الاثنين، 22 أبريل 2013

ہم اپنے بچوں کا نام رکھنے میں کن باتوں کا خیال رکھیں؟





ہم اپنے بچوں کا
نام رکھنے میں کن باتوں کا خیال رکھیں؟




اعداد
عبد الہادی عبد الخالق مدنی
کاشانۂخلیق ۔اٹوابازار۔ سدھارتھ نگر۔ یوپی۔ انڈیا
داعی احساء اسلامک سینٹر ۔ سعودی عرب



نام کی اہمیت:
            نام کیا ہے؟ انسان کی پہچان ، اس کا پتہ ، ایڈریس ہےاور عنوان ہے۔ نام ہی کے ذریعہ ایک انسان کی اپنے ہم جنسوں اور اپنے جیسے بقیہ انسانوں سے  تمیز ہوتی ہے۔ اگر نام نہ ہو تو ایک انسان کا اس کے ہم جنسوں سے امتیاز نہ ہوسکے۔ اس کی شناخت مجہول ہوجائے۔ اس کی تعیین اور تحدید دشوار ہوجائے۔
            کسی حدیث کی سند میں جب راوی کا نام نہیں لیا جاتا اور یہ کہہ کر چھوڑ دیا جاتا ہے کہ ایک آدمی نے بیان کیا تو حدیث بے نام راوی کی بنا پر ضعیف ہوجاتی ہے۔کیونکہ بے نام شخص کی حالت کا، اس کی ثقاہت وعدالت کا پتہ نہیں لگایا جاسکتا۔
            نام ہی سے ایک انسان کو پکارا جاتا ہے، نام ہی سے نسب کے سلسلے چلتے ہیں، بیٹے پوتے اپنے باپ دادا کے وارث کہلاتے ہیں، ناموں ہی سے قیامت کے دن فلاں بن فلاں کہہ کر پکارا جائے گا۔
            ایک انسان کی ہمیشہ یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کے نام کے ساتھ تعریفی کلمات ہی جڑیں، مذمتی کلمات نہ جڑیں، اسی لئے جب کوئی انسان ایسا کام کرتا ہے جس میں اسے تنقید یا ملامت کا نشانہ بننا پڑسکتا ہے تو یا وہاں پر وہ اپنا نام چھپاتا ہے یا مستعار نام استعمال کرتا ہے۔
            نام بظاہر کوئی مادی چیز نہیں جس کی قیمت لگائی جائے لیکن وہ انتہائی قیمتی چیز ہے۔ اگر کسی سے کہا جائے کہ اپنے نام کی منہ مانگی قیمت لے کر اسے تبدیل کرلو تو شاید ہی کوئی اس کے لئے تیار ہوگا۔
            اس سلسلہ میں عربی زبان کے مشہور ادیب جاحظ نے ایک بڑا دلچسپ قصہ ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ ہمارے پاس ابوخزیمہ نام کا ایک چوکیدار تھا، میرے ذہن میں آیا کہ یہ سیاہ فام جس کی زبان میں بھی لکنت ہے ، اس قدر قابل رشک نام اس نے کہاں سے پایا؟ چنانچہ ایک دن میں نے اس سے پوچھا: کیا تیرے باپ دادا، ماموں چچا، بیٹے ، غلام، دورو نزدیک کے کسی رشتہ دار، یا بستی کے کسی امام یا عالم یا بزرگ کا نام خزیمہ ہے؟ اس نے نفی میں جواب دیا، پھر تونے ابوخزیمہ کنیت کیسے رکھ لی؟ میں نے دریافت کیا، اس نے کہا: یوں ہی میرے جی میں آیااور میں نے یہ کنیت رکھ لی، میں نے سبب پوچھا تو اس نے کہا کہ مجھے کوئی سبب معلوم نہیں، میں نے کہا کہ تم مجھ سے ایک دینار لے لو اور اپنی یہ کنیت تبدیل کرکے کوئی اور کنیت رکھ لو، اس نے جواب دیا: اللہ کی قسم ! تم پوری دنیا میرے قدموں میں ڈال دو پھر بھی میں یہ کنیت تبدیل نہیں کرسکتا۔
            بہرکیف! نام اور کنیت ایسی چیزیں ہیں جن سے آدمی کے عقیدہ ومنہج، سلامتی فکر اور بسا اوقات حسب ونسب اور مقام ومرتبہ تک کا پتہ لگ جاتا ہے۔
             نام آدمی کو اسلامی شریعت اور اس کے آداب سے وابستہ کرتی ہے۔ اگر ایک آدمی کا نام کسی نبی، ولی، شہید، امام یا بزرگ کے نام پر ہے تو اس کے نام کے ساتھ ان کی تاریخ بھی مربوط ہوجاتی ہے۔
            بچہ جب سوال کرنے کی عمر کو پہنچتا ہے تو اپنے باپ سے پوچھتا ہے کہ اباجان! ابا محترم! آپ نے میرا یہ نام کیوں رکھا ہے؟ میرے نام کا معنی کیا ہے؟ تو اگر باپ نے اچھے نام کا انتخاب کیا ہوتا ہے تو خوش ہوکر ، مگن ہوکر، جھوم کر بچہ کو جواب دیتا ہے اور اپنے اندر ایک کیف وسرور محسوس کرتا ہے، اس کے برخلاف اگر نام کے انتخاب میں اس سے چوک ہوجاتی ہے، غلطی ہوجاتی ہے تو سر دھنتا ہے اور کف افسوس ملتا ہے۔
            نام کی مثال لباس جیسی ہے، اگر کسی کا لباس خوبصورت ہے چست ودرست ہے تو وہ اس کے لئے باعث زینت ہے اور اگر لباس بدصورت ہے توآدمی  اپنے اندر حسین وجمیل ہونے کے باوجود عیب دار لگنے لگتا ہے۔  ایسے ہی اگر نام غلط ہےیا بے ڈھنگا ہے یا کفریہ ہے یا مکروہ وناروا ہے تو ایک انسان اپنے اندر شرمندگی محسوس کرتا ہے ، اور اپنا نام بتاتے ہوئے معذرت والا لب ولہجہ استعمال کرتا ہے۔اس لئے باپ کی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچہ کا نام رکھتے ہوئے صحیح اور پاکیزہ نام کا انتخاب کرے، مستقبل میں اپنے بیٹے یا بیٹی کو شرمندگی سے بچائے، ایک نہیں بلکہ متعدد علمائے کرام سے پوچھ کر اور خود اپنے گھر میں بھی مشورہ کرکے ہی نام رکھے۔


ناموں کی تاثیر:
            ایک بات یہ بھی یاد رکھنے کی ہے کہ ناموں کی اپنی تاثیر ہوتی ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ e اچھے نام پسند فرماتے تھے اور اپنے صحابہ کو اس بات کا حکم دیتے تھے کہ آپ کے پاس قاصد بھیجیں تو اچھے نام اور اچھی صورت کا بھیجیں، آپ ناموں سے نیک فال بھی لیا کرتے تھے، چنانچہ صلح حدیبیہ کے موقع پر جب کفار مکہ کی طرف سے سہیل بن عمرو بات چیت کی غرض سے آئے تو نبی e نے فرمایا: سہیل آئے ہیں معاملہ سہل ہوجائے گا۔
            ایک بار کچھ لوگ جمع تھے کہ نبی e نے بکری دوہنے کے لئے کہا، ایک شخص اٹھا تو نبی e نے اس کا نام پوچھا، اس نے کہا: مرۃ (کڑوا) آپ نے اسے بٹھادیا، دوسرا اٹھا، آپ نے اس کانام پوچھا تو اس نے بتایا: حرب (جنگ) آپ نے اسے بھی بٹھادیا، تیسرا اٹھا ، آپ نے نام پوچھا تو اس نے بتایا: یعیش (جئے گا) آپ نے اسے دوہنے کا حکم فرمایا۔
            آپ e جگہوں اور راستوں کے بھی برے نام ناپسند کرتے تھے ۔ ایک غزوہ میں آپ دو پہاڑوں کے درمیان سے گذررہے تھے آپ نے نام پوچھا  تو لوگوں نے ایک کا نام فاضح (فضیحت کرنے والا) اور دوسرے کا نام مخزی (رسوا کرنے والا) بتایا، تو آپ e نے یہ راستہ تبدیل کردیا۔
            عمر فاروق t  کا واقعہ ہے، آپ نے ایک آدمی سے اس کا نام پوچھا، اس نے کہا: جمرہ (چنگاری) آپ نے پوچھا: باپ کا نام کیا ہے؟ اس نے کہا: شہاب (شعلہ) پوچھا خاندان کونسا ہے؟ بولا حرقہ (جلن اور سوزش) پوچھا گھر کہاں ہے؟ بتایا: حرۃ النار (آگ کے کالے پتھروں کا محلہ) پوچھا رہتے کہاں ہو ؟ بتایا: ذات لظیٰ (شعلوں والی جگہ) عمر فاروق t نے کہا: جلدی جاؤ تمھارا گھر جل چکا ہے۔
            نبی e نے جب مدینہ ہجرت کی تو اس کا نام یثرب تھا، یثرب میں چونکہ ملامت کا معنی پایا جاتا ہے  اس لئے آپ نے اس کو بدل کر طیبہ اور طابہ (پاکیزہ) رکھ دیا۔ اور مدینۃ النبی(نبی کا شہر) یا مدینۃ الرسول (رسول کا شہر) کے نام سے اس کی شہرت ہوئی۔
نام رکھنے میں لوگوں کے طریقے:
            نام رکھنے کے معاملہ میں لوگوں میں عجیب وغریب طریقے رائج ہیں،  چند طریقے مندرجہ ذیل ہیں:۔
1)    کوئی تو بچہ کی یوم پیدائش کو بنیاد بناکر نام رکھتا ہے مثلا سومئی، سکئی، پیرو، منگرے، بدھئی، جمئی، شبراتی، عیدی، بقرعیدی، جمن، مسٹر فرائی ڈے، مسٹر منڈے وغیرہ۔
2)    کوئی ماہ پیدائش کو بنیاد بناتا ہے جیسے رمضانی، شعبانی،مسٹر مے، مسٹر جون، مسٹر اپریل  وغیرہ۔
3)    کچھ لوگ قرآن میں سے اپنا پسندیدہ لفظ نکال کر وہی نام رکھ دیتے ہیں اس سے قطع نظر کہ اس کا معنی اور مفہوم کیا ہے  مثلا رازقین، خاسرین، جحیم، اطیعوا اللہ، وغیرہ۔
4)    بعض لوگ عجائب پسند ہوتے ہیں، وہ اپنے بچے کا ایسا نیا نام رکھنا چاہتے ہیں جو سنا نہ گیا ہو خواہ اس کا کچھ بھی معنی ہو۔
5)    بعض لوگ جو یورپ وامریکہ اور مغربی ممالک کی ظاہری چمک دمک سے مرعوب ہیں وہ  ان کے جیسے نام رکھتے ہیں جیسے راجیو، گڈو، پپو، ببلو، ڈبلو، وغیرہ۔
6)    بعض لوگ کاہنوں اور نجومیوں سے مشورہ کرکے، ستاروں کی چال کے اعتبار سے نام رکھتے ہیں، سعد ونحس دیکھتے ہیں۔ جب کہ یہ سب شرکیہ باتیں ہیں۔
شیخ عبد السلام رحمانی نے اپنی کتاب (دیار غیر میں صفحہ 99) فیجی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: "معنی ومفہوم سے ناواقفیت کے سبب لوگوں کے نام بھی بہت سے ایسے رکھ دیئے جاتے ہیں جو درست نہیں ہوتے اور یہ بات قریب قریب ہرجگہ ہوتی ہے۔ فیجی میں میں نے مسلمانوں کے نام نسبتاً زیادہ نادرست سنے۔ کسی کا نام حنیف رکھا گیا تو اسی وزن پر اس کے بھایئوں کا نام منیف وجنیف رکھ دیا گیا۔ ایک صاحب ملے جن کا نام (اللہ الصمد) تھا کیونکہ یہ قرآن میں آیا ہے۔ قرآن میں آنے یا علماء کی تقریروں میں ذکر آنے کے سبب بھی بہت سے الٹے سلٹے نام رکھ دیئے جاتے ہیں۔"
لوگوں میں رائج طریقے چھوڑ کر آئیے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہمیں کونسا طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔
ہمیں اپنی اولاد کے ناموں کا انتخاب کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ نام ایسا ہو جو بولنے میں آسان اور سننے میں اچھا ہو، معنی بھی عمدہ ہو، عزت وشرافت کا حامل ہو، شرعی نقطۂ نظر سے اس میں تحریم یا کراہت کا پہلو نہ نکلتا ہو۔
یہ بات واضح رہے کہ نام رکھنے کے معاملہ میں شریعت میں بہت وسعت ہے، ہر وہ نام جو حرام یا مکروہ نہیں وہ جائز اور مباح ہے، اور جہاں تک حرام یا مکروہ ناموں کی بات ہے تو ان کا ایک محدود دائرہ ہے، اس محدود دائرہ سے باہر بہت کشادگی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﭽ ﮪ  ﮫ   ﮬ   ﮭ  ﮮ   ﮯ   ﭼ الحج: ٧٨ (اللہ تعالیٰ نے دین کے معاملہ میں کوئی تنگی نہیں ڈالی)۔
لہٰذا آئیے پہلے یہی دیکھتے ہیں کہ کون سے نام حرام یا مکروہ ہیں۔
حرام یا مکروہ نام:
۱۔ سارے مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ ہر وہ نام جس میں عبودیت کی نسبت غیراللہ کی طرف کی گئی ہو حرام ہے مثلاً عبدالعزیٰ، عبدالکعبہ، عبدشمس، عبدالحارث، عبدالمطلب، چنانچہ نبی e ایسے ناموں کو بدل دیا کرتے تھے کیونکہ ایسے نام شرکیہ ہیں۔
کتنے دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ اس طرح کے بہت سارے نام مسلمانوں میں رائج ہوگئے ہیں مثلاً عبدالرسول، عبدالنبی، عبدعلی، عبدالحسین، عبدالأمیر، عبد الصاحب، غلام رسول، غلام محمد، غلام نبی، غلام غوث ، نیاز احمد، نیاز محمد، نیاز رسول، نیاز علی، نیاز حسین،نواز احمد، نوازحسین، نبی بخش، علی بخش، پیربخش، گنگا بخش، جمناداس،  وغیرہ۔
ایسے ہی بہت سارے نام ایسے ہیں جن کو لوگ اللہ کا نام سمجھتے ہیں اور ان کے ساتھ عبد لگاکر نام بنالیتے ہیں حالانکہ درحقیقت وہ اللہ کا نام نہیں ہیں کیونکہ اللہ کے نام کے طور پر ان کا ثبوت نہیں ہے، یہ بات معلوم ہے کہ اللہ کے سارے نام توقیفی ہیں، صحیح ثبوت کے بغیر انھیں اللہ کا نام قرار نہیں دیاجاسکتا۔ ایسے غلط ناموں کی چند مثالیں یہ ہیں۔ عبد المقصود، عبدالستار، عبدالموجود، عبدالمعبود، عبدالھوہ، عبدالمرسل، عبدالوحید، عبدالطالب، عبدالباقی، عبدالدائم، عبدالقدیم، عبدالحنان، عبدالنعیم، وغیرہ۔
۲۔ اللہ کے نام کو ہی کسی کا نام رکھ دینا حرام ہے۔جیسے رحمٰن، رحیم، خالق وغیرہ کسی کا نام رکھنا درست نہیں ہے، نبی e ایسے نام بدل دیا کرتے تھے۔
ایسے ہی اللہ کے ناموں کے ساتھ کنیت رکھنا بھی حرام ہے۔ سنن ابی داود کی حدیث ہے، ابو شریح t کہتے ہیں کہ میں اپنی قوم کے ساتھ ایک وفد میں مدینہ آیا، نبی e نےسنا کہ لوگ مجھے ابوالحکم کہتے ہیں ، آپ e نے مجھے بلاکر دریافت کیا کہ حکم تو اللہ ہے اور سارے فیصلے اسی کی طرف لوٹتے ہیں تم نے ابوالحکم کنیت کیوں رکھی؟ میں نے جواب دیا کہ جب میری قوم میں کسی بات پر اختلاف ہوجاتا ہےتو وہ میرے پاس فیصلہ کے لئے آتے ہیں اور پھر میرے فیصلہ پر دونوں فریق راضی ہوجاتے ہیں ، رسول اللہ e نے فرمایا: یہ تو بہت اچھی بات ہے، تمھارے پاس کوئی اولاد ہے، میں نے کہا: ہاں، تین بیٹے ہیں، شریح مسلمہ اور عبداللہ، آپ e نے پوچھا: بڑا بیٹا کون ہے؟ میں نے کہا: شریح، تو آپ e نے فرمایا: تم آج سے ابوشریح ہو۔ آپ e نے ابوالحکم کنیت کو تبدیل کردیا کیونکہ یہ توحید کے شایان شان نہیں ہے۔
اسی طرح ابوالأعلیٰ کنیت بھی تبدیل کردینا چاہئے کیونکہ اعلیٰ تو اللہ ہے، ارشاد ہے:ﮟ  ﮠ  ﮡ  ﮢ  الأعلى:١ (اپنے رب اعلیٰ کے نام کی تسبیح کیجئے) ابوالأعلیٰ کنیت کسی بھی طرح توحید کے شایان شان نہیں ہے۔
ہر وہ نام جو توحید میں خلل انداز ہو رسول e اسے تبدیل کردیا کرتے تھے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اصابہ میں ذکر کیا ہے کہ اللہ کے رسول e نے اکبر نام کے صحابی کا نام بدل کر بشیر رکھ دیا تھا۔کیونکہ درحقیقت اکبر تو اللہ ہے اور ہر طرح کی کبریائی اسی کے لئے ہے۔
۳۔ بتوں کے نام پر نام رکھنا بھی حرام ہے مثلاً لات، عزیٰ، اساف ، نائلہ، ہبل، رام ،لچھمن، سیتا ، وغیرہ۔
۴۔ ایسے نام رکھنا بھی حرام ہے جن میں جھوٹا دعوی یا جھوٹی تعریف ہو جیسے شہنشاہ، ملک الاملاک، سلطان السلاطین، حاکم الحکام، قاضی القضاۃ، سید الناس، سید الکل، سیدۃ النساء، شاہنواز، غریب نواز، غوث، داتا، گنج بخش، وغیرہ۔
            نبی e کا ارشاد ہے: إِنَّ أَخْنَعَ اسْمٍ عِنْدَ اللَّهِ رَجُلٌ تَسَمَّى مَلِكَ الْأَمْلَاكِ (متفق علیہ عن أبی ہریرہ t) اللہ کے نزدیک سب سے مبغوض ومکروہ اور ناپسندیدہ نام اس شخص کا ہے جس نے اپنا نام ملک الاملاک یعنی بادشاہوں کا بادشاہ یا شہنشاہ رکھا، کیونکہ شہنشاہ تو صرف اللہ تعالیٰ ہے۔
            صحیح مسلم میں زینبr   کی حدیث ہے کہ ان کا نام برہ (نیک) تھا تو نبی e نے فرمایا: اپنی تعریف خود مت کرو، اللہ زیادہ جانتا ہے کہ تم میں سے نیکی والا کون ہے، اپنا نام زینب رکھو۔
            زینب کا ایک معنیٰ ہے ایک خوبصورت اور خوشبودار درخت اور دوسرا معنیٰ زین أب اصل مان کر اپنے باپ کے لئے باعث زینت بھی بن سکتا ہے۔
۵۔ شیطانوں کے نام پر نام رکھنا بھی حرام ہے جیسے ابلیس، خنزب، ولہان، اعور، اجدع وغیرہ۔ حدیث میں اس طرح کے ناموں  کے تبدیل کرنے کا ذکر ملتا ہے۔
۶۔ کافروں کے وہ نام جو ان کے ساتھ مخصوص ہیں مسلمانوں کے لئے  رکھنا حرام ہے۔ دور حاضر میں مسلمانوں کے اپنے ذاتی تشخص کی کمزوری اور مغرب سے مرعوبیت کی بنا پر یہ فتنہ سنگین صورت اختیار کئے ہوئے ہے۔اپنا اسلامی امتیاز اور اپنی اسلامی غیرت کو لوگ فراموش کرتے جارہے ہیں نیز کافروں کی اندھی تقلید بڑھتی جارہی ہے۔جورج، ڈیانا، روز، سوزن، جولی، گڈو، پپو، راجو، ببلو، ڈبلو،  وغیرہ۔
۷۔ ایسے نام رکھنا بھی مکروہ ہے جن کا لفظ بدصورت ہو یا جن کا معنی برا ہو یا جن کو سن کر طبیعت میں نفرت پیدا ہوتی ہو جیسے حرب، جنگ، خنجر، فدغوش، حطیحط ، وغیرہ۔
سنن ابی داود کی حدیث ہے  کہ نبی e نے ایک شخص سے اس کا نام پوچھا تو اس نے بتایا اصرم (کٹی کھیتی) تو آپ e نے فرمایا: تم اصرم (کٹی کھیتی) نہیں بلکہ زرعہ (سرسبز کھیتی) ہو۔
            امام ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں ذکر کیا ہے کہ ایک آدمی کا نام اصم (بہرا) تھا تو نبی e نے اس کا نام بدل کر عبدالرحمٰن رکھ دیا۔
۸۔ لڑکیوں کے ایسے نام رکھنا مکروہ ہے جن میں ہیجان انگیز، فتنہ خیز، حیاسوز یا شہوانیت کی تحریک پیدا کرنے والے معانی پائے جائیں جیسے احلام(خوابوں کی ملکہ)، اریج(مہکتی خوشبو)، عبیر(خوشبؤوں کا مجموعہ)، غادہ (نخروں والی)  فتنہ، نہاد، ناہدہ(اونچے پستانوں والی)، وصال، فاتن(فتنہ میں ڈالنے والی)، شادیہ (گانے والی) وغیرہ۔
۹۔ ناچنے گانے والوں، فلمی اداکاروں اور اداکاراؤں، بدچلن اور فسق وفجور میں شہرت یافتہ لوگوں کے ناموں پر نام رکھنا بھی مکروہ ہے۔
۱۰۔ فرعونوں، ظالم بادشاہوں، اور جنوں کے نام پر بھی نام رکھنا مکروہ ہے۔ جیسے قارون، ہامان، شداد، فرعون وغیرہ۔
۱۱۔ جن ناموں میں گناہ اور معصیت کا معنی پایا جائے ایسے نام رکھنا بھی مکروہ ہے، جیسے ظالم، سارق، سراق، عاصیہ، وغیرہ۔
            صحیح مسلم میں عبداللہ بن عمر t سے روایت ہےکہ نبی e نے عاصیہ نام بدل کر جمیلہ نام رکھ دیا تھا۔
۱۲۔ برے اور قبیح صفات میں مشہور حیوانات کے ناموں پر نام رکھنا بھی مکروہ ہے جیسے حمار (گدہا) قنفذ (گبڑورا) قرد (بندر) کلب (کتا) وغیرہ۔
۱۳۔ دین اور اسلام سے جوڑ کر جتنے نام رکھے جاتے ہیں عموماً مکروہ ہوتے ہیں۔ سلف صالحین کے یہاں اس طرح کے نام اور لقب بالکل نہیں پائے جاتے، بعض علماء نے تو حرام تک کہا ہےکیونکہ ان دونوں لفظوں کا بہت بڑا مقام ومرتبہ ہے اور ان کے ساتھ جوڑ کر نام رکھنے میں عام طور پر تزکیہ یا جھوٹا دعوی پایا جاتا ہے۔ ارشاد باری ہے: ﭽ ﯙ  ﯚ  ﯛﯜ  ﯝ  ﯞ   ﯟ  ﯠ  ﯡ النجم: ٣٢ (تم اپنی پاکیزگی آپ بیان نہ کرو،وہی پرہیزگاروں کو خوب جانتا ہے)
اس طرح کے مکروہ ناموں کی فہرست بڑی طویل ہے، چند نام یہ ہیں۔ نورالدین، عزالدین، سعد الدین، زکی الدین، تقی الدین، ضیاء الدین، محی الدین، فخرالدین، سراج الاسلام، سیف الاسلام، نورالاسلام، وغیرہ وغیرہ۔
شہاب الدین نام رکھنا دو وجہ سے مکروہ ہے، ایک تو اس وجہ سے کہ شہاب کا معنیٰ برا ہے ، شہاب کا معنی ہے آگ کا شعلہ، دوسرے اس وجہ سے کہ اسے دین کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔
۱۴۔ ناموں کے آگے یا پیچھے تبرک کی خاطر محمد یا احمد لگانا بھی بدعت ہے، سلف سالحین کے یہاں یہ چیز موجود نہیں تھی، مثلا محمد عبدالکریم، عبدالعزیز احمد ، وغیرہ
۱۵۔ عبداللہ اور عبدالرحمن کے علاوہ اللہ اور رحمن سے جوڑ کر جتنے نام رکھے جاتے ہیں عام طور پر مکروہ ہوتے ہیں اور بعض تو حرام ہوتے ہیں کیونکہ یا تو ان کا معنی درست نہیں ہوتایا ان میں غلو اور ناقابل تصدیق دعوی پایا جاتا ہے۔ جیسے حسب اللہ، رحمت اللہ، بیت اللہ، کفایت اللہ، راحت اللہ، معین اللہ، حفیظ اللہ، انیس الرحمن، عزیز الرحمن، وغیرہ۔
۱۶۔ رسول اور نبی سے جوڑ کر جتنے نام رکھے جاتے ہیں عام طور پر مکروہ یا حرام اور شرک ہوتے ہیں کیونکہ یا تو ان کا معنی درست نہیں ہوتایا ان میں غلو اور ناقابل تصدیق دعوی پایا جاتا ہے۔جیسے حسب الرسول، غلام رسول،  عبد النبی، ضیاء الرسول، نور نبی، وغیرہ۔
۱۷۔  علی، حسن، حسین، رضا اورغوث  کے ساتھ جوڑ کر جو نام رکھے جاتے ہیں وہ بھی عام طور پر مکروہ یا حرام ہوتے ہیں جیسے عابد علی، عابد حسن، عابد حسین، کلب علی، سگ رضا، غلام غوث، نور حسین، وغیرہ۔
۱۸۔ فرشتوں کے نام پر نام رکھنا بھی علماء نے مکروہ قرار دیا ہے جیسے جبرائیل ومیکائیل واسرافیل وغیرہ۔ فرشتوں کا نام اگر لڑکیوں کا نام رکھا جائے تو یقیناً حرام ہوگا کیونکہ اللہ نے فرشتوں کو مونث نہیں بنایا ہے، یہ جاہلیت کا عقیدہ تھا، اسلام نے اسے سختی کے ساتھ رد کیا ہے۔
۱۹۔ قرآن کی سورتوں کے نام پر نام رکھنا بھی علماء نے مکروہ قرار دیا ہے جیسے طہ، یسین، حم، وغیرہ۔
            عوام میں جو یہ بات مشہور ہے کہ طہ اور یسین نبی e کے دو نام ہیں تو یہ بات قطعاً درست نہیں ہے جیسا کہ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اس کی صراحت کی ہے۔
حرام یا مکروہ نام والا کیا کرے؟
            اگر کسی کا نام حرام یا مکروہ ہے تو وہ اسے بدل کر مستحب یا جائز نام رکھ لے۔ چنانچہ سنن ترمذی میں عائشہ r کی حدیث ہے کہ نبی کریم e برے نام بدل کر اچھے نام رکھ دیا کرتے تھے۔ نبی e کے تبدیل کئے ناموں کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہےکہ آپ پرانا نام بدل کر ایسا نیا نام رکھتے تھے جو بولنے میں پرانے سے قریب ہوتا تھا، جیسے شہاب کو آپ نے ہشام سے بدل دیا، جثامہ کو حسانہ سے بدل دیا ، وغیرہ۔ ایسے ہی ہم کو بھی عبدالنبی کو عبد الغنی سے اور عبدالرسول کو عبدالغفور سے اور عبد الکاظم کو عبد القادر سے بدلنا چاہئے۔
            بہرکیف حرام اور مکروہ ناموں کو حلال، جائز اور مستحب ناموں سے بدل دینا چاہئے۔ واللہ أعلم
مستحب اور جائزنام:
            یہ بات گذرچکی ہے کہ حرام اور مکروہ ناموں کے سوا تمام نام جائز اور مباح ہیں، لیکن کچھ ناموں کو دوسرے ناموں پر ترجیحی حیثیت حاصل ہے، لہٰذا آیئے دیکھتے ہیں کہ شریعت کی نظر میں کس طرح کے نام مستحب اور قابل تعریف ہیں اور کس طرح کے نام جائز اور مباح ہیں۔ اور کس کس طرح کے ناموں کو کون کون سی حیثیت حاصل ہے؟؟۔
عبداللہ اور عبدالرحمٰن یہ دو نام ایسے ہیں جو اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ عبداللہ بن عمر t سے صحیح مسلم میں یہ حدیث مروی ہے کہ رسول اللہ e نے ارشاد فرمایا: إِنَّ أَحَبَّ أَسْمَائِكُمْ إِلَى اللَّهِ عَبْدُ اللَّهِ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ۔
            اللہ کے تمام اسمائے حسنیٰ میں اللہ اور رحمٰن کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ قرآن مجید کے اندر عبودیت کی نسبت انھیں دونوں ناموں کے ساتھ کی گئی ہے۔ ارشاد ہے: ﭽ ﮀ  ﮁ  ﮂ  ﮃ  ﮄ   ﮅ  ﮆ         ﮇ  ﮈ  ﮉ     ﮊ   الجن: ١٩ (اور جب اللہ کا بندہ اس کی عبادت کے لئے کھڑا ہوا تو قریب تھا کہ وہ بھیڑ کی بھیڑ بن کر اس پر پل پڑیں۔) نیز ارشاد ہے: ﮋ ﮱ  ﯓ   ﯔ  ﯕ  ﯖ   ﯗ              ﯘ   الفرقان: ٦٣ (رحمٰن کے [سچے] بندے وہ ہیں جو زمین میں فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں)۔نیز اللہ تعالی نے قرآن مجید میں ان دونوں ناموں کو صراحت کے ساتھ اکٹھا ذکر کرنے کے بعد بقیہ تمام اسمائے حسنیٰ کی طرف اشارہ پر اکتفا کیا ہے۔ ارشاد ہے: ﮋ ﮊ  ﮋ   ﮌ  ﮍ    ﮎ  ﮏﮐ  ﮑ  ﮒ  ﮓ  ﮔ   ﮕ  ﮖ ﮊ الإسراء: ١١٠ (کہہ دیجئے کہ اللہ کو اللہ کہہ کر پکارو یا رحمٰن کہہ کر،جس نام سے بھی پکارو اس کے تو بہت سے پیارے نام ہیں)۔
            صحابہ کے یہاں عبداللہ اس قدر محبوب نام تھا کہ آج آپ تاریخ صحابہ اٹھا کے دیکھئے تو تقریباً تین سو صحابۂ کرام ایسے ملتے ہیں جن کانام عبداللہ تھا۔ ہجرت کے بعد مدینہ میں مہاجر مسلمانوں کو کچھ دنوں تک اولاد نہیں ہوئی تو یہودیوں نے یہ مشہور کردیا کہ ہم نے مسلمانوں پر جادو کردیا ہے اس لئے مہاجر مسلمانوں کو اولاد نہیں ہوسکتی، لیکن چند دنوں کے بعد ہی زبیر t کے گھر میں ایک صحت مند اور خوبصورت بیٹا پیدا ہوا جس کی ولادت سے یہودیوں کی ناک مٹی میں مل گئی اور ان کی پھیلائی ہوئی پرفریب افواہ کا بھی پردہ چاک ہوگیا، زبیر t نے اپنے اس مبارک فرزند کا نام عبداللہ رکھا۔
            نبی e نے اپنے تین صاحبزادوں میں سے ایک کا نام عبداللہ رکھا۔ نیز اپنے سگے چچا عباس t کے بیٹے کا نام بھی آپ نے عبداللہ رکھا۔ بہرکیف عبداللہ اور عبدالرحمن اللہ کے نزدیک سب سے پیارے نام ہیں۔
            عبداللہ اور عبدالرحمن کے بعد وہ نام مستحب ہیں جو اللہ کے ناموں کے ساتھ عبد لگاکر بنائے گئے ہوں مثلاً عبدالعزیز، عبدالملک، عبدالرحیم وغیرہ۔
            نبیوں اور رسولوں کے نام پر اولاد کا نام رکھنا بھی مستحب ہے۔ چنانچہ نبی e نے اپنے تین صاحبزادوں میں سے ایک کا نام اللہ کے اولوالعزم پیغمبر اور خلیل ابراہیم علیہ السلام کے نام پر ابراہیم رکھا تھا۔ ایسے ہی عبداللہ بن سلام t کو جب اللہ نے بیٹا دیا تو نبی کریم e نے یوسف علیہ السلام کے نام پر یوسف رکھا۔
            نبیوں کے ناموں میں سب سے افضل نام وہ ہے جو سب سے افضل نبی کا ہے یعنی محمد اور احمد۔ البتہ یہ بات یاد رہے کہ محمد اور احمد نام رکھنے کی فضیلت میں جتنی احادیث بیان کی جاتی ہیں ایک بھی صحیح اور قابل قبول نہیں ہیں۔ مثلاً یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ احمد اور محمد نام کا شخص جہنم میں داخل نہیں ہوگا، یا یہ روایت کہ احمد ومحمد نام کا آدمی بلا حساب وکتاب جنت میں جائے گا، یا یہ روایت کہ جس نے اپنے بیٹے کا نام محمد رکھا وہ جنت میں نبی e کے ساتھ ہوگا، یا یہ روایت کہ جس کی بیوی امید سے ہو یعنی پیٹ سے ہو اور وہ نیت کرلے کہ محمد نام رکھے گا تو بیٹا پیدا ہوگا۔ مذکورہ روایات اور اس قسم کی ساری روایات جو بھی محمد اور احمد نام رکھنے کی فضیلت میں بیان کی جاتی ہیں ایک بھی صحیح، ثابت ، درست اور مقبول نہیں ہے۔
خلفائے راشدین، صحابۂ کرام اور سلف صالحین کے ناموں پر بھی نام رکھنا بہتر ہے۔ چنانچہ سلف ایسا کرتے رہے ہیں۔ صحابہ میں سے زبیر t نے اپنے نو بیٹوں کے نام بدر کے شہیدوں کے نام پر رکھے۔ صحابہ کے بعد کے ادوار میں بھی مسلمانوں میں یہ بات رائج اور معروف رہی ہے کہ وہ اپنی اولاد کے نام صحابۂ کرام، خلفائے راشدین نیز نبی e کی بیویوں، بیٹوں بیٹیوں اور نواسوں ]  کے ناموں پر رکھتے ہیں۔
            مذکورہ ناموں کے علاوہ ہر وہ نام رکھا جاسکتا ہے جو حرمت اور کراہت سے خالی ہو۔ لہٰذا نام رکھنے سے پہلے ہمیں غوروفکر کرلینا چاہئے نیز متعدد علماء سے پوچھ کر اطمینان کرلینا چاہئے۔ واللہ الموفق


جانوروں کا نام کیسا رکھیں؟
            یہ نہایت افسوسناک بات ہے کہ یورپی ممالک کی پیروی میں بہت سارے مسلمان بگٹٹ دوڑ رہے ہیں، جیسے یورپی کافر کتے یا دیگر جانور پالتے ہیں، ان سے دوستی کرتے ہیں ، ان کے انسانوں جیسے نام رکھتے ہیں، ان کے لئے ایسا عیش وآرام مہیا کرتے ہیں جس کے لئے بہت سارے انسان ترستے ہیں، ایسا بہت سارے مسلمان بھی کرنے لگ گئے ہیں۔
            شرعی نقطۂ نظر سے مسئلہ بہت واضح ہے۔ جانوروں کو بلاوجہ تکلیف پہنچانا، ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ ڈالنا، انھیں بلاوجہ قید رکھنااور کھانا پانی نہ دینا، یہ سب حرام ہے۔ بھوکے پیاسے جانوروں کے کھانے پینے کا انتظام کردینا شریعت کی نظر میں کارثواب اور جنت میں داخلہ کا سبب ہے، کسی کتے کو حقارت آمیز انداز سے کہنا، تو کتا تیراباپ کتا تیرا پورا خاندان کتا، یا کسی گدہے کو تحقیر سے کہنا ، تو گدہا، تیرا باپ گدہا، تیرا پورا خاندان گدہا ایک ناجائز طریقہ ہے۔ اگرچہ بات اپنے آپ میں برحق ہے لیکن تحقیر آمیز رویہ درست نہیں ہے۔
            ان سب کے باوجود حیوان حیوان ہے اور انسان انسان، انسان کا مرتبہ حیوان سے بہت بلند ہے، انسان کو اللہ تعالیٰ نے عزت دی ہے، ارشاد ہے:ﮋ ﮏ  ﮐ  ﮑ  ﮒ   الإسراء:٧٠  لہٰذا کسی حیوان کاعام  آدمیوں جیسا نام رکھنا بھی جائز نہیں  چہ جائیکہ انھیں معزز ومکرم انسانوں کا نام دیا جائے، اگر کسی جانور کا نام کسی بندۂ صالح کے نام پر یا کسی امام یا محدث کے نام پر  یا کسی صحابی یا نبی ورسول وغیرہ کے نام پر رکھا جائے تو سخت حرام ہوگا اور اگر ناپاک جانوروں کے نام اس طرح رکھے جائیں تو حرمت شدید ترین ہوجائے گی۔
            مختصر یہ ہے کہ جانوروں کو آدمیوں کا نام دینا دو وجہ سے حرام ہے: (۱) اس سے انسانی عزت وشرافت اور حرمت پامال ہوتی ہے۔ (۲) اس میں کافروں کی مشابہت ہے کیونکہ مسلمانوں کی پوری تاریخ اس طرح کی نازیبا اور غیر معقول حرکت سے خالی ہے۔
            البتہ جہاں تک جانوروں کا نام رکھنے کا مسئلہ ہے تو ان کا نام رکھنا جائز ہے بشرطیکہ جانوروں جیسا ہی ان کا نام ہو، جیسا کہ نبی e کی اونٹنی کا نام قصواء اور عضباءاور جدعاء حدیث میں آیا ہے۔ اس کا معنیٰ ہوتا ہے ایسا مادہ جانور جس کا کان کٹا ہوا ہویا ناک کٹی ہوئی ہویا سینگ ٹوٹی ہوئی ہو، سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ یہ مختلف نام تھے جس سے نبی e کی اونٹنی کو جانا جاتا تھا ورنہ درحقیقت اس طرح کا کوئی عیب آپ e کی اونٹنی میں نہیں تھا۔ اسی طرح نبی e کے خچر کا نام دلدل تھا۔ دلدل ایک معروف کیڑا ہے جسے عرب جانتے ہیں۔ ایسے ہی نبی e کے گدہے کا نام عفیر (مٹمیلا رنگ کا) یا یعفور تھا۔ یعفور کے معنی ہرن کے ہوتے ہیں، گدہا ایک سست رفتار جانور ہےلہٰذا نیک فال کے طور پر ہرن اس کا نام رکھ دیا گیا، واضح رہے کہ نیک فال لینا جائز ہے جب کہ بدفال لینا حرام ہے۔ ہرن کا نام دینے کی دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہےکہ یہ گدہا دوسرے گدہوں کے مقابلہ میں تیز رفتار تھا، لہٰذا اس کی رفتار کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی تشبیہ ہرن سے دے دی گئی۔ واللہ أعلم۔

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق