السبت، 20 أبريل 2013

حجاب ایک مسلمان عورت کی امتیازی شان





الحجاب ميزة المرأة المسلمة
حجاب
ایک مسلمان عورت کی امتیازی شان


اعداد:
عبدالہادی عبدالخالق مدنی

 



حجاب ایک مسلمان خاتون کا نشان امتیاز ہے۔ حجاب دین وشریعت کو مضبوطی کے ساتھ تھامنے کی علامت ہے۔ حجاب اللہ اور اس کے رسول سے محبت کی دلیل ہے۔ حجاب یوم آخرت پر ایمان کی نشانی ہے۔ حجاب طہارت وپاکیزگی، عفت وپاکدامنی، شرم وحیا اور پردہ پوشی کا ذریعہ ہے۔ حجاب اہل ایمان کی غیرت کے شایان شان ہے۔ حجاب صرف نقاب یا برقع سے جسم  چھپانے کا نام نہیں ہے،  بلکہ حجاب اسلام کے ان معاشرتی مسائل کے مجموعے کا نام ہے جن کے ذریعہ سماج میں عورت کا کردار اور مقام متعین ہوتا ہے۔ جن کے ذریعہ ایک عورت کی حمایت وحفاظت کا انتظام ہوتا ہے۔ جن کے ذریعہ دونوں صنفوں مردو عورت کو اپنے اپنے دائرۂ کار میں رکھا جاتا ہے اور فتنوں سے بچایاجاتا ہے۔ جن کے ذریعہ معاشرہ میں ایک نظم وضبط قائم ہوتا ہے اور عورت اپنے حقیقی فریضہ کی ادائیگی یعنی امت کے مستقبل کی تعمیر اور آئندہ نسلوں کی تربیت وپرورش اور صحیح نشونما میں لگ جاتی ہے۔جن کے ذریعہ اعلی انسانی قدریں پروان پاتی ہیں۔
حجاب کے فضائل:
حجاب اپنے اندر بہت سی خوبیاں اور متعدد فضائل رکھتا ہے۔ آئیے چند فضائل پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہیں۔
¡۔ حجاب اللہ اور اس کے رسول e کی اطاعت ہے: ارشاد باری ہے:
ﮋ ﯟ  ﯠ  ﯡ  ﯢ  ﯣ   ﯤ  ﯥﯦ  ﯧ  ﯨ  ﯩ  ﯪ ﮊ الأحزاب: ٥٣

جب تم ان سے کوئی چیز طلب کرو تو پردے کے پیچھے سے طلب کرو، تمھارے اور ان کے دلوں کے لئے کامل پاکیزگی یہی ہے۔
نیز رسول اللہ e نے فرمایا:   
الْمَرْأَةُ عَوْرَةٌ    
(رواہ الترمذی وصححہ الالبانی)

عورت مکمل چھپانے کی چیز ہے۔
¢۔ حجاب ایمان کی علامت ہے کیونکہ اللہ تعالی نے ایمان والیوں کو مخاطب کرکے حجاب کا حکم دیا ہے۔
£۔ حجاب طہارت وپاکیزگی کا باعث ہے جیساکہ گذشتہ آیت میں آپ نے دیکھا کہ اسے دلوں کی پاکیزگی کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔اس کی وضاحت اس طرح ہے کہ جب آنکھ دیکھے گی نہیں تو دل میں خواہش انگڑائیاں نہیں لے گی لیکن دیکھ لینے کے بعد دل میں خواہش آبھی سکتی ہے اور نہیں بھی آسکتی ہے ۔ بہر کیف نہ دیکھنے پر دل کی طہارت زیادہ واضح اور فتنہ سے دوری زیادہ ظاہر ہے۔ لہذا حجاب دل کی طہارت اور شک وشبہ اور تہمت سے بچاؤ کا بہترین ذریعہ ہے۔
¤۔ حجاب عفت وپاکدامنی کا ذریعہ ہے جس پر اسلام نے بار بار ابھارا ہے۔رسول اکرم e یہ دعا فرمایا کرتے تھے:
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْهُدَى وَالتُّقَى وَالْعَفَافَ وَالْغِنَى  (اے اللہ! میں تجھ سے ہدایت، پرہیزگاری، پاکدامنی اور امیری کا سوال کرتا ہوں)۔ یہ صحیح مسلم کی روایت ہے۔
¥۔ حجاب پردہ پوشی کا سبب ہے۔ رسول e نے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَيِيٌّ سِتِّيرٌ يُحِبُّ الْحَيَاءَ وَالسَّتْرَ.
(رواه أحمد وأبوداود والنسائي وصححه الألباني) 

بے شک اللہ تعالی باحیا اور پردہ پوش ہے، حیا اور پردہ پوشی کو پسند کرتا ہے۔
نیز حدیث میں ہے:
لَا تُبَاشِرُ الْمَرْأَةُ الْمَرْأَةَ فَتَنْعَتَهَا لِزَوْجِهَا كَأَنَّهُ يَنْظُرُ إِلَيْهَا
(رواه البخاري )

کوئی عورت کسی عورت سے مباشرت کرنے کے بعد اسے اپنے شوہر سے اس طرح بیان نہ کرے  گویا کہ وہ اس عورت کو دیکھ رہا ہے۔
حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مردوں کے پاس اجنبی عورتوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا سوائے اس کے کہ کوئی ان سے ان کے بارے میں بیان کرتا کیونکہ وہ پردہ پوشی کی سخت حریص تھیں۔ اور اس قسم کے بیان سے بھی روک دیاگیا۔
¦۔ حجاب حیا کی علامت ہے۔ حیا وہ نمایاں صفت ہے جو ایک انسان کو برائیوں سے محفوظ رکھتی ہے۔ نبی e کا ارشاد ہے:
الْحَيَاءُ خَيْرٌ كُلُّهُ.
(رواه مسلم)

حیا پورا کا پورا خیر ہے۔
حیا اللہ کے نیک اور صالح بندوں، ملائکہ، انبیاء اور اہل ایمان  کی صفت ہے۔ نبی e کے بارے میں ابوسعید خدری t فرماتے ہیں کہ آپ e ایک پردہ نشین کنواری لڑکی سے بھی زیادہ باحیا تھے۔ جب آپ کوئی ناپسندیدہ چیز دیکھتے تو اسے ہم آپ کے چہرے میں پہچان لیتے۔ (بخاری ومسلم)
یہ ایمانی اخلاق نبی کریم e سے صحابۂ کرام y نے پایا اور بعض صحابہ کو اس میں نمایاں امتیاز حاصل ہوا۔ عثمان t کو نبی e نے امت اسلامیہ کا سب سے زیادہ باحیا شخص قرار دیا ہے۔  (صحیحہ للألبانی) اور یہاں تک فرمایا ہے : کیا میں ایسے شخص سے حیا نہ کروں جن سے فرشتے حیا کرتے ہیں۔ (مسلم)
حجاب حیا کی علامت ہے اور برقع ونقاب حیا کا پاسبان ہے۔ کسی عورت کا سب سے بہترین سنگار حیا ہے۔ حیا جس چیز میں ہوتی ہے اسے خوشنما بنادیتی ہے اور بے حیائی جس میں آجائے اسے بدصورت کردیتی ہے۔حیا انسانی فطرت کا وہ خالص جوہر ہے جس کے ختم ہونے سے انسانیت بھی ختم ہوجاتی ہے۔ آپ ذرا اس وقت کو یاد کیجئے جب آدم وحوا  o نے جنت میں ممنوعہ پھل کھالیا تھا جس کی سزا کے طور پر ان سے جنتی لباس چھین لیا گیا اور وہ بے پردہ ہوگئے ۔ انسانوں کے ماں باپ آدم وحوا  oکو فورا پردے کی فکر ہوئی اور جنت کے درختوں کے پتے توڑ کر پردہ کرنے لگے۔
§۔ حجاب غیرت کے شایان شان ہے۔ غیرت وشہوت ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ایک سلیم الفطرت انسان غیور ہوتا ہے۔ اسے پردہ پوشی سے محبت اور بے پردگی سے طبعی طور پر نفرت ہوتی ہے۔ اس کے برخلاف شہوت پرست انسان اپنی فطرت سے منحرف ہوکر بے پردگی کو پسند کرتا ہے۔دوسروں کی بہو بیٹیوں، ماؤں بہنوں اور بیویوں سے بے پردہ میل جول اور لطف اندوزی کی خاطر خود اپنی بیوی ، بہن، بیٹی، ماں اور بہو کو بے پردہ کرتا ہے۔اپنی شہوت کو ترجیح دینے کی وجہ سے اپنی غیرت سے تنازل کرتا ہے۔
غیرت سے متعلق اسلامی تاریخ میں بہت سے دلچسپ واقعات مذکور ہیں ۔ چند ایک ہم آپ کے لئے پیش کررہے ہیں۔
1۔ امام ابن عبد البر نے اپنی کتاب التمہید میں ذکر کیا ہے کہ عمر فاروق t نے  عاتکہ بنت زید کو پیغام نکاح دیا تو انھوں نے ان سے کئی شرطیں لگائیں جن میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ وہ انھیں مسجد نبوی میں جاکر صلاۃ پڑھنے سے منع نہیں کریں گے۔ چنانچہ آپ نے ان کی شرطیں مان لیں اور ان سے نکاح کرلیا۔ آپ کی شہادت کے بعد زبیر t نے ان کو پیغام نکاح دیا تو ان سے بھی یہی شرط لگائی ۔ انھوں نے نہ چاہتے ہوئے بھی نکاح کرنے کے لئے ان کی یہ شرط منظور کرلی۔ لیکن غیرت کی خاطر ایک حیلہ کیا۔ جب عشاء کے وقت رات کے اندھیرے میں یہ مسجد نبوی کی طرف صلاۃ ادا کرنے کے لئے نکلیں تو  زبیر t پہلے ہی راستہ میں ایک جگہ چھپ کے بیٹھ گئے ۔ جب وہ وہاں سے گذریں تو پیچھے سے ان کے کولھے پر ہاتھ مارا اور اندھیرے میں غائب ہوگئے۔ جب وہ عشاء پڑھ کر واپس آئیں تو کہنے لگیں انا للہ لوگ خراب ہوگئے ہیں۔ اور اس دن کے بعد مسجد جانا بند کردیا۔
2۔ امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے اپنی عظیم تاریخی کتاب البدایہ والنہایہ میں؁ ۲۸۶  کے واقعات ذکر کرتے ہوئے ایک عظیم الشان عبرتناک واقعہ ذکر کیا ہے۔ ایک خاتون نے قاضی ری کے پاس شکایت درج کرائی کہ اس کے شوہر نے اس کا حق مہر پانچ سو دینار ادا نہیں کیا ہے۔ شوہر نے انکار کیا اور کہا کہ میں ادا کرچکا ہوں۔ خاتون نے گواہ پیش کئے تو گواہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ عدالت کے سامنے اپنا چہرہ کھول کر دکھاؤ تاکہ ہم جان سکیں کہ تم اسی شخص کی بیوی ہو۔ جب شوہر نے دیکھا کہ اس کی بیوی کا چہرہ بھری عدالت میں کھلوادیاجائے گا تو اس نے فورا کہا: اس کا چہرہ مت کھلواؤ ، اس کا دعوی برحق ہے ، میں پانچ سو دینار دوبارہ  دینے کے لئے تیار ہوں لیکن اجنبیوں کے سامنے اس کا چہرہ کھلوانے کے لئے تیار نہیں۔ شوہر کی یہ غیرت دیکھ کر اس نیک نفس بیوی نے کہا: میں دنیا وآخرت دونوں جگہ اپنے مہر کو معاف کرتی ہوں۔
بے حجابی کے مفاسد:
حجاب کے فضائل جان لینے کے بعد اب بے حجابی کے مفاسد پر بھی ایک نظر ڈالنا مناسب ہوگا۔ یہ بات واضح ہے کہ بے حجابی میں ان سارے فضائل سے محرومی ہے جن کا ابھی بیان ہوا۔ دیگر چند اہم مفاسد مندرجہ ذیل ہیں:
¡۔ بے حجابی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی ہے۔ رسول اللہ e کا ارشاد ہے:
          ((كُلُّ أُمَّتِي يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ أَبَى قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَنْ يَأْبَى قَالَ مَنْ أَطَاعَنِي دَخَلَ الْجَنَّةَ وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ أَبَى.)) (رواه البخاري)

میری ساری امت جنت میں داخل ہوگی سوائے اس کے جو انکار کردے۔ صحابہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! کون انکار کرے گا؟ آپ e نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے انکار کردیا۔ (بخاری)
¢۔ بے حجابی باعث لعنت ہے۔ بے پردہ  اور بے حیا عورتوں کے لئے جہنم کی وعید ہے۔ رسول e کا فرمان ہے:
          ((صِنْفَانِ مِنْ أَهْلِ النَّارِ لَمْ أَرَهُمَا قَوْمٌ مَعَهُمْ سِيَاطٌ كَأَذْنَابِ الْبَقَرِ يَضْرِبُونَ بِهَا النَّاسَ وَنِسَاءٌ كَاسِيَاتٌ عَارِيَاتٌ مُمِيلَاتٌ مَائِلَاتٌ رُءُوسُهُنَّ كَأَسْنِمَةِ الْبُخْتِ الْمَائِلَةِ لَا يَدْخُلْنَ الْجَنَّةَ وَلَا يَجِدْنَ رِيحَهَا وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ كَذَا وَكَذَا.)) (رواه مسلم)

دو قسم کے جہنمی لوگوں کو ابھی میں نے نہیں دیکھا، ایک وہ (ظالم) قوم جن کے ہاتھوں میں گائے کے دموں کی طرح کوڑے ہوں گے جس سے وہ لوگوں کو ماررہے ہوں گے، دوسرے وہ عورتیں جو پہننے کے باوجود ننگی ہوں گی خود ریجھنے والی اور دوسروں کو رجھانے والی ہوں گی ان کے سر بختی اونٹوں کے کوہان کی طرح مائل ہوں گے، وہ نہ جنت میں داخل ہوں گی اور نہ اس کی خوشبو پائیں گی جبکہ جنت کی خوشبو اتنی اور اتنی مسافت تک پائی جاتی ہے۔ (مسلم)
طبرانی کی ایک حدیث میں اس طرح ہے: 
((سَيَكُونُ آخِرُ أُمَّتِي نِسَاءً كَاسِيَاتٍ عَارِيَاتٍ عَلَى رُؤُسِهِنَّ كَأَسْنِمَةِ الْبُخْتِ، الْعَنُوهُنَّ فَإِنَّهُنَّ مَلْعُونَاتٌ.))
(رواه الطبراني في الكبير)

میری امت کے آخر میں بعض عورتیں ایسی ہوں گی جو پہننے کے باوجود ننگی ہوں گی ان کے سروں پر بختی اونٹ کے کوہان جیسا ہوگا، ان پر لعنت کرو کیونکہ وہ ملعون ہیں۔ (طبرانی کبیر) 
£۔ بے حجابی یہود ونصاری کی پیروی ہے۔ نبی e نے امت کو صاف صاف طور پر بتادیا ہے کہ بنی اسرائیل کا سب سے پہلا فتنہ عورتوں ہی سے متعلق تھا، جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث ہے۔ نیز صحیح مسلم ہی میں رسول اکرم  e کی زبان مبارک سے بنی اسرائیل کا یہ واقعہ بھی مذکور ہے کہ بنی اسرائیل کی ایک پستہ قد عورت دو طویل عورتوں کے درمیان چلتی تھی ، چنانچہ اس نے اپنا پستہ قد چھپانے کے لئے لکڑی کے دو پیر بنوالئے (جیسے آج کل کی عورتیں اونچی ایڑیوں کے سینڈل استعمال کرتی ہیں) اور اس نے سونے کی انگوٹھی بنوائی اس کو مشک جیسی نہایت عمدہ خوشبو سے بھر کر بند کرلیا، جب وہ ان دونوں لمبی عورتوں کے درمیان سے گذری تو وہ اسے پہچان نہ سکیں، چنانچہ اس نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا۔
آج بھی پوری دنیا میں یہود ونصاری کی عورتیں عام طور پر بے حجابی اور بے حیائی میں مبتلا ہیں، سر اور سینہ کھلا رکھنا ان کے لئے عام بات ہے۔ اللہ تعالی مسلمان عورتوں کو ان کے شر سے محفوظ رکھے۔ آمین
¤۔ بے حجابی رجعت پسندی اور پسماندگی کی علامت ہے۔ اس کے برخلاف حجاب عروج وترقی  کی نشانی ہے۔ خود یورپی مورخین کے بقول ابتدا میں  انسان حیوانوں کی طرح ننگا رہتا تھا، یا پتوں سے اپنی شرمگاہیں چھپاکے رکھتا تھا، پھر دھیرے دھیرے ترقی ہوئی، سوئی اور سلائی کا انکشاف ہوا، کپڑے کی ایجاد ہوئی، قسم قسم کے لباس بنائے جانے لگے جیسے جیسے ترقی ہوتی گئی ویسے ویسے پردہ پوشی اور زینت کے عمدہ سے عمدہ انتظامات ہونے لگے۔ اب اگر دوبارہ انسان اسی عریانیت کی طرف پلٹتا ہے تو ظاہر ہے کہ یہ ترقی کو چھوڑکر زوال اور پستی کی طرف جانا ہے۔
اسلامی حجاب کیا ہے؟
اسلامی شریعت میں حجاب کے دو درجے ہیں۔
1  عورتیں اپنے گھروں کے اندر سکون وقرار کے ساتھ رہیں، ان پر کسی اجنبی مرد کی نظر نہ پڑسکے ، نہ ان کے ڈیل ڈول پر، نہ ظاہری یا باطنی لباس،  زیب وزینت اور بناؤ سنگار پر، نہ جسم کے کسی حصہ ؛ چہرے یا ہتھیلیوں یا قدموں پر۔ ارشاد باری ہے:
ﮋ ﭶ   ﭷ  ﭸ  ﭹ  ﭺ  ﭻ  ﭼ  ﭽ ﮊ الأحزاب: ٣٣

اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤسنگار  کا اظہار نہ کرو۔
2  عورتیں اگر  اپنے گھروں سے باہر نکلیں تو پوری طرح سر سے پیر تک باپردہ ہوکر نکلیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
ﮋ ﮝ  ﮞ  ﮟ  ﮠ  ﮡ  ﮢ  ﮣ  ﮤ    ﮥ  ﮦ  ﮧﮨ  ﮩ  ﮪ  ﮫ  ﮬ  ﮭ  ﮮﮯ  ﮰ   ﮱ  ﯓ  ﯔ  ﯕ   الأحزاب: ٥٩

اے نبی ! اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکالیا کریں، اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہوجایا کرے گی، پھر نہ ستائی جائیں گی، اور اللہ تعالی بخشنے والا مہربان ہے۔
اسلامی حجاب کی شرطیں:
آیات قرآنی، احادیث نبوی اور آثار سلف کا گہرا مطالعہ کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اسلامی حجاب میں آٹھ شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے۔ علمائے کرام نے ان شرطوں کو اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے۔
۱۔ اس حجاب کے ذریعہ عورت کا پورا بدن (سر سے پیر اور ایڑی سے چوٹی تک) چھپا ہوا ہو۔ یہی قول راجح ہے، چہرہ اور ہتھیلیوں کے کھلے رہنے کا قول مرجوح اور ضعیف ہے۔
۲۔ حجاب از خود زینت نہ ہو یعنی وہ اپنے آپ میں پرکشش او رجاذب نظر نہ ہو۔
۳۔ حجاب اس قدر باریک نہ ہو کہ اوپر سے اندر کی چیز نظر آئے یعنی جس سے عورت کا جسم جھلکتا ہو۔
۴۔ حجاب اس قدر تنگ نہ ہو جس سے جسم کا ایک ایک عضو نمایاں ہوتا ہو، بلکہ ڈھیلا ڈھالا ہو  جس سے جسمانی ساخت، فتنہ والی جگہوں اور بدن کے خد وخال کی غمازی نہ ہوتی ہو۔
۵۔ حجاب خوشبو یا سینٹ سے معطر نہ ہو۔
۶۔ حجاب مردوں کے لباس کی طرح نہ ہو۔
۷۔ حجاب کافر عورتوں کے لباس کی طرح نہ ہو۔
۸۔ حجاب شہرت وناموری والا لباس نہ ہو۔
حجاب کے قرآنی دلائل:
¡   سورہ احزاب/59 میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
ﮋ ﮝ  ﮞ  ﮟ  ﮠ  ﮡ  ﮢ  ﮣ  ﮤ    ﮥ  ﮦ  ﮧﮨ  ﮩ  ﮪ  ﮫ  ﮬ  ﮭ  ﮮﮯ  ﮰ   ﮱ  ﯓ  ﯔ  ﯕ  
الأحزاب: ٥٩

اے نبی ! اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکالیا کریں، اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہوجایا کرے گی، پھر نہ ستائی جائیں گی، اور اللہ تعالی بخشنے والا مہربان ہے۔
            چادر لٹکانے سے مراد یہ ہے کہ چہرے پر اس طرح گھونگھٹ نکال لیں کہ جس سے چہرہ چھپ جائے۔
¢   سورہ احزاب/53 میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
ﮋ ﯟ  ﯠ  ﯡ  ﯢ  ﯣ   ﯤ  ﯥﯦ  ﯧ  ﯨ  ﯩ  ﯪ ﮊ الأحزاب: ٥٣

جب تم ان سے کوئی چیز طلب کرو تو پردے کے پیچھے سے طلب کرو، تمھارے اور ان کے دلوں کے لئے کامل پاکیزگی یہی ہے۔
اس آیت کا نام آیت حجاب ہے۔ یہ                 ۵؁ میں نازل ہوئی ، اس میں مطلق طور پر پورے جسم کے پردے کا حکم دیا گیا ہے، کسی قسم کا کوئی استثناء نہیں ہے، لہذا پورے جسم کا حتی کہ چہرے اور ہتھیلی کا پردہ بھی ضروری ہے۔
البتہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ آیت امہات المؤمنین کے لئے خاص ہے ان کی غلط فہمی کا ازالہ کرنا ضروری ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ حجاب کے پیچھے سے کوئی چیز مانگنے کی جو علت بتائی گئی ہے وہ مرد وعورت دونوں کے دلوں کی طہارت وپاکیزگی بتائی گئی ہے۔ اب اگر اس آیت کو امہات المؤمنین کے ساتھ خاص مان لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ دیگر عورتوں کو دل کی پاکیزگی کی ضرورت نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے زیادہ غلط بات اور کوئی نہیں ہوسکتی۔ دوسری بات یہ ہے کہ ازواج مطہرات ہمارے لئے اسوہ اور لائق اتباع ہیں ، جب تک کسی معاملہ میں ان کی خصوصیت ثابت نہ ہوجائے تب تک ان کو دیاجانے والا حکم ساری امت کی عورتوں کے لئے ہوگا۔
£  سورہ احزاب/33 میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
ﮋ ﭶ   ﭷ  ﭸ  ﭹ  ﭺ  ﭻ  ﭼ  ﭽ ﮊ الأحزاب: ٣٣

اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ کا اظہار نہ کرو۔
یعنی اپنے گھروں میں ٹک کر رہو، گھر کی چار دیواری میں رہ کر امور خانہ داری انجام دو اور کسی ضروری حاجت کے بغیر گھر سے باہر نہ نکلو اور اگر باہر جانے کی ضرورت پیش آجائے تو بے پردہ ہوکر مت نکلو جس سے تمھارے بناؤ سنگار ظاہر ہوں۔
¤  سورہ نور/31 میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
ﮋ ﮐ  ﮑ    ﮒ  ﮓ  ﮔ  ﮕ  ﮖ  ﮗ  ﮘ       ﮙ  ﮚ    ﮛ  ﮜ  ﮝﮞ  ﮟ  ﮠ  ﮡ  ﮢﮣ   ﮤ  ﮥ   ﮦ  ﮧ  ﮨ  ﮩ  ﮪ  ﮫ   ﮬ  ﮭ  ﮮ  ﮯ  ﮰ    ﮱ  ﯓ   ﯔ  ﯕ  ﯖ      ﯗ  ﯘ     ﯙ     ﯚ  ﯛ  ﯜ   ﯝ     ﯞ  ﯟ  ﯠ  ﯡ  ﯢ    ﯣ   ﯤ  ﯥ  ﯦ  ﯧ   ﯨ  ﯩ     ﯪ   ﯫ  ﯬ  ﯭ  ﯮ  ﯯ  ﯰﯱ   ﯲ  ﯳ  ﯴ  ﯵ     ﯶ  ﯷ  ﯸ  ﯹﯺ  ﯻ   ﯼ    ﯽ  ﯾ  ﯿ  ﰀ  ﰁ  ﰂ  ﰃ    النور: ٣١

مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں۔ اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے ، یا اپنے والد کے، یا اپنے خسر کے ، یا اپنے بیٹوں کے، یا اپنے خاوند کے بیٹوں کے، یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں کے، یا اپنے بھانجوں کے یا اپنے میل جول کی عورتوں کے، یا غلاموں کے، یا ایسے نوکر چاکر مردوں کے جو شہوت والے نہ ہوں، یا ایسے بچوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے مطلع نہیں۔ اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار کر نہ چلیں کہ ان کی پوشیدہ زینت معلوم ہوجائے۔ اے مسلمانو! تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ۔
سورہ نور کی اس ایک آیت میں تین مقامات ایسے ہیں جن سے حجاب کے وجوب پر دلیل ملتی ہے۔
پہلا مقام اللہ تعالی کا یہ قول ہے: ﮋ ﮗ  ﮘ       ﮙ  ﮚ    ﮛ  ﮜ  ﮝ ﮊ النور: ٣١  (اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے)۔ عبداللہ بن مسعود  t وغیرہ سے بہ سند صحیح ثابت ہے کہ یہاں پر زینت سے مراد اوپری لباس ہے۔ یعنی زینت کو چھپانے کے لئے جو برقعہ یا چادر لی جاتی ہے وہ بھی ایک زینت ہی ہے لیکن چونکہ اس کا چھپانا ناممکن ہے اس لئے اس کے ظاہر ہونے میں حرج نہیں۔
دوسرا مقام اللہ تعالی کا یہ قول ہے:  ﮋ ﮟ  ﮠ  ﮡ  ﮢ ﮊ النور: ٣١ (اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں) ظاہر ہے کہ جب سر سے اوڑھنی کو لٹکاکر سینہ پر ڈالنے کا حکم ہے تو درمیان میں چہرہ اور گردن خود بخود چھپ جائے گی، لہذا اس کے چھپانے کا حکم بھی اس کے اندر پایا گیا۔
تیسرا مقام اللہ تعالی کا یہ قول ہے:  ﮋ ﯲ  ﯳ  ﯴ  ﯵ     ﯶ  ﯷ  ﯸ  ﯹ ﮊ النور: ٣١   (اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار کر نہ چلیں کہ ان کی پوشیدہ زینت معلوم ہوجائے)۔
آیت کے اس ٹکڑے میں عورت کو زمین پر پاؤں مار کر چلنے سے منع کیا گیا ہےتاکہ پازیبوں کی جھنکار سے مرد اس کی طرف متوجہ نہ ہوں۔ اسی میں اونچی ایڑیوں کے وہ سینڈل بھی آجاتے ہیں جنھیں عورت پہن کر چلتی ہے تو ٹک ٹک کی آواز زیور کی جھنکار سے کم نہیں ہوتی۔
ذرا غور کیجئے! جب ایک عورت کے پازیب کی جھنکار میں بھی فتنہ ہوتا ہے، اس میں بھی مرد کے لئے ایک عجیب کشش ہوتی ہے حالانکہ  صرف پازیب کی جھنکار سے یہ اندازہ کرنا قطعا ناممکن ہے کہ پازیب پہنی عورت جوان ہے یا بوڑھی اور خوبصورت ہے یا بدصورت۔ اسی لئے جھنکار پیدا کرنے سے بچنے کا حکم دیا گیا۔اب اگر کوئی سرسبز وشاداب، جوانی سے بھرپور اور حسن وجمال سے آراستہ چہرہ نگاہوں کی زینت بنے تو اس کے فتنے کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ پازیب کی آواز زیادہ بڑا فتنہ ہے یا بے حجاب چہرہ زیادہ بڑا فتنہ ہے؟؟ پازیب چھپانے کی زیادہ ضرورت ہے یا چہرہ چھپانے کی زیادہ ضرورت ہے؟؟۔
حجاب پر احادیث کے دلائل:
¡۔ عبداللہ بن مسعود  t سے روایت ہے کہ نبی e  نے فرمایا:
الْمَرْأَةُ عَوْرَةٌ فَإِذَا خَرَجَتْ اسْتَشْرَفَهَا الشَّيْطَانُ. رواه الترمذي وقال: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ , وقال الألباني : صحيح.

عورت مکمل چھپانے کی چیز ہے، جب وہ گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اسے گھور گھور کے دیکھتا ہے۔
اس حدیث میں صاف صاف عورت کو  مکمل چھپانے کی چیز بتایا گیا یعنی سر کی چوٹی سے پیر کے ناخن تک ۔ چہرہ اور ہتھیلی تو بڑی بات ہے ناخن بھی نظر نہیں آنا چاہئے۔ اس حدیث میں عورت کو شیطانی نظروں  سے بچانے کی تلقین کی گئی ہے خواہ وہ انسانی شیطان ہوں یا جناتی شیطان۔
¢۔ عبداللہ بن عمر t  سے روایت ہے کہ نبی e نے فرمایا:
لَا تَنْتَقِبْ الْمَرْأَةُ الْمُحْرِمَةُ وَلَا تَلْبَسْ الْقُفَّازَيْنِ. (رواه البخاري)

احرام والی عورت نہ ہی نقاب پہنے اور نہ ہی دونوں دستانے پہنے۔
یہ حدیث اس بات پر واضح دلیل ہے کہ احرام کے علاوہ دیگر حالات میں مسلمان عورتیں نقاب اور دستانے پہنا کرتی تھیں۔ حجاب کا حکم نازل ہونے کے بعد ان کے لباس میں یہ مشہور تبدیلی آئی تھی کہ انھوں نے عام حالات میں نقاب اور دستانے کو اپنے لباس کا حصہ بنالیا تھا۔ احرام کی حالت میں مخصوص نقاب اور دستانے سے تو روک دیا گیا لیکن چہرہ اور ہتھیلی کو احرام میں بھی اجنبی مردوں کے سامنے کھلا رکھنا جائز نہیں ہے، بلکہ دوپٹے وغیرہ سے چھپانا ضروری ہے۔
£۔ احمد ، ابوداود، ترمذی اور نسائی کی صحیح حدیث ہے کہ نبی e نے فرمایا: جس نے تکبر کے طور پر اپنے کپڑوں کو زمین پر گھسیٹا اللہ تعالی بروز قیامت اس کی طرف نظر نہیں کرے گا۔ ام سلمہ  r نے کہا: عورتیں اپنے دامنوں کا کیا کریں گی؟ آپ e نے فرمایا: ایک بالشت مزید لٹکالیں گی، ام سلمہ r نے کہا: تب تو ان کے پیر کھلے رہیں گے۔ نبی e نے فرمایا: ایک ہاتھ لٹکالیں لیکن اس سے زیادہ نہ لٹکائیں۔
قابل غور یہ ہے کہ قدم چھپانے کا حکم ہےاور صحابیات اس بات کو خوب اچھی طرح جانتی تھیں۔ سوچنے کی بات ہے کیا قدم کے کھلے رکھنے میں فتنہ زیادہ ہے یا ہتھیلی اور چہرہ کے کھلے رکھنے میں؟ یقینا چہرہ اور ہتھیلی کا کھلا رکھنا زیادہ باعث فتنہ ہے۔ دین اسلام جیسی عقل وحکمت والی شریعت میں یہ حکم بہت بعید از قیاس ہے کہ کم فتنہ والی چیز کو چھپانے کا حکم دیا جائے اور بڑے فتنہ والی چیز کو کھلا رکھنے کی اجازت دی جائے۔
¤۔ حدیث افک میں عائشہ r کا بیان قابل توجہ ہے ۔ فرماتی ہیں: صفوانt نے مجھے پہچان لیا کیونکہ پردہ کا حکم نازل ہونے سے پہلے وہ مجھے دیکھ چکے تھے۔ انھوں نے   ﭳ     ﭴ  ﭵ    ﭶ       ﭷ      پڑھا ۔ یہ سن کر میں بیدار ہوگئی اور فورا میں نے اپنا چہرہ اپنی چادر سے ڈھک لیا۔ (صحیح بخاری)
Ã۔ صحیح بخاری ومسلم میں انس t کی وہ حدیث جس میں صفیہ r کی شادی کا واقعہ مذکور ہے۔ بعض صحابہ نے کہا: ان کو امہات المؤمنین میں سے ہونے کا شرف حاصل ہوگا یا ایک لونڈی کا درجہ دیا جائے گا؟ تو دوسرے صحابہ نے جواب دیا: اگر ان سے پردہ کرایا گیا تو امہات المؤمنین کا درجہ حاصل ہوگا اور اگر پردہ نہیں کرایا گیا تو لونڈیوں میں سے رہیں گی۔
اس حدیث سے بڑے ہی واشگاف انداز میں  یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ غلام اور آزاد عورتوں میں حجاب کا فرق ہے صحابہ کو اس معاملہ میں تردد تھا کہ آیا صفیہ r جنگ میں قید ہونے کی وجہ سے اپنی غلامی پر باقی رہیں گی یا نبی e انھیں آزاد کردیں گے؟ اگر وہ غلامی پر باقی رہیں تب تو لونڈیوں کا درجہ رہے گا اور ان پر کامل پردہ واجب نہیں ہوگا لیکن اگر وہ آزاد ہوگئیں تو ان پر کامل پردہ واجب ہوگا اور وہ زوجۂ مطہرہ کا مقام پائیں گی۔ چنانچہ یہی ہوا کہ انھیں نبی e نے آزاد فرمایا اور آزادی ہی کو ان کی مہر قرار دے کر انھیں اپنی زوجہ ہونے کا شرف عطا فرمایا۔
Ä۔ صحیح بخاری میں عائشہ r کی حدیث ہے، فرماتی ہیں : اللہ تعالی اولین مہاجر خواتین پر رحم فرمائے، جب یہ آیت نازل ہوئی  ﮋ ﮟ  ﮠ  ﮡ  ﮢ ﮊ النور: ٣١ تو انھوں نے اپنی چادروں کو پھاڑ کر اس کا خمار (حجاب) بنالیا۔ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں خمار بنانے کا معنی یہ بتایا ہے کہ انھوں نے اپنی چادروں سے اپنے چہرے ڈھانپ لئے۔
۔ صحیح بخاری ومسلم میں عائشہ r کی حدیث ہے، فرماتی ہیں : ایک بار سودہ  r کسی  حاجت سے باہر نکلیں۔ اس وقت تک حجاب کا حکم نازل ہوچکا تھا۔ وہ اچھے ڈیل ڈول  کی عورت تھیں۔ انھیں جاننے والا حجاب کے باوجود انھیں پہچان سکتا تھا۔ عمر t نے انھیں دیکھ کر کہا: اے سودہ! آپ ہم سے چھپ نہیں سکتیں، لہذا گھر سے نکلنے پر ازسرنو  غور کریں۔ چنانچہ وہ پلٹ آئیں۔ اس وقت رسول e عائشہ r کے گھر میں کھانا کھارہے تھے۔ آپ کے ہاتھ میں ہڈی تھی۔ سودہ  r داخل ہوئیں  اور انھوں نے واقعہ کی خبر دی، پورا ماجرا سنایا۔ نبی e پر وحی نازل ہوئی اور آپ نے کہا: تمھیں ضرورت کے لئے باہر نکلنے کی اجازت دی گئی ہے۔
حدیث  سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عمر t نے ان کو چہرہ کھلا ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے مخصوص ڈیل ڈول کی بنا پر پہچانا۔ حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عمر t یہ نہیں چاہتے تھے کہ امہات المؤمنین کو پہچانا جاسکے اور اگر حجاب فقط امہات المؤمنین کے لئے ہوتا، تو  یہ تو سب سے بڑی اور پہلی پہچان ہوتی۔ لہذا بعض مدعیان علم کا یہ کہنا قطعی غلط ہے کہ پردے کا حکم امہات المؤمنین کے ساتھ خاص تھا۔
·۔ مسند احمد میں عبداللہ بن عمرو بن عاص  t  کی  حدیث ہے، کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ e کے ساتھ ایک جنازہ میں شرکت کی ، تدفین سے واپس ہوئے اور جب ہم نبی e کے گھر کے دروازے کے سامنے پہنچے تو وہاں ایک عورت تھی، ہم نہیں سمجھتے تھے کہ نبی e نے اسے پہچان لیا۔ آپ e نے کہا: فاطمہ! کہاں سے آرہی ہو؟ انھوں نے جواب دیا کہ میں میت کے گھر والوں کے پاس سے آرہی ہوں، میں نے ان کی تعزیت کی اور میت کے لئے دعا کی ہے۔
غور کا مقام ہے کہ حجاب کی بنا پر صحابہy یہ سمجھ رہے تھے کہ نبی e نے اس عورت کو نہیں پہچانا حالانکہ آپ e پہچان گئے تھے اور آپ نے ان کو ان کا نام لے کر مخاطب کیا۔
شبہات کا مجمل ازالہ
قرآن وحدیث کے واضح دلائل کی روشنی میں یہ حقیقت اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ عورت کے لئے مکمل پردہ ضروری ہے۔ یہی اسلام کا حکم ہے۔ حتی کی چہرہ اور ہتھیلی کا پردہ کرنا بھی لازمی ہے۔ کسی حاجت کے وقت ہی اسے کھولنے کی رخصت ہے۔
            رہے وہ لوگ جو چہرہ کھولنے کے جواز کی وکالت کرتے ہیں، ان میں ایک صنف تو وہ ہے جو دل کی بیماری کا شکار ہے خواہ وہ شہوت ہو یا نفاق، ایسے لوگوں کو کوئی جواب دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ دوسرا صنف وہ ہے جو اپنی سادگی یا کم فہمی یا کم علمی کی وجہ سے شبہات کا شکار ہوجاتا ہے، لہذا ان کے لئے شبہات کا اجمالی ازالہ کردینا مناسب ہے۔
یاد رکھیں کہ چہرہ کھولنے کے جواز میں جو دلیلیں بھی پیش کی جاتی ہیں وہ یا تو ضعیف حدیثیں ہیں جنھیں علمائے حدیث نے قبول نہیں کیا ہے بلکہ رد کردیا ہے، اور یا تو وہ حجاب کا حکم نازل ہونے سے پہلے کی بات ہےاور یا حاجت وضرورت کے وقت کی مستثنی صورت ہے اور یا تو مخصوص واقعہ ہے جسے عموم کا درجہ نہیں دیا جاسکتااور یا تو فقط احتمال رکھتی ہیں جن سے قطعی استدلال درست نہیں۔
چہرہ کھولنا جائز قرار دینے  والوں کی کوئی دلیل ایسی نہیں جو بیک وقت صحیح وصریح ہو، محکم ہو، معارض سے خالی ہو اور حجاب کا حکم نازل ہونے کے بعد کی ہو اور استثنائی صورتوں میں سے نہ ہو۔
گفتگو ختم کرنے سے پہلے
یاد رہے کہ پردے کا حکم ایک مسلمان عورت کو دیگر عورتوں سے ممتاز کرتا ہے۔ پردے کا حکم اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام نے عورت کو ایک نہایت بیش قیمت متاع قرار دیا ہے، اسی لئے اس کی حفاظت وصیانت کا خصوصی اہتمام کیا ہے کیونکہ ہر قیمتی چیز کو چھپاکر رکھاجاتا ہے اور اس کی حفاظت کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
پردہ عورت کے لئے ایک ایسے شجر سایہ دار  کی حیثیت رکھتا ہے جس کی چھاؤں  میں وہ سکون محسوس کرتی اور جس کے دامن میں وہ پناہ حاصل کرتی ہے۔
عصر حاضر میں بعض اسلام دشمن عناصر ، چند الحاد ولادینی میں مبتلا حضرات نیز کچھ وہ لوگ جن کی آنکھیں مغربی تہذیب کی جھوٹی چمک دمک سے خیرہ ہوچکی ہیں  حجاب کو ایک طرح کی ناجائز بندش، بے جا پابندی اور ناروا بوجھ بتلانے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ حقیقت اس کے بالکل برخلاف ہے۔ اس لئے دشمنوں کے مکر وکید کو سمجھنا اور ان کے حسین جالوں سے بچنا اور ان کی سازشوں کو ناکام بنانا ہمارے لئے ضروری ہے۔
ہر مسلمان عورت کو چاہئے کہ حجاب کے شرعی تقاضوں کی پابندی کرے تاکہ اس کے ذریعہ وہ ایک طرف  اپنے ایمان کی  حفاظت کرکے اپنے رب کی رضا حاصل کرسکے اور دوسری طرف   دشمنان اسلام کے مذموم و مکروہ اور ناپاک عزائم کو  خاک میں ملادے۔ 

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق