الأحد، 2 يونيو 2013

ثعلبہ بن حاطب رضی اللہ عنہ سے متعلق ایک مشہور واقعہ کی علمی تحقیق

الذب عن الصحابي الجليل ثعلبة بن حاطب رضي الله عنه




ثعلبہ بن حاطب
رضی اللہ عنہ
سے متعلق
ایک مشہور واقعہ کی علمی تحقیق


اعداد:
عبدالہادی عبدالخالق مدنی
کاشانۂ خلیق، اٹوا بازار ،سدھارتھ نگر ،یوپی
داعی احساء اسلامک سینٹر ،سعودی عرب




فہرست مضامین
المحتويات
صفحہ
موضوعات
التمهيد

تمہید
التعريف بالصحابي

صحابی کا تعارف
القصة كما وردت

داستان مظلومیت
تحقيق أسانيد القصة

قصہ کی اسنادی حیثیت
مخالفة القصة
للقواعد الشرعية

قصہ کی
اسلامی اصولوں سے مخالفت
رأي عجيب
مع الرد عليه

ایک رائے
اور اس کی تردید
أقوال أهل العلم

ماہرین فن کی رائے


بسم اﷲ الرحمن الرحیم
مقدمہ
            محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ آسمان انسانیت پر طلوع ہونے والے وہ سورج تھے  جس کی مثال دنیا نے صرف ایک بار دیکھی۔ دوبارہ ایسا سورج طلوع ہونے سے دنیا مایوس ہوچکی ہے۔ لیکن تاریخ کا ایک طالب علم یہ دیکھ کر انتہائی حیران ہوتا ہے کہ کس کس طرح تاریخ کی صورت بگاڑی گئی ہے۔ ابو لؤلؤ کے بھائیوں ، عبد اﷲ بن سبا کے شاگردوں اور آتش پرست مجوسیوں نے اسلام کا مقابلہ کھلے میدان میں روبرو اور دو بدو کرنے کی ہمت نہ پاکر اس سے کس طرح زیرزمین جنگ کی ہے۔ اسلام میں وہ کچھ داخل کیا ہے جو اسلام کا حصہ نہ تھا۔ اسلامی رجال کی سیرتوں سے وہ چیزیں چسپاں کردی ہیں جو ان کے اخلاق میں شامل نہ تھے اور اس طرح پورا اسلام اور پوری اسلامی تاریخ بدل کے رکھ دی اور حقیقت کو دنیا کی نگاہوں سے دور باطل کی تاریکیوں میں گم کردیا ہے۔
            لیکن اﷲ کا شکر ہے کہ اس نے دین کی حفاظت کی ذمہ داری خود لے رکھی ہے اس لئے عالم کفر کی تمام سر توڑ کوششوں اور شب وروز کی ساری جدوجہد کے باوجود آج بھی اسلام کا روشن چہرہ کتاب وسنت کے صفحات میں اپنی تابانیاں بکھیرے ہوئے ہے۔ مگر افسوس اس بات پر ہے کہ لوگوں کو اس خالص چشمہ کا پتہ نہیں یا پھر انھیں اس سے گمراہ  کردیا گیا ہے۔ اگر صرف بات ان لوگوں تک محدود ہوتی جن کا دل ودماغ اسلام کی خوبیوں سے بیگانہ ہے اور جن کو اپنے شرکیہ اور کفریہ ماحول کی بنا پر اسلام کی عظمت ورفعت کا شعور وادراک نہیں تو وہ معذور سمجھے جاسکتے ہیں مگر وہ لوگ جو اسلام کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں اس کے باوجود انھیں اپنی تاریخ کا اور صحابہ کی عظمتوں کا علم نہیں وہ کبھی قابل عفو نہیں ہوسکتے۔
            پھر جہاں تک شیعوں اور روافض کی بات ہے تو وہ اپنی صحابہ دشمنی میں معروف ہیں اور اسلام سے ان کا تعلق ہر مسلمان پر عیاں ہے لیکن افسوس تو یہ ہے کہ اہل سنت میں بھی بعض ایسی بے سند روایات جگہ پاگئی ہیں جن میں بعض افراد صحابہ پر کھلا طعن موجود ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ان روایات کی اس قدر شہرت ہے کہ اگر کوئی انکار کرے تو لوگ اس کے انکار پر تعجب کریں گے۔ ایسا معلوم ہوگا جیسے وہ کسی بدیہی حقیقت کا انکار کررہا ہو ۔
            زیر نظر کتابچہ ایسی ہی برخود غلط ایک روایت کی تردید میں مظلوم صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے دفاع کی ایک مخلصانہ کوشش ہے ۔اﷲ تعالیٰ قبول فرمائے۔
            یہ سچ ہے کہ اس مختصر سے رسالہ میں اس موضوع کا حق تو نہیں ادا کیا جاسکتا لیکن ممکن ہے کہ کسی رہ نورد شوق کے لئے یہ روشنی کی کرن ثابت ہو اور اس کی راہ متعین کردے ۔ 
            یہ کتابچہ  ثعلبہ بن حاطب رضی اللہ عنہ سے متعلق ہے ۔ اس مضمون کا قصہ یہ ہے کہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کی تعلیمی زندگی میں غالباً ١٩٩٢ء کی بات ہے، میرے ایک بزرگ نے ایک دن مجھے عربی کا ایک کتابچہ دیا جس کا عنوان کچھ یوں تھا '' الشھاب الثاقب فی الذب عن الصحابی الجلیل ثعلبة بن حاطب رضی اللہ عنہ'' آنجناب نے مجھ سے اس کا مطالعہ کرلینے کے بعد اسے اردو کے قالب میں منتقل کرنے کے لئے کہا تاکہ عربی سے ناآشنا اردوداں طبقہ اس سے استفادہ کرسکے ۔ چنانچہ میں نے اس کا ترجمہ کیا لیکن بعد میں اپنے طور پر اس کی ترتیب وتہذیب کی۔
            چونکہ یہ قصہ تفسیر کی بیشتر کتابوں میں مذکور ہے اور واعظین عموماً اسے اپنی مجلسوں میں بیان کیا کرتے ہیں، نیز شاید ایسے لوگوں کی تعداد ہزار میں ایک بھی نہیں جو اس قصہ کی حقیقت جانتے ہوں ، یہ سارے اسباب میرے لئے مہمیز عمل ثابت ہوئے اور میں نے اپنی تمام طالب علمانہ مصروفیات کے باوجود اس پر کام کیا اور اسے اپنے مادر علمی جامعہ محمدیہ منصورہ مالیگاؤں مہاراشٹر کے ترجمان ماہنامہ ''مجلہ صوت الحق'' میں شائع کرایا۔ پھر دوبارہ وہی مضمون کافی مفید اضافوں کے ساتھ (دومظلوم صحابی) نامی کتاب کے ایک حصہ کے طور پر کتابی شکل میں دار الاستقامہ اٹوابازار سدھارتھ نگر یوپی انڈیا کے زیر نگرانی اور خلیق دار المطالعہ کے زیر اہتمام٢٠٠٤ء میں شائع ہوا۔
            اس بار ہم اسے مستقل طور پر شائع کرنے کی سعادت حاصل کررہے ہیں۔  اور اپنی اس سعادت پر رب ذوالجلال کے بے انتہا شکرگذار ہیں۔
اس موقع پر ہم اپنے ان تمام بزرگان اور احباب کے بھی شکرگذار ہیں جن کا تعاون کسی بھی شکل میں اس کتاب کے منظر عام تک لانے میں رہا ہے اور دعا گو ہیں کہ یہ رسالہ مسلمانوں کے درمیان پھیلے ہوئے غلط افکار ونظریات اور تصورات وعقائد کی تصحیح میں بھر پور کردار ادا کرے اور اپنے مؤلف، مراجع، قاری اور ناشر ہرایک کے لئے ذخیرۂ آخرت اور میزان عمل کو وزنی کرنے کا وسیلہ بنے اور اﷲ کے نیک بندوں میں فروغ عام اور قبولیت تام حاصل کرکے ان کی اصلاح ومنفعت کا ذریعہ ثابت ہو۔ آمین یا رب العالمین۔
دعاگو
عبد الہادی عبد الخالق مدنی
کاشانۂ خلیق ۔اٹوابازار۔ سدھارتھ نگر۔ یوپی۔ انڈیا
داعی احساء اسلامک سینٹر ۔ سعودی عرب



ثعلبہ بن حاطب رضی اللہ عنہ
 تعارف([1]):
            نسب نامہ: ثعلبہ بن حاطب بن عمرو بن عبید بن أمیہ بن زید بن مالک بن عوف بن عمرو بن عوف الانصاری الاوسی رضی اللہ عنہ
            آپ انصار کے مشہور قبیلہ أوس اور معروف خاندان بنو أمیہ بن زید سے تعلق رکھتے ہیں ۔ آپ کی والدہ کا نام ونسب اس طرح ہے : امامہ بنت الصامت بن خالد بن عطیہ بن حوط بن حبیب بن عمرو بن عوف ۔ تاریخ کی کتابوں میں آپ کی دو بیویوں اور ان کی اولاد کا ذکر ملتا ہے ۔
            ١۔ ایک بیوی جو بنو واقف کے خاندان سے تھیں ، ان سے تین بچوں عبیداﷲ، عبد اﷲ، اور عمر کا نام ملتا ہے ۔
            ٢۔ دوسری بیوی قبیلۂ غطفان کی تھیں ، ان کا نام لبابہ بنت عقبہ بن بشیر تھا ۔ ان سے چار اولاد ہوئیں جن کے نام رفاعہ ، عبد الرحمن ، عیاض اور عمیرہ ہیں ۔
             ہجرت مدینہ کے بعد جب اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار اور مہاجرین کے مابین مواخات (بھائی چارگی) کا عمل انجام دیا تو اس وقت ثعلبہ بن حاطب رضی اللہ عنہ کے واسطے معتب بن حمراء رضی اللہ عنہ کو بھائی قرار دیا جو قبیلۂ خزاعہ کے تھے اور بنومخزوم کے حلیف تھے ۔
            تاریخ کی کتابوں میں ان کے ایک بھائی کا بھی ذکر ملتا ہے جن کا نام حارث تھا ۔ ان کے بارے میں ابن سعد نے لکھا ہے کہ وہ غزوۂ بدر میں حاضر ہوئے تو ان کو اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی چیز بنو عمرو بن عوف میں پہنچانے کے لئے بھیج دیا اور غزوۂ بدر کے مال غنیمت میں سے ان کا بھی حصہ لگایااور انھیں بھی عطا کیا ۔ اسی طرح یہ احد ، خندق، حدیبیہ اور خیبر میں بھی شریک ہوئے اور خیبر میں شہادت پائی۔
            مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ ثعلبہ رضی اللہ عنہ غزوۂ بدر میں شریک ہوئے۔ بعض نے غزوۂ احد میں بھی ان کی شرکت کا ذکر کیا ہے۔ البتہ ان کی وفات سے متعلق علماء تاریخ مختلف نظر آتے ہیں۔ بعض نے کہا ہے کہ غزوۂ احد میں شہید ہوئے، جب کہ دوسروں کی رائے یہ ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں شہادت پائی۔
            ثعلبہ بن حاطب رضی اللہ عنہ کی فضیلت کئی اعتبار سے ہے ۔ ایک تو ان کے صحابی ہونے کی وجہ سے ، دوسرے ان کے انصاری ہونے کی وجہ سے ، تیسرے ان کے بدری ہونے کی وجہ سے ۔
            صحابہ کی فضیلت میں آیات واحادیث بہ کثرت اور معروف ہیں ۔ یہ وہ لوگ تھے جنھیں اﷲ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے لئے منتخب کرلیا تھا اور قرآن میں ان کے لئے اپنی رضا کا اعلان کیا ہے نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میرے زمانہ کے لوگ سب سے بہتر ہیں۔
             انصار کے فضائل بھی کتاب وسنت میں بہت زیادہ ہیں ۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مہاجرین اور دین اسلام کی بھر پور نصرت کی ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی فضیلت میں ارشاد فرمایا: انصار جس وادی اور گھاٹی میں چلیں گے میں بھی چلوں گا اور اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصار کا ایک فرد ہوتا ۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ انصار کی محبت ایمان کی علامت ہے اور انصار سے بغض ونفرت نفاق کی علامت ہے ۔
            جہاں تک بدری صحابہ کی فضیلت کی بات ہے تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: اﷲ تعالیٰ نے اہل بدر کو دیکھ کر ارشاد فرمایا: جو چاہو کرو تمھارے لئے جنت واجب ہوچکی ہے ، دوسرے الفاظ اس طرح ہیں کہ میں نے تمھیں بخش دیا ہے۔ تیسری روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ بدر میں حاضر رہنے والا جہنم میں داخل نہیں ہوگا۔
            فضائل سے متعلق  اب تک جتنی روایات کا ذکر کیا گیا ہے سب صحیح ہیں اور بخاری ومسلم نیز مسند احمدوغیرہ  میں مذکور ہیں۔
            اس مختصر تعارف کے بعد آئیے اس قصہ کا ذکر کیا جائے جسے واعظین اور قصہ گو مقررین  حضرات بیان کیا کرتے ہیں ۔
داستان مظلومیت:
            روایت ہے کہ ثعلبہ بن حاطب انصاری رضی اللہ عنہ ایک دن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : اے اﷲ کے رسول! اﷲ تعالیٰ سے میرے مال میں فراوانی اور میری رزق میں وسعت وفراخی کی دعا کیجئے ۔ آپ نے فرمایا: ثعلبہ ! اﷲ تجھ پر رحم کرے ، وہ کم جس کا شکر ادا کرسکو اس زیادہ سے بہتر ہے جس کے تحمل کی تم میں طاقت نہ ہو ۔ یہ دوبارہ آئے اور اپنی بات دہرائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا : کیا تمھارے لئے مجھ میں بہترین اسوہ نہیں؟ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر میں چاہوں کہ پہاڑ سونا اور چاندی بن کر میرے ساتھ ساتھ چلیں تو چلیں گے ۔ چنانچہ خاموش ہوگئے۔
            کچھ دنوں کے بعد ایک دفعہ پھر آئے اور طلب مال کی وہی پرانی بات دہرائی اور کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے اگر اﷲ تعالیٰ نے مجھے مال عطا کیا تو میں ہر حقدار کو اس کا حق ادا کروں گا ۔ چنانچہ اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعا فرمائی ۔
            راوی کا بیان ہے کہ انھوں نے بکری پالی۔ اس کی ایسی افزائش ہوئی جیسے کیڑوں کی ہوتی ہے۔ اب وہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف صلاة  ظہر اور عصر پڑھتے تھے بقیہ صلاتیں اپنی بکریوں میں پڑھاکرتے تھے پھر مزید افزائش ہوئی تو اور سست ہوگئے۔ جمعہ اور جماعت میں بھی حاضر نہیں ہوتے تھے۔ ہاں جب جمعہ کا دن آتا لوگوں سے مل کر خبریں پوچھ لیا کرتے ۔
            ایک دن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ثعلبہ کا ذکر کیا اور ان کے بارے میں لوگوں سے دریافت کیا تو لوگوں نے بتایا کہ اے اﷲ کے رسول! ثعلبہ نے اتنی بکریاں پال لی ہیں کہ ان کے لئے وادیاں تنگ ہورہی ہیں ۔ اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ہائے ثعلبہ! ہائے ثعلبہ! ہائے ثعلبہ!
            اس کے بعد اﷲ تعالیٰ نے فرضیت زکاة کی آیت نازل فرمائی اوراﷲ کے  رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو سلیم کے ایک اور بنو جہینہ کے ایک (دو آدمیوں) کو زکاة کی وصولی کے لئے بھیجا۔ انھیں نصاب زکاة لکھ کردیا اور کہا : ثعلبہ بن حاطب اور بنو سلیم کے فلاں شخص کے پاس جانا اور ان دونوں کے صدقات وصول کرنا۔
             چنانچہ وہ دونوں ثعلبہ کے پاس پہنچے۔ ان کو اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام سنایا اور زکاة طلب کی۔ ثعلبہ نے کہا: یہ تو جزیہ ہے۔ یہ تو جزیہ جیسی بات ہے۔ جاؤ دوسروں سے فارغ ہوکے میرے پاس آنا۔ وہ دونوں آگے بڑھ گئے۔ جب بنوسلیم کے آدمی نے ان کے بارے میں سنا تو اس نے اپنے اچھے اچھے اونٹ صدقہ کے لئے الگ کردئیے۔اور صدقہ کے ساتھ ان دونوں کا استقبال کیا۔ انھوں نے کہا: یہ تم پر واجب نہیں (یعنی اوسط سے بڑھ کر اچھے اچھے اونٹ تم پر واجب نہیں ) ۔ اس نے کہا اسے لے لو اسے میں بہ طیب خاطر دے رہا ہوں۔
             وہ دونوں دوسرے لوگوں کے پاس بھی گئے اور ان سے زکاة وصول کی۔ پھر ثعلبہ کے پاس لوٹ کر آئے تو اس نے کہا : مجھے خط دکھاؤ۔ اسے پڑھا پھر کہا : یہ تو جزیہ ہے۔ یہ تو جزیہ جیسی بات ہے ۔ تم دونوں جاؤ میں غور کرتا ہوں۔
            جب وہ دونوں واپس ہوئے اور اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو آپ نے ان کو دیکھ کر گفتگو سے پہلے ہی کہا : ہائے ثعلبہ! پھر بنو سلیم کے آدمی کے لئے خیر وبرکت کی دعا کی ۔ اس کے بعد ان دونوں نے آپ کو ثعلبہ کے بارے میں تفصیلات بتائیں ۔ پھر قرآن پاک کی یہ آیات نازل ہوئیں ۔
{وَمِنْهُمْ مَنْ عَاهَدَ اللَّهَ لَئِنْ آتَانَا مِنْ فَضْلِهِ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَكُونَنَّ مِنَ الصَّالِحِينَ (75) فَلَمَّا آتَاهُمْ مِنْ فَضْلِهِ بَخِلُوا بِهِ وَتَوَلَّوْا وَهُمْ مُعْرِضُونَ (76) فَأَعْقَبَهُمْ نِفَاقًا فِي قُلُوبِهِمْ إِلَى يَوْمِ يَلْقَوْنَهُ بِمَا أَخْلَفُوا اللَّهَ مَا وَعَدُوهُ وَبِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ} [التوبة: 75 - 77]
            (ان میں بعض ایسے بھی ہیں جنھوں نے اﷲ سے عہد کیا تھا کہ اگر اس نے اپنے فضل سے ہم کو نوازا تو ہم خیرات کریں گے اور صالح بن کر رہیں گے۔ مگر جب اﷲ نے اپنے فضل سے ان کو دولت مند کردیا تو وہ بخل پر اتر آئے اور اپنے عہد سے ایسے پھرے کہ انھیں اس کی پروا تک نہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی اس بد عہدی کی وجہ سے جو انھوں نے اﷲ کے ساتھ کی اور اس جھوٹ کی وجہ سے جو وہ بولتے رہے، اﷲ نے ان کے دلوں میں نفاق بٹھادیا ،جو اﷲ کے حضور ان کی پیشی کے دن تک ان کا پیچھا نہ چھوڑے گا)۔
            جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ثعلبہ کے قرابت داروں میں سے ایک شخص موجود تھا۔ وہ یہ بات سن کے بھاگتا ہوا ثعلبہ کے پاس پہنچا اور کہا : ثعلبہ تم برباد ہوئے۔ تمھارے بارے میں ایسی اور ایسی آیت نازل ہوئی ہے۔ ثعلبہ بہت پچھتائے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنا صدقہ لے کر آئے ۔ اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے کہا : اﷲ تعالیٰ نے مجھے تمھارا صدقہ قبول کرنے سے منع کردیا ہے چنانچہ وہ حسرت وندامت سے اپنے سر پر مٹی ڈالنے لگے ۔ اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: یہ تو خود تمھارا عمل ہے۔ میں نے پہلے ہی تم سے کہا تھا لیکن تم نے میری ایک نہ مانی۔ جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا صدقہ قبول کرنے سے انکار کردیا تو وہ اپنے گھر لوٹ آئے ۔
             پھر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی اور آپ نے ان کا صدقہ قبول نہیں کیا اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کا دور آیا۔ ثعلبہ ان کے پاس بھی اپنا صدقہ لے کر آئے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنی حیثیت اور انصار میں اپنے مقام کا حوالہ دے کر اپنا صدقہ قبول کرنے کی درخواست کی ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا : تم سے اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول نہیں کیا، میں کیسے قبول کرلوں؟ چنانچہ ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی وفات پاگئے اور صدقہ قبول نہیں کیا ۔
             پھر جب عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو ثعلبہ ان کے پاس آئے اور کہا: اے امیرالمؤمنین ! میرا صدقہ قبول فرمائیے ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: اسے اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول کیا،نہ ہی ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ، میں کیسے قبول کرلوں؟ چنانچہ یہ بھی وفات پاگئے اور صدقہ قبول نہیں کیا ۔
             پھر عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ آیا۔ ثعلبہ ان کے پاس آئے اور اپنا صدقہ قبول کرنے کی درخواست کی۔ انھوں نے جواب دیا : اسے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول کیا ، نہ ہی ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہم نے ،میں کیسے قبول کرلوں؟ چنانچہ اسی حالت میں عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ثعلبہ ہلاک ہوا ۔
قصہ کی اسنادی حیثیت کا تحقیقی جائزہ:
            یہ قصہ تین سندوں سے مروی ہے :
            ٭ایک ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے([2]) اور مذکورہ سیاق انھیں کی روایت کا ہے ۔
            اس کی سند اس طرح ہے : معان بن رفاعہ نے علی بن یزید سے، انھوں نے قاسم بن عبد الرحمن سے ، اور قاسم نے ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔
            سند پر جرح:
یہ سند بہت ضعیف ہے ۔اس کا راوی علی بن یزید جس کی کنیت ابو عبد الملک اور نسبت الالہانی ہے، سارے علمائے جرح وتعدیل کے نزدیک بہ اتفاق رائے ضعیف ہے([3]) ۔
              نیز امام ابن حبان فرماتے ہیں : جس روایت کی سند میں عبید اﷲ بن زحر، علی بن یزید اور قاسم بن عبد الرحمن جمع ہوجائیں تو وہ روایت بس انھیں کے ہاتھوں کا کیا دھرا ہے([4]) ۔
            ٭اس قصہ کی دوسری سند ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ہے([5])۔   جس میں یہ قصہ مختصر طور پر بیان ہوا ہے ، اس کے اندر مذکورہ تفصیلات نہیں ہیں ۔
             سند یوں ہے : محمد بن سعد نے اپنے باپ سے سنا کہ اس نے اپنے چچا سے سنا کہ اس کو اس کے باپ نے اپنے باپ سے بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے یہ قصہ بیان فرمایا۔
سند پر جرح:
یہ سند ایک دم ساقط ہے۔ اس کی حیثیت محدثین کے نزدیک لید (گوبر) کے برابر بھی نہیں ہے ۔ کیونکہ سند میں کسی کا نام ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔ نیز یہ پورا خاندان عوفیوں کا خاندان ہے جس کے بارے میں محدثین کا فیصلہ ہے کہ وہ سب کے سب ضعیف ہیں([6]) ۔
            ٭اس قصہ کی تیسری سند حسن بصری رحمہ اﷲ سے مرسلاً پائی جاتی ہے([7])۔ ان کی روایت میں قصہ تو مذکور نہیں، البتہ آیت کے شان نزول میں ثعلبہ بن حاطب رضی اللہ عنہ کا نام آیا ہے ۔
            سند یوں ہے: ابن حمید نے سلمہ کو ابن اسحاق سے بیان کرتے سنا کہ عمرو بن عبید ، حسن سے یہ قصہ بیان کرتے ہیں ۔
سند پر جرح:
یہ سند سخت ضعیف ہے کیونکہ ایک تو مرسل ہے۔ حسن تابعی ہیں اور انھوں نے یہ نہیں بیان کیا کہ انھوں نے یہ واقعہ کس سے سنا ہے ؟ اور ان کے او رنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان واسطہ کون ہے؟ نیز عمرو بن عبید ابو عثمان معتزلی باعث ہلاکت ہے ۔ امام ابن حبان فرماتے ہیں: عمرو بن عبید اعتزال کا داعی تھا۔ صحابۂ رسول رضی اللہ عنہم اجمعین کو گالی دیتا تھا۔ ساتھ ہی حدیث میں جھوٹا تھا، لیکن قصداً نہیں بلکہ وہماً([8]
            مذکورہ بحث سے ہر چشم بینا کے سامنے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس قصہ کی تمام روایات معلول ہیں۔ کوئی ایک روایت بھی علت اور ضعف سے خالی نہیں۔ کسی میں متروک یا سخت ضعیف راوی ہے، تو کسی میں متہم بالکذب ۔ یہ ساری روایات قصہ کی صحت کو تقویت دینے کے بجائے اس کے ضعف میں اضافہ کررہی ہیں ۔
قصہ کی اسلامی اصولوں سے مخالفت:
            قصہ کی سندوں کا حال اوپر گذر چکا۔ اب آئیے اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ یہ قصہ قرآن کریم اور شریعت اسلامیہ کے کن کن بنیادی اصولوں سے متعارض اور ان کے خلاف  ہے !
            ١۔ شریعت کا ایک معروف ترین اصول ہے کہ گنہگار اگر توبہ کرے تو اس کی توبہ مقبول ہے خواہ اس کے گناہ فلک کی بلندیوں کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔ جب کہ اس قصہ میں یہ بات بہ تکرار دہرائی گئی ہے کہ ثعلبہ رضی اللہ عنہ نے خالص توبہ کی۔ اپنا صدقہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔ ابوبکر وعمر وعثمان رضی اللہ عنہم کے پاس آئے مگر سب نے ان کی توبہ قبول کرنے سے انکار کردیا۔ جب کہ یہ بات قرآن وحدیث کے قطعی نصوص کے خلاف ہے ۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ ثعلبہ منافق تھے اس لئے ان کی توبہ قبول نہیں کی گئی تو یہ بھی غلط ہے۔ کیونکہ قرآن پاک میں اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
{إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَنْ تَجِدَ لَهُمْ نَصِيرًا (145) إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَاعْتَصَمُوا بِاللَّهِ وَأَخْلَصُوا دِينَهُمْ لِلَّهِ فَأُولَئِكَ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ وَسَوْفَ يُؤْتِ اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ أَجْرًا عَظِيمًا} [النساء: 145، 146]
 (بے شک منافق جہنم کے سب سے نیچے طبقے میں جائیں گے اور تم کسی کو ان کا مدد گار نہ پاؤ گے۔ البتہ ان میں سے جو توبہ کرلیں اور صالح ہوجائیں اور اﷲ کا دامن تھام لیں اور اپنے دین کو اﷲ کے لئے خالص کردیں ایسے لوگ مومنوں کے ساتھ ہیں اور اﷲ مومنوں کو ضرور اجر عظیم عطا فرمائے گا)۔
            ٢۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو توبہ کی ترغیب دی ہے اور مایوس ہونے سے روکا ہے۔اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے : {قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ} [الزمر: 53]  (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کہہ دیجئے کہ اے میرے بندو ! جنھوں نے اپنے آپ پر زیادتی کی ہے ، اﷲ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ ۔ یقیناً اﷲ تعالیٰ سارے گناہ معاف کردیتا ہے، وہ تو غفور رحیم ہے)۔
            مذکورہ قصہ ان گنہگاروں کے دلوں میں جنھوں نے نادانی سے کچھ برائیوں کا ارتکاب کرلیا ہے اﷲ کی رحمت سے مایوسی وناامیدی پیدا کرتا ہے اور یہ ایسی صفت ہے جسے اﷲ اور اس کے رسول ہرگز پسند نہیں کرتے۔
            اسلام نے انسانیت کو  بشارت دی ہے کہ اگر کوئی انسان زمین بھر گناہ لے کر آئے پھر اﷲ سے مغفرت کا طلب گار ہو، اس کی بخشش چاہے تو اﷲ تعالیٰ اسے بخش دیتا ہے۔اﷲ تعالی کو توبہ واستغفار اس قدر پسند ہے کہ اگر لوگ مغفرت طلب نہ کریں تو اﷲ تعالیٰ ان کے بدلے دوسری قوم پیدا فرمائے گا جو غلطی کریں گے پھر توبہ کریں گے اور اﷲ کی مغفرت کے طلب گار ہوں گے اور اﷲ ان کی مغفرت فرمائے گا ۔ (صحیح مسلم وغیرہ)
            ٣۔ یہ قصہ ان احادیث کے بھی خلاف ہے جو اونٹ اور دیگر مویشیوں کی زکاة نہ ادا کرنے والوں کے بارے میں وارد ہوئی ہیں ، جن احادیث میں یہ کہا گیا ہے کہ ایسے لوگوں سے زبردستی زکاة وصول کی جائے گی اور بطور سزا ان کا نصف مال بھی لے لیا جائے گا([9])۔  جب کہ قصہ ہمیں بتاتا ہے کہ ثعلبہ نے اپنے اونٹ اور دیگر مویشیوں کی زکاة یہ کہہ کر روک لی تھی کہ یہ تو جزیہ ہے۔ اس کے باوجود رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے خلاف حرکت میں نہ آئے۔ ایک فرض حکم کو آپ نے نافذ نہیں کیا۔ زکاة روکنے والے پر اﷲ کا حکم جاری کرنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ اﷲسستی اور غفلت برتی۔ اسی طرح خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہم نے بھی اس معاملہ میں چشم پوشی سے کام لیا۔ بلکہ ثعلبہ کے مال میں جو اﷲ کا حق تھا خود ان کے پاس پہنچا لیکن انھوں نے لینے سے انکار کردیا۔ بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے؟! جب کہ یہی وہ صحابہ ہیں جنھوں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد زکاة روکنے والوں کے خلاف تلواریں بے نیام کرکے لشکرکشی کی تھی۔ یہ ایسی بات ہے جس پر تمام صحابہ کی رائیں متفق ہیں۔ پھر کیسے تینوں خلفاء ان کی زکاة لینے سے رک سکتے تھے ؟؟۔
            اگر یہ کہا جائے کہ ثعلبہ رضی اللہ عنہ بدری صحابی ہیں، اس لئے ان کے ساتھ تسامح سے کام لیا گیا ،جیسا کہ حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ فتح مکہ کے موقع پر پیش آیا تھا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ کسی بدری صحابی کو معاف کرنے کی گنجائش صرف انھیں امور میں ہے جن میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ یہ دیکھئے مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ بدری صحابی ہیں، لیکن عائشہ رضی اﷲ عنہاپر بہتان لگانے کی وجہ سے ان پر حد جاری کی گئی اور مسامحت سے کام نہیں لیا گیا ۔ ثعلبہ رضی اللہ عنہ   کا وہ عمل جو اس خود ساختہ قصہ میں بیان ہوا ہے اس میں حد جاری ہوگا جیسا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے مانعین زکاة کے ساتھ کئے گئے رویہ سے معلوم ہوتا ہے۔
            ٤۔ ثعلبہ بن حاطب رضی اللہ عنہ اسلام کی پہلی فیصلہ کن جنگ ''بدر'' کے غازیوں میں سے ہیں جن کے بارے میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے بشارت دی ہے کہ ان میں سے کوئی جہنم میں نہیں جائے گا([10])۔ اور جس آیت کے شان نزول کے طور پر یہ قصہ بیان کیا جاتا ہے ، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص کی موت حالت نفاق میں ہوئی ۔ لہذا یہ قصہ صریح طور پر غلط ہے ۔
            ٥۔احادیث سے ثابت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا بھی مسلمانوں کے حق میں دعا ہے جیسا کہ آگے ہم اس کی تفصیل پیش کررہے ہیں۔ اس کے برخلاف قصۂ ثعلبہ کا مضمون یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا اپنے ایک صحابی کے لئے بددعا میں تبدیل ہوگئی ، یہ عجیب بات ہے!!
            ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اﷲ میں بشر ہوں۔ اگر کسی مسلمان کو میں برا کہوں، یا لعنت کروں، یا ماروں، تو اس کے لئے اس کو پاکی اور رحمت بنادے([11]
            امام نووی رحمہ اﷲ نے صحیح مسلم میں ایک مستقل باب قائم کیا ہے جو کتاب البر والصلة کے تحت ہے '' باب من لعنه النبي صلى الله عليه وسلم، أو سبه، أو دعا عليه، وليس هو أهلا لذلك، كان له زكاة وأجراً ورحمة '' (جس کسی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی اوروہ لعنت کے لائق نہ تھا یا برا کہا یا بددعا کی حالانکہ وہ اس کے لائق نہ تھا تو وہ لعنت وبددعا اس کے لئے رحمت، پاکی اور ثواب ہوگی ) اس باب میں کئی احادیث مذکور ہیں۔ ہم صرف ایک کے ذکر پر اکتفا کرتے ہیں :
            انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ام سلیم کے پاس ایک یتیم لڑکی تھی جس کو ام أنس کہتے تھے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لڑکی کو دیکھ کر فرمایا: تو ہے وہ لڑکی؟  تو تو بڑی ہوگئی! اﷲ کرے تیری عمر بڑی نہ ہو ۔ وہ لڑکی یہ سن کر ام سلیم کے پاس روتی ہوئی گئی۔ ام سلیم نے کہا : بیٹی تجھے کیا ہوا؟ وہ بولی کہ مجھ پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بددعا کی ہے کہ میری عمر بڑی نہ ہو۔ اب میں کبھی بڑی نہ ہوں گی۔ یا یوں فرمایاکہ تیری ہمجولی بڑی نہ ہو۔ یہ سن کر ام سلیم اپنی اوڑھنی اوڑھتے ہوئے جلدی سے نکلیں اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملیں ۔ آپ نے پوچھا : ام سلیم کیا بات ہے ؟ وہ بولیں : اے اﷲ کے نبی!  آپ نے میری یتیم لڑکی پر بددعا کی ہے ؟ آپ نے پوچھا : کون سی بددعا؟ ام سلیم بولیں : وہ کہتی ہے کہ آپ نے فرمایا ہے کہ اس کی یا اس کی ہمجولی کی عمر بڑی نہ ہو ۔ یہ سن کر آپ ہنسے اور فرمایا: اے ام سلیم تو نہیں جانتی کہ میں نے اپنے رب سے شرط کی ہے۔ میں نے عرض کیا ہے کہ اے اﷲ ! میں ایک بشر ہوں۔ ایک بشر کی طرح خوش ہوتا ہوں اور ایک بشر کی طرح غصہ ہوتا ہوں۔ اگر میں اپنی امت میں سے کسی پر بددعا کردوں حالانکہ وہ بددعا کے لائق نہیں تو اس کے لئے پاکی، طہارت اور قیامت کے دن اپنی قربت کا ذریعہ بنادے([12]
            ٦۔ احادیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نہ ہی کثرت مال خود کوئی بری چیز ہے اور نہ ہی اس کے لئے دعا ۔ جیسا کہ صحیحین میں روایت ہے کہ خادم رسول انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے تعلق سے ان کی والدہ ام سلیم نے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی درخواست کی تو آپ نے دعا فرمائی «اللهم أكثر ماله وولده، وبارك له فيما أعطيته»([13]). (اے اﷲ ان کو مال اور اولاد کثرت سے دے اور اپنی نوازش میں ان کے لئے برکت عطا فرما)۔ 
            نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس دعا کا نتیجہ یہ ہوا کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کو بہ کثرت مال ودولت سے نوازا۔ چنانچہ ترمذی کی روایت ہے کہ آپ کے پاس ایک ایسا باغ تھا جس میں ہرسال دوبار پھل آتا تھا اور اس میں ایک ایسا پھول تھا جس سے مشک کی خوشبو آتی تھی۔ اسی طرح اﷲ تعالیٰ نے آپ کی اولاد میں بھی فراوانی عطا فرمائی۔ آپ کے بیٹے پوتے آپ کی زندگی ہی میں تقریباً سو تک پہنچ گئے جیسا کہ صحیح مسلم میں خود ان کا اپنا بیان مروی ہے([14]
            یہاں قابل غور نکتہ یہ ہے کہ اگر کثرت مال فتنہ اور کفر ونفاق میں مبتلا کردینے والی چیز ہوتی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کی دعا کیوں کرتے؟ جب کہ آپ سے کثرت مال کی دعا کا مطالبہ بھی نہیں کیا گیا تھا۔ بلکہ صرف دعا کی درخواست کی گئی تھی جس کے جواب میں آپ کوئی بھی دعا کرسکتے تھے۔ لیکن آپ نے ازخود کثرت مال واولاد کی دعا کی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کثرت مال بھی خیر وبھلائی کی ایک شکل ہے اور اس کے لئے دعا بھی کی جاسکتی ہے۔
            ٧۔صحیح بخاری میں قصۂ ثعلبہ رضی اللہ عنہ کے مشابہ ایک اور قصہ مروی ہے لیکن دونوں کا انداز الگ الگ ہے۔ جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ واعظین کی دلچسپی صحیح حدیثوں کو چھوڑ کر ضعیف حدیثوں سے کیوں ہوا کرتی ہے ۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ کا حکم فرمایا۔پھر آپ کو اطلاع دی گئی کہ ابن جمیل، خالد بن ولید اور عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہم نے صدقہ نہیں دیا ۔ آپ نے فرمایا: ابن جمیل کو صرف اس بات کی ناراضگی ہے کہ وہ فقیر تھا تو اﷲ اور اس کے رسول نے اسے غنی کردیا۔  جہاں تک خالد کی بات ہے تو تم لوگ ان پر ظلم کرتے ہو کیونکہ انھوں نے اپنا سارا سازو سامان اﷲ کی راہ میں وقف کررکھا ہے۔ اور جہاں تک عباس بن عبدالمطلب کی بات ہے تو وہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ہیں لہذا ان پر اتنا صدقہ ہے اور اس کے ساتھ اسی کے مثل اور بھی۔ (بخاری معہ فتح الباری٣/٣٣١)
            حافظ ابن حجررحمہ اﷲ نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ قاضی حسین نے یہ بات یقین کے ساتھ لکھی ہے کہ (وَمِنْهُمْ مَنْ عَاهَدَ اللَّهَ) کی آیت ابن جمیل ہی کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ حالانکہ مشہور یہ ہے کہ ثعلبہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ علامہ مہلب کا بیان ہے کہ یہ شخص منافق تھا پھر اس نے توبہ کرلی تھی ۔
            حافظ ابن حجر مزید فرماتے ہیں کہ ابن جمیل کا نام کتب حدیث میں مجھے نہیں مل سکا البتہ بعض شارحین نے ان کا نام عبد اﷲ اور بعض نے حمید اور کچھ متاخرین نے ابو جہم بتلایا ہے ۔
            اس حدیث میں اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن جمیل کے تعلق سے صرف اس قدر ارشاد فرمایاکہ اسے اس بات کے سوا اور کوئی ناراضگی نہیں کہ وہ فقیر تھا تو اﷲ اور اس کے رسول نے اسے غنی کردیا ۔ گویا آپ نے یہ فرمایاکہ اس شخص کے پاس کوئی عذر نہیں ہے اور وہ بڑا ہی ناشکرا، احسان فراموش اور احسان کے بدلہ برائی اپنانے والا آدمی ہے ۔
            یہاں پر اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے غنی کرنے والے کے طور پر اﷲ کے بعد اپنا نام بھی ذکر کیا کیونکہ آپ ہی اس کے اسلام میں داخل ہونے کا سبب تھے اور اﷲ تعالیٰ نے جو مال فے آپ کو عطا کیا تھا اور آپ کی امت کے لئے جو مال غنیمت حلال فرمایا تھا اسی کے ذریعہ محتاجی کے بعد امیری آئی ۔
            اس حدیث سے استنباط کرتے ہوئے حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ فقیری کے بعد امیری کی نعمت حاصل ہونے پر اﷲ کے حقوق کی ادائیگی میں غفلت پر تنبیہ ہونی چاہئے اور  واجب روکنے والے کی سرزنش کرنی چاہئے اور ایسے شخص کی غیرموجودگی میں اس کی بدگوئی کی جاسکتی ہے یعنی ایسے شخص کی غیبت حلال ہے ۔
            قابل غور یہ ہے کہ اس روایت کے مطابق زکاة روک لینے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن جمیل کی سرزنش پر اکتفا کیا جبکہ اس میں ابن جمیل کی توبہ کا بھی ذکر نہیں اس کے برخلاف ثعلبہ بن ابی حاطب رضی اللہ عنہ کے قصہ میں ان کی زکاة کی قبولیت سے انکار کردیا گیا حالانکہ وہ نادم اور تائب ہوکر آئے تھے ۔ واضح رہے کہ ابن جمیل سے متعلق حدیث صحیح بخاری کی ہے اور ثعلبہ سے متعلق روایت کی اسنادی حیثیت سے آپ واقف ہوچکے ہیں ۔
ایک رائے اور اس کی تردید:
            بعض لوگوں نے اس قصہ کی تصحیح کرتے ہوئے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ جو بدری صحابی ہیں وہ دوسرے ہیں اور جن کے بارے میں آیت کا نزول ہوا ہے وہ دوسرے ہیں ۔ بدری صحابی کا نام ثعلبہ بن حاطب رضی اللہ عنہ ہے اور دوسرے کا نام ثعلبہ بن ابی حاطب ہے ۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ ابن الکلبی کاکہناہے کہ بدری صحابی احد کے دن شہید ہوئے ہیں جب کہ صاحب قصہ کی موت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ہوئی ہے۔ دوسرے یہ کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں صاحب قصہ کا نام ثعلبہ بن ابی حاطب ہی مذکور ہے ۔ چنانچہ ان دلائل سے معلوم ہوا کہ دونوں دو شخص ہیں اور قصہ اپنی جگہ درست ہے ۔
            تھوڑی دیر کے لئے آدمی کو یہ دلائل بہ ظاہر معقول نظر آتے ہیں لیکن جب ان کا بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ساری بنیادیں جن پر اس قصہ کی تصحیح کی عمارت کھڑی کی گئی ہے نہایت کمزور ہیں ۔
            اولاً: ابن الکلبی کی بات پر یقین کرنا جائز نہیں کیونکہ وہ متہم بالکذب ہے([15])۔   حافظ ابن حجررحمہ اﷲ اس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ تمام قابل اعتماد اہل نقل وروایت اس کی مذمت پر اور احکام وفروع میں اس کی روایت قبول نہ کرنے پر متفق ہیں([16]) ۔
            ثانیاً: اگر ابن الکلبی کی بات ثابت ہوجائے کہ ثعلبہ احد کے دن شہید ہوئے ہیں تو یہ بات خود قصہ کے بطلان کی دلیل ہے نہ کہ کسی دوسری شخصیت کے وجود کی جیسا کہ ابن الأثیر رحمہ اﷲ نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے ([17]
            ثالثاً : ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت سے استدلال جائز نہیں کیونکہ وہ روایت سخت ضعیف ہے جیسا کہ اس پر کلام گذر چکا ہے ۔
            رابعاً : قصہ کی تصحیح کے لئے تطبیق کی مذکورہ صورت حافظ ابن حجر کی رائے ہے حالانکہ وہ خود اپنی اس رائے سے مطمئن نہیں ہیں اور اسی لئے انھوں نے اپنی تین کتابوں میں اس قصہ کو ضعیف اور اس سے استدلال نادرست قرار دیا ہے جیسا کہ آگے اس کی تفصیل ان شاء اﷲ آرہی ہے۔
ماہرین فن کی رائے :
             جن علماء نے اس قصہ کے ضعیف اور باطل ہونے کی صراحت کی ہے ذیل میں ان کا نام مع حوالہ درج ہے :
١۔ امام ابن حزم (وفات ٤٥٦ھ) محلی ١١/ ٢٠٧،٢٠٨
٢۔ امام بیہقی (وفات ٤٥٨ھ) فیض القدیر ٤/ ٥٢٧
٣۔ ابن الاثیر (وفات ٦٣٠ھ) أسد الغابہ ١/ ٢٨٥
٤۔ قرطبی (وفات ٦٧١ھ ) تفسیر ٨/٢١٠
٥۔ حافظ ذہبی(وفات ٧٤٨ھ) تجرید أسماء الصحابہ ١/٦٦
٦۔ حافظ عراقی (وفات ٨٠٦ھ) المغنی فی تخریج الاحیاء ٣/٣٣٨
٧۔ حافظ ہیثمی (وفات ٨٠٧ھ) مجمع الزوائد ٧/ ٣٢
٨۔ حافظ ابن حجر (وفات ٨٥٢ھ) اصابہ ١/١٩٨، فتح الباری ٣/٢٢٦، تخریج الکشاف ٤/٧٧
٩۔ علامہ ناصر الدین ألبانی (وفات ١٤٢٠ھ) سلسلہ ضعیفہ/٤٠٨١
            مجھے امید ہے کہ اس تفصیل کے بعد کسی انصاف پسند کے دل میں کسی قسم کی کوئی خلش باقی نہ ہوگی ۔ اﷲ تعالیٰ ہم سب کو اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مقام عظیم پہچاننے کی توفیق دے اور ہمیں صراط مستقیم پر گامزن رکھے ۔آمین ۔




([1])تفصیل کے لئے دیکھئے : طبقات ابن سعد ٣/٤٦٠، الاستیعاب ١/٢٠٠، تجرید أسماء الصحابہ ١/٦٦ جمہرة أنساب العرب ص٣٣٤،سیرت ابن ہشام ١/٦٨٨،عیون الاثر ١/٢٧٥، الاصابہ١/١٩٨، الثقات٣/٣٦، المعجم الکبیر للطبرانی ٢/٨٢، مغازی الواقدی ١/١٥٩، أسدالغابہ١/٢٨٣،٢٨٥۔
([2])ملا حظہ ہو تفسیر طبری ١٠/١٣٠، أسد الغابہ١/٢٨٣۔٢٨٥، استیعاب١/٢٠١، محلی١١/٢٠٨، المعجم الکبیر للطبرانی اور دلائل النبوة للبیہقی۔ نیز سیوطی نے الجامع الصغیر میں اس کو بغوی، ماوردی، ابن قانع ، ابن السکن اور ابن شاہین کی طرف منسوب کیا ہے۔ شوکانی نے فتح القدیر میں (٢/٣٨٥) ابن المنذر ، ابن ابی حاتم ، ابو الشیخ عسکری ، ابو نعیم اور ابن مردویہ کی طرف منسوب کیا ہے ۔
([3])ملاحظہ ہو المغنی للذہبی ص ٤٥٧، تہذیب التہذیب ٧/٣٩٧،میزان الاعتدال٣/١٦١، التاریخ الکبیر ٦/٣٠١، الضعفاء للعقیلی ٣/٢٥٤،الجرح والتعدیل ٧/٩ ۔
([4])ا لمجروحین ٢/٦٣.
([5])تفسیر طبری ١٠/١٣٠
([6]) ملاحظہ ہو تاریخ بغداد ٥/٣٢٢،٨//٢٩،٩/١٢٦،المجروحین ١/٢٤٣، ٢٤٦، ٢/١٧٦،  لسان المیزان٢/٢٧٨،٣/١٨،٥/١٧٤.
([7])تفسیر طبری ١٠/١٣٢. 
([8])مجروحین ٢/٦٩،نیز ملاحظہ ہو میزان ٣/٢٧٣،٢٨٠،تہذیب التہذیب ٨/٧٠،٧٥.
([9])یہ حدیث حسن ہے ۔ ملاحظہ ہو ابو داؤد ٢/١٠١، نسائی ٥/١٥،١٧،٢٥، مسند احمد ٥/٢،٤،ابن خزیمہ٤/١٨، دارمی ١/٣٩٦، ابن الجارودص ٣٤١، ابن ابی شیبہ ٣/١٢٢، حاکم ١/ ٣٩٨، عبدالرزاق ٤/١٨، بیہقی ٤/ ١٠٥۔
([10])بخاری (٤٢٧٤) مسلم (١٢٩٥،٣٤٩٥)
([11])مسلم (٢٦٠١)
([12])مسلم( ٢٦٠٣)
([13])بخاری (٦٠١٨)ومسلم (٢٤٨٠)
([14])مسلم (٢٤٨١)
([15])میزان الاعتدال ٣/ ٥٥٩ ، متہم بالکذب محدثین کی اصطلاح میں اس شخص کو کہتے ہیں جو لوگوں سے بات چیت میں جھوٹا ہو مگر حدیث میں اس کا جھوٹ نہ پکڑا گیا ہو ۔
([16])تہذیب التہذیب ٩/١٨٠۔
([17])اسد الغابہ ١/٢٨٥۔

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق