السبت، 20 أبريل 2013

غلو کے کرشمے




   الغلو ومظاهره



غلو کے کرشمے


اعداد:
عبدالہادی عبدالخالق مدنی
کاشانۂ خلیق، اٹوا بازار ،سدھارتھ نگر ،یوپی
داعی احساء اسلامک سینٹر ،سعودی عرب



فہرست مضامین
المحتويات
صفحہ
موضوعات
مقدمة
4
مقدمہ
التمهيد
6
تمہید
معنى الغلو
8
غلو کا مفہوم
تاريخ الغلو
12
غلو کی تاریخ
أسباب الغلو
15
غلو کے اسباب
1-    الجهل بالدين
15
1.    جہالت اور صحیح دین سے ناواقفیت
2-    اتباع الهوى
26
2.    خواہشات نفس کی پیروی
3-    الاعتماد على الأحاديث الضعيفة والموضوعة
27
3.    غیر معتبر، کمزور اور جھوٹی احادیث پر اعتماد
وسائل الابتعاد من الغلو
36
غلو سے بچنے کے وسائل
1-    الدعاء
36
1. دعا
2-    سؤال أهل العلم
38
2. اہل علم سے سوال
3-    الالتزام بالشرع
38
3. پابندیٔ شریعت
4-    الاستقامة
39
4. استقامت اختیار کرنا
5-    تذكر النهي عن الغلو
39
5. غلو کی ممانعت کو یاد رکھنا



مقدمہ
الحمد للہ و الصلاۃ والسلام علی رسول اللہ، أما بعد:
اللہ  تعالیٰ نے امت محمدیہ کو "خیر امت" اور "امت وسط" بنایا ہے۔ دین اسلام وسطیت ومیانہ روی اور اعتدال وتوازن کا حامل ہے۔یہ مذہب گمراہی کے دونوں سرے غلو اور تقصیر سے محفوظ ہے۔
انسان کے ازلی دشمن شیطان کی ہمیشہ یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ انسان کو کسی نہ کسی گمراہی میں مبتلا کردے۔یا تو انسان کو دین پسندی ودینداری سے دور کرکےتفریط وتقصیر کا شکار بنادے۔یا دینداری کے جذبات کا ناروا استعمال کرکے اسے افراط اور غلو میں مبتلا کردے۔
واضح رہے کہ تفریط وتقصیر کے مقابلے میں افراط اور غلو زیادہ خطرناک ہے۔ کیونکہ افراط وتقصیر میں عموماً غلطی کا احساس ہوتا ہےاور اس لئے توبہ کی بھی توقع ہوتی ہے۔ اس کے برخلاف غلو میں مبتلا شخص اپنے کو برحق سمجھتا ہے۔ بزعم خود اپنی دینداری میں مست اور مگن ہوتا ہے۔ جب کہ درحقیقت راہ حق اور صراط مستقیم سے وہ دور جاچکا ہوتا ہے۔ کیونکہ صراط مستقیم ہر افراط وتفریط سے پاک ہے۔ قرآن مجید، سنت صحیحہ اورسلف صالحین کی روش ہر غلوسے روکتی ہے۔
زیر نظر کتاب "غلو کے کرشمے" دراصل ایک تقریر ہے جو احساء اسلامک سینٹر ہفوف کے لیکچر ہال میں 20/جمادی الثانی 1428ھ مطابق 5/جولائی 2007ء بروز جمعرات کو کی گئی۔ اس کے اندر غلو کے مفہوم، اس کی تاریخ، اس کے اسباب اور اس سے بچنے کے وسائل پر گفتگو کی گئی ہے۔ اس کی اہمیت وافادیت کو سامنے رکھتے ہوئے اسے کتابی شکل دے دی گئی ۔ نیز نظرثانی کرکے مناسب ترمیم اور ضروری حذف واضافے بھی کئے گئے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اسے ہر خاص وعام کیلئے نافع بنائے ۔اس کے مرتب اور اس کی نشرواشاعت میں معاون ہر فرد کو جزائے خیر سے نوازے۔ آمین۔
عبد الہادی عبد الخالق مدنی
کاشانۂ خلیق۔ اٹوا بازار۔سدھارتھ نگر۔یوپی
داعی احساء اسلامک سینٹر ہفوف ، سعودی عرب
2010ء


تمہید:
الحمد لله, والصلاة والسلام على رسول الله, أما بعد:
۱۰؁ کی بات ہے ۔ نبی e  اپنے صحابہ کے ساتھ اپنی زندگی کا آخری حج ادا فرمارہے ہیں ۔ میدان عرفات میں وقوف کرچکے ہیں ۔ مزدلفہ میں رات بھی گذار چکے ہیں ۔ ذوالحجہ کی دس تاریخ ہے ۔ صبح کا وقت ہے ۔ جمرۂ عقبہ کو کنکری مارنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ نبی e اپنی اونٹنی پر سوار ہیں ۔ عبداللہ بن عباس t  کو بلاتے ہیں ۔ فرماتے ہیں : «میرے لئے سات کنکریاں چن کر لاؤ »۔ آپ چنے کے دانے کے برابر سات کنکریاں لاکر دیتے ہیں ۔ نبی e وہ کنکریاں دکھاتے ہوئے لوگوں سے فرماتے ہیں: «ان جیسی کنکریوں سے رمی کرو»۔ نیز فرماتے ہیں: «اے لوگو! دین میں غلو سے بچو، کیونکہ تم سے پہلے کی امتوں کو دین میں غلو نے ہی تباہ وبرباد کردیا»۔
«إياكم والغلو في الدين فإنما هلك من كان قبلكم بالغلو في الدين».
اس حدیث کو امام احمد نے اپنی مسند میں، اور امام نسائی نے اپنی سنن صغری اور کبری میں، اور امام ابن ماجہ نے اپنی سنن میں، اور امام ابن حبان اور امام ابن خزیمہ نے اپنی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے مستدرک میں یہ حدیث روایت کرنے کے بعد اسے بخاری ومسلم کی شرط کے مطابق صحیح قرار دیا ہے، اور امام ذہبی نے ان کی موافقت کی ہے۔ نیز امام نووی نے المجموع میں، اور امام ابن تیمیہ نے اقتضاء الصراط المستقیم میں، اور علامہ البانی نے السلسلہ الصحیحہ کے اندر اسے صحیح قرار دیا ہے۔
یہ نہایت عظیم حدیث ہے۔ یہ دین کا ایک جامع اصول ہے۔ یہ حدیث ایک مسلمان کو ہر قسم کے غلو سے روکتی ہے،خواہ وہ عقیدہ کا غلو ہو یا عمل کا۔ آئیے آج کی مجلس میں یہی معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ غلو کیا چیز ہے؟ غلو کی تاریخ کیا ہے؟ غلو کے اسباب کیا ہیں؟ غلو نے کیا کیا گل کھلائے؟ اور شریعت کی نظر میں غلو کی کیا حیثیت ہے؟ اور غلو سے بچنے کے کیا وسائل وذرائع ہیں؟؟
غلو کا مفہوم:
غلو عربی زبان کا لفظ ہے۔ غلو کا معنی ہے حد سے آگے نکل جانا، حدسے تجاوز کرجانا۔ استحقاق سے زیادہ تعریف یا مذمت کرنا۔ یعنی کسی چیز کی اتنی زیادہ تعریف کرنا جتنے کی وہ مستحق نہیں، یا کسی چیز کی اتنی زیادہ برائی کرنا جتنے کی وہ مستحق نہیں۔ مثال کے طور پر نصرانیوں نے عیسی علیہ السلام کی تعریف میں اس قدر غلو کیاکہ انھیں اللہ کا بیٹا قرار دے دیا۔ چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔
ﮋ ﭑ  ﭒ  ﭓ  ﭔ  ﭕ  ﭖ  ﭗ  ﭘ   ﭙ  ﭚ  ﭛ  ﭜﭝ  ﭞ  ﭟ  ﭠ  ﭡ  ﭢ  ﭣ   ﭤ  ﭥ  ﭦ  ﭧ  ﭨ  ﭩ  ﭪﭫ  ﭬ  ﭭ   ﭮﭯ  ﭰ  ﭱ  ﭲﭳ  ﭴ  ﭵ  ﭶﭷ  ﭸ  ﭹ  ﭺ       ﭻﭼ  ﭽ  ﭾ  ﭿ  ﮀ  ﮁﮂ  ﮃ  ﮄ  ﮅ  ﮆ    ﮇ  ﮈ  ﮉﮊ  ﮋ  ﮌ  ﮍ  ﮎ   النساء: ١٧١
(اے اہل کتاب! اپنے دین کے بارے میں حد سے نہ گذر جاؤ، اور اللہ پر بجز حق کے اور کچھ نہ کہو، مسیح عیسی بن مریم (u) تو صرف اللہ تعالی کے رسول اور اس کے کلمہ (کن سے پیدا شدہ ) ہیں،  جسے مریم ([) کی طرف ڈال دیا تھا اور اس کے پاس کی روح ہیں، اس لئے تم اللہ کو اور اس کے سب رسولوں کو مانو،اور نہ کہو کہ اللہ تین ہیں، اس سے باز آجاؤ کہ تمھارے لئے بہتری ہے، اللہ عبادت کے لائق تو صرف ایک ہی ہے، اور وہ اس سے پاک ہے کہ اس کی اولاد ہو، اسی کے لئے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ اور اللہ کافی ہے کام بنانے والا)۔
نیز ارشاد ہے: ﮋ ﭑ  ﭒ  ﭓ  ﭔ  ﭕ  ﭖ  ﭗ  ﭘ  ﭙ   ﭚ  ﭛ  ﭜ  ﭝ  ﭞ  ﭟ  ﭠ  ﭡ  ﭢ   ﭣ   ﭤ  ﭥ  ﭦ  ﭧ  ﭨ   المائدة: ٧٧
(کہہ دیجئے اے اہل کتاب! اپنے دین میں ناحق غلو اور زیادتی نہ کرو، اور ان لوگوں کی نفسانی خواہشوں کی پیروی نہ کرو جو پہلے سے بہک چکے ہیں، اور بہتوں کو بہکا بھی چکے ہیں، اور سیدھی راہ سے ہٹ گئے ہیں)۔
نبی e نے بھی صلیب پرست نصرانیوں کے اسی غلو کے پیش نظر اپنے بارے میں اپنی امت کو متنبہ فرمایا:
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ t سَمِعَ عُمَرَ t يَقُولُ عَلَى الْمِنْبَرِ, سَمِعْتُ النَّبِيَّ r يَقُولُ: «لا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ, فَإِنَّمَا أَنَا عَبْدُهُ, فَقُولُوا عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ». (رواه البخاري)
عبداللہ بن عباسt  کا بیان ہے کہ انھوں نے عمرفاروقt  کو منبر پر کہتے ہوئے سنا کہ میں نے نبی e کو فرماتے سنا ہے: «تم میری تعریف میں اس طرح مبالغہ نہ کرنا جس طرح نصرانیوں نے عیسی بن مریم علیہ السلام کے بارے میں کیا ہے ،میں فقط اللہ کا بندہ ہوں لہذا مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو»۔(بخاری)
نیز ارشاد ہے:    عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بن مسعود t قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ r هَلَكَ الْمُتَنَطِّعُونَ, قَالَهَا ثَلَاثًا. (رواه مسلم)
عبداللہ بن مسعود t کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول e نے ارشاد فرمایا: «اپنے قول وفعل میں حدود سے تجاوز کرنے والے ہلاک وبرباد ہوگئے»۔ آپ e نے اسے تین بار دہرایا۔(مسلم)
غلو وہ خطرناک چیز ہے جو صراط مستقیم سے انحراف کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ نصرانیت کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ عیسی علیہ السلام توحید خالص لے کرکے آئے تھے جو ہر طرح کے کفر وشرک کی آمیزش سے پاک تھا،لیکن جب ان کے ماننے والوں نے ان کی ذات میں غلو کرنا شروع کیا تو دھیرے دھیرے عیسی علیہ السلام کے لائے ہوئے دین کی شکل ایسی بگڑ گئی کہ ہندستان کی بت پرستی ،یونان کی فلسفیانہ موشگافی، اور یہودیوں کی باطل پرستی کا ملغوبہ بن کر آسمانی دین کے بجائے خود ساختہ آراء وافکار کا چوں چوں کا مربہ تیار ہوگیا۔ آج نصرانیت کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل ہوگیا ہے کہ اس دین کی ابتدا توحید  خالص سے ہوئی تھی۔


غلو کی تاریخ
انسانی تاریخ میں سب سے پہلی گمراہی غلو کے راستہ سے آئی۔ قرآن کریم میں سورۂ نوح کے اندر قوم نوح کے جن معبودوں کا تذکرہ آیا ہے یعنی ود، سواع، یغوث، یعوق، نسر۔ صحیح بخاری میں عبد اللہ بن عباس t  کی حدیث ہے کہ یہ ان کی قوم کے اولیاء وصالحین اور بزرگوں کے نام ہیں۔ ان کی وفات کے بعد شیطان ان کی قوم کے پاس آیا اور ان کی تصویریں بناکر گھروں ، دکانوں اور مجلسوں میں رکھنے کی ترغیب دی۔ چنانچہ ان لوگوں نے ایسا کیا، پھر جب یہ نسل ختم ہوگئی اور علم اٹھ گیا، تو شیطان بعد والوں کے پاس آیا، اور اس نے کہا کہ تمھارے آباء واجداد ان بتوں کی عبادت کیا کرتے تھے، چنانچہ ان کی عبادت شروع ہوگئی۔
نوح علیہ السلام اس روئے زمین پر اللہ کے پہلے رسول تھے اور ان کی قوم میں گمراہی غلو کے راستے سے آئی۔ محمد e اس روئے زمین پر اللہ کے آخری رسول تھے اور آپ سے ماقبل کے رسول عیسی علیہ السلام کی قوم میں بھی گمراہی غلو کے راستہ سے آئی۔ چنانچہ اللہ تعالی نے خصوصی طور پر اہل کتاب کو مخاطب کرکے فرمایاکہ اے اہل کتاب اپنے دین میں غلو نہ کرو جیسا کہ آیت گذرچکی ہے۔ اپنے آپ کو عیسائی کہنے والوں نے عیسی u  کی ذات میں اس قدر غلو کیا کہ آپ کو مقام رسالت سے اٹھاکر مقام الوہیت پر فائز کردیا، اور اتنا ہی نہیں بلکہ انھوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنالیا، جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:  ﯘ  ﯙ   ﯚ  ﯛ  ﯜ  ﯝ  ﯞ ﮊ التوبة: ٣١  (ان لوگوں نے اللہ کو  چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رب بنالیا)
اس آیت کی تفسیر عدی بن حاتم t  کی اس حدیث سے ہوتی ہے جو سنن ترمذی میں مروی ہے اور علامہ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ جب عدی بن حاتم t  نے رسول اکرم e سے یہ آیت پڑھتے ہوئے سنی تو عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! یہود ونصاری نے اپنے عالموں اور درویشوں کی عبادت تو نہیں کی، تو آپ e نے فرمایا: کیا ایسی بات نہیں کہ اگر تمھارے علماء کوئی چیز حلال کردیتے تھے تو تم اسے حلال مان لیتے تھے، اور اگر کوئی چیز  حرام کردیتے تھے تو تم اسے حرام مان لیتے تھے؟ فرمایا: ایسا تو تھا ۔ آپ e نے فرمایا: یہی ان کی عبادت تھی۔
            افسوس کہ امت مسلمہ کے بعض لوگوں میں بھی غلو کی بیماری در آئی ہے، اور ان لوگوں نے بھی محمد e کو مقام رسالت سے اٹھاکر مقام الوہیت پر فائز کردیا ہے، جیساکہ آگے بیان آئے گا۔ اور بعض لوگوں نے علمائے دین کو شارح کے مقام سے اٹھاکر شارع  کے مقام پر رکھ دیا ہے۔ علماء کے آراء واقوال کو کتاب وسنت کے واضح نصوص پر فوقیت دینے لگ گئے۔ فاللہ المستعان۔


غلو کے اسباب
غلو یوں ہی نہیں پیدا ہوتا بلکہ اس کے پیچھے چند اسباب ہوتے ہیں۔ آئیے ان اسباب کا جائزہ لیتے ہیں۔
غلو کاپہلا سبب: جہالت اور صحیح دین سے ناواقفیت
            دراصل جہالت اور صحیح دین سے ناواقفیت ہر طرح کے غلو اور بدعت پیدا ہونے کا عظیم باعث ہے۔  دین سے ناواقفیت کی کئی شکلیں ہیں۔ ایک شکل تو یہ ہے کہ مقاصد شریعت کا فہم حاصل نہ ہو۔ مثلاً اللہ کا ارشاد ہے:   ﯗ  ﯘ  ﯙ  ﯚ   ﯛ  ﯜ  ﯝ   ﯞ   البقرة: ١٨٥ ( اللہ تعالی تمھارے ساتھ آسانی چاہتا ہے ،تمھارے ساتھ سختی نہیں چاہتا ہے)۔
نیز ارشاد ہے:  ﮪ  ﮫ   ﮬ   ﮭ  ﮮ   ﮯ  ﮰ ﮊ  الحج: ٧٨   ( اور اس نے تم پر دین کے معاملہ میں کوئی تنگی نہیں ڈالی)۔
جو لوگ اس آسانی اور رفع حرج کو نہیں سمجھتے وہ اپنے آپ کو ایسی سختیوں میں مبتلا کرلیتے ہیں جو شریعت نہیں چاہتی۔ مثلاً پوری پوری رات صلاۃ پڑھنا ،ہر دن لگاتار صوم رکھنا۔ وغیرہ
دین سے ناواقفیت کی دوسری شکل یہ ہے کہ شریعت کے متعین کردہ حدود سے ناواقفیت ہو، چنانچہ ایسا شخص بہ آسانی ان حدود کو پار کرجاتا ہے۔جن لوگوں کو واجب ومستحب اور مکروہ وحرام کی تمیز نہیں ہوتی وہ غیرواجب کو واجب اورجائز کو حرام کرلیتے ہیں۔ مثال کے طور پر بہت سے نادان ٹوپی یا پگڑی کو مستحب یا واجب سمجھتے ہیں، اور ٹوپی نہ ہونے کی وجہ سے صلاۃ تک چھوڑ دیتے ہیں، کیونکہ ننگے سر صلاۃ پڑھنے کو حرام سمجھتے ہیں۔
دین سے ناواقفیت کی تیسری شکل یہ ہے کہ کسی مسئلہ سے متعلق تمام نصوص کو اکٹھا کئے بغیر چند ایک نصوص کے ذریعہ کوئی راۓ قائم کرلینا۔ مثلا صحیح بخاری میں ابو ہریرہ  t سےایک حدیث مروی ہے کہ نبی e نے آپ کو زکاۃ رمضان کی حفاظت پر مامور فرمایا تھا۔ رات میں ایک شخص آیا اور غلہ بھر کے لے جانے لگا،ابوہریرہ  t نے اسے پکڑلیا اور  نبی e تک اس کا معاملہ پہنچانے کی دھمکی دی۔ وہ رونے  گڑگڑانے لگا اور اپنی ضرورت اور محتاجی بیان کرنے لگا۔ ابوہریرہ t  نے اس پر ترس کھاکر اسے چھوڑدیا۔ صبح ہوئی تو نبی e نے پوچھا: «رات تمھارے قیدی نے کیا کیا؟»ابوہریرہ t  نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اس نے اپنی غربت ومحتاجی بیان کی ،میں نے ترس کھاکے چھوڑدیا۔ آپ e نے فرمایا: «وہ جھوٹا ہے پھر پلٹ کے آئے گا»۔ ابوہریرہ t  کہتے ہیں کہ مجھے یقین ہوگیا کہ وہ ضرور پلٹ کے آئے گا، اس لئے میں اس کی تاک میں بیٹھ گیا۔ دوسری رات وہ پھر آکر غلہ بھر نے لگا۔میں نے اسے پکڑلیا اور  نبی e تک اس کا معاملہ پہنچانے کی دھمکی دی۔ وہ رونے  گڑگڑانے لگا اور اپنی اور اپنے بچوں کی پریشانی بیان کرنے لگا۔ پھر میں نے اس پر ترس کھاکر اسے چھوڑدیا۔ صبح ہوئی تو نبی e نے پھر  پوچھا: «ابوہریرہ ! گذشتہ رات تمھارے قیدی نے کیا کیا؟»ابوہریرہ t  نے سارا ماجرا بیان کیا۔ آپ e نے فرمایا: «وہ جھوٹا ہے پھر پلٹ کے آئے گا»۔ چنانچہ تیسری رات وہ پھر پلٹ کے آیا اور اپنی حرکت دہرائی۔ جب پکڑا گیا تو پھر رونا دھونا شروع کیا۔ ابوہریرہ t  نے کہا: یہ تیسری بار ہے ،اب میں تجھے نہیں چھوڑسکتا۔ اس نے کہا: مجھے چھوڑ دیجئے میں آپ کو ایک ایسی بات سکھاؤں گا جس سے اللہ آپ کو نفع دے گا۔ جب آپ سونے کے لئے اپنے بستر پر جائیں تو آیۃ الکرسی پڑھ لیں ،آپ کی حفاظت کے لئے اللہ کی جانب سے ایک نگہبان متعین ہوجائے گا، اور صبح ہونے تک شیطان آپ کے قریب نہ آئے گا۔ صحابہ خیر کے بڑے حریص تھے چنانچہ اسے پھر  چھوڑ دیا۔ صبح ہوئی تو نبی e کے دریافت کرنے پر پورا واقعہ بتایا۔ نبی e نے فرمایا: «وہ بہت بڑا جھوٹا ہے لیکن اس نے تم سے سچ کہا۔ وہ شیطان تھا»۔
یہ صحیح بخاری کی حدیث ہے جسے ہم نے معمولی اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے۔ بعض اہل بدعت یہ حدیث ذکر کرکے نبی e کا عالم الغیب ہونا ثابت کرتے ہیں۔ مسئلۂ عالم الغیب سے متعلق قرآن کریم کی متعدد صاف اور صریح آیات نیز نبی e کی متعدد صاف اور صریح احادیث کو چھوڑ کر صرف ایک حدیث کے ذریعہ جب کہ وہ بھی اس مسئلہ میں واضح نہیں ہے نبی e کے عالم الغیب ہونے کا دعویٰ کردینا دین برحق سے ناواقفیت ،بے بصیرتی یا خواہش پرستی نہیں تو اور کیا ہے؟
ایک طرف قرآن مجید میں اللہ تعالی کا صاف صاف اعلان ہے : ﭧ  ﭨ   ﭩ    ﭪ  ﭫ  ﭬ  ﭭ  ﭮ  ﭯ   ﭰﭱ  ﭲ  ﭳ      ﭴ  ﭵ  ﭶ   النمل: ٦٥ (کہہ دیجئے کہ آسمانوں والوں میں سے اور زمین والوں میں سے سوائے اللہ کے کوئی غیب نہیں جانتا، انھیں تو یہ بھی نہیں معلوم  کہ کب اٹھا کھڑے کئے جائیں گے؟)۔
دوسری طرف صحیح بخاری و صحیح مسلم کی حدیث میں عائشہ r کا واضح فرمان ہے کہ جو شخص یہ گمان رکھتا ہے کہ نبی e آئندہ کل کو پیش آنے والے حالات کا علم رکھتے ہیں اس نے اللہ پر بہت بڑا بہتان باندھا ،اس لئے کہ اللہ تو فرمارہا ہے کہ "آسمان و زمین میں غیب کا علم صرف اللہ کو ہے"۔
تیسری طرف اہل بدعت ہیں جن کا یہ دعویٰ ہے کہ صرف اللہ کے رسول ہی نہیں بلکہ صوفیاء اور اولیاء بھی غیب جانتے ہیں۔ نعوذ باللہ من الضلال۔
دین سے ناواقفیت کی چوتھی شکل یہ ہے کہ دین کے ایک پہلو کو دیکھنا اور دوسرے پہلوؤں کو نظرانداز کردینا ۔ مثال کے طور پر بہت سے دعوت وتبلیغ کا شوق رکھنے والوں نے دعوت وتبلیغ کی اہمیت کے پہلو کو دیکھا اور صحیح علم اور صحیح عقیدہ کی اہمیت کو نظرانداز کردیا۔
ایسے ہی ان گمراہ نوجوانوں کو دیکھئے جنھوں نے جہاد کے نام پر فساد پھیلا رکھا ہے۔ انھوں نے قرآن کی من مانی تفسیر کی اور حدیثوں کی  اپنی خواہش کے مطابق شرح کی۔ انھوں نے قتال کی آیات واحادیث کو دیکھا اور امن وصلح کی آیات واحادیث کو نظرانداز کردیا۔ انھوں نے اسلامی حکومت قائم کرنے کے نام پر بے گناہوں کے خون بہائے ، جان و مال پر ناحق حملے کئے، اور خود اپنے عقیدہ وعمل کی اصلاح نہ کرسکے۔ یہ نوجوان خوارج کے طریقوں پر چل پڑے۔ مسلمان علماء اور حاکموں پر تہمت تراشی کی۔مسلمان مردوں ،عورتوں اور معصوم بچوں تک کے قتل سے دریغ نہ کیا۔ الغرض تمام روئے زمین کو فتنہ وفساد سے بھردیا۔اللہ انھیں ہدایت نصیب فرمائے۔
ایسے ہی صوفیاء اور قبر پرستوں کو لے لیجئے کہ انھوں نے انبیاء اور اولیاء کی تعظیم کے پہلو کو دیکھا لیکن توحید کی حفاظت اور شرک کے راستوں کو بند کرنے کے پہلو کو نظرانداز کردیا۔ چنانچہ رسول اکرم e کی تعظیم کے نام پر آپ کی ذات میں وہ وہ غلو کئے کہ الامان والحفیظ۔ آئیے ان کے غلو کے ایک نمونہ دیکھتے ہیں:
ایک صاحب کہتے ہیں:
خالقِ کل   نے    آپ کو     مالک ِکل  بنادیا
دونوں جہاں ہیں آپ کے قبضہ واختیار میں
شاعری میں دلیل کی کبھی ضرورت نہیں ہوتی۔ شاعر کے منہ میں جو آئے بک جائے ۔ اسی لئے اللہ تعالی فرماتا ہے: ﮋ ﯘ  ﯙ  ﯚ ﯛ  ﯜ  ﯝ  ﯞ  ﯟ  ﯠ  ﯡ    ﯢ  ﯣ الشعراء: ٢٢٤ – ٢٢٥
(شاعروں کی پیروی وہ لوگ کرتے ہیں جو بہکے ہوئے ہوں۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ شاعر ایک ایک بیابان میں سر ٹکراتے پھرتے ہیں)۔
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے اپنے نبی کریم e  کو یوں مخاطب کرکے ارشاد فرمایا: ﮋ ﮧ  ﮨ      ﮩ  ﮪ   ﮫ آل عمران:١٢٨ (اے پیغمبر ! آپ کے اختیار میں کچھ نہیں)
اور شاعر کہتا ہے :              
خالقِ کل   نے   آپ  کو     مالکِ کل    بنادیا
دونوں جہاں ہیں آپ کے قبضہ واختیار میں
العیاذ باللہ ثم العیاذ باللہ۔
یہاں ایک مسئلہ وضاحت کے ساتھ سمجھ لینا ضروری ہے کہ اللہ تعالی اور رسول e  کے حقوق کو الگ الگ نہ جاننا گمراہی کا بہت بڑا سبب ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اللہ اور رسول کے مشترکہ حقوق بھی بیان کئے ہیں اور اللہ نے اپنا خاص حق بھی بیان کیا ہے جس میں رسول e شریک نہیں ہیں۔ عبادت وہ سب سے بڑا حق  ہےجس میں اللہ کا کوئی شریک نہیں ہے۔ ارشاد ہے: ﮋ ﭑ  ﭒ     ﭓ  ﭔ   ﭕ  ﭖ  ﭗ  ﭘ   ﭙ  ﭚ الزمر: ١١ (آپ کہہ دیجئے ! کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ اللہ تعالی کی اس طرح عبادت کروں کہ اسی کے لئے عبادت کو خالص کرلوں)۔
نیز  اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ﮋ ﯹ   ﯺ  ﯻ  ﯼ     ﯽ  ﯾ  ﯿ  ﰀ  ﰁ  ﰂ     ﰃ   النور: ٥٢ (جو بھی اللہ تعالی کی ، اس کے رسول کی فرماں برداری کریں ، خوف الہی رکھیں اور اس کے عذابوں سے ڈرتے رہیں، وہی نجات پانے والے ہیں)۔
اللہ تعالی نے آیت مذکورہ میں واضح کیا کہ اطاعت اللہ اور رسول کا مشترکہ حق ہے لیکن خشیت اور تقوی اللہ کا خاص حق ہے جس میں رسول e شریک نہیں ہیں۔
نیز ارشاد ہے:  ﮋ ﯡ  ﯢ  ﯣ  ﯤ  ﯥ  ﯦ  ﯧ  ﯨ    الشرح: ٧ – ٨ (پس جب تو فارغ ہو تو عبادت میں محنت کر اور اپنے پروردگار ہی کی طرف دل لگا)۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ رغبت ،لالچ اور دل لگانا عبادت ہے جو صرف اللہ کا حق ہے۔
نیز ارشاد ہے: ﮋ ﭶ  ﭷ  ﭸ   ﭹ  ﭺ  ﭻ  ﭼ  ﭽ  ﭾ   الأنفال: ٦٤ (اے نبی! تجھے اللہ کافی ہے اور ان مومنوں کو جو تیری پیروی کررہے ہیں)۔
اس آیت میں اللہ نے بتایا کہ کافی ہونا صرف اللہ کا حق ہے۔ نیز ارشاد ہے: ﮋ ﯽ  ﯾ  ﯿ  ﰀ  ﰁ          ﰂ  ﰃ  المائدہ/۲۳  (اور تم اگر مومن ہو تو تمھیں اللہ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے۔)
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ توکل صرف اللہ کا حق ہے لہذا  اگر کوئی یہ کہے کہ مجھے اللہ و رسول پر توکل اور بھروسہ ہے تو اس نے شرک کا ارتکاب کیا ۔
نیز ارشاد ہے: ﮋ ﮏ  ﮐ  ﮑ  ﮒ  ﮓ  ﮔ       ﮕ  ﮖ  ﮗ  ﮘﮙ  ﮚ  ﮛ  ﮜ  ﮝ   القصص: ٥٦ (آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں کرسکتے بلکہ اللہ تعالی ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے ۔ ہدایت والوں سے وہی خوب آگاہ ہے)۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ دلوں میں ہدایت ڈالنا صرف اللہ کا کام ہے ،رسول اللہ e  کا کام نہیں ہے۔
نیز ارشاد ہے: ﮋ ﭢ  ﭣ  ﭤ  ﭥ  ﭦ   الفاتحہ: ٥ (ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور صرف تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں)۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ مدد صرف اللہ سے مانگنی چاہئے جس نے غیر اللہ کو مدد کے لئے پکارا اس نے شرک کیا، جس نے یا رسول اللہ مدد پکارا اس نے شرک کیا۔ جس نے یا علی مدد، یا غوث مدد پکارا اس نے شرک کیا۔
غلو کا دوسرا سبب: خواہشات نفس کی پیروی
جو لوگ خواہشات کے پیچھے چلتے ہیں وہ عموما اپنی عقل کو شریعت سے آگے رکھتے ہیں۔ وہ عقلی مثالوں اور دماغی محنتوں سے باتیں بناتے ہیں۔ وہ اپنی عقل کو شریعت کے موافق کرنے کے بجائے شریعت کو اپنی عقل کے موافق بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر شریعت ان کی عقل کے موافق رہی تو مان لیتے ہیں ورنہ کسی تاویل یا تحریف کے ذریعہ اسے رد کردیتے ہیں۔ ایسے لوگوں نے جب شریعت کو اس کا حقیقی مقام نہیں دیا اور عقل کو اس کے مقام و مرتبہ سے بلند کردیا تو ہلاکت ان کا مقدر ہوگئی۔
بعض لوگ پست خیال کے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو کتا یا اس سے بھی حقیر بنانا چاہتے ہیں۔ چنانچہ ایک صاحب کہتے ہیں:" اے کاش! میں مدینہ شریف کے کسی کتے شریف کے دم شریف کا بال شریف ہوتا"۔
ظاہر بات ہے کہ مذکورہ قول قائل کی خواہش پرستی کا نتیجہ ہے۔ کتا کو اسلام نے نجس قرار دیا ہے اور اس کی نجاست سارے مسلمانوں کو معلوم ہے۔ کبھی کوئی ہوشمند مسلمان کتا ہونے کی تمنا نہیں کرسکتا۔ اسی لئے صحابہ وتابعین اور ائمۂ دین تو بڑی بات ہے تاریخ اسلام کے کسی معتبر عالم دین نے کبھی کتا ہونے کی تمنا نہیں کی۔ چودہویں صدی کے بعض جاہلوں نے ایسی احمقانہ بات کہی ہے۔ اللہ خواہش پرستی سے ہم سب کی حفاظت فرمائے۔
جو لوگ نبی e کو عرب بغیر عین اور احمد بلا میم کہتے ہیں وہ بھی ان کی خواہش پرستی کا نتیجہ ہے۔
غلو کا تیسرا سبب: غیر معتبر ،کمزور اور جھوٹی احادیث پر اعتماد
حقیقت یہ ہے کہ جھوٹی احادیث یوں ہی نہیں پیدا ہوگئیں بلکہ اس کے پیچھے منجملہ دیگر اسباب کے ایک اہم سبب دشمنان اسلام کی چال اور سازش بھی تھی۔اہل باطل نے اہل اسلام کو صحیح عقیدہ سے منحرف کرنے کے لئے نیز اپنے برخود غلط افکار وعقائد  کو دین اسلام کا حصہ بنانے  اور اسےعوام میں رواج دینے کے لئے حدیثیں گھڑیں۔ ایسے ہی بعض نادانوں نے دینداری پیدا کرنے کے لئے جھوٹی احادیث کا سہارا لیا۔
سارے مسلمان یہ بات جانتے ہیں کہ جن وانس کو اللہ تعالی نے اپنی عبادت وبندگی کے لئے پیدا فرمایا کیونکہ قرآن مجید میں اللہ تعالی کا صاف صاف ارشاد ہے: ﮋ ﭳ   ﭴ  ﭵ  ﭶ  ﭷ  ﭸ   ﭹ   الذاريات: ٥٦ ( میں نے جنات اور انسانوں کو محض اسی لئے پیدا کیا ہے  کہ وہ صرف میری عبادت کریں)۔
نیز زمین وآسمان کی تخلیق کا سبب بھی قرآن کریم میں اللہ نے بیان فرمادیا ہے۔ ارشاد ہے: ﮋ ﰃ  ﰄ    ﰅ   ﰆ  ﰇ  ﰈ  ﰉ  ﰊ  ﰋ  ﰌ  ﰍ  ﰎ  ﰏ   ﰐ  ﰑ  ﰒ         ﰓ  ﰔ  ﰕ  ﰖ  ﰗ  ﰘ  ﰙ     ﰚ  ﰛ  ﰜ    الطلاق: ١٢ (اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان بنائے اور اسی کے مثل زمینیں بھی ۔ اس کا حکم ان کے درمیان اترتا ہے تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے اور اللہ تعالی نے ہر چیز کو باعتبار علم گھیر رکھا ہے)۔
یہ رہیں قرآنی آیات جن سے معلوم ہوتا ہے کہ جن وانس اور آسمان وزمین کی پیدائش کا مقصد اللہ کے علم وقدرت کا اظہار ہے نیز تاکہ صرف اسی ایک کی عبادت کی جائے۔ اب دیکھئے اس کے برخلاف ایک شخص نے جھوٹی حدیث گھڑی اور دین میں غلو کرنے کا سامان کیا۔ حدیث یوں بیان کی جاتی ہے: لولاک لما خلقت الافلاک  (اے اللہ کے نبی اگر آپ نہ ہوتے تو میں آسمانوں کو پیدا نہ کرتا) قرآنی آیت کے مقابلہ میں یہ جھوٹی حدیث پیش کرکے بعض لوگ نبی e کی ذات میں غلو کرتے ہوئے آپ کو صاحب لولاک کا خطاب دیتے ہیں۔علامہ اقبال نے اپنے ایک شعر میں کہا ہے:
نبض ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے
خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے
دیکھئے کس طرح ایک جھوٹی حدیث کی بنا پر لوگ تخلیق افلاک کے صحیح سبب سے منحرف ہوگئے۔
آئیے جھوٹی اور باطل حدیث کے ذریعہ گمراہ ہونے کا ایک اور نمونہ دیکھتے ہیں۔
            ایک جھوٹی ،بے بنیاد اور بے اصل حدیث ہے: کنت نبیا وآدم بین الماء والطین (میں اس وقت نبی تھا جب آدم پانی اور مٹی کے درمیان تھے) اس جھوٹی حدیث کو دلیل بنا کر گمراہ صوفی ابن عربی نے حقیقت محمدیہ کی اصطلاح بنائی، اور کہا کہ محمد e کی پیدائش اگرچہ بعد میں ہوئی لیکن حقیقت محمدیہ کا وجود سب سے پہلے تھا۔
ظاہر ہے کہ جب یہ حدیث ہی سرے سے باطل ہے تو اس کی بنیاد پر بنائی ہوئی عمارت خود بخود زمیں بوس ہوجاتی ہے،اور حقیقت محمدیہ کا پورا نظریہ باطل قرار پاتا ہے۔ صحیح حدیث اس طرح ہے: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ  t قَالَ: قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَتَى وَجَبَتْ لَكَ النُّبُوَّةُ؟ قَالَ: «وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسَدِ». قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌََ۔ (ابوہریرہ t  سے روایت ہے کہ صحابہ نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول e ! آپ کی نبوت کب ثابت ہوئی؟ آپ e نے فرمایا: «جب آدم جسم وروح کے درمیان تھے»۔  اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور صحیح قرار دیا ہے۔
یہی حدیث مسند احمد اور مستدرک حاکم میں میسرہ الفجر نامی صحابی سے آئی ہے اور اس میں سوال کا لفظ اس طرح ہے: متی کنت نبیا؟  (آپ کب نبی تھے؟) اور دوسرا لفظ ہے:  متی کتبت نبیا؟ (آپ کو کب نبی لکھا گیا؟)
            اس حدیث سے یہ سمجھ لینا کہ آپ e کی ذات ولادت آدم  سے پہلے ہی موجود تھی یا آپ اسی وقت نبی بنادیئے گئے نری جہالت ہے۔ کیونکہ آپ e کو چالیس برس کی عمر میں نبی بنایا گیا۔ البتہ نوشتۂ تقدیر میں آپ کی نبوت لکھی ہوئی تھی۔ چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ﮋ ﮰ  ﮱ  ﯓ  ﯔ  ﯕ      ﯖ  ﯗ  ﯘ  ﯙ  ﯚ  ﯛ  ﯜ  ﯝ  ﯞ   ﯟ  ﯠ  ﯡ   يوسف: ٣ (ہم آپ کے سامنے بہترین بیان پیش کرتے ہیں ، اس وجہ سے کہ ہم نے آپ کی جانب یہ قرآن وحی کے ذریعہ نازل کیا ہے اور یقینا آپ اس سے پہلے بے خبروں میں سے تھے)۔
نیز ارشاد ہے: ﮋ ﭑ  ﭒ  ﭓ   ﭔ  ﭕ  ﭖﭗ  ﭘ  ﭙ          ﭚ  ﭛ  ﭜ   ﭝ  ﭞ  ﭟ  ﭠ  ﭡ  ﭢ  ﭣ      ﭤ  ﭥ  ﭦ  ﭧﭨ   ﭩ  ﭪ  ﭫ     ﭬ  ﭭ      الشورى: ٥٢ (اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف اپنے حکم سے روح کو اتارا ہے، آپ اس سے پہلے یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ کتاب اور ایمان کیا چیز ہے؟ لیکن ہم نے اسے نور بنایا، اس کے ذریعہ سے اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں ، بے شک آپ راہ راست کی رہنمائی کررہے ہیں)۔
آپ دیکھ رہے ہیں کہ قرآن کریم میں بڑی وضاحت کے ساتھ یہ بات دہرائی گئی ہے کہ قرآن نازل ہونے سے پہلے آپ e کو کچھ معلوم نہیں تھا۔ اور یہ بات ہر خاص وعام مسلمان کو معلوم ہے کہ آپ پر چالیس برس کی عمر میں قرآن نازل ہوا۔ اور چالیس برس کی عمر میں آپ کو نبی بنایا گیا۔
                        منک و الیک یا محمد کی جھوٹی کہانی بھی کسی دشمن اسلام نے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لئے گڑھی ہے۔
وہ کہانی یہ ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک بار جبریل علیہ السلام چند آیات لے کر نازل ہوئے۔ ابھی محمد e  کو ان آیات کی وحی نہیں کی تھی لیکن اس سے پہلے ہی آپ کو ان آیات کی تلاوت کرتے ہوئے سنا۔ پوچھا ابھی تو میں نے وحی نہیں کی ہے آپ ابھی سے ان آیات کی تلاوت کیسے کررہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: جبریل! جب تمھیں وحی کی جاتی ہے تو کبھی پردہ اٹھا کے دیکھا کہ وحی کرنے والا کون ہے؟ جبریل گئے پردہ اٹھا کے دیکھا تو محمد e نظر آئے۔ تعجب سے چیخ پڑے منک والیک یا محمد۔ یہ کہانی بھی گمراہ صوفی ابن عربی نے گڑھی ہے اور کبریت احمر نامی کتاب میں لکھا ہے۔
اگر آپ نبی e کی سیرت پڑھیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ آپ e   کی زندگی میں کتنی بار ایسا ہوا ہے کہ آپ وحی کے انتظار میں رہےاورجب تک وحی نہیں آئی آپ نے اپنے طور پر کوئی بات نہیں کہی۔نیز  آپ غور کریں ۔ اس کہانی کا مفاد یہ ہے کہ قرآن اللہ کی طرف سے نہیں بلکہ خود محمد e  کی طرف سے تھا۔ یہی وہ بات ہے جو کفار مکہ کہا کرتے تھے۔ اور نبی e  فرماتے تھے کہ قرآن پورا بنانا تو دور کی بات ہے میں اس میں معمولی ردوبدل بھی نہیں کرسکتا۔ چنانچہ ارشاد ہے: ﮋ ﭑ  ﭒ  ﭓ  ﭔ  ﭕﭖ  ﭗ  ﭘ  ﭙ  ﭚ     ﭛ  ﭜ  ﭝ  ﭞ   ﭟ  ﭠ  ﭡﭢ  ﭣ  ﭤ  ﭥ  ﭦ      ﭧ  ﭨ  ﭩ  ﭪ  ﭫﭬ  ﭭ  ﭮ  ﭯ  ﭰ  ﭱ  ﭲﭳ  ﭴ         ﭵ  ﭶ   ﭷ  ﭸ  ﭹ  ﭺ     ﭻ  ﭼ  ﭽ  ﭾ   ﭿ   ﮀ  ﮁ  ﮂ  ﮃ  ﮄ  ﮅ  ﮆﮇ  ﮈ  ﮉ     ﮊ  ﮋ  ﮌ  ﮍﮎ  ﮏ  ﮐ  ﮑ  ﮒ  ﮓ     ﮔ  ﮕ  ﮖ  ﮗ  ﮘ  ﮙ  ﮚ      ﮛﮜ  ﮝ         ﮞ  ﮟ  ﮠ  ﮡ   يونس: ١٥ – ١٧ (اور جب ان کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں جو بالکل صاف صاف ہیں تو یہ لوگ جن کو ہمارے پاس آنے کی امید نہیں ہے یوں کہتے ہیں کہ اس کے سوا کوئی دوسرا قرآن لائیے یا اس میں کچھ ترمیم کردیجئے ۔ آپ یوں کہہ دیجئے کہ مجھے یہ حق نہیں کہ میں اپنی طرف سے اس میں ترمیم کردوں بس میں تو اسی کا اتباع کروں گا جو میرے پاس وحی کے ذریعہ سے پہنچا ہے، اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو میں ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ رکھتا ہوں۔ آپ یوں کہہ دیجئے کہ اللہ کو منظور ہوتا تو نہ تو میں تم کو وہ پڑھ کر سناتا اور نہ اللہ تعالی تم کو اس کی اطلاع دیتا، کیونکہ میں اس سے پہلے تو ایک بڑے حصہ عمر تک تم میں رہ چکا ہوں ۔ پھر کیا تم عقل نہیں رکھتے۔ سو اس شخص سے زیادہ کون ظالم ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا اس کی آیتوں کو جھوٹا بتلائے ، یقینا ایسے مجرموں کو اصلا فلاح نہ ہوگی)۔


غلو سے بچنے کے وسائل
آخر میں غلو سے بچنے کے چند وسائل کا ذکر مناسب ہے تاکہ ہم ان وسائل کو اختیار کرکے غلو سے اپنے آپ کو اور دوسروں کو بچاسکیں۔
۱۔ اللہ سے دعا:
ہمیں ہمیشہ اللہ سے دعا کرتے رہنا چاہئے :
ﮋ ﭧ   ﭨ  ﭩ  ﭪ  ﭫ  ﭬ  ﭭ   ﭮ  ﭯ  ﭰ  ﭱ   ﭲ  ﭳ  ﭴ    الفاتحة: ٦ – ٧
(ہمیں سیدھی (اور سچی) راہ دکھا۔ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام کیا ان کی نہیں جن پر غضب کیا گیا اور نہ گمراہوں کی)۔
صراط  مستقیم اہل غلو اور اہل تقصیر کے درمیان کا راستہ ہے۔ اس راستہ کی ہدایت نبی e  بھی اللہ سے مانگا کرتے تھے جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت ہے۔
عن أَبي سَلَمَةَ بْن عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ, بِأَيِّ شَيْءٍ كَانَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْتَتِحُ صَلَاتَهُ إِذَا قَامَ مِنْ اللَّيْلِ؟ قَالَتْ: كَانَ إِذَا قَامَ مِنْ اللَّيْلِ افْتَتَحَ صَلَاتَهُ: «اللَّهُمَّ رَبَّ جَبْرَائِيلَ وَمِيكَائِيلَ وَإِسْرَافِيلَ, فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ, عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ, أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ, اهْدِنِي لِمَا اخْتُلِفَ فِيهِ مِنْ الْحَقِّ بِإِذْنِكَ, إِنَّكَ تَهْدِي مَنْ تَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ.» (صحيح مسلم)
عبدالرحمن بن عوف t  کے بیٹے ابو سلمہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھاکہ اللہ کے نبی e  اپنی رات کی صلاہ کس چیز سے شروع کیا کرتے تھے تو آپ نے فرمایا: جب آپ رات کو اٹھتے تو اس دعا سے اپنی صلاہ شروع کرتے۔ «اے جبرائیل ومیکائیل اور اسرافیل کے رب ، آسمان وزمین کے پیدا کرنے والے، غائب وحاضر کے جاننے والے! اپنے بندوں کے اختلافی معاملات میں تو فیصلے کرتا ہے ۔ تو اختلافی معاملہ میں اپنے حکم سے حق کی طرف میری رہنمائی کر۔ یقینا تو جسے چاہتا ہے اسے صراط مستقیم کی رہنمائی فرماتا ہے۔
۲۔ اہل علم سے سوال:
اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ﮋ ﭚ  ﭛ   ﭜ   ﭝ  ﭞ    ﭟ  ﭠ  ﭡ   النحل: ٤٣ (پس اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے دریافت کرلو)۔
نیز نبی e  کا ارشاد ہے: «ألا سألوا إذا لم يعلموا, فإنما شفاء العي السؤال».  (رواه أبو داود وصححه الألباني) «جب انھیں نہیں معلوم تھا تو پوچھا کیوں نہیں ، جہالت کا علاج سوال کرنے میں ہے»۔
۳۔پابندیٔ شریعت:
 ہمیشہ شریعت کے دائرہ میں رہنا اور کبھی اس کے متعین کردہ حدود سے باہر نہ نکلنابھی غلو سے بچنے کا ایک اہم وسیلہ ہے۔  اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ﮋ ﯭ  ﯮ  ﯯ  ﯰ  ﯱﯲ  ﯳ  ﯴ   ﯵ  ﯶ  ﯷ   ﯸ  ﯹ  البقرة:٢٢٩ (یہ اللہ کی حدود ہیں خبردار ان سے آگے نہ بڑھنا اور جو لوگ اللہ کی حدوں سے تجاوز کرجائیں وہ ظالم ہیں)۔
۴۔ استقامت اختیار کرنا:
 اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ﮋ ﮉ  ﮊ  ﮋ  ﮌ  ﮍ  ﮎ  ﮏ  ﮐﮑ   ﮒ       ﮓ  ﮔ  ﮕ  ﮖ   هود: ١١٢ (پس آپ جمے رہئے جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے اور وہ لوگ بھی جو آپ کے ساتھ توبہ کرچکے ہیں، خبردار تم حد سے نہ بڑھنا، اللہ تمھارے اعمال کا دیکھنے والا ہے)۔
۵۔ غلو کی ممانعت کو یاد رکھنا:
غلو کی ممانعت کو یاد رکھنا اور اس کے خطرات ونقصانات کی معلومات رکھتے ہوئے ان سے آگاہ رہنا۔
 ان باتوں کی تفصیل نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کی جاچکی  ہے۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق