السبت، 25 مايو 2013

ایک داستان عبرت (ابوطالب کی وفات کا قصہ)

  قصة ذات عبر
   (قصة وفاة أبي طالب)

ایک داستان عبرت
(ابوطالب کی وفات کا قصہ)


اعداد:
عبدالہادی عبدالخالق مدنی
داعية المكتب التعاوني للدعوة والإرشاد  وتوعية الجاليات بالأحساء


 

مقدمہ
الحمد لله, والصلاة والسلام على رسول الله, أما بعد:
قصوں اور داستانوں سے انسان کی دلچسپی نیز اس کی اثر انگیزی اور سبق آموزی کسی رد وقدح اور اختلاف کے بغیر ایک تسلیم شدہ امر ہے۔ اللہ کا کلام قرآن مجید قصوں کی اہمیت پر شاہد عدل ہے۔ ارشاد ہے: {نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ هَذَا الْقُرْآنَ} [يوسف: 3] (ہم اس قرآن کو تمہاری طرف وحی کر کے بہترین پیرایہ میں واقعات اور حقائق تم سے بیان کرتے ہیں)۔ نیز ارشاد ہے: {لَقَدْ كَانَ فِي قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِأُولِي الْأَلْبَابِ} [يوسف: 111] (اگلے لوگوں کے  قصوں میں عقل و ہوش رکھنے والوں کے لیے عبرت ہے)۔
زیر نظر کتابچہ "ایک داستان عبرت" (ابوطالب کی وفات کا قصہ) درحقیقت سیرت نبوی بلکہ تاریخ اسلام کا ایک نہایت عبرتناک واقعہ ہے۔ اس واقعہ پر کتابچہ ترتیب دینے کا محرک دراصل ناچیز کا وہ خطاب عام ہے جو مملکت سعودی عرب کے ایک اہم اسلامی ودعوتی مرکز احساء اسلامک سینٹر  کے وسیع لیکچرہال میں 15/جمادی اول 1431ھ مطابق 29/اپریل 2010ء بروز جمعرات کو ہوا۔ اس وقت اس کا عنوان تھا "ہدایت کا مالک اللہ ہے"۔ احساء اسلامک سینٹر سے وابستہ ہمارے ایک عزیز طالب علم محمد ابراہیم زین الدین مقدّم وفقہ اللہ نے اس تقریر کو  کمپیوٹر پر لکھا ، اللہ انھیں اپنے فضل خاص سے نوازے۔ آمین۔  ناچیز نے اس کا مراجعہ کیا اور اس دوران کافی ترمیم واصلاح اور حذف واضافے  کئے حتی کہ عنوان بھی تبدیل کردیا ۔
اللہ سبحانہ سے دعا ہے کہ  باری تعالی اسے خود میرے لئے اور اس کا مطالعہ کرنے والے تمام افراد کے لئے باعث ہدایت ونجات اور دنیا وآخرت میں نافع وکارآمد بنائے۔ اس کے مرتب اور اس کی نشرواشاعت میں معاون ہر فرد کو جزائے خیر سے نوازے۔ آمین۔
عبد الہادی عبد الخالق مدنی
کاشانۂ خلیق۔ اٹوا بازار۔سدھارتھ نگر۔یوپی
داعی احساء اسلامک سینٹر ہفوف ، سعودی عرب
1434 ھ/ 2013 ء




ایک داستان عبرت
(ابوطالب کی وفات کا قصہ)

ابوطالب کی وفات کا قصہ:
«سعید بن مسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان کے والد مسیب بن حزن رضی اللہ عنہما نے بیان کیا  کہ جب ابوطالب کی وفات کا وقت آیا تو نبی ﷺ ان کے پاس گئے، ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بھی وہیں بیٹھے ہوئے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا: اے چچا! لا الہ الا اللہ کہہ دیجئے ، میں اس کلمہ کو اللہ کے پاس آپ کے حق میں حجت بناؤں گا، اسی وقت ابوطالب سے ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا: اے ابوطالب ! کیا آپ عبدالمطلب کا دین چھوڑ دیں گے؟ ایک طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم ابوطالب کے سامنے کلمہ پیش کرتے رہے دوسری طرف وہ دونوں اپنی بات کہتے رہے حتی کہ آخری بات جو ان کی زبان سے نکلی وہ یہی تھی کہ وہ عبدالمطلب کے دین پر ہیں اور انھوں نے لاالہ الا اللہ کہنے سے انکار کردیا۔ نبی ﷺ نے کہا کہ اللہ کی قسم میں اس وقت تک آپ کے لئے بخشش کی دعا مانگا کروں گا جب تک کہ روک نہ دیا جاؤں، چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی: {مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ} [التوبة: 113] [نبی کو اور دوسرے مسلمانوں کو جائز نہیں کہ مشرکین کے لئے مغفرت کی دعا مانگیں اگرچہ وہ رشتہ دار ہی ہوں اس امر کے ظاہر ہوجانے کے بعد کہ یہ لوگ جہنمی ہیں]۔نیز ابوطالب کے بارے میں اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب فرماکر یہ آیت نازل کی: {إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ} [القصص: 56] [آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے۔ ہدایت والوں سے وہی خوب آگاه ہے]۔»
حدیث مذکور صحیح بخاری([1]) اور صحیح مسلم([2]) کی متفق علیہ روایت ہے۔ صحیح مسلم کے الفاظ کی کاملیت وجامعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کے عربی الفاظ پیش خدمت ہیں: عن ابن شهاب قال: أخبرني سعيد بن المسيب، عن أبيه، قال: لما حضرت أبا طالب الوفاة جاءه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فوجد عنده أبا جهل، وعبد الله بن أبي أمية بن المغيرة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يا عم، قل: لا إله إلا الله، كلمة أشهد لك بها عند الله "، فقال أبو جهل، وعبدالله بن أبي أمية: يا أبا طالب، أترغب عن ملة عبد المطلب؟ فلم يزل رسول الله صلى الله عليه وسلم يعرضها عليه، ويعيدان له تلك المقالة حتى قال أبو طالب آخر ما كلمهم: هو على ملة عبد المطلب، وأبى أن يقول: لا إله إلا الله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أما والله لأستغفرن لك ما لم أنه عنك»، فأنزل الله عز وجل: {ما كان للنبي والذين آمنوا أن يستغفروا للمشركين ولو كانوا أولي قربى من بعد ما تبين لهم أنهم أصحاب الجحيم} [التوبة: 113]، وأنزل الله تعالى في أبي طالب، فقال لرسول الله صلى الله عليه وسلم: {إنك لا تهدي من أحببت ولكن الله يهدي من يشاء وهو أعلم بالمهتدين}۔
ابوطالب کی وفات کا یہ واقعہ اپنے اندر درس وعبرت کے بہت سے خزانے رکھتا ہے، ان شاء اللہ ہم آگے الگ الگ عنوانات دے کر ان پرتفصیلی گفتگو کریں گے۔ پہلے آئیے ابوطالب کا مختصر تعارف پیش کردیا جائے۔
ابوطالب کا مختصر تعارف([3]):
نام ونسب: أبو طالب بن عبدالمطلب بن هاشم بن عبد مناف بن قصي ۔  قبیلۂ قریش کے مشہور خاندان بنوہاشم سے تعلق رکھتے ہیں۔ مشہور قول کے مطابق آپ کا نام عبدمناف تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سگے چچا ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد عبداللہ کے سگے بھائی ہیں۔ ابوطالب اور عبداللہ دونوں کی والدہ کا نام  فاطمہ بنت عمرو بن عائذ ہے۔
اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ ابوطالب کی بیوی کا نام بھی فاطمہ ہے، فاطمہ بنت اسد بن ہاشم بن عبدمناف۔ ان کو اللہ تعالی نے ایمان کی سعادت عطا فرمائی، چنانچہ مدینہ ہجرت کی اور وہیں وفات ہوئی۔
ابوطالب کے چار فرزند تھے: ایک طالب، دوسرے عقیل، تیسرے جعفر اور چوتھے علی اور دوصاحبزادیاں تھیں: ایک ام ہانی اور دوسری جمانہ۔ طالب کے سوا سب کو اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ رضی اللہ عنہم اجمعین۔
ابوطالب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے پینتیس سال قبل پیدا ہوئے۔ عبدالمطلب نے اپنی وفات کے وقت ابوطالب کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت وپرورش کی وصیت کی تھی جسے ابوطالب نے بخوبی نبھایا۔ اعلان نبوت ورسالت کے بعد بھی اگرچہ خود اسلام قبول نہ کیا لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت وحمایت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ آپ کی شان میں قصیدے بھی کہے۔  جب اہل مکہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ پر ایمان لانے والوں کا اقتصادی اور معاشرتی بائیکاٹ کیااس وقت بھی ابوطالب نے اور ان کی وجہ سے پورے بنی ہاشم اور بنی مطلب نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا اور آپ کے ساتھ "شعب ابی طالب" کا حصار برداشت کیا۔
نبوت کے دسویں سال ابوطالب کی وفات ہوئی ۔ اس وقت وہ اَسّی (80) سال سے اوپر کے ہوچکے تھے۔ ان کی وفات سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کافی غم ہوا کیونکہ آپ نے ایک شفیق حمایتی اور ہمدرد وغمگسار چچا کو کھودیا تھا۔
ابوطالب کے مختصر تعارف کے بعد اب ان کے قصۂ وفات کی عبرتوں پر نظر ڈالتے ہیں۔




حق وباطل کی کشمکش:
ستيزه كاررہاہے ازل سے تا امر وز
چراغ مصطفوى سے شرار بو لہبی
          حق وباطل كى كشمش اور ہدايت وضلالت كا تصادم ابتدائےآفرينش سےہے۔ ايك طرف آدم اور ان كى اولاد ہے، دوسرى جانب ابليس اور اس كى اولاد ہے۔ يہ جنگ اور يہ معركہ آرائی قديم ہے۔ یہ اس كائنات میں سنت الہی ہے۔اس روئےزمین سےكلى طور پر كفر و شرك كا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ ہمیشہ اہل باطل اپنی طرف بلاتے رہیں گے اور سدا اہل حق کو اپنی طرف بلاتے رہنا چاہئے ۔کفار ومشرکین، یہود ونصاری، منافقین واہل بدعت سب اپنی اپنی دعوت وتبلیغ میں سر گرم ہیں۔ ہماری ذرابھی سستی اور غفلت باطل کو پھیلنے اور حق کے سمٹنے کا سبب ہوگی ۔لہذا ہر وقت بیدار رہنے کی ضرورت ہے ۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے: {أُولَئِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِ وَيُبَيِّنُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ} [البقرة: 221] [یہ لوگ جہنم کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ جنت کی طرف اور اپنی بخشش کی طرف اپنے حکم سے بلاتا ہے، وه اپنی آیتیں لوگوں کے لئے بیان فرما رہا ہے، تاکہ وه نصیحت حاصل کریں]۔
ہدایت کا مالک صرف اللہ ہے:
اللہ تعالی کا ارشاد ہے: {إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ} [القصص: 56] [آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے۔ ہدایت والوں سے وہی خوب آگاه ہے]۔
اس آیت میں توحید کا اعلان ہےاور  مقصد رسالت کابیان بھی ۔
نیز اللہ تعالی کا ارشاد ہے    :  {وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ} [الشورى: 52] [بیشک آپ راه راست کی رہنمائی کررہے ہیں]۔
دونوں آیتوں میں بظاہر تعارض اور ٹکراؤ معلوم ہوتا ہے حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ لفظ ہدایت دومعنوں پر مشتمل ہے ایک ہدایت توفیق یعنی راستہ پر چلادینا اور دوسرا ہدایت بیان یعنی راستہ دکھادینا۔ ہدایت بیان ابتدا ہے اور ہدایت توفیق اس کی انتہا ہے۔ ہدایت بیان کا بندے کو اختیار ہے لیکن اسے انجام تک پہنچانا صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔ ہدایت توفیق کا مالک صرف اللہ تعالی ہے البتہ ہدایت بیان عام ہے، اللہ کی اجازت سے دوسرے بھی یہ عمل انجام دے سکتے ہیں۔
مذکورہ آیت سے ایک اہم بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ   کچھ باتیں اللہ تعالیٰ کی خصوصیات میں سے ہیں جن میں اللہ کےرسول ﷺ بھی اللہ کے شریک نہیں ہیں مثلاً :
u ہدایت کو دل میں اتارنا صرف اللہ کا کام ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے    :   {لَيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ} [البقرة: 272] (انھیں ہدایت پر لاکھڑا کرنا آپ کے ذمہ نہیں بلکہ ہدایت اللہ تعالی دیتا ہے جسے چاہتا ہے)۔ اس کی تائید مندرجہ ذیل حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ آپ اپنے ہر خطبہ میں اس بات کا اعلان کیا کرتے تھے  «مَنْ يَهْدِهِ اللهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ»([4]). [جسے  اللہ ہدایت دے اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا، اور جس کو وہ گمراہ کردے اس کو کوئی ہدایت دینے والا نہیں]۔
 v  گناہوں کو بخشنے والا صرف اللہ ہے۔   اللہ تعالی کا ارشاد ہے    :   {وَمَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّهُ} [آل عمران: 135] . [فی الواقع اللہ تعالیٰ کے سوا اور کون گناہوں کو بخش سکتا ہے؟]
w   پیدا کرنا اور روزی دینا  صرف اللہ کا کام ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے    :   {يَا أَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللَّهِ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَأَنَّى تُؤْفَكُونَ} [فاطر: 3] [لوگو! تم پر جو انعام اللہ تعالیٰ نے کئے ہیں انہیں یاد کرو۔ کیا اللہ کے سوا اور کوئی بھی خالق ہے جو تمہیں آسمان وزمین سے روزی پہنچائے؟ اس کے سوا کوئی حق معبود نہیں۔ پس تم کہاں الٹے جاتے ہو؟] .
 x   فتح و غلبہ عطا کرنے والا صرف اللہ ہے۔    اللہ تعالی کا ارشاد ہے :  {وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ} [آل عمران: 126] [فتح ونصرت تو اللہ ہی کی طرف سے ہے جو غالب اور حکمتوں والا ہے]۔
y غوث ہونا اور فریاد کو پہنچنا صرف اللہ کی شان ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: {إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ} [الأنفال: 9] [اس وقت کو یاد کرو جب کہ تم اپنے رب سے فریاد کررہے تھے، پھر اس نے تمہاری فریاد سن لی]۔
متفق علیہ([5]) حدیث ہے: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ دعا کے لئے اوپر اٹھائے اور فرمایا: «اللَّهُمَّ أَغِثْنَا، اللَّهُمَّ أَغِثْنَا، اللَّهُمَّ أَغِثْنَا». (اے اللہ ! ہماری فریاد سن لے، اے اللہ ہمیں بارش عطا فرما،  اے اللہ ! ہماری فریاد سن لے)۔
 وعَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رضي الله عنه، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَرَبَهُ أَمْرٌ قَالَ: «يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغِيثُ ».([6])
    (انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کوئی تکلیف دہ معاملہ درپیش ہوتا تو یہ دعا کرتے: «يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغِيثُ». (اے زندہ ! اے سنبھالنے والے! میں تیری ہی رحمت سے فریاد کرتا ہوں)۔
z    نفع و نقصان کا مالک صرف اللہ ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: {قُلْ مَنْ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ قُلِ اللَّهُ قُلْ أَفَاتَّخَذْتُمْ مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ لَا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ نَفْعًا وَلَا ضَرًّا} [الرعد: 16] [آپ پوچھئے کہ آسمانوں اور زمین کا پروردگار کون ہے؟ کہہ دیجئے! اللہ۔ کہہ دیجئے! کیا تم پھر بھی اس کے سوا اوروں کو حمایتی بنا رہے ہو جو خود اپنی جان کے بھی بھلے برے کا اختیار نہیں رکھتے]۔
ان آیات میں اللہ تعالی نے خوب واضح الفاظ میں یہ اعلان فرمادیا کہ غیراللہ تو خود اپنے بھلے برے اور نفع ونقصان کے مالک نہیں ہیں وہ کسی اور کے نفع ونقصان کے مالک کس طرح ہوسکتے ہیں!۔
{     کائنات میں تصرف کا مالک صرف اللہ ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے    : {لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ} [آل عمران: 128] [اے پیغمبر! آپ کے اختیار میں کچھ نہیں
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سید الانبیاء اور خاتم المرسلین ہونے کے باوجود جب اللہ کے سامنے کوئی اختیار نہیں رکھتے تو بھلا دوسرے لوگوں کی کیا اوقات ہوسکتی ہے!۔
|     دعاؤں کا قبول کرنے والا صرف اللہ ہے۔      حتی کہ انبیا ء ورسول کی دعائیں بھی اللہ چاہے تو قبول کرے اور چاہے تو رد کردے ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: {سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ أَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ لَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ } [المنافقون: 6] [ان (منافقین) کے حق میں آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا استغفار کرنا اور نہ کرنا دونوں برابر ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہر گز نہ بخشے گا]۔
یاد رہے کہ بعض مولوی جو یہ بات کہتے ہیں کہ اللہ کے کچھ بندے ایسے ہیں کہ اگر وہ دعا کریں کہ قیامت قائم نہ ہو تو قیامت قائم نہ ہوگی، یہ بالکل جھوٹ اور باطل ہے ۔ اللہ تعالی نے جس چیز کے واقع ہونے کا فیصلہ کر دیا ہے کسی کی دعا سے اسے ٹالا نہیں جا سکتا ۔  ابراہیم  علیہ السلام نے اپنے باپ کی بخشش کی دعا کی، اللہ تعالی نے قبول نہیں کی،  نوح  علیہ السلام  نے اپنے بیٹے کے نجات کی دعا کی، اللہ تعالی نے قبول نہیں کی، مخلوق میں سب سے افضل، اللہ کے حبیب و خلیل محمد صلی اللہ علیہ وسلم جن کے قدموں کے نیچے سارے اولیاء ہیں، آپ نے اپنے چچا ابو طالب کی بخشش کی دعا کی، اللہ تعالی نے قبول نہیں کی بلکہ ایسی دعا مانگنے سے روک دیا ۔  نیز فرمایا   :  {إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ} [التوبۃ: 80] (اے نبی! اگر آپ کفارومنافقین کے لئے ستر بار بھی بخشش کی دعا کریں تو اللہ تعالی انہیں ہرگز  نہیں بخشے گا )۔
} مریضوں کو شفاء دینے والا صرف اللہ ہے۔      اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ابراہیم علیہ السلام کی زبانی ارشاد فرمایا : {وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ} [الشعراء: 80] [اور جب میں بیمار پڑ جاؤں تو مجھے وہ (اللہ تعالی ہی) شفا عطا فرماتا ہے
~ اولاد دینے والا صرف اللہ ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: {لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَ أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا وَيَجْعَلُ مَنْ يَشَاءُ عَقِيمًا إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ} [الشورى: 49- 50]
[آسمانوں کی اور زمین کی سلطنت اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے، وه جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جس کو چاہتا ہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے دیتا ہے یا انہیں جمع کردیتا ہے بیٹے بھی اور بیٹیاں بھی اور جسے چاہے بانجھ کر دیتا ہے، وه بڑے علم والا اور کامل قدرت والا ہے]۔   
جس طرح اللہ تعالیٰ کی بہت سی خصوصیات ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں حتی کہ ساری مخلوق میں سب سے افضل، اولاد آدم کے سردار،  رحمۃ للعالمین، خاتم النبیین محمد رسول اللہ ﷺ بھی نہیں،  ایسے ہی اللہ تعالی کے کچھ حقوق بھی ہیں جو اس کے ساتھ خاص ہیں جن میں اس کا کوئی شریک وسہیم نہیں حتیٰ کہ محمد رسول اللہ ﷺ بھی نہیں،  جیسا کہ ارشاد ہے  :  {وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللَّهَ وَيَتَّقْهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ } [النور: 52] [جو بھی اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی فرماں برداری کریں، اور اللہ کا خوف وخشیت اور اس کا تقوی  وپرہیزگاری اختیار کریں، وہی نجات پانے والے ہیں]۔
اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اطاعت اللہ اور اس کے رسول کا مشترکہ حق ہے لیکن تقوی اور خشیت صرف اللہ کا حق ہے۔
      ہم نے ابتدا میں عرض کیا تھا کہ اس آیت میں توحید کا اعلان ہے اور مقصد رسالت کا بیان بھی ۔ توحید کا اعلان اور اس کی مختصر تشریح آپ نے ملاحظہ فرما لی ۔ اب آیئے مقصد رسالت پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
مقصد رسالت:
جب ہم قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں تو مختلف انداز میں مقصد رسالت کا بیان پاتے ہیں، آیئے چند آیات پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
1)    اللہ تعالی کا ارشاد ہے:  {وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ} [الشورى: 52]  [بیشک آپ راه راست کی رہنمائی کر رہے ہیں]۔
2)    نیز ارشاد ہے: {إِنَّا قَدْ أُوحِيَ إِلَيْنَا أَنَّ الْعَذَابَ عَلَى مَنْ كَذَّبَ وَتَوَلَّى} [طه: 48] [(موسی اور ہارون علیہما السلام نے فرعون سے اپنی نبوت ورسالت کا مقصد بتلاتے ہوئے کہا) ہماری طرف وحی کی گئی ہے کہ جو جھٹلائے اور روگردانی کرے اس کے لئے عذاب ہے
3)    نیز ارشاد ہے: {يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ * قُمْ فَأَنْذِرْ * وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ * وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ * وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ * وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ * وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ} [المدثر: 1 - 7] [اے کپڑا اوڑھنے والے، کھڑا ہوجا اور آگاه کردے, اور اپنے رب ہی کی بڑائیاں بیان کر، اپنے کپڑوں کو پاک رکھا کر، ناپاکی کو چھوڑ دے، اور احسان کرکے زیاده لینے کی خواہش نہ کر، اور اپنے رب کی راه میں صبر کر
4)      نیز ارشاد ہے: {أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ بَلْ هُوَ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَا أَتَاهُمْ مِنْ نَذِيرٍ مِنْ قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ } [السجدة: 3] (کیا یہ کہتے ہیں کہ اس نے اسے گھڑ لیا ہے۔ (نہیں نہیں) بلکہ یہ تیرے رب تعالیٰ کی طرف سے حق ہے تاکہ آپ انہیں ڈرائیں جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا۔ تاکہ وه راه راست پر آجائیں)۔
5)    نیز ارشاد ہے: {لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَا أُنْذِرَ آبَاؤُهُمْ فَهُمْ غَافِلُونَ} [يس: 6] (تاکہ آپ ایسے لوگوں کو ڈرائیں جن کے باپ دادے نہیں ڈرائے گئے تھے، سو (اسی وجہ سے) یہ غافل ہیں)۔
6)   نیز ارشاد ہے: {ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ} [النحل: 125] (اپنے رب کی راه کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلایئے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجئے)۔
7)    نیز ارشاد ہے       : {يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ وَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ} [المائدة: 67] (اے رسول جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے پہنچا دیجیئے۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی، اور آپ کو اللہ تعالیٰ لوگوں سے بچا لے گا بےشک اللہ تعالیٰ کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا)۔
مذکورہ آیات کو دیکھنے سے یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ مقصد رسالت اور کار نبوت کیا ہے؟
کسی نبی کا کام یہ ہے کہ وہ صراط مستقیم کی رہنمائی کرے یعنی سیدھا راستہ بتائے۔ نہ ماننے والوں، انکار کرنے والوں اور جھٹلانے والوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرائے،  ہمیشہ اللہ کی طرف بلاتا رہے، اللہ کی باتوں اور اس کے حکموں کو لوگوں تک پہنچاتا رہےاور انکار کے انجام بد سے آگاہ اور خبردار کرتا رہے۔ کوئی شخص نبی پر ایمان لائے نہ لائے ،  ہدایت پائے نہ پائے ، نبی کا کام پورا ہے کیونکہ ہدایت کا مالک تو اللہ ہے جیسا کہ ارشاد ہے     :   {مَنْ يَهْدِ اللَّهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِ وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَنْ تَجِدَ لَهُ وَلِيًّا مُرْشِدًا } [الكهف: 17] [اللہ تعالیٰ جس کی رہبری فرمائے وه راه راست پر ہے اور جسے وه گمراه کردے ناممکن ہے کہ آپ اس کا کوئی کارساز اور رہنما پاسکیں
نیز  ارشاد ہے :  {إِنْ تَحْرِصْ عَلَى هُدَاهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ يُضِلُّ } [النحل: 37] [گو آپ ان کی ہدایت کے خواہش مند رہے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اسے ہدایت نہیں دیتا جسے گمراه کر دے اور نہ ان کا کوئی مددگار ہوتا ہے
نیز ارشاد ہے : {فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ وَمَنْ يُرِدْ أَنْ يُضِلَّهُ يَجْعَلْ صَدْرَهُ ضَيِّقًا حَرَجًا كَأَنَّمَا يَصَّعَّدُ فِي السَّمَاءِ كَذَلِكَ يَجْعَلُ اللَّهُ الرِّجْسَ عَلَى الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ} [الأنعام: 125] [سو جس شخص کو اللہ تعالیٰ راستہ پر ڈالنا چاہے اس کے سینہ کو اسلام کے لیے کشاده کر دیتا ہے اور جس کو بے راه رکھنا چاہے اس کے سینہ کو بہت تنگ کردیتا ہے جیسے کوئی آسمان میں چڑھتا ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ ایمان نہ لانے والوں پر ناپاکی مسلط کردیتا ہے
نیز   ارشاد ہے :  {وَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ فِتْنَتَهُ فَلَنْ تَمْلِكَ لَهُ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا أُولَئِكَ الَّذِينَ لَمْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يُطَهِّرَ قُلُوبَهُمْ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ } [المائدة: 41] [اور جس کا خراب کرنا اللہ کو منظور ہو تو آپ اس کے لئے الہی ہدایت میں سے کسی چیز کے مختار نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا اراده ان کے دلوں کو پاک کرنے کا نہیں، ان کے لئے دنیا میں بھی بڑی ذلت اور رسوائی ہے اور آخرت میں بھی ان کے لئے بڑی سخت سزا ہے]۔
            مندرجہ بالا آیات کی روشنی میں یہ بات پوری طرح واضح اور عیاں ہے کہ ہدایت کا مالک ومختار فقط اللہ ہے وہ جسے چاہے صراط مستقیم کی ہدایت دے اور جسے چاہے راہ راست سے گمراہ کرے۔
جب اللہ تعالی نے ہدایت نہیں دینی چاہی تو ابراہیم علیہ السلام کے والد کو ہدایت سے محروم کردیا۔ نوح علیہ السلام کے فرزند کو ہدایت نہیں دی۔ آخری نبی، سید الانبیاء محمد مصطفی ﷺ کے بہت سے قریبی رشتہ دار وں کو ہدایت نہیں دی۔آپ کے چچا ابولہب اور دوسرے قریب ترین چچا ابوطالب جو نہ صرف چچا بلکہ آپ سے بے حد محبت کرنے والے اور حمایتی بھی تھے ان کو بھی ہدایت نہیں دی۔
لیکن جب اللہ تعالی نے کسی کو ہدایت دینا چاہا تو ایسے لوگوں کو بھی نعمت ہدایت سے سرفراز فرمایا جوقریش تو دور کی بات ہے عرب میں سے بھی نہیں تھے، سلمان فارسی کوہدایت ملی، بلال حبشی کو ہدایت ملی، صہیب رومی کو ہدایت ملی۔ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ۔
اللہ کی حکمت جسے چاہا ہدایت سے نوازا اور جسے چاہا اس سے محروم کردیا۔ انصار مدینہ کو ہدایت ملی اور صنادید مکہ اس سے محروم رہے۔ ابو جہل کے بیٹے عکرمہ ہدایت سے فیضیاب ہوئے، اور خود ابوجہل کو ہدایت نہیں ملی، عبداللہ بن ابی منافق کے فرزند ہدایت سے سرفراز ہوئے اور خود عبداللہ بن ابی اس سے محروم رہا۔ سچ ہے: {إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ} [القصص: 56] [آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے۔ ہدایت والوں سے وہی خوب آگاه ہے]۔



دعوت ایک جہد مسلسل
اللہ کی طرف ہمیشہ دعوت دیتے رہنا چاہئے۔ نبی ﷺ دعوت ہی کی خاطر اپنے قریب المرگ چچا کے پاس تشریف لے گئے تھے۔ کوئی قبول کرے نہ کرے ہمیں اکتاہٹ، جھنجھلاہٹ اور مایوسی کا شکار ہوئے بغیر اپنے دعوتی عمل میں مشغول رہنا چاہئے۔ نوح علیہ السلام اپنی قوم کو 950   سال تک اللہ کی طرف بلاتے رہے،  ان میں ہمارے لئے بہترین اسوہ ہے۔ اگر ہماری دعوت قبول کرلی جاتی ہے الحمدللہ اور اگر قبول نہ کی گئی تو ہمیں اجروثواب مل گیا اور مدعو پر حجت قائم ہوگئی۔
داعی کو دعوت کا کام بطور عبادت کرتے رہنا چاہئے، لوگوں کو نیکیوں کا حکم دینے اور برائیوں سے روکنے میں پیہم لگے رہنا چاہئے خواہ کوئی اس کی بات قبول کرے یا نہ کرے، دعوت دینا داعی کی ذمہ داری ہے اور دعوت کو قبول کرنا دوسروں کی ذمہ داری ہے ، ہر کسی سے صرف اس کی ذمہ داری کے بارے میں سوال ہوگا۔ داعی سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ لوگوں نے تمھاری دعوت کیوں نہیں قبول کی۔ البتہ اگر اس نے دعوت نہیں پہنچائی ، نیکی کا حکم نہیں دیا اور برائی سے نہیں روکا تو ضرور اس سے سوال ہوگا۔
دعوت بستر مرگ پر
ابوطالب بسترمرگ پر صاحب فراش ہیں، اللہ کے رسول ان کو توحید کی دعوت دینے کے لئے پہنچتے ہیں، آپ ہرگز ایسا نہیں سوچتے کہ آخری وقت دعوت دینے کا کیا فائدہ، جیسا کہ شاعر کہتا ہے:
زندگی ساری کٹی عشق بتاں میں مومن
آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہونگے
آخری وقت میں مسلمان ہوجانا معیوب نہیں بلکہ عیب کی بات تو یہ ہے کہ آخری وقت میں بھی انسان مسلمان نہ ہو۔
انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ایک یہودی بچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا ، ایک دفعہ بیمار ہوا، آپ اس کی عیادت کو تشریف لے گئے، اس کے سرھانے بیٹھے اور فرمایا: "مسلمان ہوجا" اس نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے اپنے باپ پر سوالیہ نظر ڈالی، باپ نے کہا: ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مان لو، چنانچہ وہ مسلمان ہوگیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے یہ کہتے ہوئے نکلے: «الحمد لله الذي أنقذه من النار([7] (ہرقسم کی تعریف اللہ کے لئے جس نے اسے جہنم سے آزاد فرمادیا)۔



کلمۂ شہادت اسلام کا دروازہ
جوشخص  کلمہ کا زبان سے اقرار کرلے اسے مسلمان تسلیم کیا جائے گا۔ پھر اگر اس سے اسلام سے خارج کردینے والا کوئی قول یا عمل صادر ہوتا ہے تو شروط وموانع کو دیکھ کر فیصلہ ہوگا۔ اگر کلمہ گو شخص دل سے بھی اس کلمہ کی تصدیق کرتا ہے تو وہ اللہ کے نزدیک بھی مسلمان ہوگا جسے ہم سچا مسلمان سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ اگر دل سے کسی نے اسلام قبول نہیں کیا صرف زبان سے کلمہ پڑھ لیا تو اسے ظاہری طور پر مسلمان تو مانا جائے گا لیکن درحقیقت وہ منافق ہوگا۔
خاتمہ پر دارومدار
اعمال کا دارومدار خاتمہ پر ہے ۔ ابوطالب پوری زندگی کفر وشرک پر قائم رہے  اگر انھوں نے موت سے قبل کلمہ پڑھ لیا ہوتا تو انھیں مسلمان تسلیم کیا جاتا۔ اس مسئلہ کی تائید مندرجہ ذیل حدیث سے بھی ہوتی ہے:
«إِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ حَتَّىٰ مَا يَكُوْنُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلَّا ذِرَاعٌ فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ فَيَدْخُلُهَا، وَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ حَتَّىٰ مَايَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلَّا ذِرَاعٌ فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الجَنَّةِ فَيَدْخُلُهَا»([8]). «تم میں سے کوئی جنت والوں کا عمل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ جنت اور اس کے بیچ صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے, تو اس کی کتاب (تقدیر) آگے بڑھ جاتی ہے اور وہ جہنم والوں کا عمل کرنے لگتا ہے پھر جہنم میں چلا جاتا ہے۔ اور تم میں سے کوئی جہنم والوں کا عمل کرتا رہتا ہے, یہاں تک کہ جہنم اور اس کے بیچ صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ باقی رہ جاتا ہے, پھر اس کی کتاب(تقدیر) آگے بڑھ جاتی ہے اور وہ جنت والوں کا عمل کرنے لگتا ہے, پھر جنت میں داخل ہوجاتا ہے»۔
توبہ کاوقت
آپ ﷺ نے اپنے چچا سے فرمایا: «اے چچا! لا الہ الا اللہ کہہ دیجئے ، میں اسے آپ کے حق میں اللہ کے پاس حجت بناؤں گا»۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ آپ لا الہ الا اللہ پڑھ لینے سے  جنت میں داخل ہوجائیں گے کیونکہ یہ غرغرہ کا وقت تھا اور اس وقت توبہ کی قبولیت کا وقت ختم ہوجاتا ہے۔  ظالم فرعون کا قصہ دیکھئے کہ غرق ہونے کے وقت جب اس نے ایمان کا اعلان کیا تواﷲتعالی نے یہ کہہ کر رد کردیا کہ تو اہل فساد میں سے تھا۔ آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ يونس: ٩١ [(جواب دیا گیاکہ) اب ایمان لاتا ہے؟ اور پہلے سرکشی کرتا رہا اور مفسدوں میں داخل رہا]۔
برے ساتھیوں کا نقصان
برے دوستوں کی صحبت سے دور رہنا چاہئے۔ برے ہمنشینوں ہی نے ابوطالب کو کلمہ پڑھنے سے بار بار ٹوکا یہاں تک کہ وہ کلمہ کا اقرار کئے بغیر دنیا سے کوچ کرگئے۔
دین اسلام نے اچھی صحبت اختیار کرنے اور بری صحبت سے دور رہنے کی نہ صرف تعلیم بلکہ ترغیب دی ہے۔ نبی ﷺ  کا ارشاد ہے:  «لا تُصَاحِبْ إلاَّ مُؤْمِناً، وَلاَ يَأْكُلْ طَعَامَكَ إلاَّ تَقِيٌّ»([9] [صرف ایمان والوں کی صحبت اختیار کرو اور صرف پرہیزگاروں کو کھانا کھلاؤ
نیز ارشاد ہے: «الرَّجُلُ عَلَى دِينِ خَلِيلِهِ ، فَليَنْظُرْ أَحَدُكُمْ مَنْ يُخَالِلُ»([10])۔ [آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے لہذا تم میں سے کوئی جب کسی سے دوستی کرنا چاہے تو خوب غور وفکر کرلے]۔
نیز ارشاد ہے: «إِنَّمَا مَثَلُ الْجَلِيسِ الصَّالِحِ، وَالْجَلِيسِ السَّوْءِ، كَحَامِلِ الْمِسْكِ، وَنَافِخِ الْكِيرِ، فَحَامِلُ الْمِسْكِ: إِمَّا أَنْ يُحْذِيَكَ، وَإِمَّا أَنْ تَبْتَاعَ مِنْهُ، وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ مِنْهُ رِيحًا طَيِّبَةً، وَنَافِخُ الْكِيرِ: إِمَّا أَنْ يُحْرِقَ ثِيَابَكَ، وَإِمَّا أَنْ تَجِدَ رِيحًا خَبِيثَةً»([11]). [نیک ساتھی اور برے ساتھی کی مثال ایسی ہے جیسے مشک بیچنے والے اور بھٹی دھونکنے والے کی۔ مشک والا یا تو تجھے یونہی تحفہ کے طور پر سونگھنے کو دیدے گا یا تو اس سے خرید لے گا یا تو اس سے اچھی خوشبو پائے گا اور بھٹی پھونکنے والا یا تو تیرے کپڑے جلادے گا یا تجھے بری بو سونگھنی پڑے گی]۔
اہل بدعت کی تردید
اس حدیث سے ان اہل بدعت کی تردید ہوتی ہے جن کا یہ دعوی ہے کہ ابوطالب مسلمان تھے۔ ابو طالب کا دین وہی تھا جو ان کے باپ عبدالمطلب کا دین تھا کیونکہ وفات سے پہلے آخری کلمہ جو ان کی زبان سے نکلا وہ یہی تھا کہ وہ عبدالمطلب کے دین پر ہیں۔ نبی کے والد عبداللہ اور والدہ آمنہ کا دین بھی عبدالمطلب ہی کا دین تھا ۔ اور یہ جو حدیث بیان کی جاتی ہے کہ اللہ تعالی ٰ نے نبی کے والدین کو زندہ فرمایا اور پھر وہ آپ کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے اور پھر دوبارہ ان کو موت ہوئی  تو اس حدیث  کو کسی قابل ذکر محدث نے صحیح  قرار نہیں دیا  اور سارے معتبر علمائےدین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ بالکل گڑھی ہوئی اور جھوٹی بات ہے، کسی بھی دیندار شخص سے اس کا جھوٹ چھپ نہیں سکتا، کیونکہ اگر ایسا ہوا ہوتا تو یہ ایک عظیم الشان معجزہ ہوتا  اور اس کا زبردست چرچا ہوتا۔ حدیث کی معتمدکتابوں، صحاح وسنن اور مسانید میں اس کا تذکرہ ہوتا لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ پھر یہ روایت اللہ کی کتاب  اور صحیح سنت رسول اور اجماع کے بھی خلاف ہے ۔ ارشاد باری ہے :  {وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ حَتَّى إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّي تُبْتُ الْآنَ وَلَا الَّذِينَ يَمُوتُونَ وَهُمْ كُفَّارٌ أُولَئِكَ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا} [النساء: 18] [ان کی توبہ نہیں جو برائیاں کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آجائے تو کہہ دے کہ میں نے اب توبہ کی، اور ان کی توبہ بھی قبول نہیں جو کفر پر ہی مر جائیں، یہی لوگ ہیں جن کے لئے ہم نے المناک عذاب تیار کر رکھا ہے
اس آيت ميں صاف طور پراعلان كيا گیا ہے کہ جو شخص کفر کی حالت میں مرجائے اس پر توبہ نہیں ہے ۔
صحیح مسلم کی حدیث ہے، انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ ایک شخص نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اس کے والد کہاں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ"جہنم میں" جب وہ پلٹ کر جانے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے اسے بلایا اور فرمایا: «إن أبي وأباك في النار»([12]). [بے شک  میرے والد اور تیرے والد جہنم میں ہیں]۔
          صحیح مسلم میں یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ کو آپ کی ماں کی قبر کی زیارت کی اجازت دی گئی لیکن دعائے مغفرت کی اجازت نہیں دی گئی ۔ مکمل حدیث ملاحظہ فرمائیں:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: زَارَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْرَ أُمِّهِ، فَبَكَى وَأَبْكَى مَنْ حَوْلَهُ، فَقَالَ: «اسْتَأْذَنْتُ رَبِّي فِي أَنْ أَسْتَغْفِرَ لَهَا فَلَمْ يُؤْذَنْ لِي، وَاسْتَأْذَنْتُهُ فِي أَنْ أَزُورَ قَبْرَهَا فَأُذِنَ لِي، فَزُورُوا الْقُبُورَ فَإِنَّهَا تُذَكِّرُ الْمَوْتَ»([13]).  [ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رو پڑے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اردگرد لوگوں کو بھی رلا دیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اپنے رب سے اپنی والدہ کیلئے استغفار کرنے کی اجازت مانگی تو مجھے اجازت نہیں دی گئی۔ اور میں نے قبر کی زیارت کی اجازت طلب کی تو مجھے اجازت دیدی گئی۔ لہٰذا تم قبروں کی زیارت کیا کرو، یہ موت کی یاد دلاتی ہیں]۔
صحیح حديث ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے ابوطالب کی وفات کے بعد نبی سے کہا کہ آپ کے بوڑھے اور گمراہ چچا کی موت ہوچکی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  جاؤ اپنے باپ کو مٹی کے نیچے دبادو اور اس کے بعد کچھ نہ کرنا سیدھا میرے پاس آنا۔ علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے جاکر انھیں مٹی کے نیچے دفن کردیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آیا تو آپ نے مجھے غسل کرنے کا حکم دیا اور میرے لئے دعا فرمائی چنانچہ میں نے غسل کیا۔ حدیث کے عربی الفاظ اس طرح ہیں:
عَنْ عَلِيٍّ رضی اللہ عنه ، قَالَ: قُلْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ عَمَّكَ الشَّيْخَ الضَّالَّ قَدْ مَاتَ، قَالَ: «اذْهَبْ فَوَارِ أَبَاكَ، ثُمَّ لَا تُحْدِثَنَّ شَيْئًا، حَتَّى تَأْتِيَنِي» فَذَهَبْتُ فَوَارَيْتُهُ وَجِئْتُهُ فَأَمَرَنِي فَاغْتَسَلْتُ وَدَعَا لِي.([14])
کلمۂ توحید کا تقاضا
اس حدیث سے یہ عظیم الشان مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ لاالہ الا اللہ کا معنی ومفہوم کیا ہے؟ اس کلمہ کے اقرار سے یہ بات لازم آتی ہے کہ غیراللہ کی عبادت ترک کرنی ہوگی۔ زبانی اقرار کافی نہیں بلکہ عملی اقدام کرنا ہوگا۔ ابوجہل اور اس کے ساتھی یہ بات خوب اچھی طرح سمجھتے تھے کہ لا الہ الا اللہ کا اقرار کرتے ہی عبدالمطلب کا دین چھوڑنا ہوگا۔ یہ صرف زبان سے کہہ دینا کافی نہیں ہوگا بلکہ اس کے تقاضے پر عمل کرنا ہوگا، اللہ کے سوا ہرمعبود سے اپنی بیزاری ولاتعلقی کا اعلان کرنا ہوگا۔ اسی لئے انھوں نے ابوطالب کو یہ کلمہ نہیں پڑھنے دیا۔
افسوس ہے کہ موجودہ زمانہ کے بہت سے کلمہ گو اس بات کو نہیں سمجھتے ، وہ لاالہ الا اللہ بھی پڑھتے ہیں اور ساتھ ہی غیر اللہ کو بھی پکارتے ہیں۔ یا علی مدد، یا حسین مدد، یا غوث مدد کے بھی نعرے لگاتے ہیں۔ اپنی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لئے غیراللہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ مُردوں کے لئے جانور قربان کرتے ہیں۔ مُردوں سے دعا اور فریاد کرتے ہیں۔ قبروں کا طواف بھی کرتے ہیں۔ غیراللہ کی قسمیں بھی کھاتے ہیں۔ تعویذ اور گنڈے پہنتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ
قلبی معرفت کافی نہیں
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ محض معرفت اور عقیدہ کو ایمان کہتے ہیں، اس کے ساتھ عمل کی ضرورت نہیں سمجھتے،ان کی بات غلط ہے۔ ایسا عقیدہ اہل بدعت مرجئہ کا ہے۔ اس حدیث میں مرجئہ کی تردید ہے۔ ابوطالب کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی بخوبی معرفت تھی، لیکن انھوں نے اسے عملی طور پر تسلیم نہیں کیا، اس لئے وہ اہل ایمان میں شامل نہیں ہوئے۔ اللہ تعالی نے مشرکین سے متعلق ارشاد فرمایا: {فَإِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُونَكَ وَلَكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللَّهِ يَجْحَدُونَ} [الأنعام: 33]  (یہ لوگ آپ کو جھوٹا نہیں کہتے لیکن یہ ظالم تو اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں)۔  
ابوطالب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ورسالت کو خوب اچھی طرح جانتے تھے بلکہ اپنے اشعار میں انھوں نے اس کا اظہار بھی کیا ہے ، وہ کہتے ہیں:
ولقد علمت أن دين محمّد ....من خير أديان البرية ديناً
لو لا الملامة أوحذار مسبة ....لرأيتني سمحاً بذاك مبيناً
والله لن يصلوا إليك بجمعهم....حتى أوسد في التراب دفيناً([15])
(مجھے معلوم ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا دین اس روئے زمین کا سب سے بہتر دین ہے۔ اگر لوگوں کی ملامت اور عیب جوئی کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں کھل کر اسے قبول کرلیتا۔ اللہ کی قسم! وہ لوگ اپنے تمام لشکروں کے باوجود آپ تک نہیں پہنچ سکتے جب تک کہ پہلے مجھے مٹی کے نیچے دفن نہ کردیا جائے)۔
            ان اشعار میں جو بات کہی گئی ہے کہ قومی تعصب اور لوگوں کی ملامت کا ڈر نہ ہوتا تو وہ دین اسلام کو قبول کرلئے ہوتے یہی بات تقریباً اس حدیث میں بھی ہے ۔
مشرکوں کے لئےدعاء مغفرت کی ممانعت
اس حدیث سےیہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کفار ومشرکین کے لئے دعاء مغفرت درست نہیں خواہ وہ کتنے ہی قریبی رشتہ دار اور عزیز کیوں نہ ہوں ۔ اس سے متعلق قرآن مجید  کی آیت گذرچکی ہے۔
یہیں سے یہ بات بھی خوب اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ دینی رشتہ ہر رشتہ سے بڑھ کر ہے ۔
تقلید کی مذمت
اس حدیث سےیہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ  دین کے معاملہ میں اپنے آباء واجداد کی تقلید  اور تعصب کے بجائے  دلیل اور طریقۂ رسول کی پیروی کرنی چاہئے۔ ابوطالب کے برے خاتمہ کا ایک اہم سبب یہی بنا کہ وہ اپنے باپ عبدالمطلب کی تقلید چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ باپ دادا کی تقلید وہ ملعون اور بد ترین حجت ہے جس کا سہارا رسولوں  کی بات کو ٹھکرانے کے لئے تمام اگلے پچھلے کافروں نے لیا۔ ارشاد باری ہے   :   {وَكَذَلِكَ مَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ فِي قَرْيَةٍ مِنْ نَذِيرٍ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوهَا إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَى أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَى آثَارِهِمْ مُقْتَدُونَ * قَالَ أَوَلَوْ جِئْتُكُمْ بِأَهْدَى مِمَّا وَجَدْتُمْ عَلَيْهِ آبَاءَكُمْ قَالُوا إِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُمْ بِهِ كَافِرُونَ * فَانْتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَانْظُرْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ} [الزخرف: 23 - 25] (اسی طرح آپ سے پہلے بھی ہم نے جس بستی میں کوئی ڈرانے والا بھیجا وہاں کے آسوده حال لوگوں نے یہی جواب دیا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو (ایک راه پر اور) ایک دین پر پایا اور ہم تو انہی کے نقش پا کی پیروی کرنے والے ہیں (نبی نے) کہا بھی کہ اگرچہ میں تمہارے پاس اس سے بہت بہتر (مقصود تک پہنچانے والا) طریقہ لے آیا ہوں جس پر تم نے اپنے باپ دادوں کو پایا، تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم اس کے منکر ہیں جسے دے کر تمہیں بھیجا گیا ہے پس ہم نے ان سے انتقام لیا اور دیکھ لے جھٹلانے والوں کا کیسا انجام ہوا؟)
ابراہیم علیہ اسلام کی قوم نے بھی اسی تقلید آبا ء کی ملعون حجت کا سہارا لیا۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: {وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ إِبْرَاهِيمَ * إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَا تَعْبُدُونَ * قَالُوا نَعْبُدُ أَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَهَا عَاكِفِينَ * قَالَ هَلْ يَسْمَعُونَكُمْ إِذْ تَدْعُونَ * أَوْ يَنْفَعُونَكُمْ أَوْ يَضُرُّونَ * قَالُوا بَلْ وَجَدْنَا آبَاءَنَا كَذَلِكَ يَفْعَلُونَ} [الشعراء: 69 - 74] (انہیں ابراہیم (علیہ السلام) کا واقعہ بھی سنادو جبکہ انہوں نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے فرمایا کہ تم کس کی عبادت کرتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ عبادت کرتے ہیں بتوں کی، ہم تو برابر ان کے مجاور بنے بیٹھے ہیں آپ نے فرمایا کہ جب تم انہیں پکارتے ہو تو کیا وه سنتے بھی ہیں؟  یا تمہیں نفع نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں انہوں نے کہا یہ (ہم کچھ نہیں جانتے) ہم نے تو اپنے باپ دادوں کو اسی طرح کرتے پایا)۔
اسی ملعون حجت تقلید کا سہارا موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے بھی لیا ۔  {قَالُوا أَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا} [يونس: 78] (وه لوگ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہم کو اس طریقہ سے ہٹادو جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا ہے)۔
اسی ملعون حجت کا سہارا اہل مکہ نے بھی لیا ۔ چنانچہ اللہ تعالی نے فرمایا: {وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ} [البقرة: 170] (اور ان سے جب کبھی کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب کی تابعداری کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اس طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادوں کو پایا، گو ان کے باپ دادے بےعقل اور گم کرده راه ہوں)۔
ایمان وعمل کے بغیر رشتے بے کار ہیں
اس حدیث سےیہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ  اگر کسی شخص کے پاس خود اپنا ایمان اور عمل نہیں ہے تو کسی اور کی شفاعت، کسی اور کا وسیلہ، کسی اور سے نسبت اس کے کام نہیں آسکتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: «وَمَنْ بَطَّأَ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ»([16]). (جس کا عمل اسے پیچھے کردے اس کا نسب اسے آگے نہیں لے جاسکتا)۔
اﷲکے نزدیک بندوں کا مقام ان کے عمل وکردار اور تقوی کے ذریعہ متعین ہوتاہے، ان کے حسب ونسب سے نہیں۔ اﷲتعالی کا ارشاد ہے: وَلِكُلٍّ دَرَجَاتٌ مِمَّا عَمِلُواالاحقاف:١٩ [اور ہرایک کو اپنے اپنے اعمال کے مطابق درجے ملیں گے]۔
            نوح علیہ السلام کے نافرمان بیٹے کو نبی کی رشتہ داری کام نہ آسکی اور طوفان میں غرقاب ہوگیا۔ ابراہیم علیہ السلام کے والد ایمان نہ لانے کی بنا پر جہنم میں پھینک دیئے جائیں گے۔ محمد e کے چچا ابوطالب شرک پر قائم رہنے کی وجہ سے داخل جہنم ہوں  گے۔
            اپنے حسب ونسب اور رنگ ونسل پر غرور ایک فریب ہے جس کا آخرت میں کوئی فائدہ نہیں۔ دل کی صفائی اور عمل کی اصلاح ہی آخرت میں کام آنے والی چیز ہے۔ اﷲتعالی کا ارشاد ہے: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْالحجرات: ١٣ [اﷲکے نزدیک تم سب میں سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ اﷲسے ڈرنے والا ہے]۔
            نبی e فرماتے ہیں: «إِنَّ اللهَ لَا يَنْظُرُ إِلَى صُوَرِكُمْ وَأَمْوَالِكُمْ, وَلَكِنْ يَنْظُرُ إِلَى قُلُوبِكُمْ وَأَعْمَالِكُمْ([17])» «اﷲتعالی تمھاری صورتوں اور تمھارے مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمھارے دلوں اور تمھارے اعمال کو دیکھتا ہے»۔
آدم علیہ السلام اپنے بیٹے قابیل کو ہدایت پر نہ لا سکے، نوح  علیہ السلام اپنے بیٹے کو غرق ہونے سے نہ بچاسکے، ابراہیم علیہ السلام اپنے باپ کو جنت میں نہ لے جاسکے تو پھر کس ولی اور کس پیر فقیر کی مجال ہے کہ وہ کسی کو اذن الہٰی کے بغیر بخشواسکے یا جنت میں لے جا سکے۔
یاد رہے کہ کسی کی دعا اور شفاعت سے وہی فائدہ اٹھا سکتا ہے جس کے اندر اس کی شرطیں مکمل ہوں اور جو موانع سے محفوظ ہو۔ مثال کے طور پر اگر کسی کافر کے لئے جہنم سے نجات کی دعا کی جائے یا بخشش کی دعا کی جائے یا جہنم سے نجات اور بخشش و مغفرت کے لئے شفاعت کی جائے ۔ خواہ شفاعت اور دعا کرنے والا اللہ کے یہاں کتنا ہی عظیم مقام ومرتبہ رکھتا ہو ۔ اس کی یہ دعا اور شفاعت قبول نہیں ہوگی ۔
          محمد ﷺ اور  ابراہیم خلیل اللہ سے بڑھ کر اللہ کے پاس شفاعت کرنے والا اور کون ہوگا ؟  جب ابراہیم خلیل اللہ نے اپنے باپ کی مغفرت کے لئے دعا کی اور کہا   رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ [إبراهيم: 41] (اے ہمارے پروردگار! مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو بھی بخش اور دیگر مومنوں کو بھی بخش جس دن حساب ہونے لگے) تو اللہ تعالی نے ان کا عذر بیان کرتے ہوئے فرمایا: وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَنْ مَوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِلَّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ [التوبۃ: 114] (اور ابراہیم (علیہ السلام) کا اپنے باپ کے لیے دعائے مغفرت مانگنا وه صرف وعده کے سبب سے تھا جو انہوں نے اس سے وعده کرلیا تھا۔ پھر جب ان پر یہ بات ظاہر ہوگئی کہ وه اللہ کا دشمن ہے تو وه اس سے محض بے تعلق ہوگئے، واقعی ابراہیم (علیہ السلام) بڑے نرم دل اور برد بار تھے)۔
اور صحیح بخاری میں([18]) یہ حدیث موجود ہے کہ «ابراہیم علیہ السلام قیامت کے دن اپنے والد آزر سے ملیں گے اور حالت یہ ہوگی کہ چہرے پر سیاہی اور غبار ہوگا، ابراہیم علیہ السلام کہیں گے، کیا میں نے آپ کو نہیں کہا تھا کہ میری نافرمانی نہ کیجئے، وہ کہیں گے کہ آج میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا،  ابراہیم علیہ السلام عرض کریں گے کہ اے رب تو نے وعدہ  فرمایا تھا کہ مجھے قیامت کے دن رسوا نہیں کرے گا،  آج اس رسوائی سے بڑھ کر کون سی رسوائی ہوگی کہ میرے والد تیری رحمت سے سب سے زیادہ دور ہیں،   اللہ تعالی فرمائےگا کہ میں نے جنت کو کافروں پر حرام کر دیا ہے ،   پھر کہا جائے گا کہ اے ابراہیم  تمہارے پیروں کے نیچے کیا چیز ہے؟  وہ دیکھیں گےکہ ایک بجو ّ  خون میں لتھڑا ہوا وہاں پڑا ہوگا اور پھر اس کے پاؤں پکڑ کر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا »۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق یہ بات گذرچکی ہے کہ آپ کو اپنے چچا ابوطالب بلکہ اپنی حقیقی والدہ کے حق میں دعائے مغفرت کرنے سے اللہ تعالی نے منع کردیا۔
صحیح مسلم میں([19]) یہ حدیث بھی ہے کہ جب آیت {وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ} [الشعراء: 214] نا زل ہوئی تو آپ ﷺ نے پورے قریش کو بلایا جب سب اکٹھا ہو گئے تو خطاب عام فرمایا اور کچھ لوگوں کو خصوصی طور پر بھی مخاطب کیا۔ «اے بنوکعب بن لوی !اپنے آپ کو جہنم سے بچالو، اے بنو مرہ بن کعب! اپنے آپ کو جہنم سے بچالو، اے بنوعبدشمس! اپنے آپ کو جہنم سے بچالو،  اے بنوعبدمناف! اپنے آپ کو جہنم سے بچالو،  اے بنوعبدالمطلب! اپنے آپ کو جہنم سے بچالو،   اے فاطمہ! اپنے آپ کو جہنم سے بچالو ۔ میں اللہ کے سامنے تمھارے لئے کسی چیز کا مالک نہیں ہوں،   لیکن جو رشتہ داریاں ہیں میں ان کی تراوٹ اور نمی کو باقی رکھوں گا»۔
               دوسری روایت میں ہےکہ آپ ﷺ نے فرمایا ، «اے قریش کے لوگو! اپنے آپ کو اللہ سے بچالو میں تمھیں اللہ سے کچھ بھی نہیں بچاسکتا،   اے بنو عبدالمطلب،  میں اللہ کے یہاں تمھارے کچھ کام نہیں آسکتا، اے عباس بن عبدالمطلب میں اللہ کے یہاں تمھارے کچھ کام نہیں آسکتا،   اے صفیہ رسول اللہ کی پھوپھی میں اللہ کے یہاں تمھارے کچھ کام نہیں آسکتا،  اے فاطمہ رسول اللہ کی بیٹی،  میرے مال میں سے جو مانگنا ہے مانگ لو،  میں اللہ کے یہاں تمہارے کچھ کام نہیں آسکتا ([20])»۔ 
          صحیحین([21]) کی حدیث ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے ایک دن خطبہ دیا اور مال غنیمت میں خیانت کا ذکر فرمایا  اور اس کی سنگینی اور خطرناکی کو بیان کرتے ہوئے فرمایا  : «کل قیامت کے دن ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص اپنے کندھوں پر بلبلاتے ہوئے اونٹ کو لاد کر لائے اور کہے کہ اے اللہ کے رسول میری مدد کیجئے تو میں کہہ دوں گا کہ میں تمہارے لئے کسی بھی چیز کا مالک نہیں، میں نے تو تمھیں پہنچا دیا تھا،  ایسا نہ ہو کہ کوئی ہنہناتے ہوئے گھوڑے کو کندھے پر لاد کر لائے اور کہے اللہ کے رسول میری مدد کیجئے، تو میں کہہ دوں:  میں تیرے لئے کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا، میں نے تو تجھے دنیا میں بتا دیا تھا،   ایسا نہ ہو کہ کوئی ممیاتی ہوئی بکری کو کندھے پر لادکر لائے اور کہے کہ اے اللہ کے رسول میری مدد کیجئے تو میں کہہ دوں کہ میں تیرے لئے کچھ نہیں کر سکتا، میں نے تو تبلیغ کر دی تھی،   ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص پھڑپھڑاتے ہوئے کپڑوں کو اپنے کندھوں پر لادکر لائے اور کہے کہ اے اللہ کے رسول میری مدد کیجئے تو میں کہوں گا کہ میں تیرےلئے کسی چیز کا مالک نہیں، میں نے تو تجھے خبردار کر دیا تھا ۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص قیامت کے دن خاموش سونے چاندی کو اپنے کندھوں پر اٹھاکر لائے اور کہے کہ اے اللہ کے رسول میری مدد کیجئے تو میں کہہ دوں کہ میں تیرے لئے کوئی اختیار نہیں رکھتا،  میں نے تو تجھے اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا »۔
ہدایت طلبی کے لئے دعائیں
ہدایت کی توفیق اللہ کا فضل و کرم اور اس کا انعام واحسان ہے چنانچہ ایک مؤمن کو ہدایت کی توفیق پر ہمیشہ اللہ کا شکر گذار ہونا چاہیئے۔ اہل جنت کی زبانوں پر جنت میں داخل ہوتے ہوئے حمد کا یہ نغمہ ہوگا: {الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدَانَا اللَّهُ} [الأعراف: 43]. (اللہ کا (لاکھ لاکھ) شکر ہے جس نے ہم کو اس مقام تک پہنچایا اور ہماری کبھی رسائی نہ ہوتی اگر اللہ تعالیٰ ہم کو نہ پہنچاتا)۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ سے عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کا  یہ شعر بکثرت پڑھنا ثابت ہے ۔
وَاللَّهِ لَوْلاَ اللَّهُ مَا اهْتَدَيْنَا، وَلاَ تَصَدَّقْنَا وَلاَ صَلَّيْنَا،
فَأَنْزِلَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَا، وَثَبِّتِ الأَقْدَامَ إِنْ لاَقَيْنَا ([22])
(اللہ کی قسم! اگر اللہ نہ ہوتا تو ہم ہدایت یاب نہ ہوتے، نہ صدقہ کرسکتے، نہ صلاۃ ادا کرسکتے، اے اللہ ہم پر سکینت کا نزول فرما، اور مڈبھیڑ ہونے کی صورت میں ہمیں ثابت قدمی عطا فرما)۔
اتنا ہی نہیں کہ ہم ہدایت کی توفیق پر اللہ کا شکر گذار رہیں بلکہ ہمیں چاہئے کہ  ہمیشہ اللہ تعالی سے مزید ہدایت کے سوالی اور  طلبگار رہیں۔ اس سے ہدایت طلبی کی دعائیں اور التجائیں کرتے رہیں۔ اس کے لئے سب سے بہترین اور شاندار دعا وہی ہے جو ہمیں اللہ تعالی نے خود سکھائی ہے: {اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ} [الفاتحة: 6]۔ اور جسے پنجوقتہ صلاۃ ہی نہیں بلکہ ہر فرض ونفل میں اللہ تعالی نے پڑھنا لازمی قرار دیا ہے اور یہ وہ عظیم المرتبت دعا ہے کہ اگر کسی صلاۃ میں اس کا پڑھنا چھوٹ جائے تو وہ صلاۃ درجہ کمال سے نیچے گرکر  ناقص وناتمام [خداج[23]]  ہوجاتی ہے بلکہ غیرمقبول ونادرست ہوجاتی ہے([24])۔ 
ہدایت طلبی کے لئے ایک دعا وہ بھی ہے جو صحیح مسلم میں مروی ہے ۔    عائشہ رضی اللہ عنہما  فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ  جب رات کو بیدار ہوتے اور قیام  اللیل فرماتے تھے تو اپنی صلاۃ کا آغاز اسی دعا سے کرتے۔ آپ فرماتے : «اَللّٰهُمَّ رَبَّ جِبْرَائِيلَ وَمِيكَائِيلَ وَإِسْرَافِيلَ, فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ, عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ, أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيمَا كَانُوا فِيْهِ يَخْتَلِفُونَ, اِهْدِنِي لِمَا اخْتُلِفَ فِيْهِ مِنَ الْحَقِّ بِـإِذْنِكَ, إِنَّكَ تَهْدِي مَنْ تَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ»([25]). [اے اللہ! جبرائیل ومیکائیل واسرافیل کے رب، آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے، غائب وحاضر کے جاننے والے، اپنے بندوں کے اختلافی امور میں تو ہی فیصلے کرتا ہے، اختلافی امور میں اپنے حکم سے مجھے حق کی ہدایت نصیب فرما۔ بے شک تو ہی جسے چاہتا ہے صراط مستقیم کی ہدایت نصیب فرماتا ہے]۔
ابو ذر رضی اللہ سے مروی یہ عظیم الشان حدیث قدسی بھی ہمیں یاد رکھنی چاہئے جس کے اندر اللہ تعالی ٰ نے فرمایا  : «يَا عِبَادِيْ! كُلُّكُمْ ضَالٌّ إِلَّا مَنْ هَدَيْتُهُ, فَاسْتَهْدُوْنِي أَهْدِكُمْ، ....». [اے میرے بندو! تم سب گمراہ ہو سوائے اس کے جسے میں ہدایت دوں، سو مجھ سے ہدایت طلب کرو، میں تمھیں ہدایت دوں گا]([26])۔
اسی لئے رسول اکرم ﷺ یہ دعا بکثرت پڑھا کرتے تھے ۔ «يَا مُقَلِّبَ القُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ»([27]) (اے دلوں کے پھیرنے والے میرے دل کواپنے دین پر جمادے)۔
تقدیر معصیت کے لئے حجت نہیں
«ہدایت کا مالک اللہ ہے» اس کا مفہوم یہ ہے کہ ہدایت اللہ کا انعام ہے،   اس سے قطعی طور پراس غلط فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہئے کہ اگر ہدایت وضلالت کا مالک اللہ  ہےتو عذاب و ثواب کیوں ہے ؟
ایمان والے وہ لوگ ہیں جو تقدیر پر ایمان رکھتے ہیں اور اللہ کے حکموں کی تعمیل کرتے ہیں اور تقدیر پر صبر کرتے ہیں۔ ایمان والوں کا اس بات پر یقین ہے کہ اس روئے زمین پر جو بھی مصیبت نازل ہوتی ہے یا وہ خود کسی مصیبت کا شکار ہوتے ہیں تو وہ ان کی تقدیر میں لکھا ہواہے اور جو کچھ ان کے ساتھ ہوا ایسا ممکن نہیں تھا کہ نہ ہوتا اور جو کچھ ان کے ساتھ نہیں ہوا ایسا ممکن نہ تھا کہ ہو جاتا،   وہ اپنا سارا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیتے ہیں اور ہر مصیبت پر صبر کرتے ہیں ۔  جب اللہ کا حکم آتا ہے فوراً اس کی تعمیل میں جٹ جاتے ہیں اس کی اطاعت و فرماں برداری میں لگے رہتے ہیں،  خوف و امید کے ساتھ اس سےدعائیں کرتے ہیں،   اس کے متعین کردہ حدود کی حفاظت کرتے ہیں،   اس کی حرام کی ہوئی چیزوں سے بچتے ہیں اور اپنی کوتاہیوں پر توبہ واستغفار کرتے ہیں ۔
یاد رکھئے کہ تقدیر کے مسئلہ میں تین جماعتیں گمراہ ہو گئیں ۔
1)      وہ جماعت جنھوں نے پوری طرح تقدیر کا انکار کر دیا ۔ ان کا کہنا یہ ہے :
کتاب زندگی کے دو ورق ہیں جنت و دوزخ
عمل جس پر کرے انساں وہی تقدیر بن جائے
          ایسے لوگوں نے پورےاسلام کو قبول نہیں کیا،  کچھ حصہ پر ایمان لائے اور کچھ کا انکار کر دیا ۔ اس گروہ کو اہل علم قدریہ کے نام سے جانتے ہیں ۔
2)     تقدیر کے مسئلہ میں گمراہی کا شکار وہ جماعت بھی ہے جو تقدیر پر ایمان تو رکھتی ہے  لیکن اس کی بنا پر شریعت کا انکار کر دیتی ہے۔ یہ بھی پورے دین پر ایمان نہیں لاتے ۔ تقدیر پر ایمان لاتے ہیں اور اس کی بنا پر بندے کو مجبور محض بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کوئی گنہگار قابل ملامت نہیں کیونکہ اس نے جو کچھ کیا تقدیر کی وجہ سے کیا ۔ ایسے لوگ کبھی اپنی بات پر قائم نہیں رہتے ۔ اس گروہ کو اہل علم جبریہ کے نام سے جانتے ہیں ۔
          در حقیقت یہ لوگ حق وصداقت کو چھوڑنے کے لئے تقدیر کا سہارا لیتے ہیں ۔  ورنہ اگر ان کا تقدیر پر ایمان ہی ہوتا تو جس  ذات کریم اللہ نے تقدیر پر ایمان کا حکم دیا ہے اسی نے اطاعت کا حکم بھی دیا ہے اور گناہ کےکاموں سے روکا ہے ۔  اگر تقدیر پر ایمان قانون شریعت سے ٹکراتا تو ایک ہی ذات اللہ کی طرف سے دونوں ہرگز نہیں آتا ۔
           جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ سب کچھ تقدیر سے ہے اس لئے کوئی گنہگار ملامت کا حقدار نہیں اور نہ ہی سزا کا حقدار ہے تو یہ لوگ اپنے مخالفین سے دشمنی کیوں رکھتے ہیں اور موافقین سے محبت کیوں رکھتے ہیں کیونکہ ان کے موافق و مخالف دونوں ہی تقدیر کی بنا پر موافق یا مخالف ہیں ۔
                اگرتقدیر کے سامنے بندوں کو مجبور ماننے والے کو لایا جائے اور پھر اس کی پٹائی کی جائے تو کیا وہ کہے گا کہ میری پٹائی کرنے والا معذور ہے کیونکہ اس کی تقدیر میں میری پٹائی کرنا لکھا ہوا ہے ۔ ظاہر ہے کہ کوئی عقل مند ایسی بات ہرگز نہیں کرے گا ۔
           بندے کو تقدیر کے آگے مجبور وبے بس ماننا نہ شریعت کے اعتبار سے درست ہے اور نہ ہی عقل کے اعتبار سے ۔
اگرکوئی شخص اللہ کے ساتھ شرک و کفر کرے اور اللہ کے رسول کو جھٹلائے اور کہے کہ مجھے تقدیر پر ایمان ہے تو کیا اس کی معافی ہوجائےگی اور وہ عذاب سے بچ جائے گا ؟  ہرگز نہیں، ابلیس نے یہی تو کیا تھا۔ {قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ (16) ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَنْ شَمَائِلِهِمْ وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ} [الأعراف: 16- 17] [اس نے کہا بسبب اس کے کہ آپ نے مجھ کو گمراه کیا ہے میں قسم کھاتا ہوں کہ میں ان کے لئے آپ کی سیدھی راه پر بیٹھوں گا پھر ان پر حملہ کروں گا ان کے آگے سے بھی اور ان کے پیچھے سے بھی اور ان کی داہنی جانب سے بھی اور ان کی بائیں جانب سے بھی اور آپ ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائیے گا]۔
ابلیس آدم کا سجدہ نہ کر کے اللہ کے حکم کی تعمیل سے تکبر کرکے اپنے گناہ پر اڑگیا اورتقدیر کا بہانہ کیا تو اس کا کفر اور بڑھ گیا اور اس کی سزا اور سخت ہو گئی ۔
          اور آدم علیہ السلام نے درخت کا پھل کھا کے گناہ کر لیا تو تقدیر کا بہانہ نہیں بنایا بلکہ فوراً اللہ سے توبہ کی۔ {رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ} [الأعراف: 23] [اے ہمارے رب! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہوجائیں گے]۔
3)     تقدیر کے معاملہ میں تیسری گمراہ جماعت وہ ہے جو اللہ سے دشمنی اور بغاوت کا اعلان کرتی ہے اور کہتی ہے کہ تو نے تقدیر بھی بنائی اور شریعت پہ عمل کا حکم بھی دیا یہ تو نے  غلط کیا نعوذ با اللہ ۔ ایسے لوگ اللہ کے باغی اور دشمن ہیں۔
ایک باطل عقیدہ :
بعض باطل پرستوں  کا یہ دعوی ہے کہ "جب آدمی کی نظر تقدیر پر ہوتی ہے تو شریعت کے احکامات اس سے ساقط ہوجاتے ہیں "۔ 
کیا انبیاء کرام علیہم السلام اور ان کے اصحاب عظام کی نظر تقدیر پر نہیں ہوتی تھی؟ کبھی انھوں نے شریعت کی پابندی سے اپنے آپ کو آزاد نہیں کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ اس روئے زمین پر اس سے بڑا کوئی کفر نہیں اور  نہ اس سے بڑی کوئی جہالت کی بات ہے کیونکہ تقدیر یا تو سب کے لئے حجت ہے یا کسی کے لئے حجت نہیں، اگر سب کے لئے حجت ہے تو یہ دنیا ایک منٹ کے لئے بھی نہیں چل سکتی  ۔  نہ کوئی قا نون چل سکتا ہے، نہ کسی کو برا بھلا کہا جا سکتا ہے, نہ کسی کو سزا دی جا سکتی ہے ۔
دین اسلام میں شریعت کا قا نون ہے اور اس پر عمل کا حکم ہے۔  عقل بھی یہی چاہتی ہے کہ کوئی قانون رہے جس سے نقصان دہ چیزوں سے روکا جا ئے اور مفید کاموں کا حکم دیا جائے ۔
تقدیر کے معاملہ میں بہترین اور بدترین لوگ
تقدیر کے معاملہ میں سب سے بد ترین لوگ وہ ہیں جو تقدیر کو اپنے لئے دلیل سمجھتے ہیں اور دوسروں کے لئے دلیل نہیں سمجھتے، گناہوں کا مزہ لینے کے لئے تقدیر کو حجت بناتے ہیں اور مصیبتوں پر تقدیر کا سہارا لیکر صبر نہیں کرتے ۔  
تقدیر کے معاملہ میں سب سے بہترین لوگ وہ ہیں جو گناہوں پر استغفار کرتے ہیں اور مصیبتوں پر صبر کرتے ہیں  جیسا کہ آدم علیہ السلام نے کیا۔ جب آدم علیہ السلام نے اس درخت کا پھل کھالیا جس سے اللہ تعالی نے روکا تھا تو انھوں نے اللہ سے معافی مانگی اور جب اس کی سزا میں اللہ نے جنت سے نکال کر دنیا میں بھیج دیا تو آپ نے صبر کیا۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ رب کریم ہم سب کو اپنے فضل سے ہمیشہ اہل ایمان میں رکھے اور حالت ایمان ہی میں وفات ہو اور دنیا وآخرت ہرجگہ ایمان والوں کا ساتھ ہو۔  
آمین یا رب العالمین۔



مراجع ومصادر
1-         القرآن الكريم وترجمة معانيه باللغة الأردية.
2-         الجامع الصحيح للإمام البخاري
3-         الجامع الصحيح للإمام مسلم
4-         جامع الإمام الترمذي مع تخريج الشيخ الألباني
5-         سنن أبي داود مع تخريج الشيخ الألباني
6-         سنن النسائي مع تخريج الشيخ الألباني
7-         سنن ابن ماجة مع تخريج الشيخ الألباني
8-         صحيح الجامع الصغير للشيخ الألباني
9-         سلسلة الأحاديث الصحيحة والضعيفة للشيخ الألباني
10-     كتاب التوحيد للشيخ محمد بن عبد الوهاب وشروحاته
11-     تقوية الإيمان للشيخ اسماعيل الدهلوي
12-     رحمة للعالمين للقاضي محمد سليمان منصور فوري
13-      أسمى المطالب في سيرة أمير المؤمنين علي بن أبي طالب رضي الله عنه (شخصيته وعصره - دراسة شاملة) لمؤلفه: عَلي محمد محمد الصَّلاَّبي
14-      الإصابة في تمييز الصحابة لابن حجر العسقلاني





فہرست مضامین
المحتويات
صفحہ
موضوعات
مقدمة
3
مقدمہ
قصة وفاة أبي طالب
5
ابوطالب کی وفات کا قصہ
أبو طالب من هو؟
9
ابوطالب کا مختصر تعارف
الصراع بين الحق والباطل
12
حق وباطل کی کشمکش
إن الله يهدي من يشاء
13
ہدایت کا مالک صرف اللہ ہے
مقصود الرسالة
23
مقصد رسالت
الدعوة لا تعرف اليأس
31
دعوت ایک جہد مسلسل
الدعوة على فراش الموت
32
دعوت بستر مرگ پر
باب الإسلام الشهادتان
34
کلمۂ شہادت اسلام کا دروازہ
إنما الأعمال بالخواتيم
34
خاتمہ پر دار مدار
وقت التوبة
36
توبہ کا وقت
ضرر جلساء السوء
36
برے ساتھیوں کا نقصان
رد على أهل البدع
39
اہل بدعت کی تردید
مقتضى كلمة التوحيد
44
کلمۂ توحید کا تقاضا
لا يكفي المعرفة القلبية
45
قلبی معرفت کافی نہیں
تحريم الاستغفار للمشركين
47
مشرکوں کے لئے استغفار کی ممانعت
ذم التقليد
48
تقلید کی مذمت
لا يفيد النسب من غير عمل
51
ایمان وعمل کے بغیر رشتے بیکار ہیں
أدعية لطلب الهداية
60
ہدایت طلبی کے لئے دعائیں
لا حجة في القدر لأهل المعصية
66
تقدیر معصیت کے لئے حجت نہیں
عقيدة باطلة
71
ایک باطل عقیدہ
أقسام الناس في القدر
72
تقدیر کے معاملہ میں بہترین اور بدترین لوگ
المراجع والمصادر
74
مراجع ومصادر




[1]) ) صحیح بخاری میں یہ روایت متعدد مقامات پر ہے: كتاب مناقب الأنصار باب قصة أبي طالب  (کتاب:۶۳ حدیث:۳۸۸۴)۔ كتاب تفسير القرآن باب قوله: {ما كان للنبي والذين آمنوا أن يستغفروا للمشركين} (کتاب:65 حدیث:4675)۔ كتاب تفسير القرآن باب قوله: {إنك لا تهدي من أحببت} (کتاب:65 حدیث:4772)۔ كتاب الجنائز باب إذا قال المشرك عند الموت: لا إله إلا الله (کتاب:23 حدیث:1360)۔ كتاب الأيمان والنذور باب إذا قال: والله لا أتكلم اليوم، فصلى، أو قرأ، أو سبح، أو كبر، أو حمد، أو هلل، فهو على نيته (کتاب:83 حدیث:6681)۔
([2] ) صحیح مسلم کتاب الإيمان باب أول الإيمان قول لا إله إلا الله  (کتاب:1 باب: 9 حدیث: 39 (24)۔
([3] ) تفصیل کے لئے دیکھئے:  الاصابہ  7/196 (10175)۔ رحمۃ للعالمین 2/334۔ سیرت علی بن ابی طالب للصلابی (1/33-36)۔
([4]) صحیح مسلم کتاب الجمعة باب تخفيف الصلاة والخطبة  (کتاب:۷ باب : ۱۳ حدیث: ۴۵ (۸۶۷)۔
([5] ) صحیح بخاری أبواب الاستسقاء باب الاستسقاء في خطبة الجمعة غير مستقبل القبلة (کتاب :۱۵ باب : ۶ حدیث: ۱۰۱۴)۔صحیح مسلم کتاب صلاة الاستسقاء باب الدعاء في الاستسقاء (کتاب :۹ باب : ۲ حدیث : ۸ (۸۹۷)۔
([6] ) سنن ترمذی أبواب الدعوات باب (کتاب:۴۵ باب:۹۲ حدیث: ۳۵۲۴), علامہ البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
([7] ) صحیح بخاری كتاب الجنائز باب إذا أسلم الصبي فمات، هل يصلى عليه، وهل يعرض على الصبي الإسلام (کتاب :23 حدیث: 1356)۔
[8]) ) متفق علیہ ،صحیح بخاری كتاب القدر باب في القدر(کتاب :۸۲ باب : ۱ حدیث : ۶۵۹۴۔صحیح مسلم كتاب القدر باب كيفية خلق الآدمي في بطن أمه وكتابة رزقه وأجله وعمله وشقاوته وسعادته (کتاب :۴۶ باب : ۱ حدیث: ۱ (۲۶۴۳)۔
[9]) ) سنن ابوداود كتاب الأدب باب من يؤمر أن يجالس (کتاب : 40 باب :19 حدیث :4832), سنن ترمذی أبواب الزهد باب ما جاء في صحبة المؤمن (کتاب : 34 باب :55 حدیث :2395), علامہ البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
[10]) ) سنن ابوداود كتاب الأدب باب من يؤمر أن يجالس (کتاب : 40 باب :19 حدیث :4833), سنن ترمذی أبواب الزهد باب (کتاب : 34 باب :45 حدیث :2378), علامہ البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔
[11]) ) متفق علیہ ،صحیح بخاری كتاب البيوع باب في العطار وبيع المسك (کتاب :۳۴ باب : ۳۸ حدیث: ۲۱۰۱)۔ نیز كتاب الذبائح والصيد باب المسك (کتاب :۷۲ باب : ۳۱ حدیث : ۵۵۳۴)۔صحیح مسلم كتاب البر والصلة والآداب باب استحباب مجالسة الصالحين، ومجانبة قرناء السوء (کتاب :۴۵ باب : ۴۵حدیث : ۱۴۶ (۲۶۲۸)۔
[12]) ) صحیح مسلم كتاب الإيمان باب بيان أن من مات على الكفر فهو في النار، ولا تناله شفاعة، ولا تنفعه قرابة المقربين (کتاب:۱ باب:۸۸ حدیث : ۳۴۷ (۲۰۳)۔
[13]) ) صحیح مسلم كتاب الجنائز باب استئذان النبي صلى الله عليه وسلم ربه عز وجل في زيارة قبر أمه (کتاب:۱۱ باب: ۳۶حدیث : ۱۰۸ (۹۷۶)۔
[14]) ) سنن ابى داود كتاب الجنائز باب الرجل يموت له قرابة مشرك (کتاب:۲۰ حدیث:۳۲۱۴), سنن نسائى كتاب الجنائز باب مواراة المشرك (کتاب:۲۱ حدیث:۲۰۰۶),   علامہ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
([15] ) دلائل النبوة للبيہقی 2/188
[16]) ) صحیح مسلم كتاب الذكر والدعاء والتوبة والاستغفار باب فضل الاجتماع على تلاوة القرآن وعلى الذكر (کتاب:48 باب:11 حدیث:38 (2699)۔
([17] ) صحیح مسلم كتاب البر والصلة والآداب باب تحريم ظلم المسلم، وخذله، واحتقاره ودمه، وعرضه، وماله (کتاب:45 باب:10 حدیث:34 (2564)۔
([18] ) صحیح بخاری كتاب أحاديث الأنبياء باب قول الله تعالى: {واتخذ الله إبراهيم خليلا} (کتاب :60 باب : 10 حدیث: 3350)۔
([19] ) صحیح مسلم كتاب الإيمان باب في قوله تعالى: {وأنذر عشيرتك الأقربين} (کتاب:1 باب:89 حدیث: 348 (204)۔
([20] ) صحیح مسلم كتاب الإيمان باب في قوله تعالى: {وأنذر عشيرتك الأقربين} (کتاب:1 باب:89 حدیث: 351 (206)۔
([21] ) صحیح بخاری كتاب الجهاد والسير باب الغلول (کتاب:56 حدیث:3073)۔ صحیح مسلم كتاب الإمارة باب غلظ تحريم الغلول (کتاب:33 باب:6  حدیث: 24 (1831)۔
[22]) ) متفق علیہ ،صحیح بخاری كتاب الجهاد والسير باب حفر الخندق (کتاب:۵۶ باب:۳۴  حدیث:۲۸۳۷)۔ صحیح مسلم كتاب الجهاد والسير باب غزوة الأحزاب (کتاب:۳۲  باب:۴۴ حدیث: ۱۲۵ (۱۸۰۳)۔
[23]) ) اس لفظ سے مندرجہ ذیل حدیث کی طرف اشارہ ہے:  
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ» ثَلَاثًا غَيْرُ تَمَامٍ....الخ  [صحیح مسلم ،كتاب الصلاة، باب وجوب قراءة الفاتحة في كل ركعة، وإنه إذا لم يحسن الفاتحة، ولا أمكنه تعلمها قرأ ما تيسر له من غيرها،  (کتاب:۴ باب:۱۱ حدیث: ۳۸ (۳۹۵)۔
([24] ) جیسا کہ حدیث ہے: «لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب» (اس شخص کی صلاۃ ]نماز[ نہیں جس نے سورہ فاتحہ نہیں پڑھی)۔ متفق علیہ ،صحیح بخاری كتاب الأذان باب وجوب القراءة للإمام والمأموم في الصلوات كلها، في الحضر والسفر، وما يجهر فيها وما يخافت (کتاب:10 حدیث:756)۔ صحیح مسلم كتاب الصلاة باب وجوب قراءة الفاتحة في كل ركعة، وإنه إذا لم يحسن الفاتحة، ولا أمكنه تعلمها قرأ ما تيسر له من غيرها (کتاب:4  باب:11 حدیث: 34 (394)۔
[25]) ) [صحیح مسلم ،كتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب الدعاء في صلاة الليل وقيامه،  (کتاب:۶ باب:۲۶ حدیث:۲۰۰ (۷۷۰)۔
[26]) ) [صحیح مسلم ،كتاب البر والصلة والآداب، باب تحريم الظلم،  (کتاب:۴۵ باب:۱۵ حدیث:۵۵ (۲۵۷۷)۔ اس حدیث کی تفصیلی شرح دیکھنے کے لئے ہماری کتاب شرح اربعین نووی کا مطالعہ کریں۔
[27]) ) [سنن ترمذی،أبواب القدر، باب ما جاء أن القلوب بين أصبعي الرحمن،  (کتاب:۳۰ باب:۷ حدیث:۲۱۴۰)۔ علامہ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ [سلسلہ صحیحہ ۵/۱۲۶/۲۰۹۱]۔

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق