الأحد، 22 يناير 2017

فکری انحراف سے حفاظت

الوقاية من الانحراف الفكري
فکری انحراف سے حفاظت
] برنامج الأمن الفكري میں  جامع موسی صناعیہ جدیدہ ، مبرز، الاحساء  کے مقام پر شیخ عبد الہادی عبد الخالق مدنی کی جانب سے یہ  تقریر کی گئی۔[
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله , أما بعد:
ہمارا دین ہمیں صراط مستقیم پر قائم رہنے  نیز ہر طرح کے انحراف سے دور رہنے کی تاکید کرتا ہے ۔ اللہ تعالی کا ارشاد  ہے:  وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ الأنعام: ١٥٣  [اور یہ(دین) میرا سیدھا راستہ ہے، سو اس دین پر چلو اور دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو الله   کی راہ سے جدا کردیں گی۔ اس کا تم کو الله  نے تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم تقوی اختیار کرو]
           «عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ   کی حدیث ہے کہ اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم   نے ہمارے لئے اپنے ہاتھ سے ایک سیدھی لکیر کھینچی،پھر فرمایا : یہ الله  کا سیدھا راستہ ہے۔ پھر آپ نے اس کے دائیں اور بائیں چند لکیریں کھینچیں،اور فرمایا : یہ وہ راستے ہیں جن میں سے ہر ایک پر شیطان بیٹھا ہوا اس کی طرف دعوت دے رہا ہے۔ پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی : وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ الأنعام: ١٥٣   »([1])
          صراط مستقیم پر استقامت نجات وفلاح کی ضمانت ہے اور اس سے انحراف دنیا وآخرت میں خسارہ کا باعث ہے۔ انحراف خواہ فکری ہو یا عملی ، غلو کی شکل میں ہو یا جفا و تقصیر کی شکل میں، ایمان و عقیدہ میں ہو یا عبادات ومعاملات میں، کوئی بھی انحراف قابل قبول نہیں البتہ ایمان وعقیدہ  کا انحراف یا یوں کہئے کہ ذہن وفکر کا انحراف سب سے خطرناک ہے۔  محبت اولیاء  وآل بیت کے نام پر شرکیہ خرافات کا انحراف، غلبہ ٔ دین کے نام پر تکفیر کا انحراف، امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے نام پر خوارج کا انحراف، جہاد کے نام پر اہل فساد کا انحراف، دعوت وتبلیغ کے نام پر قصہ گو واعظین ، جھوٹی حکایات اور خودساختہ منامات بیان کرنے والے مبلغین کا انحراف،  بہر کیف خواہش پرستی، نفس پرستی، مفاد و مصلحت پرستی نیز  جہالت و کم علمی کی بنا پر  قسم قسم کے انحرافات و بدعات نے دین کی صورت بگاڑ دی ہے ۔ ان انحرافات سے بچنے کی صورت کیا ہے؟  آج کے پروگرام میں نہایت اختصار کے ساتھ ان شاء اللہ اسی موضوع پر گفتگو  ہوگی ۔  ہم نے وقت کی تنگ دامانی کے پیش نظر فکری انحراف سے حفاظت کے فقط تین اہم اور بنیادی وسائل کا ذکر کیا ہے۔  بقیہ وسائل درحقیقت انھیں کے ضمن میں شامل اور داخل ہیں۔
پہلاوسیلہ: کتاب وسنت کو فہم سلف کے مطابق مضبوطی سے تھامنا
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ   کی حدیث ہے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم   نے فرمایا: «تركت فيكم شيئين لن تضلوا بعدهما : كتاب الله و سنتي. »([2]) (میں نے تم میں دو چیزیں چھوڑی ہیں ان کے بعد تم ہرگز گمراہ نہیں ہوگے ایک اللہ کی کتاب اور دوسرے میری سنت۔)
ایک اور حدیث میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم   کا یہ ارشاد مروی ہے: «من يعش منكم بعدي فسيري اختلافاً كثيراً, فعليكم بسنتي و سنة الخلفاء المهديين الراشدين, تمسكوا بها, و عضوا عليها بالنواجذ, و إياكم و محدثات الأمور, فإن كل محدثة بدعة, و كل بدعة ضلالة . »([3])
(جو تم میں سے میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت زیادہ اختلاف دیکھے گا، سو تم میری سنت کو اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو مضبوطی سے تھام لینا اور اسے اپنے داڑھوں سے مضبوط جکڑ لینا اور اپنے آپ کو نئی ایجاد شدہ باتوں سے بچانا، کیونکہ ہر نئی ایجاد کردہ چیز بدعت ہے اور ہر بدعت ضلالت ہے۔)
جو لوگ کتاب و سنت کی راہ  سے ہٹ جائیں گے وہ لامحالہ بدعت وضلالت میں گرپڑیں گے۔
مسلک سنت پہ اے سالک چلاجا بےدھڑک
جنت الفردوس     کو     سیدھی گئی   ہے    یہ    سڑک
         یہ بات یاد رہے کہ کتاب و سنت کی شرح وتفسیر سلف صالحین کے منہج کے مطابق ہونا ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر انحراف سے بچنا ناممکن ہے  اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کا یہی تقاضا ہے۔
         اللہ تعالی کا ارشاد ہے:    {فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِي شِقَاقٍ } [البقرة: 137] (اگر وه تم جیسا ایمان لائیں تو ہدایت پائیں، اور اگر منھ موڑیں تو وه صریح اختلاف میں ہیں)۔
صحابہ جو سلف میں سب سے پہلے نمبر  پر ہیں ان کی طرح ایمان لانے کو ہدایت کی علامت قرار دیا اور ان کی راہ سے منہ موڑنے کو اختلاف وبدبختی سے تعبیر کیا۔
نیز ارشاد ہے: { وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا} [النساء: 115] (جو شخص باوجود راه ہدایت کے واضح ہو جانے کے بھی رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا خلاف کرے اور تمام مومنوں کی راه چھوڑ کر چلے، ہم اسے ادھر ہی متوجہ کردیں گے جدھر وه خود متوجہ ہو اور دوزخ میں ڈال دیں گے، وه پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے)۔
تمام مومنوں کی راہ  وہی ہونی چاہئے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور  آپ کے صحابہ کے راہ تھی، سلف کی راہ انھیں کی راہ تھی، قولی وعملی و اعتقادی بہرطور ان کی روش پر قائم رہنا کامیابی کی ضمانت ہے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے: وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَداً ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ [التوبة:100]، (اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وه سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی جن میں ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے)۔
مذکورہ آیت میں اللہ تعالی نے نہ صرف صحابہ کے بارے میں اپنی رضا کا اعلان فرمایا بلکہ ان لوگوں کو بھی اس رضا میں شامل رکھا جو اخلاص کے ساتھ ان کی پیروی کریں۔  ظاہر ہے کہ صحابۂ کرام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست دین سیکھا تھا، نزول وحی کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تھا، احکام ومسائل کے مقاصد اور حکمتوں، ان کے اسباب تشریع ، آیات کے اسباب نزول، احادیث کے اسباب ورود، ان کے اسرار اور باریکیوں کو خوب اچھی طرح جانتے تھے، بعد میں آنے والوں کو اس طرح کی خصوصیات حاصل نہیں ہیں۔ لہٰذا صحابہ اور سلف کی پیروی میں ہی امت کے لئے خیر و بھلائی ہے۔
دوسرا وسیلہ: علمائے کرام سے تعلق و وابستگی
اللہ تعالی کا ارشاد ہے: {فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ} [النحل: 43]  (پس اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے دریافت کرلو)۔
نیز نبی  صلی اللہ علیہ وسلم   کا ارشاد ہے: «ألا سألوا إذا لم يعلموا, فإنما شفاء العي السؤال.»([4])  (جب انھیں نہیں معلوم تھا تو پوچھا کیوں نہیں ، جہالت کا علاج سوال کرنے میں ہے)۔
منحرف لوگوں کو علماء کی بات سننے اور ان سے گفتگو کرنے سے کس طرح حق و صواب کی ہدایت ملتی ہے؟ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے ایک واقعہ  کی روشنی میں اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کہتے ہیں:
جب خوارج لشکر علی (رضی اللہ تعالی عنہ) سے علیحدہ ہوئے تو وہ لوگ ایک جگہ اکٹھا ہوگئے۔
ان کی تعداد لگ بھگ چھ ہزارتھی۔انہوں نے آپس میں مشورہ کیااور اِس امر پر متفق ہوگئے کہ انہیں سیدنا علی (رضی اللہ تعالی عنہ) کے خلاف جنگ کے لیے نکلنا چاہیے۔ لوگ سیدنا علی کے پاس تسلسل سے آتے اور خبریں دیتے کہ خوارج اُن کے خلاف جنگ کی تیاریاں کر رہے ہیں۔
سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے: انہیں چھوڑ دوجب تک وہ میرے خلاف جنگ نہیں کریں گےتب تک میں انہیں کچھ نہیں کہوں گا۔ مگر وہ ضرور نکلیں گےاور جنگ کریں گے۔
ابن عباس  رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن صلاۃ ظہر  کے وقت میں  سیدناعلی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے امیر المؤمنین آج صلاۃ ظہر  ذرا ٹھنڈی کر کے (تاخیر سے) ادا کیجیے۔ آج میں خوارج کے پاس جاکر انہیں سمجھانے کی کوشش کرنا چاہتا ہوں۔
وہ فرمانے لگے مجھے اندیشہ ہے کہ وہ تمہیں نقصان پہنچائیں گے۔
میں نے کہا  کہ  ان شاء اللہ  ایسا نہیں ہو گا۔
ابن عباس فرماتے ہیں :امیر المومنین نے مجھے اجازت دے دی۔ میں نے ایک بہترین یمنی جوڑا  زیب تن کیا اور خوب عمدہ اور قیمتی لباس پہن  کر دوپہر کے وقت اُن کے پاس  جاپہنچا۔
میں ایسے لوگوں کے پاس گیا کہ میں نے اُن سے بڑھ کر عبادت گزار نہیں دیکھے۔ اُن کی پیشانیاں سجدوں کے نشانات سے مزین تھیں کثرت عبادت سے اُن کے ہاتھ اونٹ کے  اُس حصے کی طرح ہو گئےجو زمیں پر لگنے کی وجہ سے سخت ہو جاتا ہے۔ انہوں نے صاف ستھری قمیصیں پہن رکھیں تھیں۔اُن کے چہرے اُن کی شب بیداری کے شاہد تھے۔
میں نے انہیں سلام کہا۔
کہنے لگے : مرحبا ابن عباس ، کیسے آنا ہوا؟
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا:  میں تمہارے پاس انصار و مہاجرین اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے داماد علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ کا نمائندہ بن کر آیا ہوں۔ سنو ! اُن کی موجودگی میں قرآن مجید نازل ہوا اور وہ اس کی تفسیروتاویل کا تم سے زیادہ علم رکھتے ہیں۔
اُن میں سے ایک گروہ کہنے لگا : قریش سے جھگڑا نہ کرو اللہ تعالی فرما چکا ہے : بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ ﴿٥٨﴾سورة الزخرف  ''بلکہ وہ تو ہیں ہی جھگڑالو لوگ''
اُن میں سے دو یا تین آدمی کہنے لگے: ہم اِن سے بات کر لیتے ہیں۔
ابن عباس رضی تعالی عنہما  نے کہا:  تمہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے داماد پر اور مہاجرین و انصار پرجو اعتراضات ہیں لاؤ پیش کرو۔ان لوگوں کے سامنے  قرآن نازل ہوا،تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جواُن سے بڑھ کر قرآن کا عالم ہو۔
خوارج  نے کہا کہ  ہمیں تین اعتراضات ہیں۔
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما  نے کہا کہ  بیان کرو۔
خوارج  نے کہا کہ ہمارا پہلا اعتراض یہ ہے کہ انہوں نے اللہ کے حکم کے مقابلے میں انسانوں کو منصف بنایا ہے، حالانکہ اللہ تعالی کا فرمان کتاب اللہ میں موجود ہے کہ :  إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّـهِ  حکم کسی کا نہیں بجز اللہ تعالیٰ کے (سورہ الانعام 57 ) اب اللہ کے اس فرمان کے بعد انسانوں کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ کسی کو حَکَم بنائیں۔
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما  نے کہا کہ یہ تو ایک بات ہوئی، دوسری کیا ہے ؟
خوارج نے کہا کہ اُنہوں نے ایک گروہ سے لڑائی کی،ان کے لوگوں کو قتل  کیالیکن کسی کو قیدی نہیں بنایا ، نہ مال غنیمت جمع کیا۔اگر وہ کافر تھے تو ان کو قتل کرنے کے ساتھ ساتھ قیدی بنانا اور مال غنیمت لوٹنا بھی درست تھا اور اگر وہ مومن تھے تو ان سے جنگ کرنا ہی جائز نہیں تھا۔
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے کہا کہ اپنا  تیسرا اعتراض   بیان کرو۔
خوارج  نے کہا کہ  انہوں نے صلح کا معاہدہ لکھتے وقت اپنے نام سے امیر المؤمنین کا  لفظ مٹا دیا، اگر وہ امیر المومنین نہیں ہیں تو کیا پھر وہ امیر الکافرین ہیں؟
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہمانے پوچھا کہ  کوئی اور اعتراض باقی ہے؟
خوارج نے جواب دیا کہ  بس اتنی باتیں کافی ہیں۔
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے کہا کہ  جہاں تک تمہارا یہ کہنا ہے کہ انہوں نے اللہ کی شریعت کے معاملے میں انسانوں کو حَکَم بنایا ہے تو میں اللہ کی کتاب سے کچھ آیات تلاوت کرتا ہوں جو تمہاری بات کی تردید کریں گی ۔ اگر ایسا ہوا تو کیا تم اپنے موقف سے دستبردار ہو جاؤ گے؟
خوارج نے کہا: ضرور، یقیناً۔
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما  نے کہا:  اللہ تعالی نے ایک خر گوش کے معاملے میں جس کی قیمت ایک چوتھائی درہم سے زیادہ نہیں ہوتی، اپنے حُکم سے فیصلہ تحویل کر کے انسانوں کے سپرد کر دیا ہے چنانچہ ارشاد ہے : يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنتُمْ حُرُمٌ ۚ وَمَن قَتَلَهُ مِنكُم مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاءٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ  (اے ایمان والو! (وحشی) شکار کو قتل مت کرو جب کہ تم حالت احرام میں ہو۔ اور جو شخص تم میں سے اس کو جان بوجھ کر قتل کرے گا تو اس پر فدیہ واجب ہوگا جو کہ مساوی ہوگا اس جانور کے جس کو اس نے قتل کیا ہے جس کا فیصلہ تم میں سے دو معتبر شخص کردیں )۔ ( سورہ المائدہ 95)
مرد و عورت کے معاملے میں فرمان باری تعالی ہے : وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا  (اگر تمہیں میاں بیوی کے درمیان آپس کی ان بن کا خوف ہو تو ایک منصف مرد والوں میں سے اور ایک عورت کے گھر والوں میں سے مقرر کرو) ۔ (سورہ النسا ء 35)
میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا آدمیوں کی تحکیم ایک خرگوش کے قتل اور عورت کے  معاملہ میں افضل ہے یا مسلمانوں کے باہمی معاملات کی درستی اور خونریزی روکنے کے لیے افضل ہے ؟
خوارج  نے کہا :بلکہ یہی افضل ہے۔
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما  نے کہا:  اچھا، اب آپ لوگوں کا یہ اعتراض ختم ہوگیا ؟
خوارج نے اثبات میں جواب دیا۔
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ  نے پھر کہنا شروع کیا، جہاں تک تمہارا یہ کہنا ہے کہ انہوں نے لڑائی کی اور مخالفین کو قید نہیں کیااور نہ ہی مال غنیمت پر قبضہ کیا تو مجھے یہ بتاؤ، کیاتم اپنی ماں ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کو قیدی بنا نے کے لیے تیار ہو جاتے؟ اللہ کی قسم ! اگر تم نے یہ کہا کہ وہ ہماری ماں نہیں تو تم اسلام ہی سے نکل جاؤ گے ۔ اور اگر تم نے  یہ کہا کہ ہاں ہم انہیں گرفتار کرنے اور اُن کے ساتھ لونڈیوں جیسا سلوک کرنے کے روادار ہیں تو تب بھی تم اسلام سے خارج ہو جاؤ گے ۔ تم دونوں صورتوں میں گمراہی کا شکارہو جاؤ گے ۔ کیونکہ اللہ تعالٰی کا فرمان ہے : النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ ۖوَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ     (پیغمبر مومنوں پر خود ان سے بھی زیاده حق رکھنے والے ہیں اور پیغمبر کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں)۔  (سورہ الاحزاب 6 )
ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما  نے دریافت کیا : کیا تم نے یہ بات تسلیم کر لی؟
خوارج  نے جواب دیا :  جی ہاں
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما  نے اس کے بعد کہا:  جہاں تک تمہاری اس بات کا تعلق ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے نام سے امیر المومنین کا لفظ مٹا دیا تو تم اچھی طرح جانتے ہو کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیبیہ کے دن مشرکین کے نمائندوں ابو سفیان بن حرب اور سہیل بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہما کے ساتھ صلح نامہ تحریر کروایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا علی  رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم دیا کہ وہ صلح کی شرائط تحریر کریں ۔ سید نا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے  لکھا '' اس تحریر کی رو سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریش مکہ سے صلح کی ہے ۔ '' مشرکین نے اس پر کہا: اللہ کی قسم ہم نہیں جانتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ۔ اگر ہم جانتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم آپ سے کبھی لڑائی نہ کرتے ۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ تُو جانتا ہے کہ میں رسول اللہ ہوں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اے علی ! اسے مٹا دیں اور لکھیں کہ یہ وہ معاہدہ ہے جس کے مطابق محمد بن عبد اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے صلح کی ہے ۔ اللہ کی قسم ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سید نا علی رضی اللہ تعالی عنہ  سے کہیں زیادہ افضل اور بر تر ہیں اور اگر انہوں نے صلح کی خاطر اپنے نام سے رسول اللہ کا لفظ مٹا دیا تو سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کے لیے ایسا کرنا کیوں کر ناجائز ہو سکتا ہے ؟
سید نا عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کے دلائل سےمطمئن  ہو کر دو ہزار خارجی تائب ہو گئے اور باقی سب لڑائی کے لیے نکلے مگر سب کے سب قتل کر دیے گئے ۔
اس بحث و مناظرے کے نتیجے میں بعض خوارج نے خلیفہء مسلمین سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی اطاعت کو دوبارہ قبول کر لیا۔ جبکہ بہت سے لوگ  اپنی گمراہی پر قائم رہے۔([5])
تیسرا وسیلہ: رب کریم سے دعا والتجا
دعا ایک مومن کا وہ ہتھیار ہے جس سے لاینحل مسائل حل ہوتے ہیں، دعا سے عبودیت کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ مشکلات کا مداوا ہوتا ہے، غیبی مدد آتی ہے ، لہٰذا ہمیں ہمیشہ اللہ  تعالی سے دعا کرتے رہنا چاہئے ۔
ہر طرح کے انحراف سے بچنے کے لئے یہ دعا انتہائی قیمتی ہے: {اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ، صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ} [الفاتحة: 6، 7]  (ہمیں سیدھی (اور سچی) راہ دکھا۔ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام کیا ان کی نہیں جن پر غضب کیا گیا اور نہ گمراہوں کی)۔
صراط  مستقیم اہل غلو اور اہل تقصیر کے درمیان کا راستہ ہے۔ اس راستہ کی ہدایت نبی  صلی اللہ علیہ وسلم   بھی اللہ سے مانگا کرتے تھے جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت ہے۔
«عن أَبي سَلَمَةَ بْن عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ قَالَ سَأَلْتُ عَائِشَةَ أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ بِأَيِّ شَيْءٍ كَانَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْتَتِحُ صَلَاتَهُ إِذَا قَامَ مِنْ اللَّيْلِ؟ قَالَتْ كَانَ إِذَا قَامَ مِنْ اللَّيْلِ افْتَتَحَ صَلَاتَهُ اللَّهُمَّ رَبَّ جَبْرَائِيلَ وَمِيكَائِيلَ وَإِسْرَافِيلَ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ اهْدِنِي لِمَا اخْتُلِفَ فِيهِ مِنْ الْحَقِّ بِإِذْنِكَ إِنَّكَ تَهْدِي مَنْ تَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ.»([6])
عبدالرحمن بن عوف  رضی اللہ عنہ   کے بیٹے ابو سلمہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھاکہ اللہ کے نبی  صلی اللہ علیہ وسلم   اپنی رات کی صلاہ کس چیز سے شروع کیا کرتے تھے تو آپ نے فرمایا: جب آپ رات کو اٹھتے تو اس دعا سے اپنی صلاہ شروع کرتے۔ اے جبرائیل ومیکائیل اور اسرافیل کے رب ، آسمان وزمین کے پیدا کرنے والے، غائب وحاضر کے جاننے والے! اپنے بندوں کے اختلافی معاملات میں تو فیصلے کرتا ہے ۔ تو اختلافی معاملہ میں اپنے حکم سے حق کی طرف میری رہنمائی کر۔ یقینا تو جسے چاہتا ہے اسے صراط مستقیم کی رہنمائی فرماتا ہے۔
 نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم   صراط مستقیم کی ہدایت طلبی کے ساتھ ساتھ دین پر ثابت قدمی کے لئے بھی ہمیشہ اللہ تعالی سے  دعا مانگا کرتے تھے، چنانچہ آپ کہا کرتے تھے: «يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ.»([7]) (اے دلوں کے پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر جمادے)۔
هذا والحمد لله رب العالمين وصلى الله على نبينا وسلم.



([1])(مسند احمد1/465، مستدرک حاکم2/239، صححہ ووافقہ الذہبی )
([2])(مستدرک حاکم1/93، صحيح الجامع/2937)
([3])رواه أبو داود (4607)، والترمذي (2676)، وابن ماجه (42)، وأحمد (4/ 126) (17184). قال الترمذي: هذا حديث صحيح. قال الشوكاني في ((إرشاد الفحول)) (1/ 160)، والألباني في ((صحيح سنن ابن ماجه)): صحيح.
([4])(أبو داود 1/132 حدیث 336 ، صحيح الجامع/4363)
([5])( یہ مناظرہ المصنف لعبد الرزاق 10/157 ، و المستدرک للحاکم2/150 میں موجود ہے اور اسے  امام حاکم رحمہ اللہ نے بخاری و مسلم رحمہما اللہ کی شرائط کے مطابق صحیح قرار دیا ہے )

([6])(صحيح مسلم1/534 حدیث 200 - ( 770 )
([7])(رواه الترمذي 4/16 حدیث 2140 )