الاثنين، 22 أبريل 2013

ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے کا شرعی حکم




حكم إسبال الإزار


ٹخنوں سے نیچے
کپڑا لٹکانے کا شرعی حکم

اعداد:
عبدالہادی عبدالخالق مدنی
کاشانۂ خلیق، اٹوا بازار ،سدھارتھ نگر ،یوپی
داعی احساء اسلامک سینٹر ،سعودی عرب




بسم اللہ الرحمن الرحیم
            اسلام کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کے احکام وہدایات زندگی کے تمام پہلؤوں کو شامل ہیں۔ عقائد وعبادات، اخلاق ومعاملات اور خوراک وپوشاک ہرایک سے متعلق نہایت واضح ہدایات موجود ہیں۔ لباس سے متعلق اسلام کی ایک اہم ہدایت یہ ہے کہ ایک مسلمان مرد کا ازار، لنگی، تہبند، پاجامہ ،ثوب یا قمیص وغیرہ کچھ بھی اس کے ٹخنہ سے اوپر ہونا چاہئے۔ ٹخنہ سے نیچے کسی کپڑے کا لٹکانا اور زمین سے گھسیٹنا حرام ہے ۔
            لیکن افسوس کی بات ہے کہ یہ گناہ بہت زیادہ رائج اور نہایت عام ہے۔ لوگ شرعی علم سے ناواقفیت کی بنا پر اس کی اہمیت نہیں سمجھتے حالانکہ احادیث میں اس تعلق سے بڑی سخت وعیدیں وارد ہیں چنانچہ ذیل میں چند احادیث پیش خدمت ہیں:
            1 عبد اﷲ بن عمر t فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ e نے فرمایا: «لَا یَنْظُرُ اللّٰہُ اِلَیٰ مَنْ جَرَّ ثَوْبَهُ خُیَلَاءَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ»۔ «جس نے اپنے کپڑے کو تکبر کے ساتھ زمین پر گھسیٹا قیامت کے دن اﷲ تعالی اس پر نظر نہیں ڈالے گا»۔ (بخاری ومسلم)
            اس مفہوم کی حدیث ابوہریرہ t سے بھی مروی ہے۔
            سو چنے کا مقام ہے کہ وہ شخص کتنا بڑا بدنصیب ہے جس سے اﷲ تعالی اپنی نظر پھیر لے!! کیا ہم اپنا ازار ٹخنہ سے نیچے کرکے آخرت کی یہ محرومی مول لینے کے لئے تیار ہیں!!
            2صحیح مسلم میں حدیث ہے کہ نبیe نے فرمایا: «تین طرح کے لوگوں سے قیامت کے دن اﷲ تعالی نہ تو بات کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ ہی ان کو پاک کرے گااور ان کے لئے دردناک عذاب ہوگا۔ ازار لٹکانے والا، کچھ دے کر احسان جتلانے والا اور جھوٹی قسموں کے ذریعہ اپناسامان بیچنے والا»۔
            3صحیح بخاری میں ہے کہ«جب نبی کریم e نے یہ حکم بیان فرمایا تو ابوبکرt  نے کہا : اے اﷲ کے رسول! میرے ازار کا ایک جانب (پائینچا) نیچے گرجاتا ہے البتہ میں اس کا خیال کرتا رہتا ہوں تو نبیe  نے فرمایا: تم تکبر کرنے والوں میں سے نہیں ہو »۔
            ابوبکرt اپنا ازار ہمیشہ اوپر رکھتے تھے البتہ نحیف اور لاغر ہونے کی وجہ سے کبھی کبھی ازار نیچے سرک جاتا تھا اور وہ بھی دونوں جانب نہیں بلکہ کسی ایک جانب ، ساتھ ہی خیال آتے ہی اسے اوپر کرلیا کرتے تھے ، اس کے باوجود آپ پر یہ خوف طاری ہوا کہ اس وعید کے تحت میں بھی داخل نہ ہوجاؤں یہاں تک کہ نبیeسے دریافت کیا تو آپ نے وضاحت فرمائی کہ قصد وارادہ کے بغیر ایسا ہوجانے سے گناہ نہیں بلکہ گناہ تو جب ہے کہ آدمی جان بوجھ کر اپنا ازار ٹخنوں سے نیچے رکھے اور اس کی کوئی نگرانی نہ کرے۔
            4 اسی طرح نبی e نے مزید فرمایا: «مَا أَسْفَلَ مِنَ الْکَعْبَیْنِ مِنَ الْأِزَارِ فَفِی النَّارِ» «دونوں ٹخنوں سے نیچے جتنا ازار ہے جہنم میں جائے گا»۔ (بخاری)
            قابل غور یہ ہے کہ وہ ازار بھی داخل جہنم ہوگا جس کے ذریعہ معصیت اور نافرمانی ہورہی ہے تو بھلا اس شخص کا کیا انجام ہوگا جو یہ نافرمانی کررہا ہے؟ وہ تو بدرجۂ اولی جہنم کا حقدار ہوگا۔ اﷲ تعالی تمام مسلمانوں کو اس رسواکن عذاب سے محفوظ رکھے۔ آمین
            5 عبد اﷲ بن عمرt بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ e نے ارشاد فرمایا: «ایک شخص اپنے ازار کو گھسیٹ کر زمین پر چل رہا تھا کہ اچانک اسے دھنسادیا گیا ، وہ قیامت کے دن تک زمین میں دھنستا رہے گا»۔ (بخاری ومسلم)
            6 صحابۂ کرام y اس کا بڑا اہتمام فرماتے تھے۔ چنانچہ عمرt کی شہادت کے وقت اسبال ازار کے تعلق سے ہونے والا ایک واقعہ نہایت فکر انگیز ہے۔عمرt پر قاتلانہ حملہ ہوا اور اسی کے ذریعہ اﷲ تعالی نے آپ کو شہادت نصیب فرمائی ۔ اس وقت لوگ آپ کی عیادت کو آرہے تھے ، ان میں ایک ایسا نوجوان بھی آیا جس کا ازار زمین سے چھو رہا تھا ۔ عمر t نے اس جانکنی کے عالم میں بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فريضہ انجام دیتے ہوئے اس نوجوان کو مخاطب کرکے فرمایا: «یَا ابْنَ أَخِیْ اِرْفَعْ ثَوْبَكَ فَاِنَّهُ أَنْقَیٰ لِثَوْبِكَ وَأَتْقَیٰ لِرَبِّكَ». «اے بھتیجے ! اپنا کپڑا اوپر اٹھا کیونکہ یہ بات تیرے کپڑے کی صفائی اور تیرے رب کے تقوی دونوں کے لحاظ سے زیادہ بہتر ہے»۔ (بخاری)
            یہاں ایک قابل غور نکتہ یہ ہے کہ اس نوجوان نے اس حکم پر عمل کرنے کے لئے کوئی حیلہ نہیں تراشا، نہ کوئی عذر تلاش کیا اور نہ ہی یہ کہا کہ یہ تو ایک چھوٹی بات ہے ، آپ خلیفۂ وقت ہیں ، آپ پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے اور آپ اس کی تحقیق وتفتیش پر توجہ دینے کے بجائے ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر توجہ دے رہے ہیں،اس نوجوان نے ایسا کچھ نہیں کہا جیسا کہ آج بہت سارے لوگ سنتوں پر عمل نہ کرنے کے لئے امت کے حالات کو بہانہ بنایا کرتے ہیں۔کیونکہ وہ نوجوان جانتا تھا کہ امت جب مصیبت کا شکار ہو تو اس وقت ہر چھوٹی بڑی سنت پر عمل کرنے کی زیادہ ہی ضرورت ہوتی ہے۔ اﷲ ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے اور قبول حق کی توفیق سے نوازے۔
            7 ابو سعید خدری t سے مروی ہے کہ رسول اﷲe نے ارشاد فرمایا: «اِزْرَةُ الْمُؤْمِنِ اِلَیٰ نِصْفِ السَّاقِ، وَلاَ جُنَاحَ عَلَیْهِ فِیْمَا بَیْنَهُ وَبَیْنَ الْکَعْبَیْنِ، مَا کَانَ أَسْفَلَ مِنَ الْکَعْبَیْنِ فَهُوَ فِی النَّارِ، مَنْ جَرَّ اِزَارَہُ بَطَراً لاَ یَنْظُرُ اللّٰہُ اِلَیْهِ» «مومن کا ازار آدھی پنڈلی تک ہوتا ہے ، آدھی پنڈلی سے دونوں ٹخنوں کے درمیان رکھنے میں کوئی حرج نہیں، دونوں ٹخنوں سے نیچے جو کچھ رہے گا جہنم میں جائے گا، جس نے تکبر کے ساتھ اپنا ازار گھسیٹا اﷲ اس کی طرف نظر نہیں کرے گا»۔ (مشکاة وانظر صحیح الجامع)
            مذکورہ احادیث سے معلوم ہوا کہ ازار کو ٹخنوں سے نیچے رکھنا حرام اور گناہ کبیرہ ہے ۔ مستحب یہ ہے کہ آدمی کا ازار نصف ساق (آدھی پنڈلی) تک ہو اور آدھی پنڈلی سے ٹخنہ کے درمیان رکھنا بلاکراہت جائز ہے اور ٹخنہ سے نیچے رکھنا حرام ہے ۔
            جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ تکبر کے بغیر ٹخنہ سے نیچے ازار رکھا جاسکتا ہے تو یہ ہرگز درست نہیں کیونکہ یہ عمل بذات خود تکبر میں داخل ہے جیسا کہ حدیث میں ہے: «اِیَّاكَ وَجَرَّ الْأِزَارِ فَاِنَّ جَرَّ الْأِزَارِ مِنَ الْمَخِیْلَةِ»۔ «ازار گھسیٹنے سے بچو کیونکہ ازار گھسیٹنا تکبر ہے»۔ (فتح الباری)
ٹخنہ سے نیچے ازار رکھنے میں کئی قباحتیں اور کئی خرابیاں ہیں:
            ١۔ یہ اسراف اور فضول خرچی کی ایک صورت ہے۔
            ٢۔ اس میں عورتوں کی مشابہت ہے۔
            ٣۔ یہ تکبر کی علامت ہے۔
            ٤۔ اس حالت میں کپڑا نجاست اور گندگی سے غالباً محفوظ نہیں رہتا۔
            اسلام نے خوراک وپوشاک کے معاملے میں مسلمانوں کو پوری آزادی عطا کی ہے البتہ اصلاح کی خاطر چند قیود اور بعض پابندیاں رکھی ہیں اور یہ اسلام کی خوبی وکمال کا تقاضا ہے۔
             چنانچہ قرآن مجید میں اﷲ تعالی کا ارشاد ہے: ﴿یَا بَنِیْ آدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَّکُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلاَ تُسْرِفُوْا اِنَّهُ لاَ یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ * قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَةَ اللّٰہِ الَّتِیْ أَخْرَجَ لِعِبَادِہِ وَالطَّیِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ قُلْ هِیَ لِلَّذِیْنَ آمَنُوْا فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا خَالِصَةً یَّوْمَ الْقِیَامَةِ کَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآیَاتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ (اعراف/٣٢)
            (اے اولاد آدم ! تم مسجد کی ہر حاضری کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو اور خوب کھاؤ پیو اور حد سے مت نکلو، بے شک اﷲتعالی حد سے نکل جانے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ آپ فرمایئے کہ اﷲ تعالی کے پیدا کئے ہوئے کپڑوں کو جن کو اس نے اپنے بندوں کے واسطے بنایا ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں کو کس نے حرام کیا ہے ۔ آپ کہہ دیجئے کہ یہ اشیاء اس طور پر کہ قیامت کے روز اہل ایمان کے لئے خالص ہوں گی دنیوی زندگی میں بھی مومنوں کے لئے ہیں۔ ہم اسی طرح تمام آیات کو سمجھ داروں کے واسطے صاف صاف بیان کرتے ہیں)۔
            نبی کریمe فرماتے ہیں: «کُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَالْبَسُوْا وَتَصَدَّقُوْا فِیْ غَیْرِ اِسْرَافٍ وَّلَا مَخِیْلَةٍ»۔ « کھاؤ پیو ، پہنو اور صدقہ کرو اسراف اور تکبر کے بغیر» (بحوالہ مسند طیالسی وبخاری تعلیقاً)
            اسراف انسان کی جسمانی صحت وتندرستی کو متاثر کرتا اور اس کے مال وجائیداد نیز دین کو بھی نقصان پہنچاتا ہے ۔ ایسے ہی تکبر سے اﷲ تعالی سخت ناراض ہوتا ہے اور انسانوں میں بھی مغرور آدمی کے لئے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔اسی لئے شریعت کی نگاہ میں یہ دونوں چیزیں سخت ناپسندیدہ اور ممنوع ہیں۔
            عبد اﷲ بن عباس t فرماتے ہیں : "جو چاہو کھاؤ اور جو چاہو پہنو جب تک اسراف اور تکبر نہ آنے پائے "۔ (بخاری تعلیقاً)
            کوئی شخص اﷲ کی نعمت کے اظہار کے لئے شکریہ ادا کرتے ہوئے دوسروں کی تحقیر سے بچتے ہوئے کتنا ہی نفیس اور عمدہ جائز لباس زیب تن کرے اس کے لئے کوئی حرج کی بات نہیں البتہ حرج اور خسارہ کی بات یہ ہے کہ اﷲ کی نعمت کو بھول کر تکبر میں مبتلا ہوجائے ، اپنے آپ کو بڑا اور دوسروں کو حقیر وکمتر سمجھنے لگے ، حق کا علم ہونے کے باوجود اسے قبول نہ کرے اور نہ ہی اس کے سامنے سر تسلیم خم کرے۔
واللہ أعلم وصلی اللہ علی نبینا وسلم
///

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق