ کریں ۔
            اسی طرح جب ان کی اسلامی دعوت کی نشر واشاعت کی بنا پر قبیلۂ تغلب نے سرکشی کی کوشش کی تو انھوں نے اپنے اسلامی جوش وجذبہ اور ایمانی حرارت نیز مضری غیظ وغضب کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا یہ مشہور شعر کہا:
اذا ما عصبت الرأس منی بمشوذ
فغیک من تغلب بنت وائل
(جب میں نے اپنے سر پر عمامہ لپیٹ لیا تو اے قبیلۂ تغلب تیری ہلاکت میرے ہاتھوں مقدر ہے۔)   
            یہ خبر جب عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو پہنچی اور انھیں اس بات کا اندیشہ ہوا کہ ان کا یہ نوجوان اور پرجوش قائد تغلب کے نصرانیوں کو گرفت میں لے کر ان کی سرکوبی نہ کرے اور پھر ایسے نازک وقت میں جب کہ وہ نصاریٰ فقط عربی حمیت کی بنا پر مسلمانوں کے ساتھ مل کر ان کے دشمنوں کے خلاف مصروف پیکار ہیں کہیں اس کے ہاتھ سے ان کی زمام قیادت نہ چلی جائے ۔ اس مصلحت کے پیش نظر ولید رضی اللہ عنہ کو ان سے باز رکھا اور ان کے علاقہ سے دور کردیا۔
            ماضی کے ان پر عظمت کارناموں کے ساتھ ولید رضی اللہ عنہ  عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں داخل ہوئے اور ان کی جانب سے کوفہ کے والی مقرر ہوئے۔ یہ کوفہ کے سب سے عدل پرور، نیک دل، نرم خو اور انصاف پسند امیر ثابت ہوئے ۔ ان کی امارت کے زمانے میں وہاں کے لشکر فتح وظفر کا پرچم لہراتے ہوئے مشرق کے طول وعرض میں بڑھتے جارہے تھے ۔
داستان مظلومیت:
            بعض مفسرین کی روایت ہے کہ سورہ حجرات کی آیت نمبر(٦) میں ''فاسق'' سے مرادولید رضی اللہ عنہ ہیں ۔ آیت یہ ہے:
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَنْ تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَى مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ } [الحجرات: 6]
(اے ایمان والو! اگر تمھیں کوئی فاسق خبردے تو تم اس کی اچھی تحقیق کرلیا کرو۔  ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچادو، پھر اپنے کئے پر پشیمانی اٹھاؤ)۔
            قصہ یہ ہے کہ ولید رضی اللہ عنہ کونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بنومصطلق کے صدقات کی وصولی کے لئے بھیجا۔ یہ راستے سے واپس لوٹ آئے اور اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قبیلہ کے مرتد ہونے کی خبر دی ۔ اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی جانب دوبارہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو بھیجا۔ تحقیق کے بعد اس خبر کا جھوٹا ہونا ثابت ہوا اور  یہ آیت نازل ہوئی ۔
ایک تعجب خیز امر:
 علامہ محب الدین خطیب لکھتے ہیں : مجھے بڑا تعجب ہوتا تھا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ یہ آیت ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہو ، اﷲ تعالیٰ انھیں فاسق قرار دے، اس کے باوجود رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں خلیفہ ابوبکر وعمر رضی اﷲ عنہما کے دلوں میں ان کا یہ مقام ہو جو تاریخ نے ان کے سلسلہ میں نوٹ کیا ہے اور جس کی مثالیں اوپر گذر چکی ہیں ۔
            یہ تناقض وتضاد ۔۔۔۔ جو ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ  کے سلسلہ میں ابوبکر وعمر رضی اﷲ عنہما کے پائے جانے والے اعتماد اور ان کے ساتھ جو معاملہ ہونا چاہئے اگر اﷲ تعالیٰ انھیں فاسق کہتا، کے درمیان ہے ۔۔۔۔۔ میرے لئے شک کا باعث ہوا۔ بات یہ نہیں کہ ولید رضی اللہ عنہ کے لئے کسی ایسے عمل کی انجام دہی مستبعد ہے جس سے ان کا فاسقوں میں شمار ہو بلکہ مستبعد اور محال یہ ہے کہ ایک شخص کو اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں صریح طور پر فاسق کہے اور پھر وہ ایسے دو شخصوں کی نظر میں قابل اعتماد ہو جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اﷲ کے سب سے مقرب ترین بندے ہیں اور اﷲ کے اولیاء میں ان سے بڑھ کر اﷲ سے کوئی قریب نہیں ۔
روایات کا علمی جائزہ:
            جب میرے دل میں یہ شک پیدا ہوا تو میں نے مذکورہ آیت کے سبب نزول کے سلسلہ میں وارد تمام روایات کا جائزہ لینا شروع کیا۔ جب میں نے ان کی علمی تحقیق کی تو میں نے پایا کہ یہ ساری روایات مجاہد یا قتادہ یا ابن ابی لیلیٰ یا یزید بن رومان پر موقوف ہیں اور کسی نے ان راویوں کا ذکر نہیں کیا ہے جو وقت حادثہ سے لے کر ان کے زمانے تک اس خبر کو نقل کرتے رہے ہیں اور یہ درمیانی مدت کم وبیش سو سال کی ہے نیز یہ سو سال مختلف مسلک ومشرب کے راویوں سے بھرے پڑے ہیں۔ ان میں ایسے بھی لوگ ہیں جنھوں نے ولید رضی اللہ عنہ  تو درکنار ان سے بھی عظیم مقام رکھنے والے صحابہ کو بدنام کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا ہے۔ دنیا کو ایسی شک وشبہ پیدا کرنے والی خبروں سے بھر دیا ہے جن کی کوئی علمی قیمت نہیں اور جب مذکورہ آیت کے سبب نزول میں وارد خبروں کا حال یہ ہے کہ جن پر موقوف ہیں ان کے بعد کے راوی علمائے جرح وتعدیل کی نظروں میں مجہول ہیں بلکہ علمائے جرح وتعدیل کو یہ بھی معلوم نہیں کہ ان کا نام کیا ہے ، ایسی صورت حال میں ایسی منقطع اور غیر موصول خبروں کی صحت کا فیصلہ کسی طور پر جائز نہیں۔ نہ ہی شرعی طور پر اور نہ ہی تاریخی طور پر ۔ ہاں دو روایتیں موصول پائی جاتی ہیں([3])۔   ایک ام سلمہ کی روایت ہے جس میں ایک راوی موسی بن عبیدہ ہیں جن کا گمان ہے کہ انھوں نے ثابت مولیٰ ام سلمہ سے سنا ہے جو ام سلمہ سے روایت کرتے ہیں ۔ اور یہ موسی بن عبیدہ وہ ہیں جن کو امام نسائی ، ابن مدینی ، ابن عدی، اور علمائے جرح وتعدیل کی ایک جماعت نے ضعیف قرار دیا ہے اور ثابت جن کے متعلق یہ دعوی کیا گیا ہے کہ وہ ام سلمہ کے غلام ہیں ان کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ میں نے جتنی کتابوں کا مراجعہ کیا کہیں نہیں ملا۔ نہ تہذیب التہذیب میں ، نہ تقریب التہذیب میں ، نہ خلاصۂ تہذیب الکمال میں اور نہ ہی میزان الاعتدال اور لسان المیزان میں جو تقریباً تمام متہم راویوں کے موسوعہ (انسائیکلوپیڈیا) کی حیثیت رکھتا ہے ۔ نیز میں نے مسند احمد میں مذکور ام سلمہ رضی اﷲ عنہا کے مجموعۂ احادیث کو ایک ایک کرکے پڑھ ڈالا مجھے یہ روایت نہیں ملی بلکہ ایسی کوئی بھی روایت نہیں ملی جس میں ام سلمہ کے ثابت نامی کسی غلام کا ذکر ہو۔ اس پر مستزاد یہ کہ ام سلہ رضی اﷲ عنہا نے اس خبر میں یہ نہیں کہا ہے کہ آیت ولید رضی اﷲ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی بلکہ یہ کہا ہے کہ ''بنومصطلق کے صدقات کی وصولی کے لئے اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی بھیجا'' یہ جواب اس صورت میں ہے جب ہم اس خبر کو صحیح فرض کرلیں باوجودیکہ اس کو صحیح ماننے کی کوئی سبیل نہیں ۔
            دوسری موصول خبر وہ ہے جس کو طبری نے اپنی تفسیر میں روایت کیا ہے۔ اس کی سند یوں ہے : عن ابن سعد عن أبیہ عن عمہ عن أبیہ عن أبیہ عن ابن عباس ۔
             اس سند میں طبری ابن سعد سے روایت کررہے ہیں حالانکہ طبری کی ابن سعد سے سماع ثابت نہیں ہے۔ نہ ہی ملاقات ثابت ہے۔ کیونکہ جب ٢٣٠ھ میں بغداد میں ابن سعد کی وفات ہوئی اس وقت طبری چھ سال کے بچے تھے۔ ابھی اپنے شہر آمل سے جو طبرستان کا ایک علاقہ ہے نہیں نکلے تھے۔ نہ بغداد کے لئے اور نہ کہیں اور کے لئے ۔ رہے ابن سعد تو اگر چہ وہ بذات خود ثقہ اور جلیل القدر عالم ہیں مگر ان کے بعد کے راویوں کا جو سلسلہ ہے ان کا نام تک علمائے جرح وتعدیل کو نہیں معلوم چہ جائیکہ ان کے کچھ حالات معلوم ہوں۔ ایسے مجہول راویوں کی روایت بھلا کب اور کیونکر مقبول ہوسکتی ہے؟ !!
            ان تمام روایات کی حالت شروع سے اخیر تک آپ نے دیکھ لی، ان کے ذریعہ بھلا کب اور کیونکر جائز ہوسکتا ہے کہ ایک ایسے مجاہد کا مواخذہ ہو جو ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کے نزدیک قابل اعتماد ولائق بھروسہ تھا اور اس کی ذات پر حرف آئے جس نے اسلام کی ایسی خدمات انجام دی ہیں جن کی بدولت اﷲ کے انعام یافتہ صالح بندوں میں ان کا شمار ہوگا ان شاء اﷲ ۔
قصہ کے بطلان کی ایک اور وجہ:
            سابقہ تمام باتوں کے ساتھ یہ بھی ذہن نشین رہے کہ جب بنومصطلق کا حادثہ ہوا ہے جس میں آیت کا نزول ہے اس وقت ولید رضی اﷲ عنہ  ایک کمسن بچے تھے۔
             مسند احمد (٤/٣٢) کی روایت ہے کہ فتح مکہ کے دن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ولید رضی اﷲ عنہ  کو تمام دیگر بچوں کے ساتھ لایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولید رضی اﷲ عنہ کے سوا تمام بچوں کے سروں پر ہاتھ پھیرا اور برکت کی دعا کی ۔ ولید رضی اﷲ عنہ کا کہنا ہے کہ میرے سر پر خلوق([4]) ملا ہوا تھا اس لئے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اسے چھونے سے باز رہے۔
            اس حدیث کو امام احمد نے اپنے شیخ فیاض بن محمد الرقی سے انھوں نے جعفر بن برقان الرقی سے ، انھوں نے ثابت بن حجاج الکلابی الرقی سے ، انھوں نے عبداﷲ بن مالک بن حارث الہمدانی سے اور انھوں نے ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے ۔ اس سند سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ولید رضی اللہ عنہ نے اس حدیث کو اپنی زندگی کے آخری ایام میں بیان کیا ہے جب کہ وہ لوگوں سے کنارہ کش ہوکر رقہ کے ایک دیہات میں اقامت گزیں تھے([5])۔ چنانچہ اس خبر کے تمام راوی رقہ ہی کے لوگ ہیں۔ عبد اﷲ ہمدانی جو ولید رضی اللہ عنہ سے روایت کررہے ہیں ثقہ ہیں۔ لیکن دوسری روایت میں ان میں اور ایک دوسرے ہمدانی میں التباس ہوگیا ہے جس کا نام مالک بن حارث یعنی عبد اﷲ ہمدانی کے والد کے نام پر ہے اور کنیت ابوموسی ہے۔ وہ شخص علمائے جرح وتعدیل کے نزدیک مجہول ہے ۔ مگر عبد اﷲ الہمدانی جن تک امام احمد کی روایت کردہ اس خبر کی سند پہنچتی ہے وہ معروف اور ثقہ ہیں ۔ انھیں اور ان جیسوں کی روایت پر اعتماد کرتے ہوئے قاضی ابن العربی رحمہ اﷲ نے فیصلہ کیا ہے کہ ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ فتح مکہ کے وقت ایک کمسن بچے تھے اور آیت "إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ" کسی دوسرے شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔
            مگر کیسی عجیب بات ہے کہ ان لوگوں نے جن کے دلوں میں اس نوجوان مجاہد، پاک طینت اور نیک سیرت صحابی کو بدنام کرنے کی خواہش ہے کم سنی کی اس خبر کو ایک دوسری خبر کے ذریعے غلط ٹھہرانے کی کوشش کی ہے جس میں اس بات کا بیان ہے کہ یہ سنہ ٧ھ میں اپنے بھائی عمارہ کے ساتھ مدینہ اس واسطے گئے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی بہن ام کلثوم کی مکہ واپسی کا مطالبہ کریں اور اس خبر کی حقیقت یہ ہے ۔۔اگر اس کو صحیح فرض کرلیا جائے۔۔ کہ اس میں عمارہ کا نام ولید رضی اللہ عنہ کے نام پر مقدم ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سفر میں عمارہ ہی اصل تھے اور ولید رضی اللہ عنہ ان کی رفاقت میں گئے ہوئے تھے ۔ بتائیے کہ کمسنی کی حالت میں بڑے بھائی کے ساتھ سفر کرنے میں کونسی رکاوٹ ہے ؟ ایسا تو ہرجگہ اور ہر زمانے میں ہوتا ہے ۔
            چنانچہ ثابت ہوگیا کہ ان دونوں خبروں یعنی فتح مکہ کے سال ولید رضی اللہ عنہ کی کمسنی اورسنہ ٧ھ میں ان کے مدینہ کے سفر کے درمیان کوئی تناقض اور اختلاف نہیں ہے ۔
            جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ آیت "إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ" کے سبب نزول میں ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں جتنی روایات پائی جاتی ہیں ان کی حالت ایسی ہے کہ ان کی بنیاد پر کسی شرعی یا تاریخی حکم کی بنا رکھنا علمی طور سے جائز نہیں ہے۔ مزید برآں فتح مکہ کے سال ولید رضی اللہ عنہ کی عمر کے بارے میں مسند احمد کی حدیث اس کی مخالف ہے۔ مذکورہ حقائق سے صاف واضح ہوگیا کہ ولید رضی اللہ عنہ کو ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کیونکر قابل اعتماد سمجھتے تھے اور کیسے انھیں گورنر متعین کیا تھا۔
انکشاف حق:
             اب وقت آچکا ہے کہ شر پسندوں کے مکر وفریب اور جھوٹوں کے کذب وافترا اور دروغ گوئی کا پردہ چاک کیا جائے کیونکہ حق منکشف ہوچکا ہے ۔ رہی یہ بات کہ اس کے انکشاف پر چودہ صدیاں گذر گئیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ حق قدیم ہے اور اس پر پردہ پڑے رہنے سے اس کی قدامت متاثر نہیں ہوتی ۔
            سچی بات یہ ہے جو ببانگ دہل اور بے دریغ کہنی چاہئے کہ اگر ولید رضی اللہ عنہ  یورپی تاریخ کا کوئی فرد ہوتے جیسے لویس ٩ ([6]) ہے جسے ہم نے مقام منصورہ پر دار ابن لقمان میں قید کردیا تھا تو وہ لوگ اسے قِدِّیس (اﷲ کا عظیم ترین محبوب بندہ) شمار کرتے ، حالانکہ لویس کا فرانس پر وہ احسان نہیں جو ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کا اپنی امت پر احسان ہے۔ نصرانیت کے لئے اس کی وہ فتوحات نہیں جتنی ولید رضی اللہ عنہ کی اسلام کے لئے ہیں ۔
            کیسی عجیب ہے وہ امت جو اپنے بہادر فاتحین(Heroes) کی تنقیص اور ناقدری کرتی ہے!۔ اپنے ہاتھوں اپنی تاریخ کی صورت بگاڑتی ہے اور اپنی عظمت ورفعت کی عمارت منہدم کرتی ہے ۔ ہم میں سے بہت سے شرپسند آج یہی کچھ کررہے ہیں اور پھر ان شر پسندوں کے مکر وفریب کا اتنا پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ بہت سے نیک دل بھی اسے ہی حق سمجھنے لگتے ہیں۔
کوفہ کی گورنری اور عوام کے ساتھ حسن سلوک:
            ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ جب سے امیر المؤمنین عثمان رضی اللہ عنہ کی جانب سے کوفہ کے گورنر مقرر ہوئے انھوں نے اس بات کی کوشش کی کہ وہ عدل وانصاف اور سیرت وشرافت میں ، لوگوں کے ساتھ معاملات اور سلوک وبرتاؤ میں ایک مثالی حاکم ثابت ہوں جیسا کہ وہ اپنی معرکہ آرائیوں اور جہاد میں ایک ماہر جنگجو اور اسلام کی خدمات میں ایک مثالی قائد تھے جس طرح ایک اسلام کا پرچم بلند کرنے والے ، اس کے پیغام کو عام کرنے والے اور اس کی جانب سے دفاع کرنے والے کے شایان شان ہوتا ہے ۔ وہ پانچ برس تک کوفہ کے گورنر رہے اور اس پوری مدت میں ان کے گھر کی حالت یہ تھی کہ نہ اس میں دروازہ تھا اور نہ کوئی دربان تھا۔ اپنے اور پرائے ، پہچانے اور انجانے کسی کے لئے کوئی رکاوٹ نہ تھی۔ ہر کس وناکس کو ہمہ وقت ملنے کی اجازت تھی اور ولید رضی اللہ عنہ کو لوگوں سے چھپنے کی ضرورت بھی کیا تھی کہ پردے تو برائیوں کے لئے درکار ہوتے ہیں۔
فالستر دون الفاحشات ولا یلقاک دون الخیر من ستر
            درپردہ برائیاں انجام دی جاتی ہیں جن کی پردہ دری کا اندیشہ ہوتا ہے مگر نیکیوں اور بھلائی کے کاموں کو کسی حجاب کی ضرورت نہیں ہوتی۔
            ولید رضی اللہ عنہ نے مسافروں کے لئے ضیافت خانے تعمیر کئے۔ لوگوں میں خوشحالی اور فارغ البالی پیدا کرنے کے تمام جتن کئے۔ بچوں اور غلاموں کا وظیفہ مقرر کیا۔ غلاموں کو ہرماہ اتنا فاضل مال دیتے کہ رفتہ رفتہ ان میں فراخی آجاتی نیز ان کے آقاؤں کو مطلوبہ مال سے کم وصولی کا حکم بھی نہ تھا کہ آقاؤں پر ظلم ہوتا۔
            ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ لوگ اس نیک دل امیر کے گرویدہ ہوتے۔ اس سے محبت کرتے چنانچہ تھا بھی ایسا کہ عوام کی اکثریت اس مثالی امیر سے محبت کرتی تھی اور اس کی حکومت کی پوری مدت میں لوگوں کا دل اس سے خوش تھا۔ مگر شرپسندوں اور فساد پروروں کا ایک گروہ ایسا تھا جنھوں نے ولید رضی اللہ عنہ کی ایذا رسانی کے لئے اپنی زندگی وقف کررکھی تھی اور سدا ان کو ضرر پہنچانے کے لئے گھات میں لگے رہتے تھے ۔ وجہ یہ تھی کہ ان کی مجرمانہ پشت پر ولید رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں شریعت کا کوڑا برس چکا تھا۔
            ان میں سے ایک کا نام ابوزینب بن عوف الازدی تھا۔ دوسرے کا نام ابومورع اور تیسرے کا نام جندب ابو زہیر تھا۔ قصہ یہ ہے کہ ان کے بیٹوں کو حکومت نے گرفتار کرکے سزادی تھی۔ ان کا جرم یہ تھا کہ انھوں نے ایک رات ابن حیسمان کے گھر میں نقب زنی کی اور انھیں قتل کرڈالا۔ اتفاق کی بات کہ ان کے پڑوس میں ایک صحابی مہمان تھے جو اپنے بیٹے کے ساتھ مدینہ سے کوفہ ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کے اس لشکر میں شامل ہونے کی غرض سے تشریف لائے تھے جو اسلامی دعوت پھیلانے اور اسلامی فتوحات کو وسعت دینے کے لئے مشرق کی جانب بڑھ رہاتھا ۔
             اس تاریک رات میں جب ان شر پسندوں نے ابن حیسمان کے گھر پر حملہ کیا، یہ صحابی اپنے بیٹے کے ساتھ وہاں موجود تھے ۔ چنانچہ انھوں نے اور ان کے بیٹے نے ان مجرم قاتلوں کے خلاف گواہی دی اور ولید رضی اللہ عنہ نے مقام رحبہ میں باب القصر کے سامنے ان پر شریعت کا حکم نافذ کیا۔ اس کے بعد ان مجرموں کے باپوں نے اپنے دلوں میں یہ شیطانی عہد ٹھان لیا کہ اس امیر کے خلاف وہ ضرور کوئی چال چلیں گے اور کسی فریب سے اسے ضرور اذیت پہنچائیں گے۔ چنانچہ ان کے خلاف اپنے ایجنٹ پھیلادئیے جو ولید رضی اللہ عنہ کی ایک ایک حرکت پر نظر رکھتے اور ان کی مکمل نگرانی کرتے تھے۔ 
            ہم گذشتہ صفحات میں بیان کر چکے ہیں کہ ولید رضی اللہ عنہ  کا گھر ہر کس وناکس کے لئے ہمہ وقت کھلا رہتا تھا۔
شراب کی کہانی اور اس کی حقیقت:
            ایک دن کا واقعہ ہے کہ ولید رضی اللہ عنہ کے گھر میں شمال کا ایک نصرانی شاعر مہمان تھا ۔ سرزمین جزیرہ سے تعلق رکھتا تھا۔ اس نے بعد میں ولید رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا ۔ مذکورہ شرپسندوں کے بدبخت جاسوسوں نے یہ سمجھا کہ یہ نصرانی شاعر ضرور شراب پیتا ہوگااور شاید ولید رضی اللہ عنہ شراب سے اس کی ضیافت بھی کریں ۔ لہٰذا انھوں نے ابوالمورع، ابو زینب اور ان کے ساتھیوں کو بلایا اور وہ سب یک بیک مسجد کے کنارے سے ولید رضی اللہ عنہ کے گھر میں گھس پڑے۔ ان کے گھر میں نہ دروازہ تھا اور نہ کسی کے لئے اندر آنے کی رکاوٹ تھی جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے۔ جب اچانک ان لوگوں کا سامنا ہوا تو انھوں نے کوئی چیز ان کی نظروں سے ہٹا کر چارپائی کے نیچے ڈال دی ۔ ان میں سے کسی نے ولید رضی اللہ عنہ کی اجازت کے بغیر اس کو وہاں سے نکال لیا۔ وہ ایک طشت تھا جس میں انگور کے چند دانے پڑے تھے۔ ولید رضی اللہ عنہ نے شرم کے مارے اسے ہٹا دیا تھا تاکہ لوگوں کو یہ معلوم نہ ہو کہ ایک سادہ پلیٹ ہے جس میں انگور کے چند دانوں کے سوا کچھ نہیں ۔
            جب ان دشمنوں نے دیکھا تو مارے شرم کے پانی پانی ہوگئے اور آپس میں ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے اور جب یہ حکایت لوگوں کے کانوں تک پہنچی تو انھوں نے بھی سب وشتم اور لعن طعن کی ۔ لیکن ولید رضی اللہ عنہ نے اس معاملہ کو نظر انداز کردیا اور چشم پوشی کرتے ہوئے عثمان رضی اللہ عنہ کو اس کی اطلاع نہ دی۔ خاموش رہے اور صبر کیا مگر جندب اور ابومورع بار بار اپنی چالیں دہراتے رہے۔ وہ کوئی ایسا موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے جس کی صورت بگاڑ کر اور اپنی طرف سے جھوٹ ملا کر ولید رضی اللہ عنہ کو بدنام کیا جاسکے۔
            ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ ولید رضی اللہ عنہ نے حکومت کے چند عہدیداروں کو ان کی بدکرداری کی وجہ سے ان کے مناصب سے معزول کردیا تھا ۔ ان لوگوں نے مدینہ کا رخت سفر باندھا۔ امیر المؤمنین عثمان رضی اللہ عنہ سے ولید رضی اللہ عنہ  کی شکایت کی اور کوفہ سے ان کی معزولی کا مطالبہ کیا۔ دوسری طرف جب کہ یہ لوگ مدینہ میں تھے، ابوزینب اور ابومورع لوگوں کی بھیڑ میں کوفہ کی دار الامارت میں داخل ہوئے اور وہاں اتنی دیر تک ٹھہرے رہے کہ ولید رضی اللہ عنہ وہاں سے ہٹ کر آرام کرنے لگے ۔ بقیہ لوگ نکل گئے لیکن ابوزینب اور ابو مورع رکے رہے اور پھر ولید رضی اللہ عنہ کے گھر سے ان کی انگوٹھی چرائی اور نکل آئے ۔
            ولید رضی اللہ عنہ جب بیدار ہوئے اور اپنی انگوٹھی نہیں پائی تو اپنی بیویوں سے پوچھا جو پردے کی آڑ سے ولید رضی اللہ عنہ کے زائرین کو دیکھا کرتی تھیں۔ انھوں نے بتایاکہ آخر میں دو شخص بچے تھے جن کا حلیہ ایسا اور ایسا تھا اور جن کی یہ اور یہ صفت تھی ۔ ولید رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوگیا کہ وہ ابو زینب اور ابو مورع ہی ہیں اور یہ بھی معلوم ہوگیا کہ انھوں نے انگوٹھی یوں ہی نہیں چرائی ہے بلکہ اس کے پیچھے کوئی بدترین سازش ہے جس کی راتوں رات انھوں نے تدبیر کی ہے۔ چنانچہ ان کی تلاش میں آدمی بھیجے مگر وہ کوفہ میں نہ مل سکے۔ وہ دونوں فوراً مدینہ کی جانب کوچ کرچکے تھے۔ ان دونوں نے ولید رضی اللہ عنہ کے خلاف دو جھوٹے گواہ پیش کئے کہ انھوں نے شراب پی ہے ۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے گواہوں سے پوچھا : تم نے کیا دیکھا ؟ انھوں نے کہا : ہم ان سے ملاقات کو آئے تھے جب گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ شراب قے کررہے تھے ۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا شراب کی قے وہی کرے گا جس نے شراب پی ہو۔ ولید رضی اللہ عنہ کو کوفہ سے بلایا گیا۔ انھوں نے عثمان رضی اللہ عنہ سے قسم کھاکر ساری خبر اور اس کی تفصیلات بتائی تو عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا : ''ہم حد لگائیں گے اور جھوٹے گواہ  جہنم میں جائیں گے۔''
            یہ وہ قصہ ہے جس کے ذریعہ ولید رضی اللہ عنہ پر شراپ پینے کی تہمت لگائی جاتی ہے۔ جیسا کہ تاریخ طبری میں ٣٠ھ کے حوادث میں مذکور ہے ۔ اس میں اس کے سوا کچھ اور نہیں ہے جب کہ اس کے مصادر متعدد ہیں ۔ طبری کے اندر اس خبر کے عناصر کچھ اس طرح ہیں :
            ایک یہ کہ ولید رضی اللہ عنہ کے خلاف دونوں گواہ ان کینہ پروروں اور بغض رکھنے والوں میں سے تھے جن کی خیانت اور حقد کی شہادت بار بار مل چکی تھی۔ نیز گواہی میں صلاة کا ذکر اصلاً موجود ہی نہیں ہے چہ جائیکہ دو یا چار رکعت کا ذکر ہو۔
             اس واقعہ میں صلاة کی زیادتی کا معاملہ بھی عجیب ہے ۔ یہ خبر حضین بن منذر سے منقول ہے کہ جس وقت عثمان رضی اللہ عنہ نے ولید رضی اللہ عنہ پر حد لگائی یہ علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کے پاس تھے ۔ امام مسلم نے اسے اپنی صحیح میں ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے :  شَهِدْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ وَأُتِيَ بِالْوَلِيدِ قَدْ صَلَّى الصُّبْحَ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ قَالَ: أَزِيدُكُمْ، فَشَهِدَ عَلَيْهِ رَجُلَانِ أَحَدُهُمَا حُمْرَانُ أَنَّهُ شَرِبَ الْخَمْرَ، وَشَهِدَ آخَرُ أَنَّهُ رَآهُ يَتَقَيَّأُ([7]).
            چنانچہ روایت میں یہ بات نہیں ہے کہ گواہوں نے اس بات کی گواہی دی ہو کہ ولید رضی اللہ عنہ نے صبح کی نماز دورکعت پڑھائی پھر کہا: کیا اور پڑھاؤں؟ بلکہ ایک نے شراب پینے کی گواہی دی اور دوسرے نے قے کرنے کی ۔ رہی بات دو رکعت صلاة صبح اور کلمۂ( أزیدکم) کی تو یہ حضین کا کلام ہے اور یہ شاہد نہیں تھے اور نہ ہی مزعومہ حادثہ کے وقت کوفہ میں تھے ۔ پھر اس معروف انسان پر تہمت کے اس عنصر کی انھوں نے سند نہیں بیان کی ہے اور تعجب کی بات ہے کہ صحیح مسلم کی یہی روایت حضین ہی سے مروی ہوکر مسند احمد میں تین جگہ وارد ہے اور حضین سے صحیح مسلم میں جس نے روایت کی ہے مسند احمد کی تینوں روایتوں میں اسی نے روایت کی ہے ۔ پہلی اور دوسری روایت میں صلاة کا ذکر نہیں (١/٨٢،١٤٠،ط۔١، ٢/٢٦٤،١١٨٤،ط۔٢) شاید ان کے بعد کسی راوی نے یہ محسوس کیا کہ صلاة کی بات گواہوں کی بات نہیں۔ اس لئے اس نے حد لگائے جانے کے ذکر پر اکتفا کیا۔ مسند احمد کی تیسری روایت (١/١٤٤،١٤٥،ط ۔١، ٢/١٢٢٩ ،ط۔٢)میں حضین کی زبانی یہ مذکور ہے کہ ولید رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو صبح کی صلاة چار رکعت پڑھائی اور یہ چیز خود حضین کی زبانی آئی ہوئی صحیح مسلم کی روایت کے خلاف ہے لہٰذا کسی ایک روایت میں تحریف ہے جس کا سبب اﷲ ہی کو معلوم ہے ۔ دونوں حالتوں میں صلاة کا ذکر حضین نے کیا ہے اور یہ خود شاہد نہیں ہیں ، نہ ہی انھوں نے کسی شاہد سے روایت کی ہے لہٰذا ان کی بات کے اس حصہ کا کوئی اعتبار نہیں۔
            اس حادثہ کے سلسلہ میں کینہ پروروں کی سازش کے بارے میں طبری کے حوالہ سے آپ تفصیلات جان چکے ہیں۔ اب ذرا حمران کے بارے میں معلوم کرتے چلیں ۔
             حمران عثمان رضی اللہ عنہ کا غلام تھا۔ ولید رضی اللہ عنہ کے خلاف گواہی دینے سے قبل ہی اس نے اﷲ تعالیٰ کی ایک معصیت کا ارتکاب کیا تھا اور وہ یہ کہ مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک مطلقہ عورت سے اس کے پہلے شوہر کی عدت مکمل ہونے سے قبل نکاح کیا اور دخول بھی کیا۔ عثمان رضی اللہ عنہ اس وجہ سے نیز دیگر سابقہ امور کی بنا پر اس پر بہت ناراض ہوئے، اس کو اپنے یہاں سے بھگادیا نیز مدینہ شہر سے بھی نکال  باہر کیا۔ چنانچہ یہ کوفہ آگیا اور وہاں فساد پھیلانا شروع کردیا ۔ عامر بن قیس جیسے عابد وزاہد شخص کے خلاف افراد حکومت کو بھڑکایااور ان پر جھوٹا الزام لگایاجس کی وجہ سے انھیں ملک شام بھیج دیا گیا۔
            میں اس گواہ اور اس سے پہلے مذکور دونوں گواہوں کا معاملہ قاری کے ضمیر پر چھوڑتا ہوں۔ وہ ان کے بارے میں جو چاہے فیصلہ کرے۔ میرا اپنا خیال تو یہ ہے کہ ان جیسے گواہوں کی بنا پر کسی متہم بازاری شخص اور بدنام چرواہے پر بھی حد نہیں لگائی جائے گی چہ جائیکہ ایک مجاہد صحابی پر جس کے ہاتھ میں خلیفۂ وقت نے اسلامی مملکت کے ایک حصہ کی امانت اور لشکروں کی قیادت دے رکھی ہو۔وہ اﷲ کی امانتوں کا سچا نگہبان اور لوگوں میں اپنی حسن سیرت میں معروف ہو ۔ اسلام کے تینوں سب سے کا مل اور عظیم خلفاء راشدین ابوبکر وعمر وعثمان رضی اللہ عنہم اجمعین کے نزدیک قابل اعتماد رہ چکا ہو ۔
            اور جہاں تک عثمان رضی اللہ عنہ سے ولید رضی اللہ عنہ  کی قرابت کا تعلق ہے جس کے بارے میں اہل دروغ کا خیال ہے کہ یہی ان کی محبت کا سبب تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی ان کی معزولی اور ان پر شدت کا سبب تھا تاکہ یہ نہ کہا جاسکے کہ عثمان رضی اللہ عنہ اپنے قرابت داروں کے سلسلہ میں ہوا پرست واقع ہوئے ہیں ۔
            ولید رضی اللہ عنہ کے خلاف گواہی دینے والوں کی حالت اور ان کی ناخدا ترسی آپ دیکھ چکے۔ اب ولید رضی اللہ عنہ کے حق میں گواہی دینے والے کی حالت اور اس کا بیان سنئے ۔
            تاریخ اسلامی کے عظیم ترین قاضی جو اپنے علم وفضل اور عدل وانصاف میں شہرت رکھتے ہیں ، میری مراد عامر بن شراحیل الشعبی سے ہے۔ طبری کی روایت ہے (٥/٦٠) کہ جب انھوں نے مسلمہ بن عبدالملک کی بہادری کے آغاز میں ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کے پوتے سے مسلمہ کے جہاد کی داستان سنی تو فرمایا: اس وقت تمھارا کیا حال ہوتا اگر تم نے ولید رضی اللہ عنہ کی جنگوں اور ان کی امارت کو پایا ہوتا ! وہ جنگ کرتے ہوئے وہاں اور وہاں تک پہنچ گئے تھے ۔۔۔ کوئی کوتاہی نہ کی ، نہ ہی کسی نے ان کی مخالفت کی حتی کہ معزول کردیئے گئے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ولید رضی اللہ عنہ کے لشکر کے عظیم قائد عبد الرحمن الباہلی روس میں بحر خزر کے آگے دربند کے دروازوں پر دستک دے رہے تھے جو اس وقت دنیا کا مضبوط ترین قلعہ تھا۔ نیز عثمان رضی اللہ عنہ نے ولید رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں یہ بھی کیا تھا کہ کوفہ کے ہرغلام کو زائد مال کا تیسرا حصہ دیا کرتے تھے تاکہ ان میں فراخی آئے بغیر اس کے کہ ان کے آقا ان سے طلبی میں کچھ کمی کریں ۔
            یہ ولید رضی اللہ عنہ کے حق میں امام شعبی رحمہ اﷲ کی شہادت ہے۔ ان کی کامیاب جنگ وجہادکے سلسلہ میں بھی اور اپنی رعایا کی فراخی اور کشادہ حالی کے لئے احسان کرنے میں بھی۔ جس سے باطل پرستوں کی آنکھیں پھوٹتی ہیں اور نیک دل بندوں کی آنکھوں کو ٹھنڈک نصیب ہوتی ہے۔عثمان رضی اللہ عنہ نے  اپنے مظلوم بھائی سے مخاطب ہوکر سچ ہی فرمایا تھا  : '' ہم حد لگائیں گے اور جھوٹے گواہ جہنم میں جائیں گے۔''
رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ.
چند اشعار اور ان کی غیر معقولیت :
            ہم دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ جو شریفوں کی عزت سے کھیلتے ہیں ان چھ ابیات کو بھی پیش کرتے ہیں جو بیہودہ اور خسیس النفس ابوالفرج اصفہانی کی طرف منسوب ہیں اور اس کے دیوان الاغانی کے صفحہ ٨٥ پر مذکور ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ جن کوادبی تنقید کا سلیقہ نہیں ان کو  ان ابیات کے تعارض واختلاف کا شعور نہیں   ہوتا۔ملاحظہ ہو:
ورأوا شمائل ماجد أنف
یعطی علی المیسور والیسر
فنزعت مکذوبا علیک ولم
تردد الی عوز ولا فقر
            لوگوں نے اس غیور صاحب مجد کو دیکھا جو تنگی وتونگری ہر حال میں دیتا ہے ۔ میں نے تجھ پر بہتان باندھا مگر اس کے باوجود تونے مجھے فقر ومحتاجی کے حوالہ نہیں کیا۔
             کہاں ان ابیات میں ولید رضی اللہ عنہ کی مدح اور کہاں بقیہ ابیات؟! جن میں سے ایک یہ بھی ہے :
نادی وقد تمت صلاتہم
أأزیدکم ثملا ومایدری
            (اس نے صلاة مکمل کرکے کہا: ''کیا اور پڑھاؤں؟'' وہ شراب سے مدہوش تھا ، اسے کچھ شعور نہ تھا) ۔
            یہ انتہائی غیر معقول ہے کہ جس شخص نے آخری مصرعہ کہا ہو پہلے دونوں مصرعے بھی اسی کی زبان سے نکلے ہوں اور اس نے ایک ہی قطعہ میں جو چھ مصرعوں سے زیادہ نہیں مدح بھی کی ہو اور ہجو بھی۔ تعریف بھی کی ہو اور مذمت بھی ۔ تخلیط فی الشعر کے سلسلہ میں میرا (علامہ محب الدین خطیب رحمہ اﷲ کا) ایک طویل مقالہ ہے جس میں میں نے بہت سی ایسی مثالیں پیش کی ہیں کہ کس طرح ایک شاعر کے قصیدے میں دوسرے شاعر کی عجیب وغریب ابیات کو داخل کردیا گیا ہے اور دونوں کا وزن اور روی ایک ہے۔ بہر حال مقصود یہ ہے کہ صلاة کی یہ کہانی بھی ثابت نہیں ہے اور عثمان رضی اللہ عنہ کے سامنے گواہوں نے اس کہانی کا دعوی نہیں کیا باوجودیکہ انھیں اﷲ یا روز آخرت کا کوئی خوف نہ تھا ۔
خاتمہ:
یہ ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں مختصر گذارشات تھیں جنھیں افادۂ عامہ کی خاطر حوالۂ قرطاس کردیا گیا ہے۔ کھلے دل ودماغ کے لئے اتنی باتیں کافی ہیں۔ اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق کی بصیرت عطا فرمائے اور صراط مستقیم پر گامزن رکھے۔ آمین         
            ١/١١/١٩٩٢ء

فہرست مضامین
المحتويات
صفحہ
موضوعات
التمهيد

تمہید
التعريف بالصحابي

صحابی کا تعارف
تحقيق المرويات

روایات کا علمی جائزہ
سبب آخر لبطلان القصة

قصہ کے بطلان کی ایک اور وجہ
ولايته على الكوفة
وإحسانه إلى الرعية

کوفہ کی گورنری
اور عوام کے ساتھ حسن سلوک
قصة شرب الخمر
وحقيقتها

شراب کی کہانی
اور اس کی حقیقت
الخاتمة

خاتمہ




([1]) ولید رضی اللہ عنہ  کانسب نامہ اس طرح ہے : ولید بن عقبہ بن ابی معیط بن ابی عمرو بن امیہ بن عبد شمس بن عبدمناف القرشی الاموی ۔ کنیت ابو وہب ہے ۔ عثمان رضی اللہ عنہ کے ماں جائی بھائی ہوتے ہیں۔ آپ دونوں کی ماں کا نام اروی بنت کریز ہے ۔ ولید رضی اللہ عنہ تین بھائی تھے۔ یہ ، عمارہ اور خالد۔ تینوں فتح مکہ کے موقع پر اسلام لائے ۔
                تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو : اصابہ٦/٣٢١، اسد الغابہ٥/٩٠، استیعاب ٤/١٥٥٢،  طبقات ابن سعد ٧/٤٧٦، سیر اعلام النبلاء ٣/٤١٢۔
([2]) الجزیرہ دریائے دجلہ وفرات کے درمیان ایک شہر تھا جہاں مضر اور ربیعہ کی بستیاں آباد تھیں۔ دودریاؤں کے درمیان واقع ہونے کی بنا پر اس کا نام الجزیرة پڑگیا ۔ (معجم البلدان٣/٩٦، المسالک والممالک ص٥٠)
([3]) بلکہ پانچ روایتیں موصول پائی جاتی ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
                أ۔ مسند احمد(٤/٢٧٩) کی روایت ہے : حدثنا محمد بن سابق حدثنا عیسی بن دینار حدثنا أبی أنہ سمع الحارث بن ضرار الخزاعی قال قدمت علی رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔۔ الحدیث
                اس سند میں عیسی بن دینار اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں جو کتب رجال میں دینار الکوفی کے نام سے پائے جاتے ہیں ۔ امام بخاری ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ عمرو بن حارث بن مصطلق الخزاعی کے غلام تھے اور ان سے روایت کرتے ہیں (التاریخ الکبیر ٣/٢٤٧) یعنی حارث بن ضرار سے ان کی روایت کا ذکر امام بخاری نے نہیں کیا ہے ۔یہی بات امام ابو حاتم بھی فرماتے ہیں البتہ ان پر اضافہ کرتے ہوئے ان کے بیٹے نے حارث بن ضرار کی روایت کا تذکرہ کیا ہے (الجرح والتعدیل ٣/٤٣٤) یہاں یہ بات قابل لحاظ ہے کہ راوی مذکور دینار الکوفی کی توثیق وتضعیف کے بارے میں دونوں امام خاموش ہیں ۔ اس راوی کی توثیق صرف ابن حبان نے کی ہے (تہذیب التہذیب ٣/٢١٧) اور توثیق المجاہیل کے سلسلہ میں ابن حبان کا تساہل معروف ہے ۔ اسی بنا پر حافظ ابن حجر نے تقریب (١٨٣٨)میں ان کو مقبول قرار دیا ہے یعنی متابعت کی صورت میں مقبول ہیں ورنہ ضعیف ہیں جیسا کہ ان کی مخصوص اصطلاح ہے ۔
                ب۔ تفسیر طبری (٢٦/١٢٣) کی روایت ہے ۔ حدثنا أبوکریب عن جعفر بن عون عن موسی بن عبیدہ عن ثابت مولی أم سلمہ عن أم سلمہ ۔
                اس سند میں موسی بن عبیدہ ضعیف ہے (تقریب/٦٩٨٩) اور ثابت مولی ام سلمہ کا کوئی پتہ نہیں ہے۔
نوٹ: مولانا مودودی نے تفہیم القرآن (٥/٧٤)میں لکھا ہے کہ ام سلمہ کی روایت میں ولید کے نام کی تصریح نہیں ہے۔  حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس میں بھی ولید کے نام کی تصریح ہے (ملاحظہ ہو مجمع الزوائد ٧/١١٠)
                ج۔ تفسیر طبری ہی میں دوسری روایت ہے : عن محمد بن سعد عن أبیہ عن عمہ عن أبیہ عن أبیہ عن ابن عباس ۔۔۔۔ (٢٦/١٢٣)
                یہ وہی سند ہے جس پر ثعلبہ بن حاطب رضی اللہ عنہ کے قصہ میں کلام گذر چکا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ سند ایک دم ساقط ہے۔ اس کی حیثیت محدثین کے نزدیک لید کے برابر بھی نہیں ہے کیونکہ سند میں کسی کا نام ظاہرنہیں کیا گیا ہے نیز یہ پورا خاندان عوفیوں کا خاندان ہے جس کے بارے میں محدثین کا فیصلہ ہے کہ وہ سب کے سب ضعیف ہیں ۔
                د۔ طبرانی نے علقمہ بن ناجیہ سے روایت کی ہے جسے امام ہیثمی نے مجمع الزوائد (٧/١٠٩۔١١٠)میں ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے : رواہ الطبرانی باسنادین فی احدہما یعقوب بن حمید بن کاسب وثقہ ابن حبان وضعفہ الجمہور وبقیة رجالہ ثقات۔
                ھ ۔ جابر بن عبد اﷲ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے جسے ہیثمی نے مجمع الزوائد (٧/١١٠) میں ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے : رواہ الطبرانی فی الاوسط وفیہ عبد اﷲ بن عبد القدوس التمیمی وقد ضعفہ الجمہور ووثقہ ابن حبان وبقیة رجالہ ثقات ۔
                یہ کل پانچ روایتیں ہیں جو موصول ہیں اور جن کی حالت آپ نے دیکھ لی اس کے علاوہ بقیہ مرسل روایات پر کسی تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے ۔
                یہاں پر اس بات کی نشان دہی میں ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ علماء کرام جو ان روایات کو ایک دوسرے سے تقویت دے کر ''حسن'' کے درجے تک مانتے ہیں ولید رضی اللہ عنہ کے بارے میں ان کا موقف کیا ہے :
امام رازی فرماتے ہیں : اس قصہ سے زیادہ سے زیادہ یہ بات ثابت کی جاسکتی ہے کہ یہ نزول آیت کی تاریخ ہے مگر یہ کہنا کہ مذکورہ آیت میں ولید پر فاسق کا اطلاق کیا گیا ہے تو یہ غلط اور بعید ہے اس لئے کہ ولید کو وہم ہوا تھا اور غلطی سے انھوں نے یہ سمجھا تھا کہ بنو مصطلق والے ہم پر حملہ کرنا چاہتے ہیں اس لئے راہ سے لوٹ آئے تھے۔ یہ ان کی ایک غلطی تھی اور غلطی کی وجہ سے کسی کو فاسق قرار نہیں دیا جاسکتا۔ (تفسیر رازی٢٨/١١٩)
                علامہ آلوسی فرماتے ہیں : ہم صحابہ کی عصمت کے قائل نہیں۔ ان سے زندگی میں ایسی غلطی ہوسکتی ہے جس سے فسق لازم آئے۔ مگر یہ کہنا کسی طرح درست نہیں کہ فسق پر ان کی موت ہوئی ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے ان کی خاص مدح وثنا کی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کی برکت انھیں حاصل ہے ۔ (روح المعانی٢٦/١٤٤)
                مولانا ابوالکلام آزاد فرماتے ہیں : مفسرین کرام کو اس شان نزول پر یہ شبہ ہے کہ غلطی کی بنا پر ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی کو فاسق نہیں کہا جاسکتا لیکن اس آیت کا تعلق درحقیقت ان کی ذات کے ساتھ مخصوص نہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے ایک عام اصول کے طور پر بتا دیا ہے کہ جب زمانۂ جنگ میں خود مسلمان غلطی کرسکتے ہیں تو فاسق لوگوں کی روایتوں کو تو اور احتیاط سے قبول کرنا چاہئے ۔ (مضامین البلاغ ص ١١٧)   
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں : ولید رضی اللہ عنہ  کا صحابی ہونا ثابت ہے۔ ان کے کچھ گناہ ہیں جن کا معاملہ اﷲ کی طرف ہے ۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس معاملہ میں سکوت اختیار کیا جائے ۔ (تہذیب التہذیب ١١/١٢٥)
([4]) خلوق ایک معروف خوشبو ہے جو زعفران وغیرہ ملا کر بنائی جاتی ہے اور اس پر سرخی یا زردی غالب ہوتی ہے۔ (غریب الحدیث لابن أثیر ٢/٧١)
([5]) ولید رضی اللہ عنہ کے فضائل میں سے یہ بھی ہے کہ وہ عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد کے فتنوں سے کنارہ کش رہے۔ علی رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے مابین ہونے والی جنگوں میں شریک نہیں تھے بلکہ دونوں فریقوں سے الگ رہے جیسا کہ صحابہ کی ایک جماعت کا موقف تھا ۔
([6]) لویس نام کے فرانس میں اٹھارہ بادشاہ گذرے ہیں جن میں سب سے معروف نواں بادشاہ (١٢١٤۔١٢٧٠) ہے۔ اوپر اسی کی طرف اشارہ ہے۔ اس نے ساتویں اور آٹھویں صلیبی حملہ کی قیادت کی۔ ١٢٠٥ء میں مصر پر حملہ کے دوران مسلمانوں نے اسے گرفتار کیا تھا۔  (المورد١٩٩٠قسم الاعلام ص ٥٥ المنجد ایڈیشن ٢٨ ص ٦١٨)
([7])صحیح مسلم کتاب الحدود، باب حد الخمر  (کتاب:29 باب: 8 حدیث: 38 (1707)۔

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق