الاثنين، 22 أبريل 2013

بدعت کی پہچان اور اس کی تباہ کاریاں





البدع وآثارها السيئة



بدعت کی پہچان
اور
اس کی تباہ کاریاں
اضافہ شدہ  ایڈیشن  2010


اعداد
عبد الہادی عبد الخالق مدنی
کاشانۂ خلیق ۔اٹوابازار۔ سدھارتھ نگر۔ یوپی۔ انڈیا
داعی احساء اسلامک سینٹر ۔ سعودی عرب
(موبائیل:  0509067342 (00966
فہرست مضامین
المحتويات
صفحہ
موضوعات
مقدمــة
5
مقدمہ
الباب الأول: التعريف بالبدعة
7
باب اول : بدعت کی پہچان
تعريف البدعة
7
بدعت کیا ہے؟
خلاصة البدع المذمومة
10
بدعات مذمومہ کا خلاصہ
ذم البدعة في القرآن الكريم
11
بدعت کی مذمت قرآن مجید میں
ذم البدعة في الحديث النبوي
15
بدعت کی مذمت حدیث پاک میں
موقف الصحابة y من البدع
18
بدعتوں سے صحابۂ کرام کی نفرت
أسباب انتشار البدع
20
بدعتوں کے رواج پانے کے اسباب
الباب الثاني:كشف بعض الشبهات
21
باب دوم : چند شبہات کا ازالہ
تقسيم البدعة إلى الحسنة والسيئة
21
بدعت حسنہ وسیئہ کی تقسیم
الشبهة الأولى وإزالتها
21
پہلا شبہ اور اس کا ازالہ
الشبهة الثانية وإزالتها
23
دوسرا شبہ اور اس کا ازالہ
الشبهة الثالثة وإزالتها
28
تیسرا شبہ اور اس کا ازالہ
الشبهة الرابعة وإزالتها
29
چوتھا شبہ اور اس کا ازالہ
الشبهة الخامسة وإزالتها
32
پانچواں شبہ اور اس کا ازالہ
الباب الثالث: الآثار السيئة للبدع
34
باب سوم: بدعت کی تباہ کاریاں
جدول توضيحي لمضار البدع
34
بدعت کی تباہ کاریوں کا مختصر خاکہ
تمهيد
35
تمہید
آثار البدعة السيئة على المبتدع
37
بدعتی پر بدعت کے برے اثرات
1-   عدم قبول العمل
37
1۔عمل کی عدم قبولیت
2-   الخذلان
38
2۔بے توفیقی
3-   البعد عن الله
39
3۔اللہ سے دوری
4-   الذل في الدنيا والآخرة
39
4۔دنیا وآخرت کی ذلت
5-   تبرؤ الرسول e
40
5۔رسول اللہ eکی بے زاری
6-   الأوزار الثقيلة
41
6۔ناقابل برداشت بوجھ
7-   عدم التوفيق للتوبة
42
7۔توبہ کی توفیق نہ ملنا
n صفة التوبة من البدعة
42
٭بدعت سے توبہ کا طریقہ
8-   الخوف من سوء الخاتمة
43
8۔سوء خاتمہ کا اندیشہ
9-   الطرد عن حوض الرسول e
44
9۔رسول اللہeکے حوض سے دھتکار
آثار البدعة السيئة على الدين
45
دین پر بدعت کے برے اثرات
1-    إماتة السنن
45
1۔سنتوں کا مردہ ہونا
2-    ترك الكتاب والسنة
46
2۔ترک کتاب وسنت
آثار البدعة السيئة على المجتمع
48
سماج پر بدعت کے برے اثرات
1.    الاختلاف والتفرق
48
1۔اختلاف اور فرقہ بندی
2.    الفتن والمحن
49
2۔آفات ومصائب
الخاتمة:
كيف نكافح البدع؟
51
خاتمہ:
بدعتوں کا مقابلہ کس طرح کیا جاسکتا ہے؟



مقدمہ
دین اسلام فطرت انسانی سے ہم آہنگ ، کارزار حیات کے جملہ پہلوؤں کوشامل،مراحل زندگی کی تمام ضروریات کے لئے کامل اور خالق عالم کا پسندیدہ اور مقبول ومحبوب دین ہے۔صرف یہی رب کی بارگاہ میں شرف قبولیت سے باریاب اور نجات وفلاح کا واحد راستہ ہے ۔ اللہ کے تمام انبیاء ورسل کا یہی دین تھا ۔ جن کے سلسلہ کی آخری کڑی محمد رسول اللہ e تھے ۔ مگر جس طرح انبیاء سابقین کی امتوں میں بگاڑآیا ، ان کی شریعتوں میں حذف واضافے ہوئے ،بدعتیں ایجاد ہوئیں،اسی طرح اس امت میں بھی رسول اللہ e کی پیش گوئی کے مطابق ہونا تھا ۔چنانچہ ہوا بھی، لیکن چونکہ یہ شریعت قیامت تک کے لئے آخری شریعت ہے، اور خود اللہ تعالی اس کی حفاظت کا ذمہ دار ہے ،اس لئے یہ شریعت مٹ نہیں سکتی اور نہ ہی حق وباطل گڈمڈ ہوسکتے ہیں ۔ ہاں! بدعتیں پیدا ہوتی رہیں گی اور اہل علم اس کی وضاحت اور تردید کرتے رہیں گے ،نیز شریعت کے روئے تاباں پر پڑنے والے ہرگردوغبار کو صاف کرتے رہیں گے۔
بدعت جب پیدا ہوتی ہے ،پروان پاتی اور پھلتی پھولتی ہے تو اس کی تباہ کاریوں کی زد سے فرد محفوظ رہتا ہے ، نہ دین اور سماج۔ ہر جانب اس کے جراثیم اپنی ہلاکت آفرینیوں کے ساتھ پھیل جاتے ہیں اور اگر اس کا علاج نہ کیا جائے تو تباہ کرکے دم لیتے ہیں ۔اسی ضرورت کے پیش نظر، صراط مستقیم کی شناخت اور باطل کی پُرخطر پگڈنڈیوں سے بچاؤ کی خاطر زیر نظر کتابچہ ترتیب دیا گیا ہے ۔اس کا موضوع اور مضمون اس کے نام ''بدعت کی پہچان اور اس کی تباہ کاریاں''سے ظاہر ہے۔
بدعت کے تعلق سے یہ ایک اصولی ، اساسی اور منہجی تحریر ہے جو مختصر ہونے کے باوجوداردوداں طبقہ کے لئے ایک بیش قیمت اور گراں قدر تحفہ ہے ۔ ان شاء اللہ یہ کتابچہ سنت وبدعت کی تمیز کے لئے ایک میزان اور معیار ہوگا۔
اس کا پہلا ایڈیشن ١٩٩٩ء میں دار الاستقامۃ ممبئی سے شائع ہوا اور الحمد للہ اس کی افادیت محسوس کی گئی۔ دوسرا ایڈیشن -- جس کو ازسر نوترتیب دیا گیا ,قابل قدر تبدیلیاں اور اضافے کئے گئے-- اسے مملکت سعودی عرب کے مشہور اسلامی دعوتی مرکزأحساء اسلامک سینٹرنے 2001ء میں شائع کیا ۔وفقه اللہ تعالی لکل ما یحبه ویرضاہ۔ کافی مفید اضافوں کے ساتھ یہ تیسرا ایڈیشن ہے جو 2010 ء میں شائع کیا جارہا ہے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اسے ہر خاص وعام کیلئے نافع بنائے ۔اس کے مرتب اور اس کی نشرواشاعت میں معاون ہر فرد کو جزائے خیر سے نوازے۔ آمین۔
عبد الہادی عبد الخالق مدنی
کاشانۂ خلیق۔ اٹوا بازار۔سدھارتھ نگر۔یوپی
٢٠10 ء


باب اول: بدعت کی پہچان
بدعت کیا ہے؟
بدعت لغوی اعتبار سے   ہر اس نئی چیزکو کہتے ہیں جو کسی مثال سابق کے بغیر ایجاد کی گئی ہو، خواہ وہ محمود ہو یا مذموم۔
بدعت شرعی اعتبار سے دین میں ایجاد کردہ اس طریقہ کو کہتے ہیں جو شرعی طریقہ جیسا ہو اور اس پر چل کر وہی مقصود ہوجو شرعی طریقہ پر چلنے سے مقصود ہوتا ہے۔  اس کی وضاحت یوں ہے کہ :
                ١۔ بدعت ''دین ''میں ایجاد کردہ طریقہ کا نام ہے، دنیاوی ایجادات اس سے خارج ہیں۔ بنا بریں نئی بستیاں بسانا، نئے شہر آباد کرنا، نئے آلات اور نئی مشینوں کی ایجاد وغیرہ بدعت میں داخل نہیں ہیں۔
                ٢۔ ایجاد کردہ کا مفہوم یہ ہے کہ شریعت میں اس کی کوئی اصل نہ ہو۔ اگر شریعت میں اس کی کوئی اصل موجود ہے تو وہ بدعت نہ ہوگی اگرچہ وہ چیزپہلے زمانے میں موجود نہ تھی، جیسے شرعی علوم کی تصنیف وغیرہ،
                ٣۔ شرعی طریقہ جیسا  ہونے کا مطلب یہ ہے کہ بظاہر شرعی طریقہ جیسا معلوم ہو مگر حد بندیوں، متعین ہیئت وکیفیت اور اوقات وایام کے التزام وغیرہ جیسے متعدد وجوہ سے شریعت سے ٹکرائے ۔
 معلوم ہو کہ کوئی بھی عمل جب تک چھ باتوں میں سے ہر ایک میں شریعت کے موافق نہ ہو سنت کا عمل نہیں ہوسکتا بلکہ اسے بدعت قرار دیا جائے گا۔
                 سبب: ہر عمل کو اپنے سبب میں شریعت کے موافق ہونا چاہئے۔ مثال کے طور پر رجب کی ستائیسویں تاریخ کی رات میں اس سبب سے تہجد پڑھنا کہ اس رات معراج ہوئی تھی بدعت ہے۔ کیونکہ رات میں تہجد پڑھنا اگرچہ سنت ہے لیکن معراج کی وجہ سے تہجد پڑھنا چونکہ ثابت نہیں اس لئے یہ عمل بدعت ہے۔ یہ عمل اپنے سبب کے اعتبار سے شریعت کے موافق نہیں ہے۔
                ƒ جنس:  ہر عمل کو اپنے جنس میں شریعت کے موافق ہونا چاہئے۔مثال کے طور پراگر کوئی شخص ہرن کی قربانی کرے تو بدعت ہوگی کیونکہ قربانی  صرف بہیمۃ الانعام کے جنس میں ثابت ہے۔
                 مقدار: ہر عمل کو اپنے مقدار  میں شریعت کے موافق ہونا چاہئے۔ مثال کے طور پراگر کوئی شخص چھٹے وقت کی صلاۃ کا اضافہ  کرے تو بدعت ہوگی کیونکہ شریعت میں صرف پانچ وقت کی صلاۃ  ثابت ہے۔
                 کیفیت: ہر عمل کو اپنی کیفیت  میں شریعت کے موافق ہونا چاہئے۔ مثال کے طور پراگر کوئی شخص وضو کا طریقہ یہ بتائے کہ پہلے پیر دھونا ہے  پھر سر کا مسح کرنا ہے پھر آخر میں ہاتھ دھونا ہے تو یہ طریقہ بدعت قرار پائے گا کیونکہ شریعت سے وضو کی یہ کیفیت ثابت نہیں ہے۔
                 وقت:  ہر عمل کو اپنے وقت میں شریعت کے موافق ہونا چاہئے۔مثال کے طور پراگر کوئی شخص ذوالحجہ کے  پہلے دن قربانی کرے تو بدعت ہوگی کیونکہ قربانی کے ایام شریعت میں صرف  دس ذوالحجہ سے تیرہ ذوالحجہ تک ہیں ۔
                 جگہ: ہر عمل کو اپنی جگہ  میں شریعت کے موافق ہونا چاہئے۔مثال کے طور پراگر کوئی شخص مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ کو اعتکاف کے لئے مقرر کرے تو ایسا اعتکاف بدعت ہوگا کیونکہ شریعت میں صرف مسجد میں ہی اعتکاف کرنا ثابت ہے۔
                ٤۔  اس پر چل کر وہی مقصود ہوجو شرعی طریقہ پر چلنے سے مقصود ہوتا ہے یعنی اس پر چل کر عبادت میں مبالغہ مقصود ہو، اگر یہ مقصود نہ ہو تو وہ چیز عادات میں داخل ہوگی اور بدعت میں اس کا شمار نہیں ہوگا۔


بدعات مذمومہ کا خلاصہ
١۔ ہر وہ قول وفعل واعتقاد جو سنت کے معارض ومخالف ہو۔
٢۔ ہر وہ کام جو الله  کا تقرب حاصل کرنے کے لئے کیا جائے حالانکہ شریعت نے اس سے منع کیا ہو۔
٣۔ ہر وہ عقیدہ جس کی شرعی دلیل موجود نہ ہو۔
٤۔ ہر وہ عبادت جس کی کیفیت صرف کسی ضعیف یا موضوع روایت میں پائی جاتی ہو۔
٥۔ ہر وہ عبادت جسے شریعت نے مطلق رکھا ہو مگر لوگوں نے اس پر قیود مثلاً زمان ومکان یا ہیئت وعدد کا اضافہ کردیا ہو۔
٦۔ ہر وہ کام جو شرعی دلیل ہی سے ثابت ہوسکتا ہو مگر اس کی شرعی دلیل موجود نہ ہو، البتہ عمل صحابہ اس سے مستثنیٰ ہے۔
٧۔ بعض علماء خصوصا متأخرین نے جن اعمال کو بلا دلیل مستحب قرار دیا ہے۔
٨۔ عبادت میں غلو               (ملاحظہ ہو أحکام الجنائز للألبانی ص١٤٢)


بدعت کی مذمت قرآن مجید میں
¡۔ قرآن مجید میں الله تعالی فرماتا ہے :
 ﮋ ﭼ  ﭽ  ﭾ  ﭿ   ﮀ  ﮁ  ﮂ  ﮃ  ﮄ  ﮅ ﮊ المائدة: ٣  
[آج میں نے تمھارے لئے تمھارے دین کو کامل کردیا، اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا،اور تمھارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا]
                یہ آیت بتلاتی ہے کہ شریعت مکمل ہوچکی ہے۔ اس میں کسی کمی بیشی کی گنجائش ہے اور نہ ضرورت۔ مگر بدعتی اپنے قول وعمل سے گویایہ ظاہر کرتا ہے کہ شریعت ناقص ہے، اور اس میں کچھ حذف واضافہ کی ضرورت ہے، اور یقینا ایسا عقیدہ رکھنے والا صراط مستقیم سے منحرف ہے۔
                امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جس نے اسلام میں کوئی بدعت ایجاد کی اور یہ سمجھا کہ وہ بدعت حسنہ ہے، تو گویا اس کا زعم یہ ہے کہ محمد e  نے شریعت پہنچانے میں خیانت کی ہے،کیونکہ الله تعالی  ﮋ ﭼ  ﭽ  ﭾ فرماچکا ہے، لہذا جو چیز آپ کے زمانے میں دین نہ تھی، وہ آج دین نہیں ہوسکتی۔(اعتصام 1/49)
¢۔ فرمان باری ہے:
ﮋ ﭺ  ﭻ  ﭼ  ﭽ  ﭾﭿ  ﮀ  ﮁ  ﮂ   ﮃ  ﮄ  ﮅ  ﮆﮇ  ﮈ  ﮉ  ﮊ  ﮋ   ﮌ   الأنعام: ١٥٣
[اور یہ(دین) میرا سیدھا راستہ ہے، سو اس دین پر چلو اور دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو الله   کی راہ سے جدا کردیں گی۔ اس کا تم کو الله  نے تاکیدی حکم دیا ہے تاکہ تم تقوی اختیار کرو]
                یہاں صراط مستقیم سے سنت کی راہ مراد ہے،اور جن دیگر راہوں سے روکا گیا ہے وہ بدعت کے راستے ہیں۔ گناہ اور معصیت کے راستے یہاں مراد نہیں ہوسکتے، کیونکہ عبادت وتقرب کی خاطر کوئی شخص معصیت کو مستقل راستہ نہیں بناتا۔
                امام مجاہد فرماتے ہیں کہ آیت میں سُبُل سے مراد بدعات وشبہات ہیں۔ (تفسیر طبری12/229)
                 عبد اللہ بن مسعودt  کی حدیث ہے کہ اللہ کے رسول e  نے ہمارے لئے اپنے ہاتھ سے ایک سیدھی لکیر کھینچی،پھر فرمایا : یہ الله  کا سیدھا راستہ ہے۔ پھر آپ نے اس کے دائیں اور بائیں چند لکیریں کھینچیں،اور فرمایا : یہ وہ راستے ہیں جن میں سے ہر ایک پر شیطان بیٹھا ہوا اس کی طرف دعوت دے رہا ہے۔ پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی : ﭺ  ﭻ  ﭼ  ﭽ  ﭾﭿ  ﮀ  ﮁ  ﮂ الأنعام: ١٥٣   (مسند احمد1/465، مستدرک حاکم2/239، صححہ ووافقہ الذہبی )
£۔ ارشاد مولی ہے :
ﮋ ﭬ  ﭭ  ﭮ  ﭯ  ﭰ  ﭱﭲ  ﭳ  ﭴ  ﭵ   ﭶ النحل: ٩
[درمیانی راہ الله  تعالی کی طرف پہنچنے والی ہے اور بعض ٹیڑھی راہیں ہیں اور اگر وہ چاہتا تو تم سب کو راہ راست پر لگادیتا]
                ''''(ٹیڑھی راہوں) سے مراد بدعات ومعاصی اور ضلالت کے منحرف راستے ہیں۔
¤۔ الله عزوجل فرماتا ہے :
ﮗ   ﮘ    ﮙ  ﮚ  ﮛ  ﮜ  ﮝ  ﮞ  ﮟ  ﮠ  ﮡ   ﮢ  ﮣﮤ  ﮥ  ﮦ  ﮧ  ﮨ  ﮩ  ﮪ  ﮫ  ﮬ   ﮭ  ﮮ  ﮯ  ﮰ  ﮱﯓ  ﯔ  ﯕ  ﯖ  ﯗ  ﯘﮊ آل عمران: ٧
[وہی الله  تعالی ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری، جس میں واضح مضبوط آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں، اور بعض متشَابہ آیتیں ہیں،پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو اس کی متشَابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں، فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لئے، حالانکہ ان کی حقیقی مراد کو سوائے الله  تعالی کے کوئی نہیں جانتا]۔
                اس آیت کی تفسیر صحیح بخاری (6/42)میں عائشہ r سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول e   نے ان آیات کی تلاوت فرمائی پھر کہا : جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو متشَابہ کے پیچھے لگتے ہیں تو یہی وہ لوگ ہیں جن کا  الله تعالی نے نام لیا ہے لہذا ان سے ہوشیار رہو۔
                خوارج جو اہل بدعت کا اولین گروہ ہے، اس کے بارے میں عبد اللہ بن مسعود t فرماتے ہیں کہ یہ لوگ محکم پر ایمان رکھتے اور متشَابہ میں گمراہ ہوجاتے ہیں، حالانکہ اس کی تاویل الله  تعالی کے سوا کسی کو معلوم نہیں، اور پختہ و مضبوط علم والے کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے۔ (الشریعہ/٢٧)
                تمام اہل بدعت کی علامت یہی ہے کہ وہ متشَابہ سے تمسک کرتے اور محکم کو ترک کرتے ہیں کیونکہ ان کے دل میں کجی ہوتی ہے۔
بدعت کی مذمت حدیث پاک میں
                Œ۔ عرباض بن ساریہ t  سے روایت ہے کہ رسول اللہe  نے ہم کو صلاة فجر پڑھائی،پھر ہم کو ایک بلیغ نصیحت فرمائی جس سے آنکھیں بہہ پڑیں اور دل دہل گئے۔ کسی نے کہا : اے اللہ کے رسول !گویا یہ رخصت کرنے والے کی نصیحت ہے لہذا آپ ہمیں وصیت فرمایئے۔ آپ نے فرمایا : میں تمھیں الله  کے تقوی اور سمع وطاعت کی وصیت کرتا ہوں اگرچہ حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ تم میں سے جومیرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت سارا اختلاف دیکھے گا، لہذا تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو، اسے مضبوطی کے ساتھ تھام لو، اسے دانتوں سے مضبوط جکڑلو، اور اپنے آپ کو نئی ایجادشدہ چیزوں سے بچاؤ،اس لئے کہ ہر ایجاد شدہ چیز بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ (مسند احمد4/127، ابوداود 5/13-15،ترمذی4/149ـ١٥٠)
                ۔جابر بن عبد اللہ t سے روایت ہے کہ جب رسول اللہe   خطبہ دیتے تو فرماتے : (( أمَّا بَعْدُ ، فَإنَّ خَيْرَ الحَديثِ كِتَابُ الله ، وَخَيرَ الهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ - r- ، وَشَرَّ الأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا ، وَكُلَّ بِدْعَة ضَلالَةٌ )) (مسلم 2/592) [أما بعد، یقینا سب سے بہتر بات الله  کی کتاب ہے۔ سب سے بہتر طریقہ رسول اللہ e  کا طریقہ ہے۔سب سے بری چیز اس میں ایجاد کی ہوئی چیزیں ہیں۔اور ہر بدعت گمراہی ہے]۔
Ž۔ عائشہ r سے مروی ہے کہ رسول اللہeنے فرمایا: ((مَنْ أحْدَثَ في أمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ)) (بخاری9/132، مسلم3/1344) [جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردوداور ناقابل قبول ہے]۔
دوسری روایت کے الفاظ اس طرح ہیں : ((مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَيْسَ عَلَيهِ أمرُنا فَهُوَ رَدٌّ)). (مسلم3/1344) [جس نے کوئی ایسا کام کیاجس پہ ہمارا حکم نہیں ہے تو وہ مردود ہے]۔
                امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں : یہ حدیث اسلام کا ایک عظیم قاعدہ ہے، یہ نبی e   کے جامع کلمات میں سے ایک ہے۔ یہ ہرطرح کی بدعت اور خودساختہ امور کی تردید میں صریح ہے۔ دوسری روایت میں مفہوم کی زیادتی ہے، اور وہ یہ کہ بعض پہلے سے ایجاد شدہ بدعتوں کوکرنے والے کے خلاف اگر پہلی روایت بطور حجت پیش کی جائے تو وہ بطور عناد کہے گا کہ میں نے توکچھ ایجاد نہیں کیا، لہذا اس کے خلاف دوسری روایت حجت ہوگی، جس میں یہ کہا گیا ہے کہ ہر نئی چیز مردود ہے،خواہ کرنے والے نے اسے ازخود ایجاد کیا ہو یا اس سے پہلے اسے کوئی ایجاد کرچکا ہو۔ (شرح مسلم للنووی12/16)
                حافظ ابن رجب رحمۃ  اللہ علیہ فرماتے ہیں : یہ حدیث اسلام کے اصولوں میں سے ایک اصل عظیم ہے۔ جس طرح (( إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ )) والی حدیث اعمال کے باطن کو پرکھنے کا ذریعہ ہے، اسی طرح یہ حدیث اعمال کے ظاہر کو پرکھنے کا ذریعہ ہے۔ جیسا کہ ہر وہ عمل جس سے الله  کی رضا مقصود نہ ہو عامل کے لئے اس کا کوئی ثواب نہیں، اسی طرح ہر وہ عمل جو الله  اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق نہیں اس کے عامل کے منہ پر ماردیا جائے گا۔اور جس نے بھی الله  اور اس کے رسول کے حکم کے خلاف کوئی چیز ایجاد کی اس کا دین سے کوئی تعلق نہیں۔(جامع العلوم والحکم)
                ۔ ابو ہریرہ اور انس w کی حدیث ہے کہ آپ e  نے فرمایا: ((فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي )) (بخاری 7/2،مسلم2/102) [جو میری سنت سے اعراض کرے وہ مجھ سے نہیں ]۔
مذکورہ آیات واحادیث سے چند باتیں معلوم ہوئیں:
١۔بدعت کی مذمت میں وارد نصوص عام ہیں۔ ان میں کسی قسم کی تقسیم اور تفریق نہیں۔ یعنی ہر بدعت گمراہی ہے،کوئی بدعت حسنہ نہیں ہوتی۔
٢۔ بدعت صرف مذموم ہوتی ہے گرچہ بدعتی اسے مستحسن سمجھے۔
٣۔بدعت ہر اس عمل کو کہتے ہیں جو رسول اللہe  کے بعد دین میں ایجاد کیا گیا ہو، اور خاص وعام کسی بھی طریق سے شریعت میں اس کی دلیل موجود نہ ہو۔
بدعتوں سے صحابۂ کرام کی نفرت
                صحابۂ کرام y کتاب وسنت پر عمل کے حریص تھے۔ بدعت واہل بدعت سے انتہائی بغض و نفرت رکھتے تھے۔ چنانچہ ابوبکر صدیق t نے ایک خطبہ میں فرمایا : ((میں صرف متبع ہوں بدعتی نہیں ہوں))۔ نیز عبد اللہ بن مسعود t نے فرمایا : ((تم اتباع کرو، بدعت کا کام مت کرو، تمھارے لئے اتباع ہی کافی ہے))۔ اور عبد اللہ بن عباس t نے فرمایا : ((الله  کا تقوی اور استقامت لازم پکڑو۔اتباع کرو، بدعت کا کام مت کرو))۔
(مذکورہ تمام روایات سنن دارمی سے منقول ہیں۔)
                حذیفہ بن یمانt نے فرمایا: ((جو عبادت صحابۂ کرام y نے نہیں کی اسے تم مت کرو، پہلے لوگوں نے بعد والوں کے لئے نئی بات کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہنے دی ہے))۔(ابوداود)
                بدعت کے تعلق سے سنن دارمی (1/61)کا ایک بڑا عبرت آموز واقعہ ہے جسے علامہ البانی رحمہ اللہ نے سلسلہ صحیحہ(حدیث نمبر٢٠٠٥)میں ذکر کیا ہے۔ ہم اس کا خلاصہ یہاں ذکر کرتے ہیں۔
                ابو موسیٰ اشعری t نے کوفہ کی مسجد میں کچھ لوگوں کو صلاة کے انتظار میں دیکھا، وہ حلقہ بنا کر بیٹھے تھے اور ان کے ہاتھ میں کنکریاں تھیں۔ان میں سے ایک کہتا : سو بار لا الہ الا اللہ پڑھو تو وہ سو بار لا الہ الا اللہ پڑھتے، پھر وہ کہتا سوبار تسبیح پڑھو تو وہ سو بار تسبیح پڑھتے۔ ابو موسیٰ t  کو یہ بات نئی اور منکر معلوم ہوئی۔ انھوں نے عبد اللہ بن مسعود t   سے اس کا تذکرہ کیا۔ آپ ان کے پاس گئے، اور ان سے دریافت کیا کہ یہ کیا کررہے ہو ؟ انھوں نے جواب دیا کہ ہم کنکریوں کے ذریعہ تسبیح وتہلیل اور تکبیر کا ورد کررہے ہیں۔ آپ نے فرمایا: اپنے گناہوں کو شمار کرو، میں ضمانت لیتا ہوں کہ تمھاری کوئی نیکی ضائع نہ ہوگی۔ افسوس! اے امت محمد(e)تمھاری ہلاکت کتنی جلد ہے، صحابۂ کرام y ابھی تمھارے درمیان موجود ہیں، تمھارے نبی e  کے کپڑے ابھی تک بوسیدہ نہیں ہوئے، آپ کے برتن ابھی نہیں ٹوٹے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، یا تو تم ملت محمدیہ سے زیادہ ہدایت یافتہ ہو یا پھر ضلالت کا دروازہ کھول رہے ہو۔ ان لوگوں نے کہا : اے ابو عبد الرحمن! ہم نے محض خیر کے ارادے سے ایسا کیا۔ آپ نے فرمایا : کتنے ہی خیرکے چاہنے والے خیر کو نہیں پاتے۔اللہ کے رسول e   نے ہم کو بتایا ہے کہ ایک قوم قرآن کو پڑھے گی وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ الله  کی قسم مجھے نہیں معلوم شاید ان میں سے اکثر لوگ تم ہی میں سے ہوں گے۔


بدعتوں کے رواج پانے کے اسباب

بدعتوں کے رواج پانے کے چند اسباب ومحرکات ہیں, مندرجہ ذیل اسباب زیادہ عام اور اہم ہیں:
١۔ بدعات کی تردید میں علماء حق کا تساہل اور علماء سوء کی طرف سے قیادت نیز مالی فوائد کے حصول کی خاطر بدعات کی تحسین وتزئین۔
٢۔عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لئے حکمرانوں کی طرف سے بدعات کی تائید۔
٣۔ علم کے بغیر فتوی، تعلیم وارشاد اور دعوت وتبلیغ۔
٤۔ سنت سے جہالت یعنی سنت کے مقام ومرتبہ نیز صحیح وضعیف اور مقبول ومردود کی تمیز سے ناواقفیت۔
باب دوم: چند شبہات کا ازالہ
بدعت حسنہ وسیئہ کی تقسیم
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں :
                                                ١۔ بدعت حسنہ
                                                ٢۔ بدعت سیئہ
                ذیل میں ہم ان کے شبہات کا ذکر کریں گے، اور ساتھ ہی ان کا علمی جائزہ لیں گے اور ان کے ازالہ کی کوشش کریں گے۔
پہلا شبہ :
                 عمر فاروق t نے اپنے دور خلافت میں لوگوں کو تراویح کے لئے جمع کیا تھا اور پھر فرمایا تھا :
((نِعْمَت الْبِدْعَةُ هَذِهِ)) یہ کتنی اچھی بدعت ہے! (بخاری3/58)
ازالہ:
                عمر t   کا یہ قول شریعت کے اندر بدعت حسنہ کی دلیل نہیں بن سکتا، کیونکہ یہاں انھوں نے اس کا لغوی مفہوم مراد لیا ہے۔ اس لئے کہ یہ عمل ہر اعتبار سے سنت تھا :
                ٭ خود قیام رمضان سنت ہے۔آپ e  نے اس کی ترغیب فرمائی ہے۔آپ نے فرمایا ہے: ((مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ)) (بخاری3/58) [جس نے ایمان کے ساتھ اور حصول ثواب کی نیت سے رمضان کا قیام کیا(تراویح پڑھی)اس کے تمام پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے ]۔
                ٭آپ e نے اپنے صحابہ کو کئی راتیں باجماعت تراویح پڑھائی، جب لوگوں کی تعداد کافی بڑھ گئی تو آپ اس اندیشہ کی وجہ سے کہ کہیں اسے فرض نہ کردیا جائے لوگوں کی طرف نکلنے سے باز رہے۔ نبی e  کی وفات تک معاملہ اسی پر باقی رہا۔  (ملاحظہ ہو:  بخاری3/58ـ٥٩)
                جب رسول اللہe  کی وفات ہوگئی،اور وحی کے بند ہوجانے کی وجہ سے اس کے فرض کردیئے جانے کا اندیشہ ختم ہوگیا، تو عمر فاروق t نے اپنے عہد خلافت میں لوگوں کو ایک امام پر جمع کردیا، اور اس بات پر صحابہ کا اجماع ہوگیا۔
                ٭نیز یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ یہ ایک خلیفۂ راشد کی سنت ہے جن کی اتباع کا ہمیں حکم دیا گیا ہے۔ اللہ کے رسول e   فرماتے ہیں: (( فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ ))
(مسند احمد4/127، ابوداود5/13ـ١٥، ترمذی4/149ـ١٥٠)
                اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ابو بکر صدیق t  کے زمانے میں اسے باجماعت کیوں نہیں اداکیا گیا؟تو اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ابوبکر t   کی رائے کے مطابق آخر شب کا قیام اول شب میں امام کے ساتھ اکٹھا پڑھنے سے افضل تھا، لہذاآپ نے اول شب میں ایک امام کے ساتھ پڑھنے پر انھیں جمع نہیں کیا۔
                دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ایک تو آپ کی مدت خلافت کافی مختصر تھی، نیز مرتدین ومانعین زکاة وغیرہ کے ساتھ معرکہ آرایئوں کی بنا پر آپ کو اس کی فرصت نہ ملی کہ ان امور پر غور کرسکتے۔ عمر t کے زمانے میں چونکہ سارے فتنے سرد پڑچکے تھے، اسلامی حکومت مستحکم ہوچکی تھی، اس لئے آپ نے ان امور پر توجہ دی اور سنت کے احیا ء کی فضیلت آپ کو حاصل ہوئی۔
                ٭اگر مذکورہ بحث سے اطمینان حاصل نہ ہو تو یہ قاعدہ ذہن نشین کرلیں کہ قول صحابی قول رسول e  کے خلاف حجت اور دلیل نہیں بن سکتا ہے۔ اللہ کے رسول e   کا قول  ((كُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ)) [ہر بدعت گمراہی ہے] بالکل عام ہے، اس میں کسی قسم کا استثناء نہیں ہے،لہذا اس عموم کے خلاف کسی صحابی کے قول کو دلیل نہیں بنایا جاسکتا ہے۔
دوسرا شبہ :
                بدعت کو حسنہ اور سیئہ میں تقسیم کرنے والے دوسری دلیل کے طور پر حدیث ذیل کو پیش کرتے ہیں۔  
((عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ كُتِبَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا وَلَا يَنْقُصُ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْءٌ وَمَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ كُتِبَ عَلَيْهِ مِثْلُ وِزْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا وَلَا يَنْقُصُ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْءٌ ))  (صحیح مسلم2/704ـ٧٠٥)
[جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ شروع کیا خود اسے اس کا اجر ملے گا اور ان تمام لوگوں کا اجر بھی جو اس کے بعد اس پر عمل کریں گے بغیر اس کے کہ ان لوگوں کے ا جر میں کسی قسم کی کمی واقع ہو۔ اور جس نے اسلام میں کوئی برا طریقہ شروع کیا تو اس کے اوپر اس کا اپنا گناہ ہوگا اور ان لوگوں کا بھی جنہوں نے اس کے بعد اس پر عمل کیا بغیر اس کے کہ ان لوگوں کے گناہ میں کسی قسم کی کمی واقع ہو]۔
                اس حدیث سے وجہ استدلال یہ ہے کہ یہ حدیث  ((كُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ))   والی حدیث کے عموم کی تخصیص کرتی ہے۔
                اس حدیث میں سَنَّ کا لفظ آیا ہے جو اخترع(ایجادکرنے)اور ابتدع(بلا مثال سابق شروع کرنے)کے ہم معنی ہے، نیز اس کے شروع کرنے کو شارع کے بجائے مکلف کی طرف منسوب کیا گیا ہے، بالکل اس حدیث کی طرح جس میں اللہ کے رسول e   فرماتے ہیں : ((لَيْسَ مِنْ نَفْس تُقْتَلُ ظُلْماً إلاَّ كَانَ عَلَى ابْنِ آدَمَ الأوْلِ كِفْلٌ مِنْ دَمِهَا، لأَنَّهُ كَانَ أوَّلَ مَنْ سَنَّ القَتلَ)) مُتَّفَقٌ عَلَيهِ. [جو نفس بھی ظلماً قتل کیا جائے گا آدم کے پہلے بیٹے پر اس کے خون کا ایک حصہ(گناہ) جائے گا اس لئے کہ سب سے پہلے اسی نے قتل کا طریقہ شروع کیا]۔
                اس حدیث میں بھی سَنَّ کا لفظ اخترع یعنی ایجادکرنے کے معنی میں ہے، کیونکہ قابیل نے ہی قتل کا طریقہ سب سے پہلے شروع کیا ہے، اس سے پہلے قتل کا وجود نہیں تھا۔ اگر حدیث میں یہ کہنا مقصود ہوتا کہ شریعت میں ثابت کسی سنت پر کسی نے عمل شروع کیا تو سَنَّ کے بجائے یوں کہا جاتا: مَنْ عَمِلَ بِسُنَّتِيْ ـ یا ـ  بِسُنَّۃٍ  مِّنْ سُنَّتِيْ ـ  یا ـ مَنْ أَحْیَا سُنَّۃً مِنْ سُنَّتِي [جس کسی نے میری سنت پر عمل کیا یا میری کسی سنت کو زندہ کیا]
ازالہ:
                مذکورہ حدیث میں کسی نئے عمل کی ایجاد مراد نہیں ہے بلکہ کسی سنت ثابتہ پر عمل یا کسی سنت متروکہ کا احیاء مراد ہے۔ اس کی وضاحت دو طرح سے ہوگی۔
                ١۔ حدیث کی مراد اس کے سبب ورود سے واضح ہوگی۔ چنانچہ پوری حدیث اس طرح ہے : ((جریر بن عبد اللہ t   نے فرمایاکہ دن کے شروع حصہ میں ہم لوگ رسول اللہ e  کے پاس تھے کہ آپ کے پاس ایک قوم آئی۔ جو ننگے بدن تھی، دھاری دار اونی چادر اوڑھے ہوئے تھی، تلواریں لٹکائے ہوئے تھی۔ ان میں سے بیشتر بلکہ سب کے سب قبیلہ مضر کے تھے۔ ان کا فقروفاقہ دیکھ کر اللہ کے رسولe  کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا۔ آپ گھر میں داخل ہوئے، پھر باہر نکلے، پھربلال t کو حکم دیا، انھوں نے اذان واقامت کہی،پھر آپ نے صلاة پڑھائی، خطبہ دیا اور ان آیات کی تلاوت فرمائی : ﮋ ﭑ  ﭒ  ﭓ  ﭔ  ﭕ  ﭖ  ﭗ  ﭘ  ﭙ النساء: ١ -- اور   ﮋﭝ  ﭞ  ﭟ  ﭠ  ﭡ  ﭢ   ﭣ  ﭤ  ﭥ  ﭦﭧ  ﭨ  ﭩﮊ  الحشر: ١٨ اور فرمایا : لوگ صدقہ دیں اپنے دینار سے، اپنے درہم سے، اپنے کپڑے سے، اپنے ایک صاع گیہوں اور ایک صاع کھجور سے،حتی کہ آپ نے فرمایا: اگر چہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو۔راوی کہتے ہیں کہ پھر ایک انصاری ایک تھیلی لے کر آئے، جس سے ان کا ہاتھ تھکا جاتا تھابلکہ تھک گیا تھا، پھر لوگوں کا سلسلہ لگ گیا، یہاں تک کہ میں نے غلے اور کپڑے کے دو ڈھیر دیکھے، اور دیکھا کہ رسول اللہ e   کا روئے مبارک کھل اٹھا ہے اور کندن کی طرح دمک رہا ہے۔ اس وقت آپ e  نے فرمایا : ((مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً …..))۔ (مسلم2/705)
                اس حدیث کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ سنت حسنہ سے انصاری صحابی والے عمل جیسا عمل مراد ہے۔کیونکہ جب وہ تھیلی بھر کر لائے تو صدقہ کا دروازہ کھل گیا، اور لوگ یکے بعد دیگرے اپنے صدقات لانے لگے۔ مگر بہر حال اس خیر وبھلائی کے شروعات کی فضیلت انھیں ہی حاصل ہوئی۔ صحابی مذکور کا عمل کوئی نئی چیز نہیں،بلکہ شریعت سے ثابت ایک عمل تھا۔ زیادہ سے زیاہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ صحابہ کو متنبہ کرنے اور انھیں صدقہ پر ابھارنے میں ان کے کردار کا ہاتھ تھا۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ سنت حسنہ سے مراد کسی سنت پر عمل کرنا ہے، خصوصاً اس وقت جب لوگ اس سے غافل ہوں یا اسے ترک کرچکے ہوں۔
                ٢۔ اس حدیث میں سَنَّ کے لفظ کو اختراع وایجاد کے معنی پر محمول کرنا درست نہیں ہے۔ کیونکہ کسی عمل کا اچھا یا برا ہونا شریعت کی موافقت یا مخالفت ہی سے معلوم ہوسکتا ہے۔اگر شریعت کے موافق ہے تو سنت حسنہ ورنہ سنت سیئہ۔
سنت سیئہ دو چیزوں پر بولا جاتا ہے :
1)    گناہ ومعصیت کے کاموں کو شروع کرنا،جیسا کہ قابیل سے متعلق حدیث میں ہے ۔
2)    دین میں کسی بدعت کو شروع کرنا۔
                اگر بالفرض مذکورہ حدیث سے شریعت کے اندر بدعت حسنہ کے وجود پر استدلال کیا جائے تو یہ حدیث ان احادیث سے متعارض ہوگی جس میں بدعت کی عمومی مذمت کی گئی ہے، اور یہ قاعدہ معلوم ہے کہ جب عموم اور تخصیص کے دلائل باہم متعارض ہوتے ہیں تو تخصیص ناقابل قبول ہوتی ہے۔  (الموافقات3/232)
تیسرا شبہ :
بدعت حسنہ کی دلیل کے طور پر یہ روایت بھی ذکر کی جاتی ہے:
عَنْ بِلَالِ بْنِ الْحَارِثِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ: اعْلَمْ, قَالَ مَا أَعْلَمُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: إِنَّهُ مَنْ أَحْيَا سُنَّةً مِنْ سُنَّتِي, قَدْ أُمِيتَتْ بَعْدِي, فَإِنَّ لَهُ مِنْ الْأَجْرِ مِثْلَ مَنْ عَمِلَ بِهَا, مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا, وَمَنْ ابْتَدَعَ بِدْعَةَ ضَلَالَةٍ, لَا تُرْضِي اللَّهَ وَرَسُولَهُ, كَانَ عَلَيْهِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ عَمِلَ بِهَا, لَا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أَوْزَارِ النَّاسِ شَيْئًا. (ترمذی4/150ـ١٥١
[بلال بن حارث t  سے نبی e  نے فرمایا : جان لو۔ انھوں نے کہا : کیا جان لوں اے اللہ کے رسول ؟ آپ نے فرمایا : جس نے میری کسی ایسی سنت کو زندہ کیا جو میرے بعدمردہ کی جاچکی تھی، تو اس کو اس پر عمل کرنے والے کے برابر اجر ملے گا، بغیر اس کے کہ ان لوگوں کے اجر میں کسی طرح کی کمی ہو۔ اور جس نے کوئی بدعت ضلالت ایجاد کی جو الله  اور اس کے رسول کو پسند نہیں، تو اس کو اس پر عمل کرنے والوں کے برابر گناہ ملے گا، بغیر اس کے کہ ان کے گناہوں میں کوئی کمی واقع ہو]۔
                اس حدیث سے وجہ استدلال یہ ہے کہ اس میں مطلقاً ہر بدعت کی مذمت نہیں کی گئی ہے بلکہ صرف اسی بدعت کی مذمت کی گئی ہے جوالله  اور اس کے رسول کی مرضی کے خلاف ہو اور بدعت ضلالت ہو۔
 ازالہ:
                 مذکورہ حدیث سے استدلال درست نہیں کیونکہ وہ ضعیف ہے، اس میں ایک راوی کثیر بن عبد اللہ بن عمرو بن عوف المزنی ہے جو متروک ومجروح ہے اور اس کی روایت ناقابل اعتبار ہے۔
چوتھا شبہ :
                عبد اللہ بن مسعودt فرماتے ہیں: مَا رَآہُ الْمُسْلِمُوْنَ حَسَناً فَهُوَ عِنْدَ اللہِ حَسَن (مسنداحمد 1/379) [جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ اﷲکے نزدیک بھی اچھا ہے]۔
                وجہ استدلال یہ ہے کہ اچھا سمجھنے کی نسبت مسلمانوں کی طرف کی گئی ہے، دلیل کی طرف نہیں۔ جس سے معلوم ہوا کہ بدعت اچھی اور بری دونوں طرح ہوسکتی ہے۔
ازالہ:
                مذکورہ حدیث ایک طویل حدیث کا ٹکڑا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس شبہ کے ازالہ کی خاطر پوری حدیث مکمل سیاق کے ساتھ پہلے یہاں ذکر کردیں۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ إِنَّ اللَّهَ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ فَوَجَدَ قَلْبَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ فَاصْطَفَاهُ لِنَفْسِهِ فَابْتَعَثَهُ بِرِسَالَتِهِ ثُمَّ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ بَعْدَ قَلْبِ مُحَمَّدٍ فَوَجَدَ قُلُوبَ أَصْحَابِهِ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ فَجَعَلَهُمْ وُزَرَاءَ نَبِيِّهِ يُقَاتِلُونَ عَلَى دِينِهِ فَمَا رَأَى الْمُسْلِمُونَ حَسَنًا فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ حَسَنٌ وَمَا رَأَوْا سَيِّئًا فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ سَيِّئٌ  (مسند احمد ٣٧٩١
[عبد اللہ بن مسعودt فرماتے ہیں : الله  تعالی نے بندوں کے دلوں میں دیکھا، تو محمد e  کا دل بندوں کے دلوں میں سب سے بہتر پایا۔چنانچہ آپ کو اپنے لئے منتخب کرلیا اور آپ کو اپنی رسالت دے کر مبعوث فرمایا۔ پھر محمد e  کے بعد بندوں کے دلوں میں دیکھا، تو آپ کے صحابہ کے دلوں کو بندوں کے دلوں میں سب سے بہتر پایا۔ چنانچہ انھیں اپنے نبی کا وزیر بنایا،جو الله  کے دین کے لئے جنگ کرتے ہیں۔ لہذا جسے مسلمان اچھا سمجھیں وہ الله  کے نزدیک بھی اچھا ہے۔ اور جسے مسلمان برا سمجھیں وہ الله  کے نزدیک بھی برا ہے]۔
یہ حدیث کئی اسباب کی بنا پربدعت حسنہ کے لئے دلیل نہیں بن سکتی:
١۔ یہ حدیث موقوف ہے، مرفوع نہیں ہے۔ لہذا اسے مرفوع کے مقابلے میں پیش کرنا درست نہیں ہے۔ یعنی یہ صحابی کا قول ہے اسے رسول اللہ e  کے قول سے ٹکرانا درست نہیں ہے۔
٢۔ اگر فرض کرلیا جائے کہ یہ حجت ہے تو اس سے مراد اجماع صحابہ ہوگا۔
٣۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ اس سے مراد غیر صحابہ ہیں، تو عالم وجاہل تمام مسلمان اس سے مراد نہیں ہوں گے، بلکہ اہل اجماع مقصود ہوں گے۔ اگر کوئی یہ کہتا ہے کے عالم وجاہل تمام مسلمان مراد ہیں تو اس سے دو باطل چیزیں لازم آئیں گی:
اول:یہ درج ذیل حدیث سے متناقض ہوگا۔
((إِنَّ هَذِهِ الْأُمَّةَ سَتَفْتَرِقُ عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ مِلَّةً يَعْنِي الْأَهْوَاءَ كُلُّهَا فِي النَّارِ إِلَّا وَاحِدَةً))۔ (ابوداود5/5ـ٦،مسند احمد 4/102، حاکم1/128) 
[اللہ کے رسول e  فرماتے ہیں کہ میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، سب جہنم میں جائیں گے سوائے ایک کے]۔
                تناقض کی صورت یہ ہے کہ سابقہ حدیث سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ کوئی مسلمان کسی چیز کواچھا سمجھے تو وہ اچھی چیز ہے۔ یعنی اس کی بات اور اس کا خیال غلط نہیں ہوسکتا ہے۔ اگر معاملہ ایسا ہی ہے تو پھر تہتر فرقوں میں تقسیم اور ایک کے سوا سب کے جہنمی ہونے کا کیا مطلب ہوگا!!
                دوم : اس کا تقاضہ یہ ہوگا کہ کوئی عمل کسی کے نزدیک حسن ہو اور کسی کے نزدیک قبیح، حالانکہ یہ باطل ہے۔ اور اگر عبد اللہ بن مسعود t  کی حدیث سے یہ مراد لی جائے کہ جسے عام مسلمان اچھا سمجھیں وہ اچھا ہے،تو گویا دین میں بدعت ایجاد کرنے کے لئے چوردروازہ کھول دیا گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ ابن مسعود t  کی حدیث سے بدعت حسنہ کے وجود یا جواز پر استدلال کرنا کسی صورت میں درست نہیں ہے۔
پانچواں شبہ :
                 سلف صالحین نے کچھ ایسے اعمال انجام دیئے ہیں جن سے متعلق خاص اور صریح نص وارد نہیں ہے۔ جیسے جمع قرآن اور تصنیف علوم وغیرہ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت میں بدعت حسنہ کا وجود ہے۔
ازالہ :
                معلوم ہونا چاہئے کہ وہ چیز بدعت نہیں ہے جس کے الله  اور اس کے رسول کی اطاعت ہونے کے بارے میں شرعی دلیل موجود ہو۔
                جہاں تک جمع قرآن کا معاملہ ہے تو اگرچہ اللہ کے رسول e  نے اپنی حیات مبارکہ میں ایسا نہیں کیا،مگر آپ نے قرآن مجید کے لکھنے کا حکم دیا، جیسا کہ آپ e  کا ارشاد ہے: ((لَا تَكْتُبُوا عَنِّي غَيْرَ الْقُرْآنِ وَمَنْ كَتَبَ عَنِّي غَيْرَ الْقُرْآنِ فَلْيَمْحُهُ))  (صحیح مسلم 4/2298) [میری طرف سے قرآن کے سوا کچھ نہ لکھو، جس نے قرآن کے سوا کچھ لکھا ہو اسے مٹا دے]۔
                البتہ جہاں تک ایک مصحف میں دو دفتیوں کے درمیان قرآن مجیدکے جمع کرنے کی بات ہے تو آپ e  نے اپنی زندگی میں ایسا اس لئے نہیں کیاکیونکہ کچھ آیات یا کچھ سورتوں کے نازل ہونے یا کچھ آیتوں کے منسوخ ہونے کا احتمال تھا۔ آپ e  کی وفات کے بعد یہ احتمال ختم ہوگیا۔ چنانچہ ابوبکر t نے یہ مبارک عمل انجام دیا۔ پھر عثمان t  نے لوگوں کو ایک مصحف پر جمع کردیا اور تمام صحابہ کا اس بات پر اجماع ہوگیا۔ جہاں تک احادیث نبویہ کی تدوین اور علوم شرعیہ کی تصنیف کا سوال ہے تو یہ تبلیغ شریعت کے ضمن میں داخل ہے اور اس کے دلائل واضح اور معلوم ہیں۔
                بہر حال سلف کے وہ اعمال جن سے بدعت حسنہ کے وجود پر استدلال کیا گیا ہے، یا تو وہ سنت کے وسیع مفہوم میں شامل اور داخل ہیں، یا تو کسی شرعی کام کی انجام دہی کا وسیلہ اور ذریعہ ہیں لہذا بدعت نہیں ہیں۔
یہاں پریہ بات ذہن نشین رہے کہ تمام معتبر اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ تمام بدعات مذمومہ ضلالت ہیں جن کا خلاصہ بیان ہوچکا ہے۔
باب سومبدعت کی تباہ کاریاں
بدعت کے برے اثرات
تمہید
بدعت کی تباہ کاریاں اور اس کے نقصانات صرف بدعتی شخص کی ذات تک محدود نہیں رہتے ،بلکہ پورا اسلامی معاشرہ اس کی لپیٹ میں آجاتا ہے ۔اس سے امت کی وحدت کی دیوار میں نہ صرف شگاف پڑتا ہے بلکہ امت کا شیرازہ منتشر ہوجاتا ہے ۔ خود دین بھی اس کی زد سے محفوظ نہیں رہتا ، اس کی شکل وصورت مسخ ہوجاتی ہے ۔
بڑی عجیب اور قابل افسوس بات یہ ہے کہ عوام کو تو جانے دیجئے بعض وہ لوگ جو علم وفضل کی طرف منسوب ہیں اور جنھیں لوگ عالم اور دانشور خیال کرتے ہیں، وہ لوگ بدعت کی ہولناکیوں کو معمولی بنا کر پیش کرتے ہیں ۔ ان کا خیا ل ہے کہ بدعت کی تردید امت کے اختلاف کو ہوا دیتی ہے اور مختلف فرقوں کو باہم قریب کرنے کے بجائے ان کی آپسی دوری اور نفرت کی خلیج کو مزید وسیع کرتی ہے ۔ ایسے لوگ بدعتیوں کو اپنی بدعت پر باقی رہنے اور اس کے پھلنے پھولنے اور برگ وبار لانے کا ذریعہ اور وسیلہ بنتے ہیں ۔ وہ لوگ اس کے خطرناک نتائج سے آنکھیں بند رکھتے ہیں ۔ معلوم نہیں کہ ان کے دل ودماغ میں آخر یہ بات کیوں نہیں گھستی کہ ملت اسلامیہ آج جس زوال وپستی کا شکار ہے اور جس انحلال وہزیمت سے دوچار ہے اس کا سبب اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ مسلمان اسلام خالص کے فہم وتطبیق سے منحرف ہوگئے ہیں اور بدعت میں پڑکر اپنی تمام کاوشوں کو ضائع کررہے ہیں ۔
برسبیل تذکرہ ہم صرف ایک بدعت تصوف کی مثال لیتے ہیں ۔ نہایت مختصر انداز میں اس کے نقصانات کچھ اس طرح ہیں :
٭ اس نے مسلمانوں سے جہاد کی روح کو ختم کردیا ہے، اس پرفریب دعوے کے ساتھ کہ جہاد نفس کے لئے اپنے آپ کو خالی رکھو۔
٭امر بالمعروف اور نہی عن المنکر یہ کہہ کر معطل کردیا کہ دوسروں کے عیوب پر نظر رکھنے کے بجائے اپنے عیوب پر نظر رکھو ۔
٭رسول اللہ e اور اولیاء وصالحین کی محبت اور ان کے حقوق کی رعایت کے نام پر غلو کو خوب پھیلایا اور یہیں سے قبر پرستی کے شرک صریح نے جنم لیا۔
اس طرح تصوف کی بدعت نے دین کے تمام بلند میناروں کو منہدم کرکے اس کی جگہ اپنے کھوکھلے اور ملمع شدہ میناروں کو بلند کردیا۔
لیجئے ذیل میں ہم نہایت اختصار کے ساتھ بدعت کے آثار ونتائج اوراضرارو مفاسد کا تذکرہ کرتے ہیں۔ سب سے پہلے ہم یہ بیان کریں گے کہ خود بدعتی پراس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔
بدعتی پر بدعت کے برے اثرات
١۔ بدعتی کے عمل کی عدم قبولیت
                کسی بھی دینی عمل کی قبولیت دو شرطوں پر موقوف ہے۔ایک تو اخلاص اور دوسرے اتباع سنت۔بدعتی چونکہ اپنی بدعت کی بنا پر اتباع سنت سے محروم رہتا ہے اس لئے اس کا عمل قبول نہیں ہوتا۔ عمل قبول نہ ہونے کا ایک مطلب تو یہ ہوسکتا ہے کہ فقط بدعت والا عمل مقبول نہ ہو۔ دوسرا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ اس کا کوئی بھی عمل مقبول نہ ہو۔ شریعت کے دلائل دونوں مفہوم کے حق میں موجود ہیں۔
                پہلے مفہوم کی تائید رسول اکرم e   کی اس حدیث سے ہوتی ہے : ((مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَيْسَ علَيْهِ أمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ ))  (بخاری9/123، مسلم3/1344)  [جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں تو وہ مردود اور ناقابل قبول ہے]۔
                دوسرے مفہوم کی تائید میں وہ احادیث ہیں جو اس امت کے سب سے پہلے بدعتی گروہ خوارج کے سلسلہ میں وارد ہوئی ہیں۔ اللہ کے رسول e   ارشاد فرماتے ہیں : ((يَخْرُجُ قَوْمٌ مِنْ أُمَّتِي يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَيْسَ قِرَاءَتُكُمْ إِلَى قِرَاءَتِهِمْ بِشَيْءٍ وَلَا صَلَاتُكُمْ إِلَى صَلَاتِهِمْ بِشَيْءٍ وَلَا صِيَامُكُمْ إِلَى صِيَامِهِمْ بِشَيْءٍ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ يَحْسِبُونَ أَنَّهُ لَهُمْ وَهُوَ عَلَيْهِمْ لَا تُجَاوِزُ صَلَاتُهُمْ تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنْ الْإِسْلَامِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنْ الرَّمِيَّةِ)) (مسلم2/748)
                [میری امت میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن اس طرح پڑھیں گے کہ تمھارا پڑھنا ان کے پڑھنے کے مقابلے میں کچھ نہ ہوگا۔تمھاری صلاة ان کی صلاة کے مقابلے میں کچھ نہ ہوگی۔ تمھارا صوم  ان کے صوم کے مقابلے میں کچھ نہ ہوگا۔ وہ قرآن پڑھیں گے اور اپنے حق میں مفید گمان کریں گے حالانکہ وہ ان کے خلاف حجت ہوگا۔ ان کی صلاة ان کے حلق سے تجاوز نہ کرے گی۔وہ اسلام سے اسی طرح نکل جائیں گے جس طرح شکار سے تیر نکل جاتا ہے]۔
                اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عبادات میں ان کی پوری محنت کے باوجود ان کا کوئی عمل مقبول نہ ہوگا۔
                دونوں حدیثوں کو سامنے رکھتے ہوئے بدعتی کے عمل کی عدم قبولیت کے سلسلہ میں صحیح موقف یہ ہے کہ اگر بدعت کفریہ ہے تو کفر کی بنا پر سارے اعمال مردود ہوجائیں گے اور اگر بدعت کفریہ نہیں بلکہ فسقیہ ہے تو صرف وہی عمل غیر مقبول ہوگا جو خود ساختہ ہے۔
٢۔ بدعتی کی بے توفیقی
                ہر بدعتی اپنی بدعت کی بنا پر توفیق الٰہی سے محروم ہوتا ہے۔کیونکہ ہدایت ونجات اتباع سنت پر موقوف ہے اور بدعتی ترک سنت کے جرم کا مرتکب ہوکر مستحق سزا ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے: ﮋ ﭛ  ﭜ  ﭝ  ﭞ  ﭟ  ﭠ       ﭡ  ﭢ   آل عمران: ١٠١ [جو شخص الله  تعالی (کے دین)کو مضبوط تھام لے تو بلا شبہ اسے راہ راست دکھادی گئی]۔ نیز ارشاد ہے : ﮋ ﮍ  ﮎ    ﮏ  ﮐ  ﮑ   ﮒ  ﮓ  ﮔ  ﮕ  ﮖ      ﮗ  ﮘ   النور: ٦٣ [سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انھیں ڈرتے رہنا چاہئے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آپڑے یا انھیں کوئی دردناک عذاب نہ پہنچے ]۔
٣۔ الله  سے دوری
                شریعت کے واجبات ومستحبات الله سے قربت کا ذریعہ ہیں۔ جس قدر ایک بندہ اطاعت کو بجالاتا اور ممنوعات سے اجتناب کرتا ہے، اسی قدر الله  سے قریب ہوتا ہے۔ اور جس قدر ان میں کوتاہی برتتا ہے اسی قدر قربت سے محروم ہوتا بلکہ سنت کی مخالفت کی راہ کو اپنا کر الله  تعالی سے دور ہوتا جاتا ہے۔خوارج سے متعلق احادیث جن کا ذکر پہلے ہوچکا ہے اس بات پر شاہد عدل ہیں۔
٤۔دنیا وآخرت کی ذلت
                چونکہ حقیقی عزت الله اور اس کے رسول اور اہل ایمان کے لئے ہے جیسا کہ فرمان باری ہے: ﮋ ﮔ  ﮕ    ﮖ  ﮗ   المنافقون: ٨  [عزت تو صرف الله  تعالی کے لئے اور اس کے رسول کے لئے اور ایمان والوں کے لئے ہے]۔
                لہذا مؤمن جس قدر اپنے دین پر قائم ہوتا اور حدودشریعت پامال کرنے سے بچتا ہے اسی قدر عزت کا مستحق ہوتا ہے۔ اس کے برخلاف ایک بدعتی شریعت میں کمی وبیشی کا ارتکاب کرکے اس کے حدود کو پامال کرتا اور دنیا وآخرت کی ذلت کا سزاوار ہوتا ہے۔
 الله تعالیٰ فرماتا ہے :  ﮋ ﭮ   ﭯ  ﭰ  ﭱ  ﭲ  ﭳ  ﭴ  ﭵ  ﭶ  ﭷ  ﭸ   ﭹ  ﭺ  ﭻ  ﭼ  ﭽ  ﭾ  ﭿﮀ  ﮁ   ﮂ   النساء: ١١٥ [جو شخص راہ ہدایت کے واضح ہونے کے باوجود رسول اﷲe  کے حکم کی خلاف ورزی کرے اور تمام مؤمنوں کی راہ چھوڑ کر چلے، ہم اسے ادھر ہی متوجہ کردیں گے جدھر وہ خود متوجہ ہوا، اور دوزخ میں ڈال دیں گے۔ وہ پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے]۔
٥۔ اللہ کے رسول e کی بے زاری
                بدعت کی ایک نحوست یہ بھی ہے کہ ایسے شخص سے رسول اللہ e  نے اپنی براء ت و بے زاری کا اظہار فرمایا ہے۔ آپ فرماتے ہیں : ((مَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي)) مُتَّفَقٌ عَلَيهِ .  [جو میری سنت سے اعراض کرے وہ مجھ سے نہیں]
                بدعتی سنت سے اعراض کرکے اپنی خواہشات اور شیطان کی تزئین وفریب کا اتباع کرتا ہے لہذا وہ اس وعید میں داخل ہوجاتا ہے۔
٦۔ نا قابل برداشت بوجھ
                جو شخص کوئی بدعت ایجاد کرتا ہے، اس پر نہ صرف اس کا گناہ پڑتا ہے بلکہ ان تمام لوگوں کا گناہ بھی پڑتا ہے جو قیامت تک اس پرعمل کریں گے۔  الله تعالی فرماتا ہے : ﯛ  ﯜ  ﯝ ﯞ  ﯟﯠ  ﯡ  ﯢ  ﯣ  ﯤ  ﯥ  ﯦ ﮊ النحل: ٢٥  [یعنی اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ قیامت کے دن یہ لوگ اپنے پورے بوجھ کے ساتھ ہی ان کے بوجھ کے بھی حصہ دار ہوں گے جنھیں بے علمی سے گمراہ کرتے رہے]۔
نیز اللہ کے رسول e کا ارشاد ہے : ((مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ كُتِبَ عَلَيْهِ مِثْلُ وِزْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا وَلَا يَنْقُصُ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْءٌ )) (مسلم 2/704ـ٧٠٥) [جس نے اسلام کے اندر کوئی برا طریقہ ایجاد کیا اس پرخود اس کا گناہ ہوگا اور اس کے بعد اس پرعمل کرنے والے تمام لوگوں کا گناہ بھی ہوگا اس کے بغیر کہ ان کے گناہوں میں کوئی کمی واقع ہو]۔
٧۔ توبہ کی توفیق نہ ملنا
                اہل بدعت کو توبہ کی توفیق بہت کم ملتی ہے، کیونکہ وہ اپنی بدعت کو معصیت نہیں بلکہ اطاعت سمجھ کر انجام دیتے ہیں۔ اور ظاہر بات ہے کہ جب وہ بدعت کو اطاعت تصور کریں گے تب اس سے توبہ کی ضرورت کیونکر محسوس کریں گے!! ۔ ۔ ۔ ۔ البتہ جن پر الله  تعالی رحم وکرم فرماتا ہے وہ لوگ اپنی بدعت کا شعور واحساس کرتے اور اپنے رب کریم کی طرف رجوع ہوتے ہیں۔
n بدعتی کی توبہ کا طریقہ
                بدعتی کی توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنی بدعت کو ترک کرے، علم وعمل اورعقیدہ ومنہج ہر اعتبار سے اتباع سنت کو اپنائے، اور جس بدعت پرتھا اس کی خرابی وبرائی کو بیان کرے۔
                الله  تعالی نے حق چھپانے والوں کی توبہ کے لئے یہ شرط لگائی ہے کہ وہ حق کو بیان کریں جیسا کہ ارشاد ہے : ﮋ ﮠ  ﮡ   ﮢ  ﮣ  ﮤ  ﮥ  ﮦ  ﮧ  ﮨ  ﮩ  ﮪ  ﮫ   ﮬ  ﮭ  ﮮﮯ  ﮰ  ﮱ  ﯓ  ﯔ  ﯕ   ﯖ  ﯗ  ﯘ  ﯙ  ﯚ  ﯛ  ﯜ  ﯝ    ﯞﯟ  ﯠ  ﯡ  ﯢ  ﯣ   البقرة: ١٥٩ – ١٦٠  [جو لوگ ہماری اتاری ہوئی دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں باوجودیکہ ہم اسے اپنی کتاب میں لوگوں کے لئے بیان کرچکے ہیں۔ ان لوگوں پر الله  کی اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے مگر وہ لوگ جو توبہ کرلیں اور اصلاح کرلیں اور بیان کردیں تو میں ان کی توبہ قبول کرلیتا ہوں اور میں توبہ قبول کرنے والا اور رحم وکرم کرنے والا ہوں]۔
                بدعتی کا معاملہ حق چھپانے والے سے بدتر ہے کیونکہ بدعتی نہ صرف کتمان حق کا مرتکب ہوتا ہے بلکہ حق کے خلاف دعوت بھی دیتا ہے۔ لہذا اس کی توبہ کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے وہ یہ جانے کہ اس کا عمل بدعت ہے، پھر وہ سنت کا علم حاصل کرے اور اس کے مطابق عمل کرے، پھر وہ اپنی استطاعت کے مطابق اس بدعت کی خرابیاں لوگوں سے بیان کرے جس پر وہ اس سے قبل عمل پیرا تھا۔
٨۔ سوء خاتمہ کا اندیشہ
                بدعتی کے بارے میں سوء خاتمہ کا بھی اندیشہ ہوتا ہے۔ سوء خاتمہ یہ ہے کہ موت کے وقت انسان کے دل میں شک یا انکار یا الله  پر اعتراض پیدا ہو جس کی بنا پر وہ الله  کی ملاقات ناپسند کرے تو الله  تعالی بھی اس کی ملاقات ناپسند کرے اور پھر بندہ کا خاتمہ ایسی حالت میں ہو جو جہنم میں داخلہ کا سبب بن جائے۔ العیاذ باللہ۔
                بدعتی کے سوء خاتمہ کا اندیشہ اس وجہ سے ہوتا ہے کیونکہ موت کے وقت حقائق منکشف ہوجاتے ہیں اور جب اس کی بدعت کی ضلالت اس پرمنکشف ہوگی تو ممکن ہے کہ شیطان اس کے دل میں یہ باطل وسوسہ ڈالے کہ اس کا پورا دین ہی باطل پر مبنی تھا چنانچہ وہ شک میں پڑجائے یا دین حق کا انکار کر بیٹھے اور اس طرح اس کا خاتمہ بالخیر نہ ہو۔
٩۔ رسول اللہ e کے حوض سے دھتکار
اللہ کے رسول e فرماتے ہیں : ((أَلَا لَيُذَادَنَّ رِجَالٌ عَنْ حَوْضِي كَمَا يُذَادُ الْبَعِيرُ الضَّالُّ أُنَادِيهِمْ أَلَا هَلُمَّ فَيُقَالُ إِنَّهُمْ قَدْ بَدَّلُوا بَعْدَكَ فَأَقُولُ سُحْقًا سُحْقًا))۔ (صحیح مسلم1/218) [سنو! کچھ لوگوں کو میرے حوض سے بھگایا جائے گا جس طرح بھٹکے ہوئے اونٹ کو بھگایا جاتا ہے۔ میں انھیں آواز دوں گا : سنو،ادھر آؤ۔ تو کہا جائے گا : انھوں نے آپ کے بعد تبدیلی کردی تھی۔ تو میں کہوں گا: دوری ہو، دوری ہو۔(بھگاؤ،دور کرو) ]


دین پر بدعت کے برے اثرات
گذشتہ سطور میں ان مفاسد کا تذکرہ تھا جن سے خود بدعتی اپنی بدعت کی بنا پر متاثر ہوتا ہے ۔ اب ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ بدعت کے اثرات دین پر کیا ہوتے ہیں ۔
بدعت کی وجہ سے چونکہ دین میں حذف واضافہ اور کتر بیونت ہوتی ہے اس لئے اس کے بہت سارے برے اثرات دین پر بھی پڑتے ہیں ۔ چند اختصار کے ساتھ پیش ہیں ۔
1۔ سنتوں کا مردہ ہونا
                بدعت سدا اپنے مقابل کی سنت کو ختم کردیتی ہے۔ جب ایک بدعت شروع ہوتی ہے تو ایک سنت ضرور مردہ ہوجاتی ہے اور رفتہ رفتہ معروف منکر میں اور منکر معروف میں بدل جاتا ہے۔
                حسان بن عطیہ محاربی رحمہ اللہ  فرماتے ہیں : مَا ابْتَدَعَ قَوْمٌ بِدْعَةً فِى دِينِهِمْ إِلاَّ نَزَعَ اللَّهُ مِنْ سُنَّتِهِمْ مِثْلَهَا، ثُمَّ لاَ يُعِيدُهَا إِلَيْهِمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ. (الدارمی 1/45۔وسندہ صحیح) [جب کوئی قوم اپنے دین میں کوئی بدعت ایجاد کرتی ہے تو الله  تعالی اسی جیسی ایک سنت اٹھا لیتا ہے پھر تاقیامت اسے ان تک واپس نہیں لوٹاتا]۔
                اسی لئے سلف صالحین نے بہر طور بدعت اور اہل بدعت کی تردید کی، ان کی برائیوں کا راز فاش کیا، لوگوں کو ان کی تعظیم وتوقیر اور صحبت وہم نشینی سے روکا، ان کی طرف سے ہمہ قسم کی اذیت رسانیوں پر صبر کیا اور سنتوں کا اظہار واعلان کرتے رہے۔
                یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ معاملہ صرف بدعتوں کے زندہ ہونے اور سنتوں کے مردہ ہونے کی حد تک باقی نہیں رہتا بلکہ اس سے بڑھ کر سنت اور اہل سنت سے بغض وعداوت اور ان پر الزام تراشیوں تک پہنچ جاتا ہے۔
                بدعت کے مفاسد کسی حد پرنہیں رکتے۔ بات یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ نئی حد بندیوں، خودساختہ اصولوں، جدید تراشیدہ قاعدوں اور خواہشات نفس کی بنیاد پر ایجاد کردہ رسموں کی وجہ سے اہل بدعت کا گروہ دین اسلام کے سوا کسی نئے دین کا حامل معلوم ہونے لگتا ہے۔ ہر بدعتی گروہ کے سیکھنے سکھانے، قبول وانکار اور دوستی ودشمنی کا جداگانہ معیار ہوتا ہے۔ ہر معاملہ میں اس کا اپنا طریقہ،اپنا طرز عمل،اور اپنی مخصوص اصطلاحات ہوتی ہیں۔اس کی تمام علامتیں اور جملہ شعارات ایسے ہوتے ہیں گویا وہ کوئی مستقل شریعت ہو۔
2۔ ترک کتاب وسنت
                کتاب وسنت جو دین حق کا سر چشمہ ہے اور ہر قسم کا علم نافع اور عمل صالح اسی سے مل سکتا ہے، ہر بدعتی گروہ نے اسے پس پشت ڈال دیا ہے۔ یا کم ازکم اپنی بدعت کے مخالف نصوص کو ترک کردیا ہے۔ یا ایسی بے جاتاویل وتردید کا طریقہ اختیار کیا ہے جو تکذیب کے مترادف ہے۔ اسی لئے اگر رسول پاک eبروز قیامت یہ شکوہ کریں گے تو بے جا نہ ہوگاکہ: ﮋ ﯚ  ﯛ     ﯜ  ﯝ  ﯞ  ﯟ  ﯠ  الفرقان: ٣٠ [اے میرے رب! بے شک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا]۔
                بدعتوں کی بنا پر مختلف پہلؤوں سے نصوص شرعیہ معطل ومہجور ہیں، جن میں سے چند پہلو حسب ذیل ہیں :
١۔ کتاب وسنت سے علم وہدایت اور ایمان ویقین تلاش نہ کرنا۔
٢۔ اختلافات کے وقت ان سے فیصلہ لینے نہ جانا اور ان کا فیصلہ پانے پر سر تسلیم خم نہ کرنا۔
٣۔ ان سے دلوں کی بیماریوں (جن کا خلاصہ شبہات وشہوات ہیں) کا علاج حاصل کرنے اور شفا طلب کرنے کی کوشش نہ کرنا۔
                یہی وجہ ہے کہ آج بیشتر مسلمان حق وہدایت کی معرفت اور رب کریم کی حقیقی اور سچی عبادت کی دولت سے محروم ہیں۔ انھیں اہل بدعت نے ہدایت کے بجائے ضلالت اور حق کے بجائے باطل پرڈال دیا ہے۔


سماج پر بدعت کے برے اثرات
بدعت کے اثرات ہمہ گیر ہوتے ہیں ۔ نہ صرف بدعتی اور دین حق اس سے متاثر ہوتا ہے بلکہ سماج بھی اس کے برے اثرات سے محفوظ نہیں رہتا ۔ ذیل میں سماج پر اس کے برے اثرات کا ذکر کیا جاتا ہے۔
1۔ اختلافات اور فرقہ بندی
                اختلافات اور فرقہ بندی سے قرآن مجید کی بیشتر آیات میں روکا گیا ہے،اس کے مفاسد کسی صاحب نظر سے مخفی نہیں۔
                بدعت کی وجہ سے کس طرح اختلافات پیدا ہوتے اورکس طرح  فرقہ بندی ہوتی ہے؟ اس کی وضاحت اس طرح ہے کہ ہر بدعتی اپنی بدعت کو پھیلانا اور عام کرنا چاہتا ہے،اپنے ماننے والوں کی تعداد میں اضافہ کا خواہش مند ہوتا ہے، اور یہ چیز چونکہ سنت اور اہل سنت کی مخالفت، ان پر بے جا الزام تراشی اور ان سے بغض وعداوت کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی اس لئے یہ سب کچھ کیا جاتا ہے۔
تاریخ اسلام کا ایک سرسری جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے اختلافات اور گروہ بندیوں کا سب سے بڑا سبب اہل بدعت رہے ہیں ۔ سب سے پہلے خوارج مسلمانوں سے الگ ہوئے اور پھر بعد کے مبتدعہ انھیں کی روش پر گامزن رہے ۔ بدعتیوں نے صرف اہل سنت کی مخالفت پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کے خلاف معرکہ آرائی کی اور تلوار اٹھانے سے بھی باز نہ رہے ۔ اگر یہ نہ ہوسکا تو امراء وسلاطین اور شاہان وقت کی قربت اختیار کرکے اہل سنت کی اذیت رسانی کے لئے خفیہ تدبیریں اور سازشیں کیں ۔ غرضیکہ مسلمان اہل بدعت کی بنا پر ہمیشہ مبتلائے مصائب رہے ۔ ہم عہد حاضر میں دیکھ رہے ہیں کہ سامراج نے کس طرح تصوف کو پروان چڑھایا تاکہ مسلمانوں کے اندر سے عزت وجہاد کی روح کو ختم کیا جاسکے ۔
2۔ آفات ومصائب
                بدعت کا ایک برا انجام یہ بھی ہے کہ جب جب لوگ سنت کو چھوڑ کر بدعت کو اپناتے ہیں تو الله  تعالی انھیں فتنوں میں مبتلا کردیتا ہے۔ وہ باہم دست وگریباں ہوجاتے ہیں۔ ان کے دشمن ان پر مسلط ہوجاتے ہیں۔ فرمان باری ہے : ﮋ ﮧ  ﮨ  ﮩ  ﮪ  ﮫ  ﮬ  ﮭ  ﮮ   ﮯ  ﮰ  ﮱ  ﯓ  ﯔ  ﯕ  ﯖ  ﯗ  ﯘ  ﯙ  ﯚ    ﯛ  ﯜ ﮊ الأنعام: ٦٥  [آپ کہئے کہ وہ الله  اس پر بھی قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب تمھارے اوپر سے بھیج دے یا تمھارے پاؤں تلے سے یا کہ تم کو گروہ در گروہ کرکے سب کو بھڑادے اور تمھارے ایک کو دوسرے کی لڑائی چکھادے]۔
                یہ بلا ہی کیا کم ہے کہ دشمنان اسلام نے اسلامی دعوت اور اسلامی بیداری کی راہ روکنے کے لئے ان بدعتوں کا سہارا لیا اور مسلمانوں کو ایک دوسرے سے لڑا کر ان کی طاقت کمزور کردی۔


خاتمہ:
بدعت کا مقابلہ کس طرح کیا جاسکتا ہے ؟
بدعت کی ہولناکیوں سے آگاہ ہونے کے بعدہمارا یہ فرض بنتا ہے کہ ہر ممکن طریقہ سے اس کا مقابلہ کریں، تاکہ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تباہ کاریوں کا خاتمہ کیا جاسکے،یا کم ازکم اس میں تخفیف ضرور کی جاسکے۔
میری ناقص رائے کے مطابق بدعت کے مقابلہ کے لئے حسب ذیل طریقے اپنائے جاسکتے ہیں :
Œ۔ بدعت کی حقیقت اور اس کے دنیوی اور اخروی مفاسد اور مسلم معاشرہ کو تباہی سے دوچار کرنے میں اس کے تاریخی کردار کا خود بھی علم رکھا جائے اور دوسروں کو بھی بتلایاجائے ۔
۔ ہر چھوٹی بڑی بدعت سے اجتناب کیا جائے اور دوسروں کو بھی اس سے بچانے کی کوشش کی جائے۔
Ž۔ علمی اور عملی طور پر سنت کی نشر واشاعت کی جائے کیونکہ جب سنت لوگوں کی نگاہ سے اوجھل رہتی ہے تب ہی بدعات کا ظہور ہوتا ہے۔
۔ حکمت اور موعظت حسنہ کے ذریعے دعوت الی اللہ اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فريضہ انجام دیا جائے ۔ جس طرح ایک مخلص ڈاکٹر اپنے مریض کا علاج کرتا ہے ٹھیک اسی طرح کی خیرخواہی کا جذبہ رکھاجائے ۔
۔ اہل بدعت کی کتابیں اور کیسٹیں عوام میں پھیلنے سے روکا جائے تاکہ نادان عوام ان کے شبہات ووساوس کا شکار نہ ہوسکیں ۔
۔ جمعہ کے خطبوں ، وعظ کی محفلوں اور دیگر مختلف موقعوں پر اہل بدعت کے زیغ وضلال کی کھل کر نشان دہی کی جائے اور اس کے خلاف علمی وفکری بیداری پیداکی جائے ۔
۔ مدارس کے نصاب تعلیم میں ایسی کتابیں داخل کی جائیں جن کے ذریعہ طلبہ بدعت اور اہل بدعت کے بارے میں آگاہ ہوسکیں اور یہ جان سکیں کہ ان کے ساتھ ہمارا کیسا رویہ اور کیسا سلوک وبرتاؤ ہونا چاہئے۔
n B n

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق