الاثنين، 22 أبريل 2013

فتنوں سے ہوشیار




   التحذير من الفتن


فتنوں سے ہوشیار


اعداد:
عبدالہادی عبدالخالق مدنی
کاشانۂ خلیق، اٹوا بازار ،سدھارتھ نگر ،یوپی
داعی احساء اسلامک سینٹر ،سعودی عرب



فہرست مضامین
المحتويات
صفحہ
موضوعات
مقدمة
4
مقدمہ
معنى الفتنة
5
فتنہ کا مفہوم
أسباب الفتن
10
فتنوں کے اسباب
1-    مخالفة الله والرسول
10
۱۔ اللہ ورسول کی خلاف ورزی
2-    الاختلاف بين المسلمين
12
۲۔ مسلمانوں کا باہمی اختلاف 
من الفتن العامة
14
بعض اہم فتنے
1-    فتنة المال والجاه
14
۱۔ جاہ ومال کا فتنہ
2-    فتنة النساء
16
۲۔ عورتوں کا فتنہ
3-    فتنة الشرك
21
۳۔ شرک کا فتنہ
4-    فتنة التفجير
23
۴۔ بم دھماکوں کا فتنہ
وسائل الوقاية من الفتن
31
فتنوں سے حفاظت کے وسائل
1-    طاعة الله والرسول
31
۱۔ اللہ ورسول کی اطاعت
2-    التمسك بالكتاب والسنة
31
۲۔کتاب وسنت سے وابستگی
3-    مراقبة القلب
33
۳۔ دل کی نگرانی
4-    الرجوع إلى الله
35
۴۔ اللہ کی طرف واپسی




مقدمہ
الحمد لله, والصلاة والسلام على رسول الله, أما بعد:
زیر نظر کتاب "فتنوں سے ہوشیار" دراصل ایک تقریر ہے جو احساء اسلامک سینٹر ہفوف کے لیکچر ہال میں 15/محرم الحرام 1429ھ مطابق 24/جنوری 2008ء بروز جمعرات کو کی گئی۔ اس کے اندر فتنہ کے مفہوم، اس کے اسباب، بعض اہم فتنوں کی نشان دہی اور ان سے بچنے کے وسائل پر گفتگو کی گئی ہے۔ اس کی اہمیت وافادیت کو سامنے رکھتے ہوئے اسے کتابی شکل دے دی گئی ۔ نیز نظرثانی کرکے مناسب ترمیم اور ضروری حذف واضافے بھی کئے گئے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اسے ہر خاص وعام کیلئے نافع بنائے ۔اس کے مرتب اور اس کی نشرواشاعت میں معاون ہر فرد کو جزائے خیر سے نوازے۔ آمین۔
عبد الہادی عبد الخالق مدنی
کاشانۂ خلیق۔ اٹوا بازار۔سدھارتھ نگر۔یوپی
داعی احساء اسلامک سینٹر ہفوف ، سعودی عرب
1431 ھ/ 2010 ء



فتنہ کا مفہوم
فتنہ عربی زبان کا ایک ایسا مشترک لفظ ہے جو متعدد معنوں کے لئے بولاجاتا ہے۔ امتحان وآزمائش ، آگ سے جلانا اور سزا دینا، فریب خوردگی، فضیحت ، جنون، قتل، گمراہی و ضلالت اور گناہ وغیرہ کے معنوں میں فتنہ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔
قرآن مجید میں بھی متعدد معنوں میں اس لفظ کا استعمال ہوا ہے۔
¡  امتحان وآزمائش : چنانچہ مندرجہ ذیل آیات ملاحظہ ہوں۔
ارشاد باری ہے۔ ﮋ ﭪ  ﭫ  ﭬ  ﭭ  ﭮ  ﭯ  ﭰ  ﭱ  ﭲ  ﭳ  ﭴﮊ  البقرة: ١٠٢ (وہ دونوں[ہاروت وماروت] بھی کسی شخص کو اس وقت تک نہیں سکھاتے تھے جب تک یہ نہ کہہ دیں کہ ہم تو ایک آزمائش ہیں، تو کفر نہ کر۔)
نیز ارشاد ہے: ﮋ ﭑ  ﭒ  ﭓ  ﭔ  ﭕ  ﭖ  ﭗ  ﭘ   ﭙ  ﭚ  ﭛﭜ  ﭝ  ﭞ  ﭟ  ﭠ  ﭡ   الانعام: ٥٣  (اور اسی طرح ہم نے بعض کو بعض کے ذریعہ سے آزمائش میں ڈال رکھا ہے تاکہ یہ لوگ کہاکریں : کیا یہ لوگ ہیں کہ ہم سب میں سے ان پر اللہ تعالی نے فضل کیا ہے۔ کیا یہ بات نہیں ہے کہ اللہ تعالی شکرگزاروں کو خوب جانتا ہے۔)
نیز ارشاد ہے: ﮋ ﭱ  ﭲ  ﭳ  ﭴ  ﭵ  ﭶ  ﭷ   ﭸ  ﭹ  ﭺ  ﭻ   الانفال: ٢٨  (اور تم اس بات کوجان رکھوکہ تمھارے اموال اور تمھاری اولاد ایک امتحان کی چیز ہے۔ اور اس بات کو بھی جان رکھو کہ اللہ تعالی کے پاس بڑا بھاری اجر ہے۔)
نیز ارشاد ہے: ﮋ ﯿ  ﰀ  ﰁ  ﰂﰃ  ﰄ  ﰅ  ﰆ    الأنبياء: ٣٥ (ہم بطریق امتحان تم میں سے ہر ایک کو برائی بھلائی میں مبتلا کرتے ہیں، اور تم سب ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے۔)
  ¢ کفر وشرک : مندرجہ ذیل آیات ملاحظہ ہوں۔
ارشاد باری ہے۔ ﮋ ﭙ   ﭚ  ﭛ  ﭜﮊ البقرة: ١٩١ (اور فتنہ [یعنی کفر وشرک] قتل سے زیادہ سخت ہے۔)
نیز ارشاد ہے: ﮋ ﭶ  ﭷ  ﭸ  ﭹ  ﭺ    ﭻ      ﭼ   ﭽﭾ  ﭿ  ﮀ  ﮁ    ﮂ  ﮃ    ﮄ     ﮅ     ﮆ   البقرة: ١٩٣ (اور ان سے لڑو جب تک کہ فتنہ [یعنی کفر وشرک] نہ مٹ جائے اور اللہ تعالی کا دین غالب نہ آجائے، اور اگر یہ رک جائیں [تو تم بھی رک جاؤ] زیادتی تو صرف ظالموں پر ہی ہے۔)
نیز ارشاد ہے: ﮋ ﮉ  ﮊ  ﮋ  ﮌ ﮊ البقرة: ٢١٧ (اور فتنہ [یعنی کفر وشرک] قتل سے زیادہ بڑا  ہے۔)
£  گمراہ کرنا : مندرجہ ذیل آیات ملاحظہ ہوں۔
ارشاد باری ہے۔ ﮋ ﮗ   ﮘ    ﮙ  ﮚ  ﮛ  ﮜ  ﮝ  ﮞ  ﮟ  ﮠ  ﮡ   ﮢ  ﮣﮤ  ﮥ  ﮦ  ﮧ  ﮨ  ﮩ  ﮪ  ﮫ  ﮬ   ﮭ  ﮮ  ﮯ  ﮰ  ﮱﯓ  ﯔ  ﯕ  ﯖ  ﯗ  ﯘﯙ   ﯚ  ﯛ  ﯜ    ﯝ  ﯞ  ﯟ  ﯠ       ﯡ  ﯢ  ﯣﯤ  ﯥ  ﯦ     ﯧ   ﯨ  ﯩ  ﯪ   آل عمران: ٧ (وہی اللہ تعالی ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری جس میں واضح مضبوط آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ آیتیں ہیں ۔ پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں ، فتنہ کی طلب [یعنی گمراہ کرنے کے لئے]اور ان کی مراد کی جستجو کے لئے، حالانکہ ان کے حقیقی مراد کو سوائے اللہ تعالی کے کوئی اور نہیں جانتا، اور پختہ ومضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان لاچکے، یہ ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقل مند حاصل کرتے ہیں۔)
نیز ارشاد ہے: ﮋ ﯢ  ﯣ  ﯤ  ﯥ  ﯦ  ﯧ  ﯨ  ﯩ  ﯪ  ﯫﮊ  المائدة: ٤١ (اور جس کا فتنہ[یعنی گمراہ کرنا] اللہ کو منظور ہو تو آپ اس کے لئے کسی چیز کے مختار نہیں۔)
 ¤ قتل یا قید : مندرجہ ذیل آیت ملاحظہ ہو۔
ارشاد باری ہے۔ ﮋ ﯽ  ﯾ   ﯿ  ﰀ  ﰁ  ﰂ  ﰃ  ﰄ  ﰅ  ﰆ  ﰇ  ﰈ      ﰉ   ﰊ  ﰋ   ﰌ  ﰍﰎ  ﰏ    ﰐ  ﰑ     ﰒ   ﰓ  ﰔ  ﰕ    النساء: ١٠١ (اور جب تم سفر میں جارہے ہو تو تم پر صلاۃ کے قصر کرنے میں کوئی گناہ نہیں ، اگر تمھیں ڈر ہو کہ کافر تمھیں مبتلائے فتنہ [قتل یا قید یا اذیت رسانی] کریں گے، یقینا ً کافر تمھارے کھلے دشمن ہیں۔)
à دھوکا اور فریب : مندرجہ ذیل آیت ملاحظہ ہو۔
ارشاد باری ہے۔ ﮋ ﮊ  ﮋ  ﮌ  ﮍ   ﮎ  ﮏ    ﮐ  ﮑ  ﮒ  ﮓ   الأعراف: ٢٧ (اے اولاد آدم! شیطان تم کو کسی فتنہ [دھوکا اور فریب] میں نہ ڈال دے جیسا اس نے تمھارے ماں باپ کو جنت سے باہر کرادیا۔)
Ä  عذاب، وبال اور مصائب : مندرجہ ذیل آیت ملاحظہ ہو۔
ارشاد باری ہے۔ ﮋ ﯱ  ﯲ  ﯳ     ﯴ  ﯵ  ﯶ   ﯷ  ﯸﯹ  ﯺ  ﯻ  ﯼ  ﯽ  ﯾ ﯿ   الأنفال: ٢٥ (اور تم ایسے فتنہ [عذاب، وبال اور مصائب] سے بچو کہ جو خاص کر صرف ان ہی لوگوں پر واقع نہ ہوگاجو تم میں سے گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں، اور یہ جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔)
عبداللہ بن عباسt  مذکورہ آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیںأمر اللہ المؤمنین ألا یقروا المنکر بین أظہرھم فیعمھم اللہ بالعذاب (تفسیر طبری) اللہ تعالی نے اہل ایمان کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنے درمیان منکرات کو باقی نہ رکھیں ورنہ سب پر اللہ کا عذاب آجائے گا۔



فتنہ کے اسباب
فتنہ جنم لینے کے بہت سے عوامل اور اسباب و محرکات ہیں، ہم صرف دو اہم اسباب کا ذکر کریں گے۔
پہلا سبب: اللہ اور اس کے رسول کی خلاف ورزی
ارشاد باری ہے: ﮋ ﮍ  ﮎ    ﮏ  ﮐ  ﮑ   ﮒ  ﮓ  ﮔ  ﮕ  ﮖ      ﮗ  ﮘ  ﮙ النور: ٦٣  (سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انھیں ڈرتے رہنا چاہئےکہ کہیں ان پر فتنہ [زبردست آفت] نہ آپڑے یا انھیں دردناک عذاب نہ پہنچے۔)
نیز ارشاد ہے: ﮋ ﯛ  ﯜ    ﯝ  ﯞ  ﯟ  ﯠ  ﯡ   ﯢ  ﯣ   ﯤﯥ   ﯦ  ﯧ  ﯨ  ﯩ  ﯪ  ﯫ  ﯬ  ﯭ  ﯮ    ﯯ ﯰ  ﯱ  ﯲ  ﯳ     ﯴ  ﯵ  ﯶ   ﯷ  ﯸﯹ  ﯺ  ﯻ  ﯼ  ﯽ  ﯾ  ﯿ    الأنفال: ٢٤ – ٢٥ (اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول کے کہنے کو بجا لاؤ، جب کہ رسول تم کو تمھاری زندگی بخش چیز کی طرف بلاتے ہوں۔ اور جان رکھو کہ اللہ تعالی آدمی کے اور اس کے قلب کے درمیان آڑ بن جایا کرتا ہے اور بلا شبہ تم سب کو اللہ ہی کے پاس جمع ہونا ہے۔اور تم ایسے فتنہ [عذاب، وبال اور مصائب] سے بچو کہ جو خاص کر صرف ان ہی لوگوں پر واقع نہ ہوگاجو تم میں سے گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں، اور یہ جان رکھو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔)
                پہلی آیت میں اللہ اور اس کے رسول  کے حکم کی تعمیل کا حکم دیا گیا ہے پھر دوسری آیت میں فتنہ سے بچنے کے لئے کہا گیا ہے۔ اس ترتیب سے معلوم ہوتا ہے کہ عام فتنوں سے بچنے کا سب سے بہترین ذریعہ اللہ اور اس کے رسول e  کے حکموں کی تعمیل ہے۔
                آج مسلمان پوری دنیا میں مختلف فتنوں کا شکار اسی وجہ سے ہیں کیونکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے حکموں کی تعمیل میں کوتاہی کررہے ہیں، بلکہ بہت سے بدنصیب ان حکموں کی صریح مخالفت کررہے ہیں۔
                عالم اسلام پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ اللہ کے حکموں کی کس قدر مخالفت ہورہی ہے۔ خصوصا سب سے بڑا حکم اللہ کی توحید کو لوگ چھوڑ بیٹھے ہیں اور شرک میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ غیر اللہ کو حاجت روائی ومشکل کشائی کے لئے پکارا جاتا ہے۔ تعویذ گنڈے باندھے جاتے ہیں۔ یا رسول مدد اور یاعلی مدد کے نعرے لگائے جاتے ہیں۔ اللہ ہم سب کو شرک سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
دوسرا سبب: مسلمانوں کا باہمی اختلاف
اللہ تعالی نے مسلمانوں کو بھائی بھائی قرار دیا ہے لیکن افسوس کہ مسلمان اسلامی اخوت کے شعور سے محروم ہیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ﮋ ﯜ  ﯝ  ﯞ   الحجرات: ١٠ (بے شک ایمان والے آپس میں بھائی بھائی ہیں) نیز  ارشاد ہے: ﮋﮑ  ﮒ  ﮓ   ﮔ  ﮕﮊ التوبة: ٧١ (ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں)۔
اس ایمانی اخوت کا تقاضا یہ ہے کہ ایک مسلمان کو تکلیف ہو تو سارے مسلمان تڑپ جائیں جیسا کہ حدیث میں ہے:
عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِي تَوَادِّهِمْ وَتَرَاحُمِهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ, إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى». (متفق عليه)
نعمان بن بشیر t  سےروایت ہے کہ اللہ کے رسول e نے فرمایا: «باہمی محبت ورحمت اور شفقت میں ایمان والوں کی مثال ایک جسم کی طرح ہےکہ اگر جسم کا ایک حصہ شکایت زدہ ہوجائے تو پورا جسم تپ اور بیداری سے اس کا ساتھ دیتا ہے»۔
ظاہر ہے کہ جب مسلمانوں کے درمیان اسلامی رابطہ کمزور پڑجائے گا تو وہ غیروں کے لئے لقمۂ تر بن جائیں گے۔ ارشاد باری ہے: ﮋ ﮫ   ﮬ  ﮭ  ﮮ  ﮯﮰ  ﮱ   ﯓ  ﯔ  ﯕ  ﯖ   ﯗ  ﯘ  ﯙ  ﯚ   الأنفال: ٧٣  (کافر آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو ملک میں فتنہ ہوگا اور زبردست فساد ہوجائے گا)۔
                آج مسلمانوں کے اختلافات پر ایک سرسری نظر ڈالئے تو معلوم ہوگا کہ ان میں دین کے اندر بھی اختلاف پایاجاتا ہے اور دنیا میں بھی۔دینی اختلافات اور فرقہ بندی کا حال یہ ہے کہ کوئی صوفی ہے تو کوئی معتزلی ہے, کوئی اشعری ہے تو کوئی ماتریدی ہے ۔ قومیت اور علاقائیت کا تعصب بھی اپنا کام کررہا ہے۔ کوئی ترکی ہے تو کوئی فارسی ہے اور کوئی عربی ہے تو کوئی عجمی ہے۔
ایسے اختلاف کے حالات میں فتنہ نہیں ہوگا تو کیا ہوگا۔!!
فتنوں سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ ان اختلافات کو کتاب وسنت اور منہج سلف کی روشنی میں حل کیا جائے اور سلف صالحین کی روش پر گامزن ہواجائے۔
بعض اہم فتنے
Z  جاہ ومال کا فتنہ
مال اس امت کا خاص فتنہ ہے۔ نبی e کا فرمان ہے: «إن لكل أمة فتنة و إن فتنة أمتي المال».(أخرجه الترمذي وصححه الألباني) «ہر امت کا ایک خاص فتنہ ہوتا ہے، میری امت کا فتنہ مال ہے»۔
                مال کی کمی (فقرومحتاجی) اور مال کی زیادتی (امیری ودولت مندی) دونوں ہی انسان کے لئے فتنہ ہیں۔لیکن اس امت کے لئے مال کی کمی شاید اتنا بڑا فتنہ نہیں جتنا بڑا فتنہ مال کی زیادتی ہے۔ اسی لئے اللہ کے رسول e  کا ارشاد ہے: «فَوَ اللَّهِ مَا الْفَقْرَ أَخْشَى عَلَيْكُمْ, وَلَكِنِّي أَخْشَى عَلَيْكُمْ أَنْ تُبْسَطَ الدُّنْيَا عَلَيْكُمْ, كَمَا بُسِطَتْ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ, فَتَنَافَسُوهَا كَمَا تَنَافَسُوهَا, وَتُهْلِكَكُمْ كَمَا أَهْلَكَتْهُمْ». (متفق عليه) «اللہ کی قسم! مجھے تمھارے بارے میں تنگدستی کا اندیشہ نہیں ہے، لیکن مجھے اندیشہ اس بات کا ہے کہ تم پر دنیا کشادہ کردی جائے جیسا کہ تم سے پچھلی امتوں پر کشادہ کردی گئی تھی، اور پھر تم آپس میں(حصول دنیا کے لئے) اسی طرح مقابلہ کرنے لگو جیسا کہ ان لوگوں نے مقابلہ کیا تھا، پھر تم کو دنیا اسی طرح ہلاک کردے جیسا کہ ان لوگوں  کو ہلاک کیا تھا»۔
آج مال کے تعلق سے لوگوں کی اکثریت کا حال یہ ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ حاصل کرلینے کے لئے ایک ہوڑ لگی ہوئی ہے۔ نہ ہی حلال وحرام کی کوئی پرواہ ہے اور نہ ہی دنیا وآخرت کے برے انجام کی۔ یہ ایک ایسی بھوک ہے جو کبھی مٹتی نہیں۔  نبی e نے سچ فرمایا ہے کہ ایک وقت لوگوں پر یقیناً ایسا آنے والا ہے جب آدمی کو اس بات کی پرواہ نہیں ہوگی کہ اس نے مال کو حلال سے کمایا ہے یا حرام سے۔ 
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ t عَنْ النَّبِيِّ r قَالَ: «لَيَأْتِيَنَّ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ, لَا يُبَالِي الْمَرْءُ بِمَا أَخَذَ الْمَالَ, أَمِنْ حَلَالٍ أَمْ مِنْ حَرَامٍ؟». (صحيح البخاري)
مال کے حریص مال جمع کرنے کے لئے تمام ذرائع استعمال کرتے ہیں۔ نہ سود سے اجتناب کرتے ہیں اور نہ رشوت سے، نہ حیاسوز تصویروں ، سی ڈیز، ڈی وی ڈیز اور فحش فلموں کے کاروبار سے ، نہ منشیات کی اسمگلنگ سے۔ وہ ناپ تول میں کمی بھی کرتے ہیں، چوری اور ڈاکہ زنی بھی کرتے ہیں، فریب اور دھوکہ دہی کی ہر صورت اپناتے ہیں۔غرضیکہ مال جمع کرنے کے لئے وہ شروفساد کے تمام دروازوں پہ دستک دیتے ہیں اور جو ایسا نہیں کرتے انھیں احمق یا فرسودہ خیال سمجھتے ہیں۔
Z  عورتوں کا فتنہ
عورتیں ایک مرد کے لئے شدید ترین فتنہ ہیں۔ نبی e کا فرمان ہے: «مَا تَرَكْتُ بَعْدِي فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَى الرِّجَالِ مِنْ النِّسَاءِ». (صحيح البخاري ومسلم)  «میں نے اپنے بعد مردحضرات کے لئے عورتوں سے زیادہ نقصان دہ کوئی فتنہ نہیں چھوڑا »۔
عورتوں کی فتنہ انگیزی سے متعلق زیادہ کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں۔ یہ ایسی واضح بات ہے جس کے اندر دو دانشمندوں کا کبھی اختلاف نہیں ہوسکتا۔ البتہ اس فتنہ سے بچنے کے راستے کیا ہیں؟اور وہ کون سے وسائل وذرائع ہیں جنھیں اختیار کرکے ہم اس فتنہ سے محفوظ رہ سکتے ہیں؟ ذیل کی سطروں میں ہم اسے بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔
۱۔ ایمان
اللہ پر ایمان اور اس کی گرفت کا خوف ایک انسان کو وقتی خواہشات اور عارضی لذتوں سے محفوظ رکھنے کا زبردست ذریعہ ہے۔ اللہ کی نگرانی کا احساس حرام سے بچنے کے لئے ایک مسلمان میں حیرت انگیز کردار ادا کرتا ہے۔
۲۔ نگاہوں کی حفاظت
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے ایمان والوں کو نگاہوں کی حفاظت کا حکم دیا ہے، کیونکہ نگاہوں کو بے لگام چھوڑنا ہی حرام کاری وبدکاری کے برے انجام تک پہنچاتا ہے۔
۳۔ دل سے برے خیالات کو ہٹانا
دل میں برا خیال آتے ہی اگر اسےنکال باہر کیا گیا تو کوئی خیال باعث وبال نہیں بنتا، لیکن اگر کسی خیال کو سوچ بنا لیا جائے تو انجام بھیانک ہے۔ بقول شاعر ؏
اس کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا
۴۔ نکاح
اسلامی شریعت میں نوجوانوں کو نکاح کی ترغیب دی گئی ہے تاکہ فطری خواہش کو جائز طریقہ سے پورا کرنے کا موقعہ موجود ہو ۔
۵۔ صوم رکھنا اگر نکاح کی طاقت نہ ہو
رسول اکرم  e کی حدیث ہے: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بن مسعود t قَالَ قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ r : «يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ! مَنْ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ, فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ, وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ, فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ». (صحيح البخاري ومسلم) عبداللہ  بن مسعود t سے روایت ہے کہ ہم سے رسول اللہ e نے فرمایا: «اے جوانوں کی جماعت!تم میں سے جو شادی کی طاقت رکھے تو اسے نکاح کرلینا چاہئے کیونکہ یہ نگاہ کو پست رکھنے اور شرمگاہ کی حفاظت کا باعث ہے،اور جو نکاح کی طاقت نہیں رکھتا اسے صوم رکھنا چاہئے کیونکہ وہ خواہشات نفسانی کو توڑ دیتا ہے»۔
۶۔ بری صحبت سے پرہیز
رسول اکرم  e کی حدیث ہے: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ t أَنَّ النَّبِيَّ r قَالَ: «الرَّجُلُ عَلَى دِينِ خَلِيلِهِ, فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ مَنْ يُخَالِلُ». (رواه أبوداود والترمذي وحسنه الألباني) ابوہریرہ  tسے روایت ہے کہ نبی e نے ارشاد فرمایا: «آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، لہذا اسے غور کرنا چاہئے کہ وہ کس سے دوستی کررہا ہے»۔
۷۔ فتنہ کی جگہوں سے دوری
اپنے دین کی حفاظت کے لئے ہمیں ان تمام مقامات اور اشیاءسے دوری اختیار کرنی چاہئے جو فتنہ وفساد کا باعث ہیں؛ بازار سے، مخرب اخلاق میگزینوں اور رسالوں سے، حیا سوز فلموں، ٹی وی چینلوں، انٹر نیٹ کے ویب سائٹس اور عریاں اشتہارات سے۔وغیرہ وغیرہ
۸۔ گھر میں تلاوت قرآن اور نفلی عبادات
جب ایک شخص اپنے گھر میں قرآن کی تلاوت اور نفلی عبادات کرے گاتو اپنے گھر میں پہنچ کر انھیں نیکیوں کو یاد کرے گااور اس کے ذہن ودماغ میں برے خیالات اور وساوس نہیں پیدا ہوں گے۔اس کے برخلاف اگر کوئی شخص اپنے گھر کی دیواروں پر ناچنے گانے والیوں کی عریاں یا نیم برہنہ تصویریں آویزاں کرے گایا  اپنے کمپیوٹر، موبائیل اور البم میں ان کے فوٹو رکھے گاتو ظاہر ہے کہ اس کے دل ودماغ پر انھیں گندگیوں کا عکس ہوگا۔
۹۔ وقت کا مفید استعمال
وقت اللہ کی وہ عظیم نعمت ہے جس کی قدردانی سے اکثر لوگ محروم ہیں۔ نبیe کا ارشاد ہے: «نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنْ النَّاسِ الصِّحَّةُ وَالْفَرَاغُ». (صحيح البخاري) «دو نعمتوں کے بارے میں اکثر لوگ گھاٹے کا شکار ہیں، ایک صحت اور دوسرے فراغت»۔
وقت کو رکنا نہیں ہے۔ اگر ہم نے اس کا مفید استعمال نہیں کرلیا تو ظاہر ہے کہ یا تو بے فائدہ ضائع ہوگا،اور یہ بھی مضر ہی ہے،اور یا مضر کاموں میں استعمال ہوگا اور وہ مضرترین ہے۔
۱۰۔ آخرت کی نعمتوں کو یاد رکھنا
جب کسی دنیاوی عورت سے متعلق دل میں برے خیالات پیدا ہوں اور حرام کاری کا وسوسہ آئے تو اس وقت ہمیں جنت کی ان پاکیزہ اور حسین ترین حوروں کو یاد کرنا چاہئے جن سے اس برائی سے بچنے کی صورت میں ملنے کا سچا ربانی وعدہ ہمارے پاس موجود ہے ۔ یہ بھی یاد رہے کہ حوروں کی نعمت دائمی ہوگی جبکہ دنیاوی لذت کا انجام  چند منٹ کے بعد حسرت وافسوس اور ندامت کے سوا کچھ  نہیں ہوتا۔؏
چند کلیاں  نشاط  کی  چن  کر، مدتوں  محو یاس  رہتا  ہوں
تجھ سے ملنا خوشی کی بات سہی ،تجھ سے مل کر اداس رہتا ہوں


Z  شرک کا فتنہ
شرک سب سے عظیم فتنہ ہے ۔ شرک سارے فتنوں کی جڑ ہے۔ شرک اس بلند ترین مقصد سے انحراف ہے جس کے لئے اس کائنات کی تخلیق ہوئی۔ اس کائنات کی تخلیق کا مقصد توحید ہے۔ ارشاد باری ہے: ﮋ ﭳ   ﭴ  ﭵ  ﭶ  ﭷ  ﭸ    الذاريات: ٥٦ شرک توحید کی ضد ہے۔ اللہ تعالی نے شرک کو قتل سے زیادہ سنگین جرم قرار دیا ہے۔ ارشاد ہے: ﮋ ﮉ  ﮊ  ﮋ  ﮌ ﮊ البقرة: ٢١٧ (اور فتنہ [یعنی کفر وشرک] قتل سے زیادہ بڑا  ہے۔) نیز ارشاد ہے: ﮋ ﭶ  ﭷ  ﭸ  ﭹ  ﭺ    ﭻ      ﭼ   ﭽﭾ  ﭿ  ﮀ  ﮁ    ﮂ  ﮃ        ﮄ     ﮅ          ﮆ   البقرة: ١٩٣ (اور ان سے لڑو جب تک کہ فتنہ [یعنی کفر وشرک] نہ مٹ جائے اور اللہ تعالی کا دین غالب نہ آجائے، اور اگر یہ رک جائیں [تو تم بھی رک جاؤ] زیادتی تو صرف ظالموں پر ہی ہے۔)
سلف صالحین نے یہاں فتنہ کی تفسیر شرک سے کی ہے۔ چنانچہ تفسیر طبری میں عبداللہ بن عباس t  اور مجاہد وقتادہ H سے یہ تفسیر مروی ہے ۔ امام طبری خود اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:(حتى لا تكون فتنة = يعني: حتى لا يكون شركٌ بالله، وحتى لا يُعبد دونه أحدٌ، وتضمحلَّ عبادة الأوثان والآلهة والأنداد، وتكونَ العبادة والطاعة لله وحده دون غيره من الأصنام والأوثان) (تفسير الطبري)
                آج شرک کا فتنہ بہت بری طرح عالم اسلام میں اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہے۔  قبے اور مزارات، درگاہوں پر عرس اور میلے، مشرکانہ مراسم، نذرانے اور چڑھاوے، غیراللہ کے لئے ذبح وقربانی ، غیراللہ سے شفاطلبی، حاجت روائی ومشکل کشائی، فریادرسی ودعاطلبی، الغرض شرک کی وہ کوئی صورت باقی نہیں جو بت پرست اپنے بتوں کے ساتھ یا صلیب پرست اپنے صلیب یا عیسی یا مریم علیہم السلام کے ساتھ کرتے ہیں مگر مسلمانوں نے اسے اپنے مدفون بزرگوں کے لئے اختیار کرلیا ہے۔ آج مزارات پر وہی کچھ ہوتا ہے جو غیر مسلموں کے مندروں اور تیرتھ استھانوں میں ہوتا ہے۔آج ہم توحید سے بہت دور جاچکے ہیں ۔ ضرورت ہے کہ ہم دوبارہ اللہ کی نازل کردہ آخری کتاب قرآن مجید اور سنت صحیحہ کی طرف پلٹیں اور جس طرح سلف صالحین اور صحابہ وتابعین نے اسے سمجھا اور اس پر عمل کیا اسی طرح ہم بھی اسے اپنی زندگیوں میں برتیں۔


Z  بم دھماکوں کا فتنہ
آخر میں ہم عصر حاضر کے اس عظیم فتنہ سے متعلق گفتگو کرنا چاہتے ہیں جس نے اچھے اچھے عقلمندوں کے عقل وہوش کو گم کردیا ہے ۔ کم عمر وناتجربہ کار ، کتاب وسنت کے خالص علم سے عاری، منہج وفہم سلف سے ناآشنا، اپنی عقل ودانش پر مغرور، دینداری اور غیرت مندی کے جھوٹے فریب میں مبتلا چند نوجوان قرآن کریم کی من مانی تفسیر اور احادیث مبارکہ کی حسب خواہش تشریح کرتے ہیں، اور اس کے نتیجہ میں پوری امت اسلامیہ کو جنگ کی آگ میں جھونک دینا چاہتے ہیں ۔ امن ان کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ وہ اللہ کی زمین کو ہمیشہ اللہ کے بندوں کے خون سے رنگین دیکھنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے دین میں امن کو بڑی اہمیت حاصل ہے ۔ اسلام سلامتی سے اور ایمان امن سے مشتق ہے۔ اللہ کے نبی e کی ایک حدیث ہے:
 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ t قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ r : «الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ, وَالْمُؤْمِنُ مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ عَلَى دِمَائِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ» . قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ (وانظر صحيح الترمذي)
ابوہریرہ t سے مروی ہے کہ رسول اللہ e نے ارشاد فرمایا: «مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں، اور مومن وہ ہے جس سے انسانیت اپنے جان ومال کے بارے میں مامون رہے»۔ (ترمذی)
حدیث میں الناس کا لفظ استعمال ہوا ہے جو مسلم وکافر سب کو شامل ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ انسانیت کو امن کی ضرورت کھانے ، پینے اور پہننے کی ضرورت  سے بھی بڑھ کر ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جب ابراہیم u نے اللہ تعالی سے دعا مانگی تو پہلے امن مانگا پھر روزی طلب کی۔ ارشاد ہے: ﮋ ﯵ  ﯶ  ﯷ    ﯸ  ﯹ  ﯺ  ﯻ  ﯼ  ﯽ   ﯾ    ﯿ  ﰀ   البقرة: ١٢٦ (جب ابراہیم نے کہا: اے پروردگار! تو اس جگہ کو امن والا شہر بنا اور یہاں کے باشندوں کو پھلوں کی روزیاں دے۔)
اگر امن نہ ہو اور ہر طرف خوف ودہشت کا غلبہ ہو تو کھانے پینے اور پہننے میں کوئی لذت نہ رہ جائے گی۔
امن کی ضد خوف ہے جو  بلاؤں میں سب سے بڑی بلا ہے۔ خوف زدہ کو کہیں سکون وقرار نہیں ملتا، گھر میں نہ بازار میں۔ یہی وجہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے بلاؤں کا ذکر کیا تو خوف کو اول نمبر پہ رکھا۔ ارشاد ہے:
 ﮋ ﭠ  ﭡ  ﭢ  ﭣ  ﭤ   ﭥ  ﭦ  ﭧ  ﭨ  ﭩﭪ  ﭫ   ﭬ    ﭭ   البقرة: ١٥٥ (اور ہم کسی نہ کسی طرح تمھاری آزمائش ضرور کریں گے، دشمن کے ڈر سے، بھوک پیاس سے، مال وجان اور پھلوں کی کمی سے اور ان صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے۔)
 اگر راستے پرامن ہونے کے بجائے پرخطر ہوگئے تو لوگ ایک شہر سے دوسرے شہر کا سفر کس طرح کریں گے؟ غلے اور خوراک کے سامان ایک شہر سے دوسرے شہر کس طرح منتقل ہوں گے؟ اسی لئے اللہ تعالی نے ڈاکؤوں کے لئے جو پرامن راستوں کو پرخطر بنادیتے ہیں سخت ترین سزا مقرر فرمائی ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ﮋ ﭻ   ﭼ  ﭽ  ﭾ  ﭿ  ﮀ  ﮁ  ﮂ  ﮃ   ﮄ  ﮅ  ﮆ  ﮇ  ﮈ  ﮉ  ﮊ  ﮋ   ﮌ  ﮍ  ﮎ  ﮏ  ﮐ  ﮑ  ﮒﮓ  ﮔ   ﮕ  ﮖ  ﮗ  ﮘﮙ  ﮚ  ﮛ  ﮜ  ﮝ  ﮞ   ﮟ   المائدة: ٣٣ (جو اللہ تعالی اور اس کے رسول سے لڑیں اور زمین میں فساد کرتے پھریں ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کردیئے جائیں، یا سولی چڑھادیئے جائیں ،یا مخالف جانب سے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ دیئے جائیں، یا انھیں جلاوطن کردیا جائے، یہ تو ہوئی ان کی دنیوی ذلت اور خواری اور آخرت میں ان کے لئے بڑا بھاری عذاب ہے۔)
اسلام نے پانچ چیزوں کی حفاظت کا خصوصی طور پر زبردست انتظام کیا ہے۔ (۱) دین وایمان (۲) جسم وجان  (۳) عقل وخرد  (۴) عزت وآبرو   (۵) مال وجائداد
جو شخص ان پانچوں چیزوں میں سے کسی ایک پر ناحق حملہ کرے،اسلام نے ایسے حملے کو سخت ترین جرم قرار دیا ہے اور اس پر عبرتناک سزا مقرر کی ہے، اس سے قطع نظر کہ جس پر حملہ ہوا ہے یا جس نے حملہ کیا ہے  وہ کون ہے؟ مسلم ہے یا کافر معاہد؟
آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ وہ غیر مسلم جو مسلمانوں کے عہد اور امان میں ہیں ان کو بھی اپنی جان ومال کے متعلق وہی حقوق حاصل ہیں جو ایک مسلمان کو حاصل ہیں۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ﮋ ﯦ  ﯧ   ﯨ  ﯩ  ﯪ  ﯫ  ﯬ  ﯭ   ﯮ  ﯯ  ﯰ  ﯱ  ﯲ ﮊ التوبة: ٦ (اگر مشرکوں میں سے کوئی تجھ سے پناہ طلب کرے تو تو اسے پناہ دے دے یہاں تک کہ وہ کلام اللہ سن لے پھر اسے اپنی جائے امان تک پہنچادے)۔ نیز قتل خطا سے متعلق ارشاد ہے: ﮋ ﭵ  ﭶ   ﭷ  ﭸ  ﭹ  ﭺ  ﭻ  ﭼ  ﭽ   ﭾ  ﭿ  ﮀ  ﮁ  ﮂﮃ  ﮄ  ﮅ  ﮆ   ﮇ  ﮈ  ﮉ  ﮊ  ﮋ  ﮌﮍ  ﮎ   ﮏ  ﮐ  ﮑ  ﮒ   النساء: ٩٢ (اور اگر مقتول اس قوم سے ہو کہ تم  میں اور ان میں عہد وپیمان ہےتو خون بہا لازم ہے، جو اس کے کنبے والوں کو پہنچایا جائے اور ایک مسلمان غلام کا آزاد کرنا بھی [ضروری ہے]، پس جو نہ پائے اس کے ذمے دو مہینے لگاتار صوم ہیں، اللہ تعالی سے بخشوانے کے لئے، اور اللہ تعالی بخوبی جاننے والا اور حکمت والا ہے۔)
جب غلطی سے قتل ہوجانے پر یہ سزا ہے کہ دیت اور کفارہ مقرر کیا گیا ہے تو اگر جان بوجھ کر قتل کیا جائے تو اس کا کیا حکم ہوگا؟ ظاہر ہے کہ یہ زیادہ سنگین جرم ہوگا اور اس کا گناہ بھی زیادہ ہوگا۔ نبی e  کا ارشاد ہے:  عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيِّ r قَالَ: «مَنْ قَتَلَ مُعَاهَدًا لَمْ يَرِحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ, وَإِنَّ رِيحَهَا تُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ أَرْبَعِينَ عَامًا». (صحيح البخاري) «جو شخص کسی عہد وامان دیئے گئے کافر کو قتل کرے وہ جنت کی بو بھی نہ پائے گا حالانکہ جنت کی بو چالیس سال کی مسافت تک پائی جاتی ہے»۔
آج جو لوگ امن کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ کسی بھی جگہ بم دھماکے کرتے ہیں۔ کبھی ریاض میں بم دھماکے کرتے ہیں اور کبھی الخبر میں اور کبھی کسی اور شہر میں، بے گناہوں کی جان لیتے ہیں، مال واسباب کو تباہ کرتے ہیں، عورتوں کو بیوہ اور بچوں کو یتیم کرتے ہیں، یہ لوگ قرآن مجید کی اس آیت کے ضمن میں آتے ہیں، ارشاد ہے: ﭯ   ﭰ  ﭱ  ﭲ  ﭳ  ﭴ  ﭵ  ﭶ  ﭷ  ﭸ   ﭹ  ﭺ  ﭻ  ﭼ     ﭽ  ﭾ  ﭿ  ﮀ  ﮁ  ﮂ  ﮃ   ﮄ  ﮅ  ﮆ  ﮇ  ﮈ  ﮉ  ﮊﮋ  ﮌ   ﮍ  ﮎ  ﮏ  ﮐ  ﮑ  ﮒ  ﮓ  ﮔ  ﮕ  ﮖ  ﮗ    ﮘﮙ  ﮚ  ﮛﮜ  ﮝ  ﮞ  ﮟ   البقرة: ٢٠٤ – ٢٠٦ (بعض لوگوں کی دنیاوی غرض کی باتیں آپ کو خوش کردیتی ہیں اور وہ اپنے دل کی باتوں پر اللہ کو گواہ کرتا ہے، حالانکہ دراصل وہ زبردست جھگڑالو ہے۔ جب وہ لوٹ کر جاتا ہے تو زمین میں فساد پھیلانے کی اور کھیتی اور نسل کی بربادی کی کوشش میں لگا رہتا ہےاور اللہ تعالی فساد کو ناپسند کرتا ہے۔ اور جب اس سے کہا جائے کہ اللہ سے ڈر تو تکبر اور تعصب اسے گناہ پر آمادہ کردیتا ہے، ایسے کے لئے بس جہنم ہی ہےاور یقینا ًوہ بدترین جگہ ہے۔)
تعجب تو اس بات پر ہے کہ یہ فسادی اپنے اس مفسدانہ عمل اور تخریبی کارروائی کو جہاد کا نام دیتے ہیں، حالانکہ یہ اللہ پر سب سے بڑا جھوٹ ہے۔ اللہ نے کبھی فساد کا حکم نہیں دیا۔
فساد پر جہاد کا لیبل لگانا آج کوئی نئی بات نہیں۔ خوارج جو اس امت کا سب سے پہلا بدعتی گروپ ہے اور جس نے صحابۂ کرام کی تکفیر کی تھی اور خلفائے راشدین میں سےعثمان وعلی y جن کے جنتی ہونے کی بشارت اللہ کے نبی e نے دنیا ہی میں دے دی تھی کو قتل کیا تھا ۔ قتل صحابہ اور قتل خلفائے راشدین کو ان خوارج نے بھی جہاد کا نام دیا تھا۔ ہاں یہ جہاد ضرور تھا لیکن شیطان کی راہ میں تھا، اللہ کی راہ میں جہاد اس سے قطعی مختلف ہوتا ہے۔
بم دھماکہ کرنے والے نادان اسلام کی رسوائی کا سامان کررہے ہیں۔ دشمنان اسلام ان واقعات کے ذریعہ اسلام کو بدنام کررہے ہیں جب کہ ان واقعات سے سچے اسلام کا کوئی تعلق نہیں۔ بعض احمق یہاں پر مملکت سعودی عرب میں ایسی تخریبی کارروائیاں انجام دے رہے ہیں جب کہ الحمد للہ یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں پر اللہ کی شریعت اور اللہ کا قانون نافذ ہے ۔ یہاں شرک کے اڈے نہیں ہیں، نہ کوئی مندر ہے اور نہ کوئی گرجاگھر اور چرچ ہے جہاں پر غیراللہ کی عبادت ہوتی ہے۔ یہاں قبے اور مزارات بھی نہیں ہیں جہاں علانیہ شرکیہ اعمال انجام دیئے جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو ہوش کے ناخن لینا چاہئے اور اللہ سے توبہ کرنی چاہئے اور اپنی فتنہ انگیزیوں سے باز آنا چاہئے۔
واضح رہے کہ ان دھماکوں میں مسلمان بھی قتل ہوتے ہیں اور ایک مسلمان کا قتل شدید ترین گناہ ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ﮋ ﮓ  ﮔ  ﮕ   ﮖ  ﮗ  ﮘ  ﮙ  ﮚ  ﮛ   ﮜ  ﮝ  ﮞ  ﮟ  ﮠ     ﮡ  ﮢ  ﮣ   النساء: ٩٣ (اور جو کوئی کسی مومن کو قصداً قتل کرڈالے، اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ تعالی کا غضب ہے، اسے اللہ تعالی نے لعنت کی ہے اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار رکھا ہے۔)
نیز نبی e  کا ارشاد ہے:  «كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ دَمُهُ وَمَالُهُ وَعِرْضُهُ»۔ (صحيح مسلم) «ایک مسلمان کی جان ومال اور عزت وآبرو سب کے سب دوسرے مسلمان پر حرام ہے»۔
نیز ارشاد ہے: «فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا إِلَى يَوْمِ تَلْقَوْنَ رَبَّكُمْ». (صحيح البخاري) «بے شک تمھارے خون اور تمھارے مال ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح اس شہر (مکہ) کے اندر اس مہینہ (ذوالحجہ) میں یہ دن (یوم عرفہ یا یوم النحر) حرام ہے۔ یہ حکم تمھارے رب سے ملاقات تک باقی رہے گا»۔


فتنوں سے حفاظت کے وسائل
اب تک جو گفتگو ہوئی اس میں فتنوں سے حفاظت کے بعض وسائل کی طرف اشارہ آچکا ہے، پھر بھی ہم اہم ترین وسائل کو ایک ساتھ ذکر کرنا مناسب سمجھتے ہیں۔
پہلا وسیلہ: اللہ  اور اس کے رسول e کی اطاعت
ارشاد ہے: ﮋ ﭷ   ﭸ  ﭹ  ﭺ  ﭻﮊ المائدة: ٩٢ (اور اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرواور احتیاط رکھو۔) أي احذروا من المخالفة فإن عاقبتها الوقوع في الفتنة  یعنی مخالفت سے بچتے رہو کیونکہ مخالفت کا انجام فتنہ میں مبتلا ہونا ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے: ﮋ ﮍ  ﮎ    ﮏ  ﮐ  ﮑ   ﮒ  ﮓ  ﮔ  ﮕ  ﮖ      ﮗ  ﮘ  ﮙ   النور: ٦٣ (سنو جو لوگ حکم رسول کی مخالفت کرتے ہیں انھیں ڈرتے رہنا چاہئے کہ کہیں ان پر کوئی فتنہ (زبردست آفت) نہ آپڑے یا انھیں دردناک عذاب نہ پہنچے۔)
دوسرا وسیلہ: کتاب وسنت سے وابستگی
سنن دارمی میں علیt  کی حدیث ہے کہ رسول اللہ e نے ارشاد فرمایا: «ستکون فتن» «عنقریب فتنے ہوں گے» علی t نے دریافت کیا: ما المخرج منہا؟ (ان فتنوں سے نکلنے کا راستہ کیا ہوگا؟) آپ e نے ارشاد فرمایا: «کتاب اللہ، کتاب اللہ» «اللہ کی کتاب، اللہ کی کتاب»۔
نیز ابوہریرہt  کی حدیث ہے کہ رسول اللہ e  نے فرمایا: «تركت فيكم شيئين لن تضلوا بعدهما : كتاب الله و سنتي». (رواه الحاكم في المستدرك وصححه الألباني) «میں نے تم میں دو چیزیں چھوڑی ہیں ان کے بعد تم ہرگز گمراہ نہیں ہوگے، ایک اللہ کی کتاب اور دوسرے میری سنت»۔
ایک اور حدیث میں آپ e  کا یہ ارشاد مروی ہے: «من يعش منكم بعدي فسيري اختلافاً كثيراً, فعليكم بسنتي و سنة الخلفاء المهديين الراشدين, تمسكوا بها, و عضوا عليها بالنواجذ, و إياكم و محدثات الأمور, فإن كل محدثة بدعة, و كل بدعة ضلالة». ( رواه أحمد وأبو داود والترمذي وابن ماجه والحاكم وصححه الألباني)
«جو تم میں سے میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت زیادہ اختلاف دیکھے گا، سو تم میری سنت کو اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو مضبوطی سے تھام لینا اور اسے اپنے داڑھوں سے مضبوط جکڑ لینا اور اپنے آپ کو نئی ایجاد شدہ باتوں سے بچانا، کیونکہ ہر نئی ایجاد کردہ چیز بدعت ہے اور ہر بدعت ضلالت ہے»۔
جو لوگ طریق سنت سے ہٹ جائیں گے وہ لامحالہ بدعت وضلالت اور فتنوں میں گرپڑیں گے۔
مسلک سنت پہ اے سالک چلاجا بےدھڑک
جنت الفردوس     کو     سیدھی گئی   ہے    یہ    سڑک
تیسرا وسیلہ: دل کی نگرانی
دل بدن کا وہ حصہ ہے جس پر جسم کے باقی اعضاء کے صلاح وفساد کا دار ومدار ہے۔ صحیح بخاری میں نبی e کی یہ حدیث مروی ہے: «أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ, وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ, أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ». (رواه البخاري) «خبردار ! بے شک جسم میں ایک ٹکڑا ہے ، اگر اس کی اصلاح ہوگئی تو پورے جسم کی اصلاح ہوگئی، اور اگر اس میں بگاڑ آگیا تو پورے جسم میں بگاڑ آگیا۔ خبردار! وہ دل ہے»۔
یہی وجہ ہے کہ نبی کریم e  دل کی دین پر ثابت قدمی کے لئے ہمیشہ اللہ تعالی سے دعا مانگا کرتے تھے۔ فرماتے تھے: «يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ». (رواه الترمذي)  (اے دلوں کے پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر جمادے)۔
دل پر فتنے کس طرح آتے ہیں ؟ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں اس کی کچھ تفصیل آئی ہے۔ حذیفہt   کی روایت ہے کہ نبی e نے فرمایا: «تُعْرَضُ الْفِتَنُ عَلَى الْقُلُوبِ كَالْحَصِيرِ عُودًا عُودًا, فَأَيُّ قَلْبٍ أُشْرِبَهَا نُكِتَ فِيهِ نُكْتَةٌ سَوْدَاءُ, وَأَيُّ قَلْبٍ أَنْكَرَهَا نُكِتَ فِيهِ نُكْتَةٌ بَيْضَاءُ, حَتَّى تَصِيرَ عَلَى قَلْبَيْنِ؛ عَلَى أَبْيَضَ مِثْلِ الصَّفَا, فَلَا تَضُرُّهُ فِتْنَةٌ مَا دَامَتْ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ, وَالْآخَرُ أَسْوَدُ مُرْبَادًّا كَالْكُوزِ مُجَخِّيًا, لَا يَعْرِفُ مَعْرُوفًا وَلَا يُنْكِرُ مُنْكَرًا إِلَّا مَا أُشْرِبَ مِنْ هَوَاهُ». (رواه مسلم) «فتنے دلوں پر چٹائی کی ایک ایک تیلی کی طرح پیش کئے جاتے ہیں ، جو دل انھیں پی لیتا ہے اس میں ایک سیاہ نقطہ پڑجاتا ہے، اور جو دل اس کا انکار کردیتا ہے اس میں ایک سفید نقطہ پڑجاتا ہے، حتی کہ دونوں دل دو قسم کے ہوجاتے ہیں ، ایک بالکل سفید چکنے پتھر کی طرح جسے فتنے اس وقت تک ضرر نہیں پہنچاسکتے جب تک آسمان وزمین باقی ہیں، دوسرا دل کالا سیاہ اور الٹے پیالہ کی طرح ہوجاتا ہے، جو نہ کسی معروف کو جانتا ہے اور نہ کسی منکر کا انکار کرتا ہے، سوائے اپنی خواہشات کے جنھیں اس کے دل کو پلادیاگیا ہے»۔
اگر کوئی شخص چاہتا ہے کہ اس کا دل فتنوں سے سلامت رہے تو وہ اللہ پر اپنا ایمان مضبوط کرے۔ ارشاد باری ہے: ﭦ  ﭧ  ﭨ  ﭩ  ﭪﮊ   التغابن: ١١ (جو اللہ پر ایمان لائے اللہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے۔)
ایمان کیا ہے ؟ اور اللہ پر ایمان کس طرح مضبوط ہوگا؟ کتاب وسنت کے علماء سے سیکھنا چاہئے۔ یہ ایک مستقل موضوع ہے جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں ہے۔
چوتھا وسیلہ: اللہ کی طرف واپسی
اللہ کی طرف رجوع کرنا، اس کی طرف واپس پلٹنا، اس سے دعا کرنا، اس سے توبہ واستغفار کرنا فتنوں سے حفاظت کا عظیم ذریعہ ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید کے اندر اپنے نبی داؤد علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے: ﮋ ﯡ  ﯢ  ﯣ  ﯤ  ﯥ  ﯦ       ﯧ   ﯨ    ﯩ   ﯪ  ﯫ  ﯬ  ﯭ  ﯮﮊ  ص: ٢٤ – ٢٥ (اور داود [علیہ السلام] سمجھ گئے کہ ہم نے انھیں آزمایا ہے، پھر تو اپنے رب سے استغفار کرنے لگے اور عاجزی کرتے ہوئے گرپڑےاور [پوری طرح] رجوع کیا۔پس ہم نے بھی ان کا وہ [قصور] معاف کردیا۔)
نیز سلیمان علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: ﮋ ﮡ  ﮢ   ﮣ  ﮤ  ﮥ  ﮦ  ﮧ  ﮨ  ﮩ  ﮪ  ﮫ  ﮬ  ﮭ     ﮮ   ص: ٣٤ – ٣٥ (اور ہم نے سلیمان [علیہ السلام] کی آزمائش کی اور ان کے تخت پر ایک جسم ڈال دیا پھر انھوں نے رجوع کیا۔ کہا کہ اے میرے رب! مجھے بخش دے۔)
آپ نے دیکھا کہ فتنہ کے وقت سنت انبیاء یہ ہے کہ وہ استغفار کرتے ہیں اور اس طرح اللہ تعالی انھیں فتنوں سے نجات عطا فرماتا ہے۔ رسول اکرم e نے فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگنے کی تاکید کی ہے۔ آپ e کا فرمان ہے: «تَعَوَّذُوا بِاللَّهِ مِنْ الْفِتَنِ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ». (صحيح مسلم)  «کھلے اور چھپے فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگو»۔
نیز  آپ e نے صلاۃ کے آخر میں پڑھنے کے لئے یہ دعا سکھلائی ہے: «اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ, وَمِنْ عَذَابِ النَّارِ, وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ, وَمِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ». (رواه البخاري ومسلم) «اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں قبر کے عذاب سے، اور جہنم کے عذاب سے، اور موت وحیات کے فتنہ سے، اور مسیح دجال کے فتنہ سے»۔
فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہوئے اسی دعا پر ہم اپنی گفتگو ختم کرتے ہیں ۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين, وصلى الله على نبينا وسلم.

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق