الأحد، 9 يونيو 2013

نفسانی خواہشات سے نجات کے ذرائع

أسباب التخلص من الهوى لابن القيم رحمه الله تعالى


نفسانی خواہشات  سے
نجات کے ذرائع


تألیف
امام ابن القیم رحمہ اللہ

ترجمانى
عبد الہادی عبد الخالق مدنی
داعیہ احساء اسلامک سینٹر ہفوف سعودی عرب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مقدمہ
            نفسانی خواہشات کی پیروی دنیا وآخرت کی بہت ساری بلاؤں کا سبب ہے اور اس کی مخالفت بہت ساری بھلائیوں کا ضامن۔ ایسے لوگ جو نفسانی خواہشات کے جال میں گرفتار ہوجاتے ہیں اس سے آزادی بڑی مشکل ہوتی ہے لیکن اللہ کی توفیق پھر بندہ کی ہمت وعزیمت سے ہرکام آسان ہوجاتا ہے۔
            زیر نظر رسالہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کے افادات علمیہ میں سے ہے جس کے اندر خواہشات کے دام فریب میں گرفتار لوگوں کے لئے انتہائی مؤثر، دلکش اور شگفتہ اسلوب میں 50 علاج تجویز کیا گیا ہے۔ علامہ کا نام لے لینا ہی کسی تحریر کی قیمت وافادیت بتلانے کے لئے کافی ہے۔اردوداں طبقہ کے استفادے کے لئے اسے اردو کے قالب میں منتقل کیا گیا ہے نیز موضوع کی تفہیم وتسہیل کی خاطر عناوین کا اضافہ کردیا گیا ہے۔
            اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مولائے کریم زیر نظر رسالہ کے مؤلف، مترجم اور اس کی نشرواشاعت میں معاون تمام افراد کو جزائے خیر سے نوازے۔آمین
دعاگو
عبد الہادی عبد الخالق مدنی
کاشانۂ خلیق۔اٹوابازار۔ سدھارتھ نگر۔ یوپی۔ انڈیا
داعی احساء اسلامک سینٹر۔ سعودی عرب



O
خواہش کا مفہوم:
                اپنی طبیعت اور مزاج کے موافق کسی چیز کی طرف میلان کا نام خواہش ہے۔ انسانی بقا کے پیش نظر انسان کے اندر اس میلان اور خواہش کی تخلیق کی گئی ہے۔ کیونکہ اگر انسان کے اندر کھانے پینے اور نکاح کرنے کا میلان نہ ہو تو کھانے پینے اور نکاح سے رک جانے کی وجہ سے ہلاک ہوجائے۔
                خواہش انسان کو اپنا مقصد ومراد حاصل کرنے پر آمادہ کرتی ہے جیسا کہ غصہ وغضب انسان سے اذیت رساں چیزوں کو دفع کرتا ہے لہذا خواہش نہ ہی مطلقاً قابل مذمت ہے اور نہ ہی مطلقاً قابل تعریف۔ جیسا کہ غضب ہے کہ نہ وہ مطلقاً مذموم ہے اور نہ ہی مطلقاً محمود۔بلکہ خواہش یا غضب دونوں کی برائی میں قدرے تفصیل ہے۔ وقت، حالات اور مواقع کے لحاظ سے کبھی یہ بہتر ہوتے ہیں اور کبھی بدتر۔
خواہش کی مذمت کیوں؟
                چونکہ بیشتر خواہشات کے پیچھے چلنے والے، شہوات کا اتباع کرنے والے، غضب پرست لوگ نفع بخش حد پر نہیں رکتے، اس لئے عمومی غلبۂ ضرر کو دیکھتے ہوئے خواہش، شہوت اور غضب کی مذمت مطلقاً کردی جاتی ہے کیونکہ بہت کم ایسے لوگ ہیں جو ان قوتوں میں عدل کرسکتے ہوں اور حدود پر ٹھہرجاتے ہوں۔ جیسا کہ مزاجوں میں ہوتا ہے کہ ہر طرح سے معتدل مزاج انسان کمیاب ہوتے ہیں، کسی نہ کسی خلط اور کیفیت کا غلبہ ضرور ہوتا ہے۔لہذا ایک ناصح کو شہوت وغضب کی قوتوں کو اعتدال پر لانے کی پوری کوشش کرنی چاہئے۔
                 چونکہ خواہش میں اعتدال افراد عالم کی اکثریت کے لئے نہایت ہی دشوار ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جب جب خواہش کا ذکر کیا تو اس کی مذمت فرمائی اور حدیث نبوی میں بھی اس کی مذمت ہی آئی ہے البتہ جب کوئی قید اور تخصیص ہو تو معاملہ مختلف ہوجاتاہے جیسا کہ نبی صلى الله عليہ وسلم نے فرمایا :
 ''تم میں سے اس وقت تک کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہشات میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ ہوجائیں''۔  (شرح السنة)
 یہ مقولہ مشہور ہے کہ خواہش غیر محفوظ جائے پناہ ہے۔
                امام شعبی فرماتے ہیں کہ خواہش،خواہش پرست کو پستی میں گرادیتی ہے۔ انجام کی فکر کے بغیر وقتی لذت کی طرف بلاتی اور فوری طور پر شہوت پوری کرنے کے لئے آمادہ کرتی ہے خواہ اس کی بنا پر دنیا وآخرت میں عظیم آلام ومصائب کا سامنا کرنا پڑے۔
                واضح رہے کہ آخرت سے پہلے دنیا میں ہی ہر عمل کا ایک انجام ہوتا ہے لیکن خواہش انسان کی عاقبت اندیشی ختم کرکے اسے انجام کے دیکھنے سے اندھا کردیتی ہے۔ جبکہ عقل اور دین ومروت انسان کو ہر ایسی لذت و شہوت سے روکتے ہیں جن کا انجام ندامت وشرمندگی اور درد والم ہو۔ نفس جب ان لذتوں اور شہوتوں کی طرف بڑھتا ہے تو دین وعقل ومروت میں سے ہر ایک اس سے مخاطب ہوکے کہتے ہیں کہ ایسا نہ کر۔ لیکن اطاعت اسی کی ہوتی ہے جو غالب ہو۔
                آپ دیکھتے ہیں کہ ایک بچہ اپنی خواہش کو ترجیح دیتا ہے خواہ اس کے نتیجے میں بربادی ہاتھ آئے کیونکہ وہ عقل کا کچا ہوتا ہے۔ایک بے دین آدمی اپنی خواہش کو ترجیح دیتا ہے خواہ اس کا نتیجہ آخرت کی تباہی ہو کیونکہ وہ دین کا کچا ہوتا ہے اور ایک بے مروت انسان اپنی خواہش کو ترجیح دیتا ہے خواہ اس کی مروت داغدار یا ختم ہوجائے کیونکہ وہ مروت کا کچا ہوتا ہے۔
                امام شافعی رحمہ اللہ کا یہ قول سنہرے حروف سے لکھنے کے قابل ہے کہ اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ ٹھنڈا پانی پینے سے میری مروت میں خلل پڑے گا تو میں اسے نہیں پی سکتا !!
خواہشات آزمائش ہیں:
                چونکہ انسان کا امتحان خواہشات کے ذریعے رکھا گیا ہے اور وہ ہروقت کسی نہ کسی حادثہ سے دوچار ہوتا رہتا ہے، اس لئے اس کے وجود میں دوحاکم بنا دئیے گئے، ایک عقل اور دوسرا دین۔ پھرانسان کو حکم دیا گیا کہ خواہشات کے حوادث کو ہمیشہ ان دونوں حاکموں کے پاس لے جائے اور ان کے فیصلوں پر سرتسلیم خم کرے۔ انسان کو چاہئے کہ ایسی خواہشات کو بھی دبانے کی عادت ڈالے جن کا انجام مامون ومحفوظ ہو، تاکہ اس میں اذیت ناک انجام والی خواہشات کے چھوڑ دینے کی قوت پیدا ہو۔

خواہش کی غلامی سے نجات کیسے؟
                اگر یہ سوال کیا جائے کہ اس شخص کے نجات کی کیا صورت ہے جو خواہشات کا غلام بن چکا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ الله  کی توفیق اور مدد سے آئندہ سطور میں ذکر کئے گئے چند امور کے اپنانے سے اس کی نجات ممکن ہے۔
آزادانہ عزیمت:
                ١۔ ایسی آزادانہ عزیمت جس میں اپنے نفس کے موافق ومخالف غیرت موجود ہو۔
صبر کا تلخ گھونٹ:
                ٢۔ صبر کا تلخ گھونٹ جس کی تلخی گوارہ کرنے پر اس گھڑی اپنے نفس کو آمادہ کرسکے۔
نفسانی قوت:
                ٣۔ وہ نفسانی قوت جو اس تلخ گھونٹ کے پینے پر حوصلہ افزائی کرے۔ درحقیقت شجاعت ایک گھڑی کی صبر ہی کا نام ہے۔ اور وہ زندگی کتنی پرکیف زندگی ہے جسے بندہ نے اپنے صبر سے پایا ہو۔
عاقبت اندیشی:
                ٤۔ حسن عاقبت اور خوش انجامی کو پیش نظر رکھنا اور اس کو تلخی کا علاج سمجھنا۔
لذت والم کا موازنہ:
                ٥۔ اس بات کو مدنظر رکھنا کہ خواہشات کی لذت سے وہ تکلیف اور سزا کہیں زیادہ ہے جو اس کے نتیجہ میں آتی ہے۔
اپنے مقام ومرتبہ کا خیال:
                ٦۔الله کے نزدیک اور اس کے بندوں کے دلوں میں موجود اپنے مقام ومرتبہ کو بچانے کی کوشش کرنا کیونکہ یہ چیز خواہشات کی لذت سے بہت بہتر اور زیادہ سودمند ہے۔
پاکدامنی کی مٹھاس کو ترجیح:
                ٧۔ عفت وپاکدامنی کی لذت ومٹھاس کو گناہ ومعصیت کی لذت پر ترجیح دینا۔
شیطان کی عداوت:
                ٨۔ اس بات پر خوش ہونا کہ اپنے دشمن (شیطان )پر غلبہ حاصل کرلیا اور اسے غیظ وغضب اور فکر وغم کے ساتھ ناکام ونامراد واپس کردیا اور اس کی امید وآرزو پوری نہ ہوسکی۔
                معلوم ہونا چاہئے کہ الله  تعالیٰ کو اپنے بندے سے متعلق یہ بات بہت پسند ہے کہ وہ اپنے دشمن کی ناک مٹی میں ملائے اور اسے غصہ دلائے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد باری ہے :
{وَلَا يَطَئُونَ مَوْطِئًا يَغِيظُ الْكُفَّارَ وَلَا يَنَالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَيْلًا إِلَّا كُتِبَ لَهُمْ بِهِ عَمَلٌ صَالِحٌ} [التوبة: 120]
(اور جو کسی ایسی جگہ چلے جو کفار کے لئے موجب غیظ ہوا ہو اور دشمنوں کی جوکچھ خبر لی ان سب پر ان کے نام [ایک ایک] نیک کام لکھا گیا۔)
نیز فرمایا:
{لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ} [الفتح: 29]
(تاکہ ان کی وجہ سے کافروں کو چڑائے۔)
نیزفرمایا :
{وَمَنْ يُهَاجِرْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ يَجِدْ فِي الْأَرْضِ مُرَاغَمًا كَثِيرًا وَسَعَةً} [النساء: 100]
(جو کوئی الله کی راہ میں وطن کو چھوڑے گا وہ زمین میں بہت سی قیام کی جگہیں بھی پائے گا اور کشادگی بھی۔)
                قیام کی جگہوں سے مراد وہ جگہیں ہیں جن کے ذریعے الله کے دشمنوں کی ناک مٹی میں ملا سکے۔ 
                سچی محبت کی علامت یہ ہے کہ محبوب کے دشمنوں کو مبتلائے غیظ کیا جائے اور ان کی ناک خاک آلود کی جائے۔
مقصد تخلیق پر غور:
                ٩۔ اس بات پر غور کرنا کہ اس کی تخلیق خواہشات کے پیچھے چلنے کے لئے نہیں ہوئی بلکہ ایسے عظیم کام کے لئے اسے وجود بخشا گیا ہے جس کا پانا خواہشات سے دوری کے بغیر ناممکن ہے۔
تمیز نفع وضرر:
                ١٠۔اپنے نفس کو ایسی چیزوں کا خوگر نہ بنائے جس کی بنا پر ایک بے عقل چوپایہ اس سے بہتر قرار پائے کیونکہ حیوان طبعی طور پر اپنے نفع وضرر کی تمیز کرلیتا ہے اور نقصان پر فائدہ کو ترجیح دیتا ہے۔ انسان کو اسی مقصد کی خاطر عقل سے نوازا گیا،اگر وہ نفع وضرر میں تمیز نہ کرسکے یا تمیز ومعرفت کے باوجود ضرر کو ترجیح دے تو ظاہر ہے کہ ایک بے خرد چوپائے کی حالت اس سے بہتر قرار پائے گی۔
برے انجام پر غور:
                ١١۔ اپنے دل میں خواہشات کے انجام پر غور کرے اور دیکھے کہ گناہوں اور نافرمانیوں کی بنا پر کتنی فضیلتیں فوت ہوگئیں اور کتنی ذلتوں سے ہمکنار ہونا پڑا۔ایک لقمہ نے کتنے لقموں سے محروم کردیا۔ ایک لذت نے کتنی لذتوں سے دور کردیا۔
                کتنی ہی خواہشات اور شہوتیں ایسی ہیں جو انسان کی شان وشوکت کو مٹی میں ملادیتی ہیں۔ اس کا سر جھکادیتی اور اس کی نیک نامی کو بدنامی سے بدل دیتی ہیں۔ اس کی رسوائی کا سامان فراہم کرتی اور اس کے وجود کو ایسی ذلت وعار سے لت پت کردیتی ہیں جسے پانی سے دھوکر صاف نہیں کیا جاسکتا مگر کیا کیا جائے کہ خواہش پرست کی آنکھیں اندھی ہوجاتی ہیں۔
کیا کھویا کیا پایا؟
                ١٢۔ جس سے اس کی خواہش متعلق ہے اس سے مقصد کی تکمیل کے بعد کا تصور کرے اور ضرورت پوری ہونے کے بعد اپنی حالت کا جائزہ لے اور غور کرے کہ اس نے کیا کھویا اور کیا پایا۔
اپنی ذات شریف:
                ١٣۔ دوسروں کے بارے میں اس بات کا کما حقہ تصور کرے پھر اپنے آپ کو اس مقام پر لے جائے اور دیکھے :کیا دونوں معاملے میں اس کی عقل کا فیصلہ ایک ہی ہے ؟؟
عقل ودین کا فیصلہ:
                ١٤۔ اپنے نفس کے مطالبہ پر غور کرے اور اپنی عقل اور اپنے دین سے اس کے متعلق دریافت کرے،یہ دونوں اسے بتائیں گے کہ یہ کوئی اہم بات نہیں ہے۔
                 عبد اللہ بن مسعود رضي الله عنه  فرماتے ہیں: جب تم میں سے کسی شخص کو کوئی عورت اچھی لگے تو اس کی گندی اور بدبو دار جگہوں کا خیال کرے (وہ بری لگنے لگے گی )۔
ذلت سے برتری:
                ١٥۔ خواہش کی غلامی کی ذلت سے اپنے آپ کو بلند تصور کرے۔ جو شخص ایک بار بھی اپنی خواہش کے پیچھے چلتا ہے لازمی طور پر اپنے آپ میں ذلت محسوس کرتا ہے۔ بندگانِ خواہشات کے اکڑفوں اور کبر وغرور سے دھوکا نہیں کھانا چاہئے کیونکہ وہ اندرونی طور پر کافی ذلیل اور پست ہوتے ہیں لیکن عجب انداز سے ذلت وغرور (احساس کمتری وبرتری) دونوں ان میں یکجا ہوتا ہے۔
خیر وشر کا موازنہ:
                ١٦۔ دین وآبرو اور مال وجاہ کی سلامتی ایک طرف اور مطلوبہ لذت کا حصول ایک طرف، دونوں میں موازنہ کرے۔ان دونوں کے درمیان قطعی کوئی نسبت نہیں۔ اس سے بڑا نادان کون ہوگا جو ایک کے بدلہ میں دوسرے کو فروخت کرے۔!
بلند ہمتی:
                ١٧۔ اپنے دشمن کے زیر اقتدار اور اس کے قابو میں رہنے سے اپنے آپ کو بلند تصور کرے کیونکہ شیطان جب بندہ میں ہمت وعزیمت کی کمزوری اور خواہشات کی طرف جھکاؤ اور میلان دیکھتا ہے تو اس کو زیر کرنے کی لالچ کرتا ہے اور موقع پاتے ہی اسے چت کردیتا اور خواہشات کی لگام پہنا کر جہا ں چاہتا ہے لے جاتا ہے۔ لیکن شیطان جب بندہ میں قوت وعزیمت، شرف نفس اور علوہمت دیکھتا ہے تو اس کی اسیری کا حریص نہیں ہوتا البتہ چوری، چپکے اور دھوکے سے اسے ضرور نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔
خواہش کے نقصانات:
                ١٨۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ خواہش جس چیز میں مل جاتی ہے اسے بگاڑ کے رکھ دیتی ہے۔
                 اگر علم میں خواہش نفس کی ملاوٹ ہوجائے تو بدعت وضلالت جنم لیتی ہے اور ایسا عالم خواہش پرستوں کی صف میں شامل ہوجاتا ہے۔
                 اگر زہد میں اس کی آمیزش ہوجائے تو ریاکاری اور سنت رسول سے روگردانی پیدا ہوجاتی ہے۔
                اگر فیصلہ کرنے میں اس کی ملاوٹ ہوجائے تو حق تلفی پر اکساتی ہے اور انسان کو ظالم بنادیتی ہے۔
                اگر تقسیم میں اس کی ملاوٹ ہوجائے تو عادلانہ کے بجائے اسے ظالمانہ بنادیتی ہے۔
                اگر مناصب کی تولیت ومعزولی میں اس کی ملاوٹ ہوجائے تو انسان الله تعالیٰ اور مسلمانوں کی خیانت میں مبتلا ہوجاتا ہے پھر وہ اپنی خواہش سے اہلیت وصلاحیت کو دیکھے بغیر جسے چاہتا ہے عہدہ ومنصب سے نوازتا ہے اور جسے چاہتا ہے اس سے معزول کرتا ہے۔
                اگر عبادت میں خواہش کی ملاوٹ ہوجائے تو وہ اطاعت اور تقرب کا ذریعہ باقی نہیں رہ جاتی۔
                 غرضیکہ جس چیز میں بھی خواہش نفس کی ملاوٹ ہوجاتی ہے اسے بگاڑ کے رکھ دیتی ہے۔
شیطان کا چور دروازہ:
                ١٩۔ یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ نفسانی خواہشات ہی کے چور دروازے سے شیطان انسان پر داخل ہوتا ہے۔ انسان کے دل ودماغ، فکرونظر، اور اعمال وکردار میں فساد اور بگاڑ پیدا کرنے کے لئے شیطان دروازے کی تلاش میں ہوتا ہے پھر جب خواہشات کا دروازہ پاجاتا ہے تو اس کے ذریعہ داخل ہوکر تمام اعضاء میں زہر کی طرح پھیل جاتا ہے۔
شریعت کی خلاف ورزی:
                ٢٠۔ الله سبحانہ وتعالیٰ نے خواہشا ت کو اپنے رسول پر نازل کردہ شریعت کے منافی بنایا ہے اورخواہشات کی اتباع کو رسول کی اتباع کے مقابل قرار دیا ہے نیز لوگوں کی دو قسمیں بتائی ہیں: ایک وہ جو وحی کا اتباع کرتے ہیں، دوسرے وہ جو خواہشات کے پیچھے چلتے ہیں۔ قرآن مجید میں اس کا ذکر بکثرت ہوا ہے۔ فرمان باری ہے:
{فَإِنْ لَمْ يَسْتَجِيبُوا لَكَ فَاعْلَمْ أَنَّمَا يَتَّبِعُونَ أَهْوَاءَهُمْ} [القصص: 50]
(پھر اگر یہ آپ کی بات نہ مانیں توآپ یقین کرلیں کہ یہ صرف اپنی خواہش کی پیروی کررہے ہیں۔)
دوسری جگہ ارشاد ہے :
{وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ} [البقرة: 120]
(اور اگر آپ نے باوجود اپنے پاس علم آجانے کے پھر ان کی خواہشوں کی پیروی کی تو الله کے پاس آپ کا نہ تو کوئی ولی ہوگا اور نہ مددگار۔)
اس طرح کی اور بھی دیگر آیات ہیں۔
حیوانات کی مشابہت:
                ٢١۔ الله تعالیٰ نے خواہش پرستوں کی تشبیہ ان حیوانات سے دی ہے جو صورت ومعنی دونوں لحاظ سے سب سے حقیر اور خسیس مانے جاتے ہیں۔ کبھی کتے سے تشبیہ دی اور فرمایا :
{وَلَكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ} [الأعراف: 176]
(لیکن وہ تو دنیا کی طرف مائل ہوگیا اور اپنی نفسانی خواہش کی پیروی کرنے لگا سو اس کی حالت کتے کی سی ہوگئی۔)
اور کبھی گدہے سے تشبیہ دی اور فرمایا:
{كَأَنَّهُمْ حُمُرٌ مُسْتَنْفِرَةٌ (50) فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ } [المدثر: 50، 51]
( گویا کہ وہ بدکے ہوئے گدہے ہیں جو شیر سے بھاگے ہوں)۔
اور کبھی الله تعالیٰ نے ان کی صورتیں بندروں اور سوروں کی شکل میں تبدیل فرمادی۔
نا اہلی ونالائقی:
                ٢٢۔ خواہش کا پیروکار قیادت وسیادت اور امامت وپیشوائی کا اہل نہیں ہوتااور نہ ہی اس لائق ہوتا ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے اور بات مانی جائے اسی ناطے الله تعالیٰ نے ایسے شخص کو امامت سے معزول فرمایا ہے اور اس کی بات ماننے سے روکا ہے۔ الله تعالیٰ نے اپنے خلیل ابراہیم علیہ السلام کو مخاطب کرکے فرمایا :
{إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ} [البقرة: 124]
(میں تمھیں لوگوں کا امام بنادوں گا، عرض کرنے لگے اور میری اولادکو، فرمایا : میرا وعدہ ظالموں سے نہیں۔)
                یعنی خواہش کے پیروکار سب کے سب ظالم ہیں لہذا اس وعدہ کے مستحق نہیں ہیں جیسا کہ الله  تعالیٰ نے مزید فرمایا:
{بَلِ اتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَهْوَاءَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ} [الروم: 29]
(بلکہ بات یہ ہے کہ ظالم تو بغیر علم کے خواہش کے پیچھے چل رہے ہیں۔)
                ایک اور مقام پر الله تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی اطاعت سے منع کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
{وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا} [الكهف: 28]
(دیکھ اس کا کہنا نہ ماننا جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے اور جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور جس کا کام حد سے گذر چکا ہے۔)
بت پرستی:
                ٢٣۔ الله تعالیٰ نے خواہش پرست کو بت پرست کے درجہ میں رکھا ہے۔ فرمایا:  {أَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ} [الفرقان: 43]
(کیا آپ نے اسے بھی دیکھا جو اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنائے ہوئے ہے)۔
 الله تعالیٰ نے یہ بات دو مقامات پر ارشاد فرمائی۔
                امام حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس سے وہ منافق مراد ہے کہ جس چیز کی بھی خواہش کرتا ہے کربیٹھتا ہے۔نیز یہ بھی فرمایا کہ منافق اپنی خواہشات کا غلام ہوتا ہے،اس کا نفس جس بات کی خواہش کرتا ہے وہ کرتا جاتا ہے۔
جہنم کا باڑھ:
                ٢٤۔نفسانی خواہشات ہی جہنم کا باڑھ ہیں، اسی سے جہنم گھری ہوئی ہے لہذا جو نفسانی خواہشات کا شکار ہوگا جہنم سے دوچار ہوگا۔ جیسا کہ صحیحین میں نبی صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے:
''جنت کو ناپسندیدہ چیزوں سے اور جہنم کو نفسانی خواہشات سے گھیردیا گیا ہے''۔
ترمذی میں ابوہریرہ رضى الله عنه سے مرفوعاً روایت ہے کہ :
''جب الله تعالیٰ نے جنت کی تخلیق فرمائی، جبریل علیہ السلام کو  یہ حکم دے کر بھیجا کہ جنت کو اور اہل جنت کے لئے جوکچھ میں نے اس میں تیار کر رکھا ہے اس کو دیکھ کر آؤ۔چنانچہ جب وہ جنت دیکھ کر واپس ہوئے تو کہا : تیری عزت کی قسم! تیرا جو بندہ اس کے بارے میں سنے گا وہ ضرور اس میں داخل ہوگا۔ پھر الله تعالیٰ کے حکم سے جنت کو ناگوار چیزوں سے گھیر دیا گیا۔ الله تعالیٰ نے جبریل کو دوبارہ جاکر دیکھنے کا حکم دیاجب کہ اسے ناپسندیدہ چیزوں سے گھیرا جاچکا تھا جبریل علیہ السلام نے واپس آکر کہا :تیری عزت کی قسم! مجھے اندیشہ ہے کہ اس میں کوئی نہ داخل ہوسکے گا۔ پھر الله تعالیٰ نے فرمایا: جہنم اور اہل جہنم کے لئے میں نے جوکچھ تیار کر رکھا ہے اس کو جاکر دیکھو، جبریل آئے اور دیکھا کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصہ پر چڑھا جاتا ہے۔ لوٹ کر آئے اور باری تعالیٰ سے عرض کیا : تیری عزت کی قسم! اس کا حال جوسنے گا ا س میں نہیں داخل ہوگا۔ پھر الله کے حکم سے اس کو نفسانی خواہشات سے گھیر دیا گیا۔ الله تعالیٰ نے فرمایا پھر جاکر دیکھو۔ اب دیکھا تو اسے شہوات سے گھیرا جاچکا تھا۔ لوٹ کرآئے اور کہا : تیری عزت کی قسم! مجھے اندیشہ ہے کہ اس سے کوئی نجات نہ پاسکے گا۔ ''   
(امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے)۔
اندیشۂ کفر:
                ٢٥۔ نفسانی خواہشات کے پیچھے چلنے والے کے بارے میں اسلام سے لاشعوری طور پر نکل جانے کا اندیشہ ہے۔ نبی صلى الله عليه وسلم کا یہ فرمان ثابت ہے:
 ''تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہش میرے لائے ہوئے دین کے تابع نہ ہوجائے۔''
اور صحیح حدیث میں یہ بھی ہے کہ نبی صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : ''مجھے تمھارے بارے میں جس چیز کا سب سے زیادہ ڈر ہے وہ تمھارے پیٹ اور شرمگاہ کی بہکا دینے والی شہوتیں اور نفسانی خواہشات کی گمراہ کن باتیں ہیں۔''
موجبِ ہلاکت:
                 ٢٦۔ نفسانی خواہشات کے پیچھے چلنا موجب ہلاکت ہے۔
 نبی صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے:
''تین چیزیں باعث ِنجات اور تین چیزیں باعث ہلاکت ہیں : نجات دینے والی پہلی چیز کھلے اور چھپے الله  کا تقوی ہے۔ دوسری چیز خوشی اور ناراضی ہرحال میں حق گوئی، تیسری چیز فقیری اور امیری ہر حال میں میانہ روی ہے۔ اور ہلاک کرنے والی پہلی چیز وہ نفسانی خواہش ہے جس کی اتباع کی جائے۔ دوسری چیز وہ بخل ہے جس کی بات مانی جائے اور تیسری چیز آدمی کی خود پسندی ہے''۔
باعث فتح وظفر:
                ٢٧۔ نفسانی خواہش کی مخالفت کرنے سے بندہ اپنے جسم اور دل وزبان میں قوت پاتا ہے۔
                بعض سلف کا قول ہے کہ اپنی خواہش پر غلبہ حاصل کرنے والا اس سے بھی زیادہ طاقتور ہے جو تنہا کسی ملک کو فتح کرتا ہے۔ صحیح حدیث میں نبی صلى الله عليه وسلم کا فرمان ہے:
''پہلوان وہ نہیں جو کسی کو پچھاڑ دے بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ پر قابو پالے۔''
                آدمی جب جب اپنی خواہش کی مخالفت کرتا ہے اپنی قوت میں برابر اضافہ کرتا جاتا ہے۔
اخلاق ومروت:
                ٢٨۔ اپنی خواہش کے خلاف چلنے والا سب سے زیادہ بامروت انسان ہوتا ہے۔ معاویہ رضى الله عنه فرماتے ہیں: خواہشات کو چھوڑدینا اور ہوائے نفس کی بات نہ ماننا یہی مروت ہے۔ خواہشات کے پیچھے چلنا مروت کو بیمار کردیتا ہے۔ اور اس کی مخالفت،مروت کو افاقہ عطا کرتی اور شفادیتی ہے۔
عقل اور خواہش کی جنگ:
                ٢٩۔ ہر دن خواہش اور عقل باہم دست وگریباں ہوتے ہیں جو جیت جاتا ہے شکست خوردہ کو بھگادیتا ہے اور خود حکومت و تصرف کرتا ہے۔ ابودرداء رضى الله عنه فرماتے ہیں: آدمی جب صبح کرتا ہے اس کی عقل اور خواہش اکٹھا ہوتی ہے۔اگر اس کی عقل خواہش کے تابع ہوئی تو وہ ایک برا دن ہوتا ہے اور اگر خواہش عقل کے تابع ہوئی تو وہ ایک اچھا دن ہوتاہے۔
غلطی کا امکان:
                ٣٠۔ الله تعالیٰ نے خطا اور اتباع ہوا (غلطی اورخواہش کی پیروی) کو ایک دوسرے کا ساتھی بنایاہے۔ اسی طرح درستی اور خواہش کی مخالفت کو ایک دوسرے کا ساتھی بنایا ہے جیسا کہ بعض سلف کا قول ہے: جب تمھیں دو باتوں میں شبہ ہوجائے کہ زیادہ سخت کون ہے تو جو تمھاری خواہش کے قریب ہو اس کی مخالفت کرو کیونکہ خواہش کے پیچھے چلنے ہی میں غلطی کا امکان زیادہ ہے۔
بیماری اور علاج:
                ٣١۔ خواہش بیماری ہے اور اس کا علاج اس کی مخالفت ہے۔ کسی عارف کا قول ہے: اگر تم چاہو تو تم کو تمھارا مرض بتادوں اور اگر چاہو تو اس کی دوا بھی بتادوں؟ نفسانی خواہش تمھارامرض ہے، اس کو چھوڑ دینا اور اس کی مخالفت کرنا اس کی دوا ہے۔
                بشرحافی فرماتے ہیں : ساری بلائیں نفسانی خواہشات کی بنا پر ہیں اور سارا علاج اس کی مخالفت میں ہے۔
جہاد:
                ٣٢۔ خواہشات سے جہاد اگر جہادِ کفار سے بڑھ کر نہیں تو اس سے کم تر بھی نہیں ہے۔
                ایک شخص نے حسن بصری سے کہا : اے ابوسعید! کون سا جہاد افضل ہے؟ فرمایا :خواہشات نفسانی سے جہاد کرنا۔
                 شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: نفس اور خواہش سے جہاد، کفار ومنافقین سے جہاد کی بنیاد ہے کیونکہ ان سے اس وقت تک کوئی جہاد نہیں کرسکتا جب تک کہ ان کی طرف نکلنے کے لئے اپنے نفس اور خواہش سے جہاد نہ کرے۔
مرض بڑھتا گیا:
                ٣٣۔ خواہش بیماری کو بڑھادینے والی چیز ہے اور اس کی مخالفت پرہیز ہے۔ ایسا شخص جو مرض بڑھانے والی چیز کا استعمال کرے اور پرہیز سے دور رہے اس کے انجام کے بارے میں خطرہ یہی ہے کہ بیماری اسے دبوچ لے گی۔
محرومی وبے توفیقی:
                ٣٤۔ خواہشات کی اتباع سے توفیق کے دروازے بند ہوجاتے اور محرومی کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ ایسے لوگ اپنی زبان سے کہتے رہتے ہیں کہ اگر الله توفیق دے تو ایسا اور ایسا کرگذریں مگر خواہشات کی اتباع کرکے انھوں نے اپنے لئے توفیق کے راستے مسدود کرلئے ہیں۔
                فضیل بن عیاض کا قول ہے: جس شخص پر شہوت اور خواہش  غالب آجاتی ہے توفیق اس سے منقطع ہوجاتی ہے۔
                کسی عالم کا قول ہے کہ کفر چار چیزوں میں ہے :غضب اور شہوت میں، لالچ اور خوف میں۔پھر فرمایا کہ دو کو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا: ایک شخص غصہ میں آیا اور اس نے اپنی ماں کو قتل کرڈالا، دوسرا شخص مبتلائے عشق ہوکر نصرانی ہوگیا۔
فساد عقل وخرد:
                ٣٥۔ جو آدمی اپنی خواہشات کو ترجیح دیتا ہے اس کی عقل فاسد اور رائے بگڑجاتی ہے۔ اس لئے کہ اپنی عقل کے معاملے میں اس نے الله کی خیانت کی تو الله نے اس کی عقل کو فاسد کردیا۔ تمام امور میں  الله کی سنت یہی ہے کہ جو کوئی اس میں خیانت کرتا ہے الله تعالیٰ اسے فاسد کردیتا اور بگاڑدیتا ہے۔
قبر وآخرت کی تنگی:
                ٣٦۔ جو اپنی خواہشات کی تکمیل میں اپنے نفس پر کشادگی کرتا ہے تو اس پر قبر اور آخرت میں تنگی ہوگی۔اس کے برخلاف جو نفس کی مخالفت کرکے اس پر تنگی کرتا ہے اس کی قبر اور آخرت میں اس پرفراخی ہوگی۔ الله تعالیٰ نے اپنے اس فرمان میں اسی طرف اشارہ کیا ہے:
{وَجَزَاهُمْ بِمَا صَبَرُوا جَنَّةً وَحَرِيرًا} [الإنسان: 12]
(اورانہیں ان کے صبرکے بدلہ جنت اورریشمی لباس عطافرمائے۔)
                چونکہ صبر جوکہ خواہشات سے نفس کو روکنے کانام ہے اس میں کھردراپن اور تنگی ہے اس لئے بدلے میں نرم وگداز ریشم اور جنت کی وسعت عطافرمائی۔
                 ابوسلیمان دارانی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : شہوتوں سے صبر کرنے پر یہ بدلہ عطا فرمایا۔
رکاوٹ:
                ٣٧۔نفسانی خواہشات قیامت کے دن نجات یافتہ بندوں کے ساتھ اٹھ کر دوڑنے سے رکاوٹ بن جائیں گے، جس طرح دنیا میں ان کا ساتھ دینے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
                محمد بن ابی الورد کا قول ہے کہ الله تعالیٰ نے ایک دن ایسا بنایا ہے جس کی مصیبت سے خواہشات کے پیچھے چلنے والا نجات نہیں پاسکتا۔ قیامت کے دن جو شخص سب سے دیر سے اٹھے گا وہ شہوتوں کا پٹخا ہوا ہوگا۔ عقلیں جب طلب کے میدان میں دوڑتی ہیں تو سب سے زیادہ حصہ کی مستحق وہ ہوتی ہے جس کے پاس سب سے زیادہ صبر ہو۔ عقل معدن ہے اور فکر اس معدن سے خزانے نکالنے کا آلہ ہے۔
عزائم کی پستی:
                ٣٨۔ خواہشات کی غلامی عزائم کی پستی اور کمزوری کا سبب ہے اور اس کی مخالفت عزائم کو مضبوطی اور طاقت عطا کرتی ہے۔عزم وہ سواری ہے جس کے ذریعہ بندہ الله اور آخرت کی طرف سفر کرتا ہے، اگر سواری خراب ہوجائے تو مسافر کی منزل بہت دور ہوجاتی ہے۔
                 یحییٰ بن معاذ سے دریافت کیا گیا : عزم کے اعتبار سے صحیح ترین انسان کون ہے؟ فرمایا : وہ جو اپنی خواہشات پر غالب آجائے۔
بدترین سواری:
                ٣٩۔خواہش پرست کی مثال اس گھڑ سوار کی سی ہے جس کا گھوڑا نہایت تیز رفتار،بے قابو، سرکش اور بے لگام ہو، دوڑنے کے دوران اپنے سوار کو پٹخ دے یاکسی ہلاکت کے مقام پر پہنچادے۔
                ایک عارف کا کلام ہے : جنت کو پہنچانے والی سب سے تیز رفتار سواری دنیا سے بے رغبتی ہے اور جہنم تک پہنچانے والی سب سے تیزرفتار سواری خواہشات کی محبت ہے۔ خواہشات کا سوار ہلاکتوں کی وادی میں نہایت تیزی کے ساتھ پہنچ جائے گا۔
                ایک دوسرے عارف کا کلام ہے کہ سب سے زیادہ صاحب شرف وہ عالم ہے جو اپنے دین کی حفاظت کے لئے دنیا سے بھاگے اور خواہشات کے پیچھے چلنا اس کے لئے دشوار ہو۔
                عطا فرماتے ہیں : جس کی خواہش اس کی عقل پر اور بے قراری اس کے صبر پر غالب آجائے وہ رسوا ہوجائے گا۔
توحید کی ضد:
                ٤٠۔ توحید اور نفسانی خواہش کا اتباع ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ نفسانی خواہش ایک بت ہے اور ہر خواہش پرست کے دل میں اس کی خواہش کے مطابق بت موجود ہیں۔ الله تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو اسی لئے بھیجا کہ وہ بتوں کو توڑیں اور ایک الله وحدہ' لاشریک کی عبادت کا غلغلہ بلند کریں۔ الله تعالیٰ کا یہ مقصود ہرگز نہیں کہ جسمانی اور ظاہری بتوں کو توڑ دیا جائے اور دلوں کے بتوں کو چھوڑ دیا جائے بلکہ دلوں کا بت ہی سب سے پہلے توڑنا ہے۔
                حسن بن علی مطوعی کا قول ہے: ہر انسان کا بت اس کی نفسانی خواہش ہے، جس نے خواہشات کی مخالفت کرکے اس بت کو توڑ دیا وہی جوان کہلانے کا مستحق ہے۔ ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنی قوم سے جو بات کہی تھی ذرا اس پر غور کرو، فرمایا:
{مَا هَذِهِ التَّمَاثِيلُ الَّتِي أَنْتُمْ لَهَا عَاكِفُونَ} [الأنبياء: 52]
(یہ مورتیاں کیا ہیں جن کے تم مجاور بنے بیٹھے ہو ؟)
                ان کی بات ان بتوں پر کس قدر فٹ آتی ہے جنھیں خواہشات کی شکل میں انسان دل میں بٹھائے ہوتا ہے، ان میں منہمک رہتا اور الله کو چھوڑ کر ان کی پرستش کرتا ہے۔ الله تعالیٰ کا ارشاد ہے :
{ أَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ أَفَأَنْتَ تَكُونُ عَلَيْهِ وَكِيلًا , أَمْ تَحْسَبُ أَنَّ أَكْثَرَهُمْ يَسْمَعُونَ أَوْ يَعْقِلُونَ إِنْ هُمْ إِلَّا كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ سَبِيلًا} [الفرقان: 43-44]
( کیا آپ نے اسے بھی دیکھا جو اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنائے ہوئے ہے، کیا آپ اس کے ذمہ دار ہو سکتے ہیں؟ کیا آپ اسی خیال میں ہیں کہ ان میں سے اکثر سنتے یا سمجھتے ہیں، وہ تو نرے چوپایوں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے)۔
بیماریوں کی جڑ:
                ٤١۔خواہش کی مخالفت سے دل اور بدن کی بیماریاں ختم ہوتی ہیں۔ جہاں تک دل کی بیماریوں کا معاملہ ہے تو وہ ساری کی ساری خواہش پرستی ہی کا نتیجہ ہوتی ہیں اور اگر آپ تحقیق کریں تو معلوم ہوگا کہ بیشتر جسمانی بیماریوں کی وجہ بھی یہی ہوتی ہے کہ کسی چیز کے چھوڑ دینے کے عقلی فیصلہ پر خواہش نفس کو ترجیح دی جاتی ہے۔
عداوتوں کی بنیاد:
                ٤٢۔ لوگوں کی آپسی عداوت اور شروحسد کی بنیاد خواہش پرستی ہے۔ جو شخص خواہش پرستی سے دور ہوتا ہے وہ اپنے قلب وجگر اور جسم واعضاء کو راحت پہنچاتا ہے۔ خود بھی آرام میں ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی اس سے آرام ہوتا ہے۔
                ابوبکر وراق کا قول ہے: جب خواہش غالب آتی ہے دل کو تاریک کردیتی ہے۔ جب دل تاریک ہوتا ہے سینہ تنگ ہوجاتا ہے۔ جب سینہ تنگ ہوجاتا ہے اخلاق برے ہوجاتے ہیں۔ جب اخلاق برے ہوجاتے ہیں تو مخلوق اسے ناپسند کرنے لگتی ہے اور وہ بھی دوسروں کو ناپسند کرنے لگتا ہے اور جب نوبت اس باہمی بغض وعداوت تک پہنچ جاتی ہے تو اس کے نتیجہ میں انتہائی شروفساد اور ترک حقوق وغیرہ پیدا ہوتا ہے۔

ایک ہی فاتح:
                ٤٣۔ الله تعالیٰ نے انسان میں دو قوتیں پیدا فرمائی ہیں۔ ایک خواہش اور دوسری عقل۔ان دونوں میں سے جب ایک قوت نمایاں ہوتی ہے تو دوسری قوت چھپ جاتی ہے۔
                ابوعلی ثقفی کا قول ہے : جس پر خواہش کا غلبہ ہوتا ہے اس کی عقل چھپ جاتی ہے۔ بھلا اس کا انجام کیا ہوگا جس کی عقل غائب ہو اور  بے عقلی ظاہر ہو۔ !!
                علی بن سہل کا قول ہے : عقل اور خواہش باہم لڑتے ہیں۔ توفیق عقل کے ساتھ ہوتی ہے اور محرومی خواہش کے ساتھ۔ نفس ان دونوں کے بیچ ہوتی ہے۔ ان میں سے جس کی فتح ہوتی ہے نفس اسی کے ساتھ ہوجاتی ہے۔
شیطان کا ہتھیار:
                ٤٤۔ الله تعالیٰ نے دل کو اعضاء کا بادشاہ بنایا ہے اور اپنی محبت ومعرفت اور عبودیت کا معدن قرار دیا ہے اور دو بادشاہوں، دو لشکروں، دومددگاروں اور دوہتھیاروں سے اس کی آزمائش فرمائی ہے۔ حق وہدایت اور زہد وتقوی ایک بادشاہ ہے، جس کے مددگار ملائکہ ہیں،جس کا لشکر وہتھیار صدق واخلاص اور خواہشات سے دوری ہے۔ باطل دوسرا بادشاہ ہے، شیاطین اس کے مددگار ہیں، اس کا لشکر وہتھیار خواہشات کی اتباع ہے۔ نفس ان دونوں لشکروں کے درمیان کھڑا ہوتا ہے۔دل پر باطل کے لشکروں کا حملہ اسی کی جانب اور اسی کی سرحد سے ہوتا ہے۔ نفس دل کو مدہوش کرکے اس کے خلاف اس کے دشمنوں سے مل جاتا ہے۔ نفس ہی دل کے دشمنوں کو ہتھیار اور سامان رسد پہنچاتاہے اور قلعہ کا دروازہ ان کے لئے کھول دیتا ہے چنانچہ دل بے سہارا ہوجاتا ہے اور باطل کی فتح ہوجاتی ہے۔
سب سے بڑا دشمن:
                ٤٥۔انسان کا سب سے بڑا دشمن اس کا شیطان اورخود اس کی اپنی خواہش ہے اور اس کا سب سے بڑا دوست اس کی عقل اور اس کا فرشتہ ہے۔ جب انسان اپنے خواہش کی پیروی کرتا ہے اور ہوائے نفس کا اسیر ہوجاتا ہے اور اپنے دشمن کو خوش ہونے کا موقع دیتا ہے تو اس کا دوست اور محبوب اس بات کو ناپسند کرتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس سے الله کے نبی صلى الله عليه وسلم پناہ مانگا کرتے تھے۔ آپ فرماتے :
«اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ جَهْدِ البَلاَءِ، وَدَرَكِ الشَّقَاءِ، وَسُوءِ القَضَاءِ، وَشَمَاتَةِ الأَعْدَاءِ»
[اے الله میں تیری پناہ چاہتا ہوں سخت بلا سے اور بد بختی آنے سے اور بری قضا سے اور دشمنوں کی خوشی سے۔]
آغازوانجام:
                ٤٦۔ ہر انسان کا ایک آغاز اور ایک انجام ہوتا ہے۔ جس کا آغاز خواہشات کی اتباع سے ہوگا اس کا انجام ذلت وحقارت، محرومی اور بلائیں ہوں گی۔ جس قدر وہ اپنی خواہش کے پیچھے چلے گا اسی قدر دلی عذاب میں مبتلا رہے گا۔ کسی بھی بدحال شخص پر آپ غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ اس کا آغاز یہ تھا کہ وہ اپنی خواہشات کے پیچھے چلتا رہا اور اپنی عقل پر اسے ترجیح دیتا رہا۔ اس کے برخلاف جس شخص کی ابتدا اپنی خواہشات کی مخالفت اور اپنی سوجھ بوجھ کی اطاعت سے ہوگی اس کا انجام عزوشرف، جاہ واقتدار اور مال ودولت ہوگا۔ لوگوں کے نزدیک بھی اور الله کے نزدیک بھی ہرجگہ اس کا ایک مقام ہوگا۔
                ابو علی دقاق کا قول ہے کہ جو اپنی جوانی میں اپنی خواہشات پر قابو رکھتا ہے بڑھاپے میں الله تعالیٰ اسے عزت عطا فرماتا ہے۔
                مہلب بن ابی صفرة سے پوچھا گیا کہ آپ اس مقام پر کس طرح پہنچے ؟ فرمایا : ہوش و خرد کی اطاعت کرکے اور خواہشات کی نافرمانی کرکے۔
                یہ تو دنیا کا آغاز وانجام ہے۔ آخرت کا بھی یہی معاملہ ہے کہ خواہش کی مخالفت کرنے والوں کے لئے الله تعالیٰ نے جنت بنائی ہے اور اس کے پیچھے چلنے والوں کے لئے جہنم تیار کر رکھا ہے۔
پاؤں کی بیڑیاں:
                ٤٧۔نفسانی خواہشات دل کی غلامی، گلے کا طوق اور پاؤں کی بیڑیاں ہیں۔ خواہش پرست ہربدکردار کا غلام ہوتا ہے لیکن خواہش کی مخالفت کرتے ہی اس کی غلامی سے نکل کر آزاد ہوجاتا ہے۔ گلے کا طوق اور پاؤں کی بیڑیاں نکال پھینکتا ہے۔
لید کے بدلے موتی:
                ٤٨۔ خواہش کی مخالفت بندہ کو اس مقام پر لا کھڑا کرتی ہے کہ اگر وہ الله کے نام کی قسم کھالے تو الله تعالیٰ اس کی قسم پوری فرماتا ہے۔ خواہشات کی جتنی لذت سے وہ محروم رہتا ہے اس سے کئی گنا زیادہ الله تعالیٰ اس کی ضروریات کی تکمیل کرتا ہے۔ اس کی مثال اس شخص جیسی ہوتی ہے جس نے جانور کی لید سے اعراض کیا تو اس کے بدلہ اسے موتی سے نوازا گیا۔
                خواہش پرست اپنی خواہشات سے جتنی لذت نہیں پاتا اس سے کہیں زیادہ دنیاوی اور اخروی مصلحتیں اور زندگی کی خوش گواریاں فوت کردیتا ہے۔ یوسف علیہ السلام نے جب اپنے آپ کو حرام سے بچایا تو قید سے نکلنے کے بعد ان کا دست وزبان اور نفس وقدم جس قدر آزاد تھا غور کرنے کی چیز ہے۔
                عبد الرحمن بن مہدی فرماتے ہیں : میں نے سفیان ثوری رحمہ اللہ کو خواب میں دیکھا۔میں نے ان سے کہا : الله نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا ؟ انھوں نے کہا : جوں ہی مجھے لحد میں رکھا گیا مجھے الله تبارک وتعالیٰ کے سامنے کھڑا ہونا پڑا۔ الله تعالیٰ نے میرا ہلکا حساب لیا۔ پھر جنت کی طرف لے جانے کا حکم فرمایا۔ ایک دن جب کہ میں جنت کے درختوں اور نہروں کے درمیان گھوم رہا تھا، نہ کوئی آہٹ تھی نہ حرکت، اچانک میں نے ایک شخص کو سنا جو میرا نام لے کر پکار رہا تھا، سفیان بن سعید ! تمھیں وہ دن یاد ہے جب تم نے اپنی خواہش کے خلاف الله تعالیٰ کے حکم کو ترجیح دی تھی۔ میں نے کہا : ہاں ! الله کی قسم۔ پھر ہر طرف سے مجھ پر پھول برسنے لگے۔

مقامِ عزت:
                ٤٩۔ خواہش کی مخالفت دنیا وآخرت کے شرف کا باعث اور ظاہر وباطن کی عزت کا موجب ہے اور اس کی موافقت دنیا وآخرت کی پستی اور ظاہر وباطن کی ذلت کاباعث ہے۔ جب قیامت کے دن الله تعالیٰ تمام انسانوں کو ایک ہموار زمین پر اکٹھا فرمائے گا تو ایک پکارنے والا پکارے گا : آج محشر والوں کو معلوم ہوجائے گا کہ عزت والا کون ہے ؟ متقی کھڑے ہوجائیں۔ چنانچہ وہ سب مقام عزت کی طرف چل پڑیں گے۔ خواہشات کی اتباع کرنے والے سروں کو جھکائے ہوئے خواہشات کی گرمی، اس کے پسینے او ر اس کی تکلیفوں میں پریشان ہوں گے جب کہ متقی عرش کے سایہ میں ہوں گے۔
عرش الٰہی کا سایہ:
                ٥٠۔ اگر آپ ان سات لوگوں کے بارے میں غور کریں جنھیں الله تعالیٰ اس دن عرش کا سایہ نصیب فرمائے گا جب اس کے سایہ کے سوا کوئی دوسرا سایہ نہ ہوگا تو آپ کو معلوم ہوگاکہ ان کو عرش کا سایہ خواہشات کی مخالفت کی بنا پر حاصل ہوا ہے۔
                ایک حاکم جو مضبوط اقتدار اور مستحکم سلطنت کا مالک ہو اپنی خواہشات کی مخالفت کئے بغیر عدل نہیں کرسکتا۔
                ایک جوان خواہشات کی مخالفت کے بغیر اپنی جوانی کے جذبات پر عبادت الٰہی کو ترجیح نہیں دے سکتا۔
                ایک مسلمان لذت گاہوں کی طرف جانے پر آمادہ کرنے والی خواہشات کی مخالفت کے بغیر اپنا دل مساجد میں معلق نہیں رکھ سکتا۔
                ایک صدقہ دہندہ اگر اپنی خواہشات پر غالب نہ ہو تو اپنا صدقہ بائیں ہاتھ سے نہیں چھپاسکتا۔
                ایک مرد اپنی خواہشات کی مخالفت کے بغیر کسی خوبصورت اور صاحب منصب عورت کے بلانے پر الله عزوجل سے ڈر کر اسے نہیں چھوڑسکتا۔ 
                ایک مسلمان اپنی خواہشات کی مخالفت کرکے ہی تنہائی میں اﷲ کو یاد کرتا ہے اور اﷲ کے خوف سے اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلتے ہیں۔
                یہ سب کچھ خواہشات کی مخالفت کی بنا پر ہی ہوسکتا ہے لہذا ایسے لوگوں پر قیامت کے دن کی گرمی، شدت اور پسینہ کا کوئی اثر نہ ہوگا۔ اس کے برعکس خواہش پرست انتہائی گرمی اور پسینہ میں شرابور ہوں گے اور خواہشات کے قیدخانہ میں داخل ہونے کا انتظار کررہے ہوں گے۔
                الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم کو اپنے نفس امارہ کی خواہشات سے اپنی پناہ میں رکھے اور ہماری خواہشات کو اپنی محبت ورضا کے تابع بنادے۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے اور وہی دعائیں سنتا ہے۔
والحمد للہ رب العالمین وصلی اللہ علی نبینا وسلم



الثلاثاء، 4 يونيو 2013

کرامات اولیاء


  كرامات الأولياء



کرامات اولیاء


اعداد
عبد الہادی عبد الخالق مدنی
کاشانۂ خلیق ۔اٹوابازار۔ سدھارتھ نگر۔ یوپی۔ انڈیا
داعی احساء اسلامک سینٹر ۔ سعودی عرب
(موبائیل:  0509067342 (00966



O







بسم الله الرحمن الرحيم
مقدّمہ
الحمد لله رب العالمين, والصلاة والسلام على سيد المرسلين, وعلى آله وأصحابه ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين, أما بعد:
            اولیائے کرام اللہ کے وہ برگزیدہ بندے ہیں جن کے مناقب وفضائل قرآن کریم اور صحیح احادیث کے اندر نمایاں ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان وتقوی، خوفِ الٰہی، پرہیزگاری اور اطاعت واتباع سے مزین اور آراستہ ہوتے ہیں۔ فرائض کے پابند، نوافل کے شیدا، محرمات سے دور، مکروہات سے نفور اور اپنے ہر عمل میں خواہشات نفس کے بجائے رضائے الٰہی کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان پر اﷲ کی نوازش ہوتی ہے۔ وہ جب اللہ سے مانگتے ہیں اللہ انھیں عطا فرماتا ہے، جب اس کی پناہ ڈھونڈتے ہیں انھیں اپنی پناہ میں لے لیتا ہے۔ جب انھیں حاجت وضرورت ہوتی ہے ان کے لئے اللہ کی طرف سے کرامتوں کا ظہور ہوتا ہے۔وہ اپنے ولی ہونے کا دعوی نہیں کرتے اور نہ ہی اپنی کرامتوں کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔ وہ اللہ کے شکرگزار اور متواضع ہوتے ہیں۔ اللہ کی حمد وثنا سے ان کی زبان تر ہوتی ہے۔ توبہ واستغفار اور تسبیح وتہلیل میں انھیں سکونِ قلب اور راحت ِ جان ملتی ہے۔
            اولیائے کرام اللہ کے وہ مخصوص بندے ہیں جنھیں دیکھنے سے اللہ کی یاد آتی ہے ۔ ان کا علم وعمل توحید وسنت کی محکم بنیادوں پر قائم ہوتا ہے۔ وہ شرک وبدعت سے نفرت کرتے ہیں۔ وہ لوگوں کو اللہ  کی طرف بلاتے ہیں۔ انھیں بھلائیوں کا حکم دیتے اور برائیوں سے منع کرتے ہیں۔
            اولیائے کرام کی کرامتیں برحق ہیں۔ سلف صالحین اور ائمۂ دین ومحدثین  نے کبھی ان کا انکار نہیں کیا۔ افراط وتفریط کے شکار اہل بدعت ہی کرامات اولیاء کا انکار کرتے ہیں۔ البتہ کرامات کے نام پر ہر خشک وتر اور غث وسمین کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔ کھرے اور کھوٹے میں تمیز کرنا ضروری ہے۔
            زیر نظر موضوع سے متعلق ہمارے ناقص علم کے مطابق صحیح عقیدہ ومنہج کو پیش کرنے والی اردو زبان میں کوئی مستقل اور متوسط کتاب نہیں تھی، لہٰذا ضرورت تھی کہ اس موضوع پر کچھ کا م کیا جائے۔  چنانچہ مندرجہ ذیل اہداف ومقاصد کو سامنے رکھ کر یہ کتاب ترتیب دی گئی۔
            ١۔ کرامات اولیاء کا برحق ہونا ثابت اور واضح کیا جائے۔
            ٢۔ کرامات اولیاء کے تعلق سے امت میں پائی جانے والی جہالت کو  کم کیا جائے۔
            ٣۔ منکرین کرامات اور عقلیت پرستوں کی تردیدکی جائے۔
            ٤۔ اہل حق، اہل حدیث اورسلفی حضرات پر منکر کرامات ہونے کی تہمت کا ازالہ کیا جائے۔
            ٥۔ رحمانی وشیطانی کرامات کے درمیان خط امتیاز کھینچنے کی کوشش ہو، ان کے مابین فرق وامتیاز کی وضاحت کی جائے۔
            ٦۔ کرامات اولیاء کے شرائط وضوابط بیان کئے جائیں تاکہ کرامات کے نام پربعض جماعتوں کی طرف سے پھیلائی جانے والی گمراہیوں کا سدباب ہوسکے۔نیز کرامت کے نام پر جادو گروں ، کاہنوں، شعبدہ بازوں اور دجل وفریب کے کاروباریوں نے جو طوفان بلاخیز بپا کررکھا ہے اور جس کے نتیجہ میں جاہل، نادان اور سادہ لوح عوام کی اکثریت گمراہی کا شکار ہے ، اس کے آگے بند باندھا جاسکے۔
            ٧۔ صحیح اور ثابت شدہ کرامات کے چند نمونے پیش کردیئے جائیں جس سے اہل ایمان کا ایمان اور زیادہ ہوجائے اورانھیں تسکین قلب حاصل ہو۔
            ہم نے اپنے طور پر اللہ سے مدد طلب کرکے بہتر سے بہتر انداز میں مذکورہ اہداف کو حاصل کرنے کی پوری کوشش کی ہے لیکن ہم اس میں کس قدر کامیاب ہیں یہ قارئین کرام ہی بتاسکتے ہیں۔
            اگر اس کتاب میں کوئی حسن وخوبی ہے تو وہ اللہ عزوجل کے فضل وکرم سے ہے اور اگر کوئی نقص وعیب یا تقصیر ہے تو یہی بشریت کا تقاضا ہے۔ ہم ہرقاری سے مخلصانہ التماس کرتے ہیں کہ کوئی بھی مثبت اور اصلاحی  تنقید پیش کرنے میں قطعاً بخل یا سستی یا جھجک سے کام نہ لیں۔ ہر اصلاحی قدم کا خیرمقدم اور ہر صالح پیش رفت بصد تشکر وامتنان مقبول ہے۔
ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے بعد ان تمام بزرگان اور احباب کے شکرگذار ہیں جن کا تعاون کسی بھی شکل میں اس کتاب کے منظر عام تک لانے میں رہا ہے اور دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر عطافرمائے اور اس کتاب کو اپنے مؤلف، مراجع، قاری اور ناشر ہرایک کے لئے ذخیرۂ آخرت اور میزان عمل کو وزنی کرنے کا وسیلہ بنائے اور اللہ  کے نیک بندوں میں فروغ عام اور قبولیت تام بخش کرکے ان کی اصلاح ومنفعت کا ذریعہ بنائے۔آمین یا رب العالمین۔
دعاگو
عبد الہادی عبد الخالق مدنی
کاشانۂ خلیق۔اٹوابازار۔ سدھارتھ نگر۔ یوپی۔ انڈیا
داعی احساء اسلامک سینٹر۔ سعودی عرب
00966) ) -  0509067342




بسم اﷲ الرحمن الرحیم
کرامت کیا ہے؟
            کرامت اس خلاف عادت غیر معمولی کام کا نام ہے جو اللہ کی جانب سے کسی صحیح عقیدے اور صالح عمل والے انسان کے ہاتھوں پر ظاہر ہوتا ہے۔ مثلاً رات کی تاریکی میں لاٹھی کے سرے سے روشنی نکلنا، قید کے اندر بے موسم کا پھل غیبی طور سے پہنچ جانا۔وغیرہ
            جمہور علماء اہل سنت اس کے وقوع کے جواز کے قائل ہیں۔ اس کے ذریعہ اللہ کی جانب سے نیک بندوں کی حاجت براری اور عزت افزائی ہوتی ہے نیز دین حق کو حجت وغلبہ نصیب ہوتا ہے۔
کرامت کی قسمیں
            کرامت کی دو بڑی قسمیں ہیں۔ ایک حسی کرامت اور دوسرے معنوی کرامت۔
 حسی کرامت میں وہ ظاہری اور وقتی خلاف عادت امور آتے ہیں جنھیں ہر عام وخاص شخص دیکھ سکتا یا محسوس کرسکتا ہے مثلا آگ کا نہ جلانا یا بے موسم کا پھل آجانا۔
معنوی کرامت میں وہ امور آتے ہیں جو اس کے برخلاف ہیں مثلاً دین وشریعت پر استقامت ، توحید واتباع سنت، اللہ کے بندوں میں مقبولیت اور ذکر خیر۔
یاد رہے کہ معنوی کرامت کا درجہ حسی کرامتوں سے بڑھ کر ہے۔
کرامت کی اہمیت
            اہل سنت اہل حدیث حسی کرامتوں کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دیتے کیونکہ اللہ تعالی نے انھیں معنوی کرامتوں سے نوازا ہے جو دراصل یقینی اور حقیقی کرامت ہیں مثلاً علم شریعت کی وراثت، ایمان واستقامت، اعتصام بحبل اﷲ، توحید واتباع سنت اور منہج سلف سے تمسک۔
            کسی بھی خارق عادت یا حسی کرامت کو اہمیت دینے والے دراصل وہ لوگ ہیں جو اس معاملہ میں نہایت مفلس ہوتے ہیں۔ جیسے ایک بھوکا روٹی کے معمولی ٹکڑے کو اور ایک کنگال سونے کے چند سکوں کو بہت اہمیت دیتا ہے, ویسے ہی یہ لوگ معمولی خرق عادت کو بڑی اہمیت دیا کرتے ہیں۔
کرامت کے اسباب
            کرامت ظاہر ہونے کے چند اسباب ہیں، مثلاً:
            ١۔ دین حق کا غلبہ:  جس وقت دین حق کی حقانیت کے ثبوت کے لئے دشمنانِ اسلام کے سامنے حجت کی ضرورت ہو ، اس وقت اللہ کی طرف سے اہل ایمان بندوں کے لئے کرامت کا ظہور ہوتا ہے۔ یہ دراصل نبی کے معجزہ کے ضمن میں آتا ہے کیونکہ نبی کی اتباع اور اس کے دین وشریعت پر مخلصانہ استقامت کے ذریعہ یہ چیز حاصل ہوتی ہے۔
            ٢۔ بندۂ مومن کی حاجت براری:  جس وقت ایک مومن بندہ اللہ کی خاص نصرت ومدد کا محتاج ہوتا ہے اور اس کے لئے سارے دنیاوی اسباب منقطع ہوجاتے ہیں، یک بیک اللہ کی رحمت سے کرامت کا ظہور ہوتا ہے، مشکلات سے نجات ملتی ہے اور مصائب ٹل جاتے ہیں۔
            امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کسی دینی حاجت یا اسلام اور مسلمانوں کی منفعت کی خاطر کرامات کا وقوع ہوتا ہے۔ یہ رحمانی احوال ہیں جن کا سبب اتباع رسول ہے اور جن کا نتیجہ غلبۂحق اور شکست باطل۔ اس کے برخلاف شیطانی احوال ہیں جو اپنے سبب اور نتیجہ دونوں اعتبار سے اس کی ضد اور اس کے برعکس ہیں۔ (زاد المعاد٣/٦٢٧)
            ٣۔ ایمان کی تقویت:  جب کسی شخص کا ایمان کمزور ہوتا ہے تو اس کے ایمان کو قوت اور مضبوطی عطا کرنے کے لئے بھی بسا اوقات اللہ کی جانب سے کرامت کا ظہور ہوتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ صحابہ کے زمانے میں کرامتوں کا ظہور بہت کم ہوا ہے کیونکہ وہ اپنے ایمان ویقین میں نہایت پختہ اور قوی تھے اور ایمان میں مزید اضافہ کے لئے کرامتوں کے حاجت مند نہ تھے۔
خرق عادت کی قسمیں :
خرق عادت کی متعدد قسمیں ہیں۔
            ١۔ معجزہ:  انبیاء ورسل کو ان کی نبوت ورسالت کی صداقت کی دلیل اور نشانی کے طور پر جو آیات اور علامات اللہ کی جانب سے عطا ہوتی ہیں انھیں معجزہ کہا جاتا ہے کیونکہ وہ  بوقت چیلنج مد مقابل کو عاجز کردیتی ہیں۔
            ٢۔ ارہاص:  نبوت سے پہلے نبی کے لئے جو خوارق ظاہر ہوتے ہیں انھیں ارہاص کہاجاتا ہے۔ جیسے نبی e کے لئے  نبوت سے پہلے پتھروں کا سلام کرنا۔
            ٣۔ کرامت:   دین اسلام کی حقانیت کے ثبوت کے لئے یا کسی مسلمان بندے کی ضرورت کی خاطر کسی خرق عادت امر کے ظہور کا نام کرامت ہے۔
            ٤۔  استدراج:  کسی کافر یا فاسق کے ہاتھ پر ظاہر ہونے والی خرق عادت کو استدراج (مہلت،ڈھیل) کہا جاتا ہے۔
            ٥۔ شیطانی فریب:  کچھ جاہل، سادہ لوح، عبادت گذار اور علم کتاب وسنت سے ناواقف صوفیاء کو شیطان فریب دیتا ہے اور وہ اپنی جہالت کی بنا پر ان شیطانی فریبوں کو کرامت تصور کیا کرتے ہیں۔  اس کی مثال یوں سمجھئے کہ جنات بعض صوفیاء کو میدان عرفات میں اٹھالے جاتے ہیں اور انھیں بلااحرام، بلا تلبیہ اور بلا دیگر ضروری امور کی تکمیل کے حج کراتے ہیں اور پھر انھیں ان کے ملک واپس لے آتے ہیں۔ اسے جہلاء کرامت سمجھتے ہیں حالانکہ وہ کافرجنوں کا فریب ہوتاہے۔
            ٦۔ جادو:  بعض لوگ شیطان کے مہرے ہوتے ہیں۔ یہ لوگ جادو، کہانت، شعبدہ بازیوں اور دجل وفریب کے دیگر ہتھکنڈوں کے ذریعہ لوگوں کو خلاف عادت چیزیں دکھاتے ہیں اور انھیں گمراہ کرتے ہیں۔ ایسے لوگ شریعت کے واجبات وفرائض سے دور اور محرمات وممنوعات سے بے پروا ہوتے ہیں۔ انھیں لوگوں کے تعلق سے قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
ﮥ  ﮦ  ﮧ  ﮨ  ﮩ  ﮪ  ﮫ  ﮬ  ﮭ   ﮮ     ﮯ  ﮰ  ﮱ ﯓ  ﯔ ﯕ  ﯖ ﯗ الشعراء: ٢٢١ - ٢٢٣ [کیا میں تمھیں بتاؤں کہ شیطان کس پر اترتے ہیں۔ وہ ہرایک جھوٹے گنہگار پر اترتے ہیں۔ (اچٹتی ہوئی) سنی سنائی پہنچادیتے ہیں اور ان میں سے اکثر جھوٹے ہیں]۔
            اگلی سطروں میں ایک توضیحی خاکہ دیاجارہا ہے تاکہ خوارق اور اصحاب خوارق کی قسمیں  ایک ساتھ سامنے آجائیں۔
خوارق اور اصحاب خوارق ایک نظر میں
شمار
خوارق
اصحاب خوارق
1
معجزہ
انبیاء ورسل
2
ارہاص
انبیاء ورسل
3
کرامت
اولیاء وصالحین
4
استدراج
فساق وفجار
5
شیطانی فریب
جاہل صوفیاء
6
جادو
کفار ومشرکین
            شعبدہ بازی، کرتب ، ہاتھ کی صفائی، حیلہ سازی اور خفیہ تدبیر سے کوئی ایسی حرکت لوگوں کے سامنے پیش کرنا جو بظاہر خلاف عادت معلوم ہو حالانکہ وہ درحقیقت خلاف عادت نہ ہو صرف نظروں کا فریب ہو، یہ قسم ہماری بحث سے خارج ہے کیونکہ یہ خارق عادت ہے ہی نہیں۔
کرامت اور معجزہ کا فرق
            کرامت اللہ کے صالح اور متقی بندوں کے ہاتھ پر ظاہر ہوتی ہے اور  وہ نبوت کا دعوی نہیں کرتے جب کہ انبیاء ورسل اپنے معجزہ کے اظہار کے ساتھ نبوت کے دعویدار ہوتے ہیں۔ کرامت  ظاہر ہونے میں بندے کا اپنا کوئی دخل نہیں ہوتابلکہ ان کے علم کے بغیر ان کے ہاتھوں پر یہ چیز ظاہر ہوجاتی ہے۔ صاحب ِ کرامت اپنی کرامت کے ذریعہ چیلنج نہیں کرتا۔
            معجزہ کے لئے قرآن وحدیث میں آیات کا لفظ استعمال ہوا ہے۔
ﮩ  ﮪ  ﮫ  ﮬ    ﮭ  ﮮ الاسراء: ١٠١
[ہم نے موسی کو نو آیات (معجزے) بالکل صاف صاف عطا فرمائے]۔
 کرامت اور استدراج کا فرق
            کرامت اور استدراج آپس میں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ کرامت ان لوگوں کے ہاتھوں پر ظاہر ہوتی ہے جو مومن ومتقی، صالح اور پابند شریعت ہوتے ہیں، موحد اور متبع کتاب وسنت  ہوتے ہیں، یہی دراصل اولیاء اللہ  ہیں، ان کے ہاتھوں کسی خلاف عادت کام کا ظہور ہو تو اسے کرامت کہا جائے گا۔اس کے برخلاف اگر کسی کافر ومشرک یا فاسق وفاجر شخص کے ہاتھ پر خرق عادت ظاہر ہو تو اسے استدراج کہا جائے گا۔
            مسند احمد، طبرانی اور بیہقی کی روایت ہے ، عقبہ بن عامرt سے مروی ہے کہ نبی e نے فرمایا:
             ((جب تم دیکھو کہ اللہ تعالی کسی بندے کو دنیا کی ہر وہ چیز عطا کردے جسے وہ پسند کرتا ہو حالانکہ بندہ اپنی نافرمانی اور گناہ پر اڑا ہوا ہے تو یہ اللہ تعالی کی طرف سے استدراج (مہلت، ڈھیل) ہے))۔  (صحیح الجامع/٥٦١)
ولی اور اولیاء  کا مفہوم:
            ولی عربی زبان کا لفظ ہے، اولیاء اسی کی جمع ہے، یہ لفظ عربی زبان میں کارساز، مددگار، حمایتی، محبوب، دوست، متولی اور سرپرست کے معنوں میں آتا ہے۔قرآن مجید میں بھی یہ لفظ ان متعدد معنوں میں استعمال ہوا ہے، اس کا ایک سرسری جائزہ پیش خدمت ہے:
١۔اللہ ہی ولی ہے۔ (شوری/٩،٢٨)
٢۔ اللہ ہی ایمان والوں کا ولی ہے۔ (بقرة/٢٥٧،آل عمران/٦٨، جاثیہ/١٩، انعام/١٢٧)
٣۔ اللہ کے سوا کوئی ولی نہیں۔ (بقرہ/١٠٧، ١٢٠، انعام/٥١،٧٠، توبہ/٧٤،١١٦، رعد/٣٧، اسراء/١١١، کہف/٢٦، عنکبوت/٢٢، سجدہ/٤، شوریٰ/٨،٣١)
٤۔ اللہ جسے گمراہ کردے یا جسے سزادے اس کا کوئی ولی نہیں بن سکتا۔ (ہود/٢٠،١١٣، اسراء/٩٧، کہف/١٠٢، شوری/٤٤،٤٦، جاثیہ/١٠، احقاف/٣٢)
٥۔ ایمان نہ رکھنے والوں کا ولی شیطان ہے۔ (اعراف/٢٧، بقرہ/٢٥٧، نحل/٦٣)
٦۔ اللہ کو چھوڑکر جن لوگوں نے شیطان کو اپنا ولی بنایا وہ یقیناً گمراہی میں پڑگئے۔ (اعراف/٣٠)
٧۔ شیطان عدو (دشمن) ہے وہ ولی بنانے کے لائق نہیں ہے۔ (کہف/٥٠)
٨۔ اہل ایمان اپنا ولی  کافروں کونہ بنائیں۔ (آل عمران/٢٨، نساء/١٤٤)
٩۔ منافقوں کو اپنا ولی نہ بنائیں۔ (نساء/٨٩)
١٠۔ اہل ایمان اپنا ولی یہودونصاریٰ کو نہ بنائیں۔ (مائدہ/٥١)
١١۔ اہل کتاب، کفار، اللہ اور ایمان والوں کے دشمنوں کو ولی نہ بنائیں۔ (مائدہ/٥٧، ممتحنہ/١)
١٢۔ اللہ، نبی اور نازل شدہ کتابوں پر ایمان رکھنے والے اپنا ولی کافروں کو  نہیں بناسکتے۔ (مائدہ/٨١)
١٣۔ ایمان پر کفر کو ترجیح دینے والے ماں باپ اور بھائی برادر کو اپنا ولی مت بناؤ۔ (توبہ/٢٣)
١٤۔ کافروں کو ولی بنانے والے نفاق کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ (نساء/١٣٩)
١٥۔ غیراللہ کو ولی بنانے والوں کی مثال مکڑی کے جالے کی طرح ہے جو سب سے کمزور سہارا ہے۔ (عنکبوت/٤١)
١٦۔ غیراللہ کو ولی بنانے والے انھیں وسیلہ اور قرب الٰہی کا ذریعہ جانتے ہیں، حالانکہ یہ بات غلط ہے۔ (زمر/٣)
١٧۔ جن غیراللہ کو اولیاء بنایاگیا وہ اولیاء تو خود اپنے نفع ونقصان کے مالک نہیں ہیں۔ (رعد/١٦)
١٨۔ جنھوں نے غیراللہ کو اپنا ولی بنایااللہ ان پر نگراں ہے۔ (شوری/٦)
١٩۔ شیطان تم کو اپنے اولیاء سے ڈراتا ہے لیکن ان سے مت ڈرو۔ (آل عمران/١٧٥)
٢٠۔ شیطان کے اولیاء سے جنگ کرو۔ (نساء/٧٦)
٢١۔ اللہ کے سوا دیگر اولیاء کی اتباع نہ کرو۔ (اعراف/٣)
٢٢۔ غیراللہ جن کی عبادت کفار دنیا میں کیا کرتے تھے میدان محشر میں اللہ سے عرض کریں گے کہ اے اللہ! ہم نے تیرے سوا کسی کو اپنا ولی نہیں بنایا۔ (فرقان/١٨)
٢٣۔ جو اللہ کے ولی ہیں ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین  ہوں گے۔ (یونس/٦٢)
٢٤۔ یہود سے کہا گیا کہ اگر تم اپنے آپ کو اللہ کا ولی سمجھنے میں سچے ہو تو موت کی تمنا کرو۔ (جمعہ/٦)
٢٥۔ مسجد حرام کے اولیاء (متولی) متقی لوگ ہیں۔ (انفال/٣٤)
٢٦۔ مومن مرد اور مومنہ عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے ولی ہیں۔ (توبہ/٧١)
٢٧۔ مہاجرین وانصار آپس میں ایک دوسرے کے ولی ہیں۔ ( انفال/٧٢)
٢٨۔ کفار آپس میں ایک دوسرے کے ولی ہیں۔ (انفال/٧٣)
٢٩۔ ظالم آپس میں ایک دوسرے کے ولی ہیں۔ (جاثیہ/١٩)
اولیاء کون ہیں؟
            قرآن کریم میں اللہ تعالی نے اولیاء کو خوشخبری بھی دی ہے اور ان کے اوصاف بھی بیان فرمائے ہیں چنانچہ ارشاد  ہے:
ﭑ  ﭒ  ﭓ  ﭔ  ﭕ  ﭖ  ﭗ  ﭘ  ﭙ  ﭚ   ﭛ  ﭜ  ﭝ  ﭞ  ﭟ  ﭠ  يونس: ٦٢ – ٦٣ [یاد رکھو اﷲ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور (برائیوں سے) پرہیز رکھتے ہیں]۔
            اس آیت میں نہایت وضاحت کے ساتھ ایمان اور تقوی کو اولیاء کی صفت قرار دیا گیا ہے۔جس سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ بے ایمان اور غیر متقی کبھی اللہ کا ولی نہیں ہوسکتا۔
اولیاء اللہ کے مراتب:
            قرآن مجید کے اندر اللہ کے منتخب بندوں یعنی اولیاء کے مراتب ودرجات کا ذکر آیا ہے۔ سورہ فاطر میں اللہ  تعالی نے اولیاء کے تین  مراتب بیان فرمائے ہیں۔ارشاد  ہے:
ﭣ  ﭤ  ﭥ   ﭦ  ﭧ  ﭨ   ﭩﭪ  ﭫ  ﭬ  ﭭ  ﭮ   ﭯ  ﭰ  ﭱ  ﭲ  ﭳ  ﭴﭵ  ﭶ  ﭷ   ﭸ  ﭹ  ﭺ  فاطر: ٣٢
[پھر ہم نے ان لوگوں کو کتاب (قرآن مجید) کا وارث بنایا جن کو ہم نے اپنے بندوں میں سے  پسند فرمایا۔ پھر بعضے تو ان میں اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں اور بعضے ان میں متوسط درجے کے ہیں اور بعضے ان میں اللہ کی توفیق سے نیکیوں میں ترقی   کئے چلے جاتے ہیں۔ یہ بڑا فضل ہے]۔
            پیش نظر آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے منتخب اور چنیدہ بندوں (اولیاء) کی تین قسمیں ہیں:
            پہلی قسم:  اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے۔ ان سے مرادوہ اہل ایمان ہیں جو بعض فرائض کی ادائیگی میں کوتاہ اور بعض حرام امور کے مرتکب ہیں۔
            دوسری قسم: متوسط درجہ والے۔ان سے مراد وہ اہل ایمان ہیں جو فرائض کے انجام دہندہ اور محرمات سے کنارہ کش ہیں البتہ بعض مستحبات کے تارک اور بعض مکروہات کے مرتکب ہیں۔
            تیسری قسم:  نیکیوں میں ترقی کرنے والے۔ ان سے مراد وہ اہل ایمان ہیں جو تمام فرائض وواجبات ومستحبات کو انجام دینے میں پیش پیش ہوتے ہیں اور تمام محرمات ومکروہات بلکہ افضل کے مقابلہ میں بعض مباحات کو بھی ترک کردیتے ہیں۔
اولیاء پر اللہ  کی نوازشات
            اللہ کے اولیاء جب علم وعمل کے اعتبار سے اپنا دین وایمان درست کرلیتے ہیں تو اللہ  تعالی بھی ان پر اپنے فضل وکرم کی بارش اور خوب خوب نوازش کرتا ہے چنانچہ جب جب ان کو ضرورت ہوتی ہے اللہ  تعالی ان کے لئے خرق عادت اور کرامت ظاہر فرماتا ہے۔ ارشاد ہے:
ﮚ  ﮛ    ﮜ  ﮝ  ﮞ    ﮟ  ﮠ  ﮡ   ﮢ   ﮣ  ﮤ   ﮥالطلاق: ٢ – ٣
[جو شخص اللہ  سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لئے چھٹکارے کی شکل نکال دیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہ ہو]۔
نیز ارشاد ہے: ﭼ  ﭽ  ﭾ  ﭿ   ﮀ   ﮁ  ﮂ  ﮃ  ﮄ  الانفال: ٢٩  
[اے ایمان والو! اگر تم اللہ سے ڈرتے رہو گے تو اللہ تعالی تم کو ایک فرقان (فیصلہ کی چیز) دے گا]۔
            فرقان سے مراد وہ چیز ہے جس سے حق وباطل کے درمیان فرق کیا جاسکے۔ صلاح الدین یوسف صاحب فرماتے ہیں: مطلب یہ ہے کہ تقوی کی بدولت دل مضبوط، بصیرت تیزتراور ہدایت کا راستہ واضح تر ہوجاتا ہے، جس سے انسان کو ہرموقعہ پر ، جب عام انسان التباس واشتباہ کی وادیوں میں بھٹک رہے ہوں ، صراط مستقیم کی توفیق مل جاتی ہے۔
(تفسیری حواشی مطبوعہ شاہ فہد قرآن کریم پرنٹنگ کمپلیکس مدینہ منورہ)
نیز ارشاد ہے: ﭢ  ﭣ  ﭤ  ﭥ  ﭦ   ﭧ  ﭨ  ﭩ  ﭪ  ﭫ  ﭬ  ﭭ  ﭮ  ﭯ  ﭰ   ﭱ   ﭲ  ﭳ  ﭴ  ﭵ  ﭶ  ﭷ  ﭸ   النساء: ٦٦ - ٦٨  
[اگر یہ وہی کریں جس کی انھیں نصیحت کی جاتی ہے تو یقیناً یہی ان کے لئے بہتر اور بہت زیادہ مضبوطی والا ہو۔ اور تب تو انھیں ہم اپنے پاس سے بڑا ثواب دیں اور یقینا ًانھیں راہ راست دکھادیں]۔
نیز ارشاد ہے: ﭑ  ﭒ  ﭓ  ﭔ  ﭕ  ﭖ  ﭗ  ﭘ  ﭙ  ﭚ   ﭛ  ﭜ  ﭝ  ﭞ  ﭟ  ﭠ  ﭡ  ﭢ      ﭣ  ﭤ  ﭥ  ﭦ  ﭧيونس: ٦٢ - ٦٤
[یاد رکھو اﷲ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور (برائیوں سے) پرہیز رکھتے ہیں۔ ان کے لئے دنیاوی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی خوش خبری ہے]۔
            اولیاء پر اللہ کی عظیم ترین نوازش وہ ہے جو صحیح بخاری کی حدیث میں ہے۔ ابوہریرہ t سے روایت ہے کہ رسول اﷲeنے فرمایا:
            ((جس نے میرے ولی (دوست) سے عداوت کی تو میں نے اس کے ساتھ جنگ کا اعلان کردیا ہے۔ اور مجھے اپنے بندے کا مجھ سے قرب حاصل کرنا کسی اور ذریعہ سے اتنا محبوب نہیں جتنا اس سے ہے جو میں نے اس پر فرض کیا ہے, اور میرا بندہ ہمیشگی نوافل سے مجھ سے قریب ہوتاجاتا ہے  یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں, اور جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو میں اس کا وہ کان ہوجاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے, اور اس کی وہ آنکھ  ہوجاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے, اور اس کا وہ ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے, اور اس کا وہ پیر ہوجاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے, اور اگر وہ مجھ سے (کسی چیز کا) سوال کرتا ہے تو میں اس کو ضرور دیتا ہوں, اور اگر وہ مجھ سے پناہ طلب کرتا ہے تو میں اس کو پناہ دیتا ہوں, اور مجھ کو کسی چیز سے جس کو میں کرنے والا ہوں اتنا تردد نہیں ہوتاجتنا کہ نفس مومن (کے معاملہ) میں ہوتا ہے کہ وہ موت کو برا سمجھتا ہے اور میں اس کی ناخوشی کو ناپسند کرتا ہوں))۔   (صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب التواضع)
اولیاء کی شکل وصورت
            اولیاء اپنی شکل وصورت میں عام مسلمانوں سے ممتاز نہیں ہوتے۔  نہ ہی ان کا کوئی مخصوص لباس ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی مخصوص رنگ، نہ ہی وہ سبز رنگ کے دلدادہ ہوتے ہیں اور نہ ہی زعفرانی رنگ کے شیدا، سب سے الگ تھلگ اپنی تمیز کے لئے نہ ہی وہ اپنا سر منڈاتے ہیں اور نہ ہی اپنے گیسو دراز کرتے ہیں اور نہ ہی مخصوص انداز سے چھوٹے بال رکھتے ہیں، اور نہ ہی وہ اپنی مستقل شناخت کے لئے موٹا جھوٹا اونی یا کوئی کمترین لباس پہنتے ہیں۔
اولیاء کی صنف
            اللہ کے اولیاء امت محمدیہ کی تمام صنفوں میں پائے جاتے ہیں بشرطیکہ وہ ظاہری طور پر کسی بدعت اور فسق وفجور میں مبتلا نہ ہوں۔ وہ علماء کی صفوں میں بھی ہیں اور عبادت گذاروں کی صفوں میں بھی، تاجروں کی جماعت میں بھی ہیں اور صنعت کاروں کی جماعت میں بھی، کسانوں میں بھی ہیں اور مزدوروں میں بھی۔ جو بھی ایمان اور تقوی کے صفت سے متصف ہیں اللہ کے ولی ہیں۔
اولیاء کے القاب
            اولیاء کا کوئی مخصوص لقب نہیں ہوتا جس سے وہ پہچانے جائیں۔ بعض لوگوں نے اولیاء کے لئے جو خودساختہ القاب بنائے ہوئے ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ غوث، اوتاد، اقطاب، ابدال، نجباء، غوث الغواث، قطب الأقطاب، قطب العالم۔ یہ سارے القاب نہ ہی اللہ کی کتاب قرآن مجید میں وارد ہیں اور نہ ہی نبیe سے کسی حدیث میں مروی ہیں، نہ کسی صحیح سند سے اور نہ ہی کسی ضعیف سند سے۔ لہذا یہ تمام القاب خودساختہ، من گھڑنت، بے دلیل، بے اصل اور بے بنیاد ہیں۔
            شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اﷲ نے اس کی خوب خوب تحقیق فرمائی ہے اور عقلی ونقلی دلائل سے ان کی بھرپور تردید کی ہے۔
(ملاحظہ ہو فتاوی جلد١١ موضوع تصوف)
            جہاں تک لفظ غوث کا سوال ہے تو اس کا مستحق صرف اللہ کی ذات ہے، اللہ کے سوا کسی اور سے استغاثہ اورفریاد طلبی جائز نہیں۔ جو شخص غیراﷲ کو  غوث مانے اور اس کو نعمتیں عطا کرنے والا اور بلائیں ٹالنے والا جانے وہ جھوٹا، گمراہ اور مشرک ہے۔
اولیاء میں غلو
            امت محمدیہ سے پہلے کی امتیں غلو کی بنا پر تباہ وبرباد ہوگئیں۔ غلو یعنی حد سے آگے بڑھانا حرام ہے۔ کسی صاحب مرتبہ کو اس کے مقام سے پست کرنا جس طرح درست نہیں اسی طرح اس کے مقام سے بلند کرنا بھی جائز نہیں۔ لہٰذا اولیاء کے تعلق سے افراط وتفریط کے بغیر ہمارا یہ عقیدہ ہونا چاہئے کہ اولیاء نہ معصوم ہوتے ہیں، نہ غیب جانتے ہیں اور نہ ہی کائنات میں تصرف کا اختیار رکھتے ہیں۔
            حقیقت یہ ہے کہ اولیاء خود بھی لوگوں کو اپنی بے جا تعظیم کی دعوت نہیں دیتے  اور نہ ہی لوگوں سے ناحق طور پر تحفے تحائف اور نذرانے وصول کرتے ہیں۔ جو اس طرح کی حرکات کا مرتکب ہو وہ ولی نہیں بلکہ دجال ہوگا۔
معیار ولایت
            یہ بات ذہن نشین رہے کہ معیار ولایت کتاب وسنت ہے، نہ کہ کرامت اور خرق عادت۔ کتاب وسنت ہی وہ پیمانہ ہے جس سے اقوال اور رجال دونوں پرکھے جاتے ہیں۔
            ابو یزید رحمہ اﷲ فرماتے ہیں: اگر تم کسی شخص کو دیکھو کہ ہوا میں چارزانو ہوکر بیٹھ جاتا ہے تو اس سے فریب نہ کھاؤ جب تک کہ اسے شریعت کی معرفت، حدود الٰہی کی نگہداشت اور اوامر ونواہی کی پابندی سے جانچ نہ لو۔  (مفتاح دار السعادۃ: ١/١٦٠)
            حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: خرق عادت کبھی زندیق کو ملتی ہے اس کی رسی ڈھیل دینے اور اسے گمراہ کرنے کی خاطر, اور یہ چیزکبھی صدیق کو نصیب ہوتی ہے عزت افزائی اور تکریم کے طور پر۔ دونوں کے درمیان اتباع کتاب وسنت کے ذریعہ تمیز کی جاسکتی ہے۔  (فتح الباری: ١٢/٤٠٢)
کرامت ایک آزمائش ہے
            امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کرامت بھی بادشاہت وسلطنت  اور مال ودولت کی طرح ایک امتحان اور آزمائش ہے۔ اللہ تعالی نے اپنے نبی سلیمان علیہ السلام کا یہ قول قرآن مجید میں نقل کیا ہے کہ جب انھوں نے بلقیس کا تخت  اپنے سامنے موجود پایا تو  فرمایا: ﮡ   ﮢ  ﮣ  ﮤ  ﮥ     ﮦ  ﮧ    ﮨ النمل: ٤٠ [یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکرگزاری کرتا ہوں یا ناشکری] ۔
            ہر نعمت اللہ کی جانب سے ایک امتحان اور آزمائش ہوتی ہے۔ اس کے ذریعہ شکر گذار کا شکر اور ناشکرے کی احسان فراموشی اور کفر ظاہر ہوجاتا ہے۔ مختلف قسم کی آزمائشیں اللہ کا شکنجہ ہیں۔ وہ نعمتیں دے کر بھی آزماتا ہے اور نعمتیں چھین کر بھی۔  (فوائد: ١/١٥٥)
ہر نعمت کرامت نہیں اور ہر مصیبت سزا نہیں
            واضح رہے کہ نعمتوں کا حصول دلیل کرامت نہیں اور نہ ہی مصیبتوں میں مبتلا ہونا اللہ  کے غیظ وغضب کی علامت ہے، کیونکہ بسا اوقات کفار کو بھی رزق میں فراخی اور فتح وغلبہ نصیب ہوتا ہے، خوب بارش ہوتی ہے، مال واولاد میں فراوانی ہوتی ہے۔ دراصل اللہ کی طرف سے ان کی رسی ڈھیل ہوتی ہے تاکہ جب وہ نعمتیں پاکر مگن ہوجائیں اور ان کی کفر وسرکشی میں اضافہ ہوجائے تو اچانک دنیا ہی میں اللہ ان کی سخت گرفت کرے  یا آخرت کا عذاب کئی گنا بڑھادے۔
            ایسے ہی کبھی اہل ایمان وتقوی قحط اور خشک سالی کا شکار ہوتے ہیں، انھیں دشمنوں کا خوف ہوتا ہے، ان کے رزق میں تنگی ہوجاتی ہے، تاکہ وہ اﷲ کی طرف رجوع ہوں اور اﷲسے توبہ وانابت کریں, اور جب وہ اﷲ کی طرف پلٹیں گے تو گناہوں کی بخشش بھی ہوجائے گی اور بلائیں بھی ٹل جائیں گی۔ قرآن مجید کے اندر اللہ  تعالی نے یہی اصول بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے: ﮓ   ﮔ  ﮕ  ﮖ  ﮗ    ﮘ  ﮙ  ﮚ  ﮛ  ﮜ  ﮝ   ﮞ  ﮟ   ﮠ  ﮡ  ﮢ  ﮣ  ﮤ  ﮥ  ﮦ  ﮧ  ﮨ      ﮩ   ﮪ الفجر: ١٥ - ١٧
[انسان (کا یہ حال ہے کہ) جب اسے اس کا رب آزماتا ہے اور عزت ونعمت دیتا ہے تو وہ کہنے لگتا ہے کہ میرے رب نے مجھے عزت دار بنایا، اور جب وہ اس کو آزماتا ہے ، اس کی روزی تنگ کردیتا ہے تو وہ کہنے لگتا ہے کہ میرے رب نے میری اہانت کی (اور ذلیل کیا) ایسا ہرگز نہیں ہے]۔
            آیت بالا میں اس بات کا صاف اعلان ہے کہ رزق میں تنگی اور فراخی دونوں چیزیں اللہ کی جانب سے آزمائش ہیں۔ رزق میں کشادگی اور فراوانی اللہ کی طرف سے عزت وتکریم کی دلیل نہیں اور نہ ہی رزق کی تنگی اس بات کی علامت ہے کہ اللہ کی نظر میں بندہ ذلیل اور پست ہے۔
بعض صوفیاء کا دعوائے ولایت اور اس کی تردید
            بعض صوفیاء  یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی عبادت وریاضت اور تزکیۂنفس کی بدولت انبیاء کا مقام پالیتے ہیں اور انھیں اطاعت واتباع کی ضرورت نہیں رہتی بلکہ بعض تو یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ وہ انبیاء سے بھی افضل ہیں۔ انبیاء کے پاس صرف علم شریعت ہوتا ہے جب کہ ان کے پاس بزعم خویش علم شریعت کے ساتھ ساتھ علم طریقت اور علم باطن بھی ہوتا ہے۔ درحقیقت یہ لوگ نفس پرست اور ہوا پرست لوگ ہیں۔ یہ بھی ان متکبر اور مغرور لوگوں میں سے ہیں جن کا ذکر اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اس انداز میں کیا ہے: ﯦ  ﯧ  ﯨ  ﯩ  ﯪ  ﯫ  ﯬ  ﯭ  ﯮ  ﯯﯰ  ﯱ ﯲ ﯳ ﯴ ﯵ ﯶﯷ ﯸ ﯹ    ﯺ  ﯻ  ﯼ  ﯽ  ﯾ  ﯿ  ﰀ   ﰁ  ﰂ  الانعام: ١٢٤
[وہ یوں کہتے ہیں کہ ہم ہرگز ایمان نہ لائیں گے جب تک کہ ہم کو بھی ایسی ہی چیز نہ دی جائے جو اﷲکے رسولوں کو دی جاتی ہے ۔ اس موقع کو تو اللہ ہی خوب جانتا ہے کہ وہ اپنی پیغمبری کہاں رکھے؟ عنقریب ان لوگوں کو جنھوں نے جرم کیا ہے اللہ کے پاس پہنچ کر ذلت پہنچے گی اور ان کی شرارتوں کے مقابلے میں سزائے سخت]۔
            جب ان مجرم صوفیاء نے دیکھا کہ ظاہری شریعت کی تبدیلی کا کوئی راستہ نہیں، سلسلۂ نبوت کا خاتمہ ہوچکا ہے تو انھوں نے ایک بات بنائی کہ سلسلۂولایت کا ابھی خاتمہ نہیں ہوا ہے اور ولی کا درجہ انبیاء ورسل سے بھی بڑھ کر ہے۔ چنانچہ صوفی ابن عربی نے اپنی کتاب ''فصوص الحکم'' میں لکھا ہے کہ ''نبیeنے اپنی نبوت کی مثال اینٹوں کی دیوار سے دی ہے، آپ نے خواب میں دیکھا کہ وہ دیوار مکمل ہوچکی ہے سوائے ایک اینٹ کے چنانچہ آپeوہ اینٹ تھے ( یعنی آپe دیوار نبوت کی آخری اینٹ تھے) ایسا خواب خاتم الاولیاء کو بھی دیکھنا ضروری ہے البتہ وہ  یہ خواب دیکھے گا کہ دیوار میں ایک اینٹ کے بجائے دو اینٹوں کی کمی ہے ، ایک سونے کی اینٹ اور دوسری چاندی کی اینٹ۔ نبی کے پاس چونکہ صرف علم ظاہر ہوتا ہے اس لئے وہ صرف ایک اینٹ دیکھے گااور ولی کے پاس چونکہ علم ظاہر اور علم باطن دونوں ہوتا ہے اس لئے وہ دو اینٹ دیکھے گا''۔
            ابن عربی کی مذکورہ بات کس قدر جہالت وضلالت اور کفر وحماقت سے بھری ہوئی ہے محتاج بیان نہیں۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ان کلمات پر بڑی طویل بحث کی ہے اور نہایت تفصیل کے ساتھ اس کی پرزور تردید کی ہے جسے مجموعۂ فتاوی کی پہلی جلد میں دیکھاجاسکتا ہے۔ ہم اختصار کے ساتھ یہاں چند نقاط ذکر کررہے ہیں۔
            ١۔ علم ظاہر اور علم باطن کی تفریق باطل اور خودساختہ ہے۔
            ٢۔ انبیاء باجماع امت اولیاء سے افضل ہیں۔ صوفی ابن عربی نے یہاں  انبیاء کی تنقیص کی ہے اور انھیں اولیاء سے کمتر اور اولیاء کو ان سے برتر ثابت کرنے کی ناروا کوشش کی ہے۔
            ٣۔ خاتم الاولیاء کا منصب مکمل کذب وافتراء اور دروغ پر مبنی ہے۔ قرآن وسنت، آثار صحابہ اور اقوال سلف میں اس کی کوئی اصل نہیں۔
            ٤۔ اولیاء میں آخری ولی کا درجہ بڑا نہیں ہے بلکہ امت محمدیہ کے سب سے عظیم ولی وہ ہیں جو سب سے پہلے ولی ہیں یعنی ابوبکر صدیق t جیساکہ نصوص شریعت سے ثابت ہے۔
            ٥۔ کسی مسلمان کو یہ ہرگز برداشت نہیں ہوگا کہ موسیٰ یا عیسیٰ علیہم السلام کو محمدe سے افضل قرار دیا جائے تو بھلا یہ کیسے برداشت ہوسکتا ہے کہ ابن عربی جیسے گمراہ اور باطل پرست صوفیاء کو محمد e یا آپ کے صحابہ سے افضل قرار دیا جائے۔
صوفیاء کا کبروغرور اور اہل ایمان کا تواضع
            اب تک ہم نے صوفیاء کا دعوائے ولایت اور ان کا کبروغرور دیکھا کہ وہ کس طرح اپنے آپ کو انبیاء ورسل سے برتر ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اب آئیے لگے ہاتھوں یہ بھی دیکھتے چلیں کہ اہل ایمان کا طریقہ تکبر کے بجائے تواضع ہوتا ہے اور جو لوگ اللہ کے لئے تواضع اختیار کرتے ہیں اللہ ان کے مرتبے بلند فرماتا ہے۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ نے جلاء الافہام میں عائشہ r کی خصوصیات ذکر کرتے ہوئے ان کی ایک خصوصیت تواضع ذکر کی ہے۔ فرماتے ہیں: جب اصحاب افک نے ان پر تہمت لگائی تو اللہ تعالی نے سات آسمانوں کے اوپر سے ان کی بے گناہی اور براء ت کا اعلان کیا اور اس تعلق سے قرآن مجید میں وحی نازل فرمادی جس کی تلاوت تاقیامت مسجدوں میں اور مسجدوں سے باہر، صلاتوں میں اور صلاتوں سے باہر ہوتی رہے گی۔ اﷲ نے ان کی طہارت وپاکیزگی کی شہادت دی۔ ان سے مغفرت اور رزق کریم کا وعدہ کیا۔ انھیں اس بات کی خبردی کہ ان پر تہمت تراشی ان کے لئے شر وعیب کا باعث نہیں بلکہ خیر کا باعث ہوا۔ اس سے ان کی شان میں کمی نہیں آئی بلکہ ان کی قدر ومنزلت میں اضافہ ہوا۔ آسمان وزمین کے مابین ان کی طہارت وبے گناہی کا چرچا ہوا۔ یہ تمام عزت افزائی اور قدر واکرام ان کی تواضع اورہضم نفس کا نتیجہ تھا۔ عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں:
(وَلَشَأْنِي فِي نَفْسِي كَانَ أَحْقَرَ مِنْ أَنْ يَتَكَلَّمَ اللَّهُ فِيَّ بِأَمْرٍ يُتْلَى وَلَكِنْ كُنْتُ أَرْجُو أَنْ يَرَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّوْمِ رُؤْيَا يُبَرِّئُنِي اللَّهُ بِهَا)
 (میرے دل میں میری حیثیت اس سے کمتر تھی کہ اﷲ تعالی وحی متلو کے ذریعہ مجھ سے متعلق کلام کرے لیکن مجھے امید یہ تھی کہ رسول اﷲe کوئی خواب دیکھیں گے اور اس کے ذریعہ اﷲ تعالی میری براء ت ظاہر کرے گا)۔ (صحیح بخاری، کتاب التفسیر، باب لولا اذ سمعتموہ۔۔۔)
            یہ صدیقۂامت، ام المؤمنین، رسول اللہ e کی محبوب زوجۂ مطہرہ ہیں، جنھیں اپنی مظلومیت اور بے گناہی کا یقینی علم ہے، جو جانتی ہیں کہ ان پر تہمت لگانے والے ظالم اور مفتری ہیں، وہ اپنی اس حرکت سے ان کے والدین اور خود رسول اکرم e کی اذیت رسانی کا باعث ہیں، پھر بھی یہ ہضم نفس اور یہ تواضع ہے۔
            آج آپ ان لوگوں کو دیکھیں جو ایک دودن یا ایک دو مہینے نفلی صوم رکھ لیتے ہیں یا ایک دو رات تہجد پڑھ لیتے ہیں، ان پر احوال طاری ہونے لگتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو اس نظر سے دیکھنے لگتے ہیں کہ وہ کرامات ومکاشفات، مخاطبات ومنازلات کے مستحق ہوگئے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو اس کا حقدار سمجھنے لگتے ہیں کہ ان کی دعائیں قبول ہوں۔ ان سے مل کر تبرک حاصل کیا جائے۔ لوگوں پر لازم ہے کہ ان کی تعظیم وتوقیر اور اکرام واحترام کریں۔ ان کے دامنِ مقدس سے وابستہ ہوں۔ ان کی چوکھٹ کی مٹی کو بوسہ دیں۔ وہ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ اﷲ کے نزدیک ان کا یہ مقام بن گیا ہے کہ اگر کوئی ان کی عیب گیری کرے تو اس سے انتقام لیا جائے اور اگر کوئی بے ادبی وگستاخی کرے تو مہلت دئیے بغیر اس کی گرفت ہو۔ ان کی گستاخی ایسا گناہ ہے جس کا کوئی کفارہ نہیں۔
            یہ خیالات اگر واقعی ایسے شخص کے ہوں جو کسی قابل اور لائق ہے تو بات کسی قدر چلنے والی ہے لیکن کچھ نہ ہوتے ہوئے ایسے بڑے بڑے خواب ہیں۔ یہ حماقتیں اور رعونتیں سخت جہالت اور بے عقلی کا نتیجہ ہیں۔ ایسی سوچ اس جاہل کی ہوسکتی ہے جو خود پسندی کا شکار ہو۔ اپنے جرائم اور گناہوں سے غافل ہوکر اللہ کی جانب سے مہلت کی بنا پر مبتلائے فریب ہو اور اللہ کے ان بندوں کے مقابلہ میں کبر وغرور کا شکار ہو جو اللہ کے نزدیک اس سے بہت بہتر ہیں۔
            اللہ سے ہماری یہی دعا ہے کہ وہ دنیا وآخرت میں عافیت نصیب کرے۔ بندہ کو اس بات سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہئے کہ وہ خود اپنے آپ کو بڑا سمجھے حالانکہ وہ اﷲ کی نظر میں حقیر اور کمتر ہو۔ نعوذ باللہ من ذلک۔
(جلاء الافہام : ١/٢٤٠)



اولیاء سے متعلق عقیدۂ اہل سنت
            عقیدۂ اہل سنت کی معروف ومشہور کتاب عقیدہ طحاویہ میں امام طحاوی رقمطراز ہیں: ہم کسی ولی کو کسی نبی پر فضیلت نہیں دیتے۔ ہم کہتے ہیں کہ ایک نبی تمام اولیاء سے افضل ہے۔ ثقہ اور معتبر راویوں کے واسطہ سے اولیاء کرام کی صحیح اور ثابت کرامات پر ہمارا ایمان ہے۔  (عقیدہ طحاویہ1/504)
            یہی عقیدہ ہمارا اور تمام اہل سنت، اہل حدیث، اہل اثر اور طریقۂ سلف کو اختیار کرنے والوں کا عقیدہ ہے۔
کرامت کے شرائط وضوابط
            جیساکہ ابتدائی صفحات میں بیان کیاجاچکا ہے کہ خرق عادت مختلف طور سے ظاہر ہوتا ہے، کبھی وہ کرامت ہوتا ہے تو کبھی استدراج، کبھی شیطانی فریب ہوتا ہے تو کبھی کہانت اور جادوگری، کبھی ہاتھوں کی صفائی ہوتی ہے تو کبھی شعبدہ بازی، لہٰذا کرامت کے شرائط وضوابط کا جاننا ضروری ہے تاکہ اسے بقیہ اصناف سے ممتاز کیا جاسکے اور ہرخرق عادت کی حقیقت اور سچائی آشکارا ہوسکے۔
            پہلی شرط:  صاحب کرامت شخص مومن اور متقی ہو، مشرک اور بدعتی نہ ہو، اولیاء کی پہچان بتاتے ہوئے اﷲ تعالی کا ارشاد ہے:
ﭑ  ﭒ  ﭓ  ﭔ  ﭕ  ﭖ  ﭗ  ﭘ  ﭙ  ﭚ   ﭛ  ﭜ  ﭝ  ﭞ  ﭟ  ﭠ  يونس: ٦٢ - ٦٣
[یاد رکھو اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور (برائیوں سے) پرہیز رکھتے ہیں]۔
            دوسری شرط: صاحب کرامت شخص اپنی ولایت کا دعویدار نہ ہو کیونکہ ولایت ایک ایسا مقام ہے جسے اللہ تعالی اپنے واجبات ومستحبات کی بجاآوری اور محرمات ومکروہات سے اجتناب پر بطور انعام ونوازش اپنے بندوں کو عطا فرماتا ہے، اور یہ چیز انسان کے احاطۂ علم سے خارج ہے کہ اس کا عمل اللہ کی بارگاہ میں قبول بھی ہوا یا نہیں، اور جب عمل کے قبول ہونے تک کا علم نہیں تو ولایت کا دعوی کیونکر کرسکتا ہے۔ نیز ایسا کرنے میں تزکیۂنفس بھی ہے جس سے قرآن مجید میں روکا گیا ہے۔ اﷲ تعالی کا ارشاد ہے:
ﯙ  ﯚ  ﯛﯜ  ﯝ  ﯞ       ﯟ  ﯠ  ﯡ  النجم: ٣٢
[تم اپنی پاکیزگی آپ بیان نہ کرو، وہی پرہیزگاروں کو خوب جانتا ہے]۔
            تیسری شرط:  کرامت شریعت کے واجبات وفرائض میں سے کسی چیز کے ترک یا محرمات وممنوعات میں سے کسی چیز کے ارتکاب کا باعث نہ ہو۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ جنات بعض صوفیاء کو میدان عرفات میں اٹھالے جاتے ہیں اور انھیں بلا احرام، بلا تلبیہ اور بلا دیگر ضروری امور کی تکمیل کے حج کراتے ہیں اور پھر انھیں ان کے ملک واپس لے آتے ہیں۔ اسے جہلاء کرامت سمجھتے ہیں حالانکہ وہ کافرجنوں کا فریب ہوتاہے۔
            چوتھی شرط:  کرامت دین کے کسی چھوٹے یا بڑے مسئلہ کے خلاف نہ ہو مثلاً کسی شخص کے خواب یا بیداری میں کوئی نبی، فرشتہ یا بزرگ کی شکل میں آکر اسلام کے حرام کردہ امور کو اس کے لئے حلال ہونے یا حلال امور کو حرام ہونے کی خبر دے تو ایسی بات قطعاً کرامت نہیں بلکہ یقینا شیطانی فریب ہے۔
            پانچویں شرط:  صاحب کرامت شخص زندہ ہو، مردہ نہ ہو، کیونکہ مرنے کے بعد دنیا سے انسان کا رشتہ منقطع ہوجاتا ہے۔
            چھٹی شرط:  کرامت کوئی ضرورت پڑنے پر ظاہر ہوئی ہو کیونکہ بلاضرورت کرامت ظاہر نہیں ہوتی۔
            شیخ عبد القادر جیلانی کا مشہور واقعہ ہے جسے امام ابن تیمیہ نے التوسل والوسیلہ اور اپنی دیگر کتابوں میں ذکر فرمایا ہے۔ کہتے ہیں کہ شیخ جیلانی ایک بار اپنی عبادت میں مشغول تھے کہ ایک نورانی عرش ظاہر ہوااور اس میں سے آواز آئی: اے عبد القادر! میں تمھارا رب ہوں ، جو چیزیں دوسروں پر حرام ہیں میں انھیں تمھارے لئے حلال کرتا ہوں۔شیخ عبد القادر نے پوچھا: کیا تو وہی اﷲ ہے جس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں؟ جواب میں خاموشی رہی، تو شیخ نے کہا: دور ہو اے اﷲ کے دشمن!۔ یہ کہنا تھا کہ سارا نور تاریکی سے بدل گیا،اور پھر آواز آئی : عبدالقادر! تم اپنے علم اور دین کی سمجھ کی بنا پر بچ گئے، ورنہ اس طرح میں ستر جاہل عبادت گذراروں کو گمراہ کرچکا ہوں۔
            شیخ عبدالقادر جیلانی سے پوچھاگیا کہ آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ وہ شیطان ہے؟ آپ نے فرمایاکہ جب اس نے کہا کہ دوسروں پر حرام چیزوں کو میں آپ کے لئے حلال کرتا ہوں تو مجھے یقین ہوگیا کہ شیطان ہے، کیونکہ یہ بات طے شدہ ہے کہ محمدe کی شریعت نہ اب منسوخ ہوسکتی ہے اور نہ ہی اس میں کوئی تبدیلی آسکتی ہے۔ نیز میں نے اس سے پوچھا : کیا تو وہی اﷲ ہے جس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں؟ تو وہ جواب نہیں دے سکا کیونکہ شیطان رب ہونے کا تو دعوی کرسکتا ہے لیکن یہ دعوی ہرگز نہیں کرسکتا کہ وہ  وہی اﷲ ہے جس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں۔



قرآن کریم میں مذکور کرامات
١۔ مریم علیہا السلام کا واقعہ
            سورہ آل عمران کی آیت نمبر ٣٧ میں اﷲ تعالی کا ارشاد ہے:
ﯺ   ﯻ  ﯼ   ﯽ  ﯾ  ﯿ  ﰀ  ﰁﰂ  ﰃ  ﰄ  ﰅ  ﰆ  ﰇﰈ   ﰉ  ﰊ  ﰋ  ﰌ  ﰍﰎ  ﰏ  ﰐ  ﰑ  ﰒ  ﰓ  ﰔ     ﰕ  ﰖ   آل عمران: ٣٧
[جب کبھی زکریا علیہ السلام ان کے حجرے میں جاتے ان کے پاس روزی رکھی ہوئی پاتے ، وہ پوچھتے اے مریم! یہ روزی تمھارے پاس کہاں سے آئی؟ وہ جواب دیتیں کہ یہ اللہ  تعالی کے پاس سے ہے۔ بے شک  اللہ  تعالی جسے چاہے بے شمار روزی دے]۔
            مندرجہ بالا آیت کی تفسیر میں صلاح الدین یوسف صاحب تحریر فرماتے ہیں: "یہ گویا مریم علیہا السلام کی کرامت تھی ۔ معجزہ اور کرامت خرق عادت امور کو کہاجاتا ہے یعنی جو ظاہری اور عادی اسباب کے خلاف ہو۔ یہ کسی نبی کے ہاتھ پر ظاہر ہو تو معجزہ اور کسی ولی کے ہاتھ پر ظاہر ہو تو اسے کرامت کہاجاتا ہے ۔ یہ دونوں برحق ہیں۔ تاہم ان کا صدور اﷲ کے حکم اور اس کی مشیئت سے ہوتا ہے۔ نبی یا ولی کے اختیار میں یہ بات نہیں کہ وہ معجزہ یا کرامت جب چاہے صادر کردے۔ اس لئے معجزہ اور کرامت اس بات کی تو دلیل ہوتی ہے کہ یہ حضرات اللہ  کی بارگاہ میں خاص مقام رکھتے ہیں لیکن اس سے یہ امر ثابت نہیں ہوتا کہ ان مقبولین بارگاہ کے پاس کائنات میں تصرف کرنے کا اختیار ہے، جیسا کہ اہل بدعت اولیاء کی کرامتوں سے عوام کو یہی کچھ باور کراکے انھیں شرکیہ عقیدوں میں مبتلاکردیتے ہیں۔
(تفسیری حواشی مطبوعہ شاہ فہد قرآن کریم پرنٹنگ کمپلیکس مدینہ منورہ)
٢۔ اصحاب کہف کا واقعہ
            اصحاب کہف کاواقعہ مختصر طور پر یہ ہے کہ گذشتہ زمانے میں امت محمدیہ سے قبل چند نوجوان اپنے دین وایمان کی حفاظت کے لئے آبادی سے باہر ایک غار میں پناہ گیر ہوگئے۔ اللہ تعالی نے ان پر نیند ڈال دی اور وہ برسہابرس اس غار کے اندر سوتے رہے۔ غالباً تین سو سال یا اس سے بھی زیادہ۔ اور پھر وہ دوبارہ جاگے تو حالات بدل چکے تھے اور شرک وکفر کی جگہ ایمان وتوحید کی اشاعت ہوچکی تھی۔
            کسی پہاڑ کے ایک غار میں خوردونوش اور انسانی بقا کی دیگر ضرورتوں کے بغیر تین سو سال تک سوتے رہنا انتہائی خلاف معمول واقعہ ہے۔ یہ اﷲ کی طرف سے ان صالح نوجوانوں پر نوازش تھی۔ وہ سوکر اٹھے تو انھیں ایسا محسوس ہورہا تھا کہ نیند میں صرف ایک دن یا اس کا چند حصہ ہی گذرا ہے۔اللہ نے بعث بعد موت کے اثبات کے لئے اس واقعہ کا ظہور فرمایا۔
٣۔ سلیمان علیہ السلام کے زمانہ کا ایک واقعہ
            سلیمان علیہ السلام کے زمانہ کا وہ واقعہ بھی کرامت کا ایک نمونہ ہے جس میں ایک شخص نے تخت بلقیس کو پلک جھپکنے سے پہلے لاحاضر کردیا تھا۔
(سورہ نمل کی آیت نمبر٤٠ ملاحظہ ہو)۔



احادیث میں مذکورکرامات
١۔ تین غار والوں کا واقعہ
            یہ قصہ ایک سعادت مند فرزند، ایک پاکدامن نوجوان اور اور ایک نیک دل مالک کا واقعہ ہے جو صحیح بخاری میں مختلف مقامات پر اور صحیح مسلم میں بھی آیا ہے۔ عبداﷲ بن عمر t اس کے راوی ہیں۔ واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ  رسول اﷲe نے بیان فرمایا کہ گذشتہ زمانے  میں تین آدمی (ایک ساتھ کسی کام کے لئے) چلے یہاں تک کہ وہ شب کے وقت ایک غار کے پاس پہنچے اور وہ تینوں اس میں داخل ہوگئے۔اللہ  کا کرنا کچھ ایسا ہوا کہ ایک پتھر پہاڑ سے لڑھکا اور اس نے غار کا منہ بند کردیا۔تینوں نے کہا کہ اس پتھر سے کوئی چیز رہائی نہیں دے سکتی مگر یہ کہ ہم اپنے نیک اعمال کے وسیلے سے اللہ  تعالی سے دعا کریں۔  ان میں سے ایک شخص کہنے لگا کہ اے اللہ! میرے ماں باپ بوڑھے تھے اور میں ان سے پہلے نہ تو اپنے بچوں وغیرہ کو دودھ پلاتا تھا اور نہ ہی لونڈی غلاموں کو۔ ایک دن اتفاق سے کسی چیز کی تلاش میں گھر پہنچنے میں مجھے دیر ہوگئی، یہاں تک کہ جب میں ان کے پاس آیا تو وہ سوگئے تھے، لہذا میں نے ان کا دودھ ہاتھ میں اٹھالیا اور ان کے سرھانے کھڑا ہوگیا۔ مجھے یہ بات گوارا نہ ہوئی کہ میں انھیں نیند سے بیدار کروں، اور نہ ہی یہ کہ میں ان سے پہلے اپنے گھر والوں کو اور لونڈی غلاموں کو کچھ پلاؤں ۔ پس میں ٹھہر گیا ،  دودھ کا بھرا ہوا قدح میرے ہاتھ میں تھا اور میں ان کے بیدار ہونے کا انتظار کرتا رہا ،یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔میرے بچے میرے پاؤں کے پاس بلکتے رہے لیکن والدین سے پہلے میں نے انھیں نہیں دیا۔ جب وہ دونوں بیدار ہوئے اور انھوں نے دودھ پیا پھر میں نے باقی سب کو دودھ پلایا۔ اے اﷲ اگر میں نے یہ کام محض تیری رضامندی حاصل کرنے کے لئے کیا ہو تو اس پتھر کی وجہ سے جس حال میں ہم ہیں اس کو ہم سے دور کردے۔ چنانچہ وہ پتھر ہٹ گیا مگر اتنا نہیں کہ وہ غار سے باہر نکل سکیں۔  دوسرے شخص نے کہا: میری ایک چچیری بہن تھی جو تمام لوگوں سے زیادہ مجھے محبوب تھی۔ میں نے اس سے ہمبستری کی خواہش کی مگر وہ راضی نہ ہوئی، یہاں تک کہ ایک سال جب قحط پڑا تو اس کو کچھ ضرورت پیش آئی،چنانچہ وہ میرے پاس آئی ، میں نے اس کو ایک سو بیس اشرفیاں اس شرط پر دیں کہ وہ مجھے اپنی ذات سے نہ روکے۔ اس نے اس شرط کو منظور کیا ۔ یہاں تک کہ جب مجھے اس پر قابو ملا تو وہ کہنے لگی کہ میں تجھے اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ تو مہر (پردۂ بکارت) کو ناحق توڑے۔ پس میں نے شر کے ساتھ ہمبستری کو گناہ سمجھا اور اس سے علاحدہ ہوگیا، حالانکہ وہ تمام لوگوں سے زیادہ مجھے محبوب تھی، اور میں نے جس قدر اشرفیاں اس کو دی تھیں واپس نہیں لیں، سب معاف کردیا۔ اے اﷲ !میں نے یہ کام محض تیری رضامندی حاصل کرنے کے لئے کیا ہو تو جس مصیبت میں ہم ہیں اس کو ہم سے دور کردے۔ چنانچہ وہ پتھر کچھ اور ہٹ گیا مگر ابھی وہ اس سے نہیں نکل سکتے تھے۔  تیسرے شخص نے کہا کہ اے اﷲمیں نے کچھ لوگوں کو مزدوری پر لگایا تھا اور انھیں ان کی مزدوری دیدی تھی سوائے ایک شخص کے کہ اس نے اپنی مزدوری نہیں لی اور چلاگیا، تو میں نے اس کی مزدوری کو بڑھانا شروع کیا، یہاں تک کہ بہت مال اس سے حاصل ہوا پھر وہ ایک لمبے عرصے کے بعد میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اے اللہ کے بندے مجھے میری مزدوری دے دے۔ میں نے اس سے کہا کہ جس قدر اونٹ ، گائے، بکری اور غلام تو دیکھ رہا ہے یہ سب تیری مزدوری کے ہیں ۔ اس نے کہا کہ اے اللہ  کے بندے کیا تو میرے ساتھ مذاق کرتا ہے ؟ میں نے کہا کہ میں تیرے ساتھ مذاق نہیں کرتا، تو اس نے وہ تمام چیزیں لے لیں اور ان کو ہانک کر لے گیا، ایک چیز بھی اس میں سے نہیں چھوڑی ۔ اے اﷲ! اگر میں نے یہ کام محض تیری رضامندی حاصل کرنے کے لئے کیا ہو تو جس مصیبت میں ہم گرفتار ہیں اس سے ہم کو نجات دے دے۔ چنانچہ وہ پتھر بالکل ہٹ گیا اور وہ اس سے باہر نکل کر چلے گئے۔ 
٢۔  ایک صالح کسان کا واقعہ
            صحیح مسلم میں اس نیک کسان کا قصہ جس کی کھیتی کو سیراب کرنے کے لئے خصوصی طور پر بادلوں کو حکم ہوا۔ پوری حدیث اس طرح ہے:
            ابوہریرہ t سے روایت ہے کہ نبیeنے فرمایا: ایک وقت ایک آدمی ایک صحرا میں چلاجارہا تھا کہ اس نے بدلی سے ایک آواز سنی: فلاں کے باغ کو سیراب کر۔ پس بادل کا یہ ٹکڑا الگ ہوا اور اس نے اپنا پانی ایک کالے پتھروں والی زمین میں برسادیا۔ پھر ان نالوں میں سے ایک نالے نے سارا پانی اپنے اندر جمع کرلیا۔ (اور اس ایک نالے کے ذریعہ پانی آگے جانے لگا)۔ یہ شخص بھی اس پانی کے پیچھے پیچھے چلا۔ آگے کیا دیکھتا ہے کہ ایک آدمی اپنے باغ میں کھڑا اپنے کدال سے پانی کو (ضرورت کی جگہوں کی طرف) موڑرہاہے۔ اس شخص نے اس آدمی سے پوچھا کہ اے اللہ کے بندے! تیرا  نام کیاہے؟ اس نے وہی نام بتلایا جو اس نے بدلی سے سنا تھا۔ باغ والے نے پلٹ کر پوچھا کہ اے اللہ کے بندے! تو میرا نام کیوں پوچھتا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میں نے اس بادل میں جس کا یہ پانی تمھارے باغ تک پہنچا ہے ایک آواز سنی تھی جوتمھارا نام لے کر کہہ رہا تھا کہ فلاں کے باغ کو سیراب کردو۔مجھے بتلاؤ کہ تم آخر اس باغ میں کرتے کیا ہو؟اس نے کہا: جب آپ پوچھ رہے ہیں تو سنئے: میں دیکھتا ہوں کہ اس باغ میں کتنا پیدا ہواپھر اس میں سے ایک تہائی صدقہ کردیتا ہوں، ایک تہائی سے میں اور میرے بال بچے کھاتے ہیں اور آخری تہائی کو اسی باغ میں دوبارہ لگادیتا ہوں۔   (صحیح مسلم، کتاب الزہد والرقائق، باب الصدقۃ فی المساکین)
٣۔ جریج راہب کا واقعہ
            صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں یہ واقعہ ابوہریرہ t سے مروی ہے کہ نبیeنے بیان کیا کہ جریج ایک عبادت گذار آدمی تھے۔ انھوں نے آبادی سے باہر ایک عبادت گاہ بنالی اور اسی میں رہا کرتے تھے۔ ایک بار ان کی ماں ان کے پاس آئیں اس حال میں کہ وہ صلاة میں مشغول تھے ، ماں نے پکارا: اے جریج! کہنے لگے: یارب! ایک طرف میری ماں ہے اور دوسری طرف میری صلاة ہے (کسے اختیار کروں؟ ) چنانچہ اپنی صلاة ہی میں لگے رہے اور ماں واپس چلی گئی۔ دوسرا دن ہوا تو ماں پھر آئی اور اس وقت بھی جریج اپنی صلاة میں مشغول تھے۔ ماں نے کہا: اے جریج! انھوں نے کہا: یارب میری ماں ہے اور میری صلاة ہے۔ اور پھر اپنی صلاة میں لگے رہے ، ماں واپس پلٹ گئی۔ (تیسرے دن بھی یہی واقعہ ہوا) ماں آئی، جریج کو پکارا، جریج صلاة میں مشغول تھے، انھوں نے اپنی ماں کو جواب دینے کے مقابلے میں صلاة میں مشغول رہنا اختیار کیا۔ ماں واپس ہوگئی لیکن جاتے جاتے یہ بددعا کرگئی کہ اے اﷲ! جریج کو اس وقت تک موت نہ دینا جب تک زانیوں (بدکار عورتوں) کا چہرہ نہ دیکھ لے۔ ایک دن کی بات ہے کہ بنواسرائیل آپس میں جریج اور ان کی عبادت کا ذکر کررہے تھے کہ ایک بدکار عورت نے جس کے حسن وجمال کی مثال دی جاتی تھی کہا کہ اگر تم چاہو تو میں تمھارے لئے جریج کو فتنہ میں مبتلا کردوں؟ چنانچہ اس عورت نے جریج کو اپنے جال میں پھنسانا اور فتنہ کا شکار بنانا چاہا لیکن جریج نے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں دی بالآخر وہ ایک چرواہے کے پاس چلی گئی جو ان کی عبادت گاہ کے قریب پناہ لیا کرتا تھا۔ عورت نے اپنے آپ کو چرواہے کے حوالے کردیا اور چرواہے سے زنا کے نتیجہ میں حاملہ ہوگئی۔ جب بچہ پیدا ہوا تو اس نے کہا کہ یہ جریج کا بچہ ہے ۔ لوگ جریج کے پاس آئے اور انھیں اپنی عبادت گاہ سے نیچے اترنے کے لئے کہا اور ان کی عبادت گاہ ڈھانے لگے اور انھیں بھی مارا۔ جریج نے دریافت کیا کہ بات کیا ہے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ تم نے اس بدکار کے ساتھ زنا کیا ہے اور اس کے پیٹ سے تمھارا بچہ پیدا ہواہے ۔ جریج نے  پوچھا کہ وہ بچہ کہاں ہے؟ لوگ اسے لے کر آئے ۔ جریج نے کہا: مجھے ذرا صلاة پڑھنے دو۔ صلاة پڑھ کر فارغ ہونے کے بعد جریج بچہ کے پاس آئے اور اس کے پیٹ میں کونچ کر کہا: اے بچے! تیرا باپ کون ہے؟ بچہ نے جواب دیا: فلاں چرواہا۔ (یہ سننا تھاکہ) لوگ جریج کو چومنے لگے اور ان سے تبرک لینے لگے اور کہنے لگے: ہم آپ کی عبادت گاہ سونے سے تعمیر کردیتے ہیں۔ جریج نے کہا: نہیں، میری عبادت گاہ اسی طرح مٹی کی بنادو جس طرح سے تھی۔ چنانچہ لوگوں نے ایسا کردیا۔ (بخاری ومسلم)
            حافظ ابن حجر رحمہ اﷲ نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ اس حدیث سے کرامات اولیاء کا ثبوت ملتا ہے نیز یہ بھی لکھا ہے کہ جو شخص اﷲ کے ساتھ اپنا معاملہ سچا رکھے اسے فتنے ضرر نہیں پہنچاسکتے، اور یہ کہ اﷲ تعالی آزمائش اور مصیبت کے اوقات میں اپنے اولیاء کے لئے ان سے نکلنے کا راستہ پیدا فرمادیتا ہے۔ (فتح الباری: 10/239)
٤۔ سارہ علیہا السلام کا واقعہ
            یہ واقعہ صحیح بخاری وصحیح مسلم میں مذکور ہے۔ واقعہ اس طرح ہے کہ ایک بار ابراہیم علیہ السلام سارہ علیہا السلام کو ساتھ لے کر سفر کررہے تھے۔ ایک ظالم بادشاہ کی سرزمین سے گذر ہوا۔ سارہ علیہا السلام نہایت حسین وجمیل خاتون تھیں۔بادشاہ کے کسی حاشیہ بردار کی ان پر نظر پڑگئی ۔ اس نے بادشاہ سے جاکر کہا کہ ایک ملکۂ جمال آپ کی سلطنت میں دیکھی گئی ہے، وہ آپ ہی کے شایان شان ہے۔ چنانچہ بادشاہ کے حکم پر انھیں دربارمیں حاضر کیا گیا۔ دوسری طرف ابراہیم علیہ السلام اپنے رب کے حضور اپنی فریاد لے کر صلاة میں کھڑے ہوگئے۔ جب سارہ علیہا السلام اندر داخل ہوئیں تو ظالم بادشاہ ان کا حسن وجمال دیکھ کر بے قابو ہوگیا۔ اس نے دست درازی کرنی چاہی، ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اس کا ہاتھ شل ہوگیا۔ اس نے دعا کی درخواست کی اور وعدہ کیا کہ انھیں کچھ نقصان نہ پہنچائے گا۔  سارہ علیہا السلام نے دعا کی اور وہ دوبارہ تندرست ہوگیا۔ لیکن اس نے وعدہ خلافی کرتے ہوئے پھر دست درازی کرنی چاہی ۔ اﷲ کی طرف سے اب اور شدید گرفت آگئی۔ اس نے پھر دعا کی درخواست کی اور نقصان نہ پہنچانے کا وعدہ کیا۔ سارہ علیہا السلام نے دعا کی اور اس کی صحت لوٹ آئی۔ اب بادشاہ نے اپنے ایک حاشیہ بردار کو بلاکر اس سے کہا کہ تم میرے پاس کوئی انسان نہیں بلکہ کوئی شیطان لے کر آگئے ہو، اسے واپس لے جاؤ اور ساتھ میں ہاجرہ علیہا السلام کو بطور خادمہ دے دو۔ جب سارہ علیہا السلام ابراہیم علیہ السلام کے پاس واپس پہنچیں تو وہ بدستور صلاة میں مشغول تھے۔ اشاروں سے پوچھا کہ کیا ہوا؟ سارہ علیہا السلام نے جواب دیا کہ اﷲ تعالی نے کافر کی چال اسی پر پلٹ دی اور اس نے ہمیں ایک خادمہ بھی دیا۔
            اس واقعہ میں سارہ علیہا السلام کی کرامت صاف ظاہرہے کہ اﷲ تعالی نے ظالم بادشاہ سے ان کی حفاظت فرمائی۔ ان کی عزت وآبرو کو سلامت رکھا۔ ان کے دشمن کو مبتلائے عذاب کیا۔ اور یہ سب کچھ غیرمعمولی طور پر خلاف عادت ہوا جو عام حالات میں نہیں ہوا کرتا۔
٥۔ ایک امانت دار شخص کا واقعہ
            ابو ہریرہ t سے روایت ہے کہ نبیeنے ایک مرتبہ بنی اسرائیل کے ایک شخص کا واقعہ ذکر کیا جس نے کسی دوسرے شخص سے ایک ہزار دینار قرض طلب کیاتھا۔ اس نے گواہ مانگا تو قرض طلب کرنے والے  نے جواب دیا: اﷲ بطور گواہ کافی ہے ۔ پھر اس نے کہا کہ کوئی ضامن لے کر آؤ۔  قرض خواہ نے کہا کہ اﷲ بطور ضامن کافی ہے۔ دوسرے نے کہا: تم سچ کہتے ہو۔چنانچہ ایک متعین مدت کے لئے اسے قرض دے دیا۔ وہ شخص سمندر  پار تجارت کے لئے نکل گیا۔ متعینہ مدت پر قرض کی ادائیگی کی خاطر واپس پہنچنے کے لئے کشتی تلاش کی تو اسے کوئی کشتی نہ مل سکی۔ بالآخر اس نے ایک لکڑی لی ، اس کے اندر سوراخ کیا پھر اس میں ایک ہزار دینار اور جس سے قرض لیا تھا اس کے نام ایک خط رکھ کر اسے بند کردیا۔ پھر سمندر کے پاس آیا اور یہ دعا کی: اے اﷲ ! تو یقینا جانتا ہے کہ میں نے ایک شخص سے ایک ہزار دینار قرض لئے ، اس نے مجھ سے ضامن مانگا تو میں نے کہا کہ اﷲ بطور ضامن کافی ہے چنانچہ وہ تیرے نام پر راضی ہوگیا پھر اس نے گواہ طلب کئے تو میں نے کہا: اﷲ بطور گواہ کافی ہے پس وہ تیر ی گواہی پر راضی ہوگیا۔ اے اﷲ! میں نے اس کی رقم اس تک پہنچانے کے لئے کشتی کی تلاش میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن مجھے کشتی نہیں مل سکی۔ اے اﷲ ! اب یہ مال میں تیرے سپرد کرتا ہوں۔ یہ کہہ کر اس نے وہ لکڑی دریا میں ڈال دی۔ وہ لکڑی سمندر میں ڈوب گئی اور یہ شخص واپس پلٹ گیا۔ اس کے بعد بھی یہ شخص اس شہر تک پہنچنے کے لئے کشتی کی تلاش میں لگارہا۔ دوسری طرف وہ شخص جس نے قرض دیا تھا اس تلاش میں نکلا کہ شاید کوئی کشتی اس کا مال لے کر آئی ہو۔ اچانک اسے ایک لکڑی نظر آئی جسے اس نے اپنے گھر میں بطور ایندھن استعمال کے لئے لے لیا۔ یہ وہی لکڑی تھی جس میں مال رکھ کر اس شخص نے بھیجا تھا ۔ جب گھر پہنچ کر اسے چیرا تو مال کے ساتھ ایک خط بھی ملا۔ کچھ دنوں کے بعد وہ شخص حاضر ہوا جس نے قرض لئے تھے اور ایک ہزار دینار پیش کرنے لگا۔ ساتھ ہی معذرت کے ساتھ کہنے لگا : اﷲ کی قسم! میں آپ کا مال آپ تک پہنچانے کے لئے مسلسل کشتی کی تلاش میں لگارہا لیکن آج سے پہلے مجھے کوئی کشتی نہ مل سکی۔دوسرے نے کہا : کیا تم نے میرے پاس کچھ بھیجا تھا؟ اس نے جواب دیا کہ میں آپ کو بتلارہا ہوں کہ آج آنے سے پہلے تک مجھے کوئی کشتی نہ مل سکی۔ دوسرے نے جواب دیا کہ اﷲ تعالی نے آپ کی طرف سے مال ادا کردیا ہے۔ آپ نے لکڑی میں جو رکھ کر بھیجا تھا وہ مجھے مل گیا ہے۔ اب آپ اپنا یہ ایک ہزار لے کرجو ابھی اپنے ساتھ لائے ہیں بخیروعافیت واپس جائیے۔ (صحیح بخاری، کتاب الحوالات، باب الکفالۃ فی القرض والدیون)
٦۔اصحاب الاخدود کا واقعہ
            صہیب t سے روایت ہے کہ رسول اﷲeنے فرمایا کہ تم سے پہلے لوگوں میں ایک بادشاہ تھا اور اس کے پاس ایک جادوگر تھا، جب جادوگر بوڑھا ہوگیا تو اس نے بادشاہ سے کہا کہ اب میں بوڑھا ہوگیا ہوں ، ایک لڑکا میرے سپرد کرو تاکہ میں اسے یہ جادو کا علم سکھادوں ۔ چنانچہ بادشاہ نے ایک لڑکا اس کی طرف بھیجنا شروع کردیا جس کو وہ جادو سکھاتا۔ راستے میں ایک راہب کا بھی ٹھکانا تھا ، وہ لڑکا جب بھی جادوگر کے پاس جاتا تو راہب کے پاس بھی (تھوڑی دیر کے لئے) بیٹھ جاتا، اسے اس کی باتیں اچھی لگیں ، پس وہ جب بھی جادوگر کے پاس جاتا تو گزرتے ہوئے راہب کے پاس بھی بیٹھ جاتا۔ جب وہ جادوگر کے پاس آتا تو دیر سے آنے کی وجہ سے جادوگر اسے مارتا۔ اس نے راہب کو بتلایا۔ راہب نے اس سے کہا کہ جب تمھیں جادوگر سے مار کا ڈر ہو تو یہ کہہ دیا کرو کہ مجھے میرے گھر والوں نے روک لیا تھا اور جب گھر والوں سے ڈر ہو تو کہہ دیا کرو کہ جادوگر نے مجھے روک لیا تھا۔ چنانچہ اسی طرح دن گذرتے رہے۔ ایک دن لڑکے نے اپنے راستہ میں ایک بہت بڑا جانور دیکھا جس نے لوگوں کا راستہ روک رکھا تھا۔ لڑکے نے دل میں کہا کہ آج پتہ چل جائے گا کہ جادوگر افضل ہے یا راہب؟ اس نے ایک پتھر پکڑ کر کہا ، اے اﷲ ! اگر راہب کا معاملہ تیرے نزدیک جادوگر کے معاملہ سے زیادہ پسندیدہ ہے تو اس جانور کو اس پتھر کے ذریعہ سے مار دے تاکہ راستہ کھل جائے اور لوگ گذر جائیں۔ یہ دعا کرکے اس نے پتھر اس جانور کو مارا جس سے وہ ہلاک ہوگیا اور لوگ گذر گئے۔ وہ لڑکا راہب کے پاس آیا اور اسے اس بات کی خبردی، راہب نے اس سے کہا: بیٹے! آج تم مجھ سے افضل ہو، تمھارا معاملہ جہاں تک پہنچ گیا ہے میں وہ دیکھ رہا ہوں، اور عنقریب تم آزمائش میں ڈالے جاؤگے، پس جب آزمائش کا مرحلہ آئے تو تم میری بابت لوگوں کو نہ بتلانا۔ یہ لڑکا مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو اﷲ کے حکم سے درست کردیتا تھااور دیگر تمام بیماریوں کا علاج کرتا۔ بادشاہ کا ایک درباری اندھا تھا، اس نے جب سنا تو بہت سے تحفے تحائف لے کر لڑکے کے پاس آیا اور اس سے کہا کہ اگر تم مجھے ٹھیک کردو تو یہ سارے ہدایا وتحائف جو میں یہاں اپنے ساتھ لایا ہوں تمھارے ہیں۔ لڑکے نے کہا: میں کسی کو شفا نہیں دیتا، شفا صرف اﷲ دیتا ہے۔ اگر تم اﷲ پر ایمان لے آؤ تو میں اﷲ سے دعا کروں گا اور وہ تمھیں شفا عطا فرمادے گا۔ چنانچہ وہ اﷲ پر ایمان لے آیا اور اﷲ نے اسے شفا عطافرمادی۔ وہ درباری بادشاہ کے پاس آیا اور اس کے پاس اسی طرح بیٹھ گیا جیسا کہ بیٹھا کرتا تھا ۔ بادشاہ نے اسے بینا دیکھ کر پوچھا: تیری بینائی کس نے واپس کردی؟ اس نے کہا: میرے رب نے۔ بادشاہ نے کہا: کیا میرے علاوہ تیرا کوئی اور رب ہے؟ اس نے جواب دیا: میرا رب اور تیرا رب صرف ایک اﷲ ہے۔ بادشاہ نے اسے گرفتار کرلیا اور اس کو سزادیتا رہا حتی کہ اس نے لڑکے کا پتہ بتلادیا۔ چنانچہ لڑکے کو لایا گیا۔  بادشاہ نے اس سے کہا: تیرے جادو کا کمال اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ تو مادرزاد اندھے اور کوڑھی کو درست کردیتا ہے اور بھی فلاں فلاں کام کرلیتا ہے۔اس نے جواب دیا: میں کسی کو شفا نہیں دیتا، شفا دینے والا تو صرف اﷲ تعالی ہے۔ بادشاہ نے اسے بھی گرفتار کرلیا اور اسے سزادیتا رہا یہاں تک کہ اس نے راہب کا پتہ بتلادیا۔ پس راہب کو لایاگیا اور اس سے کہا گیا کہ تم اپنے دین سے پھر جاؤ۔ اس نے انکار کیا ۔ بادشاہ نے آرہ منگوایا اور اس آرے کو اس کے سر کے عین درمیان میں رکھ کر اس کو چیر دیا گیا یہاں تک کہ اس کے دوٹکڑے ہوگئے۔ پھر بادشاہ کے درباری کو لایا گیا اور اس سے بھی کہا گیا کہ تم اپنے دین سے پھرجاؤ، اس نے بھی انکار کیا تو اس کو بھی راہب کی طرح سر کے درمیان میں آرہ رکھ کر چیردیا گیااور اس کے جسم کے دو ٹکڑے ہوگئے۔ پھر لڑکے کو لایا گیا اور اس سے بھی اپنا دین چھوڑدینے کی پیشکش کی گئی، اس نے انکار کردیا۔بادشاہ نے اسے اپنے چند خاص آدمیوں کے سپرد کردیااور ان سے کہا کہ اسے فلاں فلاں پہاڑ پر لے جاؤ اور اسے پہاڑ کے اوپر چڑھاؤ ۔ جب تم پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ جاؤ تو اس سے معلوم کرو، اگر یہ اپنا دین چھوڑدے تو خیر، ورنہ وہاں سے اسے نیچے پھینک دو۔ چنانچہ لڑکے کو لے گئے اور اسے پہاڑ پر چڑھایا۔ لڑکے نے وہاں دعاکی : اے اﷲ !تو ان کے مقابلہ میں مجھے کافی ہوجا جس طرح  تو چاہے۔ چنانچہ پہاڑ لرزا جس سے سب نیچے گرگئے۔ لڑکا بادشاہ کے پاس دوبارہ آپہنچا۔ بادشاہ نے پوچھا: تیرے ساتھیوں نے کیا کیا؟ لڑکے نے جواب دیا: ان کے مقابلے میں اﷲ مجھے کافی ہوگیا۔ بادشاہ نے اسے پھر اپنے چند خاص آدمیوں کے حوالے کیا اور ان سے کہا کہ اسے لے جاؤ اور کشتی میں سوار کراؤاور سمندر کے درمیان لے جاکر دیکھو، اگر یہ اپنے دین سے پھر جائے تو ٹھیک ہے ، ورنہ اسے سمندر میں پھینک دو۔چنانچہ وہ اسے لے گئے ، اس نے کشتی میں بیٹھ کر دعا کی: اے اﷲ! ان کے مقابلے میں ، جیسے تو چاہے،مجھے کافی ہوجا۔چنانچہ کشتی الٹ گئی اور سب پانی میں ڈوب گئے ۔ یہ لڑکا بچ گیا اور پھر بادشاہ کے پاس آپہنچا۔ بادشاہ نے پوچھا: تیرے ساتھیوں نے کیا کیا؟ لڑکے نے کہا: اﷲ تعالی ان کے مقابلے میں مجھے کافی ہوگیا۔ پھر لڑکے نے بادشاہ سے کہا کہ تو مجھے اس وقت تک قتل نہیں کرسکتا جب تک تو وہ طریقہ اختیار نہ کرے جو میں تجھے بتلاؤں۔ بادشاہ نے پوچھا : وہ کیا ہے؟ لڑکے نے کہا: تو ایک کھلے میدان میں لوگوں کو جمع کر اور مجھے سولی دینے کے لئے ایک تنے پر چڑھا، پھر میرے ترکش سے ایک تیر لے کر اسے کمان کے چلے پر رکھ ، پھر یہ الفاظ پڑھ کر (اﷲ کے نام سے جو اس لڑکے کا رب ہے) مجھے تیر مار۔ جب تو ایسا کرے گا تو مجھے قتل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ چنانچہ بادشاہ نے لوگوں کو ایک میدان میں جمع کیا ، اسے سولی دینے کے لئے لکڑی کے ایک تنے پر چڑھایا، پھر اس کے ترکش سے ایک تیر لے کر اسے کمان کے چلے پر رکھا اور کہا: اﷲ کے نام سے جو اس لڑکے کا رب ہے۔ اور تیر پھینکا، تیر اس کی کنپٹی پر لگا، لڑکے نے اپنا ہاتھ اپنی کنپٹی پر رکھا اور مرگیا۔ (لوگوں نے جب یہ ماجرا دیکھاتو رب کائنات کی حقیقت اور ایک رب کی توحید ان کی سمجھ میں آگئی اور بے اختیار) پکار اٹھے: ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لائے۔ لوگوں نے بادشاہ سے کہا: بادشاہ سلامت! آپ جس چیز سے ڈرتے تھے اﷲ کی قسم وہی ہوا اور آپ کا خطرہ سامنے آگیا، سب لوگ اﷲ پر ایمان لے آئے۔ چنانچہ اس نے حکم دیا کہ سڑکوں کے کنارے خندقیں کھودی جائیں ، پس وہ کھودی گئیں اور ان میں آگ بھڑکادی گئی ۔ بادشاہ نے حکم دیا ، جو اپنے دین سے نہ پھرے اسے اس آگ میں جھونک دو۔ یا اس سے کہا جائے آگ میں داخل ہوجا۔ انھوں نے ایسا ہی کیا۔ حتی کہ ایک عورت آئی جس کے ساتھ بچہ تھا ، وہ آگ میں گرنے سے جھجکی  تو اس کے بچہ نے کہا: اماں! صبر کر یقینا تو حق پر ہے۔
 (صحیح مسلم ، کتاب الزہد والرقائق، باب قصۃ أصحاب الاخدود والراہب والغلام)
کرامات صحابہ
            صحابۂکرام  y کی کرامات کے متعدد واقعات حدیث کی کتابوں میں مروی ہیں۔ چند واقعات کو ہم یہاں نقل کرتے ہیں۔
            ١۔ ایک بار نبی eنے اصحاب صفہ کے کھانے کا انتظام کرنے کے لئے صحابہ میں اعلان کیا کہ جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو وہ تیسرے کو لے جائے اور جس کے پاس پانچ آدمیوں کا کھانا ہو وہ پانچویں، چھٹے کو لے جائے۔ چنانچہ ابوبکر t اپنے پاس تین اشخاص کو لے کر گئے۔ جب ان مہمانوں کو کھانا پیش کیا گیا اور وہ کھانے لگے تو جس قدر بھی لقمہ اٹھاتے تھے نیچے سے کئی گنا بڑھ جاتا تھا۔ یہاں تک کہ انھوں نے خوب سیر ہوکر کھایا پھر اسے نبی e کے پاس بھیجا ، آپ e نے بھی اس میں سے کھایا اور بارہ عریفوں نے بھی اپنے ساتھیوں سمیت اس میں سے کھایا۔  (ملاحظہ ہو صحیح بخاری، کتاب مواقیت الصلاة، باب السمر مع الاہل، کتاب المناقب، باب علامات النبوة فی الاسلام، صحیح مسلم کتاب الاشربۃ، باب ا کرام الضیف)۔
            ٢۔ ابوہریرہ t سے روایت ہے کہ رسول اللہ e  کا ارشاد ہے کہ گذشتہ امتوں میں کچھ لوگ مُحَدَّث ہوتے تھے اگر میری امت میں بھی کوئی مُحَدَّث ہوا تو وہ عمر ہیں۔  (صحیح بخاری کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل عمر t)
            مُحَدَّث کا مفہوم ہے ایسا شخص جس کے دل میں اﷲ کی جانب سے بعض باتیں ڈال دی جائیں۔ یہ بھی کرامت کی ایک صورت ہے۔ جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کے دل میں اﷲ تعالی نے یہ بات ڈال دی تھی کہ اگر اندیشہ محسوس ہو تو موسیٰ علیہ السلام کو ایک صندوق میں رکھ کر دریا کے حوالہ کردیں۔
            ٣۔ انس t سے مروی ہے کہ دو شخص نبی e کے پاس سے اندھیری رات میں نکلے، اچانک دونوں کے سامنے ایک نور ظاہر ہوگیا، جب دونوں ایک دوسرے سے جدا ہوئے تو وہ نور بھی جدا ہوکر ان دونوں کے ساتھ ساتھ  ہوگیا۔ ایک روایت میں ان دونوں اشخاص کا نام بھی ہے، ایک عباد بن بشر اور دوسرے اسید بن حضیر w ۔  (صحیح بخاری ، کتاب الصلاة، باب ٧٩ قبل باب الخوخۃ والممر فی المسجد، وکتاب مناقب الانصار، باب منقبۃ أسید بن حضیر وعباد بن بشر w)
            ٤۔ براء  بن عازب t سے مروی ہے کہ ایک شخص سورۂ کہف کی تلاوت کررہا تھاکہ اس کے گھر میں بندھا ہوا چوپایہ بدکنے لگا، اس نے دیکھا کہ ایک بدلی اس پر چھائے ہوئے ہے، جب اس نے نبی e سے یہ واقعہ ذکر کیا تو آپ e نے فرمایا: اے فلاں! پڑھو کیونکہ یہ سکینت تھی  جس کا نزول تلاوت قرآن کی بنا پر ہورہا تھا۔ (صحیح بخاری، کتاب فضائل القرآن،باب فضل سورة الکہف، وصحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرین، باب نزول السکینۃ  لقراء ة القرآن)
            ٥۔ عمر فاروق t  کے زمانۂ خلافت میں سعد بن ابی وقاص t کوفہ کے گورنر تھے۔ کوفہ کے لوگوں نے ان سے متعلق دربار خلافت میں شکایت بھیجی۔ عمر t نے برائے تحقیق ایک وفد کوفہ بھیجا ۔ ان لوگوں نے مسجدوں میں جاجاکر ان سے متعلق دریافت کیا، سب نے ان کی تعریف کی، البتہ بنوعبس کی مسجد میں اسامہ بن قتادہ نامی ایک شخص کھڑا ہوااور اس نے کہا: جب آپ نے ہم سے پوچھ ہی لیا ہے تو عرض یہ ہے کہ سعد لشکر کے ساتھ (جہاد کے لئے) نہیں جاتے، تقسیم میں برابری نہیں کرتے اور فیصلوں میں انصاف سے کام نہیں لیتے۔ سعد t نے یہ سن کر فرمایا: میں بھی تین باتوں کی دعا ضرور کروں گا۔ اے اﷲ ! اگر تیرا یہ بندہ جھوٹا ہے اور ریاکاری اور شہرت کی خاطر کھڑا ہوا ہے تو اس کی عمر لمبی کر ، اس کی غربت وناداری میں اضافہ کر اور اسے فتنوں کا نشانہ بنادے۔ (چنانچہ ایسا ہی ہوا) اس کے بعد جب اس سے پوچھاجاتا تو کہتا، بہت بوڑھا اور فتنوں میں مبتلا ہوں، مجھے سعد کی بددعا لگ گئی ہے۔ جابر t سے یہ واقعہ بیان کرنے والے راوی عبدالملک کہتے ہیں: میں نے بعد میں اسے دیکھا کہ بڑھاپے کی وجہ سے اس کی دونوں پلکیں اس کی آنکھوں پر گر پڑی تھیں اور وہ راستوں میں لڑکیوں کو چھیڑتا اور انھیں آنکھ مارا کرتا تھا۔ (ملاحظہ ہو: صحیح بخاری ، کتاب الاذان، باب وجوب القراء ة للامام ، وصحیح مسلم ، کتاب الصلاة ، باب القراء ة فی الظہر والعصر) ۔
            ٦۔ عروہ بن زبیر t بیان کرتے ہیں کہ سعید بن زید t سے اروی بنت اوس نے جھگڑا کیا اور مروان بن حکم (والی مدینہ) تک اپنی شکایت پہنچائی اور اس نے دعوی کیا کہ زید نے اس کی کچھ زمین غصب کرلی ہے۔ سعیدt نے کہا: کیا میں رسول اﷲe سے (وعید) سننے کے بعد اس کی زمین کا کچھ حصہ غصب کروں گا؟ مروان نے پوچھا کہ تم نے رسول اﷲ  e سے کیا (وعید) سنی ہے؟ انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ e  کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جس نے ناجائز طریقے سے کسی کی ایک بالشت زمین بھی ہتھیالی تو اسے سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا۔ یہ سن کر مروان نے ان سے کہا: اس کے بعد میں آپ سے کوئی دلیل طلب نہیں کروں گا۔ پھر سعید t  نے اس عورت کے لئے بددعا فرمائی : اے اﷲ ! اگر یہ عورت جھوٹی ہے تو اس کی آنکھوں کی بینائی چھین لے اور اس کو اس کی ہی زمین میں موت دے۔ عروہ بیان کرتے ہیں کہ مرنے سے پہلے اس کی بینائی چلی گئی اور ایک وقت وہ اپنی زمین میں چل رہی تھی کہ ایک گڑھے میں گر گئی اور اس میں مرگئی۔  (صحیح بخاری، کتاب بدء الخلق، باب ما جاء فی سبع أرضین۔ وصحیح مسلم کتاب المساقاة، باب تحریم الظلم وغصب الارض)۔
            ٧۔ جابر بن عبداﷲ w بیان فرماتے ہیں کہ جب احد کی جنگ برپا ہوئی تو میرے والد نے رات کے وقت مجھے بلایا اور فرمایا: مجھے یوں لگتا ہے کہ نبی e کے ساتھیوں میں سے جو پہلے شہید ہوں گے، میں بھی انھیں میں سے ہوں گا اور میں اپنے بعد رسول اﷲe کی ذات کے علاوہ ایسا شخص چھوڑ کر نہیں جارہا ہوں جو مجھے تم سے زیادہ عزیز ہو ۔ یاد رکھنا کہ میرے ذمہ قرض ہے ، اسے اداکردینا۔ اور اپنی بہنوں کے ساتھ بھلائی کرنا۔ پس جب ہم نے صبح کی تو پہلے شہید ہونے والے وہی تھے اور میں نے ان کے ساتھ ایک اور شخص کو ان کی قبر میں دفن کردیا ۔ پھر میرا نفس اس بات پر مطمئن نہیں ہوا کہ میں ان کو دوسرے کے ساتھ ہی رہنے دوں۔ چنانچہ میں نے چھ مہینے کے بعد ان کو (قبرسے) نکال لیا۔ وہ اپنی قبر میں کانوں کے سوا اسی طرح تھے جیسے قبر میں رکھے جانے والے دن تھے۔ پھر میں نے ان کو ایک علیحدہ قبر میں رکھا۔  (صحیح  بخاری، کتاب الجنائز، باب ہل یخرج المیت من القبر؟)۔
            ٨۔ ابوہریرہ t سے روایت ہے کہ رسول اﷲe نے دس آدمیوں کا ایک لشکر جاسوس بنا کر بھیجا اور ان پر عاصم بن ثابت انصاری t کو امیر مقرر فرمایا۔ یہ لوگ چلے یہاں تک کہ عسفان اور مکہ کے درمیان واقع مقام ہدأة پر پہنچے تو ہذیل کے ایک قبیلہ بنولحیان کو اس کی اطلاع ہوگئی ۔ چنانچہ وہ فوراً سو کے قریب تیراندازوں کو لے کر ان کے مقابلے کے لئے نکل آئے اور ان کے نشانات قدم کے پیچھے پیچھے چلنے لگے ۔ جب عاصم اور ان کے ساتھیوں کو ان کے تعاقب کا احساس ہوا تو وہ ایک جگہ پناہ گزیں ہوگئے  لیکن بنولحیان کے افراد نے انھیں گھیرلیا اور ان سے کہا کہ نیچے اترآؤ اور اپنے آپ کو ہمارے حوالے کردو ، ہم تمھیں عہد وپیمان دیتے ہیں کہ کسی ایک کو بھی قتل نہیں کریں گے۔عاصم بن ثابت t نے کہا کہ میں تو کسی کافر کے عہد پر ہرگز نہیں اتروں گا، اے اﷲ ! ہمارے بارے میں اپنے نبی e کو خبرکردے۔ پھر دشمنوں نے تیروں کی بوچھار کردی اور عاصم t  کو قتل کردیا۔ تین آدمی ان کے عہد ومیثاق پر اتر آئے ، ایک خبیب دوسرے زید بن دثنہ اور ایک صحابی اور تھے۔ جب انھوں نے ان پر قابو پالیا تو ان کی کمانوں کی تانتیں کھول کر اسی سے ان کو باندھ دیا ۔ تیسرے آدمی نے کہا: یہ پہلی بدعہدی ہے۔ اﷲ کی قسم!میں تمھارے ساتھ نہیں جاؤں گا۔ میرے لئے ان مقتولین کا نمونہ ہے ۔ دشمن نے ان کو گھسیٹ کر اپنے ساتھ بہ مشقت لے جانا چاہا لیکن وہ ان کے ساتھ نہ جانے پر اڑے رہے تو دشمن نے ان کو بھی قتل کردیا۔ خبیب اور زید بن دثنہ کو لے کر چلے اور جنگ بدر کے واقعہ کے بعد انھیں مکہ لے جاکر فروخت کردیا۔ بنوحارث بن عامر بن نوفل نے خبیب کو خرید لیا کیونکہ انھوں نے ہی بدر والے دن حارث کو قتل کیا تھا ۔ خبیب ان کے پاس قیدی کے طور پر رہے یہاں تک کہ انھوں نے ان کے قتل کا فیصلہ کرلیا۔ایک دن کی بات ہے کہ خبیب t نے حارث کی کسی بیٹی سے زیرناف کے بال مونڈنے کے لئے استرا مانگا ، اس نے انھیں لاکر دے دیا۔ اس کا ایک بچہ کھیلتے کھیلتے جب کہ وہ غافل تھی خبیب کے پاس آگیا۔ اس نے بچے کو اس حال میں دیکھا کہ وہ خبیب کی ران پر بیٹھا ہوا ہے اور استرا ان کے ہاتھ میں ہے۔ وہ لڑکی سخت گھبراگئی جسے خبیب t نے محسوس کیا تو اس سے کہا: کیا تجھے اندیشہ ہے کہ میں اسے قتل کردوں گا، میں ایسا نہیں کرسکتا ہوں۔ اس لڑکی کا بیان ہے کہ میں نے خبیب سے بہتر کوئی قیدی نہیں دیکھا۔ اﷲ کی قسم! میں نے انھیں ایک دن دیکھا کہ وہ اپنے ہاتھ میں انگور کا خوشہ لئے کھارہے تھے جب کہ وہ بیڑیوں میں جکڑے ہوئے تھے اور ان دنوں مکہ میں کوئی پھل نہیں پایاجاتا تھا۔ وہ لڑکی کہتی تھی کہ یہ وہ رزق تھا جسے اﷲ نے خبیب کو پہنچایا تھا۔جب کفار مکہ خبیب کو حرم سے حل کی طرف لے کر گئے تو خبیب نے ان سے درخواست کی کہ مجھے دو رکعتیں پڑھ لینے دو۔ ان لوگوں نے آپ کو پڑھنے کا موقعہ دیا۔ آپ نے پڑھنے کے بعد فرمایا: اﷲ کی قسم! اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تم گمان کروگے کہ مجھے موت کے خوف نے گھبراہٹ میں ڈال دیا ہے تو میں اور صلاة پڑھتا۔ (پھر دعا فرمائی) اے اﷲ! ان کی تعداد گن لے، ان کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے مار، اور ان میں سے کسی کو باقی نہ چھوڑ۔ اور یہ شعر پڑھا:
فلست أبالي حین أقتل مسلما   *   علی أي جنب کان لله  مصرعي
وذلك فی ذات الإله وإن یشأ   *   یبارك علی أوصال شلو ممزع
(جب اسلام کی حالت میں میرا قتل کیا جارہا ہے تو مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ کس پہلو پر اﷲ کے لئے میری موت واقع ہوگی۔ میری یہ موت اﷲ کی راہ میں ہے، وہ اگر چاہے تو کٹے ہوئے جسم کے اعضاء میں برکت ڈال دے)۔
            خبیب t  وہ شخص ہیں جنھوں نے ہر اس مسلمان کے لئے جس کو باندھ کر قتل کیا جائے دورکعتیں صلاة پڑھنے کا طریقہ جاری کیا اور نبی e نے اپنے صحابہ کو ان کی خبر اسی روز دی جس روز ان کو شہید کیا گیا ۔ قریش کو  جب بتلایا گیا کہ عاصم بن ثابت قتل کردیئے گئے ہیں تو انھوں نے کچھ لوگوں کو  ان کے جسم کا کوئی ایسا حصہ لانے کے لئے بھیجا جس سے ان کی شناخت کی جاسکے کیونکہ انھوں نے قریش کے ایک بڑے آدمی کو قتل کیا تھا۔ اﷲ تعالی نے عاصم t  کی حفاظت کے لئے بھڑوں (یا شہد کی مکھیوں) کی ایک جماعت کو بادل کے سائے کی طرح بھیج دیا، پس انھوں نے قریش کے ان فرستادوں سے انھیں بچایا اوروہ اس بات پر قادر ہی نہیں ہوسکے کہ وہ ان کے جسم کا کوئی حصہ کاٹ لیں۔  (صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب غزوة الرجیع، وکتاب الجہاد، باب ہل یستأسر الرجل؟)



کرامات تابعین
            تابعین کے زمانے میں بھی بعض کرامات ثابت ہیں۔ ہم اس سلسلہ میں اویس قرنی رحمہ اﷲ کی کرامت ذکر کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔
            امام مسلم رحمہ اﷲ نے اویس قرنی رحمہ اﷲ کے فضائل کے بیان کے لئے ایک مستقل باب قائم کیا ہے اور اس کے تحت متعدد احادیث ذکر کی ہیں۔ ہم نے ان تمام احادیث کو ایک ساتھ جمع کردیا ہے۔
            روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ تابعین میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جس کا نام اویس ہے۔ اس کی ایک والدہ ہے جس کا وہ بڑا فرماں بردار ہے اور جس کے ساتھ وہ بڑا بہتر سلوک کرنے والا ہے۔ اس کے جسم میں برص کے سفید داغ تھے۔ اس نے اللہ  سے دعا کی تو اللہ  نے اس کی بیماری دور کردی۔ البتہ ایک دینار یا درہم کے برابرنشان باقی رہ گیا۔ تم اس سے کہناکہ وہ تمھارے لئے بخشش کی دعا کرے۔  (صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل أویس القرنی)
            نبی کریم e نے تابعین میں سے سب سے بہتر شخص کے متعلق پیشگوئی فرمائی۔ اس کی ایک قابل تعریف صفت یہ بیان کی کہ وہ اپنی والدہ کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا ہوگا اور یہ کہ اللہ  تعالی نے اس شخص کو مستجاب الدعوات بنایا ہے اور یہی اس شخص کی کرامت ہے ، چنانچہ وہ خود ایک بیماری میں مبتلا تھا اور اپنی دعا کے ذریعہ اللہ  کی رحمت سے شفایاب ہوا لہذا دوسروں کو ایسے شخص سے مغفرت کی دعا کروانی چاہئے۔



منکرین کرامت کی تردید
            منکرین کرامت کی دوقسمیں ہیں۔ ایک قسم ان لوگوں کی ہے جو سرے سے دین وایمان کے منکر ہوتے ہیں، نہ اللہ  ورسول پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ ہی یوم آخرت پر، ایسے لوگوں کے لئے کرامت (جو ایمان وعقیدے کا ایک حصہ ہے) کا انکار ایک معمولی بات ہے۔ ایسے لوگوں سے اثبات کرامت پر گفتگو کے بجائے اثبات دین اور اثبات توحید ورسالت پر گفتگو کی جائے گی۔ توحید ورسالت ثابت ہوجانے کے بعد کرامت خودبخود ثابت ہوجائے گی۔
            دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو اسلام کا کلمہ تو ضرور پڑھتے ہیں لیکن نصوص شریعت پر اپنی عقل ورائے کو مقدم رکھتے ہیں۔ یہ اہل بدعت کا ایک گروہ ہے جسے معتزلہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ لوگ کرامت کے منکر ہیں۔ان کی تردید کرتے ہوئے صاحب شرح عقیدہ طحاویہ لکھتے ہیں : کرامت کے انکار میں معتزلہ کے قول کا بطلان بالکل واضح ہے کیونکہ اس کا انکار محسوسات کے انکار کی طرح ہے۔ جہاں تک ان کے اس شبہ کا تعلق ہے کہ اگر کرامت کو صحیح مان لیا جائے تو نبی اور ولی میں فرق کرنا دشوار ہوجائے گا  اور ایسا جائز نہیں۔ معتزلہ کا یہ دعوی اس وقت درست کہا جاسکتا تھا اگر ولی خارق عادت پیش کرتے ہوئے دعوائے نبوت بھی کرتا اور ایسا ہونا ناممکن ہے کیونکہ اگر وہ نبوت کا دعوی کردے تو ولی نہ ہوکر جھوٹا مدعیٔ نبوت ہوجائے گا۔   (شرح عقیدہ طحاویہ/٧٥٢)
            قابل غور بات یہ ہے کہ کرامت تو اﷲ کی جانب سے ایک عزت افزائی ہے، کرامت مکمل طور پر اﷲ کی نوازش ہے، کرامت کے اظہار میں ولی کا اپنا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا کہ جب چاہے دعوائے ولایت کرے اور بطور دلیل کرامت پیش کردے۔ صالح بندے کی حاجت کے وقت کرامت ظاہر ہوتی ہے، یہ ناممکن ہے کہ کوئی شخص کرامت ظاہر ہونے کے بعد دعوائے نبوت کردے کیونکہ اللہ  تعالی کو دلوں کا حال بھی معلوم ہے اور وہ مستقبل سے بھی باخبر ہے۔ اللہ  تعالی ایسے شخص کو کبھی کرامت سے نہیں نواز سکتا۔
اثبات کرامت میں غلو
            اثبات کرامت میں بعض لوگ افراط اور بعض تفریط کا شکار ہوگئے۔ اہل سنت وجماعت اہل حدیث افراط وتفریط سے دور رہ کر صراط مستقیم پر قائم رہے۔ ایک طرف معتزلہ چلے گئے جنھوں نے کرامت کا بالکل انکار کردیا تو دوسری طرف صوفیاء کی جماعت نے کرامت کے اثبات میں بے انتہا غلو اور افراط سے کام لیا۔ صوفیاء کا پورا دینی کاروبار اسی کرامت کے نام سے چلتا ہے۔ کرامت خواہ سچی ہو یا جھوٹی، ثابت ہو یا غیر ثابت، جادو ہو یا دجل وفریب، عیاری ہو یا ہاتھ کی صفائی صوفیاء کے دکان کی ساری رونق اسی کے دم سے ہے۔
            حقیقت یہ ہے کہ عدالتی کارروائیوں اور شرعی فیصلوں میں کرامت کا اعتبار نہیں ہوگاکیونکہ کسی شخص کا ایسا دعوی جو عادتاً غیر ممکن الوقوع ہے شرعی طور پرناقابل قبول ہے، ایسی بات لغو مانی جائے گی۔ مثلاً:
            (١) دو شخص مکہ میں بیٹھ کر (جدید مواصلاتی وسائل وذرائع کا استعمال کئے بغیر)یہ دعوی کریں کہ ایک نے اپنا گھر ملک شام میں رہن رکھ دیا ہے اور دوسرا کہے کہ اس نے قبضہ کرلیا ہے تو دونوں کی بات غیر مقبول ہوگی۔
            (٢) ایک شخص نے کسی مغربی عورت سے نکاح کیا حالانکہ وہ خود مشرق میں ہے اور دونوں میں ملاقات کے بغیر چھ ماہ کے اندر ولادت ہوگئی تو بچہ اس کا نہیں مانا جائے گا۔
             اب اگر کوئی کہے کہ بطور کرامت یا بطور استخدام جِن ایسا ہوا ہے تو شرعی طور پر ناقابل قبول ہوگا۔ (مغنی المحتاج فی الفقہ الشافعی)
            لیکن یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ بعض فقہاء کرام نے اثبات کرامت میں غلو کا راستہ اختیار کرکے عدالتی کارروائیوں میں بھی کرامت کو قابل قبول گردانا ہے۔
            فقہ حنفی کی مشہور کتاب درمختار کی شرح رد المحتار (جو حاشیہ ابن عابدین کے نام سے مشہور ہے) میں لکھا ہوا ہے کہ فقہاء حنفیہ نے عقد نکاح ہونے کو کافی سمجھا ہے گرچہ دخول نہ ہوا ہو، جیسے کوئی مغربی مرد کسی مشرقی عورت سے نکاح کرے اور دونوں کے درمیان ایک سال کی مسافت ہو اور شادی کے چھ ماہ بعد ولادت ہوجائے تو اسے کرامت یا استخدام تصور کرکے صحیح مان لیا جائے گا۔ صاحب نہر فرماتے ہیں کہ صرف استخدام کہنا بہتر ہے کیونکہ مسافتوں کا ختم کردیا جانا ہمارے نزدیک کرامت نہیں ہے۔ صاحب درمختار فرماتے ہیں : لیکن امام تفتازانی نے مفتیٔ ثقلین امام نسفی کی اتباع میں کرامت ہی کو بالجزم بیان کیا ہے بلکہ امام نسفی حنفی سے پوچھا گیا کہ کعبہ کسی ولی کی زیارت کو جاتا تھا کیا ایسا کہنا جائز ہے؟ تو آپ نے فرمایا: اہل سنت کے نزدیک کرامت کے طور پر اولیاء کے لئے خرق عادت جائز ہے۔
            تاتار خانیہ میں فتاوی عتابیہ سے نقل کرکے لکھا ہے کہ اگر کعبہ اپنی جگہ سے اٹھ کر اصحاب کرامت کی زیارت کو چلاجائے تو اس کی زمین کی طرف منہ کرکے صلاة جائز ہوگی۔
            اس فتوی پر نوٹ لگاتے ہوئے صاحب درمختار فرماتے ہیں: یہ مسئلہ صریح طور پر کرامات اولیاء کی دلیل ہے اور اس سے ان لوگوں کی تردید ہوجاتی ہے جو ہمارے امام ابوحنیفہ پر کرامت کے انکار کا الزام لگاتے ہیں۔ آگے فرماتے ہیں : اس کی مزید تفصیل ثبوت نسب کے باب میں آئے گی۔
            کعبہ کو اپنی جگہ سے اٹھاکر اولیاء کی زیارت کے لئے بھیج دینا صوفیاء کے غلو کی ایک عبرتناک مثال نہیں تو اور کیا ہے؟
            رسول اکرم e صلح حدیبیہ کے موقع پر عمرہ کی نیت سے زیارت کعبہ کے لئے تشریف لے گئے اور کفار قریش نے آپ e کو عمرہ کرنے سے روک دیا لیکن اس موقعہ پر کعبہ اٹھ کرآپ کے پاس نہیں آیا تو آپ e دوبارہ صلح کرکے اگلے سال کعبہ کی زیارت کو تشریف لے گئے اور عمرہ ادا فرمایا۔ پھر سنہ ١١ ہجری میں حج کی نیت سے کعبہ کے طواف وزیارت کے لئے تشریف لے گئے۔ رسول اکرم e خود زیارت کعبہ کے لئے مکہ تشریف لے جاتے تھے۔ سوچنے کا مقام ہے کہ وہ کون سا ولی ہے جو رسول اکرم e سے بھی افضل ہے ، جو کعبہ کی زیارت کے لئے نہیں آتا بلکہ کعبہ خود اس کی زیارت کو جاتا ہے۔!!!



کیا غیب دانی بھی کرامت ہے؟
            غیب کا عالم صرف اللہ  تعالی ہے البتہ کچھ باتوں کی اطلاع اپنے رسولوں کو دے دیتا ہے تاکہ وہ اسے بے کم وکاست اس کے بندوں تک  پہنچادیں۔ قرآن مجیداور احادیث صحیحہ میں اس حقیقت کو متعدد بار مختلف پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔لیکن فقہ حنفی کی مشہور کتاب حاشیہ ابن عابدین میں ہے کہ کتب عقائد میں یہ بات مذکور ہے کہ غیب کی بعض باتوں کی اطلاع پاجانا جملہ کرامات اولیاء میں سے  ہے۔
            یہ اثبات کرامت میں غلو نہیں تو اور کیا ہے۔!!!
کرامت میں غلو کا نتیجہ
فقہ شافعی کی کتاب شرح البہجۃ میں شیخ زکریا انصاری شافعی نے لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص بطور کرامت اپنا جنازہ خود پڑھ لے تو کافی ہوگا, یعنی الگ سے اس کا جنازہ پڑھنے کی ضرورت نہ ہوگی۔
            اور کسی فقیہ سے نقل کرتے ہوئے یہ بات بھی لکھی ہے کہ اگر کسی میت کو دوسرے میت نے بطور کرامت غسل دے دیا تو یہ کافی نہ ہوگا۔ پھر لکھا ہے کہ اس مسئلہ کی مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
            ظاہر ہے کہ اس طرح کے مسائل سے پورا دین کھلونا بن جائے گا۔
ایک دلچسپ حکایت
            ایک بدعتی صوفی نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ سے ایک واقعہ بیان کیا کہ وہ مشرق کے کسی تاتاری امیر کے پاس تھا۔ وہ امیر ایک بت کی عبادت کیا کرتا تھا۔ امیر نے صوفی سے کہا کہ یہ بت روزانہ کھانا کھاتا ہے اور کھانے میں اس کا اثر صاف ظاہر رہتا ہے۔ صوفی نے انکار کیا۔ امیر نے کہا کہ اگر بت نے کھانا کھالیا تو پھر تمھاری موت ہے؟ صوفی نے کہا: ہاں۔ صوفی کہتا ہے کہ میں دوپہر تک اس کے پاس بیٹھا رہا لیکن بت کے لئے چڑھائے گئے چڑھاوے پرکھانے کا کوئی اثر ظاہر نہ ہوا۔ تاتاری کو یہ بات بہت گراں گذری اور اس نے سخت سے سخت قسمیں کھاکر بیان کیا کہ روزانہ کھانے کا اثر دکھائی دیتا تھا لیکن آج تمھاری موجودگی میں ایسا نہیں ہوا۔
            شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اس صوفی سے کہاکہ میں تجھے اس کا سبب بتاتا ہوں۔ سبب یہ ہے کہ وہ تاتاری کافر ومشرک تھا اور اس کے بت کے ساتھ ایک شیطان تھاجو اسے گمراہ کرنے کے لئے کھانے میں اثر دکھایا کرتا تھا لیکن تمھاری موجودگی میں وہ حاضر نہ ہوسکا کیونکہ تمھارے پاس اسلام کی تھوڑی سی روشنی اور اللہ  کی تائید تھی۔ تم اور تم جیسے لوگوں کی مثال خالص اہل اسلام کے مقابلے میں وہی ہے جو تمھارے مقابلے میں اس تاتاری کی تھی۔تاتاری اور اس جیسے لوگ اپنے کفروشرک کی وجہ سے پورے طور پر کالے سیاہ ہیں اور جو خالص اہل اسلام ہیں وہ پورے طور پر سفید ہیں اور تم صوفی بدعتی لوگ کچھ کالے اور کچھ سفید یعنی چتکبرا ہو۔
ایک دلچسپ مناظرہ
            امام ابن تیمیہ نے جب صوفیوں کی تردید کی تو سلسلۂ رفاعیہ کے چند لوگوں نے جاکر حاکم وقت سے شکایت کی اور کہا کہ ہم لوگ صاحب حال اور صاحب کشف وکرامات ہیں۔ علماء ظاہر جو یہ کشف وکرامات نہیں دکھاسکتے ہم پر کیوں اعتراض کرتے ہیں؟ وہ لوگ ہمیں ہماری حالت پر چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟ حاکم وقت عدل پرور اور انصاف پسند تھا۔ اس نے ایک وقت متعین کرکے دونوں کو اکٹھا کیا تاکہ حق واضح وغالب اور باطل مغلوب ہوجائے۔
            رفاعی صوفیوں کا دعوی تھا کہ ان کو جو وجد وحال حاصل ہے اس میں دنیا کا کوئی ولی ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا اور ان کا جو طریقہ ہے کسی عالم کو اس کی معرفت نہیں ہے۔ ان پر انکار کرنے والے صرف ظاہری شریعت کو جانتے ہیں مگر اسرار وحقیقت کو نہیں جانتے۔ اس طرح کے بڑے بڑے دعوے یہ صوفی لوگ کررہے تھے۔
            امام ابن تیمیہ جب حاضر ہوئے تو امیر نے پوچھا کہ رفاعی صوفیوں سے آپ کا مطالبہ ہے کہ وہ لوہے کی زنجیریں  اور طوق آگ میں گرماکے اپنی گردنوں میں ڈال کر دکھائیں؟ ابن تیمیہ نے کہا: یہ ان کا جھوٹ اور بہتان ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم آگ میں داخل ہونے کا حکم دینا حلال نہیں سمجھتے بلکہ اگر کوئی آگ میں داخل ہونے کا حکم دے تو اس کی اطاعت جائز نہیں کیونکہ اس سلسلہ میں صحیح حدیث موجودہے۔ یہ صوفی جھوٹے اور بدعتی لوگ ہیں۔ انھوں نے مسلمانوں کا دین اور ان کی دنیا دونوں برباد کررکھی ہے۔کرامت کے نام پر انھوں نے بہت سے حیلے اور فریب پھیلا رکھے ہیں۔ اس مجلس میں وقت کی کمی کے باعث ان سب کا ذکر نہیں ہوسکتا۔ یہ لوگ بعض امراء کے گھروں میں اپنے ایجنٹ رکھ کر اندرونی خبریں لیاکرتے ہیں اور پھر کشف کے نام پر اسے ظاہر کرکے فریب دیتے ہیں۔
            ایک دفعہ ان لوگوں نے ایک قبر میں ایک آدمی کو سلادیا اور پھر امیر قفجق کو بلاکر یہ دھوکادیا کہ مردے بات کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی بہت سی فریب کاریاں اور حیلہ سازیاں مشہور ہیں۔
            مجھے ان کے امتحان کی ضرورت نہیں مگر ان کا دعوی ہے کہ وہ آگ میں داخل ہوسکتے ہیں اور اہل شریعت داخل نہیں ہوسکتے۔ اس لئے اہل شریعت کو ہم پر اعتراض کا حق نہیں ہے خواہ ہم کوئی کام شریعت کے موافق کریں یا مخالف۔ میں اللہ  سے استخارہ کرکے آیا ہوں کہ اگر وہ آگ میں داخل ہوئے تو میں بھی داخل ہوں گا۔جو جل گیا وہ مغلوب وملعون ہوگا۔ لیکن ایک شرط ہے۔ شرط یہ ہے کہ اس سے پہلے ہمارے جسموں کو سرکہ اور گرم پانی سے مل مل کر دھودیا جائے۔ امیرنے پوچھا: یہ شرط کیوں؟ ابن تیمیہ نے کہا: کیونکہ یہ لوگ مینڈھک کا تیل، نارنگی کا چھلکا اور حجر طلق وغیرہ ملاکر ایک دوا بناتے ہیں اور اسے اپنے جسم پر لگائے رہتے ہیں جس پر آگ اثر نہیں کرتی۔جب ہم دونوں سرکہ اور گرم پانی سے اپنے بدن خوب مل کر دھولیں گے تو سارے حیلے ختم ہوجائیں گے اور حق واضح ہوجائے گا۔
            امیر نے پوچھا: کیا آپ یقینا ان کے ساتھ آگ میں کود جائیں گے؟ ابن تیمیہ نے کہا: ہاں، ہم نے استخارہ کرلیا ہے اور ہمارے دل میں یہ بات ڈال دی گئی ہے، البتہ ہم ابتداء ً ایسا کرنا درست نہیں سمجھتے کیونکہ خرق عادت اور کرامت امت محمد e کے لئے جو ظاہر وباطن میں آپ e کے متبعین ہیں  اس وقت کے لئے ہے جب حاجت ہو یا حجت کی ضرورت ہو۔ حاجت کا مفہوم وہ ضروری رزق اور فتح ونصرت ہے جس سے دین کا قیام ہے اور حجت اللہ کے دین کے غلبہ کے لئے ہے۔ جب یہ لوگ اپنے حیلوں سے جسے یہ اشارات وکرامات کہتے ہیں، اللہ  کے دین وشریعت کو باطل کرنے کی کوشش کریں گے تو اللہ  اور اس کے رسول کی مدد ہم پر واجب ہوجائے گی اور ہم اپنے جسم وجان اور مال وزر کو اللہ  کے دین وشریعت کے غلبہ کے لئے لگادیں گے تو ان کی شعبدہ بازیوں کے مقابلے میں اللہ  کی آیات وکرامات ظاہر ہوں گی۔ جیسے موسی علیہ السلام کا جب جادوگروں نے مقابلہ کیا تو ان کی لاٹھی نے اژدہا بن کران کی رسیوں کو جو بھیانک سانپوں کی شکل میں دوڑ رہی تھیں نگل لیا۔
            جب معاملہ یہاں تک پہنچ گیا تو رفاعی صوفیوں نے چاہا کہ صلح صفائی کے ذریعہ معاملہ رفع دفع ہوجائے تو امیر نے کہاکہ نہیں، آج حق کا واضح ہوجانا ضروری ہے۔
            ایک رفاعی شیخ نے کہا کہ لوہے کا طوق گلے میں پہننے کی دلیل وہب بن منبہ کی وہ روایت ہے جس میں بنی اسرائیل کے ایک عابد کا ذکر ہے کہ وہ اپنے گلے میں طوق پہنا کرتا تھا۔
            یہ ایک غیرثابت اسرائیلی روایت ہے اس کے باوجود امام ابن تیمیہ نے اسے جواب دیا کہ ہمارے لئے اسلامی شریعت کے خلاف کسی اسرائیلی روایت پر عمل جائز نہیں۔ مسند احمد کی حدیث ہے کہ نبی e نے عمر بن خطاب  t کے ہاتھ میں توریت کا ایک ورق دیکھا تو آپ نے فرمایا: اے ابن خطاب ! کیا حیران ہو، میں تمھارے پاس صاف ستھری شریعت لے کر آیا ہوں۔ خبردار ! اگر موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی پیروی کرتے تو گمراہ ہوجاتے۔
            ہمارے لئے اپنی شریعت کے خلاف موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام پر نازل شدہ حکم کی اتباع جائز نہیں, جس کے بارے میں یہ یقین سے معلوم ہو کہ وہ ان کی شریعت ہے, تو پھر ہمارے لئے بنی اسرائیل کے کسی عابد کی اتباع کہاں درست ہوسکتی ہے, جب کہ یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ حکایت سرے سے ثابت بھی ہے یا نہیں؟ ہمارا بنی اسرائیل کے عابدوں سے کیا تعلق ؟   تلك أمة قد خلت۔۔۔۔۔ قرآن پاک یا صحیح حدیث سے کوئی دلیل پیش کرو۔
            پھر اس صوفی نے کہا کہ ہمارا تعلق شافعی مسلک سے ہے اس لئے ہمارے مقابلے میں کسی شافعی عالم کو لائیے۔ امام ابن تیمیہ نے کہا کہ گلے میں طوق پہننا کسی مسلمان عالم کے نزدیک نہ مستحب ہے نہ ہی جائز ،بلکہ سب اس سے منع کرتے ہیں اور اسے بدعت قرار دیتے ہیں۔ اتفاق سے شافعی مسلک کے مفتی شیخ کمال الدین وہیں تشریف فرما تھے، ان سے کہا: شیخ آپ کیا فرماتے ہیں؟ انھوں نے کہا: یہ بدعت ہے۔
            اس کے بعد رفاعی صوفی یہ کہتے ہوئے چیخنے لگا کہ ہمارے ایسے اور ایسے احوال ہیں اور ہمارے پاس ایسے باطنی اسرار ہیں جن کا علم دوسروں کے پاس نہیں۔ امام ابن تیمیہ نے بھی اسی طرح آواز بلند کرکے کہا: باطن وظاہر، شریعت وحقیقت سب کو کتاب وسنت پر پیش کرنا ہوگا۔ کتاب وسنت سے باہر نکلنے کی کسی کو اجازت نہیں، چاہے وہ فقراء ومشایخ ہوں یا امراء وملوک ہوں یا علماء وقضاة ہوں یا کوئی اور ہوں۔ تمام مخلوقات پر اللہ  اور اس کے رسول کی اطاعت واجب ہے۔
            پھر اس صوفی نے آگ وغیرہ میں داخل ہونے والی شعبدہ بازیوں کو بطور کرامت ذکر کیا۔ ابن تیمیہ نے جواب دیا کہ میں مشرق سے مغرب تک کے تمام رفاعی صوفیوں کو چیلنج دیتا ہوں کہ وہ جو کچھ آگ میں کریں گے میں بھی ویسے ہی کروں گا ،جو جل گیا وہ ملعون ومغلوب ہے ،لیکن یہ شرط ہے کہ پہلے اپنے جسموں کو سرکہ اور گرم پانی سے مل مل کر خوب دھولیں۔ لوگوں نے پوچھا : وجہ؟ آپ نے فرمایا: یہ اپنے بدن پر مینڈھک کا تیل وغیرہ لگائے رہتے ہیں۔ اس کے بعد وہ رفاعی صوفی چیخنے لگا اور ایسا ظاہر کرنے لگا گویا قمیص نکالنے جارہا ہے اور کہنے لگا کہ لکڑی کے ڈھیر اکٹھا کرو۔ امام ابن تیمیہ نے کہا کہ بات کو طول نہ دو، صرف ایک چراغ لے آؤاور ہم دونوں اپنی انگلیاں سرکہ اور گرم پانی سے دھوکر اس میں ڈالیں، جس کی انگلی جل جائے اس پر اللہ  کی لعنت اور وہ مغلوب۔ یہ بات کہنے سے اس کا چہرہ زرد پڑگیا اور وہ ذلیل ہوگیا۔
            پھر ابن تیمیہ نے کہا: ان سب کے باوجود اگر تم آگ میں داخل ہوکر حقیقۃً بہ سلامت نکل آؤ، یا ہوا میں پرواز کرو، یا پانی پر چلو یا اپنے دعوے کی صحت پر جو چاہو کرتب دکھاؤ، شریعت کی مخالفت کے لئے یہ چیزیں دلیل نہیں بن سکتیں۔
            دجال اکبر آسمان سے کہے گا کہ بارش برسا تو بارش ہوجائے گی، زمین سے کہے گا کہ پودے اگا تو پودے اگ جائیں گے، کھنڈروں سے کہے گا کہ اپنے خزانے باہر نکال تو خزانے اور دفینے نکل کر اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگیں گے، ایک شخص کو قتل کرکے اس کے بدن کے دو ٹکڑے کرکے ان کے درمیان میں چلے گا پھر اس سے کہے گا کہ کھڑے ہوجا تو وہ اٹھ کھڑا ہوگا، ان سب خرق عادت امور کے باوجود وہ کذاب ودجال اور ملعون ہوگا۔
            اس مناظرہ سے حاضرین کے سامنے ان کی عاجزی اور ان کا فریب وتلبیس ظاہر ہوگیا۔ امیر نے ابن تیمیہ سے پوچھا کہ تم ان سے کیا چاہتے ہو؟ آپ نے کہا: اتباع کتاب وسنت اور عقیدہ کی اصلاح چاہتا ہوں۔ یہ لوگ ایسا عقیدہ ہرگز نہ رکھیں کہ کسی بھی شخص کو کتاب وسنت کے حکم سے باہر نکلنے کی گنجائش ہے۔
            رفاعی صوفی کہنے لگا کہ ہم کتاب وسنت کے متبع ہیں۔ کیا گلوں کے طوق کے سوا اور بھی کسی چیز کا انکار ہے؟ ابن تیمیہ نے کہا: گلے کا طوق ہو یا کوئی دوسری چیز، کو ئی خاص چیز مقصد نہیں ہے بلکہ مقصد یہ ہے کہ تمام مسلمان اللہ  اور اس کے رسول کی اطاعت میں داخل ہوں۔ امیر نے پوچھا: کتاب وسنت ان پر کون سی چیز واجب کرتے ہیں؟ ابن تیمیہ نے فرمایا: کتاب وسنت کے فیصلے بہت ہیں، اس ایک مجلس میں ان کا بیان ممکن نہیں۔ مقصد یہ ہے کہ عمومی اور اجمالی طور پر وہ اس بات کا اقرار کریں کہ کتاب وسنت کی اتباع کریں گے اور جو اس سے خارج ہوگا اس کی گردن ماردی جائے گی۔کتاب وسنت کی اتباع میں سے چند اہم چیزیں یہ ہیں کہ صلاة پنجوقتہ کی پابندی کریں، صلاة کے دوران بات چیت نہ کریں جیسا کہ ان لوگوں کا طریقہ ہے، صلاة کے دوران یہ لوگ کہتے ہیں: یا سیدی أحمد شیئاﷲ اس سے صلاة بھی فاسد ہوجائے گی اور شرک بھی ثابت ہوگا۔وہ صلاة جس میں اياك نعبد واياك نستعين  کے اقرار کا حکم دیا گیا ہے اس کے اندر یہ لوگ شرک اور دعاء غیراللہ  کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اسی طرح یہ لوگ صلاة کے دوران سخت قسم کی چیخ مارا کرتے ہیں۔ صوفی نے کہا: جیسے لوگ چھینک پر مجبور ہوتے ہیں ویسے ہم چیخ پر مجبور ہوتے ہیں۔ ابن تیمیہ نے کہا کہ یہ غلط اور جھوٹ ہے، یہ لوگ بہ تکلف ایسا کرتے ہیں۔ شرعی کوڑے اور محمدی تلوار سے اس کی اصلاح ہوگی۔صوفی کہنے لگا کہ یہود ونصاری کو اپنے اپنے دین پر باقی رہنے کی اجازت ہے اور ہم کو یہ اجازت نہ ہوگی؟ ابن تیمیہ نے کہا: یہود ونصاری اپنے گھروں کے اندر چھپ کر اپنے دین پر عمل کرتے ہیں اور جزیہ دیتے ہیں، لیکن اہل بدعت کو اپنی بدعتوں کے اظہار کی قطعاً اجازت نہیں دی جائے گی۔
            صوفی نے کہا: بدعت زنا ہی کی طرح ایک چیز ہے۔ ابن تیمیہ نے کہا کہ زنا معصیت ہے اور بدعت معصیت سے بدتر ہے۔ معصیت سے توبہ کی جاتی ہے اور بدعت سے توبہ نہیں کی جاتی۔ پھر کسی صوفی نے کہا کہ ہم تو لوگوں سے توبہ کرواتے ہیں،  انھیں دین پر لاتے ہیں۔ ابن تیمیہ نے جواب دیا : تم کس بات سے توبہ کراتے ہو، چوری سے؟ ڈکیتی سے؟ خبردار! ان کی حالت تمھارے توبہ کرانے سے پہلے بہتر تھی۔ وہ صرف فاسق تھے، ان چیزوں کو حرام اور گناہ سمجھتے تھے، اللہ کی رحمت سے پرامید تھے، توبہ کی نیت تھی، لیکن تم لوگوں نے ان سے توبہ کراکے انھیں گمراہ اور مشرک بناکر دائرۂ اسلام سے خارج کردیا۔ آج وہ اللہ  کی محبوب چیزوں سے بغض اور مبغوض چیزوں سے محبت رکھتے ہیں۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ بدعت معصیت سے زیادہ برا ہے۔
            مناظرہ اس سے بھی آگے ہے لیکن اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔ اس کے اندر بہت سے ایسے مفید قواعد وضوابط ہمارے سامنے آگئے جس سے اہل بدعت کی کرامت نما شعبدہ بازیوں کے مکروفریب کا پردہ چاک کرنے میں سہولت اور آسانی ہوگی۔
فراست وتَوَسُّم
            بعض لوگ چند ضعیف احادیث کا سہارا لے کر اہل ایمان کے لئے فراست وتوسم ثابت کرتے ہیں اور اسے ایک قسم کی کرامت مانتے ہیں۔ لہٰذا ضروری ہوجاتا ہے کہ اس  سے متعلق بھی کچھ گفتگو کرلی جائے۔
            قرآن مجید کے اندر اﷲ تعالی نے  لوط علیہ السلام کی قوم کا کرتوت اور ان پر عذاب کا تذکرہ کرنے کے بعد ارشاد فرمایا ہے:
ﭫ  ﭬ  ﭭ   ﭮ  ﭯ  ﭰ  الحجر: ٧٥
 [بلاشبہ بصیرت والوں کے لئے اس میں بہت سی نشانیاں ہیں]۔
اس آیت کی تفسیر میں سنن ترمذی کی یہ حدیث بعض مفسرین نے ذکر کی ہے:  ((اتَّقُوا فِرَاسَةَ الْمُؤْمِنِ فَإِنَّهُ يَنْظُرُ بِنُورِ اللَّهِ))
(مومن کی فراست سے بچو کہ وہ اﷲ کے نور سے دیکھتا ہے)۔
             امام ترمذی نے اس حدیث کو غریب کہا ہے  اور شیخ البانی نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔ (ضعیف الجامع ح ١٢٧)
            اسی طرح ایک اور روایت ذکر کی جاتی ہے جو طبرانی میں ہے : ((إِنَّ لِلَّهِ عِبَادًا يَعْرِفُونَ النَّاسَ بِالتَّوَسُّمِ)). (اﷲکے کچھ ایسے بندے ہیں جو لوگوں کو توسم کے ذریعہ پہچان لیتے ہیں)۔
 امام ذہبی نے میزان الاعتدال میں اس خبر کو منکر قرار دیا ہے۔
            آیت کی تفسیر میں ذکر کی گئی دونوں احادیث پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتیں لہذا ان احادیث کے ذریعہ قرآن کی تفسیر کرنا درست نہیں۔ اب صرف صورت یہ باقی رہ جاتی ہے کہ مفسرین کرام نے اس آیت کی کیا تفسیر کی ہے اور عربی زبان میں اس کا کیا معنی ومفہوم بنتا ہے۔
            ترجمان القرآن عبداﷲ بن عباس t نے متوسمین کی تفسیر ناظرین (غور وفکر کرنے والوں) سے کی ہے۔اور یہی تفسیر امام ضحاک سے بھی مروی ہے۔البتہ امام قتادة نے متوسمین کی تفسیر معتبرین (عبرت حاصل کرنے والوں) سے کی ہے۔(ملاحظہ ہو تفسیر طبری)
            دراصل عبرت حاصل کرنے والے لوگ وہی ہوتے ہیں جو غور وفکر کرتے ہیں۔ اور اہل ایمان غور وفکر کرنے اور عبرت حاصل کرنے میں سب سے آگے ہوتے ہیں۔
            مذکورہ آیت کی تفسیر میں امام مجاہد رحمہ اﷲ نے متوسمین کا معنی متفرسین (فراست والے) بیان کیا ہے۔ (تفسیر طبری)
            فراست اور توسم لغوی اعتبار سے مترادف اور ہم معنی ہیں۔دونوں کا لغوی معنی سوجھ بوجھ ، غور وفکر اور نظر وتحقیق ہوتا ہے۔  (ملاحظہ ہو عام کتب لغت مثلاً لسان العرب، القاموس المحیط، الصحاح وغیرہ)



فراست کی اقسام:
            بعض علمائے کرام نے فراست کی دوقسمیں اور بعض نے تین قسمیں بیان کی ہیں۔چونکہ تین قسموں کے بیان میں وضاحت زیادہ ہے  اس لئے ہم اسے ہی اختیار کرتے ہیں۔
١۔ ایمانی فراست:
            اﷲ کی جانب سے بندہ کے دل میں نور کی نوازش سے یہ فراست نصیب ہوتی ہے۔ جس کا ایمان جس قدر زیادہ، قوی اور پختہ ہوگا اسی مقدار میں اس کی فراست تیز ہوگی۔ایمانی فراست کے لئے دلیل وہ احادیث نہیں جو ضعیف اور غیر ثابت ہیں اور جن کا ذکر اوپر ہوچکا ہے کیونکہ ضعیف اور غیرثابت احادیث کو دلیل نہیں بنایا جاسکتا بلکہ اس کے لئے قرآن مجید کی وہ آیت دلیل ہے جس میں اﷲ تعالی کا ارشاد ہے:
ﯸ   ﯹﯺ  ﯻ  ﯼ البقرة: ٢٨٢
[اﷲ سے ڈرو ، اﷲ تم کو تعلیم دے گا]۔
٢۔ مشقی فراست: 
            بھوک، بیداری اور تنہائی کے ذریعہ یہ فراست حاصل ہوتی ہے کیونکہ نفس انسانی جس قدر اپنے تعلقات سے دوری اختیاری کرتا ہے اسی قدر اسے فراست حاصل ہوتی ہے۔ یہ فراست مومن وکافر کے درمیان مشترک ہے۔نہ اسے ایمان کی دلیل بنایا جاسکتا ہے نہ ہی ولایت کی، نہ اس سے صراط مستقیم کی رہنمائی ملتی ہے اور نہ منفعت بخش حق کی، بلکہ یہ فراست اسی انداز کی ہے جس طرح بعض فیصلہ کرنے والے حاکم اور خوابوں کی تعبیر بتلانے والے عالم اور دوادینے والے حکیم بعض معاملات کا اندازہ لگا لیا کرتے ہیں۔
٣۔ خَلقی فراست: 
            یہ وہ فراست ہے جس سے متعلق ڈاکٹروں اور حکیموں نے کتابیں تصنیف کی ہیں اور کسی کے جسمانی اوصاف سے اس کے روحانی اخلاق پر استدلال کیا ہے کیونکہ دونوں کے درمیان یک گونہ تعلق ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی شخص کا سر غیرمعمولی طور پر چھوٹا ہو تو اسے عقل کی کمی پر دلیل بناتے ہیں اور اگر غیرمعمولی بڑا ہو تو عقل کی زیادتی پر، وغیرہ۔  
(ملاحظہ ہو شرح عقیدہ طحاویہ/٧٥٣)
فراست سے متعلق دو واقعات:
            پہلا واقعہ:
            امام شافعی اور امام محمد بن حسن صحن کعبہ میں بیٹھے تھے کہ مسجد کے دروازے سے ایک شخص داخل ہوا۔ ایک نے کہا: مجھے یہ شخص بڑھئی معلوم ہوتا ہے۔  دوسرے نے کہا: مجھے یہ شخص لوہار معلوم ہوتا ہے۔ حاضرین میں سے ایک شخص آگے بڑھ کر گیا اور اس سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ میں پہلے بڑھئی کا کام کرتا تھا اور اب لوہاری کا کام کرتا ہوں۔
            اس واقعہ کو صوفیاء کشف وکرامت تصور کرتے ہیں حالانکہ یہ استدلال بالعلامت ہے۔ البتہ کوئی علامت ایسی ہوتی ہے جسے ہرشخص جان لیتا ہے اور کوئی علامت ایسی ہوتی ہے جسے کچھ ہی لوگ جان سکتے ہیں۔
            دوسرا واقعہ:
            امام بیہقی نے امام شافعی کا ایک واقعہ ذکر کیا ہے کہ ایک بار جامع مسجد میں ایک شخص داخل ہوا۔ سونے والوں کے درمیان جاکر گھومنے لگا تو امام شافعی نے اپنے شاگرد ربیع سے کہا کہ اس شخص کا ایک غلام جو سیاہ فام تھا اور اس کی ایک آنکھ میں تکلیف تھی گم ہوگیا ہے۔ ربیع کہتے ہیں کہ میں نے اس سے جاکر کہا تو وہ بولا: جی ہاں! میں نے اس سے کہا کہ میرے ساتھ آؤ، چنانچہ وہ امام شافعی کے پاس آیا اور ان سے پوچھا کہ میرا غلام کہاں ہے؟ امام شافعی نے بتایا کہ جاؤ جیل میں تلاش کرو وہاں ملے گا۔چنانچہ وہ جیل گیا اور اپنا غلام پاگیا۔
            امام شافعی کے شاگرد مزنی کہتے ہیں کہ ہم نے امام شافعی سے عرض کیا کہ آپ نے ہمیں حیرت میں ڈال دیا ہے۔ آپ اس کی تفصیلات سے ہمیں آگاہ کیجئے۔ آخر بات کیا ہے؟ امام شافعی نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ ایک شخص مسجد کے دروازے سے داخل ہوکر سونے والوں میں چکر لگا رہا ہے، میں نے سوچا کہ کسی بھاگنے والے کو ڈھونڈرہاہوگا۔ پھر دیکھا کہ گوروں کو چھوڑ کر صرف کالوں ہی کے پاس جاتا ہے  میں نے کہا کہ اس کا غلام سیاہ فام ہوگا۔ پھر دیکھا کہ وہ لوگوں کی بائیں آنکھ کو بڑے غور سے دیکھتا ہے تو سوچا کہ اس کے بائیں آنکھ میں کوئی تکلیف ہوگی۔
            مزنی کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا : لیکن یہ کیسے پتہ چلا کہ وہ جیل میں ہے تو آپ نے فرمایا کہ غلاموں کے بارے میں ایک حدیث ہے کہ جب بھوکے ہوتے ہیں تو چوری کرتے ہیں اور جب آسودہ ہوتے ہیں تو زنا کرتے ہیں۔ میں نے سوچا کہ کسی ایک جرم کا مرتکب ہوکر جیل گیا ہوگا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
            یہ واقعہ تحفۃ الاحوذی میں مذکور ہے۔ یہ واقعہ کرامت نہیں بلکہ ذکاوت وذہانت کا واقعہ ہے۔





فہرست مضامین
المحتويات
صفحہ
موضوعات
مقدمة
3
مقدمہ
تعريف الکرامة
8
کرامت کیا ہے؟
أنواع الکرامة
8
کرامت کی قسمیں
أهمية الکرامة
9
کرامت کی اہمیت
أسباب الکرامة
10
کرامت کے اسباب
أنواع خرق العادة
11
خرق عادت کی قسمیں
الخوارق وأصحابها
14
خوارق اور اصحاب خوارق
الفرق بين الکرامة والمعجزة
15
کرامت اور معجزہ کا فرق
الفرق بين الکرامة والاستدراج
15
کرامت اور استدراج کا فرق
معنی الولي والأولياء
16
ولی اور اولیاء کا مفہوم
تعريف الأولياء
20
اولیاء کون ہیں؟
مراتب أولياء اﷲ
20
اولیاء اﷲ کے مراتب
منّة اﷲ علی أوليائه
22
اولیاء پر اﷲ کی نوازشات
أشکال أولياء اﷲ
25
اولیاء کی شکل وصورت
أصناف أولياء اﷲ
26
اولیاء کی صنف
ألقاب أولياء اﷲ
27
اولیاء کے القاب
الغلو فی الأولياء
28
اولیاء میں غلو
معيار الولاية
29
معیار ولایت
الکرامة ابتلاء
30
کرامت ایک آزمائش ہے
ليس کل نعمة کرامة
30
ہرنعمت کرامت نہیں
ادعاء الولاية
32
بعض صوفیاء کا دعوائے ولایت
کبر الصوفية
36
صوفیاء کا کبر وغرور
عقيدة أهل السنة فی الأولياء
40
اولیاء سے متعلق عقیدۂ اہل سنت
شروط الکرامة
40
کرامت کے شرائط وضوابط
الکرامات المذکورة فی القرآن
45
قرآن کریم میں مذکور کرامات
١۔ قصة مريم عليها السلام
45
١۔ مریم علیہا السلام کا واقعہ
٢۔ قصة أصحاب الکهف
46
٢۔ اصحاب کہف کا واقعہ
٣۔قصة في عهد سليمان u
47
٣۔ سلیمان     کے زمانہ کا واقعہ
الکرامات المذکورة فی الحديث
48
احادیث میں مذکور کرامات
١۔ قصة أصحاب الغار
48
١۔ تین غار والوں کا واقعہ
٢۔ قصة مزارع صالح
51
٢۔ ایک صالح کسان کا واقعہ
٣۔ قصة جريج الراهب
53
٣۔ جریج راہب کا واقعہ
٤۔ قصة سارة عليها السلام
55
٤۔ سارہ علیہا السلام کا واقعہ
٥۔ قصة رجل أمين
57
٥۔ ایک امانت دار شخص کا واقعہ
٦۔ قصة أصحاب الأخدود
60
٦۔ اصحاب أخدود کا واقعہ
کرامات الصحابة
66
کرامات صحابہ
کرامات التابعين
76
کرامات تابعین
الرد علی منکری الکرامة
78
منکرین کرامت کی تردید
الغلو فی إثبات الکرامة
80
اثبات کرامت میں غلو
هل يحصل علم الغيب بالکرامة؟
84
کیا غیب دانی بھی کرامت ہے؟
آثار الغلو فی الکرامة
84
کرامت میں غلو کا نتیجہ
قصة طريفة
85
ایک دلچسپ حکایت
مناظرة مفيدة
86
ایک دلچسپ مناظرہ
الفراسة والتوسم
97
فراست وتوسم
أقسام الفراسة
100
فراست اور اس کی اقسام
قصتان للفراسة
102
فراست سے متعلق دو واقعات