أسباب التخلص من
الهوى لابن القيم رحمه الله تعالى
نفسانی
خواہشات سے
نجات کے ذرائع
تألیف
امام ابن القیم
رحمہ اللہ
ترجمانى
عبد الہادی عبد
الخالق مدنی
داعیہ احساء
اسلامک سینٹر ہفوف سعودی عرب
بسم اللہ
الرحمن الرحیم
مقدمہ
نفسانی
خواہشات کی پیروی دنیا وآخرت کی بہت ساری بلاؤں کا سبب ہے اور اس کی مخالفت بہت
ساری بھلائیوں کا ضامن۔ ایسے لوگ جو نفسانی خواہشات کے جال میں گرفتار ہوجاتے ہیں اس
سے آزادی بڑی مشکل ہوتی ہے لیکن اللہ کی توفیق پھر بندہ کی ہمت وعزیمت سے ہرکام
آسان ہوجاتا ہے۔
زیر
نظر رسالہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کے افادات علمیہ میں سے ہے جس کے اندر خواہشات
کے دام فریب میں گرفتار لوگوں کے لئے انتہائی مؤثر، دلکش اور شگفتہ اسلوب میں 50
علاج تجویز کیا گیا ہے۔ علامہ کا نام لے لینا ہی کسی تحریر کی قیمت وافادیت بتلانے
کے لئے کافی ہے۔اردوداں طبقہ کے استفادے کے لئے اسے اردو کے قالب میں منتقل کیا
گیا ہے نیز موضوع کی تفہیم وتسہیل کی خاطر عناوین کا اضافہ کردیا گیا ہے۔
اللہ
تعالیٰ سے دعا ہے کہ مولائے کریم زیر نظر رسالہ کے مؤلف، مترجم اور اس کی
نشرواشاعت میں معاون تمام افراد کو جزائے خیر سے نوازے۔آمین
دعاگو
عبد الہادی عبد
الخالق مدنی
کاشانۂ
خلیق۔اٹوابازار۔ سدھارتھ نگر۔ یوپی۔ انڈیا
داعی احساء اسلامک
سینٹر۔ سعودی عرب
O
خواہش کا مفہوم:
اپنی
طبیعت اور مزاج کے موافق کسی چیز کی طرف میلان کا نام خواہش ہے۔ انسانی بقا کے پیش
نظر انسان کے اندر اس میلان اور خواہش کی تخلیق کی گئی ہے۔ کیونکہ اگر انسان کے
اندر کھانے پینے اور نکاح کرنے کا میلان نہ ہو تو کھانے پینے اور نکاح سے رک جانے
کی وجہ سے ہلاک ہوجائے۔
خواہش
انسان کو اپنا مقصد ومراد حاصل کرنے پر آمادہ کرتی ہے جیسا کہ غصہ وغضب انسان سے
اذیت رساں چیزوں کو دفع کرتا ہے لہذا خواہش نہ ہی مطلقاً قابل مذمت ہے اور نہ ہی
مطلقاً قابل تعریف۔ جیسا کہ غضب ہے کہ نہ وہ مطلقاً مذموم ہے اور نہ ہی مطلقاً
محمود۔بلکہ خواہش یا غضب دونوں کی برائی میں قدرے تفصیل ہے۔ وقت، حالات اور مواقع
کے لحاظ سے کبھی یہ بہتر ہوتے ہیں اور کبھی بدتر۔
خواہش
کی مذمت کیوں؟
چونکہ
بیشتر خواہشات کے پیچھے چلنے والے، شہوات کا اتباع کرنے والے، غضب پرست لوگ نفع
بخش حد پر نہیں رکتے، اس لئے عمومی غلبۂ ضرر کو دیکھتے ہوئے خواہش، شہوت اور غضب
کی مذمت مطلقاً کردی جاتی ہے کیونکہ بہت کم ایسے لوگ ہیں جو ان قوتوں میں عدل
کرسکتے ہوں اور حدود پر ٹھہرجاتے ہوں۔ جیسا کہ مزاجوں میں ہوتا ہے کہ ہر طرح سے
معتدل مزاج انسان کمیاب ہوتے ہیں، کسی نہ کسی خلط اور کیفیت کا غلبہ ضرور ہوتا
ہے۔لہذا ایک ناصح کو شہوت وغضب کی قوتوں کو اعتدال پر لانے کی پوری کوشش کرنی
چاہئے۔
چونکہ خواہش میں اعتدال افراد عالم کی اکثریت کے
لئے نہایت ہی دشوار ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جب جب خواہش کا ذکر
کیا تو اس کی مذمت فرمائی اور حدیث نبوی میں بھی اس کی مذمت ہی آئی ہے البتہ جب
کوئی قید اور تخصیص ہو تو معاملہ مختلف ہوجاتاہے جیسا کہ نبی صلى الله عليہ وسلم نے فرمایا :
''تم میں سے اس وقت تک کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب
تک کہ اس کی خواہشات میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ ہوجائیں''۔ (شرح السنة)
یہ
مقولہ مشہور ہے کہ خواہش غیر محفوظ جائے پناہ ہے۔
امام
شعبی فرماتے ہیں کہ خواہش،خواہش پرست کو پستی میں گرادیتی ہے۔ انجام کی فکر کے
بغیر وقتی لذت کی طرف بلاتی اور فوری طور پر شہوت پوری کرنے کے لئے آمادہ کرتی ہے
خواہ اس کی بنا پر دنیا وآخرت میں عظیم آلام ومصائب کا سامنا کرنا پڑے۔
واضح
رہے کہ آخرت سے پہلے دنیا میں ہی ہر عمل کا ایک انجام ہوتا ہے لیکن خواہش انسان کی
عاقبت اندیشی ختم کرکے اسے انجام کے دیکھنے سے اندھا کردیتی ہے۔ جبکہ عقل اور دین
ومروت انسان کو ہر ایسی لذت و شہوت سے روکتے ہیں جن کا انجام ندامت وشرمندگی اور
درد والم ہو۔ نفس جب ان لذتوں اور شہوتوں کی طرف بڑھتا ہے تو دین وعقل ومروت میں
سے ہر ایک اس سے مخاطب ہوکے کہتے ہیں کہ ایسا نہ کر۔ لیکن اطاعت اسی کی ہوتی ہے جو
غالب ہو۔
آپ
دیکھتے ہیں کہ ایک بچہ اپنی خواہش کو ترجیح دیتا ہے خواہ اس کے نتیجے میں بربادی
ہاتھ آئے کیونکہ وہ عقل کا کچا ہوتا ہے۔ایک بے دین آدمی اپنی خواہش کو ترجیح دیتا
ہے خواہ اس کا نتیجہ آخرت کی تباہی ہو کیونکہ وہ دین کا کچا ہوتا ہے اور ایک بے
مروت انسان اپنی خواہش کو ترجیح دیتا ہے خواہ اس کی مروت داغدار یا ختم ہوجائے
کیونکہ وہ مروت کا کچا ہوتا ہے۔
امام
شافعی رحمہ اللہ کا یہ قول سنہرے حروف سے لکھنے کے قابل ہے کہ اگر مجھے معلوم
ہوجائے کہ ٹھنڈا پانی پینے سے میری مروت میں خلل پڑے گا تو میں اسے نہیں پی سکتا
!!
خواہشات
آزمائش ہیں:
چونکہ
انسان کا امتحان خواہشات کے ذریعے رکھا گیا ہے اور وہ ہروقت کسی نہ کسی حادثہ سے دوچار
ہوتا رہتا ہے، اس لئے اس کے وجود میں دوحاکم بنا دئیے گئے، ایک عقل اور دوسرا دین۔
پھرانسان کو حکم دیا گیا کہ خواہشات کے حوادث کو ہمیشہ ان دونوں حاکموں کے پاس لے
جائے اور ان کے فیصلوں پر سرتسلیم خم کرے۔ انسان کو چاہئے کہ ایسی خواہشات کو بھی
دبانے کی عادت ڈالے جن کا انجام مامون ومحفوظ ہو، تاکہ اس میں اذیت ناک انجام والی
خواہشات کے چھوڑ دینے کی قوت پیدا ہو۔
خواہش
کی غلامی سے نجات کیسے؟
اگر
یہ سوال کیا جائے کہ اس شخص کے نجات کی کیا صورت ہے جو خواہشات کا غلام بن چکا ہے؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ الله کی توفیق اور
مدد سے آئندہ سطور میں ذکر کئے گئے چند امور کے اپنانے سے اس کی نجات ممکن ہے۔
آزادانہ
عزیمت:
١۔
ایسی آزادانہ عزیمت جس میں اپنے نفس کے موافق ومخالف غیرت موجود ہو۔
صبر کا
تلخ گھونٹ:
٢۔
صبر کا تلخ گھونٹ جس کی تلخی گوارہ کرنے پر اس گھڑی اپنے نفس کو آمادہ کرسکے۔
نفسانی
قوت:
٣۔
وہ نفسانی قوت جو اس تلخ گھونٹ کے پینے پر حوصلہ افزائی کرے۔ درحقیقت شجاعت ایک
گھڑی کی صبر ہی کا نام ہے۔ اور وہ زندگی کتنی پرکیف زندگی ہے جسے بندہ نے اپنے صبر
سے پایا ہو۔
عاقبت
اندیشی:
٤۔
حسن عاقبت اور خوش انجامی کو پیش نظر رکھنا اور اس کو تلخی کا علاج سمجھنا۔
لذت
والم کا موازنہ:
٥۔
اس بات کو مدنظر رکھنا کہ خواہشات کی لذت سے وہ تکلیف اور سزا کہیں زیادہ ہے جو اس
کے نتیجہ میں آتی ہے۔
اپنے
مقام ومرتبہ کا خیال:
٦۔الله
کے نزدیک اور اس کے بندوں کے دلوں میں موجود اپنے مقام ومرتبہ کو بچانے کی کوشش
کرنا کیونکہ یہ چیز خواہشات کی لذت سے بہت بہتر اور زیادہ سودمند ہے۔
پاکدامنی
کی مٹھاس کو ترجیح:
٧۔
عفت وپاکدامنی کی لذت ومٹھاس کو گناہ ومعصیت کی لذت پر ترجیح دینا۔
شیطان
کی عداوت:
٨۔
اس بات پر خوش ہونا کہ اپنے دشمن (شیطان )پر غلبہ حاصل کرلیا اور اسے غیظ وغضب اور
فکر وغم کے ساتھ ناکام ونامراد واپس کردیا اور اس کی امید وآرزو پوری نہ ہوسکی۔
معلوم
ہونا چاہئے کہ الله تعالیٰ کو اپنے بندے
سے متعلق یہ بات بہت پسند ہے کہ وہ اپنے دشمن کی ناک مٹی میں ملائے اور اسے غصہ
دلائے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد باری ہے :
{وَلَا يَطَئُونَ مَوْطِئًا يَغِيظُ
الْكُفَّارَ وَلَا يَنَالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَيْلًا إِلَّا كُتِبَ لَهُمْ بِهِ عَمَلٌ
صَالِحٌ} [التوبة: 120]
(اور جو کسی ایسی جگہ چلے جو کفار کے لئے
موجب غیظ ہوا ہو اور دشمنوں کی جوکچھ خبر لی ان سب پر ان کے نام [ایک ایک]
نیک کام لکھا گیا۔)
نیز فرمایا:
{لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ}
[الفتح: 29]
(تاکہ ان کی وجہ سے کافروں کو چڑائے۔)
نیزفرمایا :
{وَمَنْ يُهَاجِرْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ
يَجِدْ فِي الْأَرْضِ مُرَاغَمًا كَثِيرًا وَسَعَةً} [النساء: 100]
(جو کوئی الله کی راہ میں وطن کو چھوڑے گا
وہ زمین میں بہت سی قیام کی جگہیں بھی پائے گا اور کشادگی بھی۔)
قیام
کی جگہوں سے مراد وہ جگہیں ہیں جن کے ذریعے الله کے دشمنوں کی ناک مٹی میں ملا
سکے۔
سچی
محبت کی علامت یہ ہے کہ محبوب کے دشمنوں کو مبتلائے غیظ کیا جائے اور ان کی ناک
خاک آلود کی جائے۔
مقصد
تخلیق پر غور:
٩۔
اس بات پر غور کرنا کہ اس کی تخلیق خواہشات کے پیچھے چلنے کے لئے نہیں ہوئی بلکہ ایسے
عظیم کام کے لئے اسے وجود بخشا گیا ہے جس کا پانا خواہشات سے دوری کے بغیر ناممکن
ہے۔
تمیز
نفع وضرر:
١٠۔اپنے
نفس کو ایسی چیزوں کا خوگر نہ بنائے جس کی بنا پر ایک بے عقل چوپایہ اس سے بہتر
قرار پائے کیونکہ حیوان طبعی طور پر اپنے نفع وضرر کی تمیز کرلیتا ہے اور نقصان پر
فائدہ کو ترجیح دیتا ہے۔ انسان کو اسی مقصد کی خاطر عقل سے نوازا گیا،اگر وہ نفع
وضرر میں تمیز نہ کرسکے یا تمیز ومعرفت کے باوجود ضرر کو ترجیح دے تو ظاہر ہے کہ
ایک بے خرد چوپائے کی حالت اس سے بہتر قرار پائے گی۔
برے
انجام پر غور:
١١۔
اپنے دل میں خواہشات کے انجام پر غور کرے اور دیکھے کہ گناہوں اور نافرمانیوں کی
بنا پر کتنی فضیلتیں فوت ہوگئیں اور کتنی ذلتوں سے ہمکنار ہونا پڑا۔ایک لقمہ نے
کتنے لقموں سے محروم کردیا۔ ایک لذت نے کتنی لذتوں سے دور کردیا۔
کتنی
ہی خواہشات اور شہوتیں ایسی ہیں جو انسان کی شان وشوکت کو مٹی میں ملادیتی ہیں۔ اس
کا سر جھکادیتی اور اس کی نیک نامی کو بدنامی سے بدل دیتی ہیں۔ اس کی رسوائی کا
سامان فراہم کرتی اور اس کے وجود کو ایسی ذلت وعار سے لت پت کردیتی ہیں جسے پانی
سے دھوکر صاف نہیں کیا جاسکتا مگر کیا کیا جائے کہ خواہش پرست کی آنکھیں اندھی
ہوجاتی ہیں۔
کیا
کھویا کیا پایا؟
١٢۔
جس سے اس کی خواہش متعلق ہے اس سے مقصد کی تکمیل کے بعد کا تصور کرے اور ضرورت
پوری ہونے کے بعد اپنی حالت کا جائزہ لے اور غور کرے کہ اس نے کیا کھویا اور کیا
پایا۔
اپنی
ذات شریف:
١٣۔
دوسروں کے بارے میں اس بات کا کما حقہ تصور کرے پھر اپنے آپ کو اس مقام پر لے جائے
اور دیکھے :کیا دونوں معاملے میں اس کی عقل کا فیصلہ ایک ہی ہے ؟؟
عقل
ودین کا فیصلہ:
١٤۔
اپنے نفس کے مطالبہ پر غور کرے اور اپنی عقل اور اپنے دین سے اس کے متعلق دریافت
کرے،یہ دونوں اسے بتائیں گے کہ یہ کوئی اہم بات نہیں ہے۔
عبد اللہ بن مسعود رضي الله عنه فرماتے ہیں: جب تم میں سے کسی شخص کو کوئی عورت
اچھی لگے تو اس کی گندی اور بدبو دار جگہوں کا خیال کرے (وہ بری لگنے لگے گی )۔
ذلت سے
برتری:
١٥۔
خواہش کی غلامی کی ذلت سے اپنے آپ کو بلند تصور کرے۔ جو شخص ایک بار بھی اپنی
خواہش کے پیچھے چلتا ہے لازمی طور پر اپنے آپ میں ذلت محسوس کرتا ہے۔ بندگانِ
خواہشات کے اکڑفوں اور کبر وغرور سے دھوکا نہیں کھانا چاہئے کیونکہ وہ اندرونی طور
پر کافی ذلیل اور پست ہوتے ہیں لیکن عجب انداز سے ذلت وغرور (احساس کمتری وبرتری)
دونوں ان میں یکجا ہوتا ہے۔
خیر
وشر کا موازنہ:
١٦۔
دین وآبرو اور مال وجاہ کی سلامتی ایک طرف اور مطلوبہ لذت کا حصول ایک طرف، دونوں
میں موازنہ کرے۔ان دونوں کے درمیان قطعی کوئی نسبت نہیں۔ اس سے بڑا نادان کون ہوگا
جو ایک کے بدلہ میں دوسرے کو فروخت کرے۔!
بلند
ہمتی:
١٧۔
اپنے دشمن کے زیر اقتدار اور اس کے قابو میں رہنے سے اپنے آپ کو بلند تصور کرے
کیونکہ شیطان جب بندہ میں ہمت وعزیمت کی کمزوری اور خواہشات کی طرف جھکاؤ اور
میلان دیکھتا ہے تو اس کو زیر کرنے کی لالچ کرتا ہے اور موقع پاتے ہی اسے چت
کردیتا اور خواہشات کی لگام پہنا کر جہا ں چاہتا ہے لے جاتا ہے۔ لیکن شیطان جب
بندہ میں قوت وعزیمت، شرف نفس اور علوہمت دیکھتا ہے تو اس کی اسیری کا حریص نہیں
ہوتا البتہ چوری، چپکے اور دھوکے سے اسے ضرور نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔
خواہش
کے نقصانات:
١٨۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ خواہش جس چیز میں مل جاتی ہے اسے بگاڑ کے رکھ دیتی ہے۔
اگر علم میں خواہش نفس کی ملاوٹ ہوجائے تو بدعت
وضلالت جنم لیتی ہے اور ایسا عالم خواہش پرستوں کی صف میں شامل ہوجاتا ہے۔
اگر زہد میں اس کی آمیزش ہوجائے تو ریاکاری اور
سنت رسول سے روگردانی پیدا ہوجاتی ہے۔
اگر
فیصلہ کرنے میں اس کی ملاوٹ ہوجائے تو حق تلفی پر اکساتی ہے اور انسان کو ظالم
بنادیتی ہے۔
اگر
تقسیم میں اس کی ملاوٹ ہوجائے تو عادلانہ کے بجائے اسے ظالمانہ بنادیتی ہے۔
اگر
مناصب کی تولیت ومعزولی میں اس کی ملاوٹ ہوجائے تو انسان الله تعالیٰ اور مسلمانوں
کی خیانت میں مبتلا ہوجاتا ہے پھر وہ اپنی خواہش سے اہلیت وصلاحیت کو دیکھے بغیر
جسے چاہتا ہے عہدہ ومنصب سے نوازتا ہے اور جسے چاہتا ہے اس سے معزول کرتا ہے۔
اگر
عبادت میں خواہش کی ملاوٹ ہوجائے تو وہ اطاعت اور تقرب کا ذریعہ باقی نہیں رہ جاتی۔
غرضیکہ جس چیز میں بھی خواہش نفس کی ملاوٹ
ہوجاتی ہے اسے بگاڑ کے رکھ دیتی ہے۔
شیطان
کا چور دروازہ:
١٩۔
یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ نفسانی خواہشات ہی کے چور دروازے سے شیطان انسان پر
داخل ہوتا ہے۔ انسان کے دل ودماغ، فکرونظر، اور اعمال وکردار میں فساد اور بگاڑ
پیدا کرنے کے لئے شیطان دروازے کی تلاش میں ہوتا ہے پھر جب خواہشات کا دروازہ
پاجاتا ہے تو اس کے ذریعہ داخل ہوکر تمام اعضاء میں زہر کی طرح پھیل جاتا ہے۔
شریعت
کی خلاف ورزی:
٢٠۔
الله سبحانہ وتعالیٰ نے خواہشا ت کو اپنے رسول پر نازل کردہ شریعت کے منافی بنایا
ہے اورخواہشات کی اتباع کو رسول کی اتباع کے مقابل قرار دیا ہے نیز لوگوں کی دو
قسمیں بتائی ہیں: ایک وہ جو وحی کا اتباع کرتے ہیں، دوسرے وہ جو خواہشات کے پیچھے
چلتے ہیں۔ قرآن مجید میں اس کا ذکر بکثرت ہوا ہے۔ فرمان باری ہے:
{فَإِنْ لَمْ يَسْتَجِيبُوا لَكَ
فَاعْلَمْ أَنَّمَا يَتَّبِعُونَ أَهْوَاءَهُمْ} [القصص: 50]
(پھر اگر یہ آپ کی بات نہ مانیں توآپ یقین
کرلیں کہ یہ صرف اپنی خواہش کی پیروی کررہے ہیں۔)
دوسری جگہ ارشاد ہے :
{وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ
بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ}
[البقرة: 120]
(اور اگر آپ نے باوجود اپنے پاس علم آجانے
کے پھر ان کی خواہشوں کی پیروی کی تو الله کے پاس آپ کا نہ تو کوئی ولی ہوگا اور
نہ مددگار۔)
اس طرح کی اور بھی دیگر آیات ہیں۔
حیوانات
کی مشابہت:
٢١۔
الله تعالیٰ نے خواہش پرستوں کی تشبیہ ان حیوانات سے دی ہے جو صورت ومعنی دونوں
لحاظ سے سب سے حقیر اور خسیس مانے جاتے ہیں۔ کبھی کتے سے تشبیہ دی اور فرمایا :
{وَلَكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ
وَاتَّبَعَ هَوَاهُ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ} [الأعراف: 176]
(لیکن وہ تو دنیا کی طرف مائل ہوگیا اور
اپنی نفسانی خواہش کی پیروی کرنے لگا سو اس کی حالت کتے کی سی ہوگئی۔)
اور کبھی گدہے سے تشبیہ دی اور فرمایا:
{كَأَنَّهُمْ حُمُرٌ مُسْتَنْفِرَةٌ
(50) فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ } [المدثر: 50، 51]
( گویا کہ وہ بدکے ہوئے گدہے ہیں جو شیر سے
بھاگے ہوں)۔
اور کبھی الله تعالیٰ نے ان کی صورتیں
بندروں اور سوروں کی شکل میں تبدیل فرمادی۔
نا
اہلی ونالائقی:
٢٢۔
خواہش کا پیروکار قیادت وسیادت اور امامت وپیشوائی کا اہل نہیں ہوتااور نہ ہی اس
لائق ہوتا ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے اور بات مانی جائے اسی ناطے الله تعالیٰ نے
ایسے شخص کو امامت سے معزول فرمایا ہے اور اس کی بات ماننے سے روکا ہے۔ الله
تعالیٰ نے اپنے خلیل ابراہیم علیہ السلام کو مخاطب کرکے فرمایا :
{إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا
قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ} [البقرة: 124]
(میں تمھیں لوگوں کا امام بنادوں گا، عرض
کرنے لگے اور میری اولادکو، فرمایا : میرا وعدہ ظالموں سے نہیں۔)
یعنی
خواہش کے پیروکار سب کے سب ظالم ہیں لہذا اس وعدہ کے مستحق نہیں ہیں جیسا کہ الله تعالیٰ نے مزید فرمایا:
{بَلِ اتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا
أَهْوَاءَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ} [الروم: 29]
(بلکہ بات یہ ہے کہ ظالم تو بغیر علم کے
خواہش کے پیچھے چل رہے ہیں۔)
ایک
اور مقام پر الله تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی اطاعت سے منع کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
{وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ
عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا} [الكهف: 28]
(دیکھ اس کا کہنا نہ ماننا جس کے دل کو ہم
نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے اور جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور جس کا
کام حد سے گذر چکا ہے۔)
بت
پرستی:
٢٣۔
الله تعالیٰ نے خواہش پرست کو بت پرست کے درجہ میں رکھا ہے۔ فرمایا: {أَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ
هَوَاهُ} [الفرقان: 43]
(کیا آپ نے اسے بھی دیکھا جو اپنی خواہش
نفس کو اپنا معبود بنائے ہوئے ہے)۔
الله
تعالیٰ نے یہ بات دو مقامات پر ارشاد فرمائی۔
امام
حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس سے وہ منافق مراد ہے کہ جس چیز کی بھی خواہش کرتا
ہے کربیٹھتا ہے۔نیز یہ بھی فرمایا کہ منافق اپنی خواہشات کا غلام ہوتا ہے،اس کا
نفس جس بات کی خواہش کرتا ہے وہ کرتا جاتا ہے۔
جہنم
کا باڑھ:
٢٤۔نفسانی
خواہشات ہی جہنم کا باڑھ ہیں، اسی سے جہنم گھری ہوئی ہے لہذا جو نفسانی خواہشات کا
شکار ہوگا جہنم سے دوچار ہوگا۔ جیسا کہ صحیحین میں نبی صلى الله عليه وسلم کا
ارشاد ہے:
''جنت کو ناپسندیدہ چیزوں سے اور جہنم کو
نفسانی خواہشات سے گھیردیا گیا ہے''۔
ترمذی میں ابوہریرہ رضى الله عنه سے
مرفوعاً روایت ہے کہ :
''جب الله تعالیٰ نے جنت کی تخلیق فرمائی،
جبریل علیہ السلام کو یہ حکم دے کر بھیجا
کہ جنت کو اور اہل جنت کے لئے جوکچھ میں نے اس میں تیار کر رکھا ہے اس کو دیکھ کر
آؤ۔چنانچہ جب وہ جنت دیکھ کر واپس ہوئے تو کہا : تیری عزت کی قسم! تیرا جو بندہ اس
کے بارے میں سنے گا وہ ضرور اس میں داخل ہوگا۔ پھر الله تعالیٰ کے حکم سے جنت کو
ناگوار چیزوں سے گھیر دیا گیا۔ الله تعالیٰ نے جبریل کو دوبارہ جاکر دیکھنے کا حکم
دیاجب کہ اسے ناپسندیدہ چیزوں سے گھیرا جاچکا تھا جبریل علیہ السلام نے واپس آکر
کہا :تیری عزت کی قسم! مجھے اندیشہ ہے کہ اس میں کوئی نہ داخل ہوسکے گا۔ پھر الله
تعالیٰ نے فرمایا: جہنم اور اہل جہنم کے لئے میں نے جوکچھ تیار کر رکھا ہے اس کو
جاکر دیکھو، جبریل آئے اور دیکھا کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصہ پر چڑھا جاتا ہے۔ لوٹ
کر آئے اور باری تعالیٰ سے عرض کیا : تیری عزت کی قسم! اس کا حال جوسنے گا ا س میں
نہیں داخل ہوگا۔ پھر الله کے حکم سے اس کو نفسانی خواہشات سے گھیر دیا گیا۔ الله
تعالیٰ نے فرمایا پھر جاکر دیکھو۔ اب دیکھا تو اسے شہوات سے گھیرا جاچکا تھا۔ لوٹ
کرآئے اور کہا : تیری عزت کی قسم! مجھے اندیشہ ہے کہ اس سے کوئی نجات نہ پاسکے گا۔
''
(امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث
حسن صحیح ہے)۔
اندیشۂ
کفر:
٢٥۔
نفسانی خواہشات کے پیچھے چلنے والے کے بارے میں اسلام سے لاشعوری طور پر نکل جانے
کا اندیشہ ہے۔ نبی صلى الله عليه وسلم کا یہ فرمان ثابت ہے:
''تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب
تک کہ اس کی خواہش میرے لائے ہوئے دین کے تابع نہ ہوجائے۔''
اور صحیح حدیث میں
یہ بھی ہے کہ نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : ''مجھے تمھارے بارے میں جس چیز
کا سب سے زیادہ ڈر ہے وہ تمھارے پیٹ اور شرمگاہ کی بہکا دینے والی شہوتیں اور
نفسانی خواہشات کی گمراہ کن باتیں ہیں۔''
موجبِ
ہلاکت:
٢٦۔ نفسانی خواہشات کے پیچھے چلنا موجب ہلاکت
ہے۔
نبی صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے:
''تین چیزیں باعث ِنجات اور تین چیزیں باعث
ہلاکت ہیں : نجات دینے والی پہلی چیز کھلے اور چھپے الله کا تقوی ہے۔ دوسری چیز خوشی اور ناراضی ہرحال
میں حق گوئی، تیسری چیز فقیری اور امیری ہر حال میں میانہ روی ہے۔ اور ہلاک کرنے
والی پہلی چیز وہ نفسانی خواہش ہے جس کی اتباع کی جائے۔ دوسری چیز وہ بخل ہے جس کی
بات مانی جائے اور تیسری چیز آدمی کی خود پسندی ہے''۔
باعث
فتح وظفر:
٢٧۔
نفسانی خواہش کی مخالفت کرنے سے بندہ اپنے جسم اور دل وزبان میں قوت پاتا ہے۔
بعض
سلف کا قول ہے کہ اپنی خواہش پر غلبہ حاصل کرنے والا اس سے بھی زیادہ طاقتور ہے جو
تنہا کسی ملک کو فتح کرتا ہے۔ صحیح حدیث میں نبی صلى الله عليه وسلم کا فرمان ہے:
''پہلوان وہ نہیں جو کسی کو پچھاڑ دے بلکہ
پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ پر قابو پالے۔''
آدمی
جب جب اپنی خواہش کی مخالفت کرتا ہے اپنی قوت میں برابر اضافہ کرتا جاتا ہے۔
اخلاق
ومروت:
٢٨۔
اپنی خواہش کے خلاف چلنے والا سب سے زیادہ بامروت انسان ہوتا ہے۔ معاویہ رضى الله
عنه فرماتے ہیں: خواہشات کو چھوڑدینا اور ہوائے نفس کی بات نہ ماننا یہی مروت ہے۔
خواہشات کے پیچھے چلنا مروت کو بیمار کردیتا ہے۔ اور اس کی مخالفت،مروت کو افاقہ
عطا کرتی اور شفادیتی ہے۔
عقل
اور خواہش کی جنگ:
٢٩۔
ہر دن خواہش اور عقل باہم دست وگریباں ہوتے ہیں جو جیت جاتا ہے شکست خوردہ کو
بھگادیتا ہے اور خود حکومت و تصرف کرتا ہے۔ ابودرداء رضى الله عنه فرماتے ہیں:
آدمی جب صبح کرتا ہے اس کی عقل اور خواہش اکٹھا ہوتی ہے۔اگر اس کی عقل خواہش کے
تابع ہوئی تو وہ ایک برا دن ہوتا ہے اور اگر خواہش عقل کے تابع ہوئی تو وہ ایک اچھا
دن ہوتاہے۔
غلطی
کا امکان:
٣٠۔
الله تعالیٰ نے خطا اور اتباع ہوا (غلطی اورخواہش کی پیروی) کو ایک دوسرے کا ساتھی
بنایاہے۔ اسی طرح درستی اور خواہش کی مخالفت کو ایک دوسرے کا ساتھی بنایا ہے جیسا
کہ بعض سلف کا قول ہے: جب تمھیں دو باتوں میں شبہ ہوجائے کہ زیادہ سخت کون ہے تو
جو تمھاری خواہش کے قریب ہو اس کی مخالفت کرو کیونکہ خواہش کے پیچھے چلنے ہی میں
غلطی کا امکان زیادہ ہے۔
بیماری
اور علاج:
٣١۔
خواہش بیماری ہے اور اس کا علاج اس کی مخالفت ہے۔ کسی عارف کا قول ہے: اگر تم چاہو
تو تم کو تمھارا مرض بتادوں اور اگر چاہو تو اس کی دوا بھی بتادوں؟ نفسانی خواہش
تمھارامرض ہے، اس کو چھوڑ دینا اور اس کی مخالفت کرنا اس کی دوا ہے۔
بشرحافی
فرماتے ہیں : ساری بلائیں نفسانی خواہشات کی بنا پر ہیں اور سارا علاج اس کی
مخالفت میں ہے۔
جہاد:
٣٢۔
خواہشات سے جہاد اگر جہادِ کفار سے بڑھ کر نہیں تو اس سے کم تر بھی نہیں ہے۔
ایک
شخص نے حسن بصری سے کہا : اے ابوسعید! کون سا جہاد افضل ہے؟ فرمایا :خواہشات
نفسانی سے جہاد کرنا۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے
ہیں: نفس اور خواہش سے جہاد، کفار ومنافقین سے جہاد کی بنیاد ہے کیونکہ ان سے اس
وقت تک کوئی جہاد نہیں کرسکتا جب تک کہ ان کی طرف نکلنے کے لئے اپنے نفس اور خواہش
سے جہاد نہ کرے۔
مرض
بڑھتا گیا:
٣٣۔
خواہش بیماری کو بڑھادینے والی چیز ہے اور اس کی مخالفت پرہیز ہے۔ ایسا شخص جو مرض
بڑھانے والی چیز کا استعمال کرے اور پرہیز سے دور رہے اس کے انجام کے بارے میں
خطرہ یہی ہے کہ بیماری اسے دبوچ لے گی۔
محرومی
وبے توفیقی:
٣٤۔
خواہشات کی اتباع سے توفیق کے دروازے بند ہوجاتے اور محرومی کے دروازے کھل جاتے
ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ ایسے لوگ اپنی زبان سے کہتے رہتے ہیں کہ اگر الله توفیق دے
تو ایسا اور ایسا کرگذریں مگر خواہشات کی اتباع کرکے انھوں نے اپنے لئے توفیق کے
راستے مسدود کرلئے ہیں۔
فضیل
بن عیاض کا قول ہے: جس شخص پر شہوت اور خواہش
غالب آجاتی ہے توفیق اس سے منقطع ہوجاتی ہے۔
کسی
عالم کا قول ہے کہ کفر چار چیزوں میں ہے :غضب اور شہوت میں، لالچ اور خوف میں۔پھر
فرمایا کہ دو کو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا: ایک شخص غصہ میں آیا اور اس نے اپنی
ماں کو قتل کرڈالا، دوسرا شخص مبتلائے عشق ہوکر نصرانی ہوگیا۔
فساد
عقل وخرد:
٣٥۔
جو آدمی اپنی خواہشات کو ترجیح دیتا ہے اس کی عقل فاسد اور رائے بگڑجاتی ہے۔ اس
لئے کہ اپنی عقل کے معاملے میں اس نے الله کی خیانت کی تو الله نے اس کی عقل کو
فاسد کردیا۔ تمام امور میں الله کی سنت
یہی ہے کہ جو کوئی اس میں خیانت کرتا ہے الله تعالیٰ اسے فاسد کردیتا اور بگاڑدیتا
ہے۔
قبر
وآخرت کی تنگی:
٣٦۔
جو اپنی خواہشات کی تکمیل میں اپنے نفس پر کشادگی کرتا ہے تو اس پر قبر اور آخرت
میں تنگی ہوگی۔اس کے برخلاف جو نفس کی مخالفت کرکے اس پر تنگی کرتا ہے اس کی قبر
اور آخرت میں اس پرفراخی ہوگی۔ الله تعالیٰ نے اپنے اس فرمان میں اسی طرف اشارہ
کیا ہے:
{وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً
وَحَرِيرًا} [الإنسان: 12]
(اورانہیں ان کے صبرکے بدلہ جنت اورریشمی
لباس عطافرمائے۔)
چونکہ
صبر جوکہ خواہشات سے نفس کو روکنے کانام ہے اس میں کھردراپن اور تنگی ہے اس لئے
بدلے میں نرم وگداز ریشم اور جنت کی وسعت عطافرمائی۔
ابوسلیمان دارانی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں
فرماتے ہیں : شہوتوں سے صبر کرنے پر یہ بدلہ عطا فرمایا۔
رکاوٹ:
٣٧۔نفسانی
خواہشات قیامت کے دن نجات یافتہ بندوں کے ساتھ اٹھ کر دوڑنے سے رکاوٹ بن جائیں گے،
جس طرح دنیا میں ان کا ساتھ دینے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
محمد
بن ابی الورد کا قول ہے کہ الله تعالیٰ نے ایک دن ایسا بنایا ہے جس کی مصیبت سے
خواہشات کے پیچھے چلنے والا نجات نہیں پاسکتا۔ قیامت کے دن جو شخص سب سے دیر سے
اٹھے گا وہ شہوتوں کا پٹخا ہوا ہوگا۔ عقلیں جب طلب کے میدان میں دوڑتی ہیں تو سب
سے زیادہ حصہ کی مستحق وہ ہوتی ہے جس کے پاس سب سے زیادہ صبر ہو۔ عقل معدن ہے اور
فکر اس معدن سے خزانے نکالنے کا آلہ ہے۔
عزائم
کی پستی:
٣٨۔
خواہشات کی غلامی عزائم کی پستی اور کمزوری کا سبب ہے اور اس کی مخالفت عزائم کو
مضبوطی اور طاقت عطا کرتی ہے۔عزم وہ سواری ہے جس کے ذریعہ بندہ الله اور آخرت کی
طرف سفر کرتا ہے، اگر سواری خراب ہوجائے تو مسافر کی منزل بہت دور ہوجاتی ہے۔
یحییٰ بن معاذ سے دریافت کیا گیا : عزم کے
اعتبار سے صحیح ترین انسان کون ہے؟ فرمایا : وہ جو اپنی خواہشات پر غالب آجائے۔
بدترین
سواری:
٣٩۔خواہش
پرست کی مثال اس گھڑ سوار کی سی ہے جس کا گھوڑا نہایت تیز رفتار،بے قابو، سرکش اور
بے لگام ہو، دوڑنے کے دوران اپنے سوار کو پٹخ دے یاکسی ہلاکت کے مقام پر پہنچادے۔
ایک
عارف کا کلام ہے : جنت کو پہنچانے والی سب سے تیز رفتار سواری دنیا سے بے رغبتی ہے
اور جہنم تک پہنچانے والی سب سے تیزرفتار سواری خواہشات کی محبت ہے۔ خواہشات کا
سوار ہلاکتوں کی وادی میں نہایت تیزی کے ساتھ پہنچ جائے گا۔
ایک
دوسرے عارف کا کلام ہے کہ سب سے زیادہ صاحب شرف وہ عالم ہے جو اپنے دین کی حفاظت
کے لئے دنیا سے بھاگے اور خواہشات کے پیچھے چلنا اس کے لئے دشوار ہو۔
عطا
فرماتے ہیں : جس کی خواہش اس کی عقل پر اور بے قراری اس کے صبر پر غالب آجائے وہ
رسوا ہوجائے گا۔
توحید
کی ضد:
٤٠۔
توحید اور نفسانی خواہش کا اتباع ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ نفسانی خواہش ایک بت ہے اور
ہر خواہش پرست کے دل میں اس کی خواہش کے مطابق بت موجود ہیں۔ الله تعالیٰ نے اپنے
رسولوں کو اسی لئے بھیجا کہ وہ بتوں کو توڑیں اور ایک الله وحدہ' لاشریک کی عبادت
کا غلغلہ بلند کریں۔ الله تعالیٰ کا یہ مقصود ہرگز نہیں کہ جسمانی اور ظاہری بتوں
کو توڑ دیا جائے اور دلوں کے بتوں کو چھوڑ دیا جائے بلکہ دلوں کا بت ہی سب سے پہلے
توڑنا ہے۔
حسن
بن علی مطوعی کا قول ہے: ہر انسان کا بت اس کی نفسانی خواہش ہے، جس نے خواہشات کی
مخالفت کرکے اس بت کو توڑ دیا وہی جوان کہلانے کا مستحق ہے۔ ابراہیم خلیل اللہ
علیہ السلام نے اپنی قوم سے جو بات کہی تھی ذرا اس پر غور کرو، فرمایا:
{مَا هَذِهِ التَّمَاثِيلُ الَّتِي
أَنْتُمْ لَهَا عَاكِفُونَ} [الأنبياء: 52]
(یہ مورتیاں کیا ہیں جن کے تم مجاور بنے
بیٹھے ہو ؟)
ان
کی بات ان بتوں پر کس قدر فٹ آتی ہے جنھیں خواہشات کی شکل میں انسان دل میں بٹھائے
ہوتا ہے، ان میں منہمک رہتا اور الله کو چھوڑ کر ان کی پرستش کرتا ہے۔ الله تعالیٰ
کا ارشاد ہے :
{ أَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ
هَوَاهُ أَفَأَنْتَ تَكُونُ عَلَيْهِ وَكِيلًا , أَمْ تَحْسَبُ أَنَّ أَكْثَرَهُمْ
يَسْمَعُونَ أَوْ يَعْقِلُونَ إِنْ هُمْ إِلَّا كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ سَبِيلًا}
[الفرقان: 43-44]
( کیا آپ نے اسے بھی دیکھا جو اپنی خواہش
نفس کو اپنا معبود بنائے ہوئے ہے، کیا آپ اس کے ذمہ دار ہو سکتے ہیں؟ کیا آپ اسی
خیال میں ہیں کہ ان میں سے اکثر سنتے یا سمجھتے ہیں، وہ تو نرے چوپایوں جیسے ہیں
بلکہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے)۔
بیماریوں
کی جڑ:
٤١۔خواہش
کی مخالفت سے دل اور بدن کی بیماریاں ختم ہوتی ہیں۔ جہاں تک دل کی بیماریوں کا
معاملہ ہے تو وہ ساری کی ساری خواہش پرستی ہی کا نتیجہ ہوتی ہیں اور اگر آپ تحقیق
کریں تو معلوم ہوگا کہ بیشتر جسمانی بیماریوں کی وجہ بھی یہی ہوتی ہے کہ کسی چیز
کے چھوڑ دینے کے عقلی فیصلہ پر خواہش نفس کو ترجیح دی جاتی ہے۔
عداوتوں
کی بنیاد:
٤٢۔
لوگوں کی آپسی عداوت اور شروحسد کی بنیاد خواہش پرستی ہے۔ جو شخص خواہش پرستی سے
دور ہوتا ہے وہ اپنے قلب وجگر اور جسم واعضاء کو راحت پہنچاتا ہے۔ خود بھی آرام
میں ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی اس سے آرام ہوتا ہے۔
ابوبکر
وراق کا قول ہے: جب خواہش غالب آتی ہے دل کو تاریک کردیتی ہے۔ جب دل تاریک ہوتا ہے
سینہ تنگ ہوجاتا ہے۔ جب سینہ تنگ ہوجاتا ہے اخلاق برے ہوجاتے ہیں۔ جب اخلاق برے
ہوجاتے ہیں تو مخلوق اسے ناپسند کرنے لگتی ہے اور وہ بھی دوسروں کو ناپسند کرنے
لگتا ہے اور جب نوبت اس باہمی بغض وعداوت تک پہنچ جاتی ہے تو اس کے نتیجہ میں
انتہائی شروفساد اور ترک حقوق وغیرہ پیدا ہوتا ہے۔
ایک ہی
فاتح:
٤٣۔
الله تعالیٰ نے انسان میں دو قوتیں پیدا فرمائی ہیں۔ ایک خواہش اور دوسری عقل۔ان
دونوں میں سے جب ایک قوت نمایاں ہوتی ہے تو دوسری قوت چھپ جاتی ہے۔
ابوعلی
ثقفی کا قول ہے : جس پر خواہش کا غلبہ ہوتا ہے اس کی عقل چھپ جاتی ہے۔ بھلا اس کا
انجام کیا ہوگا جس کی عقل غائب ہو اور بے
عقلی ظاہر ہو۔ !!
علی
بن سہل کا قول ہے : عقل اور خواہش باہم لڑتے ہیں۔ توفیق عقل کے ساتھ ہوتی ہے اور
محرومی خواہش کے ساتھ۔ نفس ان دونوں کے بیچ ہوتی ہے۔ ان میں سے جس کی فتح ہوتی ہے
نفس اسی کے ساتھ ہوجاتی ہے۔
شیطان
کا ہتھیار:
٤٤۔
الله تعالیٰ نے دل کو اعضاء کا بادشاہ بنایا ہے اور اپنی محبت ومعرفت اور عبودیت
کا معدن قرار دیا ہے اور دو بادشاہوں، دو لشکروں، دومددگاروں اور دوہتھیاروں سے اس
کی آزمائش فرمائی ہے۔ حق وہدایت اور زہد وتقوی ایک بادشاہ ہے، جس کے مددگار ملائکہ
ہیں،جس کا لشکر وہتھیار صدق واخلاص اور خواہشات سے دوری ہے۔ باطل دوسرا بادشاہ ہے،
شیاطین اس کے مددگار ہیں، اس کا لشکر وہتھیار خواہشات کی اتباع ہے۔ نفس ان دونوں
لشکروں کے درمیان کھڑا ہوتا ہے۔دل پر باطل کے لشکروں کا حملہ اسی کی جانب اور اسی
کی سرحد سے ہوتا ہے۔ نفس دل کو مدہوش کرکے اس کے خلاف اس کے دشمنوں سے مل جاتا ہے۔
نفس ہی دل کے دشمنوں کو ہتھیار اور سامان رسد پہنچاتاہے اور قلعہ کا دروازہ ان کے
لئے کھول دیتا ہے چنانچہ دل بے سہارا ہوجاتا ہے اور باطل کی فتح ہوجاتی ہے۔
سب سے
بڑا دشمن:
٤٥۔انسان
کا سب سے بڑا دشمن اس کا شیطان اورخود اس کی اپنی خواہش ہے اور اس کا سب سے بڑا
دوست اس کی عقل اور اس کا فرشتہ ہے۔ جب انسان اپنے خواہش کی پیروی کرتا ہے اور
ہوائے نفس کا اسیر ہوجاتا ہے اور اپنے دشمن کو خوش ہونے کا موقع دیتا ہے تو اس کا
دوست اور محبوب اس بات کو ناپسند کرتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس سے الله کے نبی صلى
الله عليه وسلم پناہ مانگا کرتے تھے۔ آپ فرماتے :
«اللَّهُمَّ
إِنِّي أَعُوذُ بِكَ جَهْدِ البَلاَءِ، وَدَرَكِ الشَّقَاءِ، وَسُوءِ القَضَاءِ،
وَشَمَاتَةِ الأَعْدَاءِ»
[اے الله میں تیری پناہ چاہتا ہوں سخت بلا
سے اور بد بختی آنے سے اور بری قضا سے اور دشمنوں کی خوشی سے۔]
آغازوانجام:
٤٦۔
ہر انسان کا ایک آغاز اور ایک انجام ہوتا ہے۔ جس کا آغاز خواہشات کی اتباع سے ہوگا
اس کا انجام ذلت وحقارت، محرومی اور بلائیں ہوں گی۔ جس قدر وہ اپنی خواہش کے پیچھے
چلے گا اسی قدر دلی عذاب میں مبتلا رہے گا۔ کسی بھی بدحال شخص پر آپ غور کریں گے
تو معلوم ہوگا کہ اس کا آغاز یہ تھا کہ وہ اپنی خواہشات کے پیچھے چلتا رہا اور
اپنی عقل پر اسے ترجیح دیتا رہا۔ اس کے برخلاف جس شخص کی ابتدا اپنی خواہشات کی
مخالفت اور اپنی سوجھ بوجھ کی اطاعت سے ہوگی اس کا انجام عزوشرف، جاہ واقتدار اور
مال ودولت ہوگا۔ لوگوں کے نزدیک بھی اور الله کے نزدیک بھی ہرجگہ اس کا ایک مقام
ہوگا۔
ابو
علی دقاق کا قول ہے کہ جو اپنی جوانی میں اپنی خواہشات پر قابو رکھتا ہے بڑھاپے
میں الله تعالیٰ اسے عزت عطا فرماتا ہے۔
مہلب
بن ابی صفرة سے پوچھا گیا کہ آپ اس مقام پر کس طرح پہنچے ؟ فرمایا : ہوش و خرد کی
اطاعت کرکے اور خواہشات کی نافرمانی کرکے۔
یہ
تو دنیا کا آغاز وانجام ہے۔ آخرت کا بھی یہی معاملہ ہے کہ خواہش کی مخالفت کرنے
والوں کے لئے الله تعالیٰ نے جنت بنائی ہے اور اس کے پیچھے چلنے والوں کے لئے جہنم
تیار کر رکھا ہے۔
پاؤں
کی بیڑیاں:
٤٧۔نفسانی
خواہشات دل کی غلامی، گلے کا طوق اور پاؤں کی بیڑیاں ہیں۔ خواہش پرست ہربدکردار کا
غلام ہوتا ہے لیکن خواہش کی مخالفت کرتے ہی اس کی غلامی سے نکل کر آزاد ہوجاتا ہے۔
گلے کا طوق اور پاؤں کی بیڑیاں نکال پھینکتا ہے۔
لید کے
بدلے موتی:
٤٨۔
خواہش کی مخالفت بندہ کو اس مقام پر لا کھڑا کرتی ہے کہ اگر وہ الله کے نام کی قسم
کھالے تو الله تعالیٰ اس کی قسم پوری فرماتا ہے۔ خواہشات کی جتنی لذت سے وہ محروم
رہتا ہے اس سے کئی گنا زیادہ الله تعالیٰ اس کی ضروریات کی تکمیل کرتا ہے۔ اس کی
مثال اس شخص جیسی ہوتی ہے جس نے جانور کی لید سے اعراض کیا تو اس کے بدلہ اسے موتی
سے نوازا گیا۔
خواہش
پرست اپنی خواہشات سے جتنی لذت نہیں پاتا اس سے کہیں زیادہ دنیاوی اور اخروی
مصلحتیں اور زندگی کی خوش گواریاں فوت کردیتا ہے۔ یوسف علیہ السلام نے جب اپنے آپ
کو حرام سے بچایا تو قید سے نکلنے کے بعد ان کا دست وزبان اور نفس وقدم جس قدر
آزاد تھا غور کرنے کی چیز ہے۔
عبد
الرحمن بن مہدی فرماتے ہیں : میں نے سفیان ثوری رحمہ اللہ کو خواب میں دیکھا۔میں
نے ان سے کہا : الله نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا ؟ انھوں نے کہا : جوں ہی
مجھے لحد میں رکھا گیا مجھے الله تبارک وتعالیٰ کے سامنے کھڑا ہونا پڑا۔ الله
تعالیٰ نے میرا ہلکا حساب لیا۔ پھر جنت کی طرف لے جانے کا حکم فرمایا۔ ایک دن جب
کہ میں جنت کے درختوں اور نہروں کے درمیان گھوم رہا تھا، نہ کوئی آہٹ تھی نہ حرکت،
اچانک میں نے ایک شخص کو سنا جو میرا نام لے کر پکار رہا تھا، سفیان بن سعید !
تمھیں وہ دن یاد ہے جب تم نے اپنی خواہش کے خلاف الله تعالیٰ کے حکم کو ترجیح دی
تھی۔ میں نے کہا : ہاں ! الله کی قسم۔ پھر ہر طرف سے مجھ پر پھول برسنے لگے۔
مقامِ
عزت:
٤٩۔
خواہش کی مخالفت دنیا وآخرت کے شرف کا باعث اور ظاہر وباطن کی عزت کا موجب ہے اور
اس کی موافقت دنیا وآخرت کی پستی اور ظاہر وباطن کی ذلت کاباعث ہے۔ جب قیامت کے دن
الله تعالیٰ تمام انسانوں کو ایک ہموار زمین پر اکٹھا فرمائے گا تو ایک پکارنے
والا پکارے گا : آج محشر والوں کو معلوم ہوجائے گا کہ عزت والا کون ہے ؟ متقی کھڑے
ہوجائیں۔ چنانچہ وہ سب مقام عزت کی طرف چل پڑیں گے۔ خواہشات کی اتباع کرنے والے
سروں کو جھکائے ہوئے خواہشات کی گرمی، اس کے پسینے او ر اس کی تکلیفوں میں پریشان
ہوں گے جب کہ متقی عرش کے سایہ میں ہوں گے۔
عرش
الٰہی کا سایہ:
٥٠۔
اگر آپ ان سات لوگوں کے بارے میں غور کریں جنھیں الله تعالیٰ اس دن عرش کا سایہ
نصیب فرمائے گا جب اس کے سایہ کے سوا کوئی دوسرا سایہ نہ ہوگا تو آپ کو معلوم
ہوگاکہ ان کو عرش کا سایہ خواہشات کی مخالفت کی بنا پر حاصل ہوا ہے۔
ایک
حاکم جو مضبوط اقتدار اور مستحکم سلطنت کا مالک ہو اپنی خواہشات کی مخالفت کئے
بغیر عدل نہیں کرسکتا۔
ایک
جوان خواہشات کی مخالفت کے بغیر اپنی جوانی کے جذبات پر عبادت الٰہی کو ترجیح نہیں
دے سکتا۔
ایک
مسلمان لذت گاہوں کی طرف جانے پر آمادہ کرنے والی خواہشات کی مخالفت کے بغیر اپنا
دل مساجد میں معلق نہیں رکھ سکتا۔
ایک
صدقہ دہندہ اگر اپنی خواہشات پر غالب نہ ہو تو اپنا صدقہ بائیں ہاتھ سے نہیں
چھپاسکتا۔
ایک
مرد اپنی خواہشات کی مخالفت کے بغیر کسی خوبصورت اور صاحب منصب عورت کے بلانے پر الله
عزوجل سے ڈر کر اسے نہیں چھوڑسکتا۔
ایک
مسلمان اپنی خواہشات کی مخالفت کرکے ہی تنہائی میں اﷲ کو یاد کرتا ہے اور اﷲ کے
خوف سے اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلتے ہیں۔
یہ
سب کچھ خواہشات کی مخالفت کی بنا پر ہی ہوسکتا ہے لہذا ایسے لوگوں پر قیامت کے دن
کی گرمی، شدت اور پسینہ کا کوئی اثر نہ ہوگا۔ اس کے برعکس خواہش پرست انتہائی گرمی
اور پسینہ میں شرابور ہوں گے اور خواہشات کے قیدخانہ میں داخل ہونے کا انتظار
کررہے ہوں گے۔
الله
تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم کو اپنے نفس امارہ کی خواہشات سے اپنی پناہ میں رکھے
اور ہماری خواہشات کو اپنی محبت ورضا کے تابع بنادے۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے اور وہی
دعائیں سنتا ہے۔
والحمد للہ رب
العالمین وصلی اللہ علی نبینا وسلم
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق