الأحد، 21 أبريل 2013

راہ فلاح




   طريق الفلاح

راہ فلاح


اعداد:
عبدالہادی عبدالخالق مدنی
کاشانۂ خلیق، اٹوا بازار ،سدھارتھ نگر ،یوپی
داعی احساء اسلامک سینٹر ،سعودی عرب

کمپیوٹر کتابت: محمد ابراہیم زین الدین مقدّم 

 

بسم اﷲ الرحمن الرحیم
مقدمہ (طبع ثانی)
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله , أما بعد:
                یہ میرے عہد طالب علمی سنہ ۱۹۸۷ء کی بات ہے، میں جامعہ محمدیہ منصورہ مالیگاؤں مہاراشٹر میں زیر تعلیم تھا،ایک صاحب نے طلبہ کی ایک انجمن قائم کی اور اس انجمن کی جانب سے ایک کتابچہ کی اشاعت کی خواہش ظاہر کی ، ناچیز اللہ کے فضل سے کچھ لکھ لیا کرتا تھا اور کئی مضامین مختلف مجلات میں چھپ چکے تھے، چنانچہ اللہ سے مدد مانگ کر میں نے یہ مختصر کتابچہ ترتیب دیا، آنجناب نے اسے شائع کرکے مفت تقسیم کیا، اور اللہ کے بہت سے بندوں نے اس سے فائدہ اٹھایا، اللہ انھیں جزائے خیر عطا فرمائے۔
                آج جب کہ اس کی پہلی اشاعت پر بیسیوں سال گذر چکے ہیں، دوبارہ اس کی اشاعت عمل میں لائی جارہی ہے، بعض معمولی ناگزیر تبدیلیاں کی گئی ہیں، ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالی اس کتابچہ کو اپنے مؤلف وناشر اور قاری ہرایک کے لئے مفید بنائے۔ آمین

دعاگو
عبدالہادی عبدالخالق مدنی
کاشانۂ خلیق، اٹوا بازار ،سدھارتھ نگر ،یوپی
داعی احساء اسلامک سینٹر ،سعودی عرب
۱۰/فروری ۲۰۱۱ء
 









بسم ا ﷲ ا لرحمن الرحیم
کائنات ایک کھلی کتاب 
      حق کی معرفت اور اس کی قبولیت کے لئے ا ﷲ رب العالمین نے اپنی اس طویل و عریض کائنات میں بہت ساری نشانیاں رکھ دی ہیں, اور بندے کی ہدایت کے لئے اس نے بہت سارے انتظامات کر رکھے ہیں ۔ دیکھنے کے لئے آنکھ  ، سننے کے لئے کان اور سوچنے کے لئے دل و دماغ عطافرمایا ہے۔  ہر دن وہ بہت سارے واقعات و حوادث رونما فرما کر اپنے بندوں کو جھنجھوڑتا ہے, اور اپنی عطا کردہ دانائی و بینائی کو استعمال کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ ا ﷲ تعالیٰ اپنے کلام میں کائنات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:  ﴿تَبْصِرَةً وَذِكْرَى لِكُلِّ عَبْدٍ مُّنِيبٍ ( ق: ٨ ) (یہ  چشم بیناکی بینائی کے لئے اور اللہ کی طرف جھکنے والے بندوں کی نصیحت کے لئے ہے)۔
یہ عظیم کائنات اور اس میں موجود ساری مخلوقات جہاں انسانوں کے لئے اپنے اندر بہت سارا سامان عیش و نعمت رکھتی ہے ۔ وہیں پر ہر صاحب بصیرت کے لئے سامان ذکر و نصیحت بھی رکھتی ہے ۔ صاحب عقل و دانش کی نگاہ میں سبز درختوں کا ایک ایک پتہ معرفت کردگار کا دفتر ہے۔ اسی لئے خالق کائنات نے اپنے کلام میں باربار اپنے بندوں کی توجہ اس جانب مبذول کرائی ہے, اور کائنات میں فکر وتدبر کی دعوت دی ہے, اور حقیقت یہ ہے کہ جو کائنات کو بصیرت کی نگاہوں سے دیکھتا ہے وہ بلاشبہ صراط مستقیم کی ہدایت پا جاتا ہے۔
مذہب کی ضرورت
      مذہب کو چھوڑ کر الحاد اور لا مذہبیت اپنانے سے انسان کو ہمیشہ دنیا کے طویل اور تاریک صحرامیں بھٹکنے کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔ اس کو ایسے سوالات در پیش ہوں گے جن کا وہ جواب نہیں دے سکے گا۔ حا لانکہ ان سوالات کو اتنی آسانی کے ساتھ ٹالا نہیں جا سکتا ۔ انھیں کے جواب پر زندگی کی راہیں متعین کرنی ہیں, اور مستقبل کا سارا انحصار انھیں کے جوابوں پر ہے۔ اس کے ذہن میں یہ سارے سوالات گردش کرتے رہیں گے کہ وہ اس دنیا میں کیوں پیدا ہوا ؟  یہ کائنات کدھر سے آئی ؟ اس کا موجد اور خالق کون ہے؟ اس کا اور ہمارا تعلق کیا ہے ؟ کیا ہماری طرح کوئی اور بھی مخلوق ہے جو ہماری نگاہوں سے اوجھل ہے؟ اس مخلوق کا کام کیا ہے ؟  کیا صرف یہی ایک دنیا ہے یا کوئی اور بھی دنیا ہے جس تک ہماری نگاہیں پہنچنے سے قاصر ہیں؟  کیا ہماری یہی زندگی پہلی اور آخری زندگی ہے یا اس کے بعد بھی کوئی زندگی ہے ؟  اور اگر ہے تو اس میں کیا ہوگا ؟ یہ اور اس طرح کے بہت سارے سوالات مذہب سے دور انسان کے ذہن میں بار بار سرخ سوالیہ نشان بن کر ابھرتے رہتے ہیں, لیکن وہ انھیں دبادیا کرتا ہے, حالانکہ ان سوالات کو دبانے سے مسئلہ حل ہو جانے والا نہیں ہے بلکہ اور بڑھ جانے والا ہے, اور فکر و غم کے سمندر میں ڈوبادینے والا ہے ۔
موجودہ مذاہب
      پھر جب مذکورہ سوالات کا جواب تلاش کرنے کے لئے کوئی اٹھتا ہے تو اسے ان کا جواب مذہب میں ملتا ہے۔لیکن چونکہ یہ عالم رنگ وبو نوع بہ نوع مذاہب کی آماجگاہ ہے۔ اور ہر مذہب کے اپنے الگ الگ عقائد و تصورات اور جدا جدا قوانین و ضوابط ہیں جن پر وہ کار بند ہے, اس لئے یہی وقت حق کے متلاشی کے لئے سب سے کٹھن ہوتا ہے؛ کیونکہ یہ وقت  “انتخاب کا وقت” ہوتا ہے اور یہاں اکثر کے قدم پھسل جایا کرتے ہیں, اور وہ سیدھی اور ٹیڑھی راہ میں تمیز نہیں کر پاتے۔اس وقت اللہ کی عطا کردہ سننے ، دیکھنے اور سمجھنے کی قوت کو صحیح طور پر کام میں لانا ہوتا ہے؛ کیونکہ یہی وہ ابتدائی منزل ہے جہاں بھٹک جانے کے بعد راستہ ملنا دشوار ہے۔
“حق ہمیشہ ایک ہوتا ہے جب کہ باطل کی کوئی گنتی نہیں” یہ ایک حقیقت ہے, لیکن اس سے بھی بڑی اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ حق کی راہیں پرخار ہیں, جبکہ باطل کی راہ پر پھولوں کی سیج بچھی ہوئی ہے ۔ حق کی راہ میں قربانیاں دینی ہوگی, جب کہ باطل کی راہ میں آرام ہی آرام ہے ۔ حق کا ساتھ دینے سے ساری دنیا دشمنی پر کمر بستہ ہو جائے گی, جب کہ باطل کا ساتھ دینے سے ایسا کوئی خطرہ نہیں۔ حق پرستی میں قدم قدم پر ناگوار خاطر حادثات ہوں گے، خواہشات نفس کو دبا نا اور کچلنا ہو گا, جب کہ باطل میں نفس کی ہر خواہش پوری ہوگی, اور وہاں کوئی پر سش کرنے والا نہ ہوگا۔
ان ساری باتوں کے خیال میں گذرنے سے حق کی جانب اٹھا ہوا قدم یک لخت رک جاتا ہے, پھر حق کا ساتھی وہی بن پاتا ہے جو ان سارے مصائب کے لئے اپنے آپ کو تیار کرلے, اور جس کے لئے ا ﷲ تعالیٰ توفیق ارزانی فرمائے۔
وقت کے موجودہ مذاہب میں اسلام کے سوا کوئی مذہب حق اور راستی پر نہیں ہے ۔ کیونکہ اس وقت اس دنیائے آب و گل میں جتنے بھی مذاہب اپنا وجود رکھتے ہیں اپنی اصلی صورت میں باقی نہیں رہے ۔ تاریخی حیثیت سے غیر مستند اور ناقابل اعتبار ہیں ۔ ان کی ہدایت کے سر چشمے یعنی ان کے رسول اور پیغامبر کی باتیں مٹ چکی ہیں, اور اگر کچھ موجود ہیں تو ان میں روشنی سے زیادہ تاریکی ہے؛ کیونکہ اس میں انسانی ہاتھوں نے بہت کچھ آمیزش کردی ہے ۔ اس کے بر خلاف اسلام کو تاریخ انسانی میں ایک بلند وبالا مقام حاصل ہے ۔ اسے تاریخی طور پر مستند اور محفوظ باقی رہنے کا رحمانی سرٹیفکیٹ مل چکا ہے ۔ یہ وہ خالص اور صاف ستھرا مذہب ہے جو ہر قسم کی آمیزش اور تحریف و تغیر سے پاک ہے۔
نجات کا ذریعہ صرف اسلام
      آدم سے فخر بنی آدم اور ابوالبشر سے سید البشر تک سارے انبیاء کا دین اسلام تھا, جو آج بھی اپنی محفوظ شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ یہی ہدایت کا واحد ذریعہ ہے, اور یہی فقط نجات کا وسیلہ ہے ۔ اسی کے اندر وہ نتھرا اور تروتازہ عقیدہ پایا جاتا ہے جو اپنے مضبوط اور پختہ دلائل و براہین کے ذریعے قلب و جگر کو سکون بخشتا، ذہن و دماغ کو قانع کرتا، ایمان و یقین کی روشنی سے دل کو منور کرتا, اور نورو حیات سے سینہ معمور کردیتا ہے ۔ اسی کے اندر وہ صلاحیت ہے کہ یہ پورے عالم انسانی کو ایک لڑی میں پروکر انھیں ایک قبیلہ ، ایک خاندان اور ایک اللہ کا بندہ بنا کر, ان میں راست بازی ، عدل وانصاف ، صدق و سچائی ، مساوات و برابری پیدا کرے۔ اور اونچ نیچ کی زنجیروں کو کاٹ کر، چھوت چھات کے بندھنوں سے آزاد کر کے انھیں پوری حریت اور آزادی بخشے۔
   اسلامی شریعت
اسلام کی حقانیت اور صداقت کا علم ہونے کے بعد جب کوئی حق پسند اس کی جانب بڑھتا ہے تو اسے اسلامی شریعت کے علم کی ضرورت پڑتی ہے؛ کیونکہ اسی کو اپنا کر اسے زندگی کی راہ طے کرنی ہے، رب کی رضا اور دنیا وآخرت کی سعادت سے ہمکنار ہونا ہے, اور چونکہ رضائے الٰہی کا حصول اعمال کی قبولیت پر معلق ہے لہٰذا یاد رہے کہ اعمال کی قبولیت کی دو شرطیں ہیں ۔ (١)خلوص نیت (٢) توافق شریعت۔
یہ بھی ذہن نشین رہے کہ علم شریعت کتاب و سنت کے اندر ہے ۔ رب کا قرآن اور محمد e کا فرمان ، یہی دونوں اسلامی شریعت کے بنیادی مآخذ ہیں؛ لہٰذا انھیں دونوں پر عمل فوز و فلاح کی ضمانت ہے, اور اس صراط مستقیم اور روشن شاہراہ سے جو کتراتا ہے اس کے حصے میں خسارے کے سوا کچھ نہیں۔
                         عقیدہ
انسانی زندگی کی عمارت عقیدہ اور عمل دو بنیادوں پر تعمیر ہوتی ہے ۔ ہر کوئی کسی نہ کسی خاص عقیدے کے ساتھ جیتا ہے, اور اسی عقیدے کے رنگ میں اس کی زندگی رنگی ہوئی ہو تی ہے؛ کیونکہ عقیدہ ہی وہ داخلی شئے ہے عمل جس کا خارجی اظہار ہے ۔ اسی وجہ سے یہ  نا ممکن ہے کہ دنیا کا کوئی شخص بے عقیدہ ہو البتہ بد عقیدہ ہونا ممکن ہے۔
عقیدہ کسی ان دیکھی چیز پر دیکھی ہوئی چیز کی طرح یقین کرنے کا اور شک و ریب کی گنجائش چھوڑے بغیر غیب کو مشاہدہ بنا لینے کا نام ہے, اور ان دو ٹوک اور بے لاگ فیصلوں کا نام ہے جنھیں انسان اپنی عقل  سے سوچ کر, کانوں سے سن کر, اور قانون الٰہی کے ذریعے پرکھ کر صادر کرے, اور وہ عقل و نقل کی کسوٹی پر پورا اترے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان جب اس طرح کا فیصلہ برحق اور درست سمجھ کر اپنے دل و دماغ میں ٹھان لیتا ہے تو کوئی طاقت اسے اس فیصلے سے ہٹا نہیں سکتی ہے۔
اسلام کے اندر چھ٦ چیزوں (اﷲ، فرشتوں، کتابوں، رسولوں، یوم آخرت اور تقدیر)  پر عقیدہ رکھنا اور  ایمان لانا لازم ہے۔   
اﷲ :  ا ﷲ پر نہ صرف اس طرح ایمان لانا ضرورری ہے کہ اس کا وجود ہے بلکہ اس کی توحید کا اقرار بھی کرنا ہے ۔ اس کی الوہیت ، ربوبیت اور اسماء و صفات میں اسے یکتا و یگانہ سمجھنا ہے۔ اس کی بے نیازی کا یقین کرنا ہے, اور ماننا ہے کہ اس نے نہ کسی کو جنا ہے اور نہ ہی وہ جنا گیا ہے, اور نہ کوئی اس کا شریک اور ہمسر ہے ۔ وہ سب کچھ دیکھتا اور سنتا ہے، وہ ہر انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے ۔ ہر چھپی اور ڈھکی چیز کو جانتا ہے۔ اسے ہرحاضر وغائب کا علم ہے ۔ نفع اور نقصان صرف اسی کے قبضے میں ہے ۔ صرف وہی حاجت روا اور مشکل کشا ہے ۔ بھروسہ کے لائق صرف اسی کی ذات ہے۔ نہ اسے نیند آتی ہے نہ اونگھ ۔ وہ زندہ ہے اور دوسروں کو قائم رکھنے والا ہے ۔ زمین و آسمان اور پوری کائنات اسی کے قبضے میں ہے۔ وہ جب چاہے، جو چاہے، کر سکتا ہے ۔ وہی پیدا کرنے والا، وہی امن دینے والا ، وہی نگہبان ہے۔ اس کا مثل اور نظیر کوئی نہیں ۔ وہ ہر طرح کے شرکاء سے پاک اور منزہ ہے ۔ لائق عبادت صرف وہی ہے، اس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں۔
فرشتے  :  یہ ا ﷲ کی نورانی مخلوق ہیں ۔ یہ نہ کھاتے ہیں اور نہ پیتے ہیں ۔ ہمیشہ اللہ کی اطاعت میں مصروف رہتے ہیں ۔ وہ کبھی ا ﷲ کی نافرمانی نہیں کرتے ۔ ان کی اپنی کوئی طاقت نہیں, بلکہ وہ وہی کچھ کرسکتے ہیں جس کا ا ﷲ نے انھیں حکم دیا ہے۔ ہمیں ان کے وجود پر اور ان کے اعمال پر جو کتاب و سنت سے ثابت ہیں ، ایمان لانا واجب ہے ۔
کتابیں  :  بندۂ مومن کے لئے اس پر بھی عقیدہ رکھنا ضروری ہے کہ ا ﷲ تعالیٰ نے بندوں کی ہدایت کے لئے مختلف زمانوں میں اپنے رسول بھیجے, اور ان پر اپنی کتابیں نازل فرمائیں ۔ جن میں سے چار مشہور کتابیں یہ ہیں: 
(١) توریت ، جو موسیٰ علیہ السلام کو دی گئی۔ 
(٢) زبور ، جو داؤد علیہ السلام کو عطا کی گئی۔ 
(٣) انجیل ، جو عیسیٰ علیہ السلام پر اتاری گئی ۔
(٤) قرآن مجید ،  جو ہمارے نبی محمد مصطفے ٰ  صلی ا ﷲ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔ اور یہی آسمانی کتابوں میں سب سے آخری کتاب ہے ۔ ان کے علاوہ دوسری چھوٹی اور بڑی کتابیں بھی ہیں, جن میں بعض کے نام ہمیں معلوم ہیں اور بہتوں کے معلوم نہیں ہیں, لیکن اجمالی طور پر تمام آسمانی کتابوں پر ایمان لانا ضروری ہے۔
کیا ہم سابقہ کتابوں پر ایمان کے ساتھ ان کی تعلیمات پر عمل کے بھی مکلف ہیں؟  ہرگز نہیں، کیونکہ وہ کتابیں قرآن کے ذریعہ منسوخ ہو چکی ہیں, اور دوسرے یہ کہ ان میں تحریف و تغیر ہو چکا ہے, اور اس میں انسانی ہاتھوں نے اپنی طرف سے بہت کچھ آمیزش کردی ہے, اور نقص و اضافہ کردیا ہے ۔ اس وقت ساری آسمانی کتابوں میں معتبر ، مستند اور محفوظ صرف قرآن کریم ہے ۔ صرف اسی کی تعلیمات پر عمل کے ہم مکلف ہیں, اور دوسری کتابوں میں سے جن باتوں کی تصدیق قرآن سے ہو اسی کو ہم تسلیم کریں گے۔
رسول  :  ا ﷲتعالیٰ نے ہر زمانے میں ہر قوم و ملت کے اندر اپنا ایک رسول بھیجا جو انھیں ا ﷲ کی طرف دعوت دے اور عذاب الٰہی سے ڈرائے ۔  ﴿وَإِن مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ (فاطر :٢٤) (ہرامت میں کوئی نہ کوئی ڈرانے والا آیا ہے )۔ جن میں سب سے پہلے آدم علیہ السلام اور سب سے آخر ی محمد مصطفیٰ صلی ا ﷲ علیہ و سلم ہیں ۔  ا ﷲ کے سارے نبیوں اور رسولوں نے اپنا اپنا پیغام اپنی امت کو پہنچادیا ۔  قرآن وحدیث میں کچھ انبیاء و رسل کا نام ملتا ہے اور کچھ کا نہیں ۔ ہمیں مجموعی طور پر اس طرح ایمان لانا ہے کہ جن کا نام ہمیں معلوم ہے اور جن کا نام ہمیں معلوم نہیں  ہم ان تمام انبیاء پر ایمان لاتے ہیں جو ہر زمانے اور ہر قوم میں ا ﷲ کی طرف سے ا ﷲ کے بندوں کو رشد و ہدایت کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے مبعوث کئے گئے ۔ 
 یوم آخرت   :  موجود ہ دنیا ،  امتحان کی دنیا ہے۔ اس کے بعد ایک اور دنیا مالک یوم الدین نے پیدا کیا ہے جس کا نام آخرت ہے۔ اس آخرت کی دنیا میں موجود ہ دنیا کے ہر انسان کو اپنے کئے کا پھل پانا ہے۔    ﴿فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ * وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ (زلزال/٧۔ ٨)  (جو ذرہ برابر نیکی کرے گا وہ اسے وہاں دیکھ لے گا, اور جو ذرہ برابر بدی کرے گا وہ بھی اسے وہاں دیکھ لے گا )۔ بلا شک و شبہ وہ دنیا قائم ہونے والی ہے ۔ مرنے کے بعد سب کو زندہ کیا جائے گا, اور ان سے ان کے کئے کا حساب لیا جائے گا ۔ مؤمن جنت میں جائیں گے اور کافر و مشرک جہنم کے ايندھن بنیں گے ۔
یوم آخرت پر ہر بندۂ مومن کو عقیدہ اور ایمان رکھنا لازمی ہے؛ کیونکہ اس پر ایمان لائے بغیر نہ ایمان کامل ہوتا ہے اور نہ ہی اصلاح اور استقامت نصیب ہوتی ہے ۔
 تقدیر    :  ا ﷲ تعالیٰ نے تخلیق سے پہلے اپنے ازلی علم کے ذریعہ کل کائنات اور جملہ خلائق کا پختہ ، محکم ، تفصیلی اور جامع اندازہ قائم کیا اور تمام حوادث وواقعات کو ان کی کمیت ، کیفیت ، شکل و صورت  ، وقت و جگہ ، اسباب ومقدرات اور ان کے نتائج کے سا تھ لوح محفوظ میں درج کر دیا ۔ چنانچہ دنیا میں آج جو کچھ ہو رہا ہے اسی علم الہیٰ کے اندازے اور حساب کے مطابق ہے, اور جو کچھ ہو گا اسی کے مطابق ہو گا ۔ اس میں کسی قسم کے خلل و اضطراب ، اصلاح و تبدیلی ، تقدیم و تاخیر ، کمی بیشی اور کسی بھی طرح کے کسی فرق کی کوئی گنجائش اور امکان نہیں ۔ یہی قضاو قدر کاقدرتی نظام ہے جس پر ایمان لائے بغیر اور اس کے اچھے برے مقدرا ت کو راضی برضا ہو کر تسلیم کئے بغیر کسی بندے کا ایمان کامل نہیں ہو سکتا ۔
یہی وہ عقائد ہیں جن پر ایمان ہونے نہ ہونے اور ان پر ایمان کی کمی وزیادتی اور پختگی وناپختگی سے لوگوں کے اعمال مختلف ہو جاتے ہیں, اور ان کے ایمانی درجے بھی۔۔ عقیدۂ توحید کی کمزوری سے انسان شرک کے قریب پہونچ جاتا ہے, اور اس کے نہ ہونے سے شرک میں مبتلا رہتا ہے ۔ عقیدۂ رسالت کی کمزوری سے انسان رسول کے مقام پر کسی امتی کو بٹھا کر اس کی تقلید کرنے لگتا ہے, اور یہ عقیدہ نہ ہونے سے انسان ضلالتوں کی ظلمتوں میں بھٹکتا رہتا ہے۔ اسے کوئی روشنی نہیں ملتی جو اسے راہ حق سے ہمکنار کرے اور منزل مقصود کو پہنچائے ۔عقیدۂ آخرت کی کمزوری سے انسان اعمال میں کوتاہی کرتا اور مرضئ مولیٰ کے حصول میں غفلت برتتا ہے, اور اس کے نہ ہونے سے شتر بے مہار ہو جاتا ہے, من مانی زندگی گذارتا ہے اور دنیا کو ظلم و فساد سے بھر دیتا ہے وغیرہ ۔
اعمال
مذہب اسلام انسان کی پیدائش سے لے کر موت تک کی پوری زندگی کو سراپا عبادت بنا دینا چاہتا ہے؛ کیونکہ عبادت ہی وہ مقصد ہے جس کے لئے ا ﷲ تعالیٰ نے جن و انس کو وجود بخشا ہے، لیکن اسلام کے اندر عبادت ایک وسیع مفہوم کا حامل ہے جس کا احاطہ چند لفظوں میں ممکن نہیں۔ اور اس کا سارا دارومدار اس بات پر ہے کہ انسان اپنے ہر کام اللہ کی مرضی کے مطابق اور اس کی خوشنودگی حاصل کرنے کے لئے انجام دے۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو اس کی ساری زندگی عبادت میں شمار ہوگی۔ تاہم اسلام میں کچھ ایسے اعمال بھی ہیں جو سب سے زیادہ اہمیت اور خصوصیت کے حامل ہیں ۔ شرعی اصطلاح میں انھیں  “ارکان اسلام” کہا  جاتا ہے؛ یعنی اسلام کے ستون جن کے بغیر اسلامی عمارت قائم نہیں رہ سکتی، اور ان کی ادائیگی کے بغیر کوئی مسلمان کامل مسلمان نہیں ہو سکتا ۔ اور یہ کل پانچ ہیں ۔
١)۔  اس بات کی شہادت دینا کہ ا ﷲ کے سوا کوئی معبودبرحق نہیں اور محمد e اﷲ کے رسول ہیں۔ (عقائد کی باتوں پر ایمان لانا ضروری ہے اور ایمان زبانی اقرار ، قلبی تصدیق اور بدنی اعمال کا نام ہے ۔اس لئے تصدیق ویقین کے ساتھ زبانی اقرار بھی ضروری ہے ۔ اس کے بغیر کوئی شخص ظاہر اور باطن کسی بھی حال میں مؤمن نہیں ہو سکتا ۔ )
٢)  ۔ صلاۃ پڑھنا ۔
٣)  زکاة دینا ۔
٤)  رمضان کے صوم رکھنا ۔
٥)  حج ادا کرنا اگر بیت ا ﷲ پہونچنے کی استطاعت اور قدرت ہو۔
ویسے تو مسلمان کا ہر ہر عمل جو وہ ا ﷲ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے انجام دے عبادت ہے؛  لیکن عام طور پر  “عبادات”  کا لفظ بول کر صوم وصلاۃ اور حج وزکاۃ وغیرہ مراد لیا جاتا ہے، پھر عبادات کے بعد معاملات کی منزل آتی ہے ۔ اس کے بارے میں بھی اسلام کے اندر بہت ہی صاف وشفاف اور نتھرے ہوئے احکام موجود ہیں ۔
مسلمانوں کو حلال طریقے سے روزی کمانی چاہئے ۔ خواہ وہ تجارت کے ذریعے ہو یا کسی اور پیشے کے ذریعے ہو ۔ لین دین میں بڑی ہی امانت ودیانت سے کام لینا چاہئے اور اس میں کسی قسم کا غصب اور خیانت ہرگز روا نہیں رکھنا چاہئے ۔ قرض کے معاملے میں قرض لینے والے کو اس کی ادائیگی قبل از وقت کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور قرض دینے والے کو نرمی کاسلوک اور معافی کا برتاؤ کرنا چاہئے ۔ سود اور رشوت سے دور رہنا چاہئے ۔ اور سارے معاملات کو بالکل صفائی سے نباہنا چاہئے۔ ایک دوسرے کے حقوق کا خیال کرتے ہوئے حتی المقدور ان کی ادائیگی کی کوشش کرنی چاہئے ۔ ایک انسان پر اﷲ تعالیٰ کا حق یہ ہے کہ وہ اﷲ کے ساتھ کسی طرح شرک نہ کرے اور خود اس کے اپنے جیسے دوسرے انسانوں کے حقوق بھی اس پر ہیں۔ والدین ، رشتہ دار ، استاد، شاگرد ، بیوی ، شوہر ، اولاد ، یتیم ، چھوٹے ، بڑے ، مہمان، پڑوسی ، فقراء ، مساکین ، خادم ، رفیق سفر، بیمار ، مسلمان ، غیرمسلم، حیوانات ، پیڑ پودے سب کے اپنے اپنے حقوق ہیں ۔ جن کی ادائیگی ایك مسلمان اپنی بساط بھر ضرور کرنے کی جدو جہد کرتا ہے۔ وہ دوسروں کو ستاتا نہیں ۔ ان کی مصیبت پر خوش نہیں ہوتا۔ انھیں ذلیل کرنے کی خواہش نہیں کرتا۔ ان کے بارے میں بد گمانی نہیں رکھتا۔ ان کی غیبت نہیں کرتا۔ ان کی عیب چینی میں نہیں لگتا۔ بڑوں کے ساتھ بے ادبی سے پیش نہیں آتااور چھوٹوں پر ظلم نہیں ڈھاتا بلکہ وہ سب کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہے۔ سب کی خوشی اور غمی میں شریک ہوتا ہے ۔ تعزیت کرتا ہے ۔تسلی دیتا ہے۔ اطمينان دلاتا ہے۔ بڑے کا عزت و احترام کرتا ہے۔ چھوٹوں پر شفقت کی نگاہ رکھتا ہے ۔ سب سے محبت رکھتا ہے ۔ سب سے سلام کرتا ہے ۔ بھلائی کا حکم دیتا اور برائی سے روکتا ہے ۔ نيکیوں پر ابھارتا  اور برائیوں سے دور رکھنے کی کوشش کرتاہے۔ کسی کے سامنے بد زبانی نہیں کرتا۔ گالی نہیں دیتا۔ جھوٹ نہیں بولتا ۔ برے مذاق نہیں کرتا۔ وعدہ خلافی اور عہد شکنی نہیں کرتا۔ کسی کی نقل نہیں اتارتا ۔ کسی کا منہ نہیں چڑھاتا ۔ غصہ سے بچتا ہے اور کبر و غرور سے دور رہتا ہے ۔ تواضع و خاکساری کو اپناتا ہے ۔ وقار و سنجیدگی اور حلم و بردباری سے کام لیتا ہے۔ صفائی اور سادگی کا اہتمام کرتا ہے, اور ہر طرح کے اچھے اخلاق اور اچھی خوبیوں سے مزین ہونا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ احسان کر کے جتاتا نہیں اور تکلیف نہیں دیتا ۔ اپنے پاس جو علم ہوتا ہے وہ دوسروں کو بھی سکھانے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ سب کے لئے خیر خواہانہ اور ہمدردانہ جذبات اپنے دل میں رکھتا ہے ۔ اور وہ یہ سب کچھ اللہ کی رضااور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے کرتا ہے۔ کسی دوسرے سے اس کے اجر کا طالب نہیں ہوتا ۔ ریانمود اور حصول شہرت کے لئے نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی اور دنيوی مقصد اور غرض اس کے مد نظر ہوتی ہے۔
ہمارا فرض
اب ہم مسلمانوں کا فرض یہ ہے کہ دین اسلام کو اپنی زندگی میں پوری طرح اپنائیں، اور اس کی طرف دوسروں کو دعوت دیں؛ کیونکہ اس دين پر کسی خاص گروہ اور خاص قوم کا اجارہ نہیں ہے، بلکہ یہ ساری دنیا کے لئے عام ہے، اور اس دین کو اپنانا ہر انسان کا فطری حق ہے؛ کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے لوگوں کو اسی فطرت پر پیدا فرمایا ہے؛ لیکن وہ اپنے والدین، ماحول اور دوسرے مؤثرات کی بنا پر اس راہ سے مڑ گئے ہیں اور وہ فطرت کچل گئی ہے۔
 “دین کی دعوت” یہ مسلمانوں پر اﷲ کی طرف سے بہت بڑا فريضہ ہے، اور اسی بنا پر اﷲ رب العزت نے اس امت کو  “خیر امت” کے لقب سے نوازاہے؛ کیونکہ یہ امت ایک تو خود ایمان قبول کرتی ہے، اور پھر دوسروں کو ایمان کی طرف دعوت دیتی ہے ۔ برائیوں سے روکتی اور بھلائیوں کا حکم دیتی ہے۔ اس فريضہ کا ہر مسلمان کو احساس ہونا چاہئے اور اپنی استطاعت کے مطابق اس کے ادا کرنے کی بھر پور کوشش کرنی چاہئے؛ ورنہ بروز قیامت جب اس کے بارے میں ہم سے سوال ہوگا تو ہماری زبانیں گنگ ہو جائیں گی، اور اس وقت ہمیں شرمندگی سے دوچار ہونا پڑے گا۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں روزمحشر کی رسوائی سے بچائے ۔ آمین۔
الحمد اﷲ ا لذی  بنعمتہ تتم الصا لحات۔
عبدالہادی علیم بستوی۔                                             ٢٠۔ نومبر ١٩٨٧ء

ليست هناك تعليقات:

إرسال تعليق