الثلاثاء، 4 يونيو 2013

ابلیس وشیاطین سے متعلق چند حقائق


  حقائق عن إبليس والشياطين


ابلیس وشیاطین
سے متعلق چند حقائق


اعداد
عبد الہادی عبد الخالق مدنی
کاشانۂخلیق ۔اٹوابازار۔ سدھارتھ نگر۔ یوپی۔ انڈیا
داعی احساء اسلامک سینٹر ۔ سعودی عرب
(موبائیل:  0509067342 (00966


O





فہرست مضامین
المحتويات
صفحہ
موضوعات
مقدمة
5
مقدمہ
تعريف إبليس والجن والشياطين
8
ابلیس، جنات اور شیطان کا تعارف
الفرق بين إبليس والجن والشياطين
12
ابلیس، جنات اور شیطان کا فرق
ميلاد إبليس
13
ابلیس کی تاریخ پیدائش
مم خلق إبليس؟
14
ابلیس کا مادۂ تخلیق
هل كان إبليس من الملائكة؟
16
کیا ابلیس کبھی فرشتہ تھا؟
حقيقة السجدة التي أباها إبليس
20
ابلیس کے انکار کردہ سجدہ کی حقیقت
آدم كان مسجودا أم كان قبلة للسجود؟
22
آدم u خود مسجود تھے یا وہ فقط قبلہ تھے؟
سجد الملائكة كلهم أجمعون
24
تمام فرشتوں نے آدم uکو سجدہ  کیا
إنكار إبليس السجود
أسباب وأعذار- دراسة تحليلية
25
سجدہ سے ابلیس کا انکار
اسباب واعذار- ایک جائزہ
لماذا أخطأ عقل إبليس؟
30
ابلیس کی عقل نے کیوں ٹھوکر کھائی؟
مقارنة بين النار والطين
31
آگ اور مٹی کا موازنہ
ما نوع كفر إبليس؟
36
کفر ابلیس کی نوعیت
عقوبة إبليس
38
ابلیس کی سزا
الحوار مع إبليس
39
ابلیس کو صفائی کا موقعہ
قبول طلب إبليس
40
اور ابلیس کا مطالبہ منظور ہوگیا
فتنة إبليس
40
ابلیس کی فتنہ سامانی
إرادة الشيطان بالإنسان
43
انسان سے متعلق شیطان کے ارادے
تعاليم الشيطان
45
شیطان کی تعلیمات
سبل الوقاية من الشيطان
47
شیطان سے تحفظ کے وسائل
كيف يعذب إبليس بالنار؟
51
ابلیس کو آگ کا عذاب کیسے؟
الحكمة في وجود إبليس
56
ابلیس کے وجود کی حکمتیں
دروس وعبر من قصة إبليس
1-  أثر مخالفة حكم الله عز وجل
2-  عداوة إبليس وذريته لابن آدم
3-  عاقبة الكبر والحسد
4-  الثبات على اتباع الحق
5-  وجوب التوبة والاستغفار بعد المعصية دون الاصرار
6-  الفرق بين طريقة الإنسان والشيطان في الاحتجاج بالقدر
7-  احتقار نوع البشر فلسفة شيطانية
61
61
63
65
66
68

69
71
قصۂ ابلیس سے درس وعبرت
۱۔ حکم الہی کی مخالفت کا نتیجہ
۲۔ اولاد آدم سے اولاد ابلیس کی دشمنی
۳۔ کبر وحسد کا انجام
۴۔ اتباع حق پر ثابت قدمی
۵۔ گناہ ہوجانے پر توبہ واستغفار کا لزوم،
 نہ کہ اصرار
۶۔ تقدیر کو حجت بنانے کا انسانی اور شیطانی طریقہ
۷۔ بشر کو حقیر سمجھنا ایک شیطانی فلسفہ
مقدمہ
الحمد لله, والصلاة والسلام على رسول الله, أما بعد:
                ابلیس وشیاطین کا تعلق غیب کی دنیا سے ہے، یہ ایک نظر نہ آنے والی مخلوق ہے۔ ایک مسلمان کے ایمان بالغیب کا تقاضا یہ ہے کہ اس مخلوق کے بارے میں جو کچھ قرآن وحدیث میں ثابت ہے اس پر بلا کسی کمی بیشی کے ایمان لائے۔ ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ اس تعلق سے ہر غیرثابت شدہ امر سے احتراز کرے  خواہ وہ اسرائیلی روایات یا ضعیف وموضوع احادیث کی شکل میں ہوں یا فلسفیانہ دماغی ورزشوں، تجربات، خواب وخیالات اور قصے وحکایات کی شکل میں۔
                زیر نظر کتاب قرآن مجید اور صحیح احادیث کی روشنی میں اس غیبی مخلوق ابلیس وشیاطین سے متعلق بہت سے سوالات کا تشفی بخش جواب دیتی ہے۔ یہ کتاب ابلیس، جنات اور شیطان کا تعارف کروانے کے ساتھ ساتھ ان کے فرق کو واضح کرتی ہے۔ ابلیس کی تاریخ پیدائش اور اس کے مادۂ تخلیق سے بحث کرتی ہے۔ یہ کتاب ان سوالات کا بھی جواب دیتی ہے کہ کیا ابلیس کبھی فرشتہ تھا؟ وہ کونسا سجدہ تھا جس کا ابلیس نے انکار کیا؟ کیا آدم علیہ السلام خود مسجود تھے یا وہ فقط قبلہ تھے اور درحقیقت مسجود اللہ تھا؟ کیا کچھ فرشتے ایسے بھی تھے جو سجدہ کے حکم سے مستثنیٰ تھے؟ سجدہ سے ابلیس نے انکار کیوں کیا؟ کیا اس کا پیش کیا ہوا عذر قابل قبول تھا؟ کیا واقعی آگ مٹی سے بہتر ہے یا حقیقت اس کے برعکس ہے؟ ابلیس کی عقل نے کیوں ٹھوکر کھائی؟ابلیس اللہ کے سامنے کھڑا تھا، اللہ سے گفتگو کررہا تھا ، پھر کافر کیسے ہوگیا؟ ابلیس کے کفر کی نوعیت کیا ہے؟ ابلیس کو اپنی سرکشی کی کیا سزا ملی؟ کیا سزا سے پہلے اسے اپنی بات کہنے کا موقعہ دیا گیا؟ کیا اس موقعہ کا شیطان نے فائدہ اٹھایا؟ وہ کونسا مطالبہ تھا جو شیطان نے اس موقعہ پر کیا؟ اور کیا اس کا مطالبہ تسلیم کرلیاگیا؟ ابلیس کو قیامت تک کے لئے طویل عمر کیسے حاصل ہوگئی؟ اس عمر طویل کا مقصد اور مصرف کیا ہے؟ انسانوں سے متعلق ابلیس کے ارادے کیا ہیں؟ ان ارادوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اس کا طریقۂ کار کیا ہے؟ اس کا تخت شاہی کہاں ہے؟ اس کی تعلیمات کیا ہیں؟  مرنے کے بعد ابلیس کا کیا انجام ہوگا؟ ابلیس کو آگ کا عذاب کیسے دیا جائے گا جبکہ وہ خود آگ سے بنا ہے؟ ابلیس کے وجود کی حکمت کیا ہے؟ قرآن مجید میں قصۂ ابلیس کیوں بار بار دہرایا گیا ہے؟ ہم ابلیس اور اس کی اولاد کے شر سے کیسے محفوظ رہ سکتے ہیں؟ یہ وہ اہم اور متعدد سوالات ہیں جن کا درست جواب اس کتاب میں دیا گیا ہے۔
                اللہ تعالی سے دعا ہے کہ رب کریم اپنے فضل عمیم سے اس کتاب کو اپنے بندوں کے لئے مفید بنائے، ہماری کوتاہیوں اور لغزشوں کو معاف فرمائے، ابلیس وشیاطین کے ناپاک حملوں سے ہماری حفاظت فرمائے، نیز اس کتاب کے مؤلف وناشر اور منظرعام تک لانے میں معاون تمام افراد کو جزائے خیر سے نوازے۔ آمین
دعاگو
عبدالہادی عبدالخالق مدنی
کاشانۂ خلیق ۔ اٹوابازار۔ سدھارتھ نگر ۔ یوپی۔انڈیا
داعیہ دفتر تعاون  برائے دعوت وارشاد وتوعیۃ الجالیات ،احساء
ص ب ۲۰۲۲  ہفوف۔ الاحساء ۳۱۹۸۲ مملکت سعودی عرب



ابلیس، جنّات اورشیطان کا تعارف
١۔ ابلیس:
            ابلیس وہ شخص ہے جسےہم جنّات کا باوا آدم کہہ سکتے ہیں، اسے اللہ تعالیٰ نے آگ سے پیدا کیا اورآدم علیہ السلام کی عزت افزا ئی کے لئے ان کو سجدہ کرنے کاحکم دیا۔ابلیس نے تکبر کرکے آدم علیہ السلام کا سجدہ کرنے سے انکار کردیا،اللہ نے اس پر لعنت کی،اسے دھتکاردیااورایک متعین مدت تک کے لئے اسے مہلت عطا فرمائی۔
لغوی اعتبار سے ابلیس کے معنی مایوس اور نا امید کے ہوتے ہیں۔ چونکہ ابلیس اللہ کی رحمت سے مایوس ہوچکاہے اور مردود قرار دے کر اللہ کی جناب سے دھتکاراجاچکاہے اسی لئے اس کا نام ابلیس پڑا۔
اسی معنی کودیکھتے ہوئے  بعض اہل علم نے کہا ہے کہ پہلے اس کانام ابلیس نہیں تھا مردود ہونے کے بعد ابلیس نام پڑا۔ لیکن ایسا ضروری نہیں, ممکن ہے مستقبل کی رعایت سے شروع سے ہی یہ نام رکھ دیاگیا ہو۔
 بعض روایات وآثارمیں ابلیس کے کچھ دیگر نام آئے ہیں لیکن وہ آثارثابت نہیں ہیں۔ حارث، عزازیل، اورنائل وغیرہ نام آئے ہیں۔ عزازیل توکافی مشہورہے، فارسی کاایک شعرہے۔
تکبرعزازیل را خوار کرد
بزندان لعنت گرفتار کرد
            حقیقت یہ ہے کہ ابلیس کاکوئی دوسرانام یادوسری کنیت کتاب وسنت سے ثابت نہیں ہے۔
٢۔ جنّات :
            ابلیس اوراس کی اولاد کا نام جنّ يا جنّات ہے۔ ان کاایک مستقل عالم ہے، انھیں جن اس لئے کہا جاتاہے کیونکہ وہ نگاہوں سے پو شیدہ ہیں۔انھیں اللہ تعا لی نے آگ سے پیدا کیاہے۔ وہ انسان کو ایسی حالت میں دیکھتے ہیں جس میں انسان ان کونہیں دیکھ سکتا۔ وہ شریعت کی پابندی میں انسان کے ساتھ شریک ہیں۔ البتہ ان کی شریعت ان کے مطابق اوران کے حسب حالت ہے۔
٣۔ شیطان :
            امام ابن کثیرفرماتے ہیں کہ شیطان عربی زبان میں شطن سے مشتق ہے جس کے معنی بعید ہونے کے ہیں۔کیونکہ شیطان کی طبیعت انسانوں کی طبیعت سے بہت بعید ہے, نیزاپنے فسق کی بنا پروہ ہرخیروبھلائی سے بعیدہے, اسی لئے اس کا نام شیطان ہوا۔ انسان وجنات بلکہ حیوانات اور جانوروں میں سے ہرشریر وسرکش کے لئے بھی شیطان کا لفظ بولاجاتا ہے۔ ابلیس کوبھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کیونکہ وہ حق سے بہت بعید اور سرکش ہے۔
اللہ تعا لی نے سورہ بقرہ میں ابلیس کے لئے شیطان کا لفظ استعمال فرمایاہے۔ ارشادہے: ﯨ  ﯩ  ﯪ  ﯫ  ﯬ  ﯭ    ﯮالبقرة: ٣٦ [لیکن شیطان نے ان کو بہکاکر وہاں سے نکلواہی دیا]۔
            ہرسرکش انسان وجنات پرشیطان کے لفظ کے اطلاق کی دلیل قرآن مجید کی وہ آیت کریمہ ہے جس میں اللہ تعا لی کاارشاد ہے: ﭩ  ﭪ  ﭫ  ﭬ  ﭭ   ﭮ  ﭯ  ﭰ  ﭱ  ﭲ  ﭳ  ﭴ  ﭵ    ﭶ  ﭷالانعام: ١١٢ [اوراسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن بہت سے شیطان پیداکئے تھے۔ کچھ آدمی اورکچھ جن۔ جن میں سے بعض بعضوں کو چکنی چپڑی باتوں سے وسوسہ ڈالتے رہتے تھے تاکہ ان کو دھوکہ میں ڈال دیں]۔
منافقین کے بارے میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: ﯛ  ﯜ   ﯝ  ﯞ  ﯟ  ﯠ  ﯡ  ﯢ  ﯣ  ﯤ  ﯥ  ﯦ   ﯧ  ﯨ   ﯩ  ﯪ  ﯫ  البقرة: ١٤ [جب ایمان والوں سے ملاقات کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اورجب اپنے شیطانوں کے پاس جاتے ہیں توکہتے ہیں کہ ہم تو تمھارے ساتھ ہیں ہم توان سے صرف مذاق کرتے ہیں]۔  (یہاں شیطانوں سے مراد سرداران قریش ویہود ہیں)۔
ایک باررسول اللہ e نے ابوذر t  کو مخاطب کرکے فرمایا: «اے ابوذر! انسانوں اور جناتوں کے شیطانوں سے اللہ کی پناہ مانگو۔ ابوذرt  نے عرض کیا: کیا انسانوں میں بھی شیطان ہوتے ہیں۔ آپ e نے فرمایا: ہاں»۔ (مسنداحمد والنسائی)
ابوہریرہ t سے روایت ہے کہ رسول اکرم e نے ایک آدمی کو ایک کبوتری کا پیچھا کرتے ہوئے دیکھ کرفرمایا: «ایک شیطان ایک شیطانہ کے پیچھے بھاگ رہا ہے»۔  (ابوداودوابن ماجہ بسندحسن)
ابوذرt سے روایت ہے کہ نبی e نے فرمایا: «کالاکتا شیطان ہے»۔ (مسلم)
کالاکتا کتوں کاشیطان ہے۔ نیزجنّات اکثروبیشترکالے کتوں کی صورت اختیار کیا کرتے ہیں۔
ابلیس،جنّات اورشیطان کافرق:
            جیسے آدم علیہ السلام انسان اول ہیں اورسارے آدمی ان کی اولادہیں ایسے ہی ابلیس جنات اول ہے اور سارے جن اس کی اولاد ہیں۔جن وشیطان میں ایمان و کفر کے لحاظ سے فرق ہے۔ مومن جنوں کو شیطان نہیں کہا جائے گا، صرف کافر جنو ں کو ہی شیطان کہا جائے گا۔صحابہ وتا بعین کے آثار اوراقوال مفسرین سے یہی بات معلوم ہوتی ہے۔             
ابلیس کی تاریخ پیدائش :
            اس میں شک نہیں کہ ابلیس کی ولادت آدم علیہ السلام سے پہلے ہوئی ہے۔ ارشاد باری ہے: ﮭ  ﮮ  ﮯ    ﮰ  ﮱ  ﯓ  ﯔ  ﯕ  ﯖ  ﯗ  ﯘ  ﯙ  ﯚ  ﯛ  ﯜ   ﯝ  ﯞ  الحجر: ٢٦ – ٢٧ [یقیناہم نے انسان کو کالی اور سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے پیدا فرمایا ہے اور اس سے پہلے جنات کو ہم نے لو وا لی آگ سے پیدا کیا]۔
            البتہ ابلیس کس دن اور کس وقت پیدا ہوا اورفرشتے اس سے پہلے پیدا ہوئے یا وہ فرشتوں سے پہلے پیدا ہوا؟ ان سب سوالات کے جوا بات سے کتاب وسنت خاموش ہیں۔بعض اسرائیلی روایات آئی ہیں لیکن ان پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔



ابلیس کا مادۂ تخلیق :
            ابلیس کا مادۂ تخلیق آگ ہے، اسی لئے ابلیس اور اس کی اولاد جنات کو ناری مخلوق بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے متعدد دلائل میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:
(١) اللہ تعا لی کا ارشاد ہے: ﯝ  ﯞ  ﯟ  ﯠ  ﯡ  ﯢ  ﯣ  ﯤ     ﯥ  ﯦ  ﯧ      ﯨ   ﯩ   ﯪ  ﯫ  ﯬ  ﯭ   ﭑ  ﭒ  ﭓ  ﭔ   ﭕ  ﭖ  ﭗﭘ  ﭙ  ﭚ  ﭛ  ﭜ  ﭝ  ﭞ  ﭟ   ﭠ  ﭡ  ﭢ  ﭣ  الاعراف: ١١ – ١٢ [اور ہم نے تم کو  پیدا کیا پھرہم نے ہی تمھاری صورت بنائی پھر ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ کرو سو سب نے سجدہ کیا بجز ابلیس کے۔وہ سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا۔ حق تعا لی نے فرمایا تو جو سجدہ نہیں کرتا تو تجھ کو اس سے کون امر مانع ہے۔ (تجھے سجدہ کر نے سے کس چیز نے روکا؟) جبکہ میں تجھ کو حکم دے چکا۔ کہنے لگا:میں اس سے بہتر ہوں۔آپ نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اوراس کو آپ نے خاک سے پیدا کیا ہے]۔
(٢) نیز ارشاد ہے: ﯗ  ﯘ  ﯙ  ﯚ  ﯛ  ﯜ   ﯝ ﯞ الحجر:٢٧ [اور اس سے پہلے ہم نے جنات کو آگ کے شعلوں سے پیدا کیا]۔
 (٣) رسول e کی حد یث ہے: «خُلِقَتْ الْمَلَائِكَةُ مِنْ نُورٍ وَخُلِقَ الْجَانُّ مِنْ مَارِجٍ مِنْ نَارٍ وَخُلِقَ آدَمُ مِمَّا وُصِفَ لَكُمْ»۔ (مسلم) «فرشتے نور سے پیدا کئے گئے، جنوں کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا گیا اور آدم علیہ السلام کو اس عنصر سے پیدا کیا گیا جو تمھیں بتایا جا چکا ہے»۔



کیا ابلیس کبھی فرشتہ تھا؟
            اہل علم کی ایک جماعت کہتی ہے کہ ابلیس پہلے فرشتہ تھا لیکن آدم علیہ السلام کو سجدہ کر نے سے انکار کرنے کی بنا پرشیطان بنا دیا گیا۔وہ مندرجہ ذیل آیت سے استدلال کرتے ہیں۔ اللہ تعا لی کا ارشاد ہے: ﮦ  ﮧ  ﮨ  ﮩ    ﮪ  ﮫ  ﮬ  ﮭ  ﮮ  ﮯ  ﮰ  ﮱ  ﯓ   ﯔ  البقرة: ٣٤ [اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا اس نے انکار کیا اور تکبر کیا اور وہ کافروں میں ہوگیا]۔
            وجہ استدلال یہ ہے کہ سجدہ کا حکم فرشتوں کو دیا گیا تھا اگر ابلیس فرشتہ نہ ہو تا تو سجدہ سے انکار کی بنا پر سزا کا مستحق نہ ہوتا۔ کیو نکہ سجدہ کاحکم تو صرف فرشتوں کو تھاجنو ں کو نہیں تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہزاروں فرشتوں کے بیچ میں رہتے ہوئے ان کے صفات اختیار کر کے ابلیس بھی انھیں جیسا ہو گیا تھااور وہ بھی سجدہ کے حکم میں داخل تھا  بلکہ اس کو سجدہ کا صریح حکم دیا گیا تھا جیسا کہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: ﭑ  ﭒ  ﭓ  ﭔ   ﭕ  ﭖ  ﭗ الاعراف: ١٢للہ تعالی نے فرمایا: تجھے سجدہ کرنے سے کس نے روکا جبکہ میں تجھ کو حکم دے چکاہوں؟]
            جمہوراہل علم کا خیال ہے کہ ابلیس جن تھا فرشتہ نہیں تھا اور یہی رائے راجح اور بر حق ہے اور اس کے متعدد دلائل  ہیں۔
(١)سورہ کہف میں اللہ تعا لی نے صاف صاف فرمایا ہے کہ ابلیس جنوں میں سے تھا۔ ارشاد ہے: ﮜ  ﮝ  ﮞ    ﮟ   ﮠ   ﮡ  ﮢ    ﮣ     ﮤ        ﮥ  ﮦ  ﮧ  ﮨ  ﮩ     ﮪالكهف: ٥٠  [اور جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا، یہ جنوں میں سے تھا، اس نے اپنے رب کی نافرمانی کی]۔
(٢) قرآن پاک میں یہ بات کہی گئی ہے کہ ابلیس آگ سے پیدا ہوا ہے اور حدیث میں اس بات کی وضاحت ہے کہ فرشتے نور سے پیدا کئے گئے ہیں اور جنات آگ سے پیدا ہوئے ہیں۔ جب ابلیس آگ کا بنا ہوا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ فرشتہ نہیں ہو سکتا بلکہ وہ ایک جن ہے۔
(٣) اللہ تعا لی نے فرشتوں کے بارے میں خبر دی ہے کہ وہ معصوم ہیں۔ اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے۔ وہی کچھ کرتے ہیں جس کا انھیں حکم دیا جاتا ہے۔ اگر ابلیس بھی فرشتہ ہو تا تو گناہ نہ کر سکتا۔ چو نکہ وہ جن تھا اسی لئے اس کے اندر سر کشی آئی اور اس نے حکم سے ر وگر دانی کی۔
(٤) فرشتوں کی نسل نہیں ہے۔ نہ ان میں عورتیں ہیں۔ارشادباری ہے: ﮯ  ﮰ   ﮱ  ﯓ  ﯔ  ﯕ  ﯖﯗ  ﯘ  ﯙﯚ  ﯛ   ﯜ  ﯝ  ﯞ  الزخرف: ١٩ [اور انھوں نے فرشتوں کو جو رحمن کے عبادت گزار ہیں عورتیں قراردے لیا۔کیا ان کی پیدائش کے موقع پر موجو د تھے؟ان کی یہ گواہی لکھ لی جا ئے گی اور ان سے اس چیز کی باز پرس کی جائے گی]۔
فرشتوں کے برعکس ابلیس کی ذریت اور نسل ہے۔ارشاد باری ہے: ﮬ  ﮭ  ﮮ  ﮯ  ﮰ  الكهف: ٥٠ [کیا پھر بھی تم اسے اور اس کی اولادکو مجھے چھوڑ کر اپنا دوست بنارہے ہو؟]
            امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں: "سب سے پہلے جس گناہ کے ذریعہ اللہ کی نافر ما نی کی گئی وہ جنوں کے دادا ابلیس اور انسانوں کے دادا آدم علیہ السلام سے ہوئی۔جنوں کے دادا ابلیس نے پہلے گناہ کیا اوربڑا گناہ کیا۔اس نے انکار اور تکبر کر کے ایک حکم ٹال دیا,آدم علیہ السلام کو سجدہ نہیں کیا۔جبکہ انسانوں کے دادا آدم علیہ السلام کا گناہ چھو ٹا گناہ تھاکیونکہ انھوں نے ایک روکی ہوئی چیز کا ارتکاب کر لیا یعنی روکے ہوئے درخت کا پھل کھا لیا"۔ (فتاوی۴/۲۴۸



ابلیس کے انکار کردہ سجدے کی حقیقت:
            کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ آدم علیہ السلام کے لئے فرشتوں کے سجدہ کا مفہوم یہ ہے کہ فرشتے ان کے لئے جھک گئے تھے، حقیقت میں سجدہ نہیں کیا تھا۔ لیکن یہ بات قطعی طور پر غلط ہے۔ کیونکہ عربی زبان اور اسلامی شریعت دونوں میں ہی سجدے کا مفہوم زمین پرسر ٹیکنا اور پیشانی لگانا ہے۔ رہی یہ بات کہ غیراللہ کو سجدہ کرنا شرک ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ سجدہ ایک شریعت، ایک قانون اور ایک دستور ہے۔اللہ تعا لی نے شریعت محمدیہ میں یہ حکم دیا ہے کہ صرف اﷲ کو سجدہ کیا جائے۔ لہذا صرف اسی کو سجدہ کیاجاتا ہے۔ اگراس نے حکم دیا ہو تا کہ ہم کسی مخلوق کو سجدہ کریں تو ہم اسے سجدہ کرتے اور یہ اللہ کی اطاعت وعبادت ہوتی۔ اور اگراللہ نے سجدہ فرض نہ کیا ہوتا تو سجدہ کرنا ہم پر ضروری ہی نہ ہوتا۔
لہٰذا معلوم ہوا کہ آدم علیہ السلام کو فرشتوں کا سجدہ کرنا اللہ کے حکم کی فرماں برداری اور اللہ کی عبادت تھی، اس کے ذریعہ اللہ تعا لی نے آدم علیہ السلام کو عزت بخشی۔ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے یوسف علیہ السلام کو جو سجدہ کیا تھا وہ سلامی کا سجدہ تھا اور سلامی کا سجدہ ہم سے پہلے کی شریعتوں میں جائز تھا۔
            شریعت محمدی میں غیراللہ کے لئے نہ سلامی کا سجدہ جائز ہے اور نہ تعظیمی سجدہ۔ سنن ابن ماجہ میں صحیح سند سے یہ روایت موجود ہے کہ :
            «معاذ بن جبل t نے نصرانیوں کو اپنے علماء اور عبادت گذاروں کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھاتو اپنے دل میں سوچا کہ اس تعظیم کے رسول اللہ e زیادہ حقدار ہیں۔جب مدینہ پہنچے تو عر ض کیا: اے اللہ کے رسول! نصرانی اپنے علماء اورعبادت گذاروں کا سجدہ کرتے ہیں۔میں نے اپنے دل میں خیال کیا کہ آپ اس تعظیم کے زیادہ مستحق ہیں تو نبیe نے ارشاد فرمایا: اگرمیں کسی کو کسی کا سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو بیوی کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے»۔



آدم u خود مسجود تھے یا وہ فقط قبلہ تھے؟:
            بعض لوگوں کا خیال ہے کہ فرشتوں نے آدم u کو نہیں بلکہ اللہ کو سجدہ کیا تھا۔آدم علیہ السلام صرف قبلہ کی طرح تھے۔جیسے کعبہ کی طرف منہ کر کے سجدہ کیا جاتا ہے اور سجدہ اللہ کے لئے ہوتا ہے۔
            درحقیقت یہ ایک احمقانہ بات ہے۔ ان لوگوں کا شبہ یہ ہے کہ غیراللہ کو سجدہ کرنا حرام بلکہ کفر ہے۔اس شبہ کا ایک جواب پہلے گذر چکا ہے مزید جوابات اس طرح ہیں :
(١)آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم خود اللہ نے دیا تھا۔اللہ تعالی نے یہ نہیں کہا تھا کہ آدم علیہ السلام کو قبلہ بنا کر مجھے سجدہ کرو۔(سجدلہ ) اور (سجدالیہ) کا فرق عر بی زبان کا ہر طالب علم جانتا ہے۔
(٢) اگرآدم علیہ السلام صرف قبلہ ہو تے تو ابلیس کو سجدہ سے انکار نہ ہوتا اور اسے یہ کہنے کی ہرگز ضرورت نہ تھی کہ میں ان سے بہترہوں کیو نکہ قبلہ کبھی پتھروں کا ہوتا ہے اورقبلہ کی طرف منہ کر کے سجدہ کر نے والوں کا درجہ قبلہ سے کم نہیں ہوتا۔ اہل ایمان کعبہ کی طرف منہ کر کے صلاة پڑھتے ہیں اور اہل ایمان کی حرمت اللہ کے یہاں کعبہ کی حرمت سے کہیں زیادہ ہے۔ کبھی آد می کسی لکڑی کا سترہ بنا کے اس کی طرف منہ کر کے صلاة پڑھتا ہے۔کبھی کسی دیوار یا کھمبے کی طرف منہ کرکے صلاة پڑھتا ہے تو اس سے ان چیزوں کی فضیلت ثابت نہیں ہوجاتی۔ اگرآدم u صرف قبلہ ہی ہو تے تو اس میں ان کی کیا فضیلت تھی اور اس سے شیطان کو بھاگنے کی کیا ضرورت تھی؟ 
(٣)اگر آدم u کو ایک سجدہ میں قبلہ بنانے سے یہ فضیلت حاصل ہوتی تو کعبہ اور بیت المقدس کو آدم u سے ہزاروں گناافضل ہو نا چاہئے کیونکہ تمام صلاتوں میں یہ دائمی قبلہ ہیں۔جبکہ آپ جانتے ہیں کہ اللہ نے اس سجدہ کو آپ کی عظمت کا نشان اور ایک بڑی نعمت قراردیا۔ اگرآدم u صرف قبلہ ہوتے تو اس واقعہ کی صرف اتنی حیثیت ہو تی کہ کسی وقت انھیں کعبہ کی حیثیت حاصل ہو گئی تھی۔ جبکہ آدم u کے علم وایمان کا ایک معمو لی حصہ بھی کعبہ سے بہت افضل ہے۔کعبہ تو خود ان کے اور ان کی اولاد کے لئے صرف ایک قبلہ بنا یا گیا ہے۔
تمام فرشتوں نے آدم uکو سجدہ کیا :
            کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ آدم علیہ السلام کو سارے فرشتوں نے سجدہ نہیں کیا تھا، لیکن یہ بات غلط ہے۔ قرآن پاک کا صاف صاف تاکیدی اعلان ہے۔ ﯶ  ﯷ  ﯸ   ﯹ  ﯺ  الحجر: ٣٠ [چنانچہ فرشتوں نے سب کے سب نے سجدہ کرلیا]۔
            مذکورہ آیت میں دہری تاکید کے ذریعہ یہ بات کہی گئی ہے تاکہ کسی کے استثناء کا کوئی شائبہ نہ رہ جائے۔



سجدہ سے ابلیس کا انکار
اسباب واعذار - ایک جائزہ
قرآن مجید کی متعدد آیات میں قصۂابلیس کا ذکر آیا ہے، ابلیس نے جب آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کا سبب دریافت کیا، ابلیس نے اس موقعہ پر اپنی کم عقلی وکج فہمی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی افضلیت کو سجدے سے انکار کا سبب بتایا، آیئے پہلے ہم ان چند آیات پر ایک نظر ڈالتے ہیں جن میں اس قصہ کا بیان ہوا ہے۔
١۔ اللہ تعالی نے فرمایا: ﯝ  ﯞ  ﯟ  ﯠ  ﯡ  ﯢ  ﯣ  ﯤ     ﯥ  ﯦ  ﯧ      ﯨ   ﯩ   ﯪ  ﯫ  ﯬ  ﯭ   ﭑ  ﭒ  ﭓ  ﭔ   ﭕ  ﭖ  ﭗﭘ  ﭙ  ﭚ  ﭛ  ﭜ  ﭝ  ﭞ  ﭟ   ﭠ  ﭡ  ﭢ  ﭣ الاعراف: ١١ – ١٢ [اور ہم نے تم کو پیدا کیا، پھر ہم نے ہی تمھاری صورت بنائی، پھر ہم نے فرشتوں سے کہاکہ آدم کو سجدہ کرو، سو سب نے سجدہ کیا بجز ابلیس کے، وہ سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا۔ حق تعالی نے فرمایا: تو جو سجدہ نہیں کرتا تو تجھ کو اس سے کون امر مانع ہے، جب کہ میں تجھ کو حکم دے چکا، کہنے لگا: میں اس سے بہتر ہوں، آپ نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو آپ نے خاک سے پیدا کیا ہے]۔
٢۔ اﷲ تعالی کا ارشاد ہے:  ﯟ  ﯠ  ﯡ  ﯢ  ﯣ  ﯤ  ﯥ  ﯦ    ﯧ  ﯨ  ﯩ  ﯪ  ﯫ  ﯬ  ﯭ  ﯮ  ﯯ  ﯰ   ﯱ  ﯲ  ﯳ  ﯴ  ﯵ  ﯶ  ﯷ  ﯸ   ﯹ  ﯺ  ﯻ  ﯼ       ﯽ  ﯾ  ﯿ  ﰀ  ﰁ  ﰂ   ﭑ  ﭒ  ﭓ  ﭔ  ﭕ  ﭖ  ﭗ  ﭘ  ﭙ  ﭚ  ﭛ  ﭜ     ﭝ  ﭞ        ﭟ  ﭠ  ﭡ  ﭢ   ﭣ  ﭤ  ﭥ  الحجر: ٢٨ – ٣٣ [اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں ایک انسان کو کالی اور سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے پیدا کرنے والا ہوں، تو جب میں اسے پورا بناچکوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے لئے سجدہ میں گرپڑنا۔ چنانچہ تمام فرشتوں نے سب کے سب نے سجدہ کرلیا سوائے ابلیس کے۔ اس نے سجدہ کرنے والوں میں شامل ہونے سے انکار کردیا۔ اللہ تعالی نے فرمایا: اے ابلیس! تجھے کیا ہوا کہ تو سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا؟ وہ بولا کہ میں ایسا نہیں کہ اس انسان کو سجدہ کروں جسے تونے کالی اور سڑی ہوئی کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا ہے]۔
٣۔ اﷲ تعالی کا ارشاد ہے: ﮅ  ﮆ  ﮇ  ﮈ  ﮉ  ﮊ  ﮋ    ﮌ       ﮍ  ﮎ  ﮏ     ﮐ  ﮑ  ﮒ  ﮓ  ﮔ  ﮕ  ﮖ    ﮗ  ﮘ  ﮙ  ﮚ  ﮛ   ﮜ  ﮝ  ﮞ   ﮟ  ﮠ     ﮡ  ﮢ  الاسراء: ٦١ – ٦٢ [جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ  کیا، اس نے کہا کہ کیا میں اسے سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔ اچھا دیکھ لے اسے تو نے مجھ پر بزرگی تو دی ہے لیکن اگر مجھے بھی قیامت تک تو نے ڈھیل دی تو میں اس کی اولاد کو بجز بہت تھوڑے لوگوں کے اپنے بس میں کرلوں گا]۔
۴۔ اﷲ تعالی کا ارشاد ہے:  ﮛ  ﮜ  ﮝ   ﮞ  ﮟ   ﮠ  ﮡ  ﮢ  ﮣ  ﮤ  ﮥ  ﮦ  ﮧ  ﮨ    ﮩ  ﮪ  ﮫ  ﮬ  ﮭ  ﮮ  ﮯ  ﮰ  ﮱ   ﯓ  ﯔ  ﯕ  ﯖ      ﯗ    ﯘ  ﯙ  ﯚ  ﯛ  ﯜ   ﯝ  ﯞ  ﯟ  ﯠ  ﯡ  ﯢ  ﯣ  ﯤﯥ  ﯦ  ﯧ  ﯨ     ﯩ  ﯪ  ﯫ  ﯬ  ﯭ   ﯮ  ﯯﯰ  ﯱ  ﯲ  ﯳ    ﯴ  ﯵ  ﯶ   ﯷ  ص: ٧١ – ٧٦ [جب آپ کے رب نے فرشتوں سے ارشاد فرمایا کہ میں مٹی سے انسان کو پیدا کرنے والا ہوں۔ سو جب میں اسے ٹھیک ٹھاک کرلوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے سامنے سجدہ میں گر پڑنا۔ چنانچہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے (نہ کیا) اس نے تکبر کیا اور وہ تھا کافروں میں سے۔ (اﷲتعالی نے) فرمایا: اے ابلیس! تجھے اسے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا۔ کیا تو کچھ گھمنڈ میں آگیا ہے؟ یا تو بڑے درجے والوں میں سے ہے؟ اس نے جواب دیا کہ میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اسے مٹی سے بنایا ہے]۔
            خلاصہ یہ ہے کہ ابلیس نے سجدہ نہ کرنے کا یہ عذرپیش کیا کہ وہ آدم علیہ السلام سے افضل ہے اور ایک افضل کو اس سے کمتر کا سجدہ کرنے کا حکم نہیں دیا جاناچاہئے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ عذر گناہ بدتر از گناہ تھا۔ابلیس نے صرف یہ دیکھا کہ وہ آگ سے بنا ہے اور آدم علیہ السلام مٹی سے۔اس نے یہ نہیں دیکھا کہ آدم علیہ السلام کو اللہ نے کتنی عزت بخشی ہے۔ انھیں اپنے ہا تھوں سے بنا یا اور ان میں اپنی روح پھونکی ہے۔ابلیس نے کبر وغرور، فخر وعناد اور حسد سے کام لیا، اور وہ اس برے انجام تک اپنے فاسدقیاس سے پہنچا۔ اس نے اپنے اور آدم علیہ السلام کے اصل عنصر پر نظر کی اور یہ فیصلہ کرلیا کہ آگ مٹی سے بہترہے۔حالانکہ اس کا یہ قیاس فاسد , اس کی یہ رائے باطل اور اس کی یہ سوچ غلط تھی ؛ کیو نکہ:
 (١)یہ قیاس اللہ کے حکم کے مقابلہ میں تھا۔جب اللہ کا صریح حکم موجود ہو اس وقت قیاس کرنا اور اللہ کے حکم کے آگے اپنی عقل دوڑانا انتہائی حماقت اور نادانی کی بات ہے۔اور یہ عمل کسی اللہ والے کا شیوہ نہیں ہوسکتا۔



ابلیس کی عقل نے کیوں ٹھوکر کھائی؟
            یہاں  یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ اگر مخلوق کی عقل خالق کے حکم کے خلاف سوچتی ہے تو یقینی طور پر ٹھوکر کھاتی ہےجیسے کہ شیطان کی عقل نے اس کا ساتھ نہیں دیا، جس طرح درست طور پر دیکھنے کے لئے آنکھ کو اللہ کی پیدا کی ہوئی روشنی سورج یا چاند یا کسی اور روشنی کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح درست طور پر سوچنے کے لئے عقل کو بھی وحی کی روشنی کی ضرورت ہوتی ہے۔ بصارت کے لئے بیرونی روشنی درکار ہے اور بصیرت کے لئے وحی کا نور مطلوب ہے۔
(٢)ابلیس کا یہ دعوی کہ وہ آدم علیہ السلام سے بہتر ہے خود ابلیس کے ذلیل وپست ہو نے کی دلیل ہے۔ کیونکہ اپنے آپ کو بڑا سمجھنا اور اپنے منہ میاں مٹھوبننا پست وحقیر ہونے کی دلیل ہے۔
(٣)ابلیس کا یہ دعوی بھی غلط تھا کہ آگ مٹی سے افضل ہے۔حقیقت یہ ہے کہ مٹی آگ سے کئی اعتبارسے افضل ہے۔
آگ اور مٹی کا موازنہ:
١۔ مٹی کی شان، حلم،ثبات، وقار اور سنجید گی ہے۔آدم علیہ السلام کے عنصر مٹی نے ان کو نفع دیا۔آپ نے گناہ کے بعد تو بہ کیا اور جنت سے نکلنے کے بعد دوبارہ جنت کے مستحق ہو ئے۔آگ کی شان طیش واضطراب، سوزش واشتعال، بھڑک اور جلانا ہے۔ ابلیس کے عنصر آگ نے اسے نقصان پہنچا یا چنانچہ اس نے گناہ کے بعد توبہ نہ کی اور ہمیشہ کے لئے مردود ٹھہرا۔مٹی کی طبیعت میں سکون اور ٹھہراؤہے جبکہ آگ کی طبیعت میں حرکت اور اشتعال ہے۔
٢۔ آگ کا مزاج فساداور تباہی وہلاکت ہے جبکہ مٹی کا مزاج ایسا نہیں۔
٣۔ مٹی میں اور مٹی سے انسانوں اور حیوانوں کی خوراک وپوشاک کا انتظام ہوتا ہے۔ان کے مکانات اور ضرورت کے سامان اسی سے تیار ہوتے ہیں جبکہ آگ سے ایسا کچھ نہیں ہوتا۔
٤۔ مٹی انسان وحیوان کے لئے ضروری ہے، کوئی اس سے بے نیاز نہیں ہوسکتا۔ جبکہ آگ کی ضرورت حیوانات کو تو بالکل نہیں اور انسان بھی کئی مہینوں اور کئی دنوں تک اس سے بے نیاز رہ سکتا ہے۔کہاں آگ سے کبھی کبھی نفع اٹھانا اور کہاں مٹی سے ہمیشہ نفع اٹھا نا کیادونوں برابرہوسکتا ہے؟؟۔
٥۔ مٹی میں کوئی دانہ ڈالا جائے تو مٹی کی بر کت یہ ہے کہ وہ دانہ کئی گنا ہو کر واپس ملتا ہے۔ جبکہ آگ میں جتنے دانے ڈالے جائیں آگ سب کو کھالیتی ہے۔ بڑھا نا تو دور کی بات ہے خوداس میں سے کچھ باقی نہیں چھوڑتی۔
٦۔ مٹی از خود قائم ہے۔ وہ اپنے قیام کے لئے کسی دو سری چیز کی محتاج نہیں۔ جبکہ آگ کو قائم رہنے کے لئے کو ئی جگہ چا ہئے۔
٧۔ آگ مٹی کی  محتاج ہے اور مٹی آگ کی محتاج نہیں کیونکہ آگ جس جگہ رکھی جا ئے گی وہ یا تو مٹی ہو گی یا مٹی سے بنی ہوئی کوئی چیز ہو گی۔
٨۔ مٹی میں خیر وبرکت پوشیدہ ہے جتنا اسے الٹ پلٹ کریں گے اور اس کی کھدائی کریں گی اس کی خیر وبرکت ظا ہر ہو گی۔اس کے بر خلاف آگ میں اگرچہ تھو ڑاسا نفع ہے لیکن اس میں شر ومصیبت پوشیدہ ہے۔ جب تک اسے باندھ کے اور بند کر کے رکھیں گے اس سے مستفیدہو تے رہیں گے اور جو نہی آگ آزاد ہو ئی اور اس پر سے رکاوٹ ختم ہو ئی تو تباہی وبربادی یقینی ہوجائے گی۔
٩۔ اللہ تعا لی نے قرآن پاک میں زمین کا بکثرت ذکر کیا ہے اور اس کی نفع رسانیوں کی وضاحت کی ہے جبکہ آگ کاذکر سزا اور عذاب کے طور پر آیا ہے سوائے ایک دو جگہوں کے کہ جہاں پر مسافرکے لئے اسے مفید بتا یا گیا ہے۔
 ١٠۔ قرآن مجید کے اندر زمین کے بہت سے مقامات کو بابر کت قرار دیا گیا ہے لیکن آگ کو کہیں بھی با برکت نہیں قرار دیا گیا ہے بلکہ آگ تو برکت مٹانے والی ہے۔
١١۔ اللہ تعالی نے زمین میں بہت سے منا فع رکھے ہیں۔نہریں، چشمے، باغات، وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ ایسی کو ئی چیز آگ میں نہیں۔
١٢۔ ابلیس کا مادہ آگ کا شعلہ ہے اور وہ کمزور ہے۔ خواہشات اسے جہاں چاہتے ہیں پھیرتے رہتے ہیں۔اسی لئے اپنے خواہشات کا غلام بن کر ابلیس نے نافرمانی کی۔جبکہ آدمی کا مادہ مٹی ہے اور مٹی ایک طاقتور چیز ہے۔ خواہشات اس پر قابو نہیں پاسکتے۔تھوڑی دیر کے لئے اگر خواہش غالب بھی آجائے تو پھر جلدہی زائل ہو جاتی ہے۔
١٣۔زمین ہی میں اللہ کے گھر پائے جا تے ہیں۔کعبہ اور مسجدیں پائی جاتی ہیں۔ اور آگ میں ایسا کچھ نہیں۔
١٤۔ آگ کا مقصدیہ ہے کہ وہ زمین میں پیداہونے والی چیزوں کی خادم رہے۔ جب آگ کی خدمت کی ضرورت ہو تی ہے تو اسے کسی خادم کی طرح بلایا جاتا ہے اور ضرورت پوری ہو نے پر اسے بجھادیا جاتا ہے۔
١٥۔ ابلیس نے اپنی بے عقلی کی بنا پر یہ دیکھا کہ آدم u کو گیلی مٹی سے بنا یا گیا ہے اس لئے ان کو حقیر خیال کیا۔ کاش اس بیوقوف کو معلوم ہوتا کہ گیلی مٹی دوچیزوں سے مر کب ہے ایک تو پانی جس سے اللہ نے ہر زندہ چیز کو بنا یا ہے اور دو سری چیز مٹی جو نعمتوں کا خزینہ اور منا فع کا گنجینہ ہے۔
١٦۔ مٹی آگ پر غالب آتی ہے اور اسے بجھادیتی ہے لیکن آگ مٹی پر غالب نہیں ہے۔
١٧۔ اللہ نے زمین کو سجدہ گاہ اور پاکی حاصل کر نے کا ذریعہ بنا یا ہے اور آگ کو ایسی کوئی فضیلت نہیں۔
١٨۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ آگ مٹی سے بہتر ہے تو اصل کے افضل ہونے سے فرع کا افضل ہو نا لازم نہیں آتا۔ایسابھی ہو تا ہے کہ باپ دادا بہت شریف اور با عزت ہو تے ہیں لیکن ان کی اولاد نہایت ذلیل اور بدتر ہوتی ہے۔
١٩۔ آدم u اگرچہ مٹی سے بنائے گئے تھے لیکن اللہ نے ان میں اپنی روح پھونک کر انھیں عزت بخشی۔ابلیس کو یہ فضیلت تو ہرگز حاصل نہیں تھی۔
٢٠۔ آدم u کو اللہ تعا لی نے اپنے دست مبارک سے بنا یا تھا۔
٢١۔ اگر بفرض محال مان لیا جائے کہ ابلیس ہی افضل تھاتو کہا جائے گا کہ افضل کا اپنے سے کمتر کی تعظیم وتکریم کر نا کو ئی تعجب اور انکار کی بات نہیں۔



کفر ابلیس کی نوعیت:
            ابلیس اللہ کے سامنے کھڑا تھا، اللہ سے گفتگو کررہا تھا، اللہ کو اپنا رب تسلیم کررہا تھا، مردود قرار دیئے جانے کے بعد اللہ تعالی سے مہلت بھی طلب کی اور مہلت پا بھی گیا، ان سب کے باوجود وہ کافر کیسے ہوگیا؟ اس کے کفر کی نوعیت کیا ہے؟ ان سب باتوں کو سمجھنے کے لئے کفر اکبر کی قسموں کا جاننا ضروری ہے، یاد رہے کہ کفر اکبر کی چار قسمیں ہیں:
(١)کفر تکذیب: کفر تکذیب یہ ہے کہ دل سے رسولوں کے جھوٹا ہونے کا عقیدہ رکھا جائے اور زبان سے بھی انھیں جھٹلایا جائے۔ چنانچہ ماضی کی بعض امتوں کے بارے میں اللہ تعا لی نے فرمایا: ﮋ  ﮌ   ﮍ  ﮎ  ﮏ  ﮐ  ﮑﮒ  ﮓ  ﮔ     ﮕ  غافر: ٧٠ [جن لوگوں نے کتاب کو جھٹلایا اور اسے بھی جو ہم نے اپنے رسولوں کے ساتھ بھیجا انھیں ابھی ابھی حقیقت حال معلوم ہوجائے گی]۔
(٢)کفر جحود: کفر جحود یہ ہے کہ دل میں حق کا اعتراف ویقین ہونے کے باوجود حق کو چھپا نا اور اس کے آگے سر تسلیم خم نہ کرنا، نہ زبانی شہادت دینا اور نہ عملی طور پر اتباع واطاعت کرنا جیسے فرعون اور اس کی قوم کا موسی u کا انکار اور یہودیوں کا ہمارے نبی محمدe کا انکار۔ارشاد باری ہے : ﭑ  ﭒ  ﭓ  ﭔ  ﭕ  ﭖ النمل: ١٤  [انھوں نے انکار کردیا حالانکہ ان کے دل یقین کرچکے تھے صرف ظلم اور تکبر کی بنا پر]۔
(٣)کفر عناد وتکبر: کفر عناد وتکبر یہ ہے کہ دل وزبان دونوں سے حق کا اقرار کرنا، نہ ہی اسے جھٹلانا اور نہ ہی اس کا انکار کرنا لیکن عناد وتکبر کی بناپر اطاعت سے باز رہنا اور سرکشی کرناجیسے کفر ابلیس۔ ارشاد باری ہے: ﮫ  ﮬ  ﮭ  ﮮ  ﮯ  ﮰ  ﮱ  ﯓ   ﯔ  البقرة:٣٤  [تو ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا۔ اس نے انکار کیااور تکبر کیا اور وہ کافروں میں ہوگیا]۔
(٤)کفر نفاق: کفر نفاق یہ ہے کہ لوگوں کے دکھا وے کی خاطر بظاہراطاعت وفرماں برداری اختیار کرلینا اور دل کا پوری طرح ایمان وتصدیق سے خالی ہونا جیسے منافقین: عبداللہ بن ابی بن سلول اور اس کا گروہ۔
ابلیس  کی  سزا
            ابلیس کو اس کے عناد وتکبر اور سرکشی کی بنا پر آسمان کی بلندیوں سے زمین کی پستیوں میں اتار دیاگیا، اس پر ذلت وخواری مسلط کردی گئی، اس پر تاقیامت لعنت برستی رہے گی، صرف وہی نہیں بلکہ جو بھی اس کی پیروی کریں گے سب اس کے ساتھ جہنم کی خوراک بنیں گے۔
اللہ کا ارشاد ہے: ﭤ  ﭥ  ﭦ  ﭧ  ﭨ  ﭩ  ﭪ  ﭫ    ﭬ  ﭭ  ﭮ  ﭯ  ﭰ  ﭱ الاعراف: ١٣ [حق تعالی نے فرمایا تو آسمان سے اتر۔تجھ کو کوئی حق نہیں کہ تو آسمان میں رہ کر تکبر کرے، سو نکل تو بے شک ذلیلوں میں سے ہے]۔
نیز ارشاد ہے: ﮖ   ﮗ  ﮘ  ﮙ  ﮚﮛ  ﮜ  ﮝ  ﮞ  ﮟ  ﮠ  ﮡ   ﮢ  ﮣ  الاعراف: ١٨ [اللہ تعالی نے فرمایا کہ یہاں سے ذلیل وخوار ہوکر نکل جا، جو شخص ان میں سے تیرا کہنا مانے گا میں ضرور تم سب سے جہنم کو بھردوں گا
ابلیس  کو صفائی کا موقعہ
اللہ تعالی نے ابلیس کو سزا دینے سے پہلے اسے اپنی صفائی دینے کا پورا موقع دیا، قرآن مجید میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:   ﭑ  ﭒ  ﭓ  ﭔ   ﭕ  ﭖ  ﭗﭘ  ﭙ  ﭚ  ﭛ  ﭜ  ﭝ  ﭞ  ﭟ   ﭠ  ﭡ  ﭢ  ﭣ  الاعراف: ١٢ [حق تعا لی نے فرمایا تو جو سجدہ نہیں کرتا تو تجھے سجدہ کر نے سے کس چیز نے روکا؟ جبکہ میں تجھ کو حکم دے چکا۔ کہنے لگا:میں اس سے بہتر ہوں۔آپ نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اوراس کو آپ نے خاک سے پیدا کیا ہے]۔
چونکہ ابلیس کا عذر پوری طرح غیرمعقول اور غیرمقبول تھاجیسا کہ پچھلے صفحات میں اس کی تفصیل گذرچکی ہےلہٰذا اسے رد کردیا گیا، ابلیس کے پاس موقعہ تھا کہ توبہ کرلے اور اللہ سے معافی مانگ لے لیکن اس نے معافی مانگنے کے بجائے قیامت تک کے لئے مہلت مانگی تاکہ بزعم خویش جس آدم کی وجہ سے ملعون ٹھہرا ہے ان سے بدلہ لے سکے، جوش انتقام میں ابلیس نے کہا جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآن پاک میں بیان کیا ہے: ﭲ  ﭳ  ﭴ    ﭵ  ﭶ    ﭷ  ﭸ  ﭹ    ﭺ  ﭻ  ﭼ  الاعراف: ١٤ – ١٥ [ابلیس نے کہا کہ مجھ کو قیامت کے دن تک مہلت دیجئے، اللہ تعالی نے فرمایا: تجھ کو مہلت دی گئی
اور ابلیس کا مطالبہ منظور ہوگیا
رب کریم ابلیس کا بھی رب ہے، اس کی شان ربوبیت نے ابلیس کو بھی محروم نہ کیا، ابلیس نے اللہ کے حکم کی تعمیل سے سرتابی کی مردود ٹھہرا، لیکن جب اس نے اللہ تعالی سے قیامت تک کے لئے مہلت مانگی تو اسے مہلت دی گئی، اسے قیامت تک کی طویل عمر سے نوازا گیا۔
ابلیس کی فتنہ سامانی:
ابلیس نے آدم اور ان کی اولاد کو اپنے ساتھ جہنم میں لے جانے کی خاطر اللہ سے روز قیامت تک کے لئے طویل مہلت طلب کی اور اسے یہ مہلت حاصل بھی ہوگئی، اسی دن سے ابلیس اپنی فتنہ سامانیوں کے لئے منصوبہ بندی کرنے لگا، اپنی ہر ممکن قوت وطاقت کو ابن آدم کی گمراہی کے لئے ابلیس بروئے کار لاتا ہے۔
صحیح مسلم کی روایت ہے کہ:    «ابلیس پانی پر اپنا تخت بچھاتا ہے اور (لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے) اپنے لشکر بھیجتا ہے۔ابلیس کے نزدیک سب سے بڑا رتبہ اس شخص کو ملتا ہے جس کا فتنہ سب سے عظیم ہو تا ہے۔ایک شیطان آکے کہتا ہے کہ میں نے ایسا اور ایسا کیا۔ابلیس کہتا ہے تو نے کچھ نہیں کیا۔ پھر ایک شیطان آتا ہے اور کہتا ہے: میں اس کے پیچھے لگارہا اور اسے نہیں چھوڑا یہاں تک کہ اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان تفریق کردی۔ ابلیس اسے اپنے سے قریب کرتا ہے اور کہتا ہے تو بہت اچھا ہے اور پھر اسے گلے لگا لیتا ہے»۔
            حدیث مذکور سے یہ بات واضح طور پر کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ ابلیس انسانوں کے خلاف اپنی جنگ کے لئے پوری طرح منصوبہ بندی کرتا ہے۔ مختلف سمتوں میں اپنے لشکر بھیجتا ہے۔ میٹنگ کر کے ان کی رپورٹ سنتا ہے اور سب کی کار کردگی کا جائزہ لیتا ہے۔جس نے لوگوں کو گمراہ کرنے میں جس قدر محنت کی ہے اسی اعتبار سے ان کی تعریف کرتا ہے۔ انھیں اپنے سے قریب کرتا ہے اور بلند درجات سے نوازتا ہے۔ ابلیس کو لوگوں کے گمراہ کرنے کا ایک طویل تجربہ ہے۔دادا آدم علیہ السلام کی پیدائش سے لے کر آج تک وہ زندہ ہے اور فتنہ پھیلانے اور سچائی کے خلاف جھوٹ کی تبلیغ کرنے میں مصروف ہے اور کسی تھکاوٹ کے بغیر اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔لیکن یادرہنا چاہئے کہ رسول اللہ e نے فر ما یا ہے:
            «شیطان نے اللہ سے کہا: اے اللہ! تیری عزت کی قسم میں تیرے بندوں کو اس وقت تک گمراہ کرتا رہو ں گا جب تک ان کے جسم میں جان باقی رہے گی, اللہ تعا لی نے فرمایا: میر ے عزت وجلال کی قسم ! میں اپنے بندوں کی اس وقت تک مغفرت کرتا رہوں گا جب تک وہ مجھ سے مغفرت اور بخشش مانگتے رہیں گے»۔  (رواہ احمدو الحا کم وحسنہ اللبانی۔ صحیحہ ٣١ح١٠٤)



انسان سے متعلق شیطان کے ارادے:
            شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے۔ انسان کوتباہی وبربادی سے دوچار کرنے کے لئے اس کے ارادے انتہائی خطرناک ہیں۔ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر اﷲتعالی نے اولاد آدم کو شیطان کے خطرناک ارادوں کا ذکر کرتے ہوئے انھیں شیطانوں کی عداوت سے آگاہ کیا ہے۔ چنانچہ ذیل میں ہم چند ایسی آیات کا ذکر کرتے ہیں جن سے شیطان کے ارادوں کا علم ہوتا ہے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ﭩ  ﭪ  ﭫ  ﭬ    ﭭ  ﭮ النساء: ٦٠ (اور شیطان انھیں دور کی گمراہی میں ڈال دینا چاہتا ہے)۔ نیز ارشاد ہے: ﮂ  ﮃ  ﮄ  ﮅ القصص: ١٥ (بے شک وہ (شیطان) راستہ سے بھٹکادینے والا کھلا ہوا دشمن ہے)۔
نیز ارشاد ہے: ﭡ  ﭢ    ﭣ  ﭤ  ﭥ  ﭦ  ﭧ  ﭨ  ﭩ  ﭪ   ﭫ   ﭬ  ﭭ  ﭮ   ﭯ  ﭰ  ﭱﭲ  ﭳ  ﭴ   ﭵ المائدة: ٩١ (شیطان شراب اور جوئے کے ذریعہ تمھارے اندر بغض وعداوت پیدا کرنا چاہتا ہے، اور تمھیں اللہ کی یاد اور صلاۃ سے روکنا چاہتا ہے، کیا تم (شراب اور جوئے سے) باز آؤ گے؟؟)۔
نیز ارشاد ہے: ﭯ  ﭰ  ﭱ    ﭲ  ﭳ   ﭴﭵ  ﭶ  ﭷ  ﭸ  ﭹ    ﭺ  ﭻ  ﭼ فاطر: ٦ (یقیناً شیطان تمھارا دشمن ہے، تو اسے دشمن بنا کے رکھو، وہ اپنے گروہ کو دعوت دیتا ہے تاکہ وہ جہنم والوں میں سے ہوجائیں)۔
نیز ارشاد ہے: ﯯ  ﯰ  ﯱ  ﯲ  ﯳ  ﯴ    ﯵ  ﯶ    ﯷ  ﯸ  ﯹ  ﯺ  الحشر: ١٦ (شیطان انسان سے کفر کرنے کے لئے کہتا ہے جب انسان کافر ہوجاتا ہے تو شیطان کہتا ہے : اب تجھ سے میرا کوئی تعلق نہیں)۔
            مذکورہ آیات کی روشنی میں شیطان کے مندرجہ ذیل ارادے سامنے آتے ہیں:
1)   دور کی گمراہی میں ڈالنے کا ارادہ
2)   باہمی عداوت اور بغض پیدا کرنے کا ارادہ
3)   ذکر الہی اور صلاۃ سے غافل کرنے کا ارادہ
4)   کفر کروانے کا ارادہ
5)   اپنے ساتھ جہنم لے جانے کا ارادہ
شیطان کی تعلیمات:
شیطانی ارادوں  پر ایک سرسری نظر ڈالنے سے  ہمیں یہ اندازہ  کرلینا نہایت آسان ہے کہ شیطانی تعلیمات کس طرح کی ہوسکتی ہیں؟
            شیطان کی تعلیمات انبیاء اور رسولوں کی تعلیمات کے برعکس شرک وبت پرستی، فحش کاری وبدکرداری، بلا علم جہالت کے ساتھ اﷲکی طرف جھوٹی باتوں کے انتساب اور اخلاق وکردار میں سفلہ پن وغیرہ پر مشتمل ہوتی ہیں۔
            اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ﯯ  ﯰ   ﯱ  ﯲﯳ  ﯴ      ﯵ  ﯶ   ﯷ  ﯸ  ﯹ  ﯺ    ﯻ  ﯼ  ﯽ  ﯾ  ﯿ  ﰀ  ﰁ  ﰂ      ﰃ  ﰄ   البقرة: ١٦٨ – ١٦٩ (اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ وہ تو تمہیں بُرائی اور بے حیائی ہی کے کام کرنے کو کہتا ہے اور یہ بھی کہ اللہ کی نسبت ایسی باتیں کہو جن کا تمہیں (کچھ بھی) علم نہیں)۔
            رسول اللہ e کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا: «إِنِّي خَلَقْتُ عِبَادِي حُنَفَاءَ كُلَّهُمْ, وَإِنَّهُمْ أَتَتْهُمْ الشَّيَاطِينُ فَاجْتَالَتْهُمْ عَنْ دِينِهِمْ, وَحَرَّمَتْ عَلَيْهِمْ مَا أَحْلَلْتُ لَهُمْ, وَأَمَرَتْهُمْ أَنْ يُشْرِكُوا بِي مَا لَمْ أُنْزِلْ بِهِ سُلْطَانًا». «میں نے اپنے تمام بندوں کو یکسو (فطرت توحید پر) پیدا فرمایا، پھر ان کے پاس شیاطین آئے اور ان کو ان کے دین سے پھیردیا، جو میں نے ان کے حلال کیا تھا شیطانوں نے ان پر حرام کردیا، اور شیطانوں نے ان کو میرے ساتھ شرک کرنے کا حکم دیا جس کی میں نے کوئی دلیل نازل نہیں کی»۔ ( صحیح مسلم)



شیطان سے تحفظ کے وسائل:
شیطان ایک نظر نہ آنے والی مخلوق ہے، انسان کی دشمنی اور اسے دنیا وآخرت کی تکلیفوں میں مبتلا کرنا ہی اس کا مقصد ہے، لہٰذا اس سے تحفظ کے وسائل کی تلاش ہر انسان کی ضرورت ہے، اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں اور نبی کریم e نے اپنی احادیث میں ان وسائل کا نہایت وضاحت کے ساتھ ذکر کیا ہے، آیئے ہم چند اہم وسائل پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
۱۔ عبدیت الٰہی کا اختیار
اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کردینا اور اس کی عبدیت وبندگی کو اختیار کرلینا ایسا عظیم وسیلہ ہے جس سے شیطان بے بس ہوجاتا ہے، اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے: ﯤ  ﯥ  ﯦ  ﯧ  ﯨ  ﯩﯪ  ﯫ   ﯬ  ﯭ  ﯮ  الاسراء: ٦٥ ( میرے سچے بندوں  پر تیرا کچھ قابو اور بس  نہیں اور (اے پیغمبر!) تمہارا رب کارساز ی کرنے والا کافی ہے۔)
عبدیت الٰہی کا لازمی حصہ ہے کہ عبادت کو اللہ کے لئے خالص کردینا اور کسی کو اس کے ساتھ کچھ بھی شریک نہ کرنا کیونکہ اللہ کو چھوڑ کر یا اللہ کے ساتھ ساتھ جس کی بھی عبادت کی جائے گی وہ شیطان کی عبادت ہوگی۔اور شیطان کی عبادت سے اللہ تعالی نے سخت منع فرمایا ہے، ارشاد ہے: ﭴ   ﭵ  ﭶ  ﭷ  ﭸ  ﭹ  ﭺ     ﭻ  ﭼﭽ  ﭾ  ﭿ    ﮀ  ﮁ  ﮂ  ﮃ  ﮄﮅ   ﮆ  ﮇ  ﮈ يس: ٦٠ – ٦١ (اے اولاد آدم! کیا میں نے تم سے قول وقرار نہیں لیا تھا کہ تم شیطان کی عبادت نہ کرنا، وہ تو تمھارا کھلا دشمن ہے۔ اور  میری ہی عبادت کرنا،  سیدھی راہ یہی ہے۔)
اللہ کے بعض بندے ایسے بھی ہوتے ہیں جن سے شیطان خوف کھاتا اور بھاگتا پھرتا ہے، عمر فاروق t سے متعلق نبی کریم e کی بہت مشہور اور صحیح حدیث ہے کہ شیطان وہ راستہ چھوڑدیتا ہے جس سے آپ گذرتے ہیں۔
۲۔ استعاذہ (شیطان سے اللہ کی پناہ طلب کرنا)
اللہ ہی وہ ذات ہے جو انسان کو شیطان سے پناہ دینے والا ہے، شیطان سے پناہ مانگنے کے لئے قرآن وحدیث میں بہت سی دعائیں سکھائی گئی ہیں، ایک جگہ اللہ کا ارشاد ہے: ﮩ  ﮪ  ﮫ  ﮬ  ﮭ        ﮮ  ﮯﮰ  ﮱ    ﯓ    ﯔ  ﯕ  ﯖ  فصلت: ٣٦ (اور اگر تمہیں شیطان کی جانب سے کوئی وسوسہ آئے تو اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو یقینا ًوہ بہت ہی سننے والا جاننے والا ہے۔)
نیز ارشاد ہے: ﮚ  ﮛ  ﮜ  ﮝ  ﮞ  ﮟ  ﮠ  ﮡ  ﮢ  ﮣ    ﮤ  ﮥ  ﮦ  ﮧ  المؤمنون: ٩٧ – ٩٨ (اور دعا کیجئے کہ اے میرے رب! میں شیطانوں کے وسوسوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں، اور اے میرے رب! میں تیری پناہ چاہتا ہوں کہ وہ میرے پاس آجائیں)۔
نبی کریم e مختلف اوقات میں شیطان سے اللہ کی پناہ مانگا کرتے تھے اور آپ نے اپنی امت کو بھی اس کی تعلیم دی ہے۔ بعض مواقع پر شیطان کے شر سے بچنے کے لئے خصوصی طور پر استعاذہ کی تعلیم دی گئی ہے، مثلا بیت الخلاء میں جانے کے وقت، غصہ کے وقت، جماع سے پہلے،کسی مقام پر پڑاؤ ڈالتے وقت، گدہے کی آواز اور چیخ سن کر اور قرآن کریم کی تلاوت سے پہلے۔
استعاذہ شیطان سے حفاظت کے لئے ایک زبردست ہتھیار ہے، اور شیطان سے چونکہ ہم ہروقت حالت جنگ میں ہیں اس لئے اس مضبوط ہتھیار سے کبھی غافل نہیں رہنا چاہئے۔



ابلیس کو آگ کا عذاب کیسے؟
            بعض لوگ یہ شبہ پیش کر تے ہیں کہ ابلیس آگ سے پیدا کیا گیا ہے تو اسے کس طرح آگ کا عذاب دیا جائے گا ؟  اس شبہ کے متعدد جوابات میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:
(١) - اس شبہ کا پہلا جواب یہ ہے کہ ایسا کتاب وسنت سے ثابت ہے لہذا اس پرایمان لاناضروری ہے اور نص کے مو جو د ہو تے ہوئے اجتہادکر نا منع ہے۔
(٢) - قرآن پاک میں اللہ تعا لی نے فر ما یا ہے کہ انسان مٹی سے پیدا کیا گیا ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کی اصل مٹی ہے ورنہ آدمی حقیقت میں مٹی نہیں ہے۔ اب انسان مٹی کے بجائے گوشت پوست کا ہے۔ایسے ہی جن وشیاطین اور ابلیس کی اصل بھی آگ ہے لیکن اب وہ حقیقت میں آگ کے نہیں ہیں۔
(٣) - صحیح مسلم کی ایک روایت ہے کہ: «رسول اللہe ایک بار صلاة کے لئے کھڑے ہوئے، صحابہ نے آپ کو فر ما تے سنا: (أَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنْكَ) پھرفرمایا: (أَلْعَنُكَ بِلَعْنَةِ اللّٰهِ) تین بار فرمایا اور اپنا ہا تھ آگے بڑھایا جیسے کو ئی چیز پکڑرہے ہیں۔جب صلاة سے فارغ ہو ئے تو صحا بہ نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! ہم نے آپ سے آج صلاة کے اندر ایسی باتیں کہتے سنیں جواس سے پہلے آپ نہیں کہا کرتے تھے اور ایسے ہی آپ نے اپنا ہا تھ بھی آگے بڑھا یا تھا تو آپ e نے فرمایا: اللہ کا دشمن ابلیس آگ کا شعلہ لئے آیاتھا۔ وہ میرے منہ کو لگانا چاہتا تھا، میں نے تین بار (أَعُوذُ بِاللّٰهِ مِنْكَ)کہا، پھرمیں نے کہا: (أَلْعَنُكَ بِلَعْنَةِ اللّٰهِ التَّامَّةِ) ایسا تین بار کہا، پھر بھی وہ پیچھے نہ ہٹا۔ پھر میں نے اسے پکڑنا چاہا۔اللہ کی قسم! اگر ہمارے بھائی سلیمان علیہ السلام کی دعا نہ ہو تی تو اس وقت وہ شیطان بندھا ہو ا ہوتا اور اس سے مدینہ کے بچے کھیل رہے ہوتے»۔ 
            اس حدیث سے معلوم ہو تا ہے کہ ابلیس اپنے ناری عنصر پر باقی نہیں ہے۔ اسی لئے تو اسے الگ سے آگ کا شعلہ لانے کی ضرورت پڑی۔ ورنہ وہ اپنا ہا تھ یا کو ئی دوسرا عضو لگا دیتا اور اس سے وہی تکلیف ہوتی جو آگ سے ہو تی ہے۔
(۴) - مسند احمد کی روایت ہے کہ «ایک شخص نے عبدالرحمن بن خنبش سے پوچھا کہ رسول اللہ e نے اس وقت کیاکیا تھا جب شیطانوں نے آپ کے خلاف سازش کی تھی؟ عبد الرحمن t نے فرمایا: شیطان وادیوں سے اتر کر رسول اللہ e کے پاس آئے۔ان میں ایسے شیطان بھی تھے جن کے ہا تھوں میں آگ کے شعلے تھے، وہ رسول اللہ e  کو جلا دینا چاہتے تھے۔آپ پیچھے ہٹنے لگے، جبریل علیہ السلام آئے اور یہ دعا پڑھنے کے لئے کہا: (أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّةِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ، وَذَرَأَ وَبَرَأَ ، وَمِنْ شَرِّ مَا يَنْزِلُ مِنَ السَّمَاءِ، وَمِنْ شَرِّ مَا يَعْرُجُ فِيهَا، وَمِنْ شَرِّ فِتَنِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ، وَمِنْ شَرِّ كُلِّ طَارِقٍ إِلَّا طَارِقًا يَطْرُقُ بِخَيْرٍ، يَا رَحْمٰنُ) [میں اﷲکے ان کامل کلمات کی پناہ چاہتا ہوں جن سے کوئی نیک وبد آگے نہیں گذرسکتا، ہراس چیز کے شر سے جسے اس نے پیدا فرمایا، گھڑا اور پھیلایا،اور ہر اس چیز کے شر سے جو آسمان پر چڑھتی یا اس سے اترتی ہے، اور ہر اس شر سے جسے زمین میں پھیلایا یا جو زمین سے نکلتی ہے، اور شب وروز کے فتنوں کے شر سے، اور رات کو آنے والے ہر شخص کے شر سے سوائے اس شخص کے جو خیر لے کر آئے، اے بہت رحم فرمانے والے! ]
            اس دعا کا پڑ ھنا تھا کہ شیطانوں کی آگ بجھ گئی اور اللہ نے انھیں شکست دے دی»۔ (ملاحظہ ہو سلسلہ صحیحہ للالبانی/۲۹۹۵)
             حدیث سے معلوم ہوا کہ شیطان آگ کی صفت پر باقی نہیں ہیں ورنہ انھیں اپنے ہا تھوں میں آگ کے شعلے لانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
(۵) - متفق علیہ حدیث ہے کہ: «شیطان انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے»۔
اگر شیطان اپنی ناری صفت پر باقی ہوتا توانسان کی رگوں میں خون کی مانند دوڑنا آسان نہیں تھا۔
(۶) - انسان مٹی سے بناہے لیکن اگر اسے مٹی سے ماراجائے تو اسے تکلیف ہوتی ہے، بلکہ مٹی سے مار کر اسے قتل بھی کیا جا سکتا ہے اور مٹی میں دفن کرکے اس کی جان بھی لی جا سکتی ہے۔ ایسے ہی ابلیس اور دوسرے شیطانوں کو جنھیں آگ سے پیدا کیا گیا ہے آگ کا عذاب دیا جائے گا اور اس سے انھیں تکلیف ہوگی۔
(۷) - اللہ جس کو جس طرح عذاب دینا چاہے اس پر قادر ہے۔ ﮕ  ﮖ  ﮗ  ﮘ   ﮙ  ﮚ  وہ آگ کی مخلوق کو آگ سے عذاب دینے پر پوری طرح قادر ہے۔



ابلیس کے وجود کی حکمتیں:
            اللہ تعا لی حکمت والا ہے۔اس کا کوئی کام حکمت ومصلحت سے خالی نہیں۔ اس نے خیر وشر دونوں پیدا کئے ہیں۔شر اس کی بعض مخلوقات میں ہے، خود اس کے فعل میں کوئی شر نہیں۔اس کا فعل پورا کا پورا خیر ہے۔شرکی نسبت سے اس کا ہر عمل پاک ہے۔وہ قدوس ہے۔ ابلیس جو تمام ادیان ومذاہب کے فساد کا باعث ہے اور بہت سارے بندوں کی شقاوت وبدبختی کا سبب ہے اس کے باوجود اس کی تخلیق میں وہ عظیم حکمتیں ہیں کہ اس کا موجود ہو نا اس کے نہ ہونے سے بہتر ہے۔حکمتوں کی تفصیلات تو اللہ ہی جانتا ہے لیکن اہل علم نے بہت سی حکمتیں ذکر کی ہیں، چند کا ہم ذکر کر تے ہیں۔
(١) انبیاء واولیاء ابلیس اور اس کے لشکروں سے معرکہ آرائی کے ذریعہ بندگی کے مراتب کی تکمیل کرتے ہیں۔ وہ شیطانوں کے شر سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں اور اس میں بہت سی دنیوی واخروی مصلحتیں ہیں۔
(٢) محبت وانابت، توکل وصبرورضا اوراس جیسی عظیم عبادات جو اللہ کو محبوب ہیں، اللہ کی راہ میں قربانی کے بعدہی حاصل ہوتی ہیں۔اگر ابلیس اور اس کے لشکروں سے معر کہ آرائی نہ ہوتی تو یہ بے شمار فوائد کہاں سے حاصل ہو تے؟
(٣) اللہ کو شکر کیاجانا بہت پسند ہے۔اگر ابلیس اور اس کا لشکر نہ ہوتا تو شکر کی بہت سی قسمیں ادا ہو نے سے رہ جا تیں۔آپ غور کریں کہ آدم علیہ السلام اپنے دشمن ابلیس کے فریب میں آکر گناہ کر بیٹھتے ہیں۔پھر تو بہ کرتے ہیں اور اللہ ان کی توبہ قبول فرماتا ہے۔ظاہر ہے کہ توبہ کی قبولیت کے بعد شکر کا وہی انداز واسلوب نہیں رہے گا جو گناہ سے پہلے تھا بلکہ اس سے بہت زیادہ بڑھا ہوا رہے گا۔
(٤) ابلیس ایک شکنجہ ہے جس میں کسکر بندوں میں سے کھرے اور کھوٹے کی تمیز کی جا تی ہے۔ کون ہیں جو ابلیس کی دعوت کو اختیارکرتے ہیں اور کون ہیں جو انبیاء کی دعوت اختیار کرتے ہیں؟
(٥) فرشتے اور اہل ایمان ابلیس کا انجام دیکھنے کے بعد گناہوں سے جس قدر ڈرتے ہیں وہ اس سے کہیں زیادہ ہے جتنا کہ ابلیس کا انجام جاننے سے پہلے تھا۔
(٦) ابلیس اور اس کے لشکر کی مخالفت کر کے بندوں کو ثواب ملتا ہے۔
(٧) ابلیس کو اپنا دشمن سمجھنا ایک عظیم عبادت ہے جس کا قرآن پاک میں حکم آیا ہے۔ ارشاد ہے: ﭯ  ﭰ  ﭱ    ﭲ  ﭳ   ﭴ فاطر: ٦ [یاد رکھو ! شیطان تمھارا دشمن ہے، تم اسے دشمن جانو]۔
(٨) ابلیس کی تخلیق سے اللہ کی قدرت کا کمال ظاہر ہوتا ہے کیونکہ اللہ نے متضاد صفات کی مخلوقات پیدا کی ہیں۔ایک طرف جبریل اور سارے فرشتوں کو پیدا کیا جو حکم کے پابند ہیں اور نافرمانی کبھی نہیں کرتے۔دوسری طرف ابلیس اور شیاطین کو پیداکیا جو نہ صرف خود گمراہ ہیں بلکہ دوسروں کو بھی گمراہ کر کے جہنم میں اپنے ساتھ لے جانا چا ہتے ہیں۔
(٩) متضاد صفات کے وجود سے مقابل کا حسن ظاہر ہوتا ہے۔ اگربدصورتی نہ ہو تو خوبصورتی کی قدر نہ جانی جائے گی اور اگر فقیری ومحتاجی نہ ہو تو امیری ودولت مندی کی قدر کیسے معلوم ہو گی ؟
(١٠) اگرابلیس نہ ہوتا اور اس نے انبیا ء کی مخالفت ودشمنی پر آمادہ کر کے لوگوں سے کفر نہ کرایا ہوتا تو بہت ساری الہی نشانیاں اور عجائبات قدرت ظاہر نہ ہوتے جیسے طوفان نوح، عصائے موسی، غرقابی فرعون وغیرہ۔
(١١) اللہ نے ابلیس کو اپنے مخا لفین کے لئے ایک درس عبرت بنا یا ہے۔جو  اطاعت سے تکبرکریں اور اپنی سر کشی پر اڑے رہیں وہ ابلیس کا انجام دیکھ کر اپنے انجام پر غور کریں۔اور جو گناہ کرنے کے بعد تو بہ کرلیں ان کے لئے آدم علیہ السلام کی زندگی میں سبق ہے۔
(١٢) ابلیس کی تخلیق سے اللہ کے بہت سارے ناموں اور صفات وکمالات کے آثار ظا ہر ہوئے۔ جبر وقہر، عدل وانتقام، اعزازواذلال، حلم وعفو،ستر ومغفرت وغیرہ کے آثار ظاہر ہو ئے۔
(١٣) اللہ کا ایک نام حکیم ہے اور حکمت یہ ہے کہ ہر چیز کو اس کا مقام دیا جائے۔ جو جس کے لائق ہو اس کے ساتھ وہی معا ملہ کیا جا ئے۔اگر متضاد صفات کی مخلوقات نہ ہوتیں تو یہ حکمت کس طر ح پوری ہو تی ؟
(١٤) آگ میں جلانے، اوپر اٹھنے اور تباہ وبر باد کرنے کی بھی صفت ہے اور روشنی دینے، اجالاکرنے اور چمکانے کی بھی صفت ہے ایسے ہی مٹی میں اچھی وبری، نرم وسخت، سرخ وسیاہ ہر طرح کی صفات ہیں۔ اللہ نے اپنی حکمت وقدرت سے ان سارے اوصاف کو ظاہر کیا۔
(١٥) اللہ کی حمدوثنا ہر طرف سے کامل ومکمل ہے۔ وہ اپنے عدل وانتقام پربھی قابل تعر یف ہے اور اپنے فضل وعطا پر بھی۔



قرآن مجید میں
قصۂ  ابلیس کے تکرار کی حکمتیں
            ابلیس کا قصہ قرآن پاک میں سورۂ بقرہ، سورۂ اعراف، سورۂ حجر، سورۂ بنی اسرائیل، سورۂ کہف، سورۂ طہ اور سورۂ ص میں آیا ہے۔ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر مختلف اسلوب اور پیرائے میں قصۂ ابلیس کو دہرایا گیا ہے۔ اس میں بہت سی حکمتیں اور بہت سے فوائد ہیں۔ چند کو ہم ذکر کر تے ہیں:
(١)حکم الہی کی مخا لفت کا نتیجہ
            ابلیس مردود کے قصہ سے سب سے اہم فائدہ ہم کو یہ ملتا ہے کہ حکم الہی کی مخالفت کا نتیجہ بہت بھیانک ہے۔انبیاء کی تعلیم رب کی جانب سے ہو تی ہے۔ جو لوگ انبیاء کی تعلیمات اور ان کی سنت اور ا حا دیث کے مقابلے میں اپنی رائے وقیاس یااپنا فکر وفلسفہ یا اپنے تجر بات یا قصے کہا نیاں یا خواب وغیرہ پیش کرتے ہیں وہ اسی ابلیس کی راہ پر چل رہے ہیں۔اللہ ہم سب کو اس سے محفوظ رکھے۔
اللہ تعا لی نے قرآن مجید میں یہ قصہ بار بار دہرایا ہے تا کہ ہم اس پر غور کریں اور یاد رکھیں کہ جب اللہ اور اس کے رسولe کا حکم آجائے تو اس کے مقابلہ میں ہم اپنی رائے وقیاس اور اپنی عقلی مثالیں نہ پیش کریں بلکہ کتاب وسنت کے آگے اپنا سر تسلیم خم کردیں۔
            کتاب وسنت کے نصوص احکام الٰہی ہیں۔ ان کی مخالفت سے آدمی دین حق سے برگشتہ ہو کر مختلف فتنوں کا شکار ہو جائے گا جو اسے کفر وشرک اور بدعات وخر افات تک پہنچا کر دم لیں گے۔ارشادباری ہے: ﯜ  ﯝ  ﯞ   ﯟ   ﯠ  ﯡ  ﯢ  ﯣ  ﯤ    ﯥ  ﯦ  ﯧ    ﯨ  ﯩ  ﯪ  ﯫ   ﯬ  ﯭ  ﯮ النساء: ٦٥  [سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں پھر جو فیصلے آپ ان میں کردیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرماں برداری کے ساتھ قبول کرلیں]۔
 (٢)اولاد آدم سےابلیس اور اس کی نسل کی  دشمنی
            ابلیس نے اپنی فضیلت کے زعم باطل میں آدم علیہ السلام کو سجدہ نہیں کیا, اور پھر جب راندۂ درگاہ کردیا گیا تو آدم اور ان کی اولاد کا بدترین دشمن بن گیا,  اس نے یہ ٹھان لی کہ اپنے ساتھ ان کو بھی جہنم میں لے جائے گا۔ اسی خاطر اس نے اﷲتعالی سے قیامت تک کے لئے لمبی عمر مانگی,  اﷲتعالیٰ نے بہت سی حکمتوں کے پیش نظر اس کی یہ طلب قبول فرمائی۔ لیکن اﷲتعالی نے اولاد آدم کو ان کے اس بدترین دشمن سے محتاط رہنے اور بچتے رہنے کی تاکید وتلقین کی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے: ﯯ  ﯰ   ﯱ  ﯲﯳ  ﯴ   ﯵ  ﯶ   ﯷ  ﯸ  البقرة: ١٦٨  (اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے)۔
ابلیس اللہ کے حکم کے سامنے اکڑ گیا۔ اللہ کی بات نہیں مانی اور آدم علیہ السلام کا سجدہ کر نے سے انکار کر دیا اور دعوی کیا کہ وہ آدم علیہ السلام سے بہتر ہے اور پھر اس عزم کا اعلان کیا کہ وہ اولاد آدم کو جنت میں نہیں جانے دے گا۔ انھیں مختلف طریقوں سے راہ حق سے گمراہ کرے گا۔ اللہ تعالی نے اسے قرآن مجید میں ذکر فرمایا ہے۔  ﰖ  ﰗ   ﰘ  ﰙ  ﰚ  ﰛ  ﰜ  ﰝ  ﰞ  ﰟ   ص: ٨٢ - ٨٣ [شیطان نے کہا: تیر ی عزت کی قسم! میں ان سب کو یقینا بہکاؤں گا بجز تیرے ان بندوں کے جو چیدہ اور پسندیدہ ہوں]۔
نیز ا رشاد ہے: ﭽ  ﭾ  ﭿ  ﮀ  ﮁ   ﮂ  ﮃ  ﮄ  ﮅ  ﮆ   ﮇ  ﮈ  ﮉ  ﮊ  ﮋ   ﮌ  ﮍ  ﮎ  ﮏﮐ  ﮑ  ﮒ  ﮓ   ﮔ  ﮕ  الاعراف: ١٦ – ١٧ [ابلیس نے کہا: بسبب اس کے کہ آپ نے مجھ کو گمراہ کیا ہے میں قسم کھاتا ہوں کہ میں ان کے لئے آپ کی سیدھی راہ پر بیٹھوں گا،پھر ان پر حملہ کروں گا، ان کے آگے سے بھی اور ان کے پیچھے سے بھی، اور ان کی دا  ہنی جانب سے اور ان کے بائیں جانب سے بھی، اور آپ ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائیے گا]۔
نیز ارشاد ہے : ﮓ  ﮔ  ﮕ  ﮖ    ﮗ  ﮘ  ﮙ  ﮚ  ﮛ   ﮜ  ﮝ  ﮞ   ﮟ  ﮠ     ﮡ  ﮢ  ﮣ  ﮤ  ﮥ  ﮦ  ﮧ   ﮨ   ﮩ  ﮪ   ﮫ  ﮬ  ﮭ  ﮮ  ﮯ  ﮰ     ﮱ  ﯓ  ﯔ  ﯕ  ﯖ  ﯗ  ﯘ   ﯙ  ﯚ  ﯛ  ﯜﯝ  ﯞ  ﯟ  ﯠ  ﯡ       ﯢ  ﯣ  ﯤ  ﯥ  ﯦ  ﯧ  ﯨ  ﯩﯪ  ﯫ   ﯬ  ﯭ  ﯮ  الاسراء: ٦٢ – ٦٥ [شیطان نے کہا: اچھا دیکھ لے، اسے تونے مجھ پر بزرگی تو دی ہے لیکن اگر مجھے بھی قیامت تک تو نے ڈھیل دی تو میں اس کی اولاد کو بجز بہت تھوڑے لوگوں کے اپنے بس میں کرلوں گا۔ارشاد ہوا کہ جا، ان میں سے جو بھی تیرا تابعدارہو جائے گا تو تم سب کی سزا جہنم ہے جو پورا پورا بدلہ ہے۔ان میں سے تو جسے بھی اپنی آواز سے بہکا سکے بہکا لے اور ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھالا اور ان کے مال اور اولاد میں سے اپنا بھی سا جھا لگا اور انھیں جھوٹے وعدے دے لے۔ ان سے جتنے بھی وعدے شیطان کے ہوتے ہیں سب کے سب سراسر فریب ہیں۔ ميرے سچے بندوں پر تیرا کوئی قابو اور بس نہیں۔تیرا رب کا رسازی کرنے والا کافی ہے]۔
(٣)کبر وحسد کا انجام
            حسد اور تکبر وہ گناہ ہیں جن کا ارتکا ب دنیا ئے انسانیت میں سب سے پہلے کیا گیا اور اس کا مر تکب ابلیس تھا۔ ابلیس نے کبر وحسد کی بنیاد ڈالی، اس نے اسی بنا پر آدم علیہ السلام کو سجدہ نہیں کیا اور اس بر ے انجام سے دوچار ہوا۔ ابلیس کا قصہ بیان کرکے خبر دار کیا گیا ہے کہ انسان کبر وحسد سے بچے۔یہ کبر وحسد ہی تو تھا جس نے کفار مکہ کو اسلام قبول کر نے سے روکا پھر وہ دنیا وآخرت دونوں جگہ نا کام ونا مراد ہوئے۔قصۂ ابلیس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ تکبر والے کو اس کی نیت سے الٹی سزا ملتی ہے۔ متکبر کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اسے بڑا مانا جائے تو اسے حقیر اور ذلیل کر دیا جا تا ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے: ﭤ  ﭥ  ﭦ  ﭧ  ﭨ  ﭩ  ﭪ  ﭫ    ﭬ  ﭭ  ﭮ  ﭯ  ﭰ  ﭱ  الاعراف: ١٣ [حق تعالی نے فرمایا تو آسمان سے اتر۔تجھ کو کوئی حق نہیں کہ تو آسمان میں رہ کر تکبر کرے، سو نکل تو بے شک ذلیلوں میں سے ہے]۔
(٤) اتباع حق پر ثابت قدمی
            ابلیس کی زندگی سے عبرت لیتے ہو ئے ہمیں دین پر ثابت قدم رہنا چاہئے۔ اللہ کی نافرمانی اور اس کی شریعت کی خلاف ورزی سے ڈرنا چاہئے۔ ابلیس ہمیں راہ حق سے منحرف کرنے کے لئے شب وروز لگا ہو ا ہے لیکن اگر ہم اللہ پر سچا ایمان لاکر اس کے رسولوں کی تصدیق کر کے اس کی شریعت کے پابند رہیں گے تو ابلیس اور اس کی اولاد شیاطین ہما را کچھ نہیں بگاڑ سکتے جیسا کہ ارشاد باری ہے: ﯤ  ﯥ  ﯦ  ﯧ  ﯨ  ﯩﯪ  ﯫ   ﯬ  ﯭ  ﯮ  الاسراء: ٦٥ [میرے سچے بندوں پر تیرا کوئی قابو اور بس نہیں۔ تیرا رب کارسازی کرنے والا کافی ہے]۔
نیز ارشاد ہے: ﮊ  ﮋ  ﮌ  ﮍ   ﮎ  ﮏ           ﮐ  ﮑ  ﮒ  ﮓ  ﮔ  ﮕ  ﮖ       ﮗ    ﮘﮙ  ﮚ  ﮛ  ﮜ   ﮝ  ﮞ  ﮟ  ﮠ      ﮡﮢ   ﮣ  ﮤ  ﮥ  ﮦ  ﮧ  ﮨ  ﮩ  ﮪ  الاعراف: ٢٧ [اے اولادآدم علیہ السلام! شیطان تم کو کسی خرابی میں نہ ڈال دے جیسا اس نے تمھارے ماں باپ کو جنت سے باہر کر دیا۔ایسی حالت میں ان کا لباس بھی اتر وا دیا تاکہ وہ ان کو ان کی شرمگاہیں دکھائے۔ وہ اور اس کا لشکر تم کو ایسے طو ر پر دیکھتا ہے کہ تم ان کو نہیں دیکھتے ہو۔ ہم نے شیطانوں کو ان ہی لو گو ں کا دوست بنا یا ہے جو ایمان نہیں لاتے]۔
            شیطان کے جال بڑے حسین اور دلفریب ہو تے ہیں جن سے بچنے کے لئے بڑی کا وش ومحنت اور ہر وقت اس سے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔
(٥) گناہ ہو جانے پر تو بہ واستغفار, نہ کہ اصرار
            ابلیس نے اللہ کی نافرمانی کا ارتکاب کیا تو اس کے بعد وہ نہ صرف اس پر اڑ گیا بلکہ اس کے جواز واثبات میں عقلی وقیاسی دلائل دینے لگا نتیجۃ وہ راندۂ درگاہ اور ہمیشہ کے لئے ملعون قرار پایا۔ اس کے برخلاف آدم علیہ السلام نے اپنی غلطی پر ندامت و پشیمانی کا اظہار اور بار گاہ الہی میں تو بہ واستغفار کا اہتمام کیا تو اللہ کی رحمت ومغفرت کے مستحق قرار پائے۔یوں گویا دونوں راستوں کی نشاندہی ہو گئی۔شیطانی راستے کی بھی اور اللہ والوں کے راستے کی بھی۔ گناہ کرکے اس پر اترانا اور اسی کو صحیح ثابت کرنے کے لئے دلائل کے انبار فراہم کرنا شیطانی راستہ ہے۔ اور گناہ کے بعد احساس ندامت سے مغلوب ہو کر بار گاہ الہی میں جھک جانا اور تو بہ واستغفار کا اہتمام کرنا بندگان الہی کا راستہ ہے۔
(۶) تقدیر کو حجت بنانے کا انسانی اور شیطانی طریقہ
ابلیس نے اللہ کی نافرمانی کا ارتکاب کیا تو یہ کہنے لگا کہ اے اللہ تونے مجھے گمراہ کیا ہےکیونکہ تونے میری تقدیر میں ایسا لکھ دیا تھا لہٍٰذا اب میں آدم کی اولاد کو گمراہ کروں گا جیسا کہ ارشاد ہے: ﮄ  ﮅ  ﮆ      ﮇ  ﮈ  ﮉ  ﮊ  ﮋ  ﮌ  ﮍ  ﮎ   ﮏ    ﮐ  ﮑ  ﮒ  ﮓ  الحجر:٣٩ - ٤٠  [شیطان نے کہا کہ اے میرے رب! چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے مجھے بھی قسم ہے کہ میں بھی زمین میں ان کے لئے معاصی کو مزین کروں گا اور ان سب کو بہکاؤں گا بھی سوائے تیرے ان بندوں کے جو منتخب کر لئے گئے ہیں]۔
            یہ تھا تقدیر کو حجت بنانے کا شیطانی طریقہ ، شیطان کو سجدہ کا انکار کرتے وقت یہ معلوم نہیں تھا کہ اس کی تقدیر میں کیا ہے، شیطان کے سامنے دونوں راستے کھلے ہوئے تھے، جیسا کہ سجدہ نہ کرنے کے بعد اس کے سامنے دو راستے کھلے ہوئے تھے؛  ایک توبہ کا راستہ اور دوسرا وہ راستہ جسے اس نے اختیار کیا، کسی نے اس کو مجبور نہیں کیا تھا کہ وہ اولاد آدم کو گمراہ کرنا اپنی طویل زندگی کا مقصد بنالے۔
            تقدیر کو حجت بنانے کا انسانی طریقہ وہ ہے جسے آدم علیہ السلام نے اختیار کیا، صحیح بخاری ومسلم میں نبی کریم e سے مروی حدیث کے الفاظ اس طرح ہیں: «احْتَجَّ آدَمُ وَمُوسى, فَقَالَ لَهُ مُوسى: يَا آدَمُ أَنْتَ أَبُونَا، خَيَّبْتَنَا، وَأَخْرَجْتَنَا مِنَ الْجَنَّةِ, قَالَ لَهُ آدَمُ: يَا مُوسى اصْطَفَاكَ اللّٰهُ بِكَلاَمِهِ، وَخَطَّ لَكَ بِيَدِهِ، أَتَلُومُنِي عَلَى أَمْرٍ قَدَّرَ اللّٰهُ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَنِي بِأَرْبَعِينَ سَنَةً, فَحَجَّ آدَمُ مُوسى, ثَلاَثًا». «آدم اور موسیٰ علیہم السلام میں گفتگو ہوئی،  موسیٰ u نے آدم u سے کہا: اے آدم! آپ ہمارے باپ ہیں، آپ نے ہمیں نامراد کردیا، آپ نے ہمیں جنت سے نکلوادیا۔ آدم u نے موسیٰ u سے کہا: اے موسیٰ! اللہ نے آپ سے کلام کرکے آپ کو منتخب کیا، آپ کے لئے اپنے ہاتھ سے توریت لکھ کردیا، کیا مجھے ایسی بات پر ملامت کررہے ہیں جو میری تخلیق سے چالیس سال قبل ہی اللہ تعالیٰ نے میری تقدیر میں لکھ دیا تھا، چنانچہ آدم u موسیٰ u پر حجت میں غالب ہوگئے۔ یہ بات نبی e نے تین بار فرمائی»۔
            آدم u سے جب جنت کا ممنوعہ پھل کھانے کی غلطی ہوئی تھی تو آپ نے اس وقت بارگاہ الٰہی میں توبہ کیا تھا ، اس وقت تقدیر کو حجت نہیں بنایا تھا کیونکہ گناہ کے بعد توبہ کرنا اللہ کا حکم ہے، اللہ کے حکم کو ٹالنے کے لئے تقدیر کو حجت بنانا شیطانی طریقہ ہے ، گناہ ہوجانے کے بعد توبہ کرنا اللہ کے حکم کی تعمیل ہے، البتہ توبہ کے بعد کسی کی ملامت سے بچنے کے لئے تقدیر کو حجت بنانا آدم u اور ان کی نیک اولاد کا انسانی طریقہ ہے۔
(۷)بشر کو حقیر سمجھنا ایک شیطانى فلسفہ
ابلیس نے سجدہ سے انکار کی وجہ آدم علیہ السلام کا خاکی اور بشر ہو نا بتلایا جیساکہ اللہ تعالی  کا ارشاد ہے : ﭚ  ﭛ  ﭜ     ﭝ  ﭞ        ﭟ  ﭠ  ﭡ  ﭢ   ﭣ  ﭤ  ﭥ  الحجر: ٣٣ [ابلیس نے کہا:میں ایسا نہیں کہ اس بشر کو سجدہ کروں جسے تو نے کا لی اور سڑی ہو ئی کھنکھناتی مٹی سے پیدا کیا ہے]۔
            جس سے معلوم یہ ہوا کہ انسان اور بشر کو اس کی بشریت کی بنا پر حقیر اور کمتر سمجھنا شیطان کا فلسفہ ہے جو اہل حق کا عقیدہ نہیں ہو سکتا۔ اسی لئے اہل حق انبیاء علیہ السلام کی بشریت کے منکر نہیں ہیں۔اس لئے کہ ان کی بشریت کو خود قرآن کریم نے وضاحت سے بیان کیا ہے۔ علاوہ ازیں بشریت سے ان کی عظمت اور شان میں کوئی فر ق نہیں پڑتا۔


ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق