الإسراء والمعراج
معراج رسول e
اعداد:
عبدالہادی عبدالخالق مدنی
داعية المكتب
التعاوني للدعوة والإرشاد وتوعية الجاليات
بالأحساء
O
معراج رسول e
اعداد:
عبدالہادی عبدالخالق مدنی
داعية
المكتب التعاوني للدعوة والإرشاد
وتوعية
الجاليات بالأحساء
|
6
مقدمہ (طبع دوم)
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ ۔ أما بعد :
“واقعۂ معراج ہمارے پیغمبر آخر الزماں محمد رسول اللہ e کا ایک عظیم
الشان معجزہ ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی آیات کبریٰ کا مشاہدہ بھی عظیم تر ہے۔
لیکن عجیب بات ہے کہ ابھی تک اس معجزۂ عظیم کی مستند تفصیلات کسی ایک جگہ نہیں
ملتیں، احادیث وتفاسیر میں جہاں کہیں بھی یہ واقعہ اور اس کی تفصیلات بیان ہوئی
ہیں ’ وہاں یا تو صحیح روایات کے ساتھ رطب ویابس روایات بھی اس طرح جمع کردی گئی
ہیں کہ واقعے کی صحیح شکل سامنے نہیں آتی یا پھر محض صرف صحیح روایات کو جمع کردیا
گیا ہے تاہم اس طریقے سے بھی واقعات کی توضیح وتنقیح نہیں ہوپاتی۔”
یہ وہ کلمات ہیں جنھیں حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ نے
اپنی کتاب (واقعۂ معراج اور اس کے مشاہدات ایک تحقیقی جائزہ) کے مقدمہ کے پہلے
فقرہ میں لکھا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ وہ احساسات ہیں جو کتاب کی تالیف کا محرک بنے،
شاید اسی قسم کے احساسات کا تھوڑا سا حصہ مجھ ناچیز کو بھی ملا تھا اس لئے
خاکسار نے بھی اس سمت میں اپنی ایک حقیر
سی کوشش کرڈالی تھی جس کے نتیجہ میں پیش نظر کتاب منصۂ شہود پر آئی، یہ کتاب پہلی بار ہندستان میں سنہ ۱۴۲۶ھ مطابق
۲۰۰۵ء میں دہلی میں طبع ہوئی۔ اس کے تقریباً ایک سال کے بعد حافظ صاحب موصوف کی کتاب مکتبہ دارالسلام سے
طبع ہوئی جیسا کہ کتاب کے مقدمہ میں رجب ۱۴۲۷ھ مطابق جولائی ۲۰۰۶ء کی تاریخ درج
ہے۔ کاش حافظ صاحب کی تالیف پہلے منظرعام پر آجاتی تو مجھ جیسے طفل مکتب کو کچھ
لکھنے کی ضرورت نہ ہوتی، مگر شاید اللہ تعالیٰ نے اس موضوع پر کچھ خامہ فرسائی کی
سعادت کو میرے مقدر میں بھی لکھ دیا تھا، رب کریم کی اس توفیق ارزانی پر میں بے
انتہا شکرگذار ہوں، اگر میری یہ سعی وکوشش کچھ بھی مفید اور برحق ہے تو یہ سب کچھ
اسی کا احسان اور فضل وکرم ہے، اور اگر کوئی غلطی ہے تو میں اللہ کے حضور صدق دل
سے توبہ کا خواستگار ہوں۔ إنه
سميع قريب.
اپنی تحریری کوششوں کے تعلق سے میرا اپنا ایک طریقہ ہے کہ
ان کی طباعت کے بعد بھی میں ان کی تحسین وتزئین اور تحقیق وتدقیق میں لگا رہتا
ہوں، مفید تبدیلیاں کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا،خواہ وہ کچھ باتیں حذف کرنے کی
صورت میں ہو یا کچھ باتوں کے اضافے کی شکل میں۔ چنانچہ اس کتاب کے ساتھ بھی میں نے
وہی سلوک کیا ہے اور اللہ کے فضل سے امید ہے کہ یہ پہلے سے کافی مفید اور بہتر بن
گئی ہے۔
حافظ صاحب موصوف میرے لئے استاد الاساتذہ کی فہرست میں آتے
ہیں، میں نے آپ کی تحریروں سے کافی فائدہ اٹھایا ہے، اللہ تعالی آپ کو اپنی اطاعت
کے ساتھ لمبی عمر عطا فرمائے تاکہ آپ امت کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچاسکیں۔ میری
اس کتاب کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ حافظ صاحب موصوف کی کتاب کا بھی مطالعہ ضرور کرنا
چاہئے کیونکہ آں موصوف کی کتاب کا اپنا
طرزوانداز ہے اور مجھ ناچیز کا اپنا طریقہ واسلوب۔ ؏ ہرگلے را رنگ وبوئے دیگر است۔
زیر نظر کتاب کا دوسرا ایڈیشن منظر عام پر لاتے ہوئے رب
العالمین کا بے حدوحساب شکرگذار ہوں اور دعاگو ہوں کہ رب کریم اپنے فضل عمیم سے
ہماری لغزشوں اور کوتاہیوں کو معاف فرمائے اور اپنے انعام یافتہ بندوں کی رفاقت
نصیب فرمائے ، اور اس کتاب کو اپنے بندوں کےلئے مفید وکارآمد بنائے۔ آمین
دعاگو
عبدالہادی عبدالخالق مدنی
کاشانۂ خلیق ۔ اٹوابازار۔ سدھارتھ نگر ۔ یوپی۔انڈیا
داعیہ دفتر تعاون برائے دعوت وارشاد وتوعیۃ
الجالیات ،احساء
ص ب ۲۰۲۲ ہفوف۔ الاحساء ۳۱۹۸۲ مملکت
سعودی عرب
۲۵/ربیع الاول ۱۴۳۱ھ بروز جمعرات مطابق ۱۲/مارچ ۲۰۱۰ء
5
پیش لفظ (طبع اول)
الحمد للہ رب العالمین، والصلاة والسلام علی محمد النبي الامین، وعلی آله وأصحابه أجمعين، أما بعد :
تمام
انبیاء ورسل علیہم الصلاة والسلام کو اﷲ تعالیٰ نے کچھ ایسے دلائل اور براہین سے
نوازا تھا جسے دیکھ کر لوگ ان پر ایمان لائیں، ان دلائل کو قرآنی الفاظ میں آیات
اور عموماً معجزات سے تعبیر کیا جاتا ہے۔نبی آخرالزماں محمد عربیeکو بھی اﷲ تعالیٰ نے بیشمار آیات ومعجزات سے نوازا، ان میں سے ایک اہم اور
انوکھا معجزہ واقعۂ معراج ہے۔ درحقیقت یہ ایک معجزہ نہیں بلکہ مجموعۂ معجزات ہے۔ واقعۂ
معراج نبی کریمeکی حیات مبارکہ کا ایک منفرد، ممتاز اور عظیم الشان واقعہ
ہے۔وہ اعجاز بھی ہے اور اعزاز بھی، باعث افتخار بھی ہے اور دلیل نازبھی، وہ ایک
طرف رب ذوالجلال کی قدرت کاملہ کا ظہور،الٰہی معجزہ ، صداقت نبوت کی آیت اورنشانی
ہے تو دوسری طرف اپنے اندر بے شمار عبرت وموعظت اور دروس ونصائح کے خزانے سے معمور
اور عقیدہ وعمل کے بیش بہا موتیوں سے مالامال ہے۔ اس واقعہ میں عقیدہ کی اصلاح بھی
ہے اور بہت سے معاشرتی آداب کی تعلیم بھی، یہ واقعہ رب کریم کے ساتوں آسمانوں کے
اوپر اپنی مخلوق سے الگ اپنے عرش پرمستوی ہونے کی مضبوط ومستحکم دلیل بھی ہے اور
اقامت صلاة کی ترغیب بھی۔ بہرکیف اس میں بہت سے فوائد واسباق ہیں۔ اس واقعہ کی اسی
گوناگوں اہمیت کے پیش نظر علمائے اسلام نے اسے خصوصی اہمیت دی ہے اور اس کی تشریح
وتوضیح میں اپنی کاوشیں صرف کی ہیں۔ہم نے متعدد محاضرات میں اسے اپنی گفتگو کا
موضوع بنایا اور اسے خود اپنے لئے اور اپنے سامعین کے لئے نہایت مفید اور دلچسپ
پایا۔ چنانچہ احباب نے یہ خواہش ظاہر کی کہ اسے کتابی صورت دے دی جائے کیونکہ زبان
کے مقابلے میں تحریر کی افادیت زیادہ عام ہے نیز اردو زبان میں ہمارے ناقص علم کے
مطابق اس موضوع پر کوئی باقاعدہ کتاب نہیں ہے۔جو کچھ ہے یاتو ضخیم کتابوں کے اندر
ہے یا پھر مستند وغیرمستند اور صحیح و ضعیف وموضوع روایات کی تمیز اور واقعات کی
صحت وضعف کی تحقیق کے بغیر ہے نیز فوائد کے استنباط میں بھی توحید وشرک ، سنت
وبدعت اور منہج سلف وخلف کی تمیز روا نہیں رکھی گئی ہے۔
ہم
نے پیش نظر کتابچہ میں صرف صحیح ومستند روایات نیز مقبول ومعتبر احادیث وآثار کو
جگہ دی ہے۔ اس سلسلہ میں محدث عصر شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اﷲ کی کتاب
''الاسراء والمعراج'' سے استفادہ کیا ہے نیز مسائل وفوائد کے استنباط میں حافظ ابن
حجر رحمہ اﷲ کی تالیف لطیف فتح الباری شرح بخاری سے زیادہ ترفائدہ اٹھایا ہے۔
اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس مختصر رسالہ کو فروغ
عطا فرمائے اور اس کے مشمولات کو اپنے بندوں کی ہدایت اور اصلاح کا سبب بنائے اور
اسے ہمارے لئے باعث نجات اور بروز قیامت میزان عمل کو وزنی کرنے کا ذریعہ
بنائے۔آمین
دعاگو:
عبدالہادی عبدالخالق مدنی
کاشانۂ خلیق ۔ اٹوابازار۔ سدھارتھ نگر ۔ یوپی۔انڈیا
داعیہ دفتر تعاون برائے دعوت وارشاد وتوعیۃ
الجالیات ،احساء
ص ب ۲۰۲۲ ہفوف۔ الاحساء ۳۱۹۸۲
مملکت سعودی عرب
۱۴۲۶ھ مطابق ۲۰۰۵ء
قرآن مجید میں ذکر معراج
اللہ
تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن مجید کے اندر اسراء اور معراج کا ذکر جمیل کرتے ہوئے
ارشاد فرمایا: ﮋﭑ ﭒ ﭓ ﭔ ﭕ ﭖ ﭗ ﭘ ﭙ ﭚ ﭛ ﭜ ﭝ ﭞ ﭟ ﭠ ﭡﭢ ﭣ ﭤ ﭥ ﭦﮊ الإسراء:١ (پاک ہے وہ ذات جو اپنے عبد (بندے)([1]) کو
رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجداقصی تک لے گیا([2]) جس
کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے([3]) تاکہ
اسے ہم اپنی بعض آیات (نشانیاں) دکھائیں([4])
یقیناً اﷲتعالیٰ ہی خوب سننے دیکھنے
والا ہے)۔
واقعۂ معراج کی تاریخ
مورخین
واصحاب سیر کا اس بات پر اتفاق ہے کہ معراج کا واقعہ ہجرت سے پہلے ہوا ہے لیکن
ہجرت سے کتنے پہلے ہوا ہے اس میں کافی اختلاف ہے۔([5])
اسی طرح شب معراج کے مہینے ، دن اور تاریخ کی تعیین میں بھی
اختلاف ہے۔ علامہ صفی الرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ نے "الرحیق المختوم"
میں تاریخ معراج سے متعلق اہل سیر کے چھ مختلف اقوال نقل کئے ہیں، لیکن کسی بھی
قول کو راجح قرار نہیں دیا ہے، کیونکہ کسی کی ترجیح کے حق میں کافی دلائل وشواہد
موجود نہیں تھے، البتہ آپ نے لکھا ہے کہ "سورۂ اسراء کے سیاق سے اندازہ ہوتا
ہے کہ یہ واقعہ مکی زندگی کے بالکل آخری دور کا ہے"۔([6])
معراج روحانی ہوا یا جسمانی؟
اہل
سنت وجماعت کے محقق علمائے کرام کا فیصلہ ہے کہ معراج حالت بیداری میں جسم وروح
سمیت ہوا ہے اور یہی قول برحق ہے۔ اس کے چند دلائل حسب ذیل ہیں:
١۔ اس واقعہ کے بیان کے لئے اﷲ
تعالی نے تعجب کا صیغہ ﮋﭑﮊ استعمال کیا ہے جیسا کہ آیت پہلے گذر چکی ہے۔ اگر یہ واقعہ
صرف ایک خواب ہوتا تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں تھی کیونکہ خواب میں زمین
وآسمان کی سیر ایک عام آدمی سے بھی ہوسکتی ہے۔
٢۔ اﷲ تعالیٰ نے واقعۂ معراج کا
ذکر کرتے ہوئے یہ فرمایا ہے کہ اﷲ اپنے بندے کو لے گیا، اور یہ بات معلوم ہے کہ
بندہ جسم وروح دونوں کے مرکب کا نام ہے۔ قرآن کریم کی متعدد آیات میں لفظ
''عبد''(بندہ) جسم وروح دونوں کے مجموعے پر بولا گیا ہے۔مثال کے طور پر سورہ طہ
آیت (٧٧) سورہ شعراء آیت(٥٢) سورہ دخان آیت (٢٣) سورہ بقرہ (٨٦) وغیرہ۔
٣۔ کفار نے اس واقعہ کی تکذیب کی
بلکہ بعض ضعیف الایمان مسلمانوں کے بھی قدم ڈگمگا گئے ۔ اگر یہ واقعہ خواب کا ہوتا
یا فقط کوئی روحانی سیر ہوتی تو اس میں ایسی حیرت کی کوئی بات نہیں تھی جس کو
جھٹلانے کی ضرورت ہو۔
٤۔ صحیحین کی روایت ہے کہ کفار نے
بیت المقدس کے تعلق سے نبی eسے سوالات کئے تو اﷲ تعالی نے بیت المقدس کو آپ کے سامنے
کردیا۔ کفار پوچھتے جاتے تھے اور آپ سامنے دیکھ دیکھ کر بتلاتے جاتے تھے۔
اگر
یہ صرف خواب کی بات ہوتی تو کفار کی جانب سے بیت المقدس سے متعلق تفصیل پوچھنے کی
ضرورت نہ تھی اور اگر کسی نے پوچھا بھی ہوتا تو اتنا جواب دے دینا کافی تھا کہ میں
تو اپنا خواب بیان کررہا ہوں۔اﷲ تعالی کو بیت المقدس آپ کے سامنے جلوہ گر کردینے
کی کوئی ضرورت نہ ہوتی۔
حقیقت یہ ہے کہ معراج کا سفر ایک جسمانی سفر تھا ، اس میں
جو کچھ دیکھا گیا وہ عینی مشاہدات تھے ، وہ کوئی روحانی سیر یا قلبی مشاہدات یا
کشف یا خواب کا معاملہ نہیں تھا ، اسے خواب یا روحانی سیر یا قلبی مشاہدہ قرار
دینا بالکل باطل ہے ، ایسا کہنے سے اس واقعہ کی ساری اہمیت وعظمت ختم ہوجاتی ہے۔
واقعۂ معراج کا پس منظر
نبی کریم
eکے چچا ابوطالب اور آپ کی بیوی خدیجہ r کے انتقال کے بعد یہ واقعہ ہوا۔ ابوطالب وہ شخص تھے
جو رشتہ داری کی بنا پر نبی eکی حمایت کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے:
ابوطالب([8]) اور خدیجہ کے انتقال کے بعد کفار کے حوصلے اور
جرأتیں بڑھ گئیں ، انھوں نے آپe پر زمین تنگ کردی اور آپ کا چلنا پھرنا دوبھر کردیا۔ ایسے حالات
میں اﷲ تعالی نے آپ کے لئے آسمان کی وسعتوں کے دروازے کھول دیئے۔
وہ اﷲ جس نے آپ کو آخری نبی بنایا تھا ، جس نے آپ کو دعوت
توحید عام کرنے کے لئے بھیجا تھا وہ اپنے نبی کو اپنی قدرت کے جلوے برہنہ آنکھوں
سے دکھانا چاہتا تھا تاکہ آپ پریشان نہ ہوں اور موجودہ مصائب سے دل چھوٹا نہ کریں
۔ اﷲ کے نبی e کو اﷲ عزوجل کے قدرت کی معرفت ضرور تھی اور آپ e خوب واقف تھے
کہ وہی اﷲ تعالیٰ نوح u کی کشتی کو پار لگانے والا ہے اور وہی یونس u کو
مچھلی کے پیٹ سے دوبارہ زندہ وسلامت واپس لانے والا ہے اور وہی ابراہیم u پر
آگ کے شعلوں کو گل وگلزار بنانے والا ہے اور وہی موسی u کو
دریا پایاب کرکے نجات عطا فرمانے والا اور فرعون کو غرقاب کرنے والا ہے اور وہی عیسی
u کو تختۂ دار سے محفوظ رکھنے والا ہے لیکن اﷲ
تعالیٰ کا ارادہ تھا کہ وہ اپنے نبی e کو اپنی بعض بڑی بڑی نشانیاں چشم دید کرادے تاکہ
علم الیقین سے آگے بڑھ کر آپ کو عین الیقین حاصل ہوجائے۔
راویان حدیث معراج
واقعۂ
معراج کی حدیث ستائیس صحابۂ کرام اور تین صحابیات ] سے مروی ہے۔([9]) ہم
ذیل میں ان کے نام ذکر کرتے ہیں:
(١) ابوہریرہ t (٢) انس بن مالک t
(٣) ابی بن کعب t (٤) بریدہ بن حصیب t
(٥) جابر بن عبداﷲ t (٦) حذیفہ بن یمان t
(٧) شداد بن اوس t (٨) صہیب رومی t
(٩) عبد الرحمن بن قرظ t (١٠)عبد اﷲ بن عباس t
(١١) عبد اﷲ بن عمر t (١٢) عبد اﷲ بن مسعود t
(١٣) علی بن ابی طالب t (١٤)عمر بن خطاب t
(١٥) مالک بن صعصعہ t (١٦)ابوایوب انصاری t
(١٧) ابوذر غفاری t (١٨)ابوسعید خدری t
(١٩) ابو حبہ t (٢٠) ابو یعلی t
(٢١) ابو امامہ t (٢٢) سمرہ بن جندب t
(٢٣)ابوالعمراء t (٢٤) سہل بن سعد t
(٢٥) عبداﷲ بن عمرو بن
عاص t (٢٦) ابوسفیان اموی t
(٢٧)عبداﷲ بن أسعد بن
زرارہ t (٢٨) عائشہ صدیقہ r
(٢٩) ام ہانی r (٣٠) اسماء بنت ابی بکر r
واقعۂ
معراج کی تفصیل کے لئے ہم نے مالک بن صعصعہ t کی روایت
کو اصل بنایا ہے جو واقعۂ معراج سے متعلق سب سے زیادہ تفصیلی حدیث ہے اور وہ
صحیحین میں مروی ہے نیز اسے صاحب مشکاة نے باب قصۃ المعراج کے فصل اول کی پہلی
حدیث کے طور پر ذکر کیا ہے۔ دیگر صحابہ کی روایات سے ثابت اضافے ہم نے قوسین ()
میں ذکر کرکے حاشیہ میں ان کا حوالہ دے دیا ہے۔نیز بعض مقامات پر معمولی وضاحتی
نوٹ بھی ہم نے قوسین () ہی میں رکھا ہے۔
حدیث معراج
مالک بن صعصعہ t بیان کرتے
ہیں کہ اﷲ کے نبیe نے اسراء ومعراج کی شب کا
واقعہ لوگوں سے بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
رب کے قاصد کی
آمد
|
شق صدر
|
براق کی سواری
|
بیت المقدس کا
سفر
|
بیت المقدس سے باہر ایک پتھر کے ایک حلقے میں جبریل u نے براق کو
باندھ دیا۔ یہ وہی حلقہ تھا جس سے انبیاء کرام اپنی سواریاں باندھا کرتے تھے۔اس کے
بعد بیت المقدس میں داخل ہوئے اور دو رکعتیں صلاة پڑھی([24])۔
پھر اﷲ کے نبی
eکو پیاس لگی ۔ آپ کے سامنے دو پیالے پیش کئے گئے۔ ایک پیالہ
میں دودھ تھا اور دوسرے پیالے میں شراب تھی۔ محمد eنے دودھ کا پیالہ منتخب کرکے اسے نوش فرمایا([25])۔ جبریل u نے کہا: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَاكَ لِلْفِطْرَةِ لَوْ
أَخَذْتَ الْخَمْرَ غَوَتْ أُمَّتُكَ ''ہر قسم کی
حمدوثنا اﷲ کے لئے جس نے آپ کو فطرت کی رہنمائی کی، اگر آپ نے شراب کو اختیار کیا
ہوتا تو آپ کی امت گمراہ ہوگئی ہوتی''([26]))
پہلے آسمان میں
داخلہ
|
آدم u سے ملاقات
|
دوسرے آسمان پر
|
تیسرے آسمان پر
|
چوتھے آسمان پر
|
پانچویں آسمان پر
|
اس کے بعدجبریلu مجھے لے کر اوپرچڑھے یہاں تک کہ چھٹے آسمان پر پہنچے اور دروازہ
کھولنے کے لئے کہا تو دریافت کیا گیا کہ آپ کون ہیں ؟ انھوں نے جواب دیاکہ میں
جبریل ہوں۔ پھر پوچھا گیاکہ آپ کے ساتھ کون ہیں؟ انھوں نے بتایاکہ میرے ساتھ محمد e ہیں۔ پھر پوچھا گیا: کیا انھیں بلایا گیا ہے؟ جبریل u نے
جواب دیاکہ ہاں! انھیں بلایا گیا ہے۔ تب کہا گیا کہ ہم انھیں مرحبا کہتے ہیں، آنے
والے کو آنا مبارک ہو۔ پھر آسمان کا دروازہ کھول دیا گیا۔ تو میں اندر داخل ہوا ،
وہاں میرے سامنے موسیٰ u تھے۔جبریل u نے کہا: یہ موسیٰ ہیں ، آپ انھیں سلام کیجئے۔ میں
نے انھیں سلام کیا تو انھوں نے سلام کا جواب دیااور کہا: نیک بھائی اور نیک نبی کو
مرحبا ہو۔ جب میں وہاں سے آگے بڑھا تو موسیٰ u رونے لگے،
ان سے دریافت کیا گیا کہ آپ کس وجہ سے روپڑے تو آپ نے فرمایا: میرے رونے کی وجہ یہ
ہے کہ ایک نوجوان کو میرے بعد نبی بنا کر بھیجا گیا لیکن جنت میں داخل ہونے والے
ان کے امتیوں کی تعداد میری امت سے زیادہ ہے([35])۔
ساتویں آسمان پر
|
ابراہیم u
کا پیغام
امت محمدe کے نام
|
سدرۃ المنتہیٰ تک
|
صلاۃ کی فرضیت
|
معراج کے تین
تحفے
|
جنت وجہنم کی سیر
|
انبیاء کی امامت
|
اہل مکہ کے سامنے
اعلان
|
کفار مکہ کا رد
عمل
|
ایمان صدیق t کا ظہور
|
²²²
فہرست
مضامین
المحتويات
|
صفحہ
|
موضوعات
|
مقدمة
الطبعة الثانية
|
4
|
مقدمہ
طبع دوم
|
مقدمة
الطبعة الأولى
|
7
|
پیش
لفظ (طبع اول)
|
الإسراء
في القرآن الكريم
|
10
|
قرآن
مجید میں ذکر معراج
|
تاريخ
الإسراء والمعراج
|
15
|
واقعۂ
معراج کی تاریخ
|
كان
المعراج بالروح أم بالجسد؟
|
17
|
معراج
روحانی ہوا یا جسمانی؟
|
قبل
قصة المعراج
|
19
|
واقعۂ
معراج کا پس منظر
|
رواة
حديث المعراج
|
22
|
راویان
حدیث معراج
|
حديث
المعراج
|
24
|
حدیث
معراج
|
نزول
جبريل عليه السلام
|
24
|
رب
کے قاصد کی آمد
|
شق
الصدر
|
25
|
شق
صدر
|
ركوب
البراق
|
29
|
براق
کی سواری
|
سفر
بيت المقدس
|
32
|
بیت
المقدس کا سفر
|
اختيار
الفطرة
|
36
|
فطرت
کا انتخاب
|
دخول
السماء الدنيا
|
38
|
پہلے
آسمان میں داخلہ
|
لقاء
آدم عليه السلام
|
41
|
آدم
u سے ملاقات
|
على
السماء الثانية
|
43
|
دوسرے
آسمان پر
|
على
السماء الثالثة
|
44
|
تیسرے
آسمان پر
|
على
السماء الرابعة
|
45
|
چوتھے
آسمان پر
|
على
السماء الخامسة
|
46
|
پانچویں
آسمان پر
|
على
السماء السادسة
|
48
|
چھٹے
آسمان پر
|
على
السماء السابعة
|
50
|
ساتویں
آسمان پر
|
رسالة
إبراهيم # إلى
الأمة المحمدية
|
52
|
ابراہیم
u کا پیغام امت محمدe کے نام
|
إلى
سدرة المنتهى
|
54
|
سدرۃ
المنتہیٰ تک
|
فرضية
الصلاة
|
58
|
صلاۃ
کی فرضیت
|
ثلاث
هدايا في ليلة المعراج
|
64
|
شب معراج
کے تین تحفے
|
رؤية
الجنة والنار
|
69
|
جنت
وجہنم کی سیر
|
إمامة
الأنبياء
|
72
|
انبیاء
کی امامت
|
الإعلان
أمام أهل مكة
|
73
|
اہل
مکہ کے سامنے اعلان
|
ردة
فعل كفار مكة
|
75
|
کفار
مکہ کا رد عمل
|
ظهور
إيمان الصديق رضي الله عنه
|
77
|
ایمان
صدیق t کا ظہور
|
([1]) واقعۂمعراج ایک عظیم الشان معجزہ اور نبی رحمت eکے لئے اﷲ کی جانب سے ایک عظیم ترین اعزاز اور محمد بن
عبداﷲeکے شرف وعظمت کی ایک نمایاں دلیل ہے ۔ اس واقعہ کے ذکر میں
اﷲ تعالی نے نبی کریم e کا نام لینے کے بجائے لفظ(عبد) استعمال کیا تاکہ یہ بات خوب
اچھی طرح ذہن نشین ہوجائے کہ شب کی چند
گھڑیوں میں زمین وآسمان اور جنت وجہنم کی سیر کرنے والے اﷲ کے محبوب بندے اور غلام
ہیں ، یہ عظمتیں ان کو ان کے معبود نے عطا کی ہیں ، آپ خود معبود نہیں ، نہ ہی
خالق ہیں ، نہ ہی رب ہیں بلکہ آپ تو اﷲ کے عبد اور غلام ہیں۔ قرآن پاک میں اﷲ
تعالی نے دیگر اہم مقامات پر بھی آپ کی عبدیت کا ہی ذکر کیا ہے:
١۔ مقام دعا وعبادت:ارشاد ہے: ﮋﮀ
ﮁ ﮂ ﮃ
ﮄ ﮅ ﮆ
ﮇ ﮈ ﮉﮊ الجن: ١٩ ( اور جب اﷲ کا بندہ اس کی عبادت کے
لئے کھڑا ہوا تو قریب تھا کہ وہ بھیڑ کی بھیڑ بن کر اس پر پل پڑیں)۔
٢۔ مقام چیلنج: ارشاد ہے: ﮋ ﯢ
ﯣ ﯤ ﯥ
ﯦ ﯧ ﯨ
ﯩ ﯪ ﯫ
ﯬ ﯭ ﯮ
ﯯ ﯰ ﯱ
ﯲ ﯳ ﯴ ﯵﮊ البقرة:٢٣ (ہم نے جو کچھ اپنے بندے پر اتارا ہے اس میں اگر تمھیں
شک ہو اور تم سچے ہو تو اس جیسی ایک سورت تو بنالاؤ،تمھیں اختیار ہے کہ اﷲ تعالیٰ
کے سوا اپنے مددگاروں کو بھی بلالو)۔
٣۔ مقام فتح بدر: ارشاد ہے: ﮋ ﭡ
ﭢ ﭣ ﭤ
ﭥ ﭦ ﭧ
ﭨ ﭩ ﭪ ﮊ الانفال: ٤١ (اگر تم اﷲ پر ایمان لائے ہو اور اس چیز پر جو ہم نے
اپنے بندے پر اس دن اتارا ہے جو دن حق وباطل کی جدائی کا تھا)۔
نبی
کریم eنے خود بھی مقام عبدیت کو اپنے لئے پسند فرمایا ہے چنانچہ
آپ eکا ارشاد ہے: ((تم میرے بارے میں اس طرح مبالغہ آمیزی سے
کام نہ لینا جس طرح نصاریٰ نے عیسیٰ ابن مریم u کے بارے میں غلو کیا
ہے ، میں تو ایک بندہ ہوں لہٰذا مجھے اﷲ کا بندہ اور رسول کہو))۔ (بخاری)
غور
فرمائیں کہ عبدیت کا اعتراف رسالت کے اعتراف سے پہلے ہے ،چنانچہ مسلمان ہونے کے لئے کلمۂ شہادت میں ہی "أشهد أن محمدا عبده ورسوله" کہہ کر آپ eکی عبدیت و رسالت کا اقرار کرنا ضروری ہے۔
([2])جس وقت یہ واقعہ بیان کیا گیا تھا اس وقت ان دونوں مسجدوں
میں توحید کے بجائے شرک کا غلبہ تھا ۔ مسجد حرام مکہ میں تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے
تھے اور مسجد اقصی بھی صلیب پرستوں کے قبضے میں تھی ۔ ان حالات کے باوجود اﷲ نے
انھیں مسجد کہا تو اس میں یہ پیشین گوئی تھی کہ وہ ایک دن حقیقی مسجد ہوں گے اور
ان میں صرف اﷲ کے لئے سجدہ ہوگا،چنانچہ تاریخ شاہد ہے کہ ایسا ہوکر رہا، سنہ٨ ہجری میں مکہ فتح ہوا اور وہاں
سے سارے بت ہٹادیئے گئے اور سنہ ١٥ھ میں عمرفاروق t نے مسجد اقصیٰ کو فتح کیا۔ مذکورہ دونوں مسجدوں
اور ساتھ ہی مسجدنبوی کو جو خصوصی حیثیت حاصل ہے وہ کسی اور مسجد کو حاصل نہیں ہے۔
رسول اﷲe کا ارشاد ہے کہ ((تین مسجدوں مسجد
حرام(مکہ) مسجد نبوی (مدینہ) اور مسجد اقصی (فلسطین) کے سوا اور کسی جگہ کی طرف(اس
جگہ کو مبارک ومقدس سمجھ کر عبادت کی غرض سے) سفر کرنا درست نہیں))۔ (متفق علیہ) لہٰذا
اگر کسی نے نذر مانی کہ اگر میرا فلاں کام ہوگیا تو میں اپنے شہر سے باہر دوسرے
فلاں فلاں شہر کی مسجد میں جاکر نفل پڑھوں گا تو یہ نذر پوری کرنا درست نہیں،
کیونکہ تین مسجدوں کے سوا اور کسی جگہ کا سفر کرنا بغرض عبادت درست نہیں۔
یاد
رہے کہ جب تین مسجدوں کے علاوہ کسی مسجد کے لئے سفر نہیں کرسکتے تو کسی قبر یا
درگاہ کے لئے کیونکر سفر کرسکتے ہیں؟!
([3])ان برکتوں سے مراد یہ ہے کہ یہ
سرزمین انبیاء کی سرزمین ہے، اسی ملک شام کو ابراہیم u ہجرت کرکے پہنچے تھے
اور یہیں سے محمد e کو معراج کے لئے آسمانوں پہ لے جایا گیا، سلیمان u کی مملکت یہیں پر تھی،
طور کا پہاڑ یہیں پر ہے اور مسجد اقصی یہیں پر ہے ۔ یہاں پر ہرے بھرے درخت اور نوع
بہ نوع میوے اور قسم قسم کے لذیذ پھل پائے جاتے ہیں، یہاں پر خوبصورت نہریں جاری
ہیں اور یہ ایک حسین اور سر سبز وشاداب سرزمین ہے۔یہاں پر دینی اور روحانی برکتیں
بھی ہیں اور ظاہری اور مادی برکتیں بھی ہیں۔
([5])معراج کی تاریخ میں اختلاف سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ صحابہ
وتابعین اور سلف صالحین کے نزدیک اس رات کی وہ اہمیت نہیں تھی جو آج مسلمانوں کے
بعض حلقوں میں اسے دے دی گئی ہے کہ اس شب کو خصوصی طور پر جشن معراج کے طور پر
منایا جاتا ہے ، چراغاں کیا جاتا ہے ، محفلیں منعقد کی جاتی ہیں اور عید کی طرح
خوشیاں منائی جاتی ہیں۔ شب قدر کی طرح بلکہ بسا اوقات اس سے بھی بڑھ کر اس کے فضائل
ومناقب کا بیان ہوتا ہے۔ اس میں مخصوص صلاتیں اور دیگر خود ساختہ عبادتیں ادا کی
جاتی ہیں۔ اگر اس رات ان سارے کاموں کی انجام دہی شریعت کا حصہ ہوتی تو اس رات کی
تاریخ میں اس قدر شدید اختلاف ہرگز نہ ہوتا اور صحابہ وتابعین اس تاریخ کو لازمی
طور پر یاد رکھتے اور اس میں وہ سب کچھ کرتے جو دین وشریعت کا تقاضا ہوتاکیونکہ وہ
ہر نیکی میں ہم سے آگے رہنے والے تھے اور انھیں اﷲ ورسول سے ہم سے کہیں زیادہ محبت
تھی۔
([8])
ابوطالب اپنے بھتیجے محمد (e) سے بے حساب محبت کرتے تھے اور ان کی
ہمدردی اور نصرت واعانت میں کوئی کسر نہ چھوڑ رکھی تھی لیکن چونکہ انھوں نے آپ کی
لائی ہوئی دعوت توحید کو قبول نہیں کیا اس لئے اللہ کی رحمت کاملہ کے مستحق نہ
ہوسکے، چنانچہ صحیح بخاری وصحیح مسلم میں نہایت وضاحت اور صراحت کے ساتھ ان کے
جہنمی ہونے کا ذکر موجود ہے، البتہ نبی e کی شفاعت کی بنا پر انھیں جہنم کا سب
سے ہلکا عذاب دیا جائے گا، ان کے پاؤں میں آگ کی دو جوتیاں پہنائی جائیں گی جس سے
ان کا دماغ کھولتا رہے گا۔
([12])یہ روایت صحیحین میں ابوذر t سے مروی ہے۔ یہ بھی ایک نشانی تھی جو
اﷲ نے آپ کو دکھائی اور یہ آئندہ واقعات کے لئے ایک تمہید تھی کہ جس طرح چھت اپنی
جگہ سے ہٹ گئی ہے اور اس کے لئے مادی اسباب ووسائل استعمال نہیں کئے گئے اسی طرح
آپ کا سینۂمبارک چاک کیا جانے والا ہے اور اس کے لئے مادی اسباب ووسائل کی ضرورت
نہ ہوگی نیز وہ بھی دوبارہ ایسے ہی بند ہوجائے گا کہ شگاف کا کوئی سراغ باقی نہ
رہے گا اور ایسے ہی آسمان کے دروازے بھی آپ کے لئے کھول دیئے جانے والے ہیں ۔ اس
میں ایک نکتہ اور راز یہ بھی تھا کہ یہ سفر ماسبق اور مابعد کے تمام سفروں سے
انوکھا ہوگا، اس میں عجیب وغریب نوادرات کا آپ عینی مشاہدہ کریں گے جو آپ کے لئے
تعجب خیز ضرور ہوں گی لیکن ان کا وقوع پذیر ہونا محال اور ناممکن نہیں نیز یہ
چیزیں آپ کی عظمت ورفعت کو دوبالا کریں گی۔
([13])نبی eکے دل کو سونے کے طشت میں رکھ کر دھویا گیا ۔ اس میں اہل
علم نے بہت ساری حکمتیں بیان کی ہیں۔سونا ایک قیمتی چیز ہے اور اسے بطور قیمت
ہمیشہ تسلیم کیا گیاہے ، اس میں ایک خاص چمک ہے، اسے آگ میں ڈالا جائے تو جلکر ختم
ہونے کے بجائے اور نکھرتا ہے، اسے مٹی میں دفن کردیا جائے تو سڑتا نہیں، مٹی اسے
کھاتی نہیں، اس میں زنگ نہیں لگ سکتا ۔ ان بہت ساری خوبیوں کی بنا پر آپ e کا قلب مبارک رکھنے کے
لئے سونے کا برتن استعمال کیا گیا۔
([15])ایمان وحکمت سے نبی eکے قلب کو معمور کردیا گیا۔ ایمان قلبی یقین، زبانی اقرار
اور اعضاء کے ذریعہ عمل کا نام ہے اور حکمت علم وحلم اور عقل وعدل کا نام ہے جو
غصہ وجہالت اور ظلم وحماقت کی ضد ہے۔ حکمت یہ ہے کہ ہرقول وفعل ، ذات وصفات اور ہر
شخص کو وہی مقام دیا جائے جس کا وہ مستحق ہے۔ ایمان کے بعد حکمت سے زیادہ فضیلت
والی چیز کوئی نہیں کیونکہ اگر کوئی ہوتی تو حکمت کے بجائے اسے ساتھ رکھا
جاتا۔قرآن مجید میں حکمت کی بہت تعریف آئی ہے ۔ ارشاد باری ہے: ﮋﯩ
ﯪ ﯫ ﯬ ﯭ ﯮ ﯯﮊ البقرة: ٢٦٩ (جسے حکمت دے دیا گیا اسے بہت بڑی
بھلائی سے نواز دیا گیا)۔
یہاں
ایک سوال اٹھتا ہے کہ ایمان وحکمت تو معنوی چیزیں ہیں انھیں دل میں کیسے رکھا گیا
؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ کتاب وسنت میں معنوی چیزوں کے تعلق سے بہت سی ایسی باتیں
آئی ہیں جو مادی چیزوں کے لئے ہوتی ہیں، اور یہ اﷲ کی قدرت سے کچھ بھی بعید نہیں،
مثلاً موت کے تعلق سے نبی eنے بیان فرمایا کہ ((موت کو بروز قیامت جنت وجہنم کے درمیان
لاکر ذبح کردیا جائے گا))۔(متفق علیہ) نیز انسانی اعمال کا وزن کیا جائے گا ۔ اور صحیح
مسلم کی حدیث میں یہ بھی ہے کہ ((سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران قیامت کے دن اپنے
پڑھنے والے کے لئے سفارش کریں گے))۔ وغیرہ
([16])اگر اﷲ تعالی چاہتا تو آپ کا سینہ چاک کئے بغیر ایمان وحکمت
کو آپ کے سینہ میں ڈال سکتا تھا لیکن اﷲ تعالی نے ایسا اس لئے کیا تاکہ دنیاوی
اسباب کا خوف ختم ہوجائے اور آپ کے اندر شجاعت وبہادری پیدا ہوجائے، چنانچہ نبی eکی بہادری نہایت بے مثال تھی جیسا کہ آپ کی سیرت اس پر شاہد
عدل ہے۔ جہاں بڑے بڑوں کے پتے پانی ہوجاتے تھے ، جہاں سے بڑے بڑے بہادر بھاگ کھڑے
ہوتے تھے وہاں نبی e ثابت قدم رہتے تھے۔
علی t کہتے ہیں کہ جب زور کا
رن پڑتا تھا تو ہم نبی e کی آڑ میں آکر آپ کی
پناہ لیا کرتے تھے۔ سینہ بلا تکلیف چاک کئے جانے سے دنیاوی آلام کا خوف آپ کے دل
سے نکل گیا۔ ایسے ہی اس واقعہ سے آپ کے قوت یقین میں اضافہ ہوا کہ اﷲ تعالی بہت سی
چیزیں اسباب کے بغیر کرتا ہے چنانچہ آپ کی زندگی میں بیشمار واقعات ایسے ہوئے جو
خلاف اسباب تھے۔
([17])مشہور یہی ہے کہ شق صدر کا واقعہ نبی eکی زندگی میں دوبار ہوا لیکن تیسری بار شق صدر ہونے کے
واقعہ کو حافظ ابن حجر رحمہ اﷲ نے صحیح قرار دیا ہے۔ایک دفعہ جب آپ دائی حلیمہ کے
گھر پرورش پارہے تھے تو وہاں جبریل علیہ السلام آئے ، آپ کا سینہ چاک کیا اور ایک سیاہ لوتھڑا
نکال کر اسے باہر پھینک دیا اور فرمایا : یہ آپ کے اندر شیطان کا حصہ تھا۔ اور اس
کے بعد نبی e کی تربیت اور پرورش شیطانی آلائشوں
سے دور نہایت محفوظ انداز میں ہوئی۔ پھر دوبارہ جب آپ کو نبی بنایا جانے لگا تو
نبوت سے پہلے بھی ایک بار آپ کا سینہ چاک کیا گیا تاکہ اسے بارنبوت کو سنبھالنے کے
لئے مطلوبہ قوت کا متحمل بنادیا جائے۔ اور تیسری بار معراج سے پہلے آپ کا سینہ چاک
کیا گیا تاکہ آسمانی سفر نیز رب ذوالجلال سے ملاقات کے لئے آپ کو تیار کردیا جائے۔
شق
صدر کا واقعہ تین بار ہوا تاکہ کامل ہوجائے جیسے اعضاء وضو تین بار دھلے جانے کے
بعد ان کی طہارت کامل ہوجاتی ہے۔
([18])بعض اہل بدعت نے براق کی تصویر بنائی اور اپنی ہوس پرستی کا
مظاہرہ اس طرح کیا کہ اس پر چہرہ عورت کا لگایا اور بقیہ جسم گھوڑے کا بنایا جبکہ
صحیح احادیث کی روشنی میں یہ بات واضح کی جاچکی ہے کہ براق گدھے اور خچر کے بیچ کا
ایک جانور تھا اور جہاں تک چہرے کی بات ہے تو کسی نص شرعی سے یہ بات ثابت نہیں کہ
براق کو انسانی صورت عطا کی گئی تھی۔
([19])براق کا لفظ یا تو بریق سے مشتق ہے جس کا مطلب چمک اور
روشنی ہے یعنی وہ ایک سفید اور چمکدار جانور تھا۔ یاتو برق سے مشتق ہے جس کا مفہوم
یہ ہے کہ وہ بجلی کی طرح تیز رفتار تھا۔ گھوڑے کی سواری کی بجائے خچر سے چھوٹا اور
گدھے سے بڑا جانور اختیار کرنے کی حکمت اہل علم نے یہ بیان کی ہے کہ گھوڑے عموماً
عربوں کے یہاں حالت جنگ میں استعمال کئے جاتے تھے لیکن گدھے اور خچر حالت امن میں
استعمال ہوتے تھے۔ براق کی سواری گدھے اور خچر کے بیچ تھی جو اس بات کی نشانی تھی
کہ آپ پورے امن وامان کے ساتھ آسمان وزمین کی سیر کریں گے، کہیں کوئی خوف نہیں
ہوگا۔ساتھ ہی یہ دکھانا بھی مقصود تھا کہ گدھے اور خچر جو عموماً سست رفتار ہوتے ہیں ان کے درمیان کے جانور کو اﷲ نے نہایت
تیز رفتار بناکر ایک معجزہ عطا کیا۔
([21]) دراصل براق اس خوشی میں مچل رہا تھا کہ اس پر رحمت عالم eسواری فرمارہے ہیں ، اس کی ایک مثال وہ بھی ہے جب رسول اکرم
eاور آپ کے تین دوست ابوبکر وعمر وعثمان y احد کی پہاڑی پر چڑھے
تو احد مارے خوشی کے جھومنے لگااور اس حرکت کو سب نے محسوس کیا تو نبیe نے احد کو مخاطب کرکے
فرمایا: ((احد ٹھہر جا ! تیرے اوپر ایک نبی ، ایک صدیق اور دو شہید ہیں))۔(بخاری)
([23])یہ حدیث صحیح مسلم میں انس t سے مروی ہے۔موسیٰ u کا اپنی قبر میں صلاة
پڑھنا ان خصوصیات میں سے ہے جسے اﷲ تعالی نے اپنے انبیاء اور رسولوں کو عطا فرمایا
ہے۔ اگر چہ اﷲ عزوجل نے انبیاء اور رسولوں کو بشر اور انسان ہی بنایا ہے جیسا کہ
ارشاد باری ہے: ﮋﰄ ﰅ ﰆ ﰇ ﰈﮊ الكهف:١١٠ (فرمادیجئے کہ میں تمھیں جیسا ایک بشر ہوں) نیز ارشاد
فرمایا: ﮋﭑ ﭒ ﭓ
ﭔ ﭕ ﭖ
ﭗ ﭘ ﭙ
ﭚ ﭛ ﭜ
ﭝ ﭞ ﭟ
ﭠﭡ ﭢ ﭣ
ﭤ ﭥ ﭦ
ﭧ ﭨ ﭩ ﭪﮊ إبراهيم: ١١ (رسولوں نے اپنی قوموں سے کہا: ہم تو تم جیسے
انسان ہی ہیں لیکن اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے احسان فرماتا ہے
اور یہ ہمارے بس میں نہیں ہے کہ اﷲ کے حکم کے بغیر کوئی معجزہ لا سکیں)نیز تمام
انبیاء مرد تھے۔ ارشاد ہے: ﮋﮔ ﮕ ﮖ
ﮗ ﮘ ﮙ ﮚ ﮛﮊ يوسف:١٠٩ ،نحل:٤٣،انبیاء:٧ (ہم نے آپ سے پہلے مردوں کو ہی رسول بناکر بھیجا ہے جن کی
طرف ہم وحی کیا کرتے تھے)۔لیکن اﷲ تعالی نے انبیاء علیہم السلام کو بقیہ دوسرے
انسانوں کے مقابلے میں بہت ساری خصوصیات سے نوازا ہے اور بہت سے امتیازات عطا
فرمائے ہیں۔ ہم ان کی موت سے متعلق چند خصوصیات ذکرکررہے ہیں:
١۔ ہر نبی کو موت کے وقت اختیار
دیا جاتا ہے کہ وہ دنیا میں باقی رہے یا سفر آخرت اختیار کرے۔ حدیث میں ہے: ((جو
نبی بیمار پڑتا ہے اسے دنیا وآخرت کے درمیان اختیار دیا جاتا ہے))۔ (بخاری ومسلم)
لیکن انبیاء کرام ہمیشہ آخرت اور انعام یافتہ بندوں کی رفاقت اختیار کرتے ہیں۔
٢۔ سارے انبیاء اپنی قبروں میں
زندہ ہیں اور صلاة پڑھتے ہیں۔ (یہ قول رسول eمسند ابی یعلی میں بہ سند صحیح ثابت ہے۔ ملاحظہ ہوسلسلہ
صحیحہ للالبانی ح٦٢١)۔ نیز اس کی دلیل
موسیٰ علیہ السلام سے متعلق متن میں مذکور صحیح مسلم کی روایت بھی ہے۔ واضح رہے کہ
یہ برزخی زندگی ہے جس کی حقیقت کو اﷲ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے ہم اس پر ایمان
رکھتے ہیں اور اہل بدعت کی طرح نہ ہی اس کا انکار کرتے ہیں اور نہ ہی غلو کرکے اسے
دنیاوی زندگی کی طرح ثابت کرتے ہیں۔
٣۔ انبیاء کے جسموں کو زمین نہیں
کھاتی۔یہ اﷲ کی طرف سے اپنے برگزیدہ نبیوں کا اعزاز ہے کہ ان کے جسم مٹی میں نہیں
ملتے خواہ دفن کے بعد کتنی ہی طویل مدت گذر جائے۔ حدیث میں ہے: ((اﷲ تعالیٰ نے
نبیوں کے جسموں کو کھانا زمین پر حرام کردیا ہے))۔(ابوداود ، نسائی ، ابن ماجہ)
٤۔ انبیاء وہیں دفن کئے جاتے ہیں
جہاں ان کی وفات ہوتی ہے۔ مسند احمد کی روایت ہے کہ((ہر نبی کو وہیں دفن کیا گیا
جہاں اس کی موت ہوئی))۔ اسی لئے نبی eکو بھی حجرۂ عائشہ میں دفن کیا گیا جہاں آپ کی وفات ہوئی
تھی۔
(مزید تفصیل کے لئے ہماری کتاب '' وفات مصطفیٰ e'' کا مطالعہ کریں۔)
([24])یہ حدیث صحیح مسلم میں انس t سے مروی ہے لیکن ترمذی
اور مسند احمد میں حذیفہ t کی ایک حدیث ہے جس میں
انھوں نے نبی e کے بیت المقدس میں
صلاة پڑھنے کا انکار کیا ہے نیز براق کے پتھر کے حلقہ میں باندھنے کا بھی یہ کہتے
ہوئے انکار کیا ہے کہ کیا نبی e کو اس جانور کے بھاگ
جانے کا اندیشہ تھا جب کہ رب کریم نے اسے آپ کے لئے مسخر کردیا تھا۔ حذیفہ t کی یہ بات بڑی قابل عبرت ہے ۔ کیونکہ آپ نے اپنی
رائے سے ایک بات فرمائی اور وہ حقیقت کے خلاف نکلی ۔ اس لئے آپ کی بات جو محض رائے
پر مبنی تھی خلاف واقعہ ہونے کی بناپر بے قیمت ہوگئی ۔ دوسرے صحابۂ کرام y کی ثابت احادیث سے
معلوم ہوا کہ نبی e نے بیت المقدس میں
صلاة بھی ادا کی ہے اور پتھر کے ایک حلقہ سے براق کو باندھا بھی ہے۔ اسی لئے اہل
علم اس اصولی قاعدے پر متفق ہیں کہ ثابت کرنے والے کو انکار کرنے والے پر ترجیح
حاصل ہے اور جس نے یاد رکھا وہ نہ یاد رکھنے والے کے خلاف حجت ہے نیز ثابت حدیث کے
مقابلے میں رائے اور قیاس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
([25])یہ حدیث بھی صحیح مسلم میں انس t سے مروی ہے۔یاد رہے کہ
شراب کی حرمت مدینہ طیبہ میں نازل ہوئی، واقعۂ معراج کے وقت شراب حرام نہیں تھی،
لیکن چونکہ شراب ایسی خبیث شیء ہے جسے کوئی بھی صاحب عقل سلیم اور حامل فطرت
مستقیم اختیار نہیں کرسکتا ، شراب ام الخبائث ہے، ہر طرح کی برائیوں، گناہوں اور
بدکاریوں کی جڑ ہے۔شراب پینے سے عقل غائب ہوجاتی ہے اور پھر نیک وبداور اطاعت
ومعصیت کی تمیز ختم ہوجاتی ہے۔اسی لئے نبی e نے شراب کے بجائے دودھ کا انتخاب فرمایا جو نہایت
مبارک مشروب ہے، جو پانی بھی ہے اور کھانا بھی ہے۔ پیاس بھی بجھاتا ہے اور بھوک
بھی مٹاتا ہے۔ جس میں کسی قسم کا ضرر نہیں۔ پیدائش کے بعد سب سے پہلے انسان کے پیٹ
میں یہی غذا پہنچتی ہے اور اسی سے اس کی پرورش اور پرداخت ہوتی ہے۔
([26])یہ حدیث بخاری و مسلم میں ابوہریرہ t سے مروی ہے۔جبریل u کے حمدیہ کلمات سے ہمیں یہ نصیحت ملتی ہے کہ کسی
کار خیر کی ہدایت و توفیق پر ہمیں اﷲ کا شکرگذار ہونا چاہئے اور الحمدﷲ کہنا چاہئے
خواہ وہ ہم سے ہوا ہو یا ہمارے بھائی سے۔ اس فریب میں ہرگز نہ مبتلا ہونا چاہئے کہ
یہ کام ہماری اپنی محنت کا نتیجہ ہے اور یہ میدان ہم نے اپنے بل بوتے پر سرکیا ہے۔
امت محمدیہ کو حمد سے بڑی نسبت ہے ۔ ان کا ایک نام حمادون ہے۔ ان کے نبی کا نام
احمد اور محمد ہے۔ ان کی ابتدا بھی حمد سے ہے اور اختتام بھی حمد پر ہے۔ قیامت کے
دن حمد کا پرچم اسی امت کے نبی محمد e کے ہاتھ میں ہوگا۔یہ
امت جنت میں داخل ہوگی تو حمد کا نغمہ گاتے ہوئے ﮋ ﯯ
ﯰ ﯱ ﯲ
ﯳ ﯴ ﯵ
ﯶ ﯷ ﯸ
ﯹ ﯺ ﮊ الاعراف: ٤٣ ، اور جنت میں پہنچ کر بھی ان کی زبان
حمد سے تر ہوگی۔ ﮋ ﮁ ﮂ ﮃ
ﮄ ﮅ ﮆ ﮇﮊ يونس: ١٠ ۔
([27])اس سے معلوم ہوا کہ آسمان ایک حقیقی چیز ہے وہ فقط منتہائے
نگاہ یا حد نظر ہی نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے نیز اس میں دروازے بھی
ہیں اور ان دروازوں پر دربان فرشتے مقرر ہیں۔ ان دروازوں سے فرشتے آتے جاتے ہیں
اور اجازت لے کر ہی اندر داخل ہوتے ہیں۔اس سے ہمیں یہ نصیحت ملتی ہے کہ کسی گھر
میں داخل ہونے کے لئے ہمیں اجازت حاصل کرنی چاہئے۔ آج ہمارے ماحول میں بڑے افسوس
کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ لوگوں کو اس سنت اور ادب کی خبر نہیں ۔ اگر کسی بے تکلف
ساتھی سے کہاجائے کہ ہمارے گھر میں داخل ہونے کے لئے اجازت لے لیا کیجئے تو منہ
بگاڑ لے گا۔ بہر کیف اسلامی شریعت میں اجازت لینے کے بعض آداب ہیں جن میں سے چند
یہ ہیں:
١۔ داخل ہونے کے لئے اجازت طلب
کریں۔کہیں: السلام علیکم، کیا میں اندر آسکتا ہوں؟
٢۔دروازہ صرف اتنے زور سے
کھٹکھٹائیں کہ معلوم ہوجائے کہ کوئی دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے۔
٣۔ تین بار درمیان میں فاصلہ دے کر
دروازہ کھٹکھٹائیں، اس کے باوجود جواب نہ ملے تو واپس ہوجائیں۔
٤۔ جب گھر کے اندر سے پوچھا جائے
کہ آپ کون ہیں تو ''میں ہوں'' کہنے کے بجائے اپنا پورا نام بتائیں۔جیسے جبریل u نے پوچھنے پر بتایا: جبریل ہوں۔
٥۔اگر کسی کے یہاں اچانک پہنچ
جائیں اور وہ اپنے گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہ دے تو اس کو معذور سمجھیں۔
( مزید تفصیل کے لئے ہماری کتاب '' اسلامی حقوق وآداب'' کا
مطالعہ کریں۔)
([28])فرشتہ نے جبریل u
سے یہ نہیں پوچھا کہ آپ کے ساتھ کیا کوئی اور ہے؟ بلکہ یہ پوچھا کہ آپ کے
ساتھ کون ہے؟ اس کی وجہ یا تو یہ ہے کہ آسمان ایسا باریک ہے کہ اندر سے باہر کی
چیز نظر آتی ہے یا نبی محترم e کی رفاقت جبریل سے
انوار وتجلیات کی ایسی برکھا ہورہی تھی کہ فرشتہ کو احساس ہورہا تھا کہ کوئی اور
مبارک ہستی بھی جبریل u
کے ساتھ ہے۔پھر فرشتہ کو جب یہ
جواب ملا کہ ساتھ میں محمد e ہیں تو اس نے یہ نہیں
کہا کہ اﷲ تعالی سے پوچھ کر میں اندر آنے کی اجازت دوں گا بلکہ یہ کہا کہ کیا آپ
کو بلایا گیا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ فرشتوں میں محمد e کی آمداور تشریف آوری
کی چرچا پہلے سے تھی چنانچہ اس نے دروازہ کھول دیا ۔ یہاں ایک بات اور بھی معلوم
ہوتی ہے کہ اگر آپ نے کسی کو بلانے کے لئے اپنا قاصد بھیجا ہو اور وہ قاصد ساتھ میں
آرہا ہو تو گویا قاصد اس بات کی علامت اور نشانی ہے کہ اس شخص کو گھر میں آنے کی
اجازت ہے۔ اﷲ کے قاصد جبریل u کے ساتھ ہونے کی وجہ سے فرشتہ کو معلوم ہوگیا
کہ محمد e کو اندر آنے کی اجازت
ہے۔
([29])آدم u
پہلے نبی ہیں اور پہلے آسمان پر ان سے ملاقات ہوئی نیز آدم u وہ شخص ہیں جنھیں پہلے جنت میں جگہ دی گئی تھی
اور وہاں آپ مانوس ہوچکے تھے لیکن پھر اسے چھوڑ کر دنیا میں آنا پڑا تھا اور پھر
دوبارہ جنت میں ان کا داخلہ ہوا ۔ ان کے اس واقعہ کو سامنے رکھتے ہوئے بعض اہل علم
نے یہ نکتہ بیان کیا ہے کہ نبی e کو بھی یہ اشارہ دیا گیا
کہ آپ کو بھی انھیں کی طرح اپنا مانوس وطن مکہ چھوڑ کر ہجرت کرنی ہوگی لیکن پھر آپ
مکہ میں ایک دن دوبارہ معزز ومکرم داخل ہوں گے۔ آدم u
نے آپ کی نبوت کا اقرار کیا اور آپ کو نیک بیٹے سے تعبیر کیا کیونکہ آدمی
اپنے قابل فخر بیٹے کو اپنا بیٹا کہہ کر خوشی محسوس کرتا ہے اور کیوں نہ ہو کہ
محمد e آپ کی اولاد کے سردار ہیں۔اور قیامت کے دن سارے
انبیاء آپ کے پرچم تلے ہوں گے۔ یہاں ایک اور مسئلہ قابل غور ہے کہ محمد e نے اپنے ان فضائل کے
باوجود آدم u سے سلام کرنے میں پہل کی جس سے معلوم ہوا کہ آنے
والے کو پہلے سلام کرنا چاہئے اگر چہ وہ دوسروں سے افضل ہو۔
([30])قوسین کا اضافہ بخاری ومسلم میں ابوذرt کی حدیث میں ہے۔ آدم u اپنے داہنے جانب اہل جنت کی روحیں دیکھ کر خوشی
ومسرت سے ہنس پڑتے کیونکہ ایک شفیق باپ اپنی سعادت مند اولاد کی خوشحالی دیکھ کر
خوش ہوتا ہے اور اپنے بائیں جانب اہل دوزخ کی روحیں دیکھ کر رو پڑتے کیونکہ ایک
مہربان باپ اپنی بدبخت اولاد کی بدحالی دیکھ کر غمزدہ ہوتا ہے۔
([33])ادریس u کے تعلق سے یہ بات مشہور ہے کہ ایک دن انھوں نے
اپنے ایک دوست فرشتہ سے کہا کہ میں آسمان کی سیر کرنا چاہتا ہوں ۔ اس فرشتہ نے
کہا: ٹھیک ہے میں آپ کو اپنے ساتھ لے کر چلتا ہوں ۔ جب یہ دونوں چوتھے آسمان پر
پہنچے تو موت کے فرشتے سے ملاقات ہوئی، اس نے ادریس u کو ساتھ دیکھ کر تعجب
کیا اور بولا مجھے اﷲ نے حکم دیا تھا کہ چوتھے آسمان پر ادریس u کی روح قبض کروں لیکن مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا
کہ وہ چوتھے آسمان پر کیونکر پہنچیں گے۔ اب انھیں دیکھتا ہوں تو اﷲ کے علم وقدرت
پر ایمان مزید بڑھ جاتا ہے پھر فرشتۂ موت نے ادریس u کی روح قبض کرلی۔ یہ روایت اسرائیلیات میں سے ہے
اسلامی شریعت میں اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔
([34])تمام انبياء کرام نے محمد e کو نيک نبی اور نيک بھائی يا نيک بيٹا کہہ کر
خوش آمديد کہا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ
اگر کسی شخص کے بگڑنے کا خطرہ نہ ہو تو اس کے منہ پر اس کی تعريف کی جاسکتی ہے
ورنہ منہ پر تعريف کرنا منع ہے ۔ نبی e کا ارشاد ہے: ((تعريف کرنے والوں کے منہ ميں مٹی
ڈال دو))۔ (ترمذی وابن ماجہ وصححہ الالبانی) سامنے تعريف سے منع کرنے کی حکمت يہ
ہے کہ بعض لوگ اپنی تعريف سن کر کبروغرور اور فريب نفس ميں مبتلا ہوجاتے ہيں۔
([35])موسیٰ u کے رونے کا سبب معاذ اﷲ حسد نہیں تھا بلکہ وجہ یہ
تھی کہ ہرنبی اپنی امت پر بڑا شفیق اور مہربان ہوتا ہے ، چونکہ موسیٰ u کی امت بنی اسرائیل نہایت سرکش اور نافرمان تھی،
اس نے آپ کی مخالفت کی اور جنت حاصل کرنے میں کوتاہی کی، اس لئے اپنی امت پر افسوس
کرتے ہوئے آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔چونکہ امت کا پورا ثواب نبی کو بھی
ملتا ہے جیساکہ حدیث میں ہے: ((بھلائی کا راستہ دکھانے والے کو بھلائی پر عمل کرنے
والے کے برابر ثواب ملتا ہے))۔ (مسلم) اس لئے اگر امت نبی کے بتائے ہوئے طریقے پر
صدق دل سے گامزن ہو تو نبی کا رتبہ عظیم سے عظیم تر ہوجاتا ہے۔
([36])بیت المعمور سے ٹیک لگانے کا ذکر صحیح مسلم میں انس t سے مروی ہے۔ بیت المعمور کا مقام
آسمان میں وہی ہے جو مقام زمین پر کعبہ کو حاصل ہے۔ جس طرح اہل ایمان کعبہ جاکر اس
کا طواف کرتے ہیں ویسے ہی فرشتے بیت معمور کا طواف کرتے ہیں ۔ مسلمانوں کا قبلہ
کعبہ روئے زمین کی ناف ہے ٹھیک اسی کی سیدھ میں آسمان پر بیت معمور ہے۔ روزانہ ستر
ہزار فرشتے بیت معمور میں داخل ہوتے ہیں پھر دوبارہ تاقیامت ان کی باری نہ آئے گی۔
اس سے معلوم ہوا کہ فرشتوں کی تعداد بے شمار ہے اور یہ فرشتے ہی اﷲ کا لشکر اور اﷲ
کی فوج ہیں ، ان کی گنتی اﷲ کے سوا کسی کو نہیں معلوم۔ اس قبلۂ آسمان سے ٹیک لگاکر
ابو الانبیاء، خلیل اﷲ، امام الموحدین ابراہیم u بیٹھے ہوئے تھے اس سے معلوم ہوا کہ قبلہ کی طرف
پیٹھ کرنا اس کے احترام کے خلاف نہیں ہے۔ نہایت افسوسناک حقیقت ہے کہ بعض کلمہ گو
مسلمان جو عقیدت ومحبت کے نام پر بہت سی فرضی شریعتیں بنائے ہوئے ہیں انھیں میں سے
ایک یہ بھی ہے کہ وہ کسی استاد کے گھر کی طرف یا کسی نیک شخص کی قبر یا کسی نام
نہاد ولی کے مزار کی طرف پیٹھ کرنے کو گستاخی شمار کرتے ہیں۔ اور اسی لئے مزعومہ
مقدس جگہوں سے ایڑی کے بل واپس ہوا کرتے ہیں اور اب بعض نادانوں نے مکہ ومدینہ میں
بھی یہ بدعت شروع کردی ہے۔العیاذ باﷲ۔ خود
نبی کریم e نےبھی کعبہ سے اپنی پیٹھ کو ٹیک
لگائی ہےجیسا کہ مسند احمد میں عبداللہ بن
عمرو t کی حدیث سے ثابت ہے۔
([38])یہ روایت سنن ترمذی میں ہے اور علامہ البانی نے اسے صحیح
قرار دیا ہے۔ اس روایت میں امت محمدیہ کے لئے ابراہیم u کا نہایت اہم پیغام ہے کہ وہ اپنی زبانیں ذکر
الٰہی سے تر رکھیں ، اس سے جنت میں ان کے لئے خوشنما سر سبز پودے اگ جائیں گے۔ ذکر
الٰہی کے فوائد بیشمار ہیں ۔ علامہ ابن قیم رحمہ اﷲ نے اپنی کتاب ''الوابل الصیب''
میں ذکر الٰہی کے تقریباً اسی(٨٠) فوائد ذکر کئے ہیں۔ ہم ان میں سے چند یہاں پیش کرتے ہیں۔
ذکر
الٰہی شیطان کو دفع کرتا اور اس کی قوت کو توڑتا ہے ، اﷲ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی
کا ذریعہ ہے ، دل سے فکر وغم کو دور کرتا اور فرحت وسرور پیدا کرتا نیز چہرہ ودل
کو منور کرتا ہے۔ ذکر الٰہی اﷲ کی محبت پیدا کرتا ، اﷲ کے قرب سے نوازتا اور دل
وروح کی غذا ہے۔ لغزشوں اور خطاؤں کو دور کرتا اور زبان کو مختلف برائیوں سے محفوظ
رکھتا ہے ۔ وغیرہ
([39])سدرة المنتہیٰ کیا ہے؟ سدرة بیری کے جھاڑ کو کہتے ہیں اور
منتہیٰ کے معنی ہیں جائے انتہاء یعنی تمام مخلوقات کے علم کی انتہااور معلومات کی
رسائی یہیں تک ہے۔اﷲ اپنے احکام یہاں نازل کرتا ہے اور فرشتے یہاں سے لے لیتے ہیں
اور فرشتے اپنی خبریں وغیرہ یہاں تک لے کر جاتے ہیں اور اﷲ تعالی یہاں سے لے لیتا
ہے۔ لیکن یہ جو مشہور ہے کہ جبریل u نے سدرة المنتہی سے
آگے جانے سے یہ کہہ کر انکار کردیاکہ وہاں میرے پرجلتے ہیں بالکل بے دلیل بات ہے۔
([42])یعنی سدرة المنتہیٰ (بیری کے درخت) پر عجیب وغریب حسین وجمیل
رنگ برنگی یاقوت و زمرد کی زرق برق اشیاء چھاگئیں۔ قرآن میں اﷲ تعالیٰ نے اس کا
اجمالی تذکرہ کیا ہے کیونکہ اس کے حسن کو الفاظ کا جامہ نہیں پہنایا جاسکتا ۔
انسانی الفاظ اس جمالیاتی کیفیت کے بیان کے متحمل نہیں ہیں۔بعض روایات میں ہے کہ
سونے کے حسین وجمیل پتنگے اس درخت پر چھاگئے۔
([43])قوسین کا اضافہ بخاری ومسلم میں ابوذر t کی حدیث میں ہے۔ واقعۂ
معراج میں نبی e اس بلندی پر پہنچے جہاں پر اﷲ کے فیصلے، وحی اور
تقدیر وغیرہ لکھنے سے قلم کی چرچراہٹ سنائی دیتی تھی۔ قلمیں رب کائنات کے حکم سے
کائنات کے حوادث وواقعات کو معرض تحریر میں لانے میں مصروف کار تھیں۔ اس سے ہمیں ایک
اہم ترین مسئلہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ رب کریم ساتوں آسمانوں کے اوپر اپنی مخلوق سے
الگ اپنے عرش پر ہے۔
آج
مسلمانوں کی اکثریت اس معاملہ میں گمراہی کا شکار ہے۔ جب یہ سوال کیا جاتا ہے کہ
''اﷲ کہاں ہے؟'' تو ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ نام نہاد مسلمانوں کے جوابات ایک
ہونے کے بجائے متعدد ہوجاتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ سوال کرنا ہی جائز نہیں اور
کوئی کہتا ہے کہ ہرجگہ موجود ہے اور کوئی کہتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہر مومن بندے کے دل
میں ہے ۔ جب کہ یہ ساری باتیں غلط، حقیقت سے بعید اور نادرست ہیں۔ صحیح یہ ہے کہ ایسا
سوال کرنا بالکل درست ہے جیسا کہ صحیح مسلم
کی حدیث ہے کہ نبی e نے ایک باندی سے دریافت
کیا کہ اﷲ کہاں ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ آسمانوں کے اوپر ہے اور پھر آپ e نے اسے ایمان والی
قرار دیا۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ''اﷲ کہاں ہے؟'' کے جواب میں یہ
کہنا کہ ''ہرجگہ موجود ہے'' یا ''اﷲ ہرمومن کے دل میں ہے'' بالکل غلط جواب ہے۔ اہل
سنت وجماعت اور سلف صالحین کا عقیدہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ ساتوں آسمانوں کے اوپر اپنی
مخلوق سے الگ تھلگ اپنے عرش کے اوپر ہے۔اور یہ بلندی اﷲ تعالیٰ کو اپنی ذات کے
اعتبار سے بھی حاصل ہے اور اپنے قہر کے اعتبار سے بھی حاصل ہے اور اپنی شان کے
اعتبار سے بھی حاصل ہے۔قرآن پاک میں سات جگہوں پر اﷲ تعالیٰ نے اپنے عرش پر مستوی
ہونے کا تذکرہ کیا ہے۔نیز بے شمار آیتوں میں اپنی بلندی اور فوقیت کا ذکر فرمایا
ہے۔
فرشتوں
کا اوپر چڑھ کر اﷲ کے پاس جانااور وہاں سے اتر کر زمین پر بندوں کے پاس آنا، اعمال
کا اوپر چڑھنا، عیسیٰ u کا اﷲ کے پاس اٹھایا جانا، اوپر سے قرآن کریم
اور دیگر کتابوں کا نازل ہونا، دعا کے لئے اوپر کی طرف ہاتھ اٹھانا اور دل کا اوپر
کی طرف خود بخود کھنچنا، اﷲ کے اوپر ہونے کے بے شمار دلائل وبراہین میں سے چند ہیں۔
([46])موسیٰ u
نے آپ کی اور آپ کی امت کی خیرخواہی کی ۔ یہاں ہمیں اس بات کی نصیحت ملتی
ہے کہ اگر ہمارے پاس اپنے کسی بھائی کی خیرخواہی کے لئے کوئی موقع موجود ہے تو
اپنا بھائی کہے یانہ کہے خیرخواہی طلب کرے یانہ کرے ہمیں ازخود اس کی خیرخواہی کرنی
چاہئے۔ اور اس کے حق میں جو چیز بہتر اور بھلی ہے اس کی اطلاع اسے دے دینی چاہئے۔
([47])یہاں پر بعض صوفیاء نے ایک نکتہ ذکر کیا ہے اسے ذکر کرکے رد
کردینا فائدہ سے خالی نہیں۔ کہتے ہیں کہ موسیٰ u نبی e کو بار بار اﷲ
ذوالجلال کی بارگاہ میں اس لئے بھیج رہے تھے تاکہ ان آنکھوں کو تو دیکھ لیں جو اﷲ
کو دیکھ کر آرہی ہیں اور طور پر تجلی دیکھنے کی حسرت کا کچھ تو بدل ہوجائے۔
حقیقت
یہ ہے کہ نبی e نے اﷲ تعالیٰ کو نہیں
دیکھا ، نہ ایک بار اور نہ باربار۔ نبی e کا ارشاد ہے: ((اﷲ ایک
نور ہے، میں اسے کیسے دیکھ سکتا ہوں!!))۔
(صحیح مسلم)نیز ارشاد ہے: ((موت سے پہلے تم میں سے کوئی شخص اپنے رب کو نہیں دیکھ
سکتا ))۔ (صحیح مسلم) نیز عائشہ r کی حدیث ہے کہ ((جو
شخص تین باتیں کہے وہ اﷲ تعالیٰ پر عظیم بہتان باندھ رہا ہے۔ جو یہ کہے کہ محمد e نے اپنے رب کو دیکھا
ہے اس نے اﷲ پر عظیم افتراپردازی کی، اور جو یہ کہے کہ محمد e غیب جانتے ہیں اس نے اﷲ
پر بڑا بہتان تراشا، اور جو یہ کہے کہ محمد e نے دین کی کوئی بات
چھپالی ہے اور امت تک پہنچائی نہیں تو وہ بھی عظیم افترا کررہا ہے))۔ (صحیح مسلم)
دیدار الٰہی اہل ایمان کے لئے بروز قیامت ایک عظیم ترین نعمت ولذت ہوگی اور اس سے
کافروں کو محروم رکھا جائے گا۔ ارشاد باری ہے: ﮋ ﮄ
ﮅ ﮆ ﮇ
ﮈ ﮉﮊ المطففين: ١٥ (ہرگز نہیں، یہ لوگ اس دن اپنے رب سے اوٹ میں رکھے جائیں
گے)۔
([48])ممکن ہے کہ نبی e نے یہ سوچا ہو کہ
ہربار اﷲ تعالیٰ نے دس یا پانچ کم کیا ہے اور اس بار پھر واپس جانے کا مطلب یہ ہوا
کہ یہ آخری پانچ بھی ختم ہوجائے تو گویا حکم کی تعمیل کا ارادہ نہیں ہے، اس لئے نبی e نے پھر واپس جانا پسند
نہیں کیا۔ نیز نبی e نے فرمایا کہ میں اس
پر راضی ہوں۔ آپ e کو اپنی امت پر بھر پور اعتماد تھا کہ وہ ان شاء
اﷲ پانچ وقت کی صلاة بخوشی پڑھے گی۔ہر مسلمان کو چاہئے کہ اپنے نبی e کے اعتماد کو ٹھیس نہ
پہنچائے بلکہ تحفۂ معراج صلاة پنجوقتہ کی پابندی کرکے اس اعتماد پر پورا اترے۔اے
شب معراج کا جشن منانے والے مسلمانو! اگر تم تحفۂ معراج صلاة پنجوقتہ کی پابندی نہیں
کرتے تو تمھیں یہ جشن منانے کا کوئی حق نہیں ہے۔اندھے کو طلوع آفتاب کا جشن منانا
زیب نہیں دیتا۔
([51])یہ اضافہ بخاری ومسلم میں ابوذرt سے مروی ہے۔ اس حدیث سے اﷲ تعالی کے وسیع فضل
وکرم کا پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک نیکی کا ثواب دس گنا عطا فرماتا ہے۔ نیکیوں کے
سلسلہ میں یہ ایک مستقل قانون ہے۔ بسا اوقات تو یہ فضل ستر گنا سے سات سو گنا تک
وسیع ہوجاتا ہے۔شریعت میں اس کے بے شمار نظائر ہیں مثلا قرآن کے ایک حرف کی تلاوت
پر ایک نیکی ملتی ہے اور وہ دس گنا ہوجاتی ہے۔ ایسے ہی ماہ رمضان کا صوم دس ماہ کے
صوم کے برابر ہے، اگر شوال کا چھ صوم بھی رکھ لیا جائے تو ایک سال کے صوم کا ثواب
مل جائے گا۔کیونکہ چھ دن کا ثواب ساٹھ دن کے برابر ہوگا اور ساٹھ دن کا دوماہ ہوتا
ہے۔
([52])یہ حدیث صحیح مسلم میں عبد اﷲ بن مسعود t سے مروی ہے۔اس کے اندر
معراج کے تین تحفوں کا تذکرہ ہے۔ پہلا تحفہ صلاۃ پنجوقتہ ہے، جس کی اہمیت ہر
مسلمان پر آشکارا ہے۔ دوسرا تحفہ سورۂ بقرہ کی آخری آیات ہیں، ان سے مراد سورۂ
بقرہ کی آخری دو آیتیں ہیں جیسا کہ ابومسعود انصاری t کی روایت ہے کہ رسول اللہ e نے فرمایا کہ ((سورۂ بقرہ کی آخری
دوآیتوں کو جو شخص ایک رات میں پڑھتا ہے وہ اس کے لئے کافی ہوجاتی ہیں۔)) (بخاری
ومسلم) یعنی شیطان اور ہر طرح کے مصائب وآفات سے حفاظت کے لئے اور اللہ کو یاد
رکھنے کے لئے کافی ہوجاتی ہیں۔ سورۂ بقرہ کی آخری آیات کی فضیلت میں عبداللہ بن
عباس t کی ایک اور حدیث ہے ، فرماتے ہیں:
((جبریل u نبی e کے پاس تشریف فرما تھےکہ اوپر سے
دروازہ کھلنے کی آواز سنی، جبریل u نے کہا: یہ آج آسمان کا ایک دروازہ
کھولا گیا ہےجو آج کے علاوہ کبھی نہیں کھلا تھا، پھر اس سے ایک فرشتہ نازل ہوا تو
جبریل u نے کہا: یہ فرشتہ روئے زمین پر نازل
ہورہا ہے، یہ آج کے علاوہ کبھی نازل نہیں ہوا، پھر اس فرشتہ نے سلام کیا اور کہا:
ایسے دونوروں کی خوشخبری قبول کیجئے جو آپ کو عطا کئے گئے ہیں، آپ سے پہلے وہ کسی
نبی کو نہیں دیئے گئے، ایک نور تو سورۂ فاتحہ ہے اور دوسرا نور سورۂ بقرہ کی آخری
آیات، ان دونوں کا جو حرف بھی آپ پڑھیں گے، اسے آپ کو عطا کیا جائے گا))۔ (صحیح
مسلم) سورۂ فاتحہ اور سورۂ بقرہ کی آخری آیات دعاؤں پر مشتمل ہیں اور ان کی یقینی قبولیت کا وعدہ اس حدیث میں کیا گیا ہے۔
واللہ اعلم ۔
معراج کا تیسرا تحفہ شرک نہ کرنے والے کے کبیرہ گناہوں کی
بخشش ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شرک سے
خالی ہونا عظیم ترین نعمت اور شرک میں مبتلا ہونا بدترین مصیبت ہے۔
سورہ
نساء کی آیت نمبر ٤٨ اور آیت نمبر ١١٦میں اﷲ تعالیٰ نے اس
بات کا اعلان کیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنے ساتھ شرک کو کبھی معاف نہیں کرے گا۔ شرک کی
مذمت میں بے شمار آیات واحادیث ہیں ، ایک مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہرچھوٹے بڑے
شرک کو پہچانے تاکہ اس سے بچ سکے۔
شرک ایسا منحوس اور خطرناک عمل ہے جس کے ہوتے
ہوئے انسان کی مغفرت نہیں ہوسکتی۔ شرک اس روئے زمین پر کئے جانے والے گناہوں میں
سب سے بڑا گناہ ہے۔ شرک کرنے والے انسان پر جنت حرام ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے
۔
شرک
یہ ہے کہ اﷲ کی خصوصیات میں غیر اﷲ کو اﷲ کے برابر کردیا جائے یا اﷲ کے حقوق غیر
اﷲ کو دے دیئے جائیں۔ اس کی دو قسمیں ہیں ایک شرک اکبر جس سے آدمی دائرۂ اسلام سے
خارج ہوجاتا ہے اور توبہ کے بغیر اس کی بخشش نہیں ہوتی ۔ اور دوسری قسم شرک اصغر
ہے جو شرک اکبر تک پہنچانے کا ذریعہ ہے مثلا ریا ونمود ، غیر اﷲ کی قسم وغیرہ۔
شرک
اکبر یہ ہے کہ وہ امور جن کا مستحق صرف اﷲ ہے غیر اﷲ کو دے دیئے جائیں یا کوئی
عبادت غیر اﷲ کے لئے کی جائے۔ اس کی چار
قسمیں ہیں:
¡ دعا میں شرک : عبادت میں شرک کی تمام قسمیں اس میں داخل
ہیں مثلاً غیراﷲ سے دعا کرنا، ان سے مدد مانگنا ، ان سے فریاد کرنا ، ان کی پناہ
ڈھونڈنا ، ان کے لئے قیام ،رکوع اور سجدہ کرنا ، ان کے لئے نذر ونیاز دینا یا
جانور ذبح کرنا، کعبہ کے سوا کسی اور جگہ کا طواف اور حج کرنا وغیرہ ۔ یارسول اﷲ
مدد، یاعلی مدد، یا غوث مددپکارنا، تعویذ گنڈا، کڑا چھلہ اور گھونگا وغیرہ پہننا،
درختوں، پتھروں اور قبروں وغیرہ سے تبرک لینا۔وغیرہ
¢ نیت وارادہ میں شرک : اور اس کی چار
قسمیں ہیں :
(١) جنت کی طلب اور جہنم سے نجات
مقصد ہونے کے بجائے جان ومال اور اہل وعیال کی حفاظت اور دنیوی ترقی وغیرہ مقصود
ہو ۔
(٢) آخرت کے ثواب کے بجائے صرف
لوگوں کو دکھانا مقصود ہو ۔
(٣) نیک عمل کرکے صرف مال کمانا
مقصود ہو مثلاً مال کمانے کے لئے حج کرے یا جہاد کرے یا صلاة کی پابندی اس لئے کرے
کیونکہ مسجد میں ملازم ہے وغیرہ۔
(٤) عمل تو خالص اﷲ کے لئے کرے لیکن
ساتھ ہی کوئی ایسا کفریہ عمل بھی کرتا ہو جس سے اسلام سے نکل جائے ۔
£ اطاعت میں شرک : اطاعت میں شرک یہ
ہے کہ قرآن اور حدیث کی واضح،صحیح اور صریح دلیل آجانے کے باوجود اپنے عالم، عبادت
گذار، امام اور بڑے کی بات نہ چھوڑے اور قرآن وحدیث کو چھوڑدے ۔
¤ محبت میں شرک : غیر اﷲ سے اﷲ جیسی
یا اﷲ سے بڑھ کر محبت رکھنا شرک ہوجاتا ہے۔
([54])یہ مسند احمد کی روایت ہے اور اسے شیخ البانی رحمہ اﷲ نے صحیح
قرار دیا ہے۔ اس حدیث سے غیبت کی خطرناکی معلوم ہوتی ہے۔ لوگوں کی عزت وآبرو پر
حملہ بدترین قسم کا گناہ ہے۔ یہ وہ برائی ہے جس سے معاشرہ اختلاف وانتشار اور باہمی
بغض ونفرت کا شکار ہوجاتا ہے۔ اسلام نے ان تمام چیزوں سے روکا ہے جس سے باہمی
عداوت ودشمنی جنم لیتی ہے اور ان تمام چیزوں کا حکم دیا ہے جس سے آپس میں محبت
ومودت پیدا ہوتی ہے۔
([56])
یہ روایت ابن ابی حاتم کے حوالہ سے حافظ ابن کثیر نے ذکر کی
ہے لیکن ساتھ ہی اس کے ضعف کی طرف اشارہ کردیا ہے لیکن داروغۂ جہنم مالک سے ملاقات
کا ذکر بخاری ومسلم میں بھی موجود ہے۔ بہرحال سوچنے اور غور کرنے کی بات یہ ہے کہ
داروغۂ جہنم فرشتہ جو صرف حکم کا پابند ہے ، جس کے لئے عذاب وثواب نہیں ہے، وہ
جہنم کو دیکھ کر اس قدر خوفزدہ ہے کہ اس کے چہرے پر کبھی مسکراہٹ نہیں آئی، اور ایک
ہم انسان ہیں جن میں سے کافروں اور نافرمانوں کے لئے وہ جہنم تیار کی گئی ہے، آئیے
اپنا محاسبہ کریں کہ ہم نے کتنی بار جہنم کے عذاب کا خوف کرکے اپنی آنکھوں سے آنسو
بہایا ہے۔ رات کے اندھیروں میں یا تنہائی کی صلاتوں میں کتنی بار ہم روئے ہیں؟!
([57])امامت انبیاء کا ذکر انس t کی حدیث میں ابن جریر
نے روایت کی ہے۔ نبی e کو امام الانبیاء کے
شرف سے نوازا گیا لیکن کتنے دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ آپ کی امت میں کچھ ایسے
ناقدرے بھی پیدا ہوگئے جو آپ e کی سنت اور حدیث کے ہوتے ہوئے دیگر اماموں کے
اقوال تلاش کرتے ہیں ، اپنا مذہب چھوڑ کر حدیث رسول اختیار کرنا تو بہت دور کی بات
ہے، اپنے خودساختہ امام کے خلاف قول رسول کا توڑ اور جواب تلاش کرتے ہیں۔اس
افسوسناک عمل پر انا ﷲ وانا الیہ راجعون پڑھنے کے سوا اور کیا کیا جاسکتا ہے؟!۔غور
کرنے کی بات ہے کہ نبی e کی حدیث کے سامنے کسی دوسرے رسول کی بات پر عمل
نہیں کیا جاسکتا جیسا کہ نبیe کا فرمان ہے: ((اگر موسیٰ بھی زندہ ہوتے تو انھیں
بھی میری اتباع کے سوا چارہ نہ تھا))۔ (مسند احمد) موسیٰ u جو ایک اولوالعزم پیغمبر ہیں، امت محمدیہ کے
بعد جن کی امت کی تعداد سب سے زیادہ ہے ،جن کا قصہ قرآن مجید میں سب سے زیادہ بیان
ہوا ہے ،ایسے عظیم رسول بھی اگر زندہ ہوتے تو انھیں بھی خاتم الانبیاء کی شریعت پہ
چلنا ہوتا، پھر کتنے حیرت اور تعجب کی بات
ہے کہ بعض لوگ اتنی سی بات بھی نہیں سمجھ پاتے اور قول رسول کے سامنے کسی امتی
امام کا قول پیش کردیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں تو فلاں امام کا مقلد ہوں، اس کا
مذہب چھوڑ کر حدیث رسول پر عمل میرے لئے جائز نہیں۔ عبداﷲ بن عباس t کا قول ہے: ((قریب ہے
کہ تم پر آسمان سے پتھروں کی بارش ہوجائے ، میں کہتاہوں کہ رسول اللہe نے فرمایا اور تم کہتے ہو کہ ابوبکر وعمر (w)نے فرمایا))۔ رسول محترم e کی حدیث کے سامنے خلفاء راشدین کا قول بھی نہیں
پیش کیا جاسکتا چہ جائیکہ کہ کسی ادنیٰ امتی کی رائے پیش کی جائے۔
([58])سفر معراج کی ابتدا بھی مسجد سے ہے اور انتہا بھی مسجد پر
ہے اور ساتویں آسمان پر پہنچے تو بیت معمور تک گئے جو فرشتوں کی مسجد ہے۔ اس سے
اسلام میں مسجد کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ مسجد ہی وہ جگہ ہے جہاں ایک مسلمان کی صحیح
تعلیم وتربیت ہوتی ہے۔ نبی e سفر سے واپس ہوتے تو پہلے مسجد جاتے وہاں دو
رکعتیں پڑھتے پھر اپنے گھر میں داخل ہوتے۔ مسلمانوں کی ساری تگ ودو کا محور مسجد
ہے اور ''ملا کی دوڑ مسجد تک'' کی مثل بالکل صحیح ہے، اسے مسلمانوں اور ان کے
علماء کے خلاف طنزیہ طور پر بددین استعمال کرتے ہیں ۔ اﷲ دشمنان دین سے مسلمانوں
کو محفوظ رکھے۔ آمین
([60])ابوبکر صدیق t کی یہ بات آب زر سے
لکھنے کے لائق ہے۔ آپ نے شرطیہ جملہ استعمال کیا کہ اگر آپ e نے یہ بات کہی ہے،
یعنی نبی کا نام لے کر جو کچھ بیان کردیا جائے یونہی قبول نہیں کیا جائے گا، بلکہ
اس کی تحقیق کی جائے گی، لیکن جب صحیح طور پر ثابت ہوجائے کہ وہ بات آپ e ہی کی ہے تو اسے فوراً
تسلیم کرلیا جائے گا، خواہ وہ ہماری عقل کوتاہ میں سمائے یا نہ سمائے۔ نبی e نے اپنے صحابہ کی
تربیت اسی طرح کی تھی ، ان کا تحقیقی مزاج بنایا تھا ، وہ کسی بات پر اندھے بہرے
بن کر نہیں گرتے تھے۔ قرآن پاک میں اﷲ تعالی کا بھی یہی حکم ہے۔ ارشاد ہے: ﮋﭟ
ﭠ ﭡ ﭢ
ﭣ ﭤ ﭥ ﭦ ﮊ الحجرات: ٦ (اے مسلمانو! اگر تمھیں کوئی فاسق خبردے تو تم اس کی
اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو)۔
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق