رسالة القرآن الكريم إلى البشرية
انسانیت کے نام
قرآن کریم کا پیغام
اعداد
عبد الہادی عبد الخالق مدنی
احساء اسلامک سینٹر ہفوف سعودی عرب
مقدمہ
الحمد
لله, والصلاة والسلام على رسول الله, أما بعد:
زیر نظر کتابچہ " انسانیت کے نام قرآن كريم کا پیغام " دراصل ایک تقریر ہے جو مملکت
سعودی عرب کے ایک اہم اسلامی ودعوتی مرکز جبیل دعوہ سینٹر کی عظیم الشان جامع مسجد میں 1۴/رمضان المبارک
14۳۳ھ مطابق 2/اگست 20۱۲ء بروز جمعرات کوپیش کی گئی۔ اس کے اندر قرآن کریم کے
اساسی پیغام توحید پر گفتگو کی گئی ہے۔ اس
کی اہمیت وافادیت کو سامنے رکھتے ہوئے اسے کتابی شکل دے دی گئی ۔ نیز نظرثانی کرکے
مناسب ترمیم اور ضروری حذف واضافے بھی کئے گئے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اسے ہر خاص وعام کیلئے نافع بنائے
۔اس کے مرتب اور اس کی نشرواشاعت میں معاون ہر فرد کو جزائے خیر سے نوازے۔ آمین۔
عبد الہادی عبد الخالق مدنی
کاشانۂ خلیق۔ اٹوا بازار۔سدھارتھ
نگر۔یوپی
داعی احساء اسلامک سینٹر ہفوف ،
سعودی عرب
143۳ ھ/ 201۲ ء
بسم اللہ الرحمن الرحیم
إن الحمد لله نحمده ونستعينه ونستغفره ونعوذ بالله
من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا من يهده الله فلا مضل له ومن يضلل فلا هادي له وأشهد
أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله . ( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ
آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلاَ تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ
) ( يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ
وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيراً وَنِسَاء وَاتَّقُواْ
اللّهَ الَّذِي تَسَاءلُونَ بِهِ وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيباً
) ( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا يُصْلِحْ
لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعْ اللَّهَ وَرَسُولَهُ
فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا ).
(( رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي , وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي , وَاحْلُلْ
عُقْدَةً مِنْ لِسَانِي , يَفْقَهُوا قَوْلِي ))
علمائے کرام اور حاضرین مجلس!
اللہ
رب العالمین کی حمد وثنا اور محمد خاتم النبیین پر صلاۃ وسلام کے بعد
میں
جبیل دعوہ سینٹر کے ذمہ داران اور دعاۃ حفظہم اللہ تعالی کا شکر گذار ہوں جنھوں نے
آج کی ملاقات اور ہمکلامی کا بندوبست کیا، اللہ تعالی ان سب کو جزائے خیر سے
نوازے۔ آمین
جیسا
کہ آپ تمام حضرات کو معلوم ہے آج ہماری
گفتگو کا عنوان ہے ((انسانیت کے نام قرآن کریم کا پیغام))۔ رواں مہینہ ماہ رمضان نزول قرآن کا مہینہ ہے،
بنابریں اس مہینہ میں قرآن کریم کے پیغام کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش انتہائی
موزوں اور برمحل ہے۔
اللہ
تعالی نے ارشاد فرمایا: {شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ
وَبَيِّنَاتٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ} [البقرة: 185] (ماه رمضان وه ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کو ہدایت کرنے والا ہے اور جس میں ہدایت
کی اور حق وباطل کی تمیز کی نشانیاں ہیں)۔
قرآن
کریم کتاب ہدایت ہے، اس میں حق وباطل میں نمایاں فرق اور امتیاز ظاہر کرنے والے
روشن دلائل ہیں۔ قرآن کریم وہ عظیم الشان وبے مثال کتاب ہے جو کسی مخلوق کی تصنیف نہیں بلکہ خالق کائنات کا کلام ہے۔ اسی نے یہ کلام اپنے مقرب فرشتے
روح امین جبریل علیہ السلام کے ذریعہ اپنے خلیل وحبیب، سید ولد آدم ، رحمت عالم
صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر پہ نازل فرمایا اور ساری دنیا کو چیلنج کیا کہ
تمام جن وانس مل کر بھی اس کے مدمقابل کوئی کتاب
نہیں لاسکتے۔ چنانچہ اعلان باری ہے۔ {قُلْ
لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ
لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا} [الإسراء:
88] ۔
کہہ دیجیئے کہ اگر تمام انسان اور کل جنات مل کر
اس قرآن کے مثل لانا چاہیں تو ان سب سے اس کے مثل لانا ناممکن ہے گو وه (آپس میں)
ایک دوسرے کے مددگار بھی بن جائیں۔
قرآن کریم
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ زندہ معجزہ ہے جو تا قیام قیامت آپ کے رسول برحق
ہونے کی شہادت دیتا رہے گا۔ آپ لکھنا
پڑھنا نہیں جانتے تھے لیکن آپ نے دنیا کے سامنے وہ کتاب پیش کی جو ہرقسم کے علوم
وفنون کی جامع ہے۔
قرآن کریم کا
نزول کیوں ہوا؟ اس کا پیغام کیا ہے؟ آیئے
ہم قرآن مجید ہی سے اس کا جواب تلاش کرتے ہیں۔
اللہ
تعالی نے ارشاد فرمایا: {هَذَا بَلَاغٌ لِلنَّاسِ وَلِيُنْذَرُوا بِهِ وَلِيَعْلَمُوا
أَنَّمَا هُوَ إِلَهٌ وَاحِدٌ وَلِيَذَّكَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ} [إبراهيم: 52] یہ قرآن تمام لوگوں کے لیے اطلاع نامہ ہے کہ اس کے ذریعہ سے
وه ہوشیار کردیے جائیں اور بخوبی معلوم کرلیں کہ اللہ ایک ہی معبود (برحق)ہے اور تاکہ
عقلمند لوگ سوچ سمجھ لیں۔
قرآن پاک کو
اللہ تعالی نے "بلاغ" کا نام دیا جسے اردو میں پیغام، اطلاع نامہ اور اعلان وغیرہ سے تعبیر کرسکتے ہیں، یعنی
یہ قرآن انسانیت کے لئے اللہ کا
پیغام ہے، اللہ کا اطلاع نامہ ہےاور اللہ
کا اعلان ہے۔
پھر اللہ
تعالی نے فرمایا: " وَلِيُنْذَرُوا بِهِ " تاکہ وہ قرآن کے ذریعہ ہوشیار کردیئے جائیں، خبردار کردیئے جائیں، آگاہ
کردیئے جائیں اور ڈرا دیئے جائیں۔ یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کس بات سے خبردار
کردیئے جائیں؟؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر
وہ قرآن پاک کا پیغام ملنے کے بعد اس کا انکار کرتے ہیں تو اپنے کفر وشرک ،فسق وفجور اور بداعمالیوں کے برے انجام سے خبردار
کردیئے جائیں۔
پھر اللہ
تعالی نے ارشاد فرمایا: " وَلِيَعْلَمُوا أَنَّمَا هُوَ إِلَهٌ وَاحِدٌ " اور تاکہ وہ خوب اچھی طرح جان لیں کہ وہ اللہ کی ذات
ہی تنہا لائق عبادت ہے۔ یعنی قرآن پاک کے
متعدد دلائل وبراہین اور اس کی ہدایت ورہنمائی کے ذریعہ اللہ کی توحید کو اور اس
کے یکہ وتنہا لائق عبادت ہونے کو اچھی طرح سمجھ لیں۔
ایک اور مقام پر اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: {إِنَّا أَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ
اللَّهَ مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ} [الزمر: 2] یقیناً ہم نے اس کتاب کو آپ کی طرف حق کے ساتھ نازل فرمایا ہے پس آپ اللہ ہی
کی عبادت کریں، اسی کے لئے دین کو خالص کرتے ہوئے۔
ایک
اور جگہ ارشاد ہے: {الر كِتَابٌ أُحْكِمَتْ آيَاتُهُ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَدُنْ
حَكِيمٍ خَبِيرٍ (1) أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّهَ إِنَّنِي لَكُمْ مِنْهُ نَذِيرٌ
وَبَشِيرٌ } [هود: 1، 2] الرٰ، یہ ایک ایسی
کتاب ہے کہ اس کی آیتیں محکم کی گئی ہیں، پھر صاف صاف بیان کی گئی ہیں ایک حکیم
باخبر کی طرف سے یہ کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو میں تم کو اللہ کی طرف سے
ڈرانے والا اور بشارت دینے والاہوں۔
یعنی اللہ کی
توحید کو اپنا کر زندگی گذارنے والوں کے لئے بشارت وخوشخبری ہے اور اللہ کی توحید کو چھوڑ کر شرک
پر جمے رہنے والوں کے لئے وعید، دھمکی،
انذار اور ڈراوا ہے۔
ایک
اور مقام پر ارشاد ہے: {الر
كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ
بِإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلَى صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ (1) اللَّهِ الَّذِي لَهُ
مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَوَيْلٌ لِلْكَافِرِينَ مِنْ عَذَابٍ شَدِيدٍ}
[إبراهيم: 1، 2] الرٰ! یہ عالی شان کتاب ہم نے آپ
کی طرف اتاری ہے کہ آپ لوگوں کو اندھیروں سے اجالے کی طرف لائیں، ان کے پروردگار
کے حکم سے، زبردست اور تعریفوں والے اللہ کی طرف جس اللہ کا ہے جو کچھ آسمانوں اور
زمین میں ہے۔ اور کافروں کے لئے تو سخت عذاب کی خرابی ہے۔
مذکورہ آیات
سے یہ بات بخوبی طور پر عیاں اور بیاں ہوگئی کہ قرآن مجید کا اصل پیغام یہ ہے کہ
صرف ایک اللہ کی عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کچھ بھی شرک نہ کیا جائے۔ اسی کو ہم
مختصر طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کا اساسی پیغام توحید کا اعلان اور شرک کی
تردید ہے۔
حقیقت یہ ہے
کہ پورا کا پورا قرآن توحید ہی پر مشتمل ہے۔ قرآن پاک میں یا تو اللہ کے اسماء
وصفات کا بیان ہے، یا اس کا بیان ہے کہ صرف اسی کی عبادت کی جائے اور اس کے سوا
کسی کی عبادت نہ کی جائےاور یہی اصل توحید ہے ۔ یا اس بات کا بیان ہے کہ اللہ کے
حکموں کی اطاعت کی جائے اور اس کی روکی ہوئی چیزوں سے اجتناب کیا جائے اور اس سے
توحید کی تکمیل ہوتی ہے۔ یا قرآن پاک میں جنت اور جہنم کا بیان ہے اور یہ توحید کو
اپنانے والوں کی جزا یا توحید چھوڑدینے
والوں کی سزا ہے۔
قرآن مجید کی
پہلی سورت ہی کو لے لیجئے جس کا نام سورہ فاتحہ ہے۔ اس سورت کا ایک نام ام الکتاب بھی ہے یعنی یہ
پورے قرآن کا خلاصہ ہے، سورہ فاتحہ پوری کی پوری توحید پر مشتمل ہے۔ {الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ } توحيد ہے۔ {الرَّحْمَنِ
الرَّحِيمِ } توحيد ہے۔ {مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ } توحيد ہے۔ {إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ} توحيد ہے۔ {اهْدِنَا
الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ } توحيد کی معرفت وہدایت اور توحید پر استقامت کی دعا ہے۔ {صِرَاطَ
الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ
} توحيد اپناکر انعام پانے والوں کی
راہ کی طلب اور توحید سے بھٹک جانے والوں اور توحید کو چھوڑ دینے والوں کی راہ سے
دوری کا سوال ہے۔
قرآن مجید کے
اندر جو سب سے پہلا حکم آیا ہے وہ یہی توحید کا حکم ہے، ارشاد ہے: {يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ
وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (21) الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ
فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ
الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَكُمْ فَلَا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ}
[البقرة: 21، 22] اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے کے لوگوں کو
پیدا کیا، یہی تمہارا بچاؤ ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو فرش اور آسمان کو چھت
بنایا اور آسمان سے پانی اتار کر اس سے پھل پیدا کرکے تمہیں روزی دی، خبردار
باوجود جاننے کے اللہ کے شریک مقرر نہ کرو۔
مذکورہ عظیم
الشان آیت میں توحید کا حکم بھی ہے اور شرک کی ممانعت بھی، توحید کی فرضیت کی واضح دلیل بھی ہے اور شرک کے بطلان کا برہان بھی۔ اس آیت میں اللہ تعالی نے تمام انسانیت کو
مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: "
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ " اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو۔ رب کسے کہتے ہیں؟ عربی زبان میں رب کہتے ہیں اس
ذات کو جو آپ کی ہرچھوٹی بڑی ضرورت کا ذمہ دار ہے۔ جو لوگ سعودی عرب میں فیملی لائے ہوئے ہیں وہ
ذرا اپنے بچوں کے اقامہ میں دیکھیں ، کیا ان کے بچوں کے اقامہ میں رب کا لفظ ہے یا
نہیں، آپ دیکھیں گے کہ آپ کے بچوں کے
اقامہ میں رب الاسرۃ کے آگے آپ کا نام لکھا ہوا ہے، کیونکہ قانونی طور پر آپ ہی
اپنے بچوں کی ضروریات کے ذمہ دار ہیں، ان کے کھانے پینے، پہننے اوڑھنے، تعلیم
وتربیت اور دوا علاج وغیرہ کے آپ ذمہ دار ہیں، اس لئے عربی زبان کے مطابق آپ کو آپ
کی فیملی کا رب قرار دیا گیا۔
اللہ تعالی نے
فرمایا: " يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ " اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو۔ یعنی اس اللہ کی عبادت کرو جو تمھارا رب ہے،
تمھاری ہر چھوٹی بڑی ضرورت پوری کرنے والا ہے، اسی نے زندگی عطا فرمائی، تم کو عدم
سے وجود بخشا، دل میں دھڑکن پیدا کی اور اس کو جاری رکھا، سانس لینے کے لئے ہوا کا
انتظام فرمایا، تمھاری خوراک وپوشاک کا انتظام فرمایا، دن میں سورج کے ذریعہ گرمی
اور روشنی عطا فرمائی، رات میں چاندنی بکھیردی، آسمان کو تاروں سے سجادیا، تمھارے
لئے آسمان سے بارش برسائی، زمین کو تمھارے لئے ہموار کردیا اور اس میں تمھاری لئے
ہری بھری لہلہاتی کھیتیاں پیدا کیں، جن سے قسم قسم کے پھل پھول اور غلے پیدا
فرمائے، تمھارے آرام وآسائش کا ہرانتظام کیا، مردوں کو لطف اندوز ہونے کے لئے حسین
وجمیل اور پرکشش عورتیں پیدا فرمائیں، عورتوں کے لئے طاقتور اور محبت کرنے والے
مرد پیدا فرمائے۔ مردوں اور عورتوں کو
اولاد عطا فرماکر ان کو آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کی، الغرض تمھاری ساری ضرورت پوری کی
،اور پھر تمھیں اپنے رب کے احکام بتلانے
کے لئے انبیاء اور رسول مبعوث فرمائے۔ تمھاری ہدایت کے لئے کتابیں نازل کیں۔ لہذا
" اعْبُدُوا رَبَّكُمُ " تم صرف اپنے اسی رب کی عبادت کرو۔
اور اے انسانو!
تم اس بات کو مانتے ہو کہ یہ سب اس نے تنہا کیا، اس نے تنہا پیدا کیا، زمین وآسمان
کا وہی تنہا مالک ومدبر ہے، پانی برسانے، سورج اور چاند کو نکالنے اور ڈبانے، دن
اور رات کو لانے اور لے جانے میں اس کا کوئی شریک نہیں، توپھر" فَلَا
تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ" یہ سب جانتے بوجھتے تم کسی مخلوق کو اس کا ہمسر اور اس کا شریک کیوں
بناتے ہو، دوسروں کی بھی عبادت کیوں کرتے ہو جیسے اس کی عبادت کرتے ہو۔ ہرگز ہرگز ایسا مت کرو۔
توحید کو
سمجھانے کے لئے اللہ تعالی نے قرآن مجید میں متعدد مثالیں بیان فرمائی ہیں۔ ایک جگہ
ارشاد ہے: {يَا أَيُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوا لَهُ إِنَّ
الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَنْ يَخْلُقُوا ذُبَابًا وَلَوِ اجْتَمَعُوا
لَهُ وَإِنْ يَسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْئًا لَا يَسْتَنْقِذُوهُ مِنْهُ ضَعُفَ الطَّالِبُ
وَالْمَطْلُوبُ (73) مَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ
عَزِيزٌ } [الحج: 73، 74] لوگو! ایک مثال بیان
کی جارہی ہے، ذرا کان لگا کر سن لو! اللہ کے سوا جن جن کو تم پکارتے رہے ہو وه ایک
مکھی بھی تو پیدا نہیں کر سکتے، گو سارے کے سارے ہی جمع ہوجائیں، بلکہ اگر مکھی ان
سے کوئی چیز لے بھاگے تو یہ تو اسے بھی اس سے چھین نہیں سکتے، بڑا بودا ہے طلب
کرنے والا اور بڑا بودا ہے وه جس سے طلب کیا جا رہا ہے انہوں نے اللہ کے مرتبہ کے
مطابق اس کی قدر جانی ہی نہیں، اللہ تعالیٰ بڑا ہی زور وقوت والا اور غالب وزبردست
ہے۔
ایک
اور جگہ ارشاد فرمایا: {مَثَلُ الَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ أَوْلِيَاءَ
كَمَثَلِ الْعَنْكَبُوتِ اتَّخَذَتْ بَيْتًا وَإِنَّ أَوْهَنَ الْبُيُوتِ لَبَيْتُ
الْعَنْكَبُوتِ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ} [العنكبوت: 41] جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کارساز مقرر کر رکھے
ہیں ان کی مثال مکڑی کی سی ہے کہ وه بھی ایک گھر بنا لیتی ہے، حالانکہ تمام گھروں
سے زیاده بودا گھر مکڑی کا گھر ہی ہے، کاش! وه جان لیتے۔
کوئی شخص گھر
کیوں بناتا ہے؟ تاکہ سردی ،گرمی اور دشمن وغیرہ
سے بچ کر اپنے گھر میں پناہ لےسکے، لیکن اگر اتنا کمزور مکان ہو جیسا مکڑی
کا گھر ہوتا ہے کہ معمولی ہوا کے جھونکے بلکہ انگلی کے ادنی اشارے سے تباہ ہوجاتا
ہے تو وہ بجائے آرام دینے کے ہماری مصیبت میں اضافہ ہی کرتا ہے۔ایک توحید والا
اللہ کا سہارا لے کر طاقتور ہوجاتا ہے، ہرمصیبت میں اللہ کی پناہ لیتا ہے لیکن ایک
مشرک جس غیراللہ کا سہارا لیتا ہے اور جس کی پناہ ڈھونڈتا ہے، اس کے ذریعہ اس کو
کوئی طاقت نہیں ملتی کیونکہ وہ بےچارہ جو خود مجبور ولاچار اور عاجز وبے بس ہے وہ دوسروں کا سہارا
کیا بن سکتا ہے؟؟۔
اللہ تعالی نے
انبیاء کے قصے ذکر فرماکر توحید کی وضاحت فرمائی، ارشاد ہے: {وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا
نَبِيًّا * إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ يَا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا
يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِي عَنْكَ شَيْئًا} (مريم: 42) اس کتاب میں ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ بیان کیجئے، بیشک
وه بڑی سچائی والے پیغمبر تھے جبکہ انہوں نے اپنے باپ سے کہا کہ ابّا جان! آپ ان
کی پوجا پاٹ کیوں کر رہے ہیں جو نہ سنیں نہ دیکھیں؟ نہ آپ کو کچھ بھی فائده پہنچا
سکیں۔
ایسے ہی جب
ابراہیم علیہ السلام نے بتوں کو توڑ دیا اور ان کی قوم کے لوگ آپ کے پاس جمع
ہوئے تو آپ نے ان سے کہا کہ مجھ پر الزام
کیوں دیتے ہو اگر وہ بول سکتے ہیں تو ان سے پوچھ لو کہ ان کو کس نے توڑا ہے ،قوم
کے لوگوں کی اس موقع پر جو حالت ہوئی اللہ تبارک وتعالی نے اس کی تصویر کشی کرتے
ہوئے ارشاد فرمایا: {ثُمَّ نُكِسُوا عَلَى رُءُوسِهِمْ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هَؤُلَاءِ
يَنْطِقُونَ * قَالَ أَفَتَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنْفَعُكُمْ شَيْئًا
وَلَا يَضُرُّكُمْ * أُفٍّ لَكُمْ وَلِمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَفَلَا
تَعْقِلُونَ} (الأنبياء: 65 - 67). پھر اپنے سروں
کے بل اوندھے ہوگئے (اور کہنے لگے کہ) یہ تو تجھے بھی معلوم ہے کہ یہ بولنے چالنے
والے نہیں اللہ کے خلیل نے اسی وقت فرمایا افسوس! کیا تم اللہ کے علاوه ان کی
عبادت کرتے ہو جو نہ تمہیں کچھ بھی نفع پہنچا سکیں نہ نقصان، تف ہے تم پر اور ان
پر جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے ہو۔ کیا تمہیں اتنی سی عقل بھی نہیں؟
اللہ تعالی نے
کفار سے دلیل طلب کیا ہے اور ساتھ ہی یہ فرمادیا ہے کہ یہ لوگ دلیل کے بجائے اپنے
وہم وگمان کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ ارشاد ہے: {وَيَعْبُدُونَ
مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنْفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَؤُلَاءِ
شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اللَّهِ قُلْ أَتُنَبِّئُونَ اللَّهَ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي السَّمَاوَاتِ
وَلَا فِي الْأَرْضِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى عَمَّا يُشْرِكُونَ} (يونس: 18). اور یہ لوگ اللہ کے سوا ایسی چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ
ان کو ضرر پہنچا سکیں اور نہ ان کو نفع پہنچا سکیں اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس
ہمارے سفارشی ہیں۔ آپ کہہ دیجئے کہ کیا تم اللہ کو ایسی چیز کی خبر دیتے ہو جو
اللہ تعالیٰ کو معلوم نہیں، نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں، وه پاک اور برتر ہے
ان لوگوں کے شرک سے۔
ہرزمانے میں
وسیلہ وشفاعت کا عقیدہ ہی مشرکین کا شبہ رہا ہے، اللہ تعالی نے مذکورہ آیت میں اس
شبہ کی بھرپور تردید فرمائی، اللہ تعالی
نے مشرکوں سے کہا کہ تم جن لوگوں کو اللہ کے پاس اپنا سفارشی مان کر ان کی عبادت
کررہے ہو، اللہ کو تو معلوم نہیں کہ وہ اس کے پاس سفارش کا حق رکھتے ہیں تم کو
کیسے معلوم ہوگیا، کیا تم اللہ سے زیادہ
جانتے ہو معاذاللہ، یا تم بے اصل وبے دلیل جہالت وضلالت کی بات کررہے ہو، یہ
تمھاری اپنی بنائی ہوئی بات ہے، اللہ تعالی نے کبھی ایسی تعلیم نہیں دی، اللہ تعالی ہرقسم کے شرک سے بے نیاز ہے۔
جو لوگ اللہ
کی توحید کو قبول نہیں کرتے ان کے سامنے اللہ تعالی نے ایک ایسی دلیل رکھی ہے جس
سے کسی کو انکار کی گنجائش نہیں۔ ارشاد ہے: {وَإِذَا مَسَّكُمُ الْضُّرُّ فِي الْبَحْرِ ضَلَّ مَن تَدْعُونَ
إِلاَّ إِيَّاهُ} (الإسراء: 67). اور سمندروں میں
مصیبت پہنچتے ہی جنہیں تم پکارتے تھے سب گم ہوجاتے ہیں صرف وہی اللہ باقی ره جاتا
ہے۔
یعنی مصیبت کی
شدت میں کوئی نظر نہیں آتا، اس وقت وہی
اوپر والا اللہ ہی نظر آتا ہے۔ اس وقت سب سے بڑا سہارا اسی کا ہوتا ہے۔ راحت
وآسائش اور خوشحالی وفارغ البالی کے عالم میں جن بہت سارے معبودوں کو پکارا کرتے
تھے ان سب کو سخت مصیبت میں کفار فراموش
کرجاتے ہیں، اسی بات کو اللہ تعالی نے ایک اور موقعہ پر بڑی تاکید کے ساتھ سوالیہ
انداز میں ارشاد فرمایا ہے۔
{قُلْ أَرَأَيْتُكُم إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللهِ أَوْ أَتَتْكُمُ
السَّاعَةُ أَغَيْرَ اللهِ تَدْعُونَ إِن كُنتُمْ صَادِقِين * بَلْ إِيَّاهُ تَدْعُونَ
فَيَكْشِفُ مَا تَدْعُونَ إِلَيْهِ إِنْ شَاء وَتَنسَوْنَ مَا تُشْرِكُون} (الأنعام:
40، 41). آپ کہیے کہ اپنا حال تو بتلاؤ کہ اگر تم پر اللہ کا کوئی
عذاب آ پڑے یا تم پر قیامت ہی آ پہنچے تو کیا اللہ کے سوا کسی اور کو پکارو گے۔
اگر تم سچے ہو بلکہ خاص اسی کو پکارو گے، پھر جس کے لئے تم پکارو گے اگر وه چاہے
تو اس کو ہٹا بھی دے اور جن کو تم شریک ٹھہراتے ہو ان سب کو بھول بھال جاؤ گے۔
اللہ تعالی کفارومشرکین کو چیلنج کرتے ہوئے ان کے سامنے توحید وشرک کی
حقیقت اس طرح واضح کرتا ہے۔
{قُلْ أَرَأَيْتُم مَّا تَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ أَرُونِي
مَاذَا خَلَقُوا مِنَ الأَرْضِ أَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِي السَّمَاوَاتِ اِئْتُونِي بِكِتَابٍ
مِّن قَبْلِ هَذَا أَوْ أَثَارَةٍ مِّنْ عِلْمٍ إِن كُنتُمْ صَادِقِين} (الأحقاف:
4). آپ کہہ دیجئے! بھلا دیکھو تو جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے
ہو مجھے بھی تو دکھاؤ کہ انہوں نے زمین کا کون سا ٹکڑا بنایا ہے یا آسمانوں میں ان
کا کون سا حصہ ہے؟ اگر تم سچے ہو تو اس سے پہلے ہی کی کوئی کتاب یا کوئی علم ہی جو
نقل کیا جاتا ہو، میرے پاس لاؤ۔
نیز
ارشاد ہے: {قُلْ أَفَرَأَيْتُمْ مَا تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ إِنْ
أَرَادَنِيَ اللَّهُ بِضُرٍّ هَلْ هُنَّ كَاشِفَاتُ ضُرِّهِ أَوْ أَرَادَنِي بِرَحْمَةٍ
هَلْ هُنَّ مُمْسِكَاتُ رَحْمَتِهِ قُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ عَلَيْهِ يَتَوَكَّلُ الْمُتَوَكِّلُونَ}
[الزمر: 38] آپ ان سے کہئے کہ اچھا یہ تو بتاؤ جنہیں تم
اللہ کے سوا پکارتے ہو اگر اللہ تعالی مجھے نقصان پہنچانا چاہے توکیا یہ اس کے
نقصان کو ہٹا سکتے ہیں؟ یا اللہ تعالیٰ مجھ پر مہربانی کا اراده کرے تو کیا یہ اس
کی مہربانی کو روک سکتے ہیں؟ آپ کہہ دیں کہ اللہ مجھے کافی ہے، توکل کرنے والے اسی
پر توکل کرتے ہیں۔
غیراللہ
کو پکارنے والے جس جس کو پکارتے ہیں خواہ وہ انسان ہوں یا جن ، زندہ ہوں یا مردہ،
انبیاء ہوں یا ملائکہ، اولیاء ہوں یا سادات، کاہن وعراف ہوں یا بزرگ وپارسا، شجر
وحجر ہوں، نباتات وجمادات ہوں یا حیوانات یا دیگر مخلوقات، اللہ تعالی نے سب کے بارے میں فرمادیا کہ اگر
اللہ کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو یہ اس نقصان کو ہٹا نہیں سکتے ، اللہ اگر بیمار
کرنا چاہے، کسی حادثہ کا شکار کرنا چاہے، کسی مصیبت سے دوچار کرنا چاہے، فقیر
ومحتاج بنانا چاہے، موت دینا چاہے تو اللہ کے سوا کوئی ایسی ہستی نہیں جو اس کو
ٹال سکے۔ کوئی تعویذ، کوئی دھاگا، کوئی کڑا، کوئی چھلہ، غیراللہ کے لئے کوئی منت، کوئی چڑھاوا، کوئی
ذبیحہ ، کوئی تیرتھ ، کوئی زیارت کام آنے والی نہیں ہے۔ اور اگر اللہ اپنی رحمتیں عطا فرمانا چاہے تو
اسے بھی کوئی روک نہیں سکتا۔
آج
شرک کا فتنہ بہت بری طرح عالم اسلام میں اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہے۔ قبے اور مزارات، درگاہوں پر عرس اور میلے،
مشرکانہ مراسم، نذرانے اور چڑھاوے، تعویذ اور گنڈے، غیراللہ کے لئے ذبح وقربانی ،
غیراللہ سے شفاطلبی، حاجت روائی ومشکل کشائی، فریادرسی ودعاطلبی، الغرض شرک کی وہ
کوئی صورت باقی نہیں جو بت پرست اپنے بتوں کے ساتھ یا صلیب پرست اپنے صلیب یا عیسی
یا مریم علیہم السلام کے ساتھ کرتے ہیں مگر مسلمانوں نے اسے اپنے مدفون بزرگوں کے
لئے اختیار کرلیا ہے۔ آج مزارات پر وہی کچھ ہوتا ہے جو غیر مسلموں کے گرجاگھروں، مندروں
اور تیرتھ استھانوں میں ہوتا ہے۔آج مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد توحید سے بہت دور جاچکی ہے ۔ ضرورت ہے کہ سارے
مسلمان دوبارہ اللہ کی نازل کردہ آخری کتاب قرآن مجید اور سنت صحیحہ کی تعلیمات کے
مطابق توحید کو اپنائیں اور جس طرح سلف
صالحین اور صحابہ وتابعین نے توحید کو مضبوطی سے تھاما اور اس پر عمل پیرا رہے اسی طرح تمام مسلمان بھی
اسے اپنی زندگیوں میں برتیں۔
قرآن
مجید میں سلیمان علیہ السلام کا واقعہ جو
ہدہد سے متعلق ہے کیسا عبرتناک ہے۔ ارشاد ہے: {إِنِّي وَجَدْتُ امْرَأَةً تَمْلِكُهُمْ وَأُوتِيَتْ مِنْ كُلِّ
شَيْءٍ وَلَهَا عَرْشٌ عَظِيمٌ (23) وَجَدْتُهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ
مِنْ دُونِ اللَّهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ
السَّبِيلِ فَهُمْ لَا يَهْتَدُونَ (24) أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي يُخْرِجُ
الْخَبْءَ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ
(25) اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ} [النمل: 23 -
26] (ہدہد نے کہا)میں نے دیکھا کہ ان کی بادشاہت ایک عورت کر رہی ہے جسے ہر
قسم کی چیز سے کچھ نہ کچھ دیا گیا ہے اور اس کا تخت بھی بڑی عظمت والا ہے میں نے اسے اور اس کی قوم
کو، اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر سورج کو سجده کرتے ہوئے پایا، شیطان نے ان کے کام
انہیں بھلے کرکے دکھلا کر صحیح راه سے روک دیا ہے۔ پس وه ہدایت پر نہیں آتے کہ اسی
اللہ کے لیے سجدے کریں جو آسمانوں اور زمینوں کے پوشیده چیزوں کو باہر نکالتا ہے،
اور جو کچھ تم چھپاتے ہو اور ظاہر کرتے ہو وه سب کچھ جانتا ہے اس کے سوا کوئی
معبود برحق نہیں وہی عظمت والے عرش کا مالک ہے۔
ہدہد
ایک چھوٹا سا پرندہ شرک کو دیکھ کر کس طرح تڑپ جاتا ہے، توحید جو غایت تخلیق ہے اس
سے انحراف دیکھ کر فورا سلیمان علیہ السلام کے پاس پہنچ کر ان کو خبردیتا ہے اور
خواہش رکھتا ہے کہ یہ قوم شرک کو چھوڑ کر توحید سے وابستہ ہوجائے اور سورج وچاند
جو غیراللہ ہیں ان کی عبادت سے دست کش ہوکر ایک اللہ برحق کی عبادت کرنے لگے۔
تھوڑی
دیر کے لئے ہم سب اپنے دل ودماغ کا جائزہ لیں ، کیا ہم سب بھی شرک کو دیکھ کر تڑپ
اٹھتے ہیں، کیا ہماری بھی یہی خواہش ہوتی ہے کہ شرک مٹ جائے اور توحید غالب
ہوجائے، کیا ہم بھی انسانیت کی ہمدردی رکھتے ہوئے ایسا سوچتے ہیں کہ ہمارے انسانی
بھائی شرک سے توبہ کرکے جنت کے حقدار ہوجائیں اور جہنم کے عذاب سے نجات پاجائیں۔
اللہ تعالی ہمیں توحید کی دعوت اور اس کی نشرواشاعت کی بھرپور توفیق عطا فرمائے۔
آمین
کچھ
لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ توحید کا اعلان اور شرک کی تردید مسلمانوں کے مجمع میں نہیں
بلکہ کفار ومشرکین کے سامنے ہونی چاہئے،
یہ انتہائی بدترین قسم کی غلط فہمی ہے ، قرآن کریم کا مطالعہ کیجئے تو
معلوم ہوگا کہ توحید کی گفتگو سب کے سامنے
ہونی چاہئے ، اللہ تعالی نے توحید سیکھنے کا حکم اپنے خلیل وحبیب محمد صلی اللہ
علیہ وسلم کو دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: {فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاسْتَغْفِرْ
لِذَنْبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ} [محمد: 19] سو (اے
نبی!) آپ یقین کر لیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود (برحق)نہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش مانگا کریں اور مومن مردوں
اور مومن عورتوں کے حق میں بھی۔
کیا
کوئی کہہ سکتا ہے کہ نعوذ باللہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو شک تھا اس لئے
اللہ تعالی نے آپ کو توحید پر یقین بنالینے کی تعلیم دی، نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو توحید کے معاملہ
میں ہمارے اسوہ، قدوہ ، نمونہ اور آئیڈیل ہیں،
آپ شرک تک پہنچانے والے ہردروازے کو بند کرنے والے ہیں، ان سب کے باوجود اللہ تعالی نے آپ کو توحید پر
یقین بنانے کی تعلیم دی کیونکہ توحید ہے ہی ایسی چیز کہ کسی کے یہاں اس کا خاتمہ
ہوجائے تو وہ قابل معافی نہیں ہے۔
اللہ
تعالی نے تمام رسولوں پر کلمہ توحید کی وحی فرمائی، ارشاد ہے: {وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا نُوحِي
إِلَيْهِ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُونِ} [الأنبياء: 25] آپ سے
پہلے بھی جو رسول ہم نے بھیجا اس کی طرف یہی وحی نازل فرمائی کہ میرے سوا کوئی
معبود برحق نہیں پس تم سب میری ہی عبادت کرو۔
اللہ
تعالی توحید کے معاملہ میں کس قدر غیرت مند ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایئے کہ
اللہ تعالی اپنے مکرم فرشتوں کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے: {وَمَنْ يَقُلْ مِنْهُمْ إِنِّي إِلَهٌ مِنْ دُونِهِ فَذَلِكَ
نَجْزِيهِ جَهَنَّمَ كَذَلِكَ نَجْزِي الظَّالِمِينَ} [الأنبياء: 29] ان میں سے اگر کوئی بھی کہہ دے کہ اللہ کے سوا
میں لائق عبادت ہوں تو ہم اسے جہنم کی سزا
دیں ہم ظالموں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں۔
کیونکہ
توحید خالص اللہ کا حق ہے ، اس میں اللہ تعالی کو کوئی بھی شرکت قطعا گوارہ نہیں۔
اللہ تعالی نے اپنے تمام نبیوں اور رسولوں کے بارے میں ارشاد فرمایا: {وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ
لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ (65)
بَلِ اللَّهَ فَاعْبُدْ وَكُنْ مِنَ الشَّاكِرِينَ} [الزمر: 65، 66] یقیناً
آپ کی طرف بھی اور آپ سے پہلے (کے تمام
نبیوں) کی طرف بھی وحی کی گئی ہے کہ اگر تم نے شرک کیا تو بلاشبہ تمھارا عمل ضائع
ہو جائے گا اور بالیقین تم زیاں کاروں میں سے ہوجاؤ گے بلکہ آپ اللہ ہی کی عبادت
کرو اور شکر کرنے والوں میں سے ہو جاؤ۔
ایک
اور مقام پر ارشاد فرمایا: {وَلَوْ
أَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ } [الأنعام: 88] اور اگر بالفرض
یہ حضرات (انبیاء)بھی شرک کرتے تو جو کچھ یہ اعمال کرتے تھے وه
سب اکارت ہوجاتے۔
ان
آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے یہاں سب سے بڑا اور سب سے اہم مسئلہ توحید اور
شرک کا ہے، شرک توحید کو ختم کرتا ہے
، شرک اعمال کو اکارت اور برباد کرتا ہے۔
شرک اس لائق بھی نہیں رہنے دیتا کہ کوئی شرک والے کے لئے سفارش کرسکے۔ چنانچہ ارشاد ہے: {مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا
لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ
أَصْحَابُ الْجَحِيمِ} [التوبة: 113] پیغمبر کو اور دوسرے
مسلمانوں کو جائز نہیں کہ مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا مانگیں اگرچہ وه رشتہ دار ہی
ہوں اس امر کےظاہر ہوجانے کے بعد کہ یہ
لوگ جہنمی ہیں۔
نبی
صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابوطالب اپنے بھتیجے محمد (e)
سے بے حساب محبت کرتے تھے اور ان کی ہمدردی اور نصرت واعانت میں کوئی کسر نہ چھوڑ
رکھی تھی، آپ کی خاطر اپنی پوری قوم سے دشمنی مول لے لی لیکن چونکہ انھوں نے آپ کی لائی ہوئی دعوت
توحید کو قبول نہیں کیا اس لئے اللہ کی رحمت کاملہ کے مستحق نہ ہوسکے، چنانچہ صحیح
بخاری وصحیح مسلم میں نہایت وضاحت اور صراحت کے ساتھ ان کے جہنمی ہونے کا ذکر موجود
ہے، البتہ نبی e کی
شفاعت کی بنا پر انھیں جہنم کا سب سے ہلکا عذاب دیا جائے گا، ان کے پاؤں میں آگ کی
دو جوتیاں پہنائی جائیں گی جس سے ان کا دماغ کھولتا رہے گا۔
اللہ
تعالی کا حکم یہ ہے کہ ذرہ برابر بھی شرک نہ کیا جائے۔ {وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا} [النساء:
36] اور اللہ
تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کچھ بھی شریک نہ کرو۔
اللہ
تعالی نے اپنے صالح بندوں کی علامت یہ بتائی ہے: { يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا} [النور: 55] وه میری ہی عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ
ٹھہرائیں گے۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے
حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: {قُلْ
إِنَّمَا أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ اللَّهَ وَلا أُشْرِكَ بِهِ إِلَيْهِ أَدْعُو وَإِلَيْهِ
مَآبِ} [الرعد:36].آپ اعلان کر دیجئے کہ
مجھے تو صرف یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اللہ کی عبادت کروں اور اس کے ساتھ شریک نہ
کروں، میں اسی کی طرف بلا رہا ہوں اور اسی کی جانب میرا لوٹنا ہے۔
مذکورہ
آیت میں یہ وضاحت کردی گئی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اللہ کا حکم کیا
تھا؟؟ آپ کے لئے اللہ کا حکم یہ تھا کہ خود بھی توحید پر عمل پیرا رہیں، شرک سے
دور رہیں اور اسی کی دعوت بھی دیں۔
یہاں
پر قابل غور نکتہ یہ ہے کہ توحید پر قائم رہنے اور شرک سے دور رہنے کا حکم اس ذات
کو دیا جارہا ہے جو توحید کو قائم کرنے اور شرک کو مٹانے کے لئے آئے تھے، جن کے
لئے شرک کرنا محال تھا، تو ہم جیسے کمزور ذہن ودماغ اور ضعیف القلب لوگوں کو یہ حکم کیوں نہ دیا
جائے؟؟ امام الموحدین ابراہیم علیہ السلام
اللہ سے دعا مانگا کرتے تھے: {وَاجْنُبْنِي
وَبَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنَامَ * رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيراً مِنَ
النَّاسِ} [إبراهيم:35 - 36]. اے میرے
پروردگار! مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی سے پناه دے۔ اے میرے پالنے والے معبود!
انہوں نے بہت سے لوگوں کو راه سے بھٹکا دیا ہے۔
ابراہیم
علیہ السلام کے بعد کون ہوگا کہ جو اپنی ذات کو شرک سے محفوظ سمجھے، اور اللہ سے
روروکر گڑگڑا کر یہ دعا نہ کرے کہ اے اللہ مجھے اور میری اولاد کو شرک سے محفوظ
رکھنا۔
توحید
کو سمجھانے کے لئے، توحید کی تعلیم دینے کے لئے، توحید کے بیان اور اس کی وضاحت کے
لئے قرآن کریم سے زیادہ آسان، زیادہ بہتر،
زیادہ عمدہ اور زیادہ قابل قبول کوئی اور طریقہ نہیں ہوسکتا، آیئے اس سلسلہ کی چند
آیات پڑھتے ہیں۔ اللہ تعالی نے فرمایا:
{قُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَامٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ
اصْطَفَى آللَّهُ خَيْرٌ أَمَّا يُشْرِكُونَ (59) أَمَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ
وَأَنْزَلَ لَكُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَنْبَتْنَا بِهِ حَدَائِقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ
مَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُنْبِتُوا شَجَرَهَا أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ بَلْ هُمْ قَوْمٌ
يَعْدِلُونَ (60) أَمَّنْ جَعَلَ الْأَرْضَ قَرَارًا وَجَعَلَ خِلَالَهَا أَنْهَارًا
وَجَعَلَ لَهَا رَوَاسِيَ وَجَعَلَ بَيْنَ الْبَحْرَيْنِ حَاجِزًا أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ
بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (61) أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ
وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ قَلِيلًا
مَا تَذَكَّرُونَ (62) أَمَّنْ يَهْدِيكُمْ فِي ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَمَنْ
يُرْسِلُ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ تَعَالَى
اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ (63) أَمَّنْ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَمَنْ
يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ
إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (64)} [النمل: 59 - 64] تو کہہ دے کہ تمام تعریف اللہ ہی کے لیے ہے اور اس کے
برگزیده بندوں پر سلام ہے۔ کیا اللہ تعالیٰ بہتر ہے یا وه جنہیں یہ لوگ شریک ٹھہرا
رہے ہیں بھلا بتاؤ تو؟ کہ آسمانوں کو اور زمین کو کس نے پیدا کیا؟ کس نے آسمان سے
بارش برسائی؟ پھر اس سے ہرے بھرے بارونق باغات اگا دیئے؟ ان باغوں کے درختوں کو تم
ہر گز نہ اگا سکتے، کیا اللہ کے ساتھ کوئی معبود اور بھی ہے؟ بلکہ یہ لوگ ہٹ جاتے
ہیں (سیدھی راه سے) کیا وه جس نے زمین کو قرار گاه بنایا اور اس کے درمیان نہریں
جاری کر دیں اور اس کے لیے پہاڑ بنائے اور دو سمندروں کے درمیان روک بنا دی ،کیا
اللہ کے ساتھ کوئی معبود اور بھی ہے؟ بلکہ ان میں سے اکثر کچھ جانتے ہی نہیں، بے
کس کی پکار کو جب کہ وه پکارے، کون قبول کرکے سختی کو دور کر دیتا ہے؟ اور تمہیں
زمین کا خلیفہ بناتا ہے، کیا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور بھی معبود ہے؟ تم بہت
کم نصیحت وعبرت حاصل کرتے ہو، کیا وه جو تمہیں خشکی اور تری کی تاریکیوں میں راه
دکھاتا ہے اور جو اپنی رحمت سے پہلے ہی خوشخبریاں دینے والی ہوائیں چلاتا ہے، کیا
اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی معبود ہے جنہیں یہ شریک کرتے ہیں ان سب سے اللہ بلند
وبالاتر ہے، کیا وه جو مخلوق کی اول دفعہ پیدائش کرتا ہے پھر اسے لوٹائے گا اور جو
تمہیں آسمان اور زمین سے روزیاں دے رہا ہے، کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے
کہہ دیجئے کہ اگر سچے ہو تو اپنی دلیل لاؤ ۔
اللہ
تبارک وتعالی نےقرآن مجید کے اندر نہایت کافی وشافی انداز میں توحید کو پوری طرح
کھول کھول کر بیان کردیا ہے، توحید کی خوبیاں، توحید والوں کا انجام، توحید کا حکم
اور فرضیت، اور اس کے بالمقابل شرک کی خرابیاں، شرک والوں کا انجام بد اور شرک کی
ممانعت کو بھی واضح کردیا ہے۔
لیکن شیطان --- اللہ ہم سب کو اس کے مکر وفریب اور
اس کی چالوں سے محفوظ رکھے---- شیطان نے جب قرآن کریم سے امت کے تعلق ووابستگی میں
کمی دیکھی تو جاہلوں کو گمراہ کرنے کی اس کی لالچ میں اضافہ ہوگیا۔ چنانچہ اس نے
شرک کو محبت اولیاء کا خوبصورت لباس پہنایا۔ اگر آپ کسی کو نصیحت کرتے ہوئے کہیں
کہ بھائی قبلہ رخ ہوکر دعا کرو کسی ولی کی قبر کی طرف رخ کرکے دعا نہ مانگو، اللہ
ہی سے مانگو، وہی زمین وآسمان کے خزانوں کا مالک ہے، تو وہ نادان آپ کو یہی جواب دے گا جو اسے شیطان
نے سکھایا ہے، وہ کہے گا تمھیں ولیوں کی قدر نہیں معلوم ، تم گستاخ اولیاء ہو،
جہالت کا عالم یہ ہے کہ اسے اللہ عز وجل کی قدر نہیں معلوم ، وہ اللہ کی گستاخی کا
مرتکب ہورہا ہے۔ لیکن یہ سب اس کی بے بصیرتی ، کتاب اللہ سے لاتعلقی ، سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دوری اور
صحابہ کرام وسلف صالحین کے طریقہ کار سے بے رغبتی کی بنا پر ہورہا ہے۔
یہ
بات خوب ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ محبت اولیاء عبادت ہے، عبادت ہمیں اسی طرح کرنی
چاہئے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم دی ہے، ہم کسی عبادت کو اپنے
من پسند انداز میں ادا نہیں کرسکتے۔ہم صلاۃ ویسے ہی پڑھیں گے جیسے اللہ کے نبی صلی
اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہے، زکاۃ ویسے ہی ادا کریں گے جیسے اللہ کے نبی صلی اللہ
علیہ وسلم کی تعلیم ہے، صوم ویسے ہی رکھیں گے جیسے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم
کی تعلیم ہے، حج ویسے ہی ادا کریں گے جیسے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی
تعلیم ہے، قربانی ویسے ہی کریں گے جیسے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم
ہے۔ اولیاء سے اسی طرح محبت رکھیں گے جیسے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی
تعلیم ہے، اور یہ بات یاد رہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی امتی
کو قطعا یہ اجازت نہیں دی ہے کہ اللہ کو چھوڑ کر کسی اور سے دعا کرے، کسی اور سے
مدد مانگے، کسی اور سے فریاد کرے، کسی اور سے حاجت روائی اور مشکل کشائی کا سوال
کرے، کعبہ کے بجائے کسی اور مقام کو اپنی دعاوں کا قبلہ بنائے۔ اللہ کے سوا کسی
اور کے لئے رکوع اور سجدہ کرے ۔ اللہ کے سوا کسی اور کی قسم کھائے۔ اللہ کے سوا
کسی اور کے لئے ذبیحہ کرے۔ کسی قسم کی تعویذ پہنے، کڑا یا چھلہ یا گنڈہ یا کوڑی یا
گھونگا لٹکائے۔ کسی قبر کی زیارت کے لئے سفر کرے۔
اولیاء
کا درجہ ومقام تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہے، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ
وسلم نے خود اپنی ذات کے بارے میں بار بار یہ تاکید کردی تھی کہ آپ کو اللہ کے
برابر نہ کیا جائے۔ آپ کا ارشاد ہے: «لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتْ النَّصَارَى
ابْنَ مَرْيَمَ فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ فَقُولُوا عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ».«میری تعریف میں اس
طرح حد سے تجاوز نہ کرنا جس طرح نصرانیوں نے عیسی بن مریم کی تعریف میں حد سے
تجاوز کیا ہے۔ میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں۔ مجھ کو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول
کہو»۔ (بخاری)
آپ نے واضح کردیا کہ معبود تو صرف اللہ ہے ، آپ
اس کے عبد اور رسول ہیں۔ مالک ومولی وہی
ہے، مختارکل وہی ہے، حاجت روا ومشکل کشا وہی ہے،
مددگار وکارساز وہی ہے، بلائیں ٹالنے والا اور بگڑی بنانے والا وہی ہے۔
کشتی کو پارلگانے والا وہی ہے، ہماری ہرعبادت کا حقدار وہی ہے، ہمارا رکوع اور
سجدہ اسی کے لئے ہونا چاہئے، ہماری ذبح وقربانی اسی کے لئے ہونی چاہئے، نذر ونیاز
صرف اسی کے لئے ہونی چاہئے، استعانت واستغاثہ صرف اسی سے کیا جانا چاہئے، مدد اسی
سے مانگنی چاہئے، فریاد اسی سے کرنی چاہئے، ڈرنا اسی سے چاہئے، امید اسی سے لگانی
چاہئے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ﮋ ﯹ ﯺ ﯻ
ﯼ ﯽ ﯾ ﯿ ﰀ
ﰁ ﰂ ﰃ ﮊ النور: ٥٢ (جو بھی اللہ تعالی کی اور اس کے رسول کی فرماں برداری کریں ، خوف الہی
رکھیں اور اس کے عذابوں سے ڈرتے رہیں، وہی نجات پانے والے ہیں)۔
اللہ تعالی نے
آیت مذکورہ میں واضح کردیا کہ اطاعت وفرماں برداری اللہ اور رسول دونوں کی ہوگی لیکن خشیت اور
تقوی اللہ کا خاص حق ہے جس میں رسول e بھی شریک نہیں ہیں۔
نیز ارشاد ہے: ﮋ ﯡ ﯢ
ﯣ ﯤ ﯥ
ﯦ ﯧ ﯨ ﮊ الشرح: ٧ – ٨ (پس جب تو فارغ ہو تو عبادت میں محنت کر اور اپنے پروردگار
ہی کی طرف دل لگا)۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ رغبت ،لالچ اور دل لگانا عبادت ہے
جو صرف اللہ کا حق ہے جس میں اس کا کوئی شریک نہیں۔
نیز ارشاد ہے: ﮋ ﭶ ﭷ ﭸ
ﭹ ﭺ ﭻ ﭼ ﭽ
ﭾ ﮊ الأنفال: ٦٤ (اے نبی! تجھے اللہ کافی ہے اور ان مومنوں کو جو تیری پیروی
کررہے ہیں)۔
اس آیت میں اللہ نے بتایا کہ کافی ہونا صرف اللہ کا حق ہے۔
نیز ارشاد ہے: ﮋ
ﯽ ﯾ
ﯿ ﰀ ﰁ
ﰂ ﰃ ﮊ المائدہ/۲۳ (اور تم اگر مومن ہو
تو تمھیں اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔)
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ توکل صرف اللہ کا حق ہے
لہذا اگر کوئی یہ کہے کہ مجھے اللہ و رسول
پر توکل اور بھروسہ ہے تو اس نے شرک کا ارتکاب کیا ۔
نیز ارشاد ہے: ﮋ ﮏ ﮐ ﮑ
ﮒ ﮓ ﮔ
ﮕ ﮖ ﮗ
ﮘﮙ ﮚ ﮛ ﮜ ﮝ ﮊ القصص: ٥٦ (آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں کرسکتے بلکہ اللہ تعالی ہی جسے
چاہے ہدایت کرتا ہے ۔ ہدایت والوں سے وہی خوب آگاہ ہے)۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ
دلوں کا مالک اللہ ہے، دلوں میں ہدایت ڈالنا صرف اللہ کا کام ہے ،رسول اللہ
e کا کام نہیں ہے۔
نیز ارشاد ہے: ﮋ ﭢ ﭣ ﭤ
ﭥ ﭦ ﮊ الفاتحہ: ٥ (ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد چاہتے
ہیں)۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ مدد صرف اللہ سے مانگنی چاہئے جس نے
غیر اللہ کو مدد کے لئے پکارا اس نے شرک کیا، جس نے یا رسول اللہ مدد پکارا اس نے
شرک کیا۔ جس نے یا علی مدد، یاحسین مدد، یا خواجہ مدد اور یا غوث مدد پکارا اس نے شرک کیا۔
شرک سے اگر انسان بچا رہے تو اللہ کی مغفرت اسے کیسے حاصل ہوتی ہے، اسے معلوم کرنے کے لئے آیئے ایک حدیث قدسی پڑھتے ہیں۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ - رضي الله تعالى عنه - قَالَ: سَمِعْتُ
رَسُولَ اللهِ – صلى الله عليه وسلم - يَقُولُ: «قَالَ اللّٰهُ تَبَارَكَ
وَتَعَالَى: يَا ابْنَ آدَمَ, إِنَّكَ مَا دَعَوتَنِيْ وَرَجَوتَنِيْ غَفَرْتُ لَكَ
عَلَىٰ مَا كَانَ فِيْكَ وَلَا أُبَالِيْ، يَا ابْنَ آدَمَ لَو بَلَغَتْ ذُنُوبُكَ
عَنَانَ السَّمَاءِ ثُمَّ اسْتَغْفَرْتَنِيْ غَفَرْتُ لَكَ وَلَا أُبَالِيْ، يَا ابْنَ
آدَمَ إِنَّكَ لَو أَتَيْتَنِيْ بِقُرَابِ الْأَرْضِ خَطَايَا ثُمَّ لَقِيْتَنِيْ لَا
تُشْرِكْ بِيْ شَيْئًا لَأَتَيْتُكَ بِقُرَابِهَا مَغفِرَةً». رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ
وَقَالَ: حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحَيْحٌ. وصححه الألباني رحمه الله أيضاً.
ترجمہ: انس t سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ e کو فرماتے سنا: «اﷲتعالی نے فرمایا ہے: اے آدم کے بیٹے ! تو جب
بھی مجھ سے دعا کرتا ہے اور مجھ سے امید لگاتا ہے تو تیرے ہر طرح کے عمل کے باوجود
میں تجھے بخش دیتا ہوں, اور میں کوئی پرواہ نہیں کرتا۔ اے آدم کے بیٹے! اگر تیرے
گناہ آسمان کی بلندیوں کو پہنچ جائیں, پھر تو مجھ سے مغفرت طلب کرے, تو میں تجھے
بخش دوں گا, اور میں کوئی پرواہ نہیں کروں گا۔ اے آدم کے بیٹے ! اگر تو میرے پاس
زمین بھر غلطیاں لے کے آیا, پھر مجھ سے تو نے اس حالت میں ملاقات کی کہ میرے ساتھ
کچھ بھی شرک نہ کرتا تھا, تو میں تیرے پاس زمین بھر مغفرت لے کے آؤں گا۔ (اسے ترمذی
نے روایت کیا ہے اور حسن صحیح قرار دیا ہے)۔
اس حدیث میں مغفرت کے تین اسباب ذکر کئے گئے ہیں: ¡۔ دعا وامید ¢۔ استغفار £۔ شرک سے اجتناب۔
جہاں تک دعا کا معاملہ ہے تو اﷲ تعالی نے دعا کا حکم دیا ہے
اور قبولیت کا وعدہ کیا ہے۔ ارشاد ہے: ﮋ ﭝ
ﭞ ﭟ ﭠ ﭡ ﮊ غافر: ٦٠ [اور تمھارے رب کا فرمان ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمھاری
دعاؤں کو قبول کروں گا]۔
جہاں تک استغفار کا معاملہ ہے تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ بندہ
اﷲسے مغفرت طلب کرے۔ مغفرت کا مطلب یہ ہے کہ اﷲعیب کو چھپادے اور اسے معاف کردے۔
دنیا میں لوگوں کو اس کے گناہ کی اطلاع نہ ہونے پائے, تاکہ کوئی فضیحت نہ ہو, اور
آخرت میں بھی معاف ہوجائے۔ حدیث میں ہے کہ : «بروز قیامت اﷲتعالی مومن بندے کے
ساتھ خلوت میں ہوکر اس کے گناہوں کا اعتراف کرائے گا, پھر فرمائے گا: میں نے دنیا میں تیرے ان گناہوں
پر پردہ ڈال رکھا تھا, اور آج میں انھیں تیرے لئے بخش دیتا ہوں»۔ (بخاری ومسلم)
استغفار کے لئے سب سے شاندار الفاظ وہ
ہیں جنھیں حدیث میں سیدالاستغفار کا نام دیا گیا ہے, اور جس کے الفاظ اس طرح
ہیں: «اَللّٰهُمَّ
أَنْتَ رَبِّي, لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ, خَلَقْتَنِيْ وَأَنَا عَبْدُكَ, وَأَنَا
عَلَىٰ عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ, أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ,
أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ, وَأَبُوءُ لَكَ بِذَنْبِيْ, فَاغْفِرْ لِيْ, فَإِنَّهُ
لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ». (ترجمہ:اے اﷲتو میرا رب ہے، تیرے سوا کوئی عبادت کے
لائق نہیں، تونے مجھے پیدا کیا ہے, میں تیرا بندہ ہوں, میں تیرے عہد اور وعدے
پر(قائم) ہوں جس قدر طاقت رکھتا ہوں, میں نے جو کچھ کیا اس کے شر سے تیری پناہ
چاہتا ہوں, اپنے آپ پر تیری نعمت کا اقرار کرتا ہوں,تجھ سے اپنے گناہ کا
اعتراف کرتا ہوں, پس مجھے بخش دے, کیونکہ تیرے سوا کوئی گناہوں کو نہیں بخش سکتا)۔
سید الاستغفار کے بارے میں نبی e
کا ارشاد ہے کہ« اگر کوئی بندہ یقین کے ساتھ اسے صبح میں پڑھ لے اور شام ہونے سے
پہلے اسی دن اس کی موت ہوجائے تو جنت میں داخل ہوگا, اور اگر یقین کے ساتھ یہ دعا
رات میں پڑھ لے اور صبح ہونے سے پہلے مرجائے تو جنت میں داخل ہوگا»۔ (بخاری)
واضح رہے کہ زبانی طور پر استغفار کے
کلمات دہراتے رہنا اور گناہ پر اصرار کئے جانا قطعاً سود مند نہیں, اسے صرف ایک
دعا کی حیثیت حاصل ہوگی, اﷲچاہے تو قبول کرے ورنہ ردکردے۔ فائدہ مند استغفار وہ ہے
جس میں دل وزبان کی موافقت ہو، اپنے کئے پر شرمندگی ہو, اور دوبارہ گناہ کی طرف نہ
پلٹنے کا پختہ عزم ہو۔
حدیث
میں شرک سے اجتناب کو مغفرت کا تیسرا سبب قرار دیا گیا ہے۔درحقیقت شرک سے اجتناب
اور توحید کا اختیارمغفرت کی اساس اور اس کا سب سے عظیم سبب ہے۔ جس کے پاس توحید نہیں اس کی مغفرت نہیں۔ جس کے پاس توحید ہے اس کے لئے جہنم سے نجات
اور جنت میں داخلہ یقینی ہے۔ ارشاد باری ہے: ﮋ ﮢ
ﮣ ﮤ ﮥ
ﮦ ﮧ ﮨ
ﮩ ﮪ ﮫ
ﮬ ﮭ ﮮ ﮊ النساء: ٤٨ [یقیناً
اﷲتعالی اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشتا اور اس سے کم تر جو گناہ ہو جس
کے لئے چاہے بخش دیتا ہے]۔
جو شخص کلمۂ توحید کا پورا پابند تھا,
اور جس نے اپنے دل میں اﷲکی محبت وتعظیم،
ہیبت وجلال، خوف وخشیت، توکل واعتماد، اور امیدوبیم پیدا کی اور غیراللہ
کی محبت وتعظیم، ہیبت وجلال، خوف وخشیت، توکل
واعتماد، اور امیدوبیم نکال باہر کی, اس کے گناہ جل اٹھیں گے, خواہ سمندر کے جھاگ
کے برابر کیوں نہ ہوں, اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نیکیوں میں بدل جائیں۔
شرک
ایسا منحوس اور خطرناک عمل ہے جس کے ہوتے ہوئے انسان کی مغفرت نہیں ہوسکتی۔شرک اس
روئے زمین پر کئے جانے والے گناہوں میں سب سے بڑا گناہ ہے۔ شرک کرنے والے انسان پر
جنت حرام ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
اﷲ
تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی توحید پر ثابت قدم رکھے, اور شرک سے ہماری حفاظت
فرمائے۔ آمین
وآخر
دعوانا أن الحمد لله رب العالمين وصلی الله علی نبينا وسلم.
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق